کتاب: دبیر احمد کا ذہنی و فکری سفر

کتاب: دبیر احمد کا ذہنی و فکری سفر

مرتب : علیم ہاشمی
سنہ اشاعت : 2023
صفحات : 332
قیمت : 400 روپے
مبصر : فرزانہ پروین

جولائی، 2023 میں علیم ہاشمی کی مرتب کردہ کتاب ”دبیر احمد کا ذہنی و فکری سفر" منظر عام پر آئی، اکتیس مضامین پر مشتمل یہ کتاب اپنا تعارف آپ کرا سکتی ہے، ابتدا ڈاکٹر دبیر احمد کے سوانحی خاکے سے کیا گیا ہے جو تین صفحات پر محیط ہے، اس کے علاوہ چوبیس صفحات کا مقدمہ لکھا گیا ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ پرخلوص اور پاکیزہ ہوتا ہے، ایک اچھے استاد کو اچھا شاگرد ملنا اور ایک اچھے شاگرد کو اچھا استاد ملنا قسمت کی بات ہے  بلکہ ایک اچھے استاد کا ملنا قدرت کے کسی نادر تحفے یا کسی انعام سے کم نہیں ہوتا، میں علیم ہاشمی کو ایک طویل عرصے سے اس لیے جانتی ہوں کہ ہم دونوں ہم جماعت ہوا کرتے تھے اور طالب علمی کا زمانہ ختم ہونے کے بعد سے اب تک الحمدللہ یہ دوستی ہنوز برقرار ہے، علیم ہاشمی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تعلق نبھانا خوب جانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعلق دوستانہ ہو یا استاد شاگرد کا، وہ ہر تعلق کی ڈور کو مضبوطی کے ساتھ تھامے کھڑے نظر آتے ہیں. اس کتاب کے مقدمے میں انھوں نے دبیر احمد کی شخصیت، اخلاق، مزاج، ماضی سے حال تک کے ان کے علمی و ادبی فتوحات، نیز ان کی اب تک کی کتابوں کی تعداد اور ان کی تنقیدی بصیرت کو سلیقے سے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں جتنے بھی مضامین شامل اشاعت ہیں، علیم ہاشمی نے ان مضامین کا بہ غور مطالعہ کرنے کے بعد مضمون نگار کا مختصر خاکہ اور ان کے مضامین سے ایک ایک اقتباس بھی قلم بند کیا ہے تاکہ صاحب مضامین کے اسلوب کا بھی اندازہ ہو سکے جس کی وجہ سے مقدمہ بہت شان دار ہوا ہے۔
مقدمے میں ایک جگہ مرتب لکھتے ہیں کہ ”دبیر صاحب کی کل سولہ علمی و ادبی کتابیں اور 150سے زیادہ مضامین شائع ہو چکے ہیں." لہذا ایک تشنگی رہ گئی کہ مقدمے میں مضمون نگاروں کے خاکے پیش کرنے کے بجائے اگر ڈاکٹر دبیر احمد کی تمام کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا تو قارئین کے علم میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا، لیکن علیم ہاشمی ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ”ممکن ہے کہ بعد میں آنے والی کتابوں میں موصوف کی علمیت کا پورے طور پر احاطہ کیا جا سکے" لہذا ایک امید تو بندھتی ہے کہ آئندہ بھی ”موصوف" کی شخصیت پر بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا۔
میں یہ بتاتی چلوں کہ ظفر اوگانوی، ڈاکٹر دبیر احمد کے استاد تھے۔ ڈاکٹر دبیر احمد کی سولہ کتابوں میں سے چھ کتابیں ظفر اوگانوی پر ہیں اور ان کتابوں میں انھوں نے ظفر اوگانوی اور ان کے ادبی کارناموں کو الگ الگ زاویے سے پیش کیا ہے، کہیں وہ (دبیر احمد) محقق نظر آتے ہیں تو کہیں ناقد، ان کی تنقیدی بصیرت و شعور کا کیا کہنا، علیم ہاشمی کی مذکورہ کتاب میں جہاں ہندستان کی معزز و معتبر شخصیات کے مضامین ہیں وہیں کچھ نو مشق قلم کاروں اور شاگردوں کے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔
پروفیسر منظر اعجاز اپنے مضمون ”مونو گراف پروفیسر ظفر اوگانوی: ایک جائزہ" میں ظفر اوگانوی کے علمی و ادبی خانوادے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دبیر احمد نے اپنے مونو گراف میں ظفر اوگانوی کو بہ حیثیت استاد، افسانہ نگار، محقق، ناقد، مدیر اور شاعر پیش کیا ہے اور ان کی شخصیت پر اختصار و جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
پروفیسر شہزاد انجم کا مضمون ”تہذیبی و ثقافتی شہر کولکاتا اور میرے دوست دبیر احمد" میرے دل کو چھو گیا، ان کا انداز بیاں اور بے ساختگی مجھے بہت پسند آئی. پروفیسر شہزاد انجم نے دبیر احمد سے اپنی قربت، ان کی ہم نشینی میں گزرے اوقات اور اپنی ذات پر دبیر احمد کا اعتماد کچھ اتنی محبت سے پیش کیا ہے کہ مضمون عرصے تک ذہن سے محو نہیں ہو سکتا۔
پروفیسر جمیل اختر محبی نے اپنے مضمون میں مختلف نکات کے ذریعہ دبیر احمد کو بہ حیثیت محقق و ناقد پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر شکیل اختر نے اپنے مضمون ”جمالِ ہم نشیں" میں ڈاکٹر دبیر احمد کا خاکہ خوب صورت اور دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے، ان کے مطابق ۔”دبیر احمد ایک زندہ دل انسان ہیں، ہمارے دہلی کے دفتر میں انھوں نے کئی بار فلک بوس قہقہے لگائے جس کی بازگشت شعبہُ اردو ماہ و انجم نے بھی سنی، وہ اردو کے استاد ہیں ادب و تہذیب سے واقف ہیں، وہ جب گفتگو کرتے ہیں تو الفاظ دیوانہ وار ہونٹوں پر رقص کرنے لگتے ہیں."
کلکتہ کے بزرگ شاعر و ادیب حلیم صابر نے بھی اپنے مضمون کے ذریعہ دبیر احمد کی علمی، ادبی اور تنظیمی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے مضمون سے یہ راز بھی افشا ہوتا ہے کہ دبیر احمد اچھے استاد، ناقد، محقق ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں، انھوں نے کچھ آزاد نظمیں بھی کہی ہیں، گرچہ ان کی تعداد کم ہے پر یہ نظمیں متاثر کن ہیں، حلیم صابر نے مثال کے طورپر ان کی ایک نظم ”چہرہ" پیش کیا ہے۔
”متاعِ فکر و نظر" اور "ظفر اوگانوی بیچ کا ورق کے تناظر میں" پر نسیم عزیزی کے دو مضامین گرچہ کافی طویل ہیں لیکن بصیرت افروز اور معلوماتی ہیں جو یہ احساس دلاتے ہیں کہ انھوں نے ان دونوں کتابوں کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کا مضمون ”دبیر احمد کا اسلوب نقد" دوسرے مضامین سے قدرے مختلف ہے، جس میں انھوں نے دبیر احمد کی مختلف کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے اسلوب کی تعریف کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ”دبیر احمد کا اسلوب ترقی یافتہ اور بے حد منظم ہے۔ ان کے اسلوب میں تازگی اور ندرت بھی ہے، ہمدردانہ خلوص اور قطعیت بھی ہے۔"
تسلیم عارف کا دبیر احمد پر ایک خاکہ اور متاعِ فکر و نظر پر ایک مضمون ہے ۔ ”گلِ سیمیا __دبیر احمد" (خاکہ) میں انھوں نے دبیر احمد سے اپنی تیئیس سالہ رفاقت کو بڑے ہی پر لطف اور خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے، اس خاکے کے اختتام پر وہ دبیر احمد جیسا بننے کی تمنا رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دبیر احمد کو گلِ سیمیا کہتے ہیں۔
ممتاز انور نے بھی اپنے خاکے ”دبستانِ ادب کا آئینہ: دبیر احمد" میں ان کا نقشہ ان کی شخصیت، مزاج، انداز گفتگو نیز ان کی کتابوں پر بھی مختصر تبصرہ کیا ہے۔ وہ ان کے لب و لہجے کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے چہرے کا اتار چڑھاؤ گفتگو کے دوران ایک فلسفی کے لہجے کی یاد دلاتا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر مضامین بھی عمدہ اور پر مغز ہیں، علیم ہاشمی کی کتاب کے آخر میں دو مضامین تاثراتی ہیں، جن میں ایک ناچیز کا مضمون ہے اور دوسرا ساجدہ پروین کا۔ اپنے مضمون کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گی کہ یہ ایک استاد کے تئیں ایک شاگردہ کے جذبات کا اظہار ہے۔ ان سے میری ملاقات اٹھارہ برسوں پر محیط ہے، اس دوران میں نے انھیں جیسا دیکھا، پایا اور سمجھا اسے بے کم و کاست تحریری شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
ساجدہ پروین بھی ڈاکٹر دبیر احمد کی شاگردہ ہیں، جنھوں نے زمانہُ طالب علمی میں دبیر احمد کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کی شخصیت سے متاثر ہوتے ہوئے کئی نکات اس طرح سے پیش کیا ہے جن سے کچھ نئی باتیں سامنے آتی ہیں، اس مضمون میں ساجدہ پروین کا قلم بھی دوسرے قلم کاروں کی طرح متحرک ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک کتاب ہمیں تین شخصیات کے متعلق معلومات فراہم کراتی ہے۔ ایک ظفر اوگانوی، دوسری دبیر احمد اور تیسری شخصیت اس کتاب کے مرتب علیم ہاشمی کی۔ دبیر احمد اپنے استاد ظفر اوگانوی کے اسلوب سے بہت زیادہ متاثر ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف زاویوں سے موصوف نے ظفر اوگانوی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، ممکن ہے کہ علیم ہاشمی بھی انھی راستوں پر چل کر حق شاگردی ادا کرنا چاہتے ہوں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے، کیونکہ استاد پر قلم اٹھاتے وقت غیر جانب دار رہنا مشکل ترین مرحلہ ہوا کرتا ہے، خدا کرے کہ علیم ہاشمی اس سلسلے میں غیر جانب دار رہیں تو آنے والے دنوں میں ان کی شخصیت بھی دبیر احمد کی طرح مستحکم ہو سکتی ہے۔
Farzana Parveen
Assistant Teacher
The Quraish Institute
5/1, Kimber Street
Kolkata – 700017
Mobile – 7003222679
Email – fparveen150@gmail.com
***
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش:جاوید نہال حشمی کی افسانچہ نگاری کا فنی اختصاص

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے