ادبی صحافت کے دو سو سال

ادبی صحافت کے دو سو سال

حقانی القاسمی

اردو کی ادبی صحافت کی حتمی تاریخ کا تعین مشکل ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور جی ڈی چندن وغیرہ اس کا نقطۂ آغاز گلدستوں کو قرار دیتے ہیں۔ کچھ محققین ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘، ’محب ہند‘، ’نور نصرت‘ اور ’مخزن الفوائد‘ کو ادبی صحافت کا نقش اول بتاتے ہیں۔ میری رائے میں منطقی طور پر ان بیانات کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ جہاں تک گلدستوں کی بات ہے تو اس کی اہمیت تذکرہ یا انتخاب کلام سے زیادہ نہیں ہے۔ ادبی صحافت جن تشکیلی، ترکیبی اجزا، عناصر اور معیار و منہج سے عبارت ہے، گلدستے ان سے میل نہیں کھاتے ہیں اور یوں بھی مولوی کریم الدین کے گل رعنا اور مولوی ابوالحسن کے معیارالشعرا کا سنہ اشاعت بالترتیب 1845 اور 1848 ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کو بھی ادبی صحافت کا نقطۂ آغاز کہنا تاریخی توقیت و ترتیب کے لحاظ سے غلط ہے کہ اس کا سنہ اشاعت 20 دسمبر 1870 ہے۔ اور یوں بھی بہ قول گیان چند جین ”اس میں غلبہ معاشرتی، علمی اور سیاسی موضوعات کا تھا“
اردو کے اولین ماہنامہ کے حوالے سے بھی اختلاف رائے ہے۔ جی ڈی چندن ’محب ہند‘ کو پہلا جامع اور علمی رسالہ کہتے ہیں جب کہ سید احمد قادری ماہنامہ ’نور نصرت، کلکتہ‘ کو اردو کا پہلا ماہنامہ بتاتے ہیں جس کے مدیر مولوی عبدالغفور شہباز تھے۔ ممتاز محقق رفاقت علی شاہد کی نظر میں دکن سے 1874ء میں شائع ہونے والا ’مخزن الفوائد‘ اردو کا پہلا ادبی رسالہ ہے جس کے مدیر سید حسین بلگرامی تھے۔ اسی خیال کا اظہار پروفیسر اکبر حیدری کاشمیری نے اپنے مضمون اردو کا پہلا ادبی رسالہ ”مخزن الفوائد“ حیدر آباد (مطبوعہ سہ ماہی فکر و تحقیق، نئی دہلی جولائی۔ دسمبر1997) میں کیا ہے۔ میرے خیال میں اولیت میں الجھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں کہ اس کا حتمی تعین مشکل ہے۔ اس لیے ادبی صحافت کا رشتہ اخبارات سے جوڑنا پڑے گا۔ صرف ماہانہ رسائل کی بنیاد پر اردو کی ادبی صحافت کے دو سو سال پورے نہیں ہو سکتے۔ ادبی صحافت کو اگر 1822میں شائع ہونے والے ہفت روزہ ’جامِ جہاں نما‘ سے جوڑ کر دیکھا جائے تو کم و بیش اس کے دو سو سال پورے ہو جائیں گے۔ ادبی صحافت کے ذیل میں وہی اخبارات شامل کیے جا سکتے ہیں جن میں ادبیات کے گوشے ہوا کرتے تھے۔ جامِ جہاں نما میں شعری تخلیقات کی اشاعت کے شواہد موجود ہیں. اس لیے ادبی صحافت کا نقطہ آغاز بھی ہری ہردت کی ملکیت اور سدا سکھ لال کی ادارت میں 27 مارچ 1822 بروز بدھ جاری ہونے والا جامِ جہاں نما کلکتہ ہی قرار پائے گا۔ ڈاکٹر انور سدید کے مطابق ”18 اپریل1827 کے جام جہاں نما میں مسٹر ڈی کاسٹا کی غزل شائع ہوئی. اس کا مطلع اور مقطع حسب ذیل ہے:
کل ہم تمھارے کوچے میں آئے چلے گئے
ہے ہے ہزار اشک بہائے چلے گئے
کل اس پری کی بزم میں سب مل کے برملا
تیری غزل ڈی کاسٹا گائے چلے گئے
مولوی محمد باقر کے دہلی اردو اخبار (تاریخ اجرا 1836) میں غالب، ذوقؔ، مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، نواب زینت محل اور دیگر شعرا کا کلام شائع ہو ا کرتا تھا۔ صادق الاخبار (1844)، قران السعدین (1845)، فوائد الشائقین (1846)، اسعد الاخبار (1847)، قطب الاخبار (1849)، کوہ نور (1850)، نور الابصار (1852)، آفتاب ہند (1853)، کشف الاخبار (1855)، مظہر الاخبار (1856)، سحر سامری (1856)، روزنامہ اعجاز لکھنو (1856)، قاسم الاخبار کرناٹک (1861)، جامع الاخبار مدراس (1862)، فتنہ (1882)وغیرہ میں بھی شعری و ادبی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔
اودھ اخبار لکھنو (1858) میں رتن ناتھ سرشار کا ناول ”فسانہ آزاد“ قسط وار شائع ہوا کرتا تھا۔ منشی سجاد حسین کے اودھ پنچ (1877) میں بھی طنزیہ و مزاحیہ نظمیں چھپا کرتی تھیں۔ اس کے اداریے کا آغاز ہی کسی چبھتے ہوئے شعر سے ہوتا تھا۔ مثلاً
یہ واقعہ جہاں میں بے شک نیا ہوا
الّو کے گھر میں دیکھیے پیدا ہما ہوا
ملک الشعرا دوارکا پرشاد افق لکھنوی کی ادارت میں پندرہ روزہ اخبار ’نظم‘ کی اشاعت کا آغاز 5/ اگست، 1888 کو ہوا۔  12/ صفحات کے اس اخبار میں 8 صفحات پر منظوم خبریں ہوا کرتی تھیں۔ 1853 میں منشی دیوان چند کی ادارت میں ہمائے بے بہا شائع ہوا کرتا تھا جس میں سائنسی، علمی اور ادبی نوعیت کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ کچھ لوگ اس پند روزہ اخبار کو پہلا ادبی رسالہ مانتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ادبی صحافت کے ابتدائی نقوش ہفت روزہ یا پندرہ روزہ اخبارات میں نظر آتے ہیں۔

باضابطہ ادبی رسائل کا وجود بہت بعد میں ہوا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں ادب سے مختص رسائل شائع ہونا شروع ہوئے جن میں رسالہ انجمن پنجاب (1865)، اتالیق پنجاب (1870)، مراۃ الہند لکھنو (ستمبر1875)، ماہنامہ ’تیرہویں صدی‘ آگرہ (1879)، رسالہ دلگداز (1887)، حسن حیدر آباد (1888)، افسر حیدر آباد (1896)، دبدبۂ آصفی حیدر آباد (1897)، معارف علی گڑھ (1898)، ادیب آگرہ (جنوری1899) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
مراۃ الہند، لکھنؤ
محلہ رانی کٹرا لکھنو سے کشمیری پنڈت کشن راؤ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ بہ قول اکبر حیدری کاشمیری ”یہ غالباً شمالی ہند کا پہلا ادبی رسالہ ہے۔“ (فکر و تحقیق، جنوری۔مارچ، 2004)
تیرہویں صدی، آگرہ
آگرہ سے 1879 میں شائع ہونا شروع ہوا۔ حصۂ نثر کے مدیر میر ناصر علی تھے جب کہ حصۂ نظم کی ترتیب و انتخاب کی ذمہ داری حافظ رحیم اللہ صبا اکبرآبادی کے سپرد تھی۔ اس رسالہ میں سرسید کے نیچری عقائد کے خلاف مضامین تسلسل سے شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ ایک اہم رسالہ تھا جس کی بابت مولانا عبدالحلیم شرر نے دلگداز (جنوری 1915) میں لکھا تھا کہ: ”تیرہویں صدی میں اعلیٰ منشیانہ قابلیت کے ساتھ ساتھ قدیم ادبی مذاق کی نگہداشت، نئی خیال آرائیوں اور جدتوں کے ساتھ کی جاتی تھی اور پرانا مشرقی لٹریچر کچھ جدت طرازیوں کے ساتھ نئے لباس میں ظاہر کیا جاتا تھا کہ نئے اور پرانے دونوں گروہوں سے بے اختیار واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے تھے۔“
(بحوالہ ڈاکٹر سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت۔ مرزا غالب ریسرچ اکیڈمی، آگرہ۔2014 ص۔133)
دلگداز، لکھنو
رسالہ دلگداز لکھنو کا اجرا 25 جنوری 1887 کو ہوا جس میں مولانا عبدالحلیم شرر کے ناول بھی شائع ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر قمر سلیم کے مطابق: ”شرر کی ادارت میں ’دلگداز‘ 28 سال دو ماہ تک شائع ہوتا رہا۔“
’دلگداز‘ قیمتی مضامین کا مخزن تھا۔ اس میں مختلف ادبیات کے علاوہ تاریخ، نسائیات، ہندوستانیات اور دیگر موضوعات پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر ’تاریخِ صقلیہ، حسن کی کرشمہ سازیاں، ہندوستان میں مشرقی تمدن‘ کی قسط وار اشاعت سے رسالہ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ عربی ادبیات اور عالم عرب کی شخصیات کے متعلق مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی رسالہ تھا جس میں پہلی بار ’بلینک ورس‘ پر مضمون (مطبوعہ جون 1900) کی اشاعت سے بحث و مباحثہ کا آغاز ہوا۔ اس میں مشاہیر عالم کے کارنامے، ممالک اور شہروں کے بارے میں معلوماتی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نظم و غزل کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ قمر سلیم نے رسالہ ’دلگداز‘ کا اشاریہ تیار کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مجلہ میں تنوع کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور ترجیحی طور پر معلوماتی مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ عبد الحلیم شرر کے اداریے بہت بیش قیمت ہو ا کرتے تھے۔ مولانا اردو زبان و ادب کے بڑے ادیب تھے اور شناور بھی مگر اردو کے مستقبل سے شاید مطمئن نہیں تھے۔ ایک طرح کی مایوسی تھی جو دلگداز نومبر 1910 میں شائع اس اقتباس سے جھلکتی ہے۔”اردو ہو یا ہندوستان کی کوئی اور زبان یہ سب مٹنے والی چیزیں ہیں جو اپنی اپنی عمریں پوری کر کے صرف کتابوں میں رہ جائیں گی اور زبانوں پر فقط انگریزی ہو گی۔“
حسن، حیدرآباد
حسن حیدر آباد (اگست 1888) مولوی سید فخر اللہ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ جس میں تاریخی، علمی، ادبی، لسانی، اخلاقی، سیاسی، سائنسی اور مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے۔ یہ سارے مضامین معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عالمانہ اور ادیبانہ ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری نے لکھا ہے کہ ”اردو رسالوں میں یہ امتیاز صرف حسن کو حاصل تھا کہ اس کے بہترین لکھنے والوں کو ایک اشرفی صلے میں دی جاتی تھی۔“
جن مضامین پر اشرفی بطور انعام دی گئی ڈاکٹر محمد انورالدین نے ان انعام یافتہ مضامین کی ایک فہرست اپنے کتاب میں درج کی ہے۔ ان کے مطابق اہرام مصر (مولوی محمد ابوالحسن)، کتب خانہ ہائے اسلامی (محمد شبلی نعمانی)، سکندر اعظم کی حالات زندگی پر ایک محققانہ نظر (مجیب احمد تمنائی)، سلطان محم خاں ثانی اور قسطنطنیہ کی فتح (عبدالحلیم شرر)، تذکرۂ تیمور (محمد شفیع)، عربوں کے سویلزیشن کی تاریخ (مولوی محمد یوسف علی خاں قزلباش) جیسی تحریریں شامل ہیں۔

افسر،حیدرآباد
رسالہ افسر حیدرآباد کا اجرا اپریل 1897 میں ہوا۔ اس میں ادبی و علمی نوعیت کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کی ادارت سے مولوی عبد الحق کا بھی تعلق رہا ہے۔ عابد رضا بیدار نے ’اردو کے اہم ادبی رسالے اور اخبار‘ میں افسر کے تعلق سے اہم تفصیلات درج کی ہیں۔ انھوں نے ’بستان آصفیہ‘ کے مصنف وِٹھل راؤ کا ایک اقتباس درج کیا ہے کہ: ”ابتدا میں مولوی محب حسین صاحب ایڈیٹر معلم نسواں دوسال تک ایڈیٹر رہے۔ چند روز کے لیے رسالہ بند ہوگیا۔ بعد ازاں مولوی عبدالحق بی اے کی زیر ایڈیٹری شائع ہونا شروع ہوا۔“
اس رسالہ میں تاریخی، تمدنی اور فوجی مضامین اور اہم کتابوں پر ریویو وغیرہ شائع ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد انورالدین لکھتے ہیں کہ: ”اس رسالہ میں عموماً فوج سے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ جیسے افسران فوج کے اہم مضامین کے ترجمے، مشہور سپہ سالاروں کے تذکرے، تواریخ جنگ، فنون سپہ گری، جنگی کھیل، ایجادات حرب کے آلات وغیرہ۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی شکار سے متعلق بھی مضامین شائع ہوتے تھے۔“
(حیدر آباد دکن کے علمی و ادبی رسائل)
افسر کے مشمولات معیاری ہوا کرتے تھے۔ مولوی عبدالحق کے تبصروں کے علاوہ جو اہم مضامین شائع ہوئے ان میں اردو ناولوں پر ایک نظر (مولوی محمد عزیز مرزا بی اے) حروف مقطعات و علامات معدنی و آلات تحریر طبع (مولوی نظام الدین حسن بی اے)، فلسفۂ قیافہ (مولوی سید نذیر حسین فاروقی)، انسان کی نشو و نما (مولوی عبدالغنی رافت)، اردو اخبارات کے ایڈیٹروں کو نیک صلاح (عبدالحق بی اے) قابل ذکر ہیں۔ اسی افسر میں مولوی محب حسین کا ایک مضمون عورتوں کی نسبت سرسید احمد کے خیالات شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جنگی تاریخ (مولوی محب حسین) قوموں کی پندرہ مشہور علامتیں اور زوال کی نشانیاں (خواجہ غلام الثقلین)، مسئلۂ ازدواج پر ایک نظر (مولوی محمد اختر)، مصنفین کی نسبت غائبانہ خیال (مولوی عبدالحق) جیسے مضامین شائع ہوئے۔ یہ اس دور کا ایک اہم رسالہ تھا۔ جس کے بند ہونے پر مولوی عبدالحق کو خواجہ الطاف حسین حالی نے یہ لکھا تھا کہ: ”کیا افسر بالکل بند ہوگیا؟ ہندوستان میں کوئی عمدہ رسالہ نہیں چل سکتا۔ معارف، ادیب، حسن اور دیگر عمدہ عمدہ میگزین چند روز کی ہوا کھا کے نوبت بہ نوبت راہیِ ملک عدم ہوگئے۔ پھر افسر کے چلنے کی کیا امید ہو سکتی ہے۔ جس چیز کی خریداری کا مدار مسلمانوں پر ہوگا اس کا رونق اور فروغ پانا معلوم۔“
دبدبۂ آصفی، حیدر آباد
دبدبۂ آصفی کا اجرا 1897میں ہوا۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد یمین السلطنت اس کے بانی تھے اور ادارت پنڈت رتن ناتھ سرشار کے سپرد تھی۔ اس رسالہ میں اعلا پائے کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے موضوعات اور مشمولات کی فہرست سے اس کے متنوع اور معیاری ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد انورالدین لکھتے ہیں کہ: ”اس رسالہ کا معیار کافی بلند ہوتا تھا اور انسانی علوم کے ہر گوشے پر مضامین پیش کئے جاتے تھے۔ چنانچہ منطق، فلسفہ، موسیقی، طبیعات، فلکیات، طب، نجوم، عروض اور خالص ادبی موضوعات پر مضامین ملتے ہیں۔“
(حیدر آباد دکن کے علمی وادبی رسائل)
دبدبۂ آصفی میں مضامین کے انتخاب کا معیار بہت سخت تھا۔ اس کے لیے باضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی تھی۔ رتن ناتھ سرشار نے اس حوالہ سے لکھا ہے کہ: ”کسی صاحب کے ساتھ اس میں رعایت نہ کی جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر ولی نعمی مہاراجہ پیشکار، بہادر کا کوئی مضمون کمیٹی نے پسند نہیں کیا تو دست بستہ بصد عجز واپس کیا جائے گا۔“
(بحوالہ ڈاکٹر محمد انورالدین، حیدر آباد دکن کے علمی و ادبی رسائل، ص۔122)
معارف،علی گڑھ/پانی پت
معارف علی گڑھ کی اشاعت کا آغاز یکم جولائی 1898 کو ہوا۔ اس کے مدیر مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی تھے۔ اس رسالے کے مقاصد اور قواعد میں ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ”اس کے ذریعہ اردو زبان کے علم و ادب کا دائرہ وسیع ہو اور اس میں ہر قسم کی علمی، فلسفی، اخلاقی، مذہبی، تمدنی اور تاریخی مضامین لکھے جائیں۔ انگریزی، عربی اور ترکی زبانوں کی نایاب کتابوں اخباروں اور رسالوں سے ہر قسم کے مفید دل چسپ اور پاکیزہ مضامین ترجمہ کیے جائیں تاکہ مسلمانوں میں روشن ضمیری، عمدہ تربیت اور تہذیب کی اشاعت ہو۔“
(بحوالہ اسعد فیصل فارقی، علی گڑھ میں اردو صحافت عہد بہ عہد، 2016، صفحہ 53)
اس رسالے میں مقتدر شخصیات کی تخلیقات شائع کی گئیں۔ اس میں جن مقاصد کا اظہار کیا گیا تھا ان کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس میں جو چند مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں اردو اور ناگری کی بحث (مولوی رشید احمد سالم)، اسلام اور فنونِ لطیفہ (ابراہیم احمد)، ابن جبیر اور ان کا سفر نامہ (مولانا وحید الدین سلیم) رامائن کے بعض سین (مولوی عبد العلی خاں)، اندلس کے مسلمان شعرا اور ان کی نیچرل شاعری (مولوی عزیز الرحمن) وغیرہ اہم ہیں۔ معارف میں زیادہ تر مضامین اسماعیل خاں اور مولانا وحید الدین سلیم کے ہوتے تھے۔ حاجی اسماعیل خاں نے جب ’ہلال‘ اور’تارہ‘ کے عنوان سے ترکوں کے خلاف مضمون لکھا تو معارف پر اس کا نہایت منفی اثر ہوا۔ معارف سے بڑی مقتدر شخصیات وابستہ تھیں۔ اکبر الہ آبادی جن کی نظم روانیِ آب پہلی مرتبہ معارف ہی میں شائع ہوئی تھی۔ انھوں نے اس رسالہ کے حوالہ سے لکھا تھا کہ: ”رسالہ معارف نہایت عمدہ رسالہ ہے۔ اس میں سائنٹفک اور تاریخی مضامین بڑے بڑے لائق بزرگوں کے نکلتے ہیں۔ میں دل سے اس رسالہ کی ترقی چاہتا ہوں جس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی علمی ترقی چاہتا ہوں۔ اس طرح کا کوئی رسالہ اس وقت اَپر انڈیا میں نہیں نکلتا۔ کم سے کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ رسالہ معارف رکاکت اور بے تہذیبی سے بالکل خالی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جاری کرنے والے کی سچے دل سے یہ خواہش ہے کہ ملک کو فائدہ پہنچے۔ بجائے معارف کے اس کا نام آفتاب علم زیادہ اچھا ہوتا۔ کیوں کہ اس میں حضرات شمس العلماء کے مضامین اکثر ہوتے ہیں۔“
(عابد رضا بیدار، اردو کے اہم ادبی رسالے اور اخبار، انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، رامپور، ص۔178)
ڈپٹی نذیر احمد نے منظوم خراجِ تحسین یوں پیش کیا:
بہت خوش ہوا دیکھ کر دل معارف
کثیر الفوائد، قلیل المصارف
نہ پاؤ گے اردو میں کوئی رسالہ
کہ جو ہوسکے اس کے پڑھنے سے عارف
اسے دیکھو گر جاننے ہوں حقائق
پڑھو اس کو گر تم کو بننا ہو عارف
کہ نایاب موتی ہیں اس کے مضامین
وگرنہ بہت چل پڑے ہیں زخارف
(عابد رضا بیدار، اردو کے اہم ادبی رسالے،ص۔179)
ادیب، فیروزآباد آگرہ
ادیب فیروز آباد آگرہ ایک اہم علمی، ادبی رسالہ تھا۔ جس کے سر نامے پر یہ عبارت درج ہوتی تھی ”ایک بالکل نئی طرز کا ماہوار علمی میگزین“ اس کے ایڈیٹر سید اکبر علی اکبر آبادی سند یافتہ کلکتہ یونیورسٹی کلکتہ تھے۔ اس کے مقاصد کے تحت یہ تحریر کیا گیا تھا کہ: ”ادیب جو ہندوستان بھر میں اپنی خاص طرز کا ایک بالکل جدید میگزین ہے۔ اس کی بڑی غرض یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ لٹریچر کا مذاق پیدا کیا جاوے… اور یہ ثابت کیا جائے کہ سائنس اور مذہب میں فی الاصل کوئی مخالفت نہیں۔“
ادیب میں دیگر رسائل کے اعلا مضامین کی تلخیص کے ساتھ ساتھ تصانیف جدیدہ پر ریویو شائع کیے جاتے تھے۔ اس میں سائنس، عجائبات عالم، یادگاری واقعات، ریویو اور معلومات کے عنوان سے تحریریں چھپتی تھیں۔ علم ہیئت، علم نباتات وغیرہ سے متعلق دل چسپ مضامین شائع ہو ا کرتے تھے۔ اس رسالے کی بہت پذیرائی ہوئی۔ علامہ شبلی نعمانی نے فرمایا: ”میں موجودہ رسالوں میں ’ادیب‘ کو سب سے افضل سمجھتا ہوں۔“
شاہ محمد اکبر صاحب علائی نے رسالے کی یوں داد دی کہ: ”واقعی مخزن خزانہ عامرہ ہے فی الحقیقت شائقین علمی تحقیقات کے لیے تو پورا رہبر ہے۔“ اس رسالے کی اتنی قدر دانی ہوئی کہ مدیر نے یہ لکھا: ”ادیب کو گلشن ہستی میں قدم رکھتے ہی گل چینان معانی نے جس غیر متوقع قدر دانی اور شفقت کی نگاہوں سے ہاتھوں ہاتھ لیا اس سے ہم کو قوی امید ہو گئی کہ اس کا نخل مراد ایک قدر داں پبلک کی فیض آبیاری سے بہت جلد نشو و نما پا کر سر سبز و بار آور ہوگا۔ ہندوستان کے ہر حصے کے معزز اردو خواں پبلک نے ادیب کی جو قدر کی وہ اخباری دنیا میں شاید پہلی نظیر ہے۔“ (ادیب، فروری 1899)
19ویں صدی کے اواخر میں کچھ اور مجلات شائع ہوئے جن میں شبلی نعمانی کی ادارت میں اینگلو اورینٹل کالج میگزین علی گڑھ اور منشی نوبت رائے نظر کا خدنگ نظر اور خیالِ محبوب،حیدرآباد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ادبی صحافت کا زریں دور بیسویں صدی کو کہا جا سکتا ہے۔ اس صدی میں جو رسائل و مجلات شائع ہوئے ان میں ادبی موضوعات اور مباحث کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی۔ ان رسائل میں نظم و نثر کا عمدہ انتخاب ہوتا تھا اور ان سے مسلم الثبوت اور معتبر ادبا جڑے ہوئے تھے۔
مخزن، لاہور
اپریل 1901 میں شیخ عبد القادر کی ادارت میں مخزن کی اشاعت کا آغاز ہوا جس نے ادیبوں کے ذہن و فکر کے زاویوں کو بدلا اور اردو ادب کو بہت سے رویوں اور رجحانات سے آشنا کیا۔ یہ بنیادی طور پر رومانیت کو فروغ دینے والا رسالہ تھا۔ اس رسالے نے ہندؤں اور مسلمانوں کے باہمی ارتباط کی کوشش کی اور اچھے ادیبوں و شاعروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ تین ادوار پر محیط اس رسالے کی ادارت سے شیخ عبد القادر کے علاوہ شیخ محمد اکرام، حفیظ جالندھری، علامہ تاجور نجیب آبادی، بیدل شاہجہاں پوری اور حامد علی خان، میر نثار علی شہرت کی وابستگی رہی ہے۔ اس میں سماجیات، اخلاقیات، اسلامیات، شخصیات کے علاوہ تاریخ، تنقید، تصوف، تحقیق پر مضامین کے علاوہ ترجمے بھی شائع ہوا کرتے تھے۔ اس میں نقد و تنقید کا ایک اچھا سلسلہ تھا۔ یہ رسالہ بھی علم و ادب کا بیش بہا خزینہ ہے۔ اس نے نئے فن کاروں کو متعارف کرایا اور بڑے بڑے ادیب پیدا کیے۔ مختلف اصناف ادب پر مشتمل یہ وہ مجلہ تھا جس نے ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک نمایاں نقش قائم کیا۔ اس کے خصوصی شماروں میں دربار نمبر اور سال گرہ نمبر کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ یہ اتنا اہم رسالہ ہے کہ اس کے کئی اشاریے تیار کیے گئے۔ جاوید اختر علی آبادی نے مخزن کا توضیحی اشاریہ مرتب کیا ہے اور امتیاز ندیم نے ماہنامہ ’مخزن اشاریہ اور ادبی خدمات‘ کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے۔
زمانہ، کانپور
1903 میں ماہنامہ ’زمانہ‘ شیو برت لال ورمن کی ادارت میں بریلی سے شروع ہوا۔ اس کے بعد دیا نارائن نگم نے اس کی ادارت سنبھالی اور یہ کانپور سے نکلنے لگا۔ ’زمانہ‘ میں اعلا پائے کے ادبی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے موضوعات میں بہت تنوع تھا۔ ڈاکٹر شفیع احمد عثمانی کے مرتب کردہ اشاریے سے پتہ چلتا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس کا احاطہ رسالہ ’زمانہ‘ میں نہ کیا گیا ہو۔ فلسفہ، مذہبیات، سماجی علوم، لسانیات، سائنس، اطلاقی سائنس، فنون لطیفہ، ادبیات، تاریخ، جغرافیہ، سفر نامے، سوانح عمریاں اس کے علاوہ اردو زبان خاص طور پر اردو ہندی کے قضیے کے حوالے سے بیش قیمت تحریریں اس میں شامل ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ادبی رسائل میں سائنسی مضامین نہیں ہوتے ان کی تردید کے لیے زمانہ کے وہ مضامین ہی کافی ہیں جن میں علمِ ریاضی، علم نجوم، علم کیمیا، علم معدنیات، علم ارضیات، علم طبقات الارض، علم نوع انسانی، علم نباتات اور دیگر موضوعات پر تحریریں شامل ہیں۔
زمانہ ایک عہد ساز علمی اور ادبی رسالہ تھا۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے 33 جلدوں پر مشتمل زمانہ کا انتخاب مختلف موضوعات کے تحت شائع کیا گیا ہے جن میں مشاہیر ادب اردو، ادبیات ہندی، ادبیات فارسی، ہندوستانی زبان کا مسئلہ، اخبارات و رسائل اور فنونِ لطیفہ کافی وقیع ہیں۔
اردوئے معلی، علی گڑھ /کانپور
1903 میں ہی اردوئے معلی علی گڑھ کی اشاعت مسٹن روڈ موجودہ رسل گنج علی گڑھ سے شروع ہوئی. اس میں سیاسی نوعیت کے مضامین کے ساتھ ساتھ ادبی، سوانحی، علمی و تاریخی تمدنی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی بی۔ اے نے اس رسالے کو ادب اور سیاست کا ایک حسین امتزاج بنایا تھا۔ اس مجلہ نے سیاسی شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ اعلا ادبی ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مقاصد کے تحت مولانا نے بہت قیمتی باتیں تحریر کی تھیں جن پر آج کے مدیران کو بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے لکھا تھا کہ: ”اس رسالے کا مقصد صرف ایک ہے۔ یعنی درستیِ مذاق۔ چنانچہ اس لحاظ سے امور مندرجہ ذیل کی پابندی کی جاوے گی۔
٭ مضامین نثر ہر قسم کے ہوں گے۔ یعنی سوانحی، تاریخی، علمی، فلسفی، اخلاقی، تمدنی، ادبی، تنقیدی و متعلق بہ افسانہائے مختصر و مکمل۔
٭ یہ مضامین نہ حد سے زیادہ خشک ہوں گے نہ حد سے زیادہ ہلکے اور اُن کی ترتیب ایسی ہوگی جو ہر قسم کے مذاق کو گوارا ہو۔
٭ حصۂ نظم میں صرف اس قسم کی نظمیں شائع کی جائیں گی جن کے انداز بیاں میں کچھ خصوصیت ہو۔ ان نظموں کے متعلق قدیم و جدید کی قید نہ ہوگی۔
٭ نظم و نثر دونوں میں حتی الامکان صحت زبان کا سختی کے ساتھ لحاظ رکھا جائے گا۔“
’اردوئے معلی‘ میں ان تمام مقاصد کے پیش نظر ہی تحریروں کی اشاعت عمل میں آئی۔ مولانا حسرت موہانی نے اس میں بہت سے اہم سلسلے شروع کیے۔ جن میں تذکرۃ الشعراء جیسا ایک مفید کالم بھی تھا۔ جس کے تعلق سے مولانا نے لکھا تھا کہ: ”اردو زبان کے تمام گذشتہ اور موجودہ اساتذہ کا ایک ایسا تذکرہ ترتیب دیا جائے جس میں ہر استاد کا مفصل حال اور اس کے کلام پر بے لاگ تنقید موجود ہو اور اس تذکرے کی تقسیم باعتبار سلاسل شعراء پانچ جلدوں میں ہو۔“ مولانا نے اس سلسلے کے تحت بہت سے مشہور اور گمنام شعرا کے احوال و کوائف اور انتخاب کلام شائع کیے۔ جسے کتابی شکل میں ڈاکٹر احمر لاری نے مرتب کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں انتخاب دواوین اور گلدستوں کے انتخابات کے سلسلے بھی تھے۔ یہ تمام سلسلے بہت مفید تھے۔ اُن کا یہ کام اس لحاظ سے بہت مفید ہے کہ انھوں نے ہمارے بیش قیمت ادبی اور شعری سرمائے کو محفوظ کر دیا۔ اردوئے معلی ہی میں اصلاحِ زبان سے متعلق تحریروں کی اشاعت ہوئی۔ ’ادب الکاتب والشاعر‘ کے عنوان سے نظم طباطبائی کا مضمون کئی قسطوں میں شائع کیا گیا جو لسانی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں طباطبائی نے تذکیر و تانیث، غلط الفاظ کی تحقیق اور سم الخط کے حوالے سے بہت عمدہ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ صحت زبان پر بھی اس رسالہ کا خاص ارتکاز تھا۔ چنانچہ اس تعلق سے کئی مضامین شائع کیے گئے۔ انھی میں ایک مضمون ’اردو زبان پنجاب میں‘ کے عنوان سے تھا جس میں کلام اقبال پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ یہ تنقید ہمدرد کے عنوان سے اگست 1903 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ: ”رسالہ مخزن میں جب سے اقبال کی نظمیں شائع ہونے لگی ہیں اس وقت سے اہل پنجاب کا دماغ اور بھی آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ جس کو دیکھیے اقبال اور ناظر کا حوالہ دے کر اپنی زبان کو مستند قرار دیتا ہے… اقبال کا کلام ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ ترکیبیں نہایت درست ہوتی ہیں اور مضامین اکثر بلند، طرز بیان پسندیدہ ہوتا ہے اور سلسلۂ خیالات اکثر نازک و لطیف۔ لیکن اگر کچھ کمی رہ جاتی ہے تو صحت زبان کی جس کی وجہ سے ان کے کلام کا سارا لطف خاک میں مل جاتا ہے۔“
اسی طرح ’اردوئے معلی‘ میں مولانا الطاف حسین حالی کی زبان کی لغزشوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ ’اردوئے معلی‘ ہی میں چکبست اور شرر کا معرکہ بھی شائع کیا گیا جو گلزار نسیم کے حوالے سے تھا۔ اسی رسالہ میں شوق نیموی کا مشہور رسالہ ’اصلاح مع ازاحۃ الاغلاط‘ بھی شائع کیا گیا تھا۔ ’اردوئے معلی‘ میں شاہ حاتم، مرزا مظہر جانِ جاں، قائم، سودا، رنگین، مصحفی، مجروح، امیر اللہ تسنیم، اصغر علی خاں نسیم، مومن، غالب، شاہ ظفر، شاہ نسیم، ندا بدایونی، ظہیر دہلوی، گستاخ، وفا رامپوری پر حسرت کے مضامین شائع ہوئے۔ یہ تمام مضامین حسرت موہانی کے گہرے تنقیدی شعور کا ثبوت ہیں۔ ان میں بہت اہم تنقیدی نکات و اشارات ہیں۔ آل احمد سرور ’اردوئے معلی‘ کے امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا حسرت موہانی کو ایک اچھا محقق اور قابل قدر نقاد قرار دیتے ہیں:
”یہ رسالہ تحقیق و تنقید، سیاسی مضامین، انتخاب کلام اور تبصروں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اگر اس کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو حسرت کو صرف ایک بڑا شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھا محقق اور ایک سنجیدہ اور قابل قدر نقاد ماننے میں کسی کو تامل نہ ہوگا۔“
(بحوالہ ثریا حسین، مرتب: حسرت موہانی، ص۔46)
’الناظر‘، لکھنؤ
1909 میں ظفر الملک علوی کی ادارت میں ’الناظر‘ لکھنو کا اجرا ہوا، جس میں تاریخی و ادبی مضامین کے علاوہ انگریزی اور دوسری غیر ملکی زبانوں کے تراجم شائع ہوئے۔ اس کا شمار بھی اردو کے قدیم اہم ادبی رسائل میں ہوتا ہے۔ خدا بخش لائبریری، پٹنہ سے 8 جلدوں پر محیط اس کا ا نتخاب شائع ہوا ہے۔ اس میں اردو شعراء، تاریخ ہند، اردوشعر و ادب، تذکرے، تعلیمی ادارے اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے اداریے نظرات کا بھی انتخاب خدا بخش لابئریری سے شائع کیا گیا ہے۔
ادیب، الہ آباد
1910 میں الہ آباد سے ادب اردو کا ایک باتصویر ماہوار رسالہ جاری ہوا۔ جس کے مدیر نوبت رائے نظر تھے۔ جس میں موضوعات کا تنوع بھی تھا اور مشمولات بھی نہایت معیاری ہوا کرتے تھے۔ فلسفہ، صنعت و سائنس، معاشیات، سیاسیات، تہذیب و تمدن، تعلیمات، ہندو تہذیب و مذہب، اسلام اور متعلقات، شرق اوسط، اردو زبان و ادب، عربی فارسی شاعری، شعرائے اردو، مصوری، فن تعمیر و آثار قدیمہ، افسانے، غزلیں، نظمیں، تذکرے، اخبارات و رسائل اس کے موضوعی مشتملات تھے۔ اس کی ادارت سے نوبت رائے نظر کے علاوہ، مسیحی شاعر و ادیب پیارے لال شاکر میرٹھی اور فائلولوجی کے ماہر حسیر عظیم آبادی کی وابستگی رہی ہے۔ یعنی کہ ہندو، عیسائی اور مسلمان تینوں نے اس مجلہ کو اپنے خون جگر سے سینچا اور سنوارا ہے۔ ادارتی لحاظ سے یہ رسالہ اردو کے امتزاجی اور تکثیری مزاج کا آئینہ دار ہے۔ پیارے لال شاکر میرٹھی لکھتے ہیں کہ ”اردو میں صرف ادیب ہی پہلا رسالہ تھا۔ جو یورپ، مصر و قسطنطنیہ کے زریں رسائل کے مقابلے میں فخریہ پیش کیا جا سکتا تھا (العصر، اگست۔ ستمبر،1913) عابد رضا بیدار نے ’نوبت رائے نظر کا ادیب 1910۔1913‘ کے عنوان سے ایک انتخاب شائع کیا ہے اور رسالہ ادیب کے مشمولات اور امتیازات کے حوالے سے بہت معلوماتی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ”ترتیب (ایڈیٹنگ)کا سلیقہ جیسا ادیب میں نظر آتا ہے اور جو تنوع اس میں رہتا تھا وہ دوسری جگہ نظر نہیں آتا اور مشتملات کا ایسا معیار رکھنے والے دو ایک پرچے اس وقت اگر موجود تھے تو ان کا درجہ ادیب کے بعد ہی آتا ہے“ اس کے ایک خصوصی شمارے کی تعریف کرتے ہوئے عابد رضا بیدار لکھتے ہیں ”دہلی دربار کے موقع پر دہلی کے بارے میں جیسا بھرپور اور مصور شمارہ ادیب کا نکلا۔ اردو میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔“
العصر، لکھنو
العصر کی اشاعت کا آغاز مارچ 1913 میں ہوا۔ اس کے مدیر پیارے لال شاکر میرٹھی سابق مدیر ادیب الہ آباد تھے جن کا آبائی وطن میرٹھ تھا اور مدفون پہاڑ گنج دہلی کے مسیحی قبرستان میں ہیں۔ یہ ایک باتصویر رسالہ تھا جس کے قواعد کے تحت یہ درج ہے کہ: ”یہ باتصویر ماہوار رسالہ جو علم و ادب کی ترقی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ہر ماہ کے آخر میں لکھنو سے شائع ہوتا ہے۔ ملک کے نامور اہل قلم، مسلم الثبوت اساتذہ اور بہترین انشا پرداز اسے وقیع اور دلچسپ بنانے میں سرگرم ہیں۔ مضامین کی نوعیت ایسی ہے جو ہر طبقے کے لیے دلچسپ ہو۔“ اداریے میں یہ بھی لکھا گیا کہ ”ملک میں بہت سے موقت الشیوع رسالے شائع ہوئے اور ہوتے ہیں مگر بااستثنائے چند ان کا اجرا زیادہ تر تجارتی اغراض سے ہوا ہے۔ ایک بہت بھاری نقص ہے جو اخبارات و رسائل کے حق میں زہر قاتل کا اثر رکھتا ہے۔ کیوں کہ تجارتی پرچوں کے ایڈیٹر عموماً بدلتے رہتے ہیں اور ایڈیٹروں کی تبدیلی کے ساتھ پرچوں کا مقررہ معیار یا امتیاز خصوصی قائم نہیں رہتا: ہر کہ آمد عمارت نو ساخت۔“
العصر میں تاریخ، علوم و فنون، تاریخ ہند، مذہبی افکار، فلسفہ و سائنس، صنعت و حرفت، مشاہیر اردو، مسائل زبان وبیان سے متعلق مضامین اور منظومات شائع ہوا کرتی تھیں۔ عابد رضا بیدار نے العصر کا ایک انتخاب شائع کیا ہے۔ وہ اس رسالے کی بابت لکھتے ہیں ”مارچ 1913 میں اس کا پہلا شمارہ نکلا اور دسمبر 1917 میں آخری۔ کاغذ، کتابت اور طباعت کے ساتھ ساتھ مشتملات کا وہ اعلیٰ معیار جو ادیب کو چھوڑ کر کسی دوسرے پرچے میں کم ہی مل سکے گا۔ ذاتی پرچہ ہونے کے باوجود العصر نے برقرار رکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مضامین کا تنوع اور خالص ادب کے ساتھ ساتھ سماجی اور سائنسی علوم پر متوازن زور بھی اسی انداز پر قائم رہا۔“
نقاد، آگرہ
1913 میں آگرہ سے ماہنامہ ’نقاد‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے مدیر مولوی سید نظام الدین شاہ دلگیر اکبرآبادی اعلا پائے کے انشاء پرداز تھے۔ اس مجلہ کا مقصد فن تنقید کو زندہ کرنا، پاکیزہ لٹریچر کا مذاق پیدا کرنا اور زبان کو کلاسیکی بنانے کی کوشش کرنا تھا۔ ادب لطیف کے فروغ میں اس رسالہ کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کے اداریے میں نقاد کے منہج اور منصب کی وضاحت یوں کی گئی تھی:
”نقاد کا کام جس طرح یہ ہوگا کہ لوگوں کے اصلی عیوب نکال کے ان کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فرض بھی نقاد نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ کمالات اور محاسن کی داد دی جائے۔“
(بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت،ص۔167)
نقاد میں شبلی نعمانی، عبدالحلیم شرر، نظم طباطبائی، نیاز فتح پوری، حامد حسن قادری، مولانا سعید احمد مارہروی جیسے مسلم الثبوت ادیبوں کی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ محمد بشیر الحق دسنوی نے اردو ادب علی گڑھ (1963) میں اس رسالہ کے امتیازات اور خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نقاد نے واقعی اپنا فرض ادا کیا۔ موجودہ عہد میں اس نوع کے رسالوں کی شدید ضرورت ہے کہ شاید ہماری تنقیدی روش اب بہکتی جا رہی ہے۔ کہیں صرف تنقیدی تعصبات و تحفظات ہیں تو کہیں نتقیص و تضحیک۔
علی گڑھ میگزین
1920 میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ادارت میں علی گڑھ میگزین کا اجرا ہوا۔ اس کی ادارت سے اردو کی بہت اہم شخصیات کی وابستگی رہی ہے جن میں خواجہ منظور حسین، آل احمد سرور، ظفر احمد صدیقی، جاں نثار اختر، ابواللیث صدیقی، بشیر بدر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس میں بہت سے اہم علمی و ادبی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس رسالے نے بھی ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے خصوصی شمارے جو قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں علی گڑھ نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، اکبر الہ آبادی نمبر، طنز و ظرافت نمبر، فانی نمبر اور مجاز نمبر قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کی نگرانی اور بشیر بدر کی ادارت میں غالب نمبر شائع ہوا جس کے اداریے میں بشیر بدر نے لکھا تھا ”ایک زبان، ایک شاعر، ایک یونیورسٹی کی تثلیث(اردو، غالب، علی گڑھ) میں ہماری یہ کوشش پہلی کوشش ہے جس میں یہ وحدت قائم ہوئی ہے۔ اس خصوصی شمارے میں غالب کے نانا (پروفیسر مسعود حسین خان)، غالب کا نفسیاتی شعور (سعید احمد صدیقی)، غالب اور بیگم غالب (اعجاز اختر)، غالب کا استفہامیہ ذہن (بشیر بدر) قابل ذکر ہیں۔
اردو، اورنگ آباد
انجمن ترقی اردو ہند کا ترجمان رسالہ اردو کا اجرا جنوری 1921میں ہوا۔ انجمن کی مجلس شوریٰ کی تجویز یہ تھی کہ ”یہ رسالہ مثل دوسرے رسالے کے کشکول نہ ہو جس میں ہر قسم کے مضامین بلا لحاظ مناسبت و ربط درج کر دئیے جاتے ہیں۔ بلکہ اس میں زیاہ تر زبان و ادب کی بحث ہو۔ اردو زبان اس کی تاریخ، اصطلاحات، لغت، الفاظ، محاورات اور تنقید کے متعلق مضامین ہوں۔“ (اردو، اپریل1921)۔
رسالہ اردو میں بلند پایہ مستند اور معتبر تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ رسالہ اتنا اہم تھا کہ اسے پریم چند نے’اردو رسالوں کا قافلہ سالار‘ کہا۔ یہ رسالہ تحقیقات عالیہ کا خزانہ عامرہ ہے۔ اس میں نادر و نایاب مخطوطات اور کمیاب کتابوں سے قاری کو روشناس کرایا جاتا تھا اور زبان و ادب سے متعلق مباحث اور مسائل پر گفتگو بھی ہوتی تھی۔ خاص طور پر اصطلاحات علمیہ کا ایک مفید کالم بھی تھا جس میں طبیعات، نفسیات، نباتات وغیرہ کے انگریزی اصطلاحات کے اردو تراجم ہوتے تھے۔ کتابوں پر مبسوط تبصرے کا ایک خاص التزام ہوتا تھا۔ ڈاکٹر یونس غازی کے مطابق: ”رسالہ مذکور میں کم و بیش ایک ہزار پانچ سو ساٹھ کتابوں اور تین سو پچیس رسالوں پر تبصرے شائع ہوئے۔“
افکار و واقعات کے تحت مولوی عبد الحق اردو کی صورت حال پر لکھا کرتے تھے۔ اس رسالے میں اردو ہندی تنازع کے تعلق سے بھی بہت سی تحریریں شائع ہوئیں جن میں آنریبل شری سمپورنا نند کی ہندی نوازی (اکتوبر1938)، بابو پرشوتم داس نندن اور ہندی اردو (جولائی1937)، پروفیسر جھا اور اردو ہندی (جولائی1937)، پھر وہی ہندی اردو کی بحث (جنوری1937)، سی پی اور ہندی اردو (جنوری 1938)، گاندھی جی اور اردو ہندی (جولائی1937)، مسٹر بوس اور ہندی (جنوری1938)، مسٹر ساورکر اور قومی زبان (جولائی1938)، مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندی اردو (جولائی1938) اہم ہیں۔ بادہ کہن کے تحت شعرا کا تذکرہ اور کلام بھی شائع ہوتا تھا۔ مولوی غلام ربانی کا اس رسالے کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ”ہندوستان کا تو ذکر کیا ہے یورپ اور امریکہ میں بہت کم رسالے ہیں جن کا معیار اتنا بلند اور مذاق اتنا پاکیزہ ہو جیسا اردو کا۔“
(بحوالہ ڈاکٹر محمد یونس، انجمن ترقی اردو ہند کی تاریخ اور خدمات، صفحہ280)
رسالہ اردو تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے شائع ہونے لگا۔ رسالہ اردو کا اشاریہ 1921تا1962 ماخذات کے مصنف سید سرفراز علی رضوی نے مرتب کیا ہے اور 1966 سے 1998 تک کا اشاریہ مصباح العثمان نے ترتیب دیا ہے۔ ڈاکٹر یونس غازی نے شمارے کی ترتیب کے لحاظ سے تمام مشمولات کا ذکر کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسالہ اردو کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع تھا اور بقول جمیل الدین عالی: ”رسالہ اردو نے علمی انداز اور تحقیقی اپروچ کی وہ بنا ڈالی جو اردو میں تقریباً ناپید تھی۔“ اس رسالے میں مشاہیر ادب کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ وہ چند مضامین جو بہت اہم ہیں اور عہد حاضر کے لیے بہت مفید ہیں۔ ان میں انگریزی ادب پر عربی کے اثرات (احمد الحسینی) انگریزی میں اردو کے الفاظ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) اردو اور بنگلہ زبانوں میں انڈو آریائی نسل کے مشترک الفاظ (سید شبیر علی کاظمی) اردو ادب کی ہندوستانی قومیت (شہاب جعفری) قابل ذکر ہیں۔ اس میں جہاں ادبیات سے متعلق مستند ماخذ ہیں وہیں اردو صحافت کے تعلق سے بہت سے مراجع بھی ہیں۔ رسالہ اردو (اکتوبر1935) میں مولوی عبد الرزاق ارشد کا ایک مضمون آدھی صدی پہلے کے اردو اخبار شائع ہوا ہے۔ جس میں چوتینس اخبار کا ذکر ہے۔ اسی طرح رئیس احمد جعفری کا ایک مضمون اکتوبر 1945 کے شمارے میں ہے جس میں پچہتر اخبارات کا ذکر ہے۔ ضیاءالدین احمد برنی کے مضمون ”صوبہ ممبئی کے اردو، فارسی، عربی اخبارات“ میں اکہتر اخبارات کا تبصرہ ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالحق کے مضمون ”مدراس کے اردو اخبار“ (مطبوعہ اپریل 1941) میں پچاس اخبارات کی تفصیل ملتی ہے۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کا بھی ایک مضمون ’اب سے آدھی صدی پہلے کے اردو اخبار‘ (اپریل1935) میں شائع ہوا ہے جس میں تقریباً 65 اخبارات کا ذکر ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو اردو صحافت کی تحقیق میں بھی یہ رسالہ ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہمایوں‘، لاہور
1921 میں لاہور سے میاں بشیر احمد بی اے آکسن بیرسٹر ایٹ لا نے اپنے والد جسٹس محمد شاہ دین ہمایوں کی یاد میں اس کا آغاز کیا تھا۔ اس میں علمی، ادبی، تمدنی، اخلاقی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ بزم ہمایوں، جہاں نما، محفل ادب، آپ اور ہم جیسے عنوانات کے تحت تخلیقات شائع کی جاتی تھیں۔ افسانے اور شاعری کا بھی وافر حصہ تھا۔ اس رسالے میں بھی کئی اہم مضامین شائع ہوئے جن میں تھامس گرے کے کلام پر تنقیدی نظر (محی الدین قادری زور)، ہندی شعرا کا تخیل(سدرشن) قابل ذکر ہیں۔ محفل ادب میں معاصر رسائل سے مضامین، منظومات اور دیگر اندراجات کے اقتباسات اور انتخابات شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے مقاصد کے تحت ایک اہم بات یہ درج تھی کہ”دل آزار تنقیدیں اور دل شکن مذہبی مضامین شائع نہیں کیے جائیں گے“ اس کی ادارت سے علامہ تاجور نجیب آبادی کی وابستگی رہی ہے۔ یہ بھی بر صغیر کا ایک معیاری اور معتبر رسالہ تھا۔ آل احمد سرور نے اردو ادب علی گڑھ (جنوری۔اپریل 1951) میں ہمایوں سالگرہ نمبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: ”ہمایوں نے اردو زبان و ادب کی بڑی خدمت کی ہے اور ہمیشہ سنجیدہ اور متین افکار کی آئینہ داری کی ہے۔“ نورالہدیٰ نے اس مجلے کے بارے میں مکمل تفصیلات اپنے مضمون [مطبوعہ فکر و تحقیق،اپریل۔ جون 2005] میں درج کی ہیں۔ اس رسالے میں اردو ہندی چپقلش کے حوالے سے بشیر احمد، ڈاکٹر محی الدین، محمد حسین ادیب، تاجور نجیب آبادی، مولوی عبد العزیز، ناظر دہلوی، مولانا وحید الدین کے مضامین شائع ہوئے۔ ان مضامین کا تجزیہ عبدالرشید ارشد، ڈاکٹر محمد ارشد نے مجلہ ہمایوں اور اردو ہندی چپقلش کے عنوان سے اپنے مضمون میں کیا ہے جو جہانِ تحقیق میں شائع ہوا ہے۔ اسی طرح ہمایوں میں آثار قدیمہ کے موضوع پر مولوی عبد اللہ، بشیر احمد، تاجور نجیب آبادی، تمکین کاظمی، حسن نظامی، دیوانہ بریلوی، مبارک علی، مقبول رحمان، منصور احمد کے مضامین شائع ہوئے۔ جن میں نشاطباغ، جہاں گیر کا مقبرہ، دکن کے آثارِ قدیمہ، ہمایوں کا مقبرہ، چین کی دیوارِ عظیم، شالامار باغ، مصر کے آثارِ قدیمہ، اہرام مصری اور توتنخ امین کا مقبرہ، مقبرہ زبیدہ، تاج، موہن جودارو، ٹیکسلا وغیرہ جیسے مضامین ہیں جن کا تجزیہ عبد الرسول ارشد نے ہمایوں اور آثار قدیمہ کے عنوان سے کیا ہے۔
نگار آگرہ، لکھنؤ/ بھوپال/کراچی
فروری 1922 میں نگار کا اجرا ہوا۔ رسالہ کے سرورق پر ’مجلہ علمیہ و ادبیہ‘ درج ہوتا تھا۔ رئیس التحریر نیاز فتح پوری تھے اور معاون مدیر کی حیثیت سے مخمور اکبرآبادی کا نام شائع ہوتا تھا۔ علامہ نیاز فتح پوری نے ترکی کی انقلابی اور رومانی شاعرہ نگار بنت عثمان سے متاثر ہوکر اس کا نام نگار رکھا تھا۔ یہ اردو کا ایک اہم رسالہ تھا۔ اس مجلے کا ارتکاز اہم ادبی، تہذیبی، مذہبی، تاریخی اور تمدنی مباحث و مسائل پر تھا۔ اس میں ایک کالم ”مالہ اور ماعلیہ“ کے عنوان سے تھا۔ جس میں شعری محاسن و معائب پر بیباک گفتگو ہوتی تھی۔ اب یہ سلسلہ معدوم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اصلاح سخن کی روایت ختم ہو گئی۔ اس رسالے نے بھی ادبی ذہنوں کو متاثر کیا۔ خاص طور پر نگار کے ادبی اور مذہبی مباحث سے وہ جمود ٹوٹا جو ادبی اور مذہبی معاشرے پر طاری تھا۔ علامہ نیاز فتح پوری نے نگار کو عالمانہ اور دانش وارانہ رنگ و روپ عطا کیا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسالہ صرف ادبی موضوعات اور مباحث پر مرکوز ہو بلکہ نگار میں تمام علوم و فنون کا استقصا ان کا مطلوب و مقصود تھا۔ اسی لیے انھوں نے اپنے اداریے میں لکھا تھا:
”جس وقت ترتیب نگار کے فرائض پر میں نے غور کیا تو ضروریات زمانہ دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ تو میں نے پہلے ہی سانس میں کر لیا کہ نگار کو جس کے نام میں ہرچند ادبی پہلو زیادہ روشن ہے اور میں اسے لطیف کی رعایت سے بہرحال قائم رکھنے پر مجبور ہوں۔ خالص ادبی رسالہ تو نہ بننے دوں گا کیوں کہ ادب کی وہ مانگ جو چند سال پیشتر تھی باقی نہیں رہی اور میں نے بھی (جو اپنی گزشتہ زندگی کی بہت سی چاندنی راتیں اسی موضوع کی خلوت میں بسر کر چکا ہے) اب اس کو مناسب نہیں سمجھا کہ جو تفریح تماشہ کرنے والوں کی کثرت سے اس درجہ پامال اور عام ہو چکی ہے اسے پھر پبلک کے سامنے پیش کروں۔“
’عناصر نگار‘ کے تحت علامہ نیاز فتح پوری نے یہ بھی لکھا تھا کہ: ”میں یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ نگار ہمیشہ زندہ رہے گا یا یہ کہ اس کی حیات بہت طویل ثابت ہوگی۔ تاہم یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ جب تک اس رسالہ کی تحریر میرے سپرد ہے اس وقت تک اس کو صرف اس وجہ سے بند نہ ہونے دوں گا کہ مضامین فراہم نہیں ہوتے یا لکھنے والے توجہ نہیں کرتے کہ عام طور پر یہ دقت بھی محسوس کی جاتی ہے۔ اب رہا مادی سوال سو اس کے متعلق میرا عقیدہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہندوستان میں بھی جہاں عام طور سے فقدانِ ذوق کی شکایت کی جاتی رہی ہے ایک ماہوار رسالہ اپنی زندگی قائم رکھنے کے لیے یقینا کافی توجہ طلب کر سکتا ہے اگر وہ حقیقتاً اس کا اہل ہے۔“
نگار میں اسلامیات، اقتصادیات، حیاتیات، روحانیات، مذہبیات، نفسیات، فلکیات، لسانیات، سائنس، تنقید، تاریخ، تعلیم، تقویم اور تذکروں سے متعلق مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے خاص عنوانات ملاحظات، باب الاستفسار، باب الانتقاد، مالہ و ما علیہ، باب المراسلہ والمناظرہ رہے ہیں۔ عالمی ادبیات سے متعلق بھی اس میں مضامین کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ عربی شعرا اور ادبا پر بھی بہت وقیع مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں ابوالعتاہیہ کے حالات (عبدالصمد الہ آبادی) ابوالعتاہیہ (سید محمد جعفر حسین) ابوالعلاء معری (نیاز فتح پوری) ابوالعلاء معری اور رسالۃ الغفران (سید احتشام حسین ندوی) ابونواس اور ان کی شاعری (جلیل الرحمن اعظمی) عنترہ بن شداد (مولوی محمد علی) عین الزماں طرابلسی (سید جلال کلکتہ) مجنوں اور اس کا دیوان (جلیل الرحمن اعظمی) متنبی (ظہیر عالم) متنبی (نیاز فتح پوری) آنسہ می عندلیب مصر (عبدالحمید نعمانی) ابوالعلاء معری پر ہندوستان فلسفہ کے اثرات (سید احتشام احمد ندوی) عربوں کا فن تنقید (شوکت سبزواری) شامل ہیں۔
آثار قدیمہ کے تحت بھی اس میں بہت اہم مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ جن میں قلعہ گوالیار کی تاریخی اہمیت (عبدالرشید لشکر) دہلی کا پرانا قلعہ (شاد صابری) تاج آگرہ اور مسٹر ہگسلے (سید عبدالرحمن اعجاز) شاہان مغلیہ کے باغات (محمد حامد دہلوی) نقوش اجنتا کی داستان (نواب احمد) غارہائے اجنتا (نواب احمد) قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ سنسکرت اور ہندی ادبیات سے متعلق بھی کئی اہم مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ جن میں تلسی داس (ناطق مالوی) رامائن و مہابھارت (نیاز فتح پوری) فطرت نگار تلسی کا ناصحانہ کلام (اعظم کریوی) کبیر داس (نیاز فتحپوری) شاعرہ دیوی رانی میرابائی (عبدالجلیل) ہندی اور عربی کے ہم معنی اشعار (محمد امین عباسی) ہندی کا مشہور حسن نواز شاعر مشہور بہاری (اعظم کریوی) ہندی کی بعض نازک تشبیہات (نیاز فتح پوری) ہندی کی عشقیہ شاعری (ابو سعید بزمی) رامائن پر ایک تحقیقی نظر (نواب سید حکیم احمد) جلوۂ کرشن (ہوش بلگرامی) اہم ہیں۔ خاص طور پر نگار کے خصوصی شمارے مومن نمبر، غالب کی شوخیاں نمبر، معاصر غزل نمبر، جدید شاعری نمبر، ہندی شاعری نمبر، عورت اور فنونِ لطیفہ نمبر، کتابیات تحقیق نمبر، اصنافِ سخن نمبر، تنقید نمبر اور معاصر غزل گویوں پر تنقید نمبر، نظیر نمبر، حسرت نمبر کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ ان تمام خصوصی شماروں میں بے پناہ علمی و ادبی ذخیرہ محفوظ ہے۔ ڈاکٹر عطا خورشید نے ’نیاز فتحپوری کا نگار: وضاحتی اشاریہ 1922-1966‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جس میں نگار کے جملہ مشمولات کی تفصیلات درج ہیں۔
جامعہ، علی گڑھ/دہلی
1923 میں علی گڑھ سے رسالہ جامعہ کا اجرا ہوا جس کے مدیر نور الرحمن تھے۔ اس میں تعلیمی و تدریسی مضامین کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی مگر سیاسیات، تہذیب، تاریخ، شخصیات، مذہب کے علاوہ ادب میں نثری اور شعری اصناف پر مشتمل مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس رسالے میں معاشیات سے متعلق اہم مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ اس رسالے کا اپنا الگ علمی اور ثقافتی منہج تھا۔ اس کے مشمولات پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں اعلا علمی اور ادبی ذوق کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ تاریخ کے ذیل میں ہندو اور آریہ کی وجہ تسمیہ (اکبر شاہ نجیب آبادی)، آثارِ عرب (ابراہیم عمادی)، آثار فراعنہ مصر (سعید انصاری) جہاں بہت اہم ہیں وہیں اردو زبان کے تعلق سے اردو رسم الخط (مولانا اسلم جیراجپوری)، اردو رسم الخط (محی الدین قادری زور)، قومی زبان (مولوی بدرالحسن) ہندوستان کی مشترکہ قومی زبان (خطبہ بابو راجندر پرشاد) قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح سرقہ و توارد (سید شاکر حسین نکہت سہسوانی)، اور شمالی ہندوستانی کے دیہات کی زبان (سید مطلبی فرید آبادی)، عربی زبان عصر جاہلی میں (عبد العلیم احراری) بہت اہم ہیں۔ اس رسالے کا معیار اس لیے بھی بلند تھا کہ اس کی ادارت سے اسلم جیراجپوری، یوسف حسین خان، ڈاکٹر عابد حسین، نور الحسن ہاشمی، پروفیسر محمد عاقل، پروفیسر نجم حنفی جیسی شخصیات کی وابستگی رہی ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ خلیل نے رسالہ جامعہ کا تنقیدی اشاریہ (1923تا1947) تیار کیا ہے جو شائع ہو چکا ہے۔
نیرنگ خیال، لاہور
جولائی1924میں لاہور سے حکیم محمد یوسف حسن کی ادارت میں ’نیرنگ خیال‘ جاری ہوا۔ ادبی صحافت میں اس نے بہت سارے نئے تجربے کیے. خاص طور پر سال ناموں کی اشاعت اس کا ایک بڑا کارنامہ ہے، یہ رسالہ بھی اپنے موضوعات اور مشمولات کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ اس رسالے میں سوانح، شخصیات کے علاوہ دیگر شعری و نثری تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس کے جو خصوصی شمارے ہیں ان سے ہمارے قارئین کو کچھ نئی جہتوں اور زاویوں کا علم ہوا. ان میں مختصر افسانہ نمبر، چینی افسانہ نمبر، ماہیا نمبر اور ایڈیٹر نمبر قابل ذکر ہیں۔ نیرنگ خیال کا ایک شمارہ ”نگارش لطیف“ کے نام سے جون 1932میں شائع ہوا جو خواتین قلم کاروں پر مشتمل تھا۔ اس میں نذر سجاد حیدر، سکندر خانم، زہرہ، شیو رانی(بیگم پریم چند)، نکہت شیروانیہ، خدیجہ بیگم، خورشید اقبال، حیا بیگم(مدیرہ خاتون مشرق میرٹھ) مس حجاب اسمعٰیل، یشودا دیوی (بیگم کنہیا لال کپور) کی نگارشات شامل ہیں۔ یہ شاید واحد ایسا رسالہ تھا جس نے علامہ اقبال کی زندگی میں ہی 1932میں اقبال نمبر شائع کیا تھا۔ دیوان حنان خان نے ”نیرنگ خیال کا موضوعاتی اشاریہ“ کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جو 2007 میں شائع ہوئی۔
عالم گیر، لاہور
1924 میں حافظ محمد عالم کی ادارت میں اس کی اشاعت شروع ہوئی۔ شبلی بی۔کام بھی اس سے وابستہ تھے اور نجمی نگینوی کا بھی اس کی ادارت سے رشتہ رہا۔ تاریخی ناول نگاری کے فروغ میں اس مجلے کا کردار بہت نمایاں ہے۔ خاص نمبروں کے حوالے سے یہ رسالہ بہت مقبول رہا ہے۔ اس کے اداریے میں بھی اس کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ نومبر 1930 کے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ: ” یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ عالمگیر کے خاص نمبرکئی سال سے ملک کے تمام دیگر خاص نمبروں کے لئے بہمہ وجوہ قابل رشک ثابت ہورہے ہیں۔“
اور اشتہار میں بھی یہ درج کیا گیا ہے کہ: ”عالمگیر واقعی عالمگیر ہے اور اس کا خاص نمبر واقعی خاص نمبر ہے۔“
فہرست کے صفحہ پر نمایاں طور پر یہ عبارت درج ہوتی تھی کہ: ”عالمگیر ہندوستان بھر کے علمی ادبی (باتصویر) رسائل میں سب سے زیادہ چھپتا ہے۔“
عالمگیر کے کئی خاص نمبر شائع ہوئے جن میں عید، عید قرباں نمبر، تاریخ نمبر قابل ذکر ہیں۔ اس میں مقالات مدیری کے عنوان سے ایک سلسلہ تھا جو کافی اہم تھا۔ تحقیق و تصحیح اور رفتار زمانہ کے عنوان سے شبلی بی۔کام کالم لکھا کرتے تھے جس میں زیادہ تر گفتگو زبان کے معیار کے حوالہ سے ہوتی تھی۔ اس کے چند اہم مضامین میں غالب اور اس کے چند شعر (عامر عثمانی۔مئی1937)، کیا اکبر اَن پڑھ تھا (نور احمد خاں فریدی۔جنوری۔فروری1950)، قدیم ہندوستان کی عورت (یوسف علی خان۔اگست1941) امرءالقیس کے حالات زندگی (عبدالرحمن اصلاحی مستقیمی۔ اگست1941) شاہانِ اودھ کا آخری چراغ (عزیز گورکھپوری۔ ستمبر 1941) مستشرقین کی عربی علوم سے دلچسپی (کمال عظیم آبادی۔اگست1941) دیوار چین (حکیم محمد ابراہیم۔اکتوبر1936)، خسرو باغ الہ آباد (عبدالسبحان ناظر الہ آبادی۔نومبر1925) قابل ذکر ہیں۔
عالمگیر کے مضامین بہت اہم اور مفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے ایک اداریے میں یہ لکھا گیا تھا کہ: ”شمارۂ حاضرہ میں تمام مضامین افادی حیثیت سے بہت کامیاب ہیں۔ ہمیں اس حقیقت صحیحہ کے اعلان میں تامل نہیں کہ عالمگیر کے مضامین حقیقی معنوں میں حیات آموز ہوتے ہیں۔“ (اکتوبر۔1936)
شمع، آگرہ
1925 میں آگرہ سے ماہنامہ ’شمع‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس رسالہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی ادارت سے روشن خیال دانشور اور ممتاز مورخ پروفیسر محمد حبیب (آکسن) اور حسن عابد جعفری (آکسن) کی وابستگی تھی۔ ’شمع‘ کا مقصد یہ تھا کہ یہ مجلہ محرک خیالات ثابت ہو اور لوگوں میں اس سے غور و فکر کی تحریک پیدا ہو۔ بیش قیمت علمی اور ادبی سرمائے کی بازیافت بھی اس کا مقصد تھا۔ اس میں تاریخ، فلسفہ، سیاسیات، سائنس اور مذاہب کے متعلق مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ رسالے کے اغراض و مقاصد کے تعلق سے بڑی اہم بات یہ لکھی گئی ہے کہ:
”ادب اردو میں ایک بڑا نقص ہے جو بدقسمتی سے ہنوز موجود ہے وہ یہ کہ زبان کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنانے کے بجائے محض زبان کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔“
یہ رسالہ بہت سے اہم تاریخی اور تہذیبی، تمدنی معلومات کی فراہمی میں بہت مفید ثابت ہوا۔ رسالہ ’معارف‘ اعظم گڑھ میں اس کے مشمولات کی تعریف کی گئی اور یہ اعتراف کیا گیا کہ:
”لائق ایڈیٹروں کے متعلق معلوم ہے کہ رسالہ کا بلند معیار ان کے پیش نظر ہے۔ یہ یقینا خوشی کی بات ہے کہ اب اردو رسائل کا وہ دور ختم ہو رہا ہے جب ایڈیٹری کے لئے صرف ’جمع و ترتیب‘ کی صلاحیت کافی سمجھی جاتی تھی۔ اب پروفیسر اقبال، پروفیسر شفیع، پروفیسر محمد حبیب اور حسن عابد جعفری کا اردو رسالوں کی ترتیب و اشاعت میں حصہ لینا ہماری زبان کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔“
(بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت، ص: 178-179)
سہیل، علی گڑھ
جنوری 1926 میں علی گڑھ سے سہیل کا اجرا ہوا۔ یہ انجمن اردوئے معلی مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کا سہ ماہی علمی رسالہ تھا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی علیگ اس کے مدیر تھے۔ مجلہ سہیل کے اغراض و مقاصد میں ایک خاص بات یہ درج تھی کہ ”سہیل کو ہر شاعر یا نثر نگار کی تالیف قلوب کا ذریعہ نہ بنانا“ جب کہ آج عموماً زیادہ تر رسائل کی روش تالیف قلوب کی ہے۔ اسی وجہ سے معیاری تخلیقات کے فقدان کی شکایت عام ہوچکی ہے۔ سہیل کا معاملہ ذرا الگ طرح کا تھا کہ اس کی ادارت سے وابستہ پروفیسر رشید احمد صدیقی بالغ نظر تھے اور علوم و ادبیات پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔ اس لیے سہیل میں قیمتی اور وقیع مضامین ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ مشمولات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا معیار کافی بلند تھا۔ سہیل میں ”اردو رسم الخط اور اردو کی اشاعت (سید طفیل احمد)، داستان اردو (نصیر حسین خیال)، عہد مغلیہ میں ہندی زبان کی سرپرستی (سید معین الدین شاہجہاں پوری)، اردو کے اسالیب بیان (سید محی الدین قادری زور)، مثنوی بوستان خیال (احسن مارہروی)، اردو کی ترقی میں ہندوؤں کا حصہ (عبدالشکور ایم اے علیگ)، تاریخ گوئی کی ایجاد و ترقی (سید ضامن علی ترمذی)، ترتیب کتب خانہ و تقسیم علوم (سید کامل حسین)“ جیسے مضامین شائع ہوئے۔ سہیل پہلے سہ ماہی تھا بیچ میں توقف اور تعطل کا شکار بھی رہا جس کی وجہ سے اسے سالنامہ میں تبدیل کرنا پڑا۔ جنوری 1936 کا شمارہ سالنامہ کے طور شائع ہوا۔ جس میں معاون مرتب کے طور پر آل احمد سرور کا نام درج تھا۔ اس میں بہت سے اہم مضامین شائع ہوئے جن میں مصوری کے میلانات نو (ڈاکٹر سلیم الزماں علیگ)، اناتول فرانس کا فلسفۂ زندگی (اشفاق حسین)، اردو اور اس کے تاریخی مآخذ (ابواللیث صدیقی)، حالی ایک محب وطن کی حیثیت سے (ڈاکٹر ذاکر حسین) حافظ کے کلام میں کلام (ڈاکٹر عبدالستار صدیقی) بہار اور اردو شاعری (معین الدین دردائی علیگ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی سالنامہ میں قومی ادب اور ہندی سمیلن کے عنوان سے ڈاکٹر اشرف کا ایک وقیع مضمون شائع ہوا جو اردو ہندی تنازع سے متعلق تھا۔ اس مضمون کے تعلق سے اداریے میں بہت ہی بیش قیمت باتیں تحریر کی گئی تھیں۔ رشید احمد صدیقی نے یہ لکھا تھا کہ: ”واقعہ یہ ہے کہ فی نفسہ زبان کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اور نازک نہیں جتنا اسے مذہبی اور جماعتی رنگ دے کر ناخوشگوار اور ناپسندیدہ بنا دیا گیا۔“ اردو کے تعلق سے مزید انھوں نے یہ بھی لکھا کہ: ”اردو قطعاً وہ زبان نہیں ہے جس کو ہندوستان میں کسی اعتبار سے اجنبی کہا جا سکے۔ نظر براں اردو کو بدیسی کہنا زبان کی تاریخ ترکیب اور فلسفہ سے بیگانگی کی دلیل ہے۔“ اداریے میں پروفیسر وحیدالدین سلیم کی کتاب وضع اصطلاحات کے حوالہ سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اردو ان زبانوں میں شامل ہے جو سنسکرت سے مشتق ہیں۔“ اسی اداریے میں اردو زبان میں آریائی اور سامی عناصر کے تناسب کا جائزہ لیا گیا اور فرہنگ آصفیہ کے الفاظ کے جدول کے ذریعہ میزان کل نکال کر یہ واضح کیا گیا کہ اردو ہندی نژاد ہے۔
بہارستان، لاہور
1926 میں بہارستان کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے مدیر مسؤل اختر شیرانی اور معاون رفیعی اجمیری تھے۔ سرِ ورق پر یہ شعر ؎بنام شاہد نازک خیالاں
عزیز خاطر آشفتہ حالاں
درج رہتا تھا۔ یہ ادارے کے مطابق اردو علم ادب کی دل چسپیوں کا ماہوار مجموعہ تھا۔ اس میں بہت سی اہم قیمتی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ خاص طور پر اختر شیرانی کے ناول اور اشعار شائع ہوتے تھے۔ یہ بھی ایک باتصویر رسالہ تھا۔ اسی رسالے کے شمارہ اکتوبر میں تحقیقِ قصہ پدمنی (مولانا احتشام الدین صاحب حقی دہلوی، ایم۔ اے۔ علیگ) شائع ہوا۔ اس کے علاوہ اختر شیرانی کا ایک مسلسل ناول ”دنیائے شباب“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس کا پہلا باب دہلی کی ایک سنہری رات تھا۔ صید و شکار کے تحت جہانگیر کا آخری شکار (اختر شیرانی)، ایک افغان شاعرہ یا داستان مستورہ، ایک ملعون پیغمبر ڈرامہ (اختر شیرانی) شائع ہوئے۔ ’حشر جذبات‘ کے عنوان سے حضرت آغا حشر کاشمیری کی غزل شائع ہوئی۔ جس کا ایک شعر بہت مشہور ہوا:
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
’در یگانہ‘ کے عنوان سے مرزا یاس یگانہ لکھنوی اور ’نوائے مضطر‘ کے عنوان سے افتخار الملک افتخار الشعرا خان بہادر حضرت مضطر خیر آبادی کی شاعری شائع ہوئی۔ اسی شمارے میں حضرت غریب جہاں آبادی کا ترجمہ کردہ ایک ترکی افسانہ ”اسیر حرم“ شائع ہوا۔ دسمبر 1926میں مصر کے آثار قدیمہ(حفیظ الدین شملہ) اور فرعون طوطخ ایمن کا مقبرہ کے عنوان سے مضامین شائع ہوئے۔ یہ رسالہ ادبی حلقے میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے بارے میں ضیاءالملک، ملائے رموزی جرنلسٹ نے یہ لکھا تھا کہ”بہارستان کا ہر صفحہ جہاں جمال فطرت کی گلریزیوں کا ایک جلوہ پرور منظر ہے وہاں وہ اختر و رفیعی کے عزم و ثبات عمل کا قابل تقلید اور رجسٹری شدہ قبالہ بھی ہے۔“ انھوں نے اختر شیرانی کو یہ بھی لکھا کہ ”حقیقت میں بہارستان آپ کی سنجیدگی، سلامت ذوق اور زندہ دلی کا عدیم النظیر ثبوت ہے۔“
ادبی دنیا، لاہور
1929 میں علامہ تاجور نجیب آبادی کی ادارت میں ادبی دنیا کا اجرا ہوا۔ اس کی پیشانی پر ’مشرق و مغرب کے قدیم و جدید ادبیات کا ماہوار مرقع‘ کی عبارت درج تھی۔ ڈائریکٹر کی حیثیت سے آنریبل جسٹس عبدالقادر اور بہ طور مدیر تاجور نجیب آبادی کے نام ہیں۔ اس رسالہ میں افتتاحی حصہ، تعلیمی حصہ، تنقیدی حصہ، علمی حصہ اور تاریخی حصہ کے علاوہ نظمیں، غزلیں، دنیائے ادب جیسے عنوانات کے تحت تخلیقات کی اشاعت ہوتی تھی۔ مولانا تاجور نجیب آبادی ’حال و قال‘ کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے۔ اس مجلہ سے منصور احمد، حفیظ ہوشیار پوری، عاشق حسین بٹالوی میراجی، قیوم نظر، حامد علی خان، عبداللہ قریشی کی بھی ادارتی وابستگی رہی ہے۔ 1944 میں مولانا صلاح الدین احمد نے جب اس کی ادارت سنبھالی تو اس کا رنگ و روپ بھی بدل گیا۔ انور سدید نے مولانا صلاح الدین احمد اور ادبی دنیا کے حوالے سے بہت اہم بات لکھی ہے:
”مولانا صلاح الدین احمد کے نزدیک ادب تعبیر حیات بھی تھا اور زندگی کی تفسیر بھی، یہ روشنی اور توانائی بھی فراہم کرتا تھا اور لطافت، بہجت اور مسرت بھی۔ انھوں نے ادبی دنیا کو اپنے انھی تصورات کا نقیب بنایا اور پختگی کردار نے اسے زندہ رکھا۔“ (بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔17)
ادبی دنیا نے اپنی الگ شناخت قائم کی اور کئی نسلوں کی تربیت میں اس رسالے نے اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ادبی صحافت کی تاریخ میں ادبی دنیا کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خصوصی شماروں میں ڈراما نمبر، اقبال نمبر اور وحشت، کلکتوی نمبر قابل ذکر ہیں۔
ساقی، دہلی/کراچی
1930 میں اردو کے اولین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور واقعات دارالحکومت کے مصنف بشیر الدین احمد کے بیٹے شاہد احمد بی۔ اے آنرز دہلوی نے ساقی کے نام سے ایک رسالہ دہلی سے شائع کیا جو تقسیم ہند کے بعد کراچی سے شائع ہونے لگا۔ اس کا مقصد شاہجہاں آباد کی زبان و ثقافت کا تحفظ تھا۔ دیوان حافظ سے فال نکال کر اس کا نام ساقی رکھا گیا تھا:
جہانِ فانی و باقی فدائے شاہد و ساقی
رسالہ کے لوح پر اقبال کا یہ شعر درج ہوتا تھا:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف کرم اور
مشمولات کو جرعات کا عنوان دیا گیا تھا اور اداریہ نگاہ اولین کے نام سے تحریر کیا جاتا تھا۔ اس رسالے کا امتیاز وہ موضوعات، مسائل اور کالم ہیں جنھیں قارئین بے حد پسند کرتے تھے۔ جمیل جالبی نے شاہد احمد دہلوی نمبر کے اداریے ’نگاہ اولیں‘ میں لکھا ہے کہ ”ساقی کا شمار اردو کے کثیر الاشاعت ماہنامہ میں ہوتا تھا۔ اس کا حلقہ اثر کوہ ہمالہ کی چوٹیوں سے لے کر راس کماری تک پھیلا ہوا تھا اس کے سال نامے اور خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے۔“
ساقی نے افسانہ نمبر، دہلی نمبر، میر ناصر علی نمبر، عظیم بیگ چغتائی نمبر، جاپان نمبر، راشدالخیری نمبر شائع کیا۔ جون 1964میں اس کا ناولٹ نمبر شائع ہوا جس میں احسن فاروقی کا مضمون ناولٹ اور طویل افسانہ کے علاوہ جو ناولٹ شائع ہوئے ان میں ’اور ریکارڈ بجتارہا‘ (محمد احسن فاروقی)، خیراتی اسپتال (شوکت عثمان ترجمہ سعد منیر)، طوفان حوادث (پروین سرور)، سفید عورت کالا آدمی (رشیدہ رضویہ)، ایک شمع رہ گئی تھی (فرحت انوار)، شیطان اکیلا ہے(تقی مدرسی ترجمہ حسنین قادری) قابل ذکر ہیں۔ 1960 کا سال نامہ افسانہ نگار خواتین کے لیے مختص تھا۔ جس میں نمائندہ خواتین کے افسانے شائع کیے گئے۔ پروفیسر محمد عبداللہ نے ساقی کا نذر الاسلام نمبر بھی مرتب کیا تھا۔ اگست 1934 کے شمارے میں پروفیسر احمد علی کا ایک وقیع مضمون ’ادبی چوری‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے، اس میں انھوں نے غالب کے ایک شعر اور پوپ کی نظم کی سطروں میں مماثلت تلاش کی ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے حالی کا یہ شعر بھی درج کیا ہے۔
پردے میں شب کے کوئی شاعر جو چور ہے
پھرتا ٹٹولتا ہوا مانند کور ہے
انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ”اردو کی موجودہ ادبی دنیا چوریوں سے بھری ہوئی ہے۔“ مگر انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ”اوروں کے تجربے، مشاہدات، خیالات سے استفادہ کرنا یا اثر قبول کرنا چوری نہیں کہلائے گا کیوں کہ ”اگر چوری اس کا نام ہوگا تو سب سے بڑا چور شیکسپیئر نکلے گا کہ اس نے اوروں کی کہانیوں کو لے کر اپنے ڈرامے بنائے مگر شیکسپیئر نے صرف اوروں سے ڈھنچر لے لیے اور ان میں جان خود ڈال دی، اگر وہ یہ ڈھنچر اوروں سے نہ لیتا تو ممکن تھا کہ آج انگلستان کا بلکہ دنیا کا ادب غریب ہوتا۔“
سرقہ بہت گمبھیر مسئلہ ہے اور یہ وبا ان دنوں عام ہے۔ خاص طور پر رسائل کے مدیران کو اس تعلق سے بہت سی دقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے اس مضمون پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کہی ہے ”پروفیسر صاحب نے مدیرین رسائل کو خاص طور سے متوجہ کیا ہے کہ ایسے مضامین رسائل میں شائع نہ کیے جائیں جن کے ماخذ کا حوالہ نہ دیا گیا ہو۔ یہ امر دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن العمل ہے۔ ایک مدیر سے یہ توقع کسی طرح نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ دنیا بھر کے لٹریچر سے کماحقہ واقف ہو۔۔۔۔ مدیرین کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ہر مضمون کا ماخذ تلاش کر لیں۔ اگر مضمون نگار حضرات ہی خیانت سے باز رہیں تو ہماری صحافت سے یہ بےاعتدالیاں اٹھ سکتی ہیں ورنہ مدیرین کے روکے تو یہ سیلاب رکنا نہیں۔“ (نگاہ اولیں، اگست1934)
ساقی کا ارتکاز افسانے پر زیادہ تھا اس لیے اس میں افسانے کے علاوہ مغرب کے شاہ کار افسانوں کے تراجم شائع ہوتے تھے۔ اس تعلق سے ساقی کا تراجم نمبر قابل ذکر ہے۔ ریزۂ مینا کے نام سے ساقی نے افسانوں کا ایک انتخاب شائع کیا تھا اور اسی رسالہ میں منظوم افسانے بھی شائع کیے گئے۔ ساقی میں ممتاز خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کا ایک انتخاب بھی شائع کیا گیا تھا۔ جس میں 46 افسانہ خواتین کی تخلیقات شامل تھیں۔ اردو افسانہ کے فروغ میں ساقی کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز نے ’اردو افسانہ کے فروغ میں ساقی کا کردار‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔ تاج بیگم فرخی نے اپنی کتاب ’شاہد احمد دہلوی: شخصیت فن“ (اکادمی ادبیات، پاکستان۔2006) میں ساقی کے دہلی اور کراچی کے ادوار اور مشمولات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: افسانوی ادب کے فروغ کی طرح علمی، تنقیدی اور تحقیقی مباحث کے فروغ میں ساقی کراچی اور شاہد احمد نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ستمبر 1948سے اپریل 1967 تک ساقی میں ادب، علم، تاریخ، ثقافت، تہذیب، روایت اور جاذبیت کی دنیا آباد رہی جو ادبی تاریخ کا زریں باب ہے۔
ماہنامہ شاعر، آگرہ/بمبئی
1930 ہی میں شاعر کا اجرا جمعیت الشعرا ہند کے آرگن کے طور پر ’قصرالادب‘ آگرہ سے مرزا غالب کی یوم وفات پر ہوا۔ اس میں نگراں کے طور پر علامہ سیماب اکبر آبادی اور مدیر مسؤل کی حیثیت سے منظر صدیقی اکبرآبادی کا نام درج ہوتا تھا۔ اس مجلہ کا مقصد اصلاح فن اور تجدید قواعد تھا۔ اس کے مستقل عنوانات میں اصلاح سخن، شاعرانہ معلومات، محاکات، معیار، محاورات دہلی، عام فہم عروض تھے۔ اس کا زور مناظمہ پر تھا۔ مناظمہ کی ترویج کے عنوان سے ایک مضمون میں تغزل کے بجائے مناظمہ کی وکالت یوں کی گئی ہے:
”ہم چاہتے ہیں کہ مشاعروں سے زیادہ مناظموں کو رواج دیا جائے اور ان کے لئے ایسے عنوانات اور موضوعات بطور طرح قائم کئے جائیں جن کی ملک کو ضرورت ہو۔“
(بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت، ص۔185)
اس رسالے نے بھی ادبی ذہنوں پر اہم نقوش مرتب کیے۔ افتخار امام صدیقی کے دور ادارت میں شاعر کے نئے تجربات کی وجہ سے بھی اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔ اس کی اشاعت کا عرصہ بہت طویل ہے اور اس اشاعتی عرصے میں شاعر نے بہت سے خصوصی شمارے اور اعترافی گوشے شائع کیے اور اردو ادب کو نئے نئے موضوعات، زاویوں اور جہات سے روشناس کرایا۔ شاعر کے جن خصوصی شماروں کو عالمی سطح پر بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ان میں ہم عصر اردو ادب نمبر، عالمی اردو قلم کار خواتین نمبر، قومی یکجہتی نمبر، اقبال نمبر، ڈراما نمبر، افسانہ نمبر، منٹو نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
خیالستان، لاہور
1930 میں خیالستان کا اجرا ہوا۔ یہ حافظ محمود شیرانی کے صاحب زادے اختر شیرانی ٹونکوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر اعزازی مولانا سہا علیگ تھے اور معاون لطیفی بی۔اے۔ سرِورق پر اردو علم و ادب کی رنگینیوں کا ماہوار مجموعہ درج ہوتا تھا۔ اس میں تمام اصناف کا احاطہ کیا جاتا تھا۔ تصاویر بھی ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اتنا مقبول ہوا کہ نظیر لدھیانوی نے منظوم گلہائے تہنیت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:
خوشا قسمت کہ اس کو دیکھ پایا جلوہ گر ہم نے
بہت پہلے سنی تھی جس کی آمد کی خبر ہم نے
’خیالستان‘ کہتے ہیں زبانِ عشق میں اُس کو
بہت تعظیم حاصل ہے جہانِ عشق میں اس کو
تعجب کیا ہے گر صورت میں رنگینی زیادہ ہے
چمن پروردہ ہے آخر بہارستان زادہ ہے
تعجب کیا ہے گر حور و ملک بھی ہیں اسیر اس کے
ادیب الملک اختر اور لطیفی ہیں مدیر اس کے
خیالستان کا ایک اہم عنوان ’خیالستان کی ڈاک‘ تھا۔ اس میں بہت ہی عمدہ قسم کے خطوط شائع ہوا کرتے تھے۔ بعض خطوط تو ایسے ہیں جن کے حوالہ سے اختر شیرانی نے لکھا تھا کہ:”اس کے ناظرین میں ایسے گرامی قدر افراد بھی ہیں جو ملک کے بیسیوں رسالوں کے ایڈیٹروں سے بہتر قوت نگارش اور سلیقۂ تحریر رکھتے ہیں۔“ اور حقیقت یہی ہے کہ بعض خطوط تنقیدی مضامین سے بھی زیادہ اہمیت اور افادیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ محترمہ طاہرہ حسنین کا ایک خط ملاحظہ فرمائیے:
”خیالستان ہر لحاظ سے قابل ہزار ستائش ہے۔ اگر ایک طرف اس کا دامن گلہائے تخیل سے مشام جاں کو رشک ہزار گلستاں اور جنت بداماں کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف علمی و ادبی جواہر پارے دیدۂ ظرف نگاہ کو دعوت تحقیق و تدقیق دیتے ہیں۔ آپ کی ادب کوشیاں، نکتہ نوازیاں جو لیلائے ادبِ اردو کے قالب بے جان میں سامان دم مسیح فراہم کر رہی ہیں۔ بے پایاں جوش و مسرت کے ساتھ مبارک باد کی طلب گار ہیں۔ دعا کرتی ہوں کہ رسالہ روز افزو ترقی چمن بے زیاں اور نکہت آرائیاں، ندرت پیمائیاں اور جدت آفرینیاں ہر صاحب ذوق کے لئے جاں بخش اور روح پرور ثابت ہوئیں۔ دس روپے کی حقیر ترین رقم بطور نذر خیالستان کے لئے مرسل خدمت ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔“
خیالستان میں اختر شیرانی کی بہت سی اہم تحریریں شائع ہوئیں۔ جن میں ایک زندہ جاوید شاعر، ایلیٹ، ٹیگور ایران میں، خیام اپنے خدا کے ساتھ، سرسید کی غیرمعروف تالیف، شاعروں کی سرگزشت، سلطان ٹیپو کی شہادت گاہ، عشق کی پہلی غلطی، شکست سکوت، نئے ایران کا نیا بادشاہ قابل ذکر ہیں۔ اسی خیالستان میں مہر جی سندھیا والیِ گوالیار (نوشتہ نواب زادہ اے۔ایف۔ایم عبدالعلی) آغا حشر کاشمیری اور دھرمی بالک، (سردارموہن سنگھ دیوانہ) بوسوں پر شعرائے مغرب کی چند ملاحت آفریں رائیں (مترجمہ عظیم قریشی لدھیانوی) عارف کی آپ بیتی (اخذ و ترجمہ اختر شیرانی) تاریخ رزمیات ایران (پروفیسر نولدیکی کی اہم تصنیف، جرمنی سے ترجمہ: ڈاکٹر شیخ محمد اقبال پر)، عورت مختلف آئینوں میں (وحید گیلانی بی اے) جیسے مضامین شائع ہوئے۔ عورت مختلف آئینوں میں ایک اہم مضمون تھا۔ اس مضمون کے حوالہ سے یہ لکھا گیا تھا کہ: ”اس مضمون کی دوسری قسط کا وعدہ سلامتیِ سر کی شرط پر منحصر رکھا گیا ہے۔ یہ دل چسپ مضمون تھا جس میں عورتوں کے تعلق سے مختلف مشاہیر کے اقوال درج کیے جاتے تھے۔
ندیم، گیا،
ندیم کی اشاعت کا آغاز جون۔1931میں ہوا۔ نظرات میں سید ریاست علی ندوی نے لکھا تھا کہ: ”ندیم کا پہلا پرچہ 1931میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت صوبے سے کوئی دوسرا رسالہ نہیں نکلتا تھا۔“ (جنوری۔1941)
ندیم کی ترتیب و ادارت سے انجم مان پوری، سید ریاست علی ندوی اور سید حسن امام کی وابستگی رہی ہے۔ یہ ایک اہم رسالہ تھا جس میں مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر بیش قیمت تحریریں شائع ہوئیں۔ اس کے اداریے میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ: ”ندیم دو سال سے جاری ہے۔ اس عرصہ میں اس نے اردو ادب کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناظرین سے مخفی نہیں۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صوبۂ بہار کی زمین اردو اخبارات خصوصاً رسائل کے لئے موافق نہیں۔ یہاں کی آب و ہوا رسائل کو راس نہیں آتی لیکن ندیم نے اس خیال کی تردید کردی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر اچھے پیمانے پر استقلال کے ساتھ رسائل جاری کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کامیاب نہ ہوں۔ الحمدللہ ندیم دو سال سے جاری ہے اور نہایت کامیاب ہے۔“
ندیم کا بہار نمبر علمی اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس تعلق سے اداریے میں یہ لکھا گیا تھا کہ: ”ندیم کا بہار نمبر نکالنے کا خیال صرف اس غرض سے ہوا تھا کہ اردو ادب کے جواہر ریزے جو خاک پاک بہار میں پوشیدہ ہیں وہ دنیا کی نگاہوں کے سامنے آجائیں اور جوہر بھی نگاہیں دیکھ لیں کہ اُن کی آب و تاب ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے گوہر بیش بہا سے کسی طرح کم نہیں۔“ (جولائی۔اگست1933)
اور حقیقت یہی ہے کہ ندیم نے صوبۂ بہار کے قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اور انھیں گوشۂ گمنامی سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کے اداریے میں اس تعلق سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ: ”ندیم کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس میں صوبۂ بہار کے اُن انشاء پردازوں اور شعرا کو کھینچ کر باہر نکالا ہے جو گوشۂ خاموشی ہی میں مست تھے اور کسی طرح دنیا کے سامنے آنا پسند نہیں کرتے تھے۔ علم و ادب کے وہ جواہر ریزے جو اب تک پوشیدہ تھے اب ندیم کے صفحات پر درخشاں ہوکر دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔“ (جولائی۔اگست1933)
ندیم نے واقعی یہ فرض پورا کیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ:
بِہار کی بھی شرکت ہے بہار گلشن میں
لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے باغِ اردو کو
ندیم، گیا کے مضامین بہت وقیع اور افادی حیثیت کے حامل ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے خدا بخش لائبریری پٹنہ نے ندیم کا 1931 سے 1945 تک کا انتخاب شائع کیا ہے جو 17 جلدوں پر محیط ہے۔ جس کی موضوعاتی تقسیم یوں کی گئی ہے: ”بہار میں علوم ادبیات، تاریخ بہار، جمیل مظہری کی شاہکار ناولٹ اور اس کی قربان گاہ پر، شاد عظیم آبادی چند مطالعے، مکتوبات مشاہیر، سفرنامے، غالب اقبال اور ٹیگور، مشاہیر بہار۔1، مشاہیر بہار۔2، بہار میں علوم و ادبیات۔2، مشاہیر اردو ادب، علی گڑھ تحریک اردو ادب، ادبیات عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، تاریخ ہند اور ممالک غیر، اسلامی تہذیب و ثقافت۔1، اسلامی تہذیب و ثقافت۔2 اور تعلیمات“۔اس کے علاوہ ندیم گیا کے ا داریے کا انتخاب شذرات کے عنوان سے شائع کیا گیا۔
ندیم میں اردو ہندی تنازع سے متعلق بھی کئی اہم تحریریں ہیں۔ جن میں اردو ہندی ہندوستانی (قاضی محمد سعید) اردو ہندی تنازع پر ایک سرسری نظر (حاجی نبی احمد) صوبۂ بہار میں اردو ہندی کا تنازع (مولوی عبدالحق)، بھارتیہ ساہتیہ پریشد کی اصل حقیقت (مولوی عبدالحق)، انجمن ترقی ہندی کاشی (محمد مصطفی)، اردو ہندی (خواجہ عبدالرؤف عشرت)، اردو زبان و رسم خط کی موجودہ صورت حال کا جائزہ (مدیر ندیم)، رسم الخط (عبدالقدوس ہاشمی ندوی) اہم ہیں۔
شاہکار، لاہور
اپریل 1935 میں اردو مرکز لاہور کا علمی، تعلیمی و ادبی مجلہ شاہکار شائع ہوا۔ جس کے ایڈیٹر پروفیسر تاجور نجیب آبادی اور جوائنٹ ایڈیٹر ن م راشد ایم۔ اے تھے۔ اس کے شذرات میں ن م راشد نے لکھا تھا کہ”ہماری خواہش ہے کہ ہم شاہکار کے ذریعہ ایسا ادب اور ایسا فن پیدا کریں جو ہمارے نوجوانوں کی جمالی تشنگی کی تسکین کا باعث ہو۔“ مولانا تاجور نجیب آبادی نے لکھا تھا کہ”حسب ذیل عنوانات شاہکار میں مستقل ہوں گے۔ تاریخ ادب اردو، اردو ادب کے اہل طرز، تذکرہ معاصرین، موازنہ: ہر عہد کے حریفانِ کمال کا موازنہ۔ سوالات و جوابات: ہر قسم کے ادبی، فنی، معاشرتی، اصلاحی مسائل پر بحث ہوگی۔ سنیما: مشاہیر عالم، تعلیمی ادارات، تعلیمات، اصلاحات، تنویرات۔ بزم تحقیق: اردو ادب کے اہم مسائل پر اہل الرائے اور علمائے ادب کی بحث و تمحیص اور ان کے ناطق فیصلوں کی اشاعت۔“
’شاہکار‘ میں اسی نوع کے مضامین شائع ہوتے رہے اور یہ رسالہ ادبی حلقے میں بہت مقبول بھی ہوا۔ ڈاکٹر صفیہ مشتاق نے اپنے مضمون ’رسالہ شاہکار کا سرسری جائزہ‘ مطبوعہ تحقیق نامہ جولائی 2014 میں لکھا ہے۔”یہ ایک علمی، تعلیمی، فنی اور ادبی رسالہ تھا۔ شاہکار کی معیاری تحریروں نے شائقین علم و ادب کی تشنگی علم و ادب کو کسی حدتک پورا کرنے کی کوشش کی۔“
معیار، پٹنہ
1936 میں بانکی پور پٹنہ سے انجمن ترقی اردو ہند شاخ پٹنہ کا مجلہ معیار شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے مرتب قاضی عبد الودود اور معاون محمد شرف عالم آرزو جلیلی تھے۔ معیار میں علمی، تحقیقی، ادبی نوعیت کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھیں۔ معیار کے مستقل عنوانات معروضات، تعارف، آثار ادبیہ، غالب، افسانے، تمثیل، نظم، مقالات، مطبوعات جدیدہ، اقتباسات، محکمہ اور عالم ادب تھے۔ ایک عنوان بہار بھی تھا۔ جس میں صوبہ بہار سے متعلق ادبی، تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس میں زیاہ تر تحریریں قاضی صاحب کی ہوا کرتی تھیں۔ اس میں قاضی صاحب کا ایک افسانہ ”ہونہارنوجوان“ بھی شائع ہوا۔ رسالے کے مشمولات پر غور کرنے سے مدیر کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت وقیع اور قیمتی مضامین معیار میں موجود ہیں۔ عابد رضا بیدار نے معیار کی مکمل فائل کی عکسی اشاعت تجزیاتی اشاریے کے ساتھ خدا بخش لائبریری سے شائع کی ہے۔
معاصر، پٹنہ
نومبر 1940 میں شائع ہونے والا معاصر پٹنہ بھی ایک اہم علمی اور ادبی مجلہ ہے۔ اس کی ادارت سے ڈاکٹر عظیم الدین احمد، پروفیسر عبدالمنان بیدل اور پروفیسر کلیم الدین احمد کی وابستگی رہی ہے۔ اس میں معیاری تنقیدی مقالے، تحقیقی مضامین کی اشاعت کے علاوہ غیر مطبوعہ مخطوطات کا تعارف بھی پیش کیا جاتا تھا۔ اس کا موضوعاتی دائرہ وسیع تھا۔ اس میں نفسیات، لسانیات، سماجیات، تاریخ، تعلیم، تصوف، تذکرہ، تراجم، تنقید، سائنس، جغرافیہ، داستان، انشائیے اور منظومات وغیرہ شائع ہوا کرتے تھے۔ اردو زبان سے متعلق اس رسالے میں کئی اہم مضامین شائع ہوئے جن میں اردو رسم الخط کے تہذیبی رشتے (محمد حسن) اردو ہندی زبانیں (سید حسن عسکری) بناوٹی ہندی (عندلیب شادانی) ہماری زبان کے مختلف نام (سنت کمار سنہا) 1939 میں عدالتی زبان (قیام الدین احمد وغیرہ شامل ہیں۔ عربی اور فارسی ادب سے متعلق بھی اس میں مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ جن میں اہل یورپ اور عربی کی خدمت (سید احمد) بہار میں عربیت اور اس کے اثرات (مسعود عالم ندوی) حدیث عیسیٰ ابن ہشام (سید احمد) قابل ذکر ہیں۔ گمنام شعرا کے ذیل میں بھی کئی مضامین ہیں۔ جن میں ایک مضمون سید حسن عسکری کا ’اجاگر چند الفت‘ بھی ہے۔ اس میں سائنسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ اس ذیل میں ارتقائے فن پرواز پر ایک نظر (رضا احمد جعفری) شہاب ثاقب اور سنگفل (ح۔م۔اسلم) وقیع کہے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نور اسلام علیگ نے ’معاصر کا توضیحی اشاریہ‘ مرتب کیا ہے جو خدا بخش لائبریری، پٹنہ سے 2002 میں شائع ہوا۔ انھوں نے معاصر کے مندرجات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ: ”اس کے مشمولات انتہائی معیاری اور بلند پایہ ہیں۔ اس کے معیار کو اردو کے معدودے چند رسالے ہی پہنچ سکتے ہیں۔“
انھوں نے معاصر کی دو اہم خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے بقول:
”سب سے اہم خصوصیت تو یہ تھی کہ اس نے علاقائی ادب پر زور دیا۔ اس میں بہار کے غیر معروف ادیبوں اور شاعروں پر بالالتزام مضامین شائع ہوئے جن کی مدد سے صوبۂ بہار میں اردو ادب کی بہت سی گمشدہ کڑیوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے— معاصر کی دوسری خصوصیت مخطوطات کا تعارف ہے۔ اس کے ہر شمارے میں اہم مخطوطات پر تعارفی مضامین بالالتزام شائع ہوتے تھے۔“
معاصر کے قاضی عبدالودود نمبر کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ واقعی معاصر نے قاضی عبدالودود کی تحقیقی خدمات کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اس کا اشاعتی تسلسل برقرار نہیں رہا پھر بھی اس رسالہ نے بہت سے علمی اور ادبی مسائل و مباحث کو زندہ رکھا اور ارباب ادب کو ادبی علمی مباحث پر سنجیدگی سے غور فکر کی دعوت دی۔
خدا بخش لائبریری، پٹنہ نے عطا خورشید کی تقدیم کے ساتھ کلیم الدین احمد اور قاضی عبدالودود کے رسالہ معاصر کا ایک انتخاب شائع کیا ہے جس میں ادبیات، تاریخ، تحقیق و تحسین، زبان و صحافت، مخطوطات، افسانہ، نظمیں کے زیر عنوان معاصر میں موشوعہ تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔ اس میں تاریخ کے حوالہ سے لکھے گئے کچھ مضامین بہت بیش قیمت ہیں۔ جن میں عہد اسلامیہ میں دربھنگہ پر ایک نظر (الیاس رحمانی) انگلستان میں پہلا ایرانی سفیر (سید عزیز حیدر کجہوی) شگرف نامہ ولایت اور اس کا مصنف (سید عزیز حیدر) صبح صادق اور اس کا مصنف (سید عزیز حیدر) سید غلام حسین مصنف سیر المتاخرین کے حالات خودنوشت (سید عزیز حیدر) مرزا ابوطالب علی خاں لندنی اور ان کا سفر یورپ (سید عزیز حیدر) مرحوم حاجی پور (محمد عبدالحکیم) دیوان ہمایوں بادشاہ (حافظ شمس الدین احمد) قابل ذکر ہیں۔
اردو ادب، علی گڑھ
ارددو ادب کا اجرا جولائی 1950 میں علی گڑھ سے ہوا۔ یہ انجمن ترقی اردو ہند کا سہ ماہی رسالہ ہے جس کے پہلے مدیر آل احمد سرور تھے۔ رسالہ ہی میں یہ درج تھا کہ ”ہندوستان میں اپنی نوعیت کا پہلا تنقیدی رسالہ ہے جس میں علمی تحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں۔“ اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ”اردو ادب میں شائع ہونے والے مضامین مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔“
یہ واقعی ایک اہم رسالہ تھا جس میں شعری تخلیقات نہیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ مگر 1965 میں اردو ادب کا تخلیق نمبر شائع ہوا جس میں نظمیں، غزلیں، افسانے، انشائیے اور ڈرامے شائع کیے گئے۔ جنوری۔اپریل 1951 کے سخن ہائے گفتنی میں لکھا گیا تھا کہ: ”ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند کا یہ ادبی رسالہ تحقیق و تدقیق کے ساتھ تنقید کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھے۔ اور اس طرح ادبی ذوق کی رہنمائی اور صحت ذوق کی ترویج کا فرض انجام دے۔“
یہ بھی لکھا گیا کہ:
”بہت سے اشخاص نے رسالہ کے معیار کو سراہتے ہوئے ہمیں اس کی خشکی اور سنجیدگی کی طرف توجہ دلائی ہے اور منہ کا مزہ بدلنے کے لیے نظموں، غزلوں اور افسانوں کی شمولیت پر بھی زور دیا ہے۔ ہم تخلیقی ادب کی عظمت کے منکر نہیں مگر اول تو ہم رسالہ اردو کی پرانی روایات کو یک قلم ترک نہیں کرنا چاہتے۔ دوسرے پرچہ کو معجون مرکب بنانا ہمارے نزدیک کوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔ نیز یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اردو میں ایک خالص تنقیدی اور تحقیقی پرچہ کی ضرورت مسلم ہے اور اس ضرورت کو اگر اردو ادب پورا کر سکے تو یہ اس کا قابل فخر کارنامہ ہوگا۔“
اس رسالہ میں نذیر احمد، خواجہ احمد فاروقی، حسن عسکری پلکھنڈوی، نجیب اشرف ندوی، حبیب احمد صدیقی، مالک رام، اسلوب احمد انصاری، عابد رضا بیدار وغیرہ کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔
اردو ادب کے بہت سے خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں حسرت نمبر، آزاد نمبر، ذاکر نمبر، غالب نمبر، مومن نمبر، مولوی عبدالحق نمبر، شبلی نعمانی نمبر، ذوق نمبر، راج بہادر گوڑ نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بعد میں اس کی ادارت تبدیل ہوتی رہی۔ مسعود حسین خان، خلیق انجم، اسلم پرویز نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دیے اور اس رسالہ نے قیمتی مضامین کے ساتھ خصوصی شماروں کے ذریعے ادبی دنیا میں اپنی اہمیت اور معنویت کا عَلم لہرایا۔ اب اطہر فاروقی اس کے مدیر و مرتب ہیں۔

ادبی صحافت کا صحیح طور پر ارتقا اس وقت ہوا جب اس کا رشتہ انگریزی زبان و ادب سے استوار ہوا۔ انگریزی ادبیات کی وجہ سے بہت سی اصناف اردو ادب میں آئیں۔ تراجم کا بھی سلسلہ شروع ہوا اور ان ترجموں سے ادبی صحافت کی ثروت میں گراں قدر اضافہ ہوا اور اس کے موضوعاتی دائرے میں وسعت پیدا ہوئی اور نئے ادبی مباحث نے جنم لیا۔ مولانا صلاح الدین احمد مدیر ادبی دنیا نے اس تعلق سے بڑی قیمتی بات لکھی تھی کہ ”اردو کو اوریجنل لکھنے والوں سے زیادہ اچھے مترجموں کی ضرورت ہے۔“

ابتدا میں ادبی صحافت کسی خاص گروہ، تحریک، رویے اور رجحانات کی ترجمان نہیں رہی مگر جیسے جیسے ادبی صحافت کا ارتقائی سفر آگے بڑھتا رہا۔ ادبی رسائل کئی خانوں اور زمروں میں تقسیم ہو گئے اور نظریاتی مباحث کا ایک سلسلہ سا شروع ہو گیا۔ بہت سے رسائل ترقی پسند تحریک کی ترجمانی کرنے لگے تو کچھ رسالوں نے جدیدیت کی راہ اختیار کی اور کچھ رسائل آزادانہ طور پر شائع ہوتے رہے۔
ترقی پسند رسائل:
جن رسائل کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی رہی اور ترقی پسند اقدار و نظریات کی ترویج و تبلیغ میں جن کا اہم کردار رہا ان میں رسالہ ’ادبِ لطیف‘، ’نقوش‘، ’نیا ادب، لکھنؤ، سویرا، کتاب لکھنو، گفتگو ممبئی، عصری ادب دہلی، عصری آگہی دہلی، شاہراہ دہلی، فنون لاہور، سہیل گیا، افکار بھوپال/ کراچی، صبا حیدرآباد، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لئیق رضوی نے اپنی کتاب ’ترقی پسند ادبی صحافت‘ میں ادوار کے لحاظ سے مختلف ترقی پسند رسائل کا ذکر کیا ہے جن میں ان رسائل کے علاوہ ماہنامہ ’ایشیاء‘، میرٹھ (مدیر: ساغرنظامی) ماہنامہ ’منزل‘، لکھنؤ (مدیر: مفتی رضا انصاری)، ماہنامہ ’اضطراب‘ لکھنؤ(مدیر: نسیم سندیلوی)، ماہنامہ ’جدید اردو‘ کلکتہ (مدیر: پرویز شاہدی)، ماہنامہ ’شعاع اردو‘، الہ آباد (مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسین)، ’نئی کرن‘، دربھنگہ (مدیر: مظہر امام)، ماہنامہ ’کرن‘ الہ آباد (مدیر: تیغ الہ آبادی)، ماہنامہ ’کارواں‘ الہ آباد (مدیر: اعجاز حسین)، ماہنامہ ’چندن‘ کانپور، (مدیران: ساحر ہوشیارپوری، نریش کمار شاد)، ’ہمارا ادب‘، لکھنؤ (مدیر: کمال احمد صدیقی)، ’نقوش‘ جالندھر (مدیر: فکر تونسوی) ’چراغ‘ حیدرآباد، (مدیر: حیرت بدایونی) ماہنامہ ’تہذیب‘ پٹنہ (مدیر: سہیل عظیم آبادی) ’فنکار‘ دہلی (مدیر: پرکاش پنڈت) ’خیال‘، کامٹی (مدیر: فیض انصاری) ’شب رنگ‘ الہ آباد (مدیر: سید ڈاکٹر محمد عقیل) ’سوبرس‘، دہلی (مدیر: نشتر خانقاہی) ’نیا ورق‘، بمبئی (مدیر: ساجد رشید) ’اقدار‘، دہلی (مدیر: ڈاکٹر علی جاوید) ’آب و گل‘، دہلی (مدیر: قمر رئیس) ماہنامہ ’بیباک‘، مالیگاؤں (مدیر: ہارون بی۔اے) ’بحث و مباحثہ‘، دہلی(مدیر آصف اعظمی) ’جوش بانی‘، الہ آباد (مدیر: علی احمد فاطمی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام رسائل پر لئیق رضوی نے تفصیلی گفتگو کی ہے اور ترقی پسند ادبی صحافت کے امتیازات کو واضح کیا ہے۔
ادب لطیف، لاہور
ادب لطیف لاہور (سنہ اجرا 1935) میں جملہ اصناف ادب کے ساتھ ساتھ ترقی پسندوں کے نظریات پر زیادہ ارتکاز ہوتا تھا۔ پنجاب بک ڈپو کے مالک چودھری برکت علی کے اس رسالہ کا پہلا شمارہ طالب انصاری نے ترتیب دیا تھا۔ اس کے مدیروں میں بہت سے اہم نام ہیں۔ جن میں فیض احمد فیض، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، قتیل شفائی، فکر تونسوی، احمد ندیم قاسمی، عارف عبدالمتین، انتظار حسین، اظہر جاوید، مرزا ادیب اور صدیقہ بیگم جیسی شخصیتیں قابل ذکر ہیں۔ ادارتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس کے مشمولات اور مندرجات میں بھی تبدیلی آتی رہی اور نئے نئے سلسلے اور کالم شروع ہوتے رہے۔ اداریے کا عنوان بھی تبدیل ہوتا رہا۔ پیرایہ آغاز اور پہلا لفظ کے عنوان سے اس کے اداریے شائع ہوتے رہے۔ جب انتظار حسین نے اس کی ادارت سنبھالی تو اس دور میں زیادہ تر مذاکرے شائع ہوئے اور مباحث کا سلسلہ شروع ہوا۔ مذاکرے کا ایک عنوان تھا ’میرا مسئلہ کیا ہے‘ اس عنوان کے تحت احمد مشتاق نے بہت دل چسپ جواب دیا تھا کہ”یہ تو مجھے خبر نہیں کہ بحیثیت ایک شاعر کے میرا مسئلہ کیا ہے لیکن مندرجہ ذیل باتیں واقعی میرا مسئلہ نہیں۔1۔ایسا مضمون لکھنا جسے پڑھ کر قاضی عبد الودود، مختار الدین آرزو اور غلام رسول مہر عش عش کر اٹھیں۔2۔آدم جی پرائز کے لیے کتاب چھپوانا۔3۔ ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کی پسند اور نا پسند کا خیال رکھنا۔“
انور سدید لکھتے ہیں کہ ”انتظار حسین نے ادب لطیف کو ایک مخصوص نوع کا تہذیبی رسالہ بنانے کی کوشش کی. چنانچہ اس دور میں ادب لطیف، ادبی اور تہذیبی رویوں کی تجربہ گاہ بن گیا۔ نئے مباحث کی طرح ڈالی گئی اور اختلافی نکتے کو بگوش ہوش سننے پر قارئین اور ادبا کو مائل کیا گیا۔“ ا دب لطیف کے بعض خصوصی شماروں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی جن میں نظم و غزل نمبر، افسانہ نمبر، مولوی عبدالحق، فیض اور غالب نمبر قابل ذکر ہیں۔
کلیم، دہلی
جوش ملیح آبادی کا رسالہ کلیم بھی ترقی پسند اقدار کا ترجمان تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز جنوری 1936 میں ہوا۔ پہلے جوش ملیح آبادی نے ’کاخِ بلند‘ کے عنوان سے اس کا اعلان شائع کیا تھا۔ بعد میں اسے کلیم کر دیا گیا۔ جوش ملیح آبادی نے اس رسالہ کی اشاعت کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ:
”مدت دراز سے میری تمنا تھی کہ ہندوستانی علم و ادب اور ہندوستانی ذہن و فکر کو عصر حاضر کی سطح تک کرنے کی خاطر ایک ایسا ماہنامہ جاری کروں جو اپنے تمام ظاہری اور باطنی خصوصیات کے لحاظ سے زندہ اقوام کے جدید ترین معیار صحافت پر پورا اتر سکے۔“ (بحوالہ،جاوید اختر علی آبادی، جوش ملیح آبادی کا رسالہ کلیم، ص۔22)
’کلیم‘ میں اشارات، رفتار وقت، اخبار اردو، نقد و نظر کے تحت مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالہ نے بہت کم وقت میں ارباب علم و دانش کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی اور جوش ملیح آبادی نے بھی اس رسالہ کو مفید سے مفید تر بنانے کے لیے جی توڑ کوشش کی۔ مگر ارباب ادب کی سرد مہری کی وجہ سے یہ رسالہ اشاعتی تعطل کا بھی شکار رہا۔ رسالہ کلیم کو جوش ملیح آبادی نے اپنی روح کی آواز کہا مگر ارباب ادب کی بے حسی اور نامساعد حالات کی وجہ سے یہ آواز دم توڑ گئی اور یہ رسالہ صرف تین سال تک ہی نکل پایا۔ جوش نے اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ:
”کتنا بلند حوصلہ تھا دل میں، کتنا زبردست سودا تھا سر میں ”کلیم“ کو آسمان صحافت کا آفتاب بنا دوں گا۔ اس کا معیار اتنا بلند کر دوں گا کہ ایشیاء اور یورپ دونوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکے گی۔ لیکن چند مہینے گزرنے پائے تھے کہ حوصلہ سرنگوں ہوگئے، اول تو صرف درجۂ اول ہی کے مقالے شائع کئے گئے پھر درجہ دوم کے مقالے بھی باریاب ہونے لگے اور آخر میں درجہ سوم کے مضامین بھی چھپنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔“ (بحوالہ، جاوید اختر علی آبادی، جوش ملیح آبادی کا رسالہ کلیم، ص۔24-25)
’کلیم‘ کے 35 شمارے شائع ہوئے، جنوری 1939ء میں شاید اس کا آخری شمارہ شائع ہوا۔ ڈاکٹر جاوید اختر علی آبادی نے اس کے 35 شماروں کا اشاریہ مرتب کیا ہے جس سے کلیم کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں انھوں نے کچھ مضامین کا انتخاب بھی شامل کیا ہے جو اقبالیات، ادب تنقید، افسانوی ادب، اردو زبان اور مذہب اسلام کے تعلق سے ہیں۔ اردو زبان کے ذیل میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں وہ اس اعتبار سے اہم ہیں کہ وہ اردو ہندی تنازع پر محققانہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ان میں ہماری زبان (سید رضا قاسم مختار) اپنی زبان کی کتھا (خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی) بھارتیہ ساہتیہ پریشد کی اصل حقیقت (مولوی عبدالحق) رسم الخط (نیاز الدین حمد) ہندی اردو کے سوال کا محدود نظریہ اور شمالی ہند کی اصلی زبان (سید مطلبی فرید آبادی) ہندوستان کی جمہوری زبان پانچ قسطیں (امام اکبر آبادی) قابل ذکر ہیں۔
نقوش، لاہور
نقوش لاہور (مارچ1948) بھی ترقی پسند رسالہ تھا۔ احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور اس کے اولین مدیران تھے۔ اس کی لوح پر یہ خوب صورت عبارت تحریر تھی”زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا ترجمان“ اس کا اداریہ طلوع کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ آزادی نمبر 1949 میں ہاجرہ مسرور نے اس کے اداریے میں لکھا تھا کہ ”ہمارا مقصد محض یہ نہیں کہ ہم قدامت پسند ادبی انجمنوں اور خود غرض سند یافتہ ادیبوں کو آئینہ دکھاتے رہیں۔ ہم اپنے وطن اپنی قوم اور انسانیت کے مستقبل کے معمار ہیں اور ہمیں بڑی بے جگری اور جرأت سے ابھی کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا ہے۔ ہمارے مخالفین میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنے اصلی ناموں سے ہمارے خلاف قلم اٹھانے کی جسارت کر سکیں۔ وہ اپنی اونچی کرسیوں، بڑی تنخواہوں اور اخباروں کے مدیروں سے دوستانہ روابط سے فائدہ اٹھا کر جاسوسی ناولوں کے نقاب پوشوں کی طرح انگنت سوانگ بھرتے ہیں یہ ہماری قوت کا ثبوت ہے۔“ بعد میں وقار عظیم نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی، ان کے بعد تن تنہا محمد طفیل نے ادارت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نقوش کو ایک ایسے رسالے میں تبدیل کر دیا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ محمد طفیل کا یہ رسالہ علمی اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول تھا۔ اس کے خصوصی شماروں اور سال ناموں کو حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے. جن میں آپ بیتی نمبر، شخصیات نمبر، طنز و مزاح نمبر، ادبی معرکے نمبر، لاہور نمبر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
نیا ادب، لکھنؤ
’نیاادب‘ لکھنؤ ہندوستان کا ترقی پسند ماہنامہ تھا۔ اس کے ادارہ تحریر میں سبط حسن، علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز اور محمد رضا انصاری شامل تھے۔ یہ رسالہ مکمل طور پر ترقی پسند مصنفین کے لیے وقف تھا۔ اس میں فاشزم مذہبی رجعت پسندی اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف تحریریں اور تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس کے اداریے میں فاشزم کے خلاف احتجاجی نوعیت کی تحریریں ہوتی تھیں۔ سبط حسن نے ’پاگلوں کی بستی‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھا ہے کہ:
”یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فاشزم انسانی تہذیب اور انسانی ترقی کا دشمن ہے اور نازی نظامِ زندگی میں شہری آزادی اور فنون لطیفہ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔“
ایک اور اداریہ ہے جس کا عنوان ہے ’اردو خطرہ میں ہے‘۔اس اداریے میں Quisling کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ Quisling ناروے کا وزیراعظم تھا۔ جس نے جرمن حملہ آوروں سے مل کر ناروے کی راجدھانی کا پھاٹک کھول دیا تھا تاکہ غنیم شہر پر قابض ہو جائیں۔“
اردو کے تعلق سے یہ لکھا کیا گیا ہے کہ:
”اردو زبان کے بوسیدہ قلعہ کے اندر بھی نہ جانے کتنے کوئس لنگ چھپے ہوئے ہیں جو موقعہ پاتے ہی قلعہ کا پھاٹک کھول دیں گے یا غنیم کو بتا دیں گے کہ قلعہ کی ساری ڈھس ناسوروں سے چور ہے اور قلعے کی تمام دیواروں میں بڑے بڑے شگاف پڑ چکے ہیں۔“
اسی اداریے میں محمد سجاد مرزا صاحب پرنسپل عثمانیہ ٹریننگ کالج حیدرآباد کے رسالہ اردو رسم خط پر گفتگو کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ: ”دنیا کی تمام چیزوں کی طرح زبان اور رسم الخط بھی تغیر پذیر ہوتے رہتے ہیں۔“
نیا ادب میں بہت سے قیمتی مضامین بھی ملتے ہیں۔ ایک مضمون سید مطلبی فریدآبادی کا ہے جس کا عنوان ہے ’دلمیر کسان شاعر‘۔ یہ میرٹھ، سہارنپور کے دیہات سے تعلق رکھنے والے منور خان کی شاعری پر گفتگو ہے جن کا دیوان چھپا تھا، ان کی شاعری میں جدید انقلابی رجحانات ملتے ہیں۔ نئے ادب میں ادب اور سیاست کے حوالہ سے بہت سی اہم باتیں بھی درج ہوتی تھیں۔ انالوئی اسٹرانگ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ:
”ہمیں ادب کے نظریات میں اپنا وقت نہیں خراب کرنا چاہئے۔ ہمیں صرف جنتا کو بیدار کرنے کے لئے لکھنا چاہئے۔“
اسی طرح نیا ادب میں ایک چھوٹی سی خبر یوں درج کی گئی ہے کہ:
”شمالی ہندوستان کی ایک یونیورسٹی کا مطالبہ ہے کہ برناڈشا کی کتابیں نہ پڑھائی جائیں۔ ان سے دہریت پھیلتی ہے بلکہ اس قسم کی تمام کتابیں جلا دی جائیں جن سے تخلیقی قوتیں ابھرتی ہیں۔“
نیا ادب مکمل طور پر ترقی پسند تصورات کا حامل رسالہ تھا۔ جس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف بھی تھا۔ نیا ادب میں ہی مرزا جعفر علی خاں اثر کا ایک مضمون شائع کیا گیا جس کا عنوان ہے ’نیا ادب کدھر جا رہا ہے‘۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ:
”نیا ادب ایسے ہی پادر ہوا خیالات اور توہمات کا مجموعہ ہے یا پھر اُن سنی سنائی باتوں کا بگڑا ہوا خاکہ ہے۔ جو یورپ کے ادیبوں کی تصانیف میں ملتی ہیں۔“
اس رسالہ میں نظمیں، کہانیاں، تبصرے اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ جوش ملیح آبادی نے بھی مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ مگر بعد میں اس رسالہ سے علاحدگی اختیار کرلی۔
سویرا، لاھور
سویرا ترقی پسند ادب کا ترجمان تھا۔ چودھری نذیر احمد نے 1940 میں جاری کیا۔ ترقی پسند ادب کی ترویج و اشاعت میں اس رسالے کا کردار بہت اہم ہے۔مدیران کی تبدیلی سے سویرا کا رنگ و روپ بھی بدلتا رہا۔ اس کو ترتیب دینے والوں میں ظہیر کاشمیری، احمد راہی، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، فکر تونسوی، عارف عبد المتین، محمد سلیم الرحمن، حنیف رامے، سیدہ شاہین، صلاح الدین محمود وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ان ناموں کے ساتھ ساتھ ہی سویرا کی صبح و شام تبدیل ہوتی رہی۔ پہلے اس کے سر نامے پر ترقی پسند فن کاروں کا ترجمان درج ہوتا تھا۔ بعد میں اسے ادب آرٹ کلچر میں بدل دیا گیا۔ پہلے اس کا ترقی پسندانہ رنگ تھا بعد میں جب صلاح الدین محمود اس کے مدیر بنے تو رسالے کا آغاز آیات قرانی سے ہونے لگا۔ جب احمد ندیم قاسمی اس کے مدیر تھے تو اداریے میں یہ لکھا گیا تھا کہ ”سویرا ہندوستان کے نوجوان فن کاروں کے معجزات کا ایک دو ماہی انتخاب ہے۔ اس لیے یہ کسی معین منزل کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ زندگی اور کائنات کی بیکراں وسعتوں کے نشیب و فراز اس کی جولان گاہ ہیں۔ ہر سویرا ایک نئے سویرے کا پیامی ہے اس لیے ہمارے عزائم مقاصد صرف ان الفاظ میں پوشیدہ ہیں کہ سویرا اردو کے نئے ادب کی ایک میزان ہوگا۔“ اسی رسالہ سویرا میں ادارے کی طرف سے بہت قیمتی بات کہی گئی تھی کہ ”اس کے مندرجات ادیبوں کی جگہ ادبیات سے عبارت ہوں گے۔“ اس میں بہت سے اہم مضامین اور مقالات شائع ہوئے۔جن میں خورشید رضوی کا مضمون ”عربی ادب قبل از اسلام“ قابل ذکر ہے جو 17-18 قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں مختلف اصناف پر تحریریں ہوا کرتی تھیں۔ ’جان پہچان‘ ایک اچھا عنوان تھا۔ اس کے علاوہ ایک عنوان ’محفل‘ تھا جس میں ادبا ’میں کیوں لکھتا ہوں‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے تھے۔ اس میں فرانسیسی ادب اور یورپی انگریزی ادب کے تراجم کی اشاعت بطور خاص ہوا کرتی تھی۔
کتاب، لکھنؤ
ماہنامہ کتاب، لکھنؤ (دسمبر1962) بھی ترقی پسند تحریک کا ترجمان تھا۔ ایڈیٹر کے طور پر سید جمیل احمد کا نام شائع ہوتا تھا اور مجلس مشاورت میں سید احتشام حسین، حیات اللہ انصاری اور عابد سہیل جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ اس کا اداریہ خاص طور پر چشم کشا اور فکر انگیز ہوا کرتا تھا۔ اس میں تمام اصناف ادب کے ساتھ تلخ، ترش اور شیریں کے عنوان سے کالم شائع ہوا کرتا تھا۔ کتاب کے جو خصوصی شمارے اردو زبان و ادب کو نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں ان میں نئی ہندی کہانی نمبر اور مراٹھی کہانی نمبر قابل ذکر ہیں۔ مراٹھی کہانی نمبر جون 1968 میں شائع ہوا جس کے مرتب نور پرکار تھے۔ مقالہ کے تحت مراٹھی ادب کا ارتقا (عبدالستار دلوی) مراٹھی کے بدلتے ادبی رجحانات (پروفیسر کیشو وشرام) مراٹھی ڈرامے کے روپ (کماری وجیاسالوی) شامل تھے۔ افسانے کے تحت دیواکر کرشن، یشونت گوپال جوشی، وی سی کھانڈیکر، چھڑکے، گنگا دھر گارڈگل، اروند گوکھلے، وجے تیندولکر، جے ای کلکرنی، وینکٹیش، بابو راؤ گل، حمید دلوائی کی تخلیقات شامل تھیں۔
نئی ہندی کہانی نمبر جولائی 1964ء میں شائع ہوا۔ اس میں فنیشور ناتھ رینو، موہن راکیش، اوشا پریم، رمیش بخشی، کملیشور، رگھوویر سہائے، نرمل ورما، راجیندر یادو، شانی، کنور نارائن، ٹھاکر پرشاد سنگھ، امرکانت کے افسانے شامل کیے گئے۔ یہ تمام کے تمام ہندی کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ ’کتاب‘ کا افسانہ نمبر جنوری 1964 میں شائع ہوا جس کے مرتب رام لعل اور عابد سہیل تھے۔ یہ 1962 کے بہترین افسانوں کا ایک عمدہ نتخاب تھا۔
گفتگو، ممبئی
علی سردار جعفری کا مجلہ گفتگو (1967) مکمل طور پر ترقی پسند تحریک سے مربوط تھا۔ اس کے سرنامہ پر ’ادب اور تہذیب کا باشعور ترجمان‘ جیسی عبارت درج تھی۔ یہ مجلہ در اصل ترقی پسند منشور اور مقاصد پر مشتمل ہوتا تھا مگر اس کے دروازے دوسرے قلم کاروں کے لیے بھی کھلے ہوئے تھے۔’پیش گفتار‘ کے تحت اس کا اداریہ تحریر کیا جاتا تھا۔ گفتگو فہرست کا عنوان تھا۔ جس میں مختلف اصناف ادب کے حوالہ سے تحریریں شامل کی جاتی تھیں۔ اس کے اداریے میں علی سردار جعفری نے بہت جذباتی انداز میں ادب اور ادیب کے حوالہ سے بہت فکر انگیز باتیں لکھی تھیں۔ انھوں نے ادیبوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے یہ تحریر کیا تھا کہ:
”ادب اور ادیب اس وقت ایک بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ عقیدے زخمی ہیں اور یقین و اعتماد کی سانس اکھڑی اکھڑی سی ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے آدرشوں کے چہرے مسخ ہوئے ہیں۔ خوابوں کو قتل گاہوں سے گزرنا پڑا ہے اور قدروں کی تشنجی کیفیت نے دلوں میں ہول بٹھا دیا ہے۔ ان پھیلے ہوئے ریگزاروں میں کہیں کہیں نئی اُپج نئے انداز تخلیق اور نئی فکر کے نخلستان ملتے ہیں۔ لیکن ان کے سائے اتنے گھنے نہیں ہیں کہ اردو ادب ہڈیوں کو پگھلا دینے والی تپتی ہوئی دھوپ سے بچ سکے اور نہ پانی کے چشمے اتنے وافر ہیں کہ پیاسے اپنی پیاس بجھا سکیں۔ اس لیے سب کرب میں مبتلا ہیں۔ ذات کے قلعہ میں بند ہوجانے والے اور ذات کے قلعہ سے باہر یلغار کرنے والے سب آگ میں جل رہے ہیں۔ لیکن اصل اختلاف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں یہ سوال آتا ہے کہ اس آگ کو کیسے بجھایا جائے اور اسے کس طرح نار سے نور میں تبدیل کیا جائے۔ صرف کرب، صرف تشنج، صرف جلتے رہنے میں نہ تو انسانیت کی نجات ہے، نہ ادیب کی ذات کا سپر بیکار ہے۔ نظریات کی سپر، عقائد کی سپر، یقین کی سپر بھی اس وقت تک بے معنی ہے جب تک وہ سورما پیدا نہیں ہوتا جو اپنی سپر کو تلوار میں تبدیل کردینے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہو۔“
(گفتگو، جلد اول۔1967)
اس رسالہ سے کئی اہم شخصیات کی وابستگی رہی ہے۔ معاون ایڈیٹر کے طور پر سید احمد شمیم اور مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے روشن لال وڈیرا کا نام بھی درج رہا ہے۔ مجلس ادارت میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ترقی پسند ادب نمبر کی مجلس ادارت میں قمر رئیس، سید محمد عقیل رضوی، وحید اختر، عتیق اللہ کے نام درج ہیں۔
عصری ادب، دہلی
محمد حسن کی نگرانی میں شائع ہونے والے عصری ادب (جنوری1970) میں ترقی پسند نظریات کی تشہیر و تبلیغ ہو ا کرتی تھی۔ اس میں بھی وہی موضوعات اور مضامین شائع ہوئے جو عام انسانی زندگی اور عوامی شعور سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ظلم و استحصال، سماجی معاشی مسائل پر ادبی زاویے سے گفتگو ہوتی تھی۔ حرف آغاز میں پروفیسر محمد حسن نے لکھا تھا کہ:
”عصری ادب کی اشاعت 1970 میں ہوئی۔ زمانہ ایسا تھا جب ترقی پسند ادب کا نام لینا جرم سمجھا جانے لگا تھا۔ ادب کے سماجی رشتوں کا ذکر بے ادبی کی دلیل ٹھہرا تھا۔ ادب برائے ادب کا غلغلہ آسمان سے زیادہ بلند تھا۔ اور ادب اور جمالیات کے نام پر مہملیت اس درجہ فروغ پانے لگی تھی کہ صحیح العقل اور باذوق حضرات سر در گریباں تھے۔ اکثر اپنے خلوت خانوں کا رخ کر چکے تھے اور ادبی سرگرمیوں کو دفتر بے معنی سمجھ کر کنارہ کش ہو چکے تھے۔ بعض دوست سنجیدگی سے اپنے ماضی کے اوراق سے ترقی پسندی کا حرف حرف کھرچ کر پھینک دینے میں مصروف تھے. کچھ سنجیدگی سے اپنے ادب اور زندگی بھر کے اپنے خیالات اور اقدار کو غلط جان کر اُن پر نظر ثانی کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس کساد بازاری میں عصری ادب نے آنکھ کھولی، مقصد یہ تھا کہ جدید کی بھڑکیلی اصطلاح کے پیچھے جو قدامت بلکہ دقیانوسیت چھپی ہوئی ہے اسے بے نقاب کیا جائے۔ عصری ادب نے کبھی جدیدیت یا جدید ادب کو برا نہیں کہا لیکن جدیدیت اور جدید ادب کے مختلف ادب کی نشان دہی ضرور کی اور ان میں سے مہمل پسند یا رجعت پسند عناصر کی تنقید سے گریز نہیں کیا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یہ کام منفی تھا۔ اصل کام تو غیرصحت مند عناصر سے لڑنا نہیں بلکہ صحت مند عناصر کو پروان چڑھانا ہے۔ تاریکی کو کوسنے کے بجائے تاریکی دور کرنے کے لیے ننھا سا دیا روشن کرنا زیادہ اہم کام ہے۔“(عصری ادب،1975)
عصری ادب نے سیاست اور سماج کے مسائل پر سنجیدگی سے لکھا اور تخلیقی فن کاروں کے ساتھ ساتھ عوامی ذہن کو جھنجھوڑنے کی بھی کوشش کی۔ ’آڑے ترچھے آئینے‘ میں زیادہ تر عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ کیوں کہ اس کا مقصد بنیادی طور پر عصری تقاضوں اور مظاہرِ عصر سے ہم آہنگی ہے۔ اس رسالے میں سیاست اور ثقافت کے عصری مسائل کو ادبی دائرے میں شامل کرنے پر زور تھا۔ محمد حسن جن نظریات اور تصورات کے حامل تھے ان کی عکاسی ان کے اس رسالے میں بھی ہوتی تھی۔ وہ ایسے ادب کے قائل تھے جو اپنے عہد کا عکاس ہو۔ جس میں تاریکیوں اور ظلمتوں کے خلاف احتجاج ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ اگر اندھیرا دور نہ بھی ہو تب بھی تخلیق کاروں کا فرض ہے کہ ایک ننھا سا دیا ضرور جلائیں تاکہ تاریکی کچھ تو کم ہو۔ انھوں نے اپنے رسالہ کے ذریعے ادیبوں کو اپنا فرض منصبی یاد دلایا اور ادب کے کردار کا تعین کیا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی وجہ سے جبر و استحصال اُن کا مرکزی موضوع رہا۔ اسی لیے معاشرے میں جبر و استحصال کی جو بھی صورت نظر آئی اس کےخلاف انھوں نے اپنے قلم اور ادب کے ذریعے آواز اٹھائی۔ عصری ادب کا ایک شمارہ خواتین خصوصی نمبر اپریل اکتوبر 1980 میں شائع ہوا جس کے سرورق پر مشہور فلسطینی گوریلا مجاہد لیلیٰ خالد کی تصویر تھی۔ حرف آغاز میں محمد حسن نے لکھا تھا: ”ظلم و ستم کے انگنت روپ ہیں۔ استحصال کے انوکھے اور نرالے نام اور نت نئے ہتھکنڈے ہیں۔ ان مظالم سے ہم روز صبح و شام دوچار ہوتے ہیں۔ سڑک پر بھیک مانگتے لوگ سڑی گرمی میں جلتی ہوئی فٹ پاتھ پر کروٹیں بدلتے خاندان، غلیظ اور دم گھنٹے والے ماحول میں آدھی چوتھائی اُجرت پر کام کرتے ہوئے پھٹے کپڑے پہنے ہوئے لڑکے لڑکیاں نہ جانے کتنے انسانی مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں اور ہمارے پتھر دل اُن کے عادی ہو جاتے ہیں۔ انہی مناظر میں ایک منظر عورت بھی ہے جس کا استحصال صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔“
اسی خصوصی شمارہ میں ’عورت نامہ‘ کے تحت جو بات لکھی گئی ہے وہ واقعی نہ صرف پڑھنے بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عورتوں کے لیے آج حالات قدرے بدل گئے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں اب بھی عورت مخالف ذہنیت برقرار ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”دو سچے قصے سن لیجئے:
ایک خاتون نے شاعرہ کی حیثیت سے نام کمایا۔ ہندوستان و پاکستان میں دھوم مچ گئی۔ اسی دوران اُن کی شادی ہوگئی اور شوہر نامدار نے حکم صادر کیا کہ شعر و شاعری بند اور کلام کی اشاعت پر مکمل پابندی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن شاعرہ کا کوئی شعر بھی گھر کی چاردیواری سے باہر نہیں آیا کہ شاید دل کی چار دیواری سے ہی باہر نہیں آیا۔
دوسری خاتون نے چند افسانوں سے پوری ادبی دنیا کو چونکا دیا۔ رسالوں سے ان کے افسانے دلوں میں اتر کر اپنی فنکاری اور بصیرت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ نقادوں نے سراہا، مدیروں نے تعریف کی۔ پڑھنے والے ان کی تحریر کے متوالے ہوگئے کہ اسی دوران اُن کی شادی ہوگئی اور شوہر اور ان کے سسرال والوں نے افسانہ نگاری پر پابندی لگا دی اور ارددو ادب ایک عہد آفریں افسانہ نگار سے محروم ہوگیا۔“
اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مرد اساس معاشرہ میں نہ جانے کتنی تخلیقی ذہانتوں کا قتل ہوا ہوگا جس کی روداد اب شاید کہیں محفوظ بھی نہیں ہوگی۔
عصری آگہی، دہلی
قمر رئیس کے رسالے عصری آگہی (1978) میں ترقی پسندانہ نظریات و تصورات کی ترویج پر خاص توجہ تھی۔ اس رسالہ کا بنیادی مقصد تھا قاری اور تخلیقات کے درمیان رشتے کا استحکام اور لوگوں کو سماجی، سیاسی سروکار سے آگاہ کرنا۔ عالم انسانیت کے سامنے جو سوالات اور چیلنجز ہیں ان پر غور کرنا۔ اس رسالہ نے نازی فاشزم، بدترین نسلی تفریق اور وحشیانہ تعصب کے خلاف کھل کر لکھا۔ اس کے علاوہ اُن ادبی مباحث کو اپنے رسالہ میں جگہ دی جن سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوں۔ ’چہرہ‘ عنوان کے تحت اداریہ تحریر کیا جاتا تھا۔ قمر رئیس نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ:
”ادبی مجلوں کا بڑا کام یہی ہوتا ہے کہ نئے تخلیقی رجحانات اور نظریاتی سوالوں پر سنجیدہ بحث کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ نئے تجربوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ادیب اور قاری کے درمیان اعتبار اور ابلاغ کے نازک رشتے کو روشن اور مضبوط بناتے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ کام ہمارے یہاں نہیں ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثر لکھنے والے گھٹن اور بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ اردو کے بہت سے نوجوان ادیب مستقلاً ہندی میں لکھنے لگے ہیں اور کچھ نے بیزار ہو کر لکھنا ترک کر دیا ہے۔“
اس رسالہ میں چہرہ، نقد ادب، نقد نظر، تخلیق و تجزیہ، نظم، غزل، افسانہ، تبصرے کے عنوانات سے تخلیقات کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ قمر رئیس کا ہر اداریہ فکر انگیز اور چشم کشا ہوا کرتا تھا۔ وہ عصری مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اپنے ایک اداریہ ’دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف‘ میں لکھتے ہیں کہ: شاید ہم بھی کشاں کشاں کسی فاشزم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے وہ کون سی طاقتیں ہیں، وہ کون سے طبقے ہیں جو فرقہ پرستی کو اپنے مفادات اور پنے سیاسی مقاصد کے لئے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کون سے ذرائع، وہ کون سے ادارے ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے حصول آلۂ کار بنا رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں جانتے اور پہچانتے ہیں اور پھر بھی خاموش ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان اپنے قلم سے اپنی قوت اظہار اور عمل سے اُن قوتوں کو بے نقاب نہیں کر رہے ہیں جو مذہب، کلچر اور سیاست کے نام پر ہمیں فرقہ پرستانہ فاشزم کی تنگ اندھیری اور خونی گھاٹیوں کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ تو ایک پل کو ہی سہی ہم سوچیں کہ آنے والی پیڑھیاں ہمیں معاف کر سکیں گی۔ کیا وہ بزدل ریاکار اور مجرم کہہ کر نفرت سے ہماری ان قبروں کو نہیں روندیں گی۔“
قمر رئیس کے اداریے دراصل احتجاج نامہ ہیں۔ وہ ان تمام آئیڈیالوجی کو نشانہ بناتے ہیں جن سے انسانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ ا نھوں نے اپنی تحریروں میں جمہوریت پسند تحریکوں اور ترقی پسند طاقتوں کو توانائی عطا کرنے کی بات کہی ہے۔ قمر رئیس نے یہ رسالہ اس لیے شائع کیا تاکہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ ترقی پسند ایک ابدی اور لا زوال تحریک ہے جو کبھی مر نہیں سکتی. کسی نہ کسی شکل میں وہ ضرور زندہ رہے گی۔ اس رسالے کے بیدی نمبر اور افسانہ نمبر کو بہت مقبولیت ملی۔
شاہراہ، دہلی
شاہراہ بھی ترقی پسندوں کا ترجمان تھا. جنوری 1949 میں ساحر لدھیانوی کی ادارت میں اس کا آغاز ہوا۔ اس میں بھی زیادہ تر ترقی پسندوں کی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔ اس کی ادارت سے سرلا دیوی، مخمور جالندھری، پرکاش پنڈت، فکر تونسوی، وامق جونپوری، ظ۔ انصاری اور محمد یوسف جامعی کی وابستگی رہی ہے۔ پہلے شمارے میں ایڈیٹرس کی حیثیت سے ساحر لدھیانوی اور رام پرکاش اشک کے نام تھے اور اداریہ بعنوان ’رہنما‘ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ: ”ہمارے اغراض و مقاصد وہی ہیں جن کا اعادہ انجمن ترقی پسند مصنفین گذشتہ بارہ برس میں بارہا کر چکی ہے۔ انجمن کا منشور یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جاں بلب رجعت پسندی اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لئے دیوانہ وار ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ پرانے تہذیبی ڈھانچوں کی شکست و ریخت کے بعد اب تک ہمارا ادب یک گونہ فراریت کا شکار رہا ہے اور زندگی کے حقائق سے گریز کرکے کھوکھلی روحانیت میں اور تصور پرستی میں پناہ ڈھونڈھ رہا ہے جس کے باعث اس کی رگوں میں نیا خون منجمد ہو گیا ہے اور ادب سخت قسم کی ہیئت پرستی اور گمراہ کن منفی رجحانات کا شکار ہوگیا ہے۔“
اس اداریے میں ہندوستانی ادیبوں سے کہا گیا ہے کہ:”وہ ایسے ادبی رجحانات کو نشو و نما پانے سے روکیں جو فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں۔“
شمارہ نمبر 2 میں احمد آباد میں کرشن چندر کے خطبۂ صدارت کے حوالے سے اداریہ لکھا گیا ہے ”کرشن چندر نے کہا تھا کہ: ترقی پسند ادیب نے ہر منزل پر انسان کی نئی زندگی کا ساتھ دیا ہے۔ اس نے سقراط بن کر زہر کا پیالہ پیا ہے۔ بائرن بن کر دیس سے جلاوطنی قبول کی ہے۔ وہ رالف فاکس اور رولکا بن کر موت کے گھاٹ اترا ہے۔ وہ گورکی بن کر گاؤں گاؤں گھوما ہے۔ اراگان اور پبلو نرودا بن کر عوام کے گوریلا دستوں میں کام کرتا رہا ہے اور آج بھی ہر جگہ جہاں جہاں جنتا اپنی نئی زندگی، نئی روحانیت اور نئے اخلاق کے لئے لڑ رہی ہے وہ لہو کی روشنائی سے ادب کی لافانی کتاب لکھ رہا ہے۔ اور جب بھی آپ دیکھیں کہ سردار جعفری، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی کی نظموں کو جیل کی سلاخوں کے اندر بند کر دیا گیا ہے۔ جب آپ سنیں کہ راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے افسانوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ جب آپ کو معلوم ہو کہ ساغر نظامی اور نیاز حیدر کے گیتوں کے گلے میں پھانسی کی رسی لٹکا دی گئی ہے تو سمجھ لیجئے کہ ترقی پسند ادیب اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔“
اس اداریے میں پولیس سینسر شپ کے خلاف بھی آواز بلند کی گئی ہے۔ کیوں کہ احمد آباد کے خطبۂ صدارت کے بعد یہ شرط لگا دی گئی تھی کہ:
”اس وقت تک کوئی مضمون، نظم یا غزل پڑھنے کی اجازت نہیں مل سکتی جب تک شاعر اور مضمون نگار اپنی اس تخلیق کو پولیس سے سنسر نہ کروالیں۔“
ظ۔ انصاری نے اس رسالے کا رنگ و روپ بدل دیا اور اسے غیر معمولی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ اس رسالے کے کہانی نمبر، ناولٹ نمبر، افسانہ نمبر اور طنز و مزاح نمبر کو قارئین کے درمیان بے پناہ مقبولیت ملی۔
شاہراہ کا طنز و مزاح نمبر بہت مقبول ہوا۔ اس کے مرتب فکر تونسوی تھے جس میں انھوں نے چند رسمی فقرے اور چند سنجیدہ فقرے کے ذیلی عنوانات کے تحت لکھا تھا کہ:
”جن دنوں مشہور ادبی ماہنامہ ’ساقی‘ دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ ان دنوں برادرم شاہد احمد صاحب مدیر ساقی نے یہ روایت قائم کر دی تھی کہ وقتاً فوقتاً ساقی کا طنز و مزاح نمبر نکالا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب ’ساقی‘ پاکستان چلا گیا تو یہ بہترین ادبی روایت بے کسی کا شکار ہوگئی۔ یہاں تک کہ خود شاہد صاحب نے بھی اس تخلیقی روایت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں اس روایت کو ایک بار پھر دہلی کے ادبی قبرستان سے اٹھا کر زندہ کرنا چاہتا تھا۔“
شاہراہ میں مختلف ادبی اصناف پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ رسالہ میں نئے ادب کے معمار کے تحت ایک اچھا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس میں لوئی اراگاں اور دیگر عالمی فن کاروں پر مضامین شائع ہوئے۔ شاہراہ نے نوجوان فنکاروں کو بھی متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا اور اردو کے مسائل پر بھی اداریے تحریر کیے گئے۔ محمد یوسف جامعی نے اپنے ایک اداریے میں بہت معنی خیز بات لکھی تھی کہ:
”کسی بھی اقلیت کی زبان کو کچلا نہیں جا سکتا۔ اقلیتوں کی زبان کو فروغ دینا ہی جمہوریت کی عظمت کی دلیل ہے۔“(جون1958)
ڈاکٹر نوشاد منظر نے رسالہ شاہراہ کا اشاریہ مرتب کیا ہے جو 2014 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا۔ 304 صفحات پر محیط اس کتاب میں نوشاد منظر نے شاہراہ کے تمام مشمولات کا تجزیاتی مطالعہ کیا جس سے شاہراہ کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
فنون، لاہور
فنون لاہور احمد ندیم قاسمی اور حبیب اشعر کی ادارت میں 1963میں شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو ادب کا ایک معتبر اور مستند رسالہ تھا۔ جس نے ادبی معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور خاص طور پر نئی نسل کے شعرا اور ادبا کی تربیت کی اور آج کے ترقی پسند ادبا اسی فنون کی دین ہیں۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں کہ”فنون میں مختلف اہل قلم کو ان کی تخلیقات اور ان کے فن پر مختصر تبصرے کے ساتھ متعارف کروانے کا اہتمام بھی کیا۔ چنانچہ ابتدا میں اس وقت کی نو عمر فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کا تعارف ان کی تصویروں کے ساتھ شائع کیا گیا۔ دونوں شاعرات کی شہرت کا آغاز یہیں سے ہوا۔ یہی نہیں ایسے شاعروں، ادیبوں کی فہرست بہت طویل ہے جنھوں نے فنون کے صفحات پر اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ یہیں انھوں نے ترقی کے مدارج طے کئے۔
(محمود اسیر، اوراق کے ادبی خدمات، صفحہ30)
فنون میں مصوری، موسیقی، خطاطی اور فوٹو گرافی پر مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ فنون میں اختلافی مباحث پر جو گفتگو ہوتی تھی وہ بہت قیمتی ہے۔ فنون کے فکری مباحث نے ادبی ذہنوں میں تحرک اور طغیانی پیدا کی. بہت سے ایسے مسائل پر مباحث اور مذاکرے ہوئے جو ادب کے لیے بہت مفید تھے۔ ڈاکٹر ابرار آربی نے مجلہ فنون کے فکری مباحث کے عنوان سے جرنل آف ریسرچ میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ”ان مباحث نے نہ صرف فنون کو ایک فکری شناخت دی بلکہ ادب کے طالب علموں کو فلسفیانہ فکر اور اصطلاحات سے روشناس کرایا کہ عام طور پر ادب کا قاری فلسفے کی ادق اصطلاحات پڑھتے ہی بدکنے لگتا ہے لیکن فنون میں اپنی کاوش سے عام قاری کے لیے فلسفیانہ اور فکری مشاغل نے گہری دل چسپی پیدا کی۔“ ادبی رجحانات کی تشکیل میں بھی فنون کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر عقیلہ بشیر نے بہت عمدہ گفتگو کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ”احمد ندیم قاسمی کے ادارتی رویے کا خلاصہ تخلیقی معیارات کی پابندی اور قابل قدر تجربوں کی حوصلہ افزائی ہے۔۔۔آج کے معاصر ادبی منظر نامے پر ہم جن رجحانات کو نمایاں ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اس کی تشکیل میں مجلہ فنون کا اہم حصہ بھی بہر طور شامل ہے۔“ احمد ندیم قاسمی کے بعد منصورہ احمد نے فنون کی ادارتی ذمے داری سنبھالی۔ فنون کی خصوصی اشاعتوں میں جدید غزل نمبر، اختر حسین جعفری نمبر، خدیجہ مستور نمبر قابل ذکر ہیں۔
سہیل، گیا
ترقی پسندی کے فروغ میں ماہنامہ سہیل گیا کا بھی کردار ناقابل فراموش ہے۔ بسمل سنسہاروی نے 1939میں اس کا اجرا کیا تھا بعد میں ادریس سنسہاروی نے اس کی ادارت سنبھالی۔ بہار کی ادبی صحافت میں اس رسالے کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کے خصوصی شمارے میں بھاگل پور کا ادبی ماحول نمبر، جمیل مظہری نمبر، سہیل عظیم آبادی نمبر، کلام حیدری نمبر، کیفی اعظمی نمبر قابل ذکر ہیں۔
تناظر، دہلی
بلراج ورما کا سہ ماہی تناظر (ستمبر1977) بھی ترقی پسند مجلہ تھا۔ مگر اس میں دوسرے مکتب فکر کے افراد کی تخلیقات بھی شائع ہوا کرتی تھیں۔ اس رسالے میں ہندوستان کے آرٹ ادب اور کلچر پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ اس میں جدید و قدیم بہت سے نظریات و رجحانات سے متعلق وقیع مضامین شائع ہوئے۔
افکار، بھوپال/ کراچی
افکار بھوپال/ کراچی بھی ترقی پسندوں کا ایک اہم رسالہ ہے۔ یہ صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں جہاں ادبی تخلیقات شائع ہوتی تھیں وہیں ملکی اور غیر ملکی تراجم بھی اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ افکار کا خصوصی کارنامہ خود نوشت سوانح عمریوں کی اشاعت ہے۔ اس کے خاص نمبروں میں برطانیہ میں اردو نمبر، جوش نمبر، فیض نمبر، امیر خسرو نمبر، ندیم نمبر، غالب نمبر، آزادی نمبر، مجاز نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
صبا، حیدرآباد
صبا حیدر آباد سے سلیمان اریب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کی مجلس مشاورت میں حبیب الرحمن، فضل الرحمن، ڈاکٹر طاہر علی خان، مسلم، رائے جانکی پرشاد، ڈاکٹر حفیظ قتیل، عالم خوند میری، دلاور علی خان، رضیہ بیگم جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ اور مجلس ادارت میں سلیمان اریب کے علاوہ حسینی شاہد اور وحید اختر کے نام بھی بعض رسالوں پر درج تھے۔ اس رسالے نے بھی ترقی پسند تخلیقات کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا اور ترقی پسند رجحانات کی تشہیر و تبلیغ میں حصہ لیا۔ صبا کے اداریے فکر انگیز اور چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ ادب کی معاصر صورت حال پر مدیر کی گہری نگاہ تھی۔ سلیمان اریب کو یہ احساس تھا کہ اب اچھے قلم کاروں کا فقدان ہے۔ اسی لیے اپنے ایک اداریے میں انھیں یہ لکھنا پڑا تھا:
”اردو کے ادبی رسالوں کو مالی مشکلات کے علاوہ ادبی معیار کے سلسلے میں بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف قدرِ اوّل کی تخلیقات کی عدم اصولی اور دوسری طرف اوسط اور معمولی درجہ کی تخلیقات کی افراط۔ اچھی تخلیقات قطع نظر اس کے کہ آج کے مشہور لکھنے والے بھی کم ہی اچھا لکھ رہے ہیں، اس لئے دستیاب نہیں ہوتیں کہ اُن کو غیر ادبی رسالوں سے معقول رائلٹی مل جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کساد بازاری کے زمانہ میں صرف ادبی خدمت ہی کوئی معنی نہیں رکھتی اور کام چلاؤ قسم کی تخلیقات اس لئے شائع کرنا پڑتی ہے کہ ہر ماہ رسالہ کا پیٹ بھرنا ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ اس صورت حال سے نمٹنا کچھ آسان نہیں تاہم ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب محض دوستی اور مروت کو زیادہ راہ نہ دی جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صبا کے دروازے غیرمعروف اور نئے لکھنے والوں پر بند ہو جائیں گے لیکن اس سے یہ ضرور ہوگا کہ مشہور اور پرانے لکھنے والوں کی کمزور تخلیقات بھی صرف نام پر شائع نہ ہو سکیں گی۔“ (اداریہ: پہلی بات)
صبا میں خطوط کا کالم بازگشت کے عنوان سے شائع ہوتا تھا اور صبا میں جان پہچان کے عنوان سے معاصر شخصیات پر تعارفی اور تنقیدی نوعیت کے مضامین کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اس تعلق سے ایک خط میں لکھا گیا ہے: ”جان پہچان کا سلسلہ اچھا ہے۔ اسے جاری رکھو لیکن ایک بات ذہن میں رکھو کہ پرانے لوگوں پر لکھوانے کی ضرورت نہیں۔ نئے لوگوں پر لکھواؤ۔ پرانے لوگ جو متعارف ہیں ان پر لکھوانے سے کیا حاصل۔ اس سے صفحات تو بھر سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں نئے لوگوں کی حق تلفی ہے۔ پرانے لوگوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ جن پر کچھ نہیں لکھا گیا ہے ان پر مضامین آئیں گے تو ان کی ہمت افزائی ہوگی اور لوگ انہیں جان سکیں گے۔“ (عقیل احمد رانچی)
یہ خط اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ آج بھی روش نہیں بدلی ہے۔ ایک ہی شخصیت پر سینکڑوں ہزاروں مضامین لکھے جاتے ہیں اور ان مضامین میں نہ کوئی نئی جہت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نیا زاویہ اور باقی جو گمنام اور غیر متعارف ہیں ان پر چند سطریں بھی نہیں تحریر کی جاتیں۔ اب اس روش کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔
عقیل احمد نے اسی خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ: ”حیدرآباد کے علاقہ میں آدی باسی نسل کے بہت سے لوگ آباد ہیں۔ مثلاً ڈھیڑ، ڈور، بھیل، چنچو وغیرہ اُن کی نسل، زندگی اور تہذیب بالکل الگ ہے۔ ڈھیڑ اور ڈور تو شہروں میں آگئے ہیں لیکن دوسرے لوگ اب بھی شہر سے الگ ہیں۔ ان پر مضامین شائع کرو۔ اس کے علاوہ تاریخ، عمرانیات، مصوری، موسیقی، اہم مقامات وغیرہ غرض یہ کہ بے شمار موضوع ہیں لیکن اُن پر کوئی بھی نہیں لکھتا۔ لے دے کر یہی تین چار موضوع ہیں جن پر اُردو رسالوں میں بار بار مضامین آتے رہتے ہیں اور ہاں صبا میں تیلگو کے ادیبوں، شاعروں یا بڑی شخصیتوں پر بھی مضامین آنے چاہئے۔ (عقیل احمد)
اِن کی یہ شکایت بھی بجا ہے کہ اردو رسائل کی موضوعاتی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ صرف انہی موضوعات پر مضامین تحریر کیے جاتے ہیں جن پر پہلے ہی سے بکثرت مضامین موجود ہیں۔ نئے موضوعات کی جستجو کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے موضوعات بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
صبا میں وحید اختر ’سخن گسترانہ بات‘ کے عنوان سے مضامین لکھا کرتے تھے۔ اپنی ایک تحریر میں انھوں نے ہندوستان میں ادبی رسائل کی صورت حال کے حوالہ سے بہت معنی خیز اور فکر انگیز باتیں لکھی تھیں: ”آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں ادبی رسائل کی تعداد گھٹتے گھٹتے اب تو دو ہی تین تک رہ گئی ہے۔ نکلنے کو دوسرے رسالے کثرت سے نکلتے ہیں اور ہزاروں ہی نہیں لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک بک جاتے ہیں۔ مگر خالص ادبی رسالوں کی بازار میں کوئی مانگ نہیں۔ اس کساد بازاری کا اگر یہ سبب بتایا جائے کہ اردوداں طبقے کی قوت خرید گھٹ گئی ہے تو میں اسے نہیں مانوں گا۔ اس لئے کہ جب فلمی اور جاسوسی رسالے ایک ڈیڑھ لاکھ تک بِک سکتے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قوت خرید تو ہے مگر ذوق ادب نہیں رہا۔“
صبا کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد نمبر، شبلی نمبر، قومی یکجہتی نمبر، نہرو نمبر، کشمیر نمبر اور مخدوم محی الدین نمبر قابل ذکر ہیں۔ سلیمان اریب کی وفات کے بعد صفیہ اریب نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور صبا کے سابقہ معیار کو برقرار رکھنے کی ہرممکن کوشش کی۔
ترقی پسندوں کے ترجمان رسائل نے عوام کے سیاسی سماجی شعور کی بیداری میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر یہ رسائل نہ ہوتے تو شاید ہمارا پورا معاشرہ فرقہ وارانہ تعصبات کا اسیر ہوتا۔ بر صغیر کے جملہ اردو مجلات کے ادارتی اور موضوعاتی تجزیے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بیشتر ترقی پسند رسالے ماینفع الناس کے زمرے میں آتے ہیں ورنہ بہت سے رسائل میں تو صرف رلانے والی شاعری اور سلانے والے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں جس کے تعلق سے ساقی کے اداریے میں یہ بات کہی گئی ہے ”رلانے والی شاعری اور سلانے والے افسانوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ایسی شاعری اور ایسے ادب کی ضرورت ہے جو ہمارے خفتہ احساسات کو بیدار کر دے“ اور یہ فریضہ حقیقی طور پر زیادہ تر ترقی پسند رسائل نے ہی ادا کیا ہے۔
٭٭
ترقی پسندوں سے الگ کچھ رسالے ایسے بھی تھے جس نے حلقہ ارباب ذوق کی ترجمانی کی ان میں صمد شاہین اور ممتاز شیریں کا رسالہ نیا دوراور نسیم درانی کا ماہنامہ سیپ کراچی قابل ذکر ہیں۔

جدیدیت کے ترجمان رسالے:
ترقی پسندی کے متوازی جدیدیت سے متاثر بہت سارے مجلات تھے۔ جن میں تحریک دہلی، شاخسار کٹک، ماہنامہ شب خون الہ آباد، ماہنامہ اوراق لاہور، تماہی معیار دہلی، اقدار، پٹنہ، سطور، دہلی، جواز مالی گاؤں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
تحریک، دہلی
گوپال متل کا رسالہ تحریک (تاریخ اجرا مارچ1953) اردو کا ایک اہم مجلہ ہے۔ اس کے مرتبین میں مخمور سعیدی، تمکین کاظمی اور پریم گوپال متل جیسی شخصیتیں تھیں۔ یہ مکمل طور پر ترقی پسندی کا مخالف مجلہ تھا۔ اس میں ترقی پسندوں سے سخت معرکہ آرائی ہوتی تھی اور تلخ اداریے لکھے جاتے تھے۔ ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر بھی اداریے میں گفتگو ہوتی تھی۔ موضوعاتی تنوع کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ اس رسالہ کے مشمولات بہت وقیع ہیں۔ ماہنامہ تحریک میں دوسری زبانوں کے ادبی جائزے پر مبنی جو مضامین شائع ہوئے وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ ان سے ہمیں دوسری زبانوں کی سمت و رفتار، رویے اور رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔ جدید ہندی ادب (دیویندر اسر) ہندی غزل (شاہد میر) پنجابی ادب کے پچیس برس (سکھ پال ویر سنگھ حسرت) کشمیری ادب ایک اجمالی جائزہ (غلام نبی خیال) اُڑیا شاعری کے جدید تر رجحانات (کرامت علی کرامت) تمل ادب کے پچیس برس(عزیز تمنائی) جدید تیلگو ادب شعر افسانہ (ابوالفیض سحر) نئی مراٹھی شاعری (بدیع الزماں خاور) کنڑا ادب کے پچیس برس (حمید الماس) جدید گجراتی ادب پر ایک نظر (پروفیسر محی الدین) راجستھانی زبان اور اس کی شاعری (ڈاکٹر فضل امام) راجستھانی ادب کے پچیس سال (ش۔ک۔ نظام) اس کے علاوہ دوسری زبانوں کی نظمیں بھی شائع کی گئیں۔ جن میں ہندی، پنجابی، اُڑیا، تامل، مراٹھی، کنڑ، گجراتی، راجستھانی، بنگالی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح ان زبانوں کے افسانے بھی شائع کیے گئے۔ علاقائی زبانوں سے اردو کا رشتہ مضبوط کرنے میں یہ نگارشات بہت اہم ہیں کہ ان سے ہمارا ذہنی افق بھی وسیع ہوتا ہے اور آگہی کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ معاصر ادبی رسائل میں بھی اسی طرح کے جائزوں اور تخلیقات کی شدید ضرورت ہے۔
رسالہ تحریک میں اردو زبان کے مسائل اور متعلقات کے حوالے سے بھی بیش قیمت مضامین کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اس ضمن میں گوپال متل کے اداریے بہت معنی خیز اور وقیع ہیں جو انھوں نے اردو زبان کے حوالہ سے تحریر کیے ہیں۔ ایسے مضامین اور اداریوں میں اردو کے تحفظ کا مسئلہ (ستمبر1956) لسانی اقلیتوں کے لیے لمحۂ فکریہ، (اکتوبر 1957) اردو تحریک کا نیا موڑ (مارچ اپریل۔1958) اردو کے مخالفوں کے لیے لمحۂ فکریہ (جولائی اگست۔1958، جنوری 1980، فروری مارچ، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر۔1980، جنوری فروری 1981) اردو کا دشمن کون ہے (اپریل1959)، زبان کا مسئلہ (مارچ 1965) اردو اور کانگریس (مئی 1965) اردو ادب میں ہندوستانیت کا فقدان حقیقت یا واہمہ (فروری 1971) اردو اور مہاتما گاندھی (فروری 1978) قابل ذکر ہیں۔
گوپال متل کے علاوہ اردو سے متعلق جو مضامین اشاعت پذیر ہوئے ان میں اثر لکھنوی (کچھ اردو زبان سے متعلق (فروری1959) دھرم ویر بھارتی (یہ اردو کے حمایتی، فروری 1970) سردار گیان سنگھ (اردو کی اہمیت مارچ، 1973) سید سلیمان اختر (اردو رسم الخط کی مخالفت کیوں، جولائی 1970) محمد سلیم قدوائی (اردو رسم الخط کا مسئلہ، اکتوبر 1970) مسعود حسن رضوی (اردو رسم الخط کا مسئلہ، ستمبر1956) اہم ہیں۔ ان مضامین کا ایک انتخاب شائع ہو جائے تو یہ اردو داں حلقہ کے لیے بہت مفید ہوگا۔
محمد مطیع اللہ خان نے ماہنامہ تحریک کا اشاریہ مرتب کیا ہے جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے قیمتی گوہر پارے ہیں۔ ’تحریک‘ بیش قیمت علمی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی مضامین اور تراجم کا خزینہ ہے۔
تحریک کے خاص نمبروں سے اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی جن میں جگر نمبر، غالب نمبر، انقلاب روس نمبر، سلور جبلی نمبر، تارا سوف نمبر، چین نمبر اور بیس سالہ ادب نمبر اہم ہیں۔
شاخسار، کٹک
دو ماہی شاخسار کا اجرا کٹک سے جون۔جولائی1965ء میں ہوا۔ اس کے مدیر امجد نجمی تھے اور مجلس مشاورت میں سید حرمت الاکرام، مظہر امام، کرامت علی کرامت اور حفیظ اللہ نیول پوری شامل تھے۔ ’نقش اول‘ کے عنوان سے امجد نجمی اداریہ لکھتے تھے۔ اپنے ایک اداریے میں انھوں نے اڑیسہ میں شاخسار کی ضرورت کے حوالے سے لکھا تھا:
”عرصۂ دراز سے تمنا تھی کہ اڑیسہ سے ایک ایسے اردو رسالے کا اجراء عمل میں آئے جو اردو کی ہندوستان گیر تحریک کا ساتھ دے سکے لیکن نامساعدات نے آج تک ایسا ہونے نہیں دیا۔ ہر چند ارباب ذوق صلاح دیتے رہے۔ اہل قلم تعاون کا وعدہ فرماتے رہے۔ لیکن آگے بڑھ کر مینا اٹھانے والا بھی نظر نہیں آیا۔ آخر چند مخلص احباب نے ہمت عالی سے کام لے کر اس کشتی کو تلاطم خیز سمندر میں ڈال ہی دیا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ اردو کا عرصۂ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ اب یہ دو ماہی ادبی جریدہ خدا خدا کرکے معرض وجود میں آگیا جس کا پہلا شمارہ شائع ہو کر آپ کے ہاتھ کی زینت بنا ہے۔ اس دور ابتلا میں کسی تازہ پرچہ یا رسالہ کا نکالنا گویا ہفت خواں طے کرنے کے برابر ہے لیکن اڑیسہ میں اردو کو زندہ و پائندرہ رکھنے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔“
(بحوالہ حفیظ اللہ نیول پوری، اڑیسہ میں اردو، ص۔285)
اور حقیقت یہی ہے کہ شاخسار نے اڑیسہ میں نہ صرف اردو کو زندہ رکھا بلکہ اردو زبان کو معاصر اڑیہ ادب کے رویے اور جحانات سے واقف کرانے کا فریضہ بھی ادا کیا اور اس کا دائرہ صرف اڑیسہ تک محدود نہیں رہا بلکہ دور دراز علاقے تک اس کی رسائی ہوئی اور اس کا شمار ادب کے مقتدر رسالوں میں ہونے لگا۔ یہ صرف اڑیسہ کا ایک رسالہ نہیں تھا بلکہ جدیدیت کے خد و خال متعین کرنے میں بھی اس رسالہ کا قائدانہ کردار رہا ہے۔ پروفیسر کرامت علی کرامت لکھتے ہیں:
”ترقی پسند تحریک کے تعطل کے بعد نوجوان ادباء اور شعراء کرام کو کچھ نئے پن کی تلاش تھی۔ اس نئے پن کی جستجو نے ادب میں اس رجحان کو فروغ دیا جسے آج جدیدیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دور میں اردو کے جن چند رسائل نے جدیدیت کے خد و خال متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں شاخسار کٹک ایک ہے۔“
(شاخسار کے اداریے اور تبصرے، ص۔10)
پروفیسر کرامت علی کرامت جن کا ذہن اس رسالہ کے پیچھے کار فرما تھا وہ ’میرا صفحہ‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا کرتے تھے اور کتابوں پر تبصروں کے علاوہ تنقیدی مباحث بھی چھیڑا کرتے تھے۔ انھوں نے لکھا ہے:
”سچ تو یہ ہے کہ شاخسار کا ذکر کئے  بغیر جدیدیت کے دور کی پوری تاریخ نامکمل اور ادھوری رہ جائے گی. اس کا سبب یہ ہے کہ اب تک اردو میں جدیدیت کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سکہ کا صرف ایک رخ پیش کرتا ہے۔ دوسرے رخ کے عرفان کے لئے اردو ادب میں شاخسار کے سوا کوئی دوسرا رسالہ ہے ہی نہیں۔“
(شاخسار کے اداریے اور تبصرے، ص۔12)
شاخسار میں نہ صرف اہم موضوعات پر مضامین کی اشاعت ہوتی تھی۔ تنقیدی بحث و مباحثہ ہوتا تھا بلکہ اڑیہ کی تخلیقات بھی شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ اس رسالہ کا ایک اہم پہلو ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت اور قدر و قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔
شب خون، الہ آباد
ماہنامہ شب خون الہ آباد (جون 1966) جدیدیت کا بنیاد گزار مجلہ تھا۔ اس کے پہلے مدیر کی حیثیت سے ترقی پسند ادیب و نقاد ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا نام رسالہ پر چھپتا تھا۔ اس کے بعد جمیلہ فاروقی، عقیلہ شاہین کے نام مدیر کی حیثیت سے شامل کیے گئے۔ محمود ہاشمی اور ساقی فاروقی کا بھی نام مدیر کی حیثیت سے شائع ہوتا رہا۔ ترتیب و تہذیب کے حوالہ سے شمس الرحمن فاروقی کا نام شمارہ نمبر 51 سے شامل ہوا اور آخری شمارے تک فاروقی صاحب کا نام ہی شائع ہوتا رہا۔ اسی رسالے کے ذریعے شمس الرحمن فاروقی نے جدیدیت کو جلا بخشی اور اس کے رویے اور رجحانات کی تشہیر و تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔ شب خون کی وجہ سے ادیبوں کا ایک بڑا کارواں جدیدیت سے جڑ گیا۔ اس رسالے کی خدمات بہت وقیع ہیں۔ شب خون نے ادبی صحافت میں جو نقش قائم کیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جدیدیت کے مخالفین بھی اس رسالے کی علمی و ادبی وقعت کا اعتراف کرتے ہیں۔ شب خون میں جن موضوعات و مباحث پر تحریریں شامل ہوا کرتی تھیں ان سے اردو ادب میں طغیانی اور جولانی کی نئی کیفیت پیدا ہوئی اور بحثوں کے نئے دروازے کھلے۔ یقینی طور پر شب خون ایک تاریخ ساز رسالہ تھا جس کے مشمولات آج بھی قلم کاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ انیس صدیقی نے ’شب خون‘ کے امتیازات پر یوں روشنی ڈالی ہے:
”شب خون نے اردو ادب میں جدیدیت کے انقلاب آفریں رجحان کی اساس رکھی اور اس کی معنویت اور اہمیت کو اُجاگر کرنے میں اہم اور تاریخی کردار ادا کیا۔ ’شب خون‘ نے نئے فکری اور معنوی ابعاد اجاگر کئے۔ قاری کے فکر و ذہن کو مرتعش کرنے والے فکر انگیز مباحث کو جنم دیا۔ جدید ادب کے مالہ و ما علیہ پر عالمانہ انداز کے حامل مضامین شائع کئے۔ جدیدیت کی تائید و تردید، افہام و تفہیم، وضاحت اور حد بندیوں پر کثرت سے تحریریں شائع کیں۔ ادب میں تخلیقی دانشوری اور فن کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تازہ تخلیقات اور امکانات کو اپنے صفحات پر جگہ دی۔ ہندوستانی اور بیرونی زبانوں کے ادبیات کے سینکڑوں فن پاروں کی اشاعت کے ذریعے اردو ادب کو ثروت مند بنایا۔“
(انیس صدیقی: شب خون کا توضیحی اشاریہ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔2017، جلد اول،ص۔xiii)
جون 2005 میں اس کا اختتامی شمارہ شائع ہوا جس میں شب خون کے گذشتہ چالیس برسوں کی بہترین تخلیقات کا انتخاب شائع کیا گیا تھا۔ جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل تھا۔
انیس صدیقی نے دو جلدوں پر مشتمل ’شب خون‘ کا توضیحی اشاریہ شائع کیا ہے۔ اُن کے مطابق ’شب خون‘ میں 222 مضمون نگاروں کے 635 مضامین شائع ہوئے۔ کُل شماروں میں صرف پانچ خاتون قلم کاروں کے 6 مضامین شائع ہوئے۔ 285 افسانہ نگاروں کے 1121 /افسانے اور 28 خاتون افسانہ نگاروں کے 61 افسانے شائع ہوئے۔ ممتاز شخصیتوں کے 20 انٹرویوز کی اشاعت ہوئی۔ 15 مباحثے شائع کئے گئے اور شعری تخلیقات میں 659 شعراء کی 8047 غزلیں شائع ہوئیں۔ سب سے زیادہ 230 غزلیں ظفر اقبال کی شائع ہوئیں۔ صرف 26 شاعرات کی 132 غزلیں ’شب خون‘ میں اشاعت کا شرف حاصل کر سکیں۔ ’شب خون‘ کے تمام شماروں میں 528 شعراء کی 4835 نظمیں شائع کی گئیں اور شاعرات کی تعداد صرف 42 ہے اور اس کے شماروں میں 153 مترجمین کے ترجمے شائع ہوئے جن میں سب سے زیادہ تراجم شمس الرحمن فاروقی کے ہیں اور انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تخلیقات کے تراجم زیادہ بڑی تعداد میں شائع ہوئے۔ شب خون میں 62 مبصرین کے 685 تبصرے شائع ہوئے۔ جن میں سب سے زیادہ تبصرے شمس الرحمن فاروقی کے تھے جن کی تعداد 275 ہے اور سید ارشاد حیدر کے 131 تبصروں کی اشاعت شب خون میں ہوئی۔ اس میں بہت سے قلم کاروں کے تعارف نامے بھی شائع کئے گئے اور تقریباً 3603 مکاتیب کی اشاعت عمل میں آئی۔ انیس صدیقی کے اس توضیحی اشاریے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں دیگر زبانوں کے قلم کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے یقینی طور پر اس رسالہ کو ایک عہد ساز حیثیت عطا کی تھی۔ اس میں اُن کی شب و روز کی محنت بھی شامل ہے۔ انور سدید نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ:
”شب خون نے جدیدیت کی تحریک کو کامیاب بنانے اور نئے ادیبوں کو اعتماد عطا کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پرچے کے پس پشت ایک مدیر بھی نظر آتا ہے اور یہ مدیر اپنی ایک ادبی شخصیت رکھتا ہے اور اس شخصیت کا ادبی پرتو شب خون کے مزاج سے نمایاں ہے۔ بہت سے پرچے سالہا سال تک چھپتے ہیں لیکن اپنی شخصیت کا نقش مرتب نہیں کر سکتے۔“
معیار، دہلی
شاہد ماہلی کا سہ ماہی معیار (1977) بھی جدیدیت سے متاثر رہا۔ اس رسالے نے بھی بہت سے نئے موضوعات پر مضامین شائع کیے۔ جدید ہندی ادب اور جدید ہندوستانی مصوری کے علاوہ پاکستانی ادب کا بھی خاطر خواہ گوشہ اس میں شامل رہتا تھا۔ یہ در اصل ایک طرح کی ادبی دیوانگی تھی جس کا مقصد نئے ادب سے قارئین کو روشناس کرانا تھا۔

اقدار، پٹنہ
پٹنہ سے1967 میں ظفر اوگانوی کی ادارت میں اقدار کا اجرا ہوا۔ یہ جدیدیت کا ترجمان رسالہ تھا۔ اداریے میں ایک اہم بات یہ تحریر کی گئی تھی کہ”اقدار زبان کی حد بندیوں سے بھی بلند ہے اس لیے ہم دوسری زبان کے ادیبوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔“
(ستمبر1967بحوالہ عطا عابدی، بہار کے اردو ادبی رسائل، صفحہ 168)
شعر و حکمت،حیدرآباد
شعر و حکمت حیدر آباد (جنوری1970) بھی جدیدیت سے متاثر رسالہ تھا۔ اس کے مرتبین میں مغنی تبسم اور شہریار تھے۔ اختر جہاں کا نام ایڈیٹر اور محتشم نوید کا مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے درج ہوتا تھا۔ شعر و حکمت میں زیادہ تر شاعری کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک اچھا رسالہ تھا جس کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا کہ: ”مشمولات کے اعتبار سے پرچہ درجۂ اول کی چیز ہے۔ اداریہ بہت عمدہ ہے۔ پرچہ پڑھے لکھے لوگوں کا معلوم ہوتا ہے۔“
عالم خوند میری نے اس پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یہ تحریر کیا تھا کہ: ”شعر و حکمت کے پہلے شمارے نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اردو کے شعری اور تنقیدی ادب کے لئے شعر و حکمت کا اجراء ایک اہم واقعہ ہے۔ نئی اور عصری شاعری کے لئے واقعی ایک سنجیدہ رسالہ کی ضرورت تھی۔“
خلیل الرحمن اعظمی نے اس رسالہ کو بہت خوب صورت انداز میں یوں سراہا کہ: ”شعر و حکمت اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا ایک نیا رسالہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو شعری ادب کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ پہلے پرچہ کی اٹھان بتاتی ہے کہ اس رسالہ کے ذریعے جدید شعری رجحان کے سلسلے میں جذباتی انداز کے مباحثوں اور مراسلاتی تحریر سے آگے بڑھ کر ہم زیادہ گہرائی کے ساتھ غور و فکر کرنا چاہتے ہیں۔ شعر و حکمت کے اس شمارے کی قابل توجہ خصوصیت ایسے مضامین کی شمولیت ہے جن میں معاصر شعراء کے تفصیلی مطالعہ اور تجزیے پیش کئے گئے ہیں۔ مغرب کے جدید شعری رجحانات سے روشناس کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔“
ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے لکھا کہ: ”یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اس صحیفے کو جدید شاعری اور اس کی تشریح و تعبیر کے لئے وقف کیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس نوع کے رسالہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔“
شعر و حکمت کی فہرست کا عنوان بڑا خوب صورت تھا۔ ’مافیہ‘ جس میں نظمیں، گیت، غزلیں وغیرہ شائع ہوا کرتی تھیں۔ شعر و حکمت کا ایک خصوصی شمارہ ن۔م راشد نمبر تھا۔ جس میں فکر و فن کے تحت بہت سی اہم تحریریں شامل تھیں۔ ن۔م راشد کی منتخب نظمیں ’افاداتِ راشد‘ اور جدید فارسی شاعری کے عنوان سے ن۔م۔ راشد کی تحریریں بھی شامل تھیں۔
اس رسالے میں ہم عصر شعر و ادب پر مضامین شائع کیے جاتے تھے اور تنوع کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔
سطور، دہلی
سطور جون 1970میں دہلی سے کمار پاشی کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ انھوں نے اپنے رسالہ میں یہ لکھا تھا کہ: ”سطور منٹو کے الفاظ میں کسی خاص ادبی گروہ کا بھونپو نہیں ہے بلکہ اس کی اشاعت کا مقصد ادبی گروہ بندی کے مقابل ادب میں آزاد خیالی، غیر جانب داری، صاف گوئی اور سنجیدہ روی کو فروغ دینا اور جدیدیت سے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی دھند دور کرکے صحیح راستہ تلاش کرنا ہے۔“
سطور بھی جدیدیت ہی کا ترجمان تھا جیسا کہ خطوط کے کالم بازگشت میں شامل انور سدید کے اس خط سے پتہ چلتا ہے: ”مجھے توقع ہے کہ سطور جدیدیت کو تحریک بنانے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔“ اور رسالہ کے مشمولات سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے۔ اس میں مضامین، نظمیں، افسانے، غزلیں، قطعات، رباعیاں کے علاوہ خصوصی مطالعہ، نئی کتابیں اور باز گشت کے عنوان سے نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ پہلے ہی شمارہ سے ارباب ادب کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہا۔ خاص طور پر جدیدیت سے حلقہ بہ گوش قلم کاروں میں اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔ ادارے کی طرف سے لکھا گیا تھا کہ: ”اس پرچہ کے اجراء کا مقصد محض چند افسانے، نظمیں اور غزلیں یکجا کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا نہیں بلکہ تخلیقی سطح پر نئی ہوش مندی کو فروغ دینا ہے۔ اب سے کچھ پہلے کچھ لوگوں نے زندگی کو امپورٹیڈ اصولوں کے تحت سمجھنے اور ادب خلق کرنے کا جو مینی فیسٹو مرتب کیا تھا اس کا طلسم اب شکست ہوگیا ہے اور جدیدیت کے رجحان نے ادب میں ایک نئے مکتبہ فکر کی بنیاد ڈالی ہے۔“
سطور میں جدیدیت کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ لکھا گیا ہے کہ:
”ہمارے نزدیک جدیدیت کوئی خارجی نظریہ، عقیدہ یا آسمان سے نازل ہونے والا کوئی حکمنامہ نہیں بلکہ زندگی اور کائنات کے مظاہر کو آزادانہ طور پر دیکھنے اور انسان کے داخلی خارجی نواح میں ربط تلاش کرنے کے لئے ایک نئے انداز نظر کا نام ہے۔“ اس رسالہ کی تخلیقات سے اس کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسے بہت سے اہم تخلیق کاروں کا تخلیقی تعاون حاصل تھا۔ اس میں بعض مضامین ادب اور تنقید کے حوالہ سے بہت قیمتی ہیں۔ مارچ۔مئی1978 میں ایک سوالنامہ دیا گیا تھا کہ: ”کیا اردو زبان کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے؟“ اس کے جوابات کرشن موہن، کوثر چاند پوری، بلراج کومل، پرکاش فکری، شرون کمار ورما، ڈاکٹر نریش اور شاہد میر نے دیے تھے۔ اس میں کرشن موہن جی نے اردو کی عربی اور فارسی آمیزی اور مشرف بہ اسلام ہونے کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ بلراج کومل نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ: ”بیگانگی کا سبب سرکاری سرپرستی کا فقدان ہے۔ اردو والے ہندی سے دور نہیں ہیں اور نہ ہی وہ فارسی اور عربی الفاظ کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں۔ معاملہ اس کے برعکس ہے ہندی والے دلی طور پر اردو سے دور ہیں اور وہ سنسکرت الفاظ کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں۔ بلراج کومل نے یہ بھی کہا کہ: ”فارسی اور عربی الفاظ کو مکمل طور پر اردو زبان کے دائرے سے خارج کر دیا جائے تو اردو اپنے مخصوص منفرد مزاج سے محروم ہو جائے گی۔ زبانیں شعوری آمیزشوں سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ وہ سماجی تقاضوں سے اپنی راہیں اسطوار کرتی ہیں۔“
ڈاکٹر نریش نے بھی اردو کے تعلق سے زیادہ مثبت خیال کا اظہار نہیں کیا۔ انھیں بھی عربی اور فارسی الفاظ سے شاید وحشت ہوتی ہو۔
اس رسالہ کے یک موضوعی شمارے بھی شائع ہوئے جن میں گوپال متل نمبر (فروری1983) قابل ذکر ہے. یہ خصوصی شمارہ گوپال متل کے شخصی اور شعری کردار کے حوالہ سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ شخصیت، نثر، شاعری، تاثرات، تبصرہ نگاری جیسے عنوانات پر یہ شمارہ محیط ہے۔ جس میں جگن ناتھ آزاد، مخمور سعیدی، آمنہ ابوالحسن، مظفر حنفی، وزیر آغا، بلراج کومل، عنوان چشتی، حامدی کاشمیری، بانی اور نظیر صدیقی کی تحریریں ہیں۔ اس میں ان کی شاعری اور مضامین کا بھی ایک انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ جس میں اردو میں ہندوستانیت کا فقدان، سماجی حقیقت نگاری، ادب میں فحاشی پر احتساب، احیائے ادب کی تحریک، ادب کے جدید رجحانات، مثنوی فریاد داغ، حضرت جگر، مجاز وغیرہ شامل ہیں۔ سریندر پرکاش کے حوالہ سے بھی مارچ (1981) میں یک موضوعی شمارہ شائع کیا گیا جس میں کمار پاشی کا مضمون ’دھند میں راستہ بناتا ہوا تلقارمس‘ کے علاوہ سریندر پرکاش کے افسانے بن باس، مردہ آدمی کی تصویر، ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے، جمغورہ الفریم، جپی ژان، تعاقب، کٹا ہوا سر، جنت، گاڑی بھر رسد، سم باڈی، نو باڈی، ڈیتھ باڈی اور برف پر مکالمہ شامل ہے۔ یہ رسالہ ادبی حلقہ میں مقبول ہوا۔ باقر مہدی نے لکھا ہے کہ: ”پرچہ کی خوبی یہ ہے کہ نان اکیڈمک یعنی غیر درسی ہے اس لئے بہت سے پروفیسر حضرات جدیدیت سے برہم ہیں۔ بشر نواز بہت سے دکتوران ادب سے کہیں زیادہ اردو اور فارسی ادب پر نظر رکھتا ہے اس لئے ڈگریوں کا تمغہ لگانے والے اس سے خفا رہتے ہیں۔“
جواز، مالیگاؤں
جواز مالیگاؤں بھی ایک اہم رسالہ تھا جو سید عارف اور نشاط انوار کی ادارت میں 1977 میں شائع ہونا شروع ہوا۔ ایک زمانے میں اس رسالے نے بھی بہت دھوم مچائی تھی۔
اوراق، لاہور
ڈاکٹر وزیر آغا کے اوراق لاہور نے بھی جدیدیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے مشمولات چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ یہ شاید پہلا رسالہ ہے جس نے انشائیے کو ایک اہم صنف کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ اس میں جو ادبی اور علمی مباحث ہوا کرتے تھے۔ اس نے ادب میں تحرک اور طغیانی کی کیفیت پیدا کی۔ یہ ایک رجحان ساز رسالہ تھا جس نے ادب کو بہت سے اہم موضوعات عطا کیے۔ خاص طور سے وہ موضوعات جو اردو ادب کے لیے اجنبی تھے۔ شاید ہی کوئی ایسا ادبی موضوع ہو جس کے حوالے سے اداریے یا مباحث شامل نہ کیے گئے ہوں۔ اوراق کا ایک کالم ”سوال یہ ہے“ کے عنوان سے تھا۔ جو بہت مقبول تھا، جس نے بحث و نظر کے نئے دروازے کھول دیے اور مختلف نظریہ فکر سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا مو قع عطا کیا۔ اسی کالم میں اردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش پر ایک فکر انگیز مکالمہ قائم کیا گیا جس میں مشتاق قمر محرک تھے اور شرکائے بحث میں عبادت بریلوی۔ عبد السلام خورشید، جمیل ملک، سلیم اختر، ناصر سید شہزاد اور جمیل آزر تھے۔ اردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش کو لے کر بہت سارے خدشات تھے جس میں انگریزی الفاظ پر احتساب عائد کرنے کی بات بھی کہی گئی تو بہت تو کچھ لوگوں نے کہا کہ انگریزی کا بر محل استعمال کوئی قبیح بات نہیں اور جو انگریزی کے الفاظ قبول عام حاصل کر چکے ہیں اس پر قدغن لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اوراق ایک دستاویزی مجلہ ہے۔ انور سدید نے بہت صحیح لکھا ہے کہ: ”اوراق تازہ ادبی مباحث کو ابھارنے، نئے صحت مند تجربات کو فروغ دینے، انشائیہ نگاری کے جدید ترین تصور کو رائج کرنے اور نظم اور غزل کو جدیدیت کی راہ پر ڈالنے میں پیش پیش ہے اور یہی اس کی انفرادیت ہے جس کا اعتراف عرصے سے کیا جا رہا ہے۔“
(بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔406)
اوراق کے اداریے بصیرت افزا اور فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں کہ: ”اوراق کے ہر اداریے کی حیثیت ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے معاشرہ، تہذیب اور کلچر کے ساتھ بھی مربوط ہوتی رہی۔ ان اداریوں کے مطالعہ سے نہ صرف سوچ کی گرہیں کھلتی ہیں بلکہ غور و فکر کے نئے زاویے بھی سامنے آتے ہیں۔ اوراق کے اداریوں کی ایک اولیت یہ بھی ہے ان میں تاریخی، مذہبی معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی، سماجی، ادبی اور تنقیدی و تحقیقی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔“
(بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔398)
مابعد جدید رسائل:
مابعد جدیدیت جو ایک نئی تحریک تھی اس سے مختص بہت کم مجلات تھے، مگر اس تحریک کے سب سے زیادہ اثرات ادبی معاشرے پر مرتب ہوئے۔ جدیدیت سے وابستہ بہت سے قلم کاروں نے بھی مابعد جدیدیت کا اثر قبول کیا۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے رسالے مباحثہ پٹنہ کو کسی حد تک مابعد جدیدیت کا نقیب کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ما بعد جدید نظریات اور تصورات کے حوالے سے بہت سے فکر انگیز مضامین شائع کیے گئے۔دانش الہ آبادی کا رسالہ سبق اردو بھی ما بعد جدیدیت کا نمائندہ مجلہ ہے۔ اس کے علاوہ آواں گارد سہ ماہی رسالہ استعارہ کا ذکر ضروری ہے کہ صلاح الدین پرویز اور حقانی القاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے اس مجلے نے بھی ما بعد جدید تصورات اور رجحانات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
**
ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت سے ماورا بہت سے ایسے مجلات ہیں جن سے ادبی ذہنوں کو تحرک ملا۔ ایسے رسالوں میں مژگاں (کولکاتہ)، سوغات (بنگلور)، کتاب نما (نئی دہلی)، الفاظ (علی گڑھ)، صبح نو (پورنیہ)، نقد و نظر (علی گڑھ)، آج کل (نئی دہلی)، سب رس (حیدرآباد)، فکر و نظر (علی گڑھ)، شیرازہ (کشمیر)، ایوان اردو (نئی دہلی) اردو دنیا (نئی دہلی)، بیسویں صدی (نئی دہلی)، ادب ساز (نئی دہلی)، روح ادب (کولکاتہ)، انشا (کولکاتہ)، زبان و ادب (پٹنہ)، اردو ادب (نئی دہلی)، استفسار (جے پور)، تفہیم (کشمیر)، تمثیل نو (دربھنگہ)، جہانِ اردو (دربھنگہ)، کوہ سار (بھاگلپور)، قصے (نئی دہلی)، انتساب (سرونج)، امکان (لکھنؤ)، ساغر ادب (مظفر پور)، ثالث (مونگیر)، پیش رفت (دہلی)، عالمی فلک (دھنباد)، اردو (امراوتی)، تحریک ادب (بنارس)، دربھنگہ ٹائمز (دربھنگہ)، ابجد (ارریہ) وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام رسائل میں اہم ادبی موضوعات اور مسائل پر تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ اصناف ادب، ادبی تحریکات و رجحانات، تنقیدی نظریات کے حوالے سے ان رسائل میں مضامین کا بیش بہا ذخیرہ ہے لیکن رسائل کی بھیڑ میں کم ہی ایسے رسالے ہیں جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہوں۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں ”یوں تو تقسیم کے بعد سینکڑوں رسالے ادبی افق پر طلوع ہوئے اور ان سب رسائل نے ادب کے صحت مند رجحانات پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ادب پر اپنے اثرات ثبت کرنے کے لیے جس طویل زندگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سے گنتی کے چند رسالوں کا مقدر بن سکی۔ ان رسائل میں ہمایوں، ادبی دنیا، ادبِ لطیف، افکار، نیا دور، ساقی، نقوش، سویرا، تخلیق، سیپ، فنون اور اوراق نمایاں ہیں۔“
محمود اسیر نے صرف پاکستانی رسائل کے نام لکھے ہیں ہندوستان میں بھی بہت سے رسالے ہیں جس نے ادب کے معیار و وقار اور اعتبار میں اضافہ کیا ہے اور ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان میں سوغات، شاعر، شعور، ذہن جدید، آج کل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سوغات، بنگلور
محمود ایاز کا رسالہ سوغات (1959) اس معنی میں بہت وقیع ہے کہ محمود ایاز کی تنقیدی بصیرت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے تخلیقات کے انتخاب اور اشاعت میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کو روا نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوغات کو علمی اور ادبی حلقوں میں سند اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے مدیر محمود ایاز نے باز گشت کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ قارئین اور قلم کار شائع شدہ تخلیقات پر اپنے رد عمل کا اظہار کر سکیں۔ یہ بہت مفید سلسلہ تھا، کاش آج بھی جاری رہتا۔ سوغات کا نئی نظم نمبر آج بھی ایک حوالہ جاتی اور دستاویزی اہمیت کا حامل ہے۔ محمود ایاز کے اداریے فکر انگیز، چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ اُن کی رائے بڑی بے لاگ ہوا کرتی تھی۔ پیشہ وارانہ تنقید سے انھیں وحشت ہوا کرتی تھی۔ وہ ایسے نقادوں کے مقابلے میں ایک باشعور قاری کو زیادہ اہمیت تھے۔ اس لیے اُن کا خیال تھا کہ: ”بعض اوقات ادب کا اچھا قاری ایک پیشہ ور نقاد سے اچھا فیصلہ دے سکتا ہے۔“
اسی جگہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: یوں بھی سرکار، دربار کے تمغے ہوں یا نقادوں کی عنایت کردہ اسناد دونوں کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل بات تو وہ ہوگی جو پڑھنے والے کہیں گے۔“
(بحوالہ: ڈاکٹر حلیمہ فردوس، اَرج، ص۔114)
شاعر، ممبئی
سیماب اکبرآبادی کا شاعر ممبئی بھی ایک اہم رسالہ ہے۔ اس کے اختراعی ذہن کے حامل مدیر افتخار امام صدیقی نے ادب میں بہت سے نئے تجربے کیے جس کی وجہ سے ادبی صحافت کو کئی اہم زاویے ملے. خاص طور پر شاعر کی خصوصی اشاعتوں اور اعترافی گوشوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ جن میں ہم عصر اردو ادب نمبرقابل ذکر ہے۔
ذہن جدید، نئی دہلی
زبیر رضوی کا رسالہ ذہن جدید بہت سے اعتبارات سے منفرد مجلہ ثابت ہوا۔ اس میں رسمی اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر بہت سے وہ موضوعات شامل کیے گئے جو اردو میں کم متعارف تھے۔ انھوں نے ادبیات کے علاوہ ذہن جدید میں فنونِ لطیفہ، تھیٹر، فلم، موسیقی، مصوری، آرٹ کلچر اور غیر ملکی ادب کے تراجم شائع کیے۔ اس کے علاوہ موضوعاتی مباحث کا سلسلہ قائم کیا۔ جس کی وجہ سے ذہن جدید کو بہت مختصر عرصے میں شہرت و شناخت کی وہ منزل نصیب ہوئی جو بہت کم رسالوں کا مقدر ہوتی ہے۔ زبیر رضوی کے اختراعی اور تجرباتی ذہن نے اس رسالے کو بام عروج تک پہنچایا اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کا نقش قائم کر دیا۔
شعور، نئی دہلی
بلراج مینرا نے اپنے مجلہ شعور کے ذریعے اس تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی منظر نامے کو روشن کیا جو قارئین کی آنکھوں سے اوجھل تھے۔ بہت سے اہم موضوعات پر شعور میں مضامین کی اشاعت ہوئی جس سے قاری ایک نئی دنیا کے رو بہ رو ہوئے، آرٹ اور ادب کی نئی جہتیں روشن ہوئیں، ایک نئے اور الگ زاویے نے ذہنوں میں جنم لیا۔
آجکل، نئی دہلی
رسالہ آجکل (1947) نے بھی اپنی انفرادی شان برقرار رکھی اور مختلف مدیروں کے اختراعی ذہنوں نے نئے نئے زاویوں اور جہات کی جستجو کی. یہ رسالہ بھی انفرادیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر آج کل میں موسیقی، مصوری، سیر و سیاحت، جنگلی جانور، کشمیر، جدید ہندی کہانی وغیرہ پر جو خصوصی شمارے شائع ہوئے اس سے قارئین کو ایک جہان دگر کی سیاحت کا لطف آیا۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے دو جلدوں میں آج کل کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ جس سے آج کل کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سب رس، حیدر آباد
سب رس (جنوری1938) بھی ایک اہم رسالہ ہے۔ یہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کا ترجمان تھا۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کی نگرانی میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر صاحبزادہ میر محمد علی خاں میکش تھے۔ اس کی مجلس ادارت میں خواجہ حمید الدین ایم۔اے، سکینہ بیگم، مہیندر راج سکسینہ شامل تھے۔ سب رس کے مقاصد و قواعد کی وضاحت یوں کی گئی تھی: ”مضامین متعلقہ سیاسیات حاضرہ اور مذہبی مباحث کسی صورت میں قابل اشاعت متصورنہیں ہوں گے٭ اردو مطبوعات پر بے لاگ تنقید کرکے اردو تصنیف و تالیف کا ذوق صحیح پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی٭ غیر زبانوں کے شاہکار مضامین کو اردو میں منتقل کرکے اردو کے علمی ادبی سرمائے میں اضافہ کیا جائے گا. "
اس رسالہ کا مقصد دکنی زبان و ادب کی بازیافت اور تحفظ تھا۔ اس نے دکنی ادب کو فروغ دینے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ دکنی مباحث اور ادبیات پر اس کے مضامین دکنیات پر کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب رس کے بہت سے خصوصی شمارے نکلے۔ جن میں اقبال نمبر، دکن نمبر، اردو نمبر، ترقی پسند نمبر اور دیگر خصوصی اعترافی گوشے قابل ذکر ہیں۔
نیا دور، لکھنؤ
رسالہ نیا دور (اپریل1955) بھی ایک اہم رسالہ ہے. اس نے بھی ادبی ذہنوں پر بہت مثبت اثرات مرتب کیے۔ یہ رسالہ اپنے خصوصی نمبروں کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ منشی نول کشور نمبر، یاد رفتگاں نمبر، اطفال نمبر، نصف صدی نمبر، اودھ نمبر، صحافت نمبر بہت مقبول ہوئے۔ اس رسالے سے اردو ادب کی بڑی اہم شخصیتیں وابستہ رہیں۔ اس کا مبسوط اشاریہ ڈاکٹر اطہر مسعود خان نے مرتب کیا ہے۔ جو رضا لائبریری رام پور نے شائع کیا ہے۔

اکیسویں صدی میں جن رسائل نے ادبی جمود اور جلمود کو توڑا ہے ان میں ’امروز علی گڑھ (ابوالکلام قاسمی)‘، ’اثبات ممبئی‘ (اشعر نجمی)، ’آمد پٹنہ‘ (خورشید اکبر)، ’استفسار جے پور (ش ک نظام، عادل رضا منصوری)‘ قابل ذکر ہیں۔ تحرک خیز اور فکر انگیزا دبی مباحث کی وجہ سے یہ رسائل ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔
تحقیقی مجلات
اردو میں خالص تحقیقی مجلات کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ اس ذیل میں معیار، دریافت، تحقیق، بنیاد، بازیافت، ریسرچ جرنل، خدا بخش لائبریری جرنل، رضا لائبریری جرنل، ہندوستانی الہ آباد، تحریر، دہلی اور سہ ماہی فکر و تحقیق، نئی دہلی، فکر ونظر علی گڑھ وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان رسائل کا ارتکاز صرف تحقیقی مقالات اور مضامین پر رہا ہے۔ اس میں کچھ شعبہ جاتی رسائل کے نام بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ پٹنہ یونی ورسٹی کا اردو جرنل بھی ایک تحقیقی مجلہ ہے اور چھپرا یونی ورسٹی سے نکلنے والا اردو اسٹڈیز بھی اسی زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
غالبیات، اقبالیات
کچھ ایسے رسالے بھی ہیں جو اقبالیات، غالبیات سے مختص ہیں۔ اقبالیات پر مرکوز رسائل میں اقبال اکیڈمی کراچی کا ’اقبال ریویو‘ اور اقبال اکیڈمی حیدرآباد سے شائع ہونے والے ششماہی ’اقبال ریویو‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ رسالے اقبالیات کے مختلف فنی اور فکری زاویوں اور جہات کی تفہیم سے متعلق تھے۔ غالبیات سے متعلق جو رسائل شائع ہوئے ان میں سہ ماہی ’غالب کراچی‘ مرزا ظفرالحسن کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے غالب انسٹی ٹیوٹ کا ’غالب نامہ‘ اور غالب اکیڈمی کا ششماہی ’جہانِ غالب‘ قابل ذکر ہیں۔ ’غالب نامہ‘ کا پہلا شمارہ جنوری -اپریل 1976میں شائع ہوا ہے، جس کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر یوسف حسین خان اور مدیر نثار احمد فاروقی تھے۔ اس میں غالبیات سے متعلق مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ ’احرام مدعا‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ”غالب نامہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غالب اور عہد غالب سے متعلق موضوعات پر علمی مضامین، سنجیدہ تحقیق کے نتائج، متوازن تنقیدی اور نئی معلومات پیش کی جائیں مگر مجلس ادارت نے غالبیات اور متعلقات غالب کے علاوہ مشرقی ادبیات کے دوسرے پہلوؤں پر بھی بحث و نظر اور تنقید و تحقیق کے لیے کھلے رکھے۔“ ششماہی ’جہانِ غالب‘ غالب اکیڈمی کا ترجمان ہے۔ اس کا پہلا شمارہ دسمبر 2005 میں ڈاکٹر عقیل احمد کی ادارت میں شائع ہوا۔ اس رسالے میں ماہرینِ غالبیات اور غالب شناسوں کی تحقیقات اور مطالعات پر مرکوز تحریروں کی اشاعت ہوتی ہے۔
یک صنفی رسالے
اردو میں بعض رسالے ایسے ہیں جو صرف ایک خاص صنف سے مختص ہیں۔ حیدرآباد سے نوراللہ محمد کی ادارت میں رسالہ مشاعرہ شائع ہوتا تھا، جو صرف شاعری کی تاریخ، سوانح اور کلام کے لیے مختص تھا۔ اسی طرح ابوالمحامد حکیم محمد عبدالرزاق عرشی کے زیر ادارت حیات سخن کے نام سے ایک رسالہ کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ جس کا مقصد قدیم طرز شاعری کا احیا تھا۔ سلسلۂ داستان گو بھی حیدرآباد کا ایک رسالہ تھا جو علی احمد بی۔اے کی ادارت میں جاری ہوا۔ اس میں طبع زاد اور مترجمہ افسانے ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ حیدر آباد سے ایک اہم رسالہ تاریخ کے نام سے 1929 میں حکیم سید شمس اللہ قادری کی ادارت میں جاری ہوا جو تاریخ اور آثار عتائق کی تحقیق و تفحص پر مرکوز تھا۔ یہ رسالہ تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے حوالہ جاتی حیثیت کا حامل ہے۔ مختلف شماروں کے مضامین سے اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جنوری 1929 کے شمارے میں مملکت آصفیہ (مدیر)، کتب خانہ اسکندریہ (جی ایچ بوشنل مترجمہ: مولوی سید معین الدین قریشی ایم۔اے) قنوج (وی۔اے اسمتھ مترجمہ: مولوی محمد ضامن کنتوری) جون 1940 میں پونا ملی کا قطب شاہی کتبہ، شہنشاہ بابر کے سکے، شیخ شہاب الدین سہروردی، سلاطین کلوا، مہم ارکاٹ، جنوری۔مارچ1931 میں امیر تیمور، (نواب جیون یار جنگ بہادر ایم۔اے)، وصیت نامہ(اورنگ زیب عالمگیر، درباب تقسیم مملکت)، سواحل ملیبار پر اشاعت اسلام (تحفۃ المجاہدین کے باب دوم کا ترجمہ)، اپریل تاجون 1929 کے شمارے میں دکن کی علمی ترقیاں (مدیر)، دکن میں مسلمان (مولوی سید حسن برنی)، سلاطین قطب شاہیہ کے تعلقات خارجہ (مولوی سید علی اصغر بلگرامی)، مورخ خافیخاں کا کتبہ (سید احمد اللہ قادری)، ملیبار سے عربوں کے تعلقات (مدیر) قابل ذکر ہیں۔
بلونت سنگھ کی ادارت میں الہ آباد سے ماہنامہ فسانہ دسمبر 1948 میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس رسالہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔ اسی رسالہ میں تیغ الہ آبادی، صالحہ نکہت کے فرضی نام سے بھی لکھا کرتے تھے۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ شاعر و ادیب کرشن کمار طور کی ادارت میں شملہ سے سرسبز شائع ہوتا ہے۔ یہ رسالہ صرف شاعری کے کے لیے مخصوص ہے۔ حیدر آباد سے مصطفی کمال پاشا کی ادارت میں شگوفہ نکلتا ہے جو طنز و مزاح سے مختص ہے۔ بنگلور سے عظیم الدین عظیم کی ادارت میں دوماہی ظرافت شائع ہوتا ہے۔ جو طنز و مزاح کے لیے مختص ہے۔ اس نوع کے اور بھی رسالے ہو سکتے ہیں۔ جن تک میری رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
حاشیائی رسائل:
اردو میں بہت سے رسالے قصبات، قریات اور اُن شہروں سے نکلتے ہیں جو مرکز سے بہت دور ہیں. اُن رسائل کی رسائی مخصوص علاقوں تک ہی ہو پاتی ہے۔ اُن سے ادبی صحافت کے مؤرخین اور محققین بھی کم ہی واقف ہو پاتے ہیں. جب کہ ان حاشیائی رسائل کی بڑی اہمیت اور معنویت ہے کہ ایسے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو شعر و ادب کے لیے زرخیز نہیں ہیں۔ وہ ان علاقوں میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وسائل کے بحران اور قاری کے فقدان کے باوجود شعر و ادب کی ترویج کے تئیں اُن کا جذبہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے اور وہ قابل مبارک باد ہیں کہ اردو کے ایسے علاقوں سے رسائل شائع کرنے کی جرأت کر رہے ہیں۔ ان میں ’صبح نو‘، پورنیہ، ماہنامہ ’پیامِ سحر‘ کشن گنج، ماہنامہ ’فانوس‘ کٹیہار، دو ماہی ’غالب‘ کٹیہار، دو ماہی ’افکار‘ پورنیہ، ’عکس‘، ارریہ، ’ابجد‘، ارریہ، ’جامِ نو‘، دھنباد، ’پروانہ‘ دھنباد، ’کوئل‘ پلامو، ’میراث‘، جھریا، ’روپ‘ جھریا، ’ارم چمپارن، ’آئندہ جمشید پور، ’شفق‘ بوکارو، ’انجو‘ مظفر پور، ’اسلوب‘ سہسرام، ’انعکاس‘ مظفر پور، ’نگارش‘ حاجی پور، ’جمیل‘ سیوان، ’حصار‘ رانچی، ’علم و ادب‘ لکھمنیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر عطا عابدی نے بہار کے ادبی رسائل میں ان پر اجمالی گفتگو کی ہے۔ بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں کے قصبات و قریات سے بھی یقینی طور پر اس نوع کے رسالے شائع ہوتے ہوں گے جن کا ذکر ادبی صحافت کے ضمن میں خال خال ہی آتا ہو۔ ڈاکٹر آصف فیضی کی کتاب ’دبستان صحافت‘ میں مالیگاؤں سے شائع ہونے والے کچھ اسی نوع کے رسائل کا ذکر ہے۔ جن میں معیار سخن، افتخار سخن، بہار، تاجدار، خورشید، پیغام، جمال، نوید نو، جلیس، نشانات، ہم زباں، روایت، احساس، رفتار ادب، محبان ادب، تصویر جدید، جدید رجحانات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح آندھرا پردیش کے پونم، شاداب، فنکار، بساط ذکر و فکر، اصنام، رنگ و بو، مقناطیس، خوشبو کا سفر، پیام اردو، عدسہ، لمس کی خوشبو، پروانۂ دکن، بزم آئینہ، الانصار۔ اترپردیش کے تیر نیم کش (مراد آباد)، خرام (کانپور)، افق نو (شاہجہاں پور)، شاندار (اعظم گڑھ)، گُل کدہ (بدایوں)۔ اڑیسہ کے روزن، ترویج، ادبی محاذ، نئی شناخت۔ تمل ناڈو کے سرکار، امام، آب و تاب، ساون۔ گجرات کے گلبن، ذخیرہ، اجلی تحریر، نکات رنگ و برو۔ مدھیہ پردیش کے شجر۔ مہاراشٹر کے صبح امید، تکلم، فنون، شاہین، قرطاس، دل رس وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
’علم و ادب‘ کے مدیر نے اس تعلق سے بڑی اہم بات لکھی ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے:
”علم و ادب کے نکالنے کا جواز کیا ہے۔ پہلا تو یہی کہ چھوٹی جگہوں کے لوگ بھی ادب کے بڑے مسئلوں میں اپنی ایک رائے رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ علم و ادب کے بڑے مراکز ان پر غور کریں یہ لوگ اپنے نظریے (کہہ سکتے ہیں کہ قصباتی یا علاقائی) کے تحت اردو کے بڑے منظر نامہ کو جانچنے پرکھنے کا ارادہ اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ رائے یا نظریہ، یہ ارادہ، یہ حوصلہ اور اس کی آواز صدا بہ صحرا نہ ثابت ہو اس لئے ’علم و ادب‘ جیسے جریدے کا تصور ابھر کر آیا۔
(بحوالہ: ڈاکٹر عطا عابدی، بہار میں اردو کے ادبی رسائل،ص۔248)
قاضی سلیم نے بھی اپنے ایک خط میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا تھا کہ:
”وقیع اور پائے کے ادب کے بجائے آج اردو کو افقی پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ بڑے ادب کے بجائے مختلف ادب درکار ہے۔“
***
حقانی القاسمی کی یہ نگارش بھی پڑھیں: اردو کی مشکوک شہریت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے