آشوب عصر کا شعری بیانیہ

آشوب عصر کا شعری بیانیہ

(تاج الدین اشعر رام نگری کی شاعری پر مختصر نوٹ)

حقانی القاسمی

سرشتۂ تعلیم پنجاب کے ڈائریکٹر جناب لیفٹیننٹ کرنل ہالرائڈ صاحب بہادرنہ ہوتے اور ان کے ایما پر خواجہ الطاف حسین حالی نے اردو شاعری میں مقصدیت کو اولیت نہ دی ہوتی۔ تخیل، مطالعۂ کائنات اور تفحص الفاظ پر زور نہ دیا ہوتا تو آج بھی اردو میں اس طرح کی شاعری ہورہی ہوتی۔
خواہش پری کی ہے نہ تمنا ہے حور کی
آنکھوں کے سامنے رہے صورت حضور کی
رات کو جب تیری صورت یاد آتی ہے صنم
نیند کس کافر کو ساری رات آتی ہے صنم
عاشق ہیں منتظر یہ تمہارے وصال کے
جاتے کہاں ہو ایک ہی بوسہ پہ ٹال کے
نہ بوسہ دینا آتا ہے نہ دل بہلانا آتا ہے
تجھے تو او بت کافر فقط ترسانا آتا ہے
اردو شاعری میں حسن و عشق اور زلف و رخسار کا ہی ذکر ہوتا رہتا۔ شاعروں کے اعصاب پر عورت ہی سوار رہتی اور شاعری کی ثقافتی مرکزیت معدوم ہوچکی ہوتی۔ مگر کرنل ہالرائیڈ کی وجہ سے اردو شاعری کو ایک نیا رخ ملا۔ انھوں نے بیداریِ فکر و شعور سے اردو شاعری کا رشتہ جوڑ دیا۔
تاج الدین اشعر کا شعری منہج بھی حالی کی مقصدیت سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی شاعری ’لفظوں کا مجموعہ‘ یا اظہار ذات کا آرٹ نہیں ہے۔ بلکہ ان کی شاعری بیداری کا ایک پیغام ہے۔ اقبال کی زبان میں اسے نغمہ جبریل یا بانگ اسرافیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ روح کو خوابیدہ کرنے والی نہیں بلکہ بیدار اور برانگیختہ کرنے والی شاعری ہے۔
تاج الدین اشعر کی شاعری کا ایک نظریاتی کردار ہے۔ تمجید انسانیت اور احترام آدمیت ان کی شاعری کا حاوی بیانیہ ہے۔ انھوں نے اپنے داخلی تموجات اور باطنی اضطرابات کو شاعری کی صورت عطا کی ہے۔ ان کی پوری شاعری ان کی داخلی سائیکی کا عکس ہے۔ مشاہدات اور محسوسات کی شعری تشکیل کے دوران انھوں نے اطراف و اکناف کے احوال و حوادث کو ذہن میں رکھا ہے۔ وقوعات اور واردات نے ان کے ذہن میں جو بیانیے تشکیل دیے ہیں انھی کو شاعری کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کی شاعری عصریت سے مربوط ہے۔ انھیں عصریت کی شعریات کا ادراک ہے اسی لیے ان کے یہاں انسان کی معاصر صورت حال، وجودی بحران اور اقداری انتشار کے حوالے سے زیادہ شعر ملتے ہیں۔ در اصل انھوں نے روح عصر کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں عصریت کے سارے شیڈس ملتے ہیں اور اس عصریت میں ابدیت اور آفاقیت بھی ہے۔ یہ نہ عارضی ہے اور نہ وقتی پروپیگنڈہ بلکہ ایسے اشعار ہیں جن میں ماضی، حال اور مستقبل کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔
جو کہتے ہیں دہشت وہ مٹانے میں لگے ہیں
معصوموں کا خود خون بہانے میں لگے ہیں
ہر ناوک تفتیش کا رخ ہے مری جانب
اپنوں کا وہ ہر جرم چھپانے میں لگے ہیں
ان کے شعری متن کی ظاہری ساخت چاہے کچھ بھی ہو مگر اس کے مستور بیانیہ میں تعمیری اور مثبت فکر نظر آتی ہے۔ آشوب عصر اور اجتماعی المیہ کو انھوں نے اپنی شاعری کے مرکز میں جگہ دی ہے۔ ان کی شاعری علاقائی یا قومی مسائل و موضوعات میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں آفاقی مسائل ہیں۔ ان کے لیے بنیادی مسئلہ کائناتی انتشار اور وجودی بحران کا ہے۔ اس بحران کا مرکز کوئی بھی منطقہ یا علاقہ ہو وہ ان کی شاعری کے حریم میں شامل رہتا ہے۔
سماجی سیاسیات پر ان کی گہری نظر ہے اور تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی سماجی اور ثقافتی ترجیحات پر بھی۔ انھیں معلوم ہے کہ آج پوری دنیا ایک وجودی کرب اور انتشار سے گزر رہی ہے اور انسانی قدریں رفتہ رفتہ منہدم ہوتی جارہی ہیں۔ تشدد، انتشار، مادیت، صارفیت، جبر اور جارحیت میں جکڑی ہوئی اس دنیا میں صالح انسانی اقدار کے لیے گنجائش کم رہ گئی ہے۔ اسی لیے وہ زوال انسانیت کے نوحہ خواں اور اقدار شکنی پر ماتم کناں بھی ہیں۔
تاج الدین اشعر کی شاعری میں سیاسی، سماجی اور تہذیبی حوالے ہیں۔ انھوں نے اُن وقوعات اور واردات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے جن سے انسانی زندگی کا بہت گہرا رشتہ ہے۔ در اصل وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو جمود و تعطل نہیں بلکہ تحرک، تفکر اور تجدد پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہر وہ فکر جو انسانی ذہن، ضمیر اور ذات کو مضمحل کرتی ہو اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
تاج الدین اشعر کی شاعری ایک طرح سے مزاحمتی بیانیہ بھی ہے۔ وہ ان بیانیوں کی شدت سے نفی کرتے ہیں جن سے جوہر انسانیت کی نفی ہوتی ہے یا عروج آدمِ خاکی پہ حرف آتا ہے۔ ان کی نگاہ ہمہ وقت دنیا میں رونما ہونے والے حوادث پر ہوتی ہے اسی لیے وہ ہر المیے کو اپنی شاعری میں ڈھال دیتے ہیں۔
مذہب کی آڑ میں انسانیت سوز حرکات و اعمال کے خلاف بھی وہ سخت احتجاج کرتے ہیں۔ در اصل ان کا پورا ایمان و یقین انسانیت پر ہے اس لیے انسانیت پر ہونے والاحملہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو وہ اس کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ ان اشعار سے ان کی ذہنی اور جذباتی کیفیات کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے:
پہلے تو خنجر چلتے تھے، لیجے اب ترشول چلے
دھرم کی رکچھا کرنے والے مانوتا بھی بھول چلے
آؤ پہلے یہ طے کرلیں اپنے وطن کی دھرتی پر
راون کا ادھیکار چلے یارام کا پاک اصول چلے
اس نوع کے بہت سے اشعار ہیں جن میں انھوں نے تحفظ انسانیت پر زور دیا ہے اور اُن تصورات، نظریات کی سخت مخالفت کی ہے جو انسانی اور اخلاقی اقدار کے منافی ہیں۔ تاج الدین اشعر کو ملک میں محبت اور امن کی تلاش ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں اس طرح کے شعر بھی ملتے ہیں:
کہہ دو پریم کی بنسی لے کر پھر اترے اک کرشن یہاں
کوئی گوتم پھر سے کھلانے مہر و وفا کے پھول چلے
اپنے ملک اور مٹی سے انھیں بے پناہ محبت ہے۔ اسی لیے وہ اپنے وطن کی جنت کو جہنم بنتے دیکھ نہیں سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
ملک کی وحدت کا شیرازہ درہم برہم دیکھ رہا ہوں
اپنے وطن کی جنت کو میں آج جہنم دیکھ رہا ہوں
تاج الدین اشعر کی آنکھوں نے جبر و جارحیت کے وحشت ناک اور خونچکاں مناظر دیکھے ہیں اس لیے ہر طرح کے جبر اور استحصال کے خلاف ان کی آواز بلند ہوتی رہتی ہے:
شہروں کی آبادی کو پیغام فنا دیتا ہے کون
جبرکے خنجر، ظلم کے نیزے، شر کے میزائیل لیے
وہ اپنی شاعری میں استعماری، اقتداری جبر کی علامتوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں اور مقامات آہ و فغاں کا بھی جن میں فلسطین و بغداد بھی شامل ہیں۔ یہ صرف شہر نہیں بلکہ تہذیبی استعارے ہیں جن کے نشانات کو جبروتی قوتوں نے مٹانے کی کوشش کی ہے:
بغداد ہو کہ کابل و بغداد و فلسطین
دیکھا ہے ہم نے دست ستم گر لہو لہو
تاج الدین اشعر کو انسانوں کی گم ہوتی شناخت اور بے چہرگی کا بھی ادراک ہے. اسی لیے وہ اس طرح کے شعر بھی کہتے ہیں:
کئی چہروں والا ہے ہر آدمی
تمدن کے آئینہ خانوں کے بیچ
خدا جانے کیوں اس قدر پست ہیں
جو رہتے ہیں اونچے مکانوں کے بیچ
وہ بشریت کش حرکات، اعمال کی شدت سے مذمت کرتے ہیں ا ور ایسے سفاک چہروں کو آئینہ بھی دکھاتے ہیں:
گھر میرا اجاڑو ہو مگر اپنی زمیں پر
تعمیر نئی جنت شداد کرو ہو
تاج الدین اشعر کے یہاں زمانی اور مکانی تلمیحات اور استعارے بھی ہیں۔ وہ ان کا استعمال کرکے ان کی پوری تاریخ اور تہذیب کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں۔ در اصل انھیں مظلوموں اور بے کسوں سے بے پناہ ہمدردی ہے. اس لیے وہ اپنی شاعری میں ان حوالوں کو زندہ رکھتے ہیں جن سے جبر و تشدد کی تاریخ جڑی ہوئی ہے۔ انھیں وحشت ناکیوں کا پورا احساس ہے. اسی لیے انھیں دھرتی دھواں دھواں نظر آتی ہے اور سمندر لہولہو۔ انھیں ہر طرف سفاکیت اور جارحیت کے خونی پنجے ہی نظر آتے ہیں:
سب ہی لہولہان ہیں خشکی یا تری
دھرتی دھواں دھواں ہے سمندر لہو لہو
انھوں نے زمین کا نوحہ سنا ہے اس لیے زمین پر ہونے والے ہر جبر وستم کے خلاف آواز بلند کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ انھیں انسانیت کی فکر ہے۔ آج انسان جس عدم تحفظ اور خوف وخطر کا شکار ہے اس کو بھی انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سلیقے سے پیش کیا ہے:
محفوظ راستوں میں نہ گھر میں ہے آدمی
ہر لمحہ دام خوف و خطر میں ہے آدمی
وہ نظارے جن سے صحرا کے درندے کانپ اٹھے
آج دیکھے ہم نے کچھ نظارے شہر میں
انسانیت کی کراہ کو انھوں نے شدت سے محسوس کیا ہے۔ انھیں ہر طرف خوف و دہشت کا اندھیرا نظر آتا ہے۔ ان کا یہ بہت معنی خیز شعر ہے:
ہم ان کو دشمنِ جاں، دشمن دل کہہ نہیں سکتے
یہ کیا اندھیر ہے، قاتل کو قاتل کہہ نہیں سکتے
انھیں ملک و ملت کی زبونی کا احساس ہے، اس لیے وہ ملت کی قیادت پر بھی طنز کرنے سے باز نہیں آتے۔ انھیں فکر ہے تو وحدت ملت کی. اسی لیے اپنے اشعار میں مذہب کے ٹھیکے داروں کو طنز و تمسخر کا یوں نشانہ بناتے ہیں:
مجھے بے دین ہی رہنے دو اے شیخ!
تمہارے دین میں جھگڑا بہت ہے
ساری ملت باہمی تفریق کی نخچیر ہے
جس نے زخمی کردیا مجھ کو وہ میرا تیر ہے
واعظ حدیث نور سناتا رہا مگر
ملت اسیر ظلمتِ اوہام و یاس تھی
جناب شیخ کی ہر بات ہے بہت دل چسپ
یہ اور بات کہ باتوں میں جاں نہیں ہے میاں!
فتوی قتل شہیدوں کو سنانے کے لئے
قتل گاہوں میں فقیہان کرام آتے ہیں
تاج الدین اشعر کو اس بات کا احساس ہے کہ خلوص و محبت کے سارے رشتے ختم ہوچکے ہیں۔ اب صرف میکانکی اور مشینی رشتہ رہ گیا ہے۔ اس لیے انھوں نے ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کے حوالے سے بھی کچھ شعر کہے ہیں۔ انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب شہر میں سکون نہیں۔ ہر طرف فتنہ و فساد ہے۔ اس سے بہتر تو جنگل ہی ہے جہاں انسانوں کو کوئی خوف و خطر نہیں ہے۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ انسان کو انسان سے ہی خطرہ لاحق ہے. اس لیے وہ شہر کی سفاکیت اور شور کے بجائے جنگل کے سکون کو ترجیح دیتے ہیں:
ہے جنگلوں میں اماں شہر میں پناہ نہیں
فصیل شہر پہ کتبے لگا دیئے جائیں
جب اٹھی شہروں کے چہروں سے نقاب
وہ درندوں سے بھرے جنگل ملے
اب تو ان شہروں میں جینے کا نہیں ہے امکاں
جنگلوں کے لئے کیا راہ سفر باقی ہے
دیوتاؤں کے مقدس شہر میں
حیف روحِ زندگی گھائل ملے
تاج الدین اشعر نے شہر کی مشینی معاشرت اور مادیت پرستانہ طرز احساس پر بھی گہرا طنز کیا ہے:
بہت شہروں کی آبادی گھنی ہے
مگر انساں یہاں تنہا بہت ہے
چلو صحراؤں میں ڈیرے لگائیں
مہذب شہر میں خطرہ بہت ہے
تاج الدین اشعر کی شاعری میں تجربات، مشاہدات، جذبات و کیفیات کی ایک وسیع تر دنیا آباد ہے۔ انھوں نے مظاہرِ حیات کی بہت اچھی تصویر کشی کی ہے۔ ان کا لفظ لفظ تصویری صورت میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم شاعری کے کیمرے سے آج کے معاشرے کے Visuals دیکھ رہے ہیں۔ در اصل ان کی شاعری میں دورِ حاضر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی تصویریں قید ہیں۔
تاج الدین اشعر کی شاعری میں ایسی بہت سی بصری تمثالیں ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مختلف امیجیز کو شاعری میں ڈھالا ہے۔
تاج الدین اشعر نے اپنی شاعری کو سماجی، سیاسی، تاریخی، ثقافتی آگہی کا ایک ذریعہ بنایا ہے اور شیلے کے اس قول کو اپنا تخلیقی سرنامہ کہ:
Poetry awakenes and enlarges the mind itself.
بہ حیثیت شاعر انھوں نے اپنا فرض منصبی پورا کیا ہے کہ بنیادی طور پر شاعر کو Legislators of the world سمجھا جاتا ہے۔
تاج الدین اشعر کی شاعری میں براہیمی نظر ہے اور ضرب کلیمی بھی۔ اس شاعری کا بنیادی مقصد ایقاظ و انقلاب ہے۔ اسی لیے انھوں نے ترقی پسندوں کی طرح احتجاجی اسلوب اختیار کیا ہے۔ گو کہ ان کا ترقی پسندی سے کوئی ذہنی اور فکری رشتہ نہیں ہے مگر انھوں نے بھی قید و قفس، دار و رسن اور مقتل جیسی لفظیات کو اپنی شاعری میں استعمال کرکے ترقی پسندی سے اپنا فکری رشتہ ضرور استوار کر لیا ہے۔ ان کا خطابیہ آہنگ بھی اس کی توثیق کرتا ہے۔
ہم نے سمجھا تھا شاید اب کچھ کل ملے
پھر وہی قاتل وہی مقتل ملے
رہ الفت میں کچھ ایسے بھی مقام آتے ہیں
رسن و دار جہاں گام بہ گام آتے ہیں
اک ظلم کا صحرا ہے اک جبر کی وادی ہے
مظلوم کی ظالم نے آواز دبا دی ہے
تاج الدین اشعر کی شاعری کو شدت پسندانہ افکار و تصورات کے خلاف ایک کاؤنٹر بیانیہ کے طور پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں ہر طرح کی شدت پسندی کے خلاف مزاحمت ہے۔ اور شاید یہی مزاحمتی لہجہ تاج الدین اشعر کی شناخت بن سکتا ہے کہ انھوں نے بغیر کسی خو ف و خطر کے نہایت جرأت اور بے باکی کے ساتھ اپنے جذبات اور احساسات کی ترسیل کی ہے۔ یہ شاعری عصری موضوعات و مسائل کے باب میں ایک دستاویزکی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ معاصر سماج اور سیاست کا روزنامچہ بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ان تمام وقوعات و واردات کا شعری بیانیہ ہے جن سے آج کی دنیا گزر رہی ہے۔
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:ادبی صحافت کے دو سو سال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے