رضا نقوی واہی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

رضا نقوی واہی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری

بدرالہدی
راجکیہ کرت پلس ٹو ہائی اسکول حیدر نگر، ضلع: پلاموں، جھارکھنڈ، ہند

جب ہم اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کی بات کرتے ہیں تو اس میں رضا نقوی واہی کا نام ضرور لیتے ہیں اور ان کا شمار ایسے فن کاروں میں کرتے ہیں، جنھوں نے نہ صرف اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں اضافہ کیا بلکہ اس کے دائرے کو وسیع کیا اور اپنی شاعری میں ایسے ایسے موضوعات کا استعمال کیا جس میں تنوع اور نیا پن تھا. اسی لیے انھیں مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔
رضا نقوی واہی کی پیدائش صوبۂ بہار کے ضلع سیوان کی ایک بستی کھجوہ میں 17 جنوری 1914ء کو ہوئی۔ابتدائی تعلیم کھجوہ میں حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے پٹنہ کا رخ کیا۔ رضا نقوی واہی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہار قانون ساز اسمبلی میں اردو رپورٹر کی حیثیت سے بحال ہوئے اور 35 سالوں تک ملازمت کرنے کے بعد 1972 میں سبک دوش ہوئے۔ آپ کے شعری سرمائے حسب ذیل ہیں۔
1۔واہیات
2۔طنز و تبسم
3۔نشتر و مرہم
4۔کلام نرم و نازک
5۔نام بہ بنام
6۔شعرستان واہی
7۔منظومات واہی
8۔متاع واہی (یہ کلیات ہے )
رضا نقوی واہی کی وفات 6 جنوری 2002ء کو پٹنہ میں ہوئی۔
جہاں تک رضا نقوی واہی کی شاعرانہ سفر کی بات ہے تو انھوں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری شروع کر دی تھی اور کافی عرصے تک سنجیدہ شاعری کرتے رہے۔سنجیدہ شاعری سے طنزیہ و مزاحیہ شاعری کی طرف مائل ہونے کا جو سبب ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں:
"ہم نے معاشرہ اور سماج میں قدم قدم پر پھیلی ہوئی بدعنوانیوں پر، اس طرح کی نا ہمواریوں پر نظر رکھنے کے بعد دیکھا کہ یہ بہت بڑا کینواس ہے۔ ہمارے سامنے اگر ان ناہمواریوں کو سنجیدہ شاعری کے پیکر میں ڈھالیں تو یہ اتنے متاثر کن نہ ہوں گے جتنا طنزیہ انداز میں کہنے کا اثر ہوگا۔ ہنستے ہنساتے کچھ باتیں ہو جاتی ہیں۔" (واہی نمبر ۔ادب نکھار، صفحہ:20 بحوالہ رضا نقوی واہی۔صفحہ:33۔ ڈاکٹر رضوان احمد)
واہی کی شاعری میں مزاح سے زیادہ طنز کا پہلو غالب ہے۔ ان کی شاعری پڑھنے کے بعد قاری تڑپتا ضرور ہے لیکن روتا نہیں، مسکراتا ضرور ہے لیکن قہقہ نہیں لگاتا۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں ابتذال اور پھکڑ پن نہیں پایا جاتا۔ واہی کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اجتماعی مسائل پر بطور خاص دھیان دیا ہے اور انھیں اپنی شاعری میں کمال خوبی سے برتا بھی ہے۔ جب ہم ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں سیاسی، سماجی اور ادبی موضوعات نظر آتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد اصلاح ہے۔ اس لیے جب وہ سیاسی موضوعات پر نظمیں لکھتے ہیں تو ان کا مطمح نظر سیاست کے میدان میں اصلاح ہوتا ہے۔ جب وہ ادبی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں تو ان کا مقصد ادبی معیار کو بلندیوں پر فائز کرنا ہوتا ہے اور اسی طرح جب وہ سماج پر طنز کے تیر برساتے ہیں تو اس کا مقصد سماجی قدروں کو بحال کرنا ہوتا ہے۔ واہی نے اپنی نظم "ایم ایل اے" میں سیاسی پستی اور "پی ایچ ڈی" میں ادبی اور تعلیمی نظام میں ہونے والی گراوٹ کو طنز کا نشانہ بنایا ہے۔
واہی کے موضوعات کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ انھوں نے وزیر، لیڈر، ایم ایل اے، پروفیسر، ایڈیٹر، نقاد، محقق، شاعر، کاتب اور وکیل وغیرہ کو اپنی طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے اور ان لوگوں کی تفصیلات کو لیڈر کا پروگرام، ملا کا پروگرام، پروفیسر کا پروگرام، نقاد کا پروگرام، ایڈیٹر کا پروگرام، اور واہی کا پروگرام جیسی نظموں میں بہت ہی عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ بہ طور نمونہ یہ اشعار ملاحظہ ہوں: 
لیڈر کا پروگرام
لیڈر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈنا چاہیں
وہ پچھلے پہر حجرہ دلبر میں ملے گا
اور صبح کو وہ بندہ اغراض و مقاصد
سرخم کیے دربار منسٹر میں ملے گا
پروفیسر کا پروگرام
کالج کے مدرس سے ہو جو آپ کو ملنا
وہ پچھلے پہر اپنے نشیمن میں ملے گا
اور صبح کو وہ چند کتابوں کا مؤلف
ناشر سے تقاضاے کمیشن میں ملے گا
رضا نقوی واہی کی نظمیں ایسی ہیں جن میں بیک وقت کئی چیزیں نظر آتی ہیں۔ فکر و فن اور موضوع ہر لحاظ سے ان کی نظمیں کامیاب ہیں۔ طنزیہ و مزاحیہ نظموں میں انھیں اعلی مقام حاصل ہے اور ان کا شمار اردو کی نمائندہ نظموں میں ہوتا ہے۔ "انتقال کے بعد" انھی میں سے ایک ہے۔
رضا نقوی واہی کی یہ نظم ہر لحاظ سے مکمل اور دل چسپ ہے، کیونکہ انھوں نے فکر اور فن دونوں لحاظ سے اس نظم میں اپنا جوہر دکھایا ہے۔ اس نظم کو موثر بنانے کے لیے انھوں نے اپنے تخیل کا استعمال کیا ہے اور مستقبل کی بات کو ماضی کا جامہ پہنا کر بیان کیا ہے، جس سے نظم میں گہرا تاثر پیدا ہو گیا ہے۔ اس نظم کا مرکزی موضوع یہ ہے کہ فن کار جب تک زندہ رہتا ہے دنیا والے اس سے بے توجہی ہی برتتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں مختلف قسم کے مسائل اور الجھنوں میں گرفتار رہتا ہے لیکن کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ مگر وہی فن کار جب اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اہل دنیا کا کاروبار چل نکلتا ہے اور دنیا والے مختلف حیلوں اور بہانوں کے ذریعے اس کے نام کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حال میں نہیں چوکتے۔
اس نظم پر غور کرنے سے ہمارے عہد کا ادبی اور سماجی منظر نامہ بھی سامنےآجاتا ہے۔ ناقدوں، محققوں، شاعروں، پبلشروں اور لیڈروں وغیرہ کی حقیقت حال سے بھی ہم واقف ہو جاتے ہیں۔ بہ طور نمونہ یہ اشعار دیکھیں:
ایک ناقد نے یہاں تک بڑھ کے لکھا جوش میں
اس کا فن اکبر سے بالاتر تھا تن میں توش میں
اک محقق گھر پہ اس کے رات دن جانے لگے
اس کے اجڑے گھر کی تصویریں اتروانے لگے
کاوش تحقیق سے ان کی، برا تھا سب کا حال
کرتے پھرتے تھے محلے میں یہ اک اک سے سوال
بمبئی سے اور دلی سے کئی اک پبلشر
اڑ کے طیاروں سے آئے اور پہنچے اس کے گھر
اس کے مجموعوں کے حق ملکیت کے واسطے
اپنے نقصان اور اس کی منفعت کے واسطے
تھا الیکشن کا زمانہ اس لیے سرکار کی
مرنے والے پر نظر جانے لگی کچھ پیار کی
ہو گئی تھوڑی سی تبدیلی مروج رول میں
اس کے دو بچے فری پڑھنے لگے اسکول میں
مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ رضا نقوی واہی اردو کی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے باب میں ایک اہم نام ہے، اور انھوں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کے دامن کو اپنی غیر معمولی تخلیقات سے مالامال کیا ہے۔ واہی نے اپنے کلام کو ابتذال اور پھکڑ پن سے پاک رکھا اور اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو نئے موضوعات و مسائل سے آشنا کیا
***
بدرالہدی کی گذشتہ نگارش:رئیس احمد جعفری: ایک سوانحی خاکہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے