رئیس احمد جعفری: ایک سوانحی خاکہ

رئیس احمد جعفری: ایک سوانحی خاکہ

بدرالہدی
راجکیہ کرت پلس ٹو ہائی اسکول حیدر نگر، ضلع پلاموں، جھارکھنڈ

رئیس احمد جعفری کا شمار اردو کے زود نویس ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، صحافی، مورخ، ماہر اقبالیات، سوانح نگاراور مترجم تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تصنیف و تالیف میں گزارا۔ ان کی پیدائش سیتاپور یو پی میں 18 نومبر 1908ء کو ہوئی۔ بچپن میں ہی رئیس احمد جعفری کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اس لیے ان کی پرورش اور تربیت ان کی نانیہال خیرآباد میں ہوئی۔ رئیس احمد جعفری کے نانا نیاز احمد اردو کے مشہور شاعر ریاض خیر آبادی کے چھوٹے بھائی تھے۔رئیس احمد جعفری کی پرورش علمی و ادبی ماحول میں ہوئی اس لیے انھیں ابتدا سے ہی مطالعے کا شوق تھا۔ انھوں نے جب دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا تو وہاں کی انجمن "الاصلاح" سے منسلک ہو گئے۔ انجمن میں مختلف قسم کی کتابوں اور رسائل و جرائد کے مطالعے نے ان کی صلاحیت میں کافی اضافہ کیا۔ رئیس احمد جعفری 1929ء میں "الاصلاح" کے نائب ناظم اور 1930ء میں ناظم مقرر ہوئے۔ اس درمیان انھوں نے ایک قلمی رسالہ بھی جاری کیا اور انجمن کو ترقی کے راستے پر لا کھڑا کیا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں انھوں نے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن ٹونکی، مولانا حفظ اللہ، مولانا عبدالحلیم صدیقی، مولانا عبدالرحمن نگرامی اور مولانا شبلی وغیرہ جیسے علماء سے علم حاصل کیا۔
1930ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہڑتال کی وجہ سے جن چند طلبہ کا اخراج ہو گیا ان میں رئیس احمد جعفری بھی تھے۔ اس کے بعد انھوں نے دہلی کا رخ کیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیا اور 1930ء سے 1933ء تک جامعہ میں رہے۔ اس دوران انھوں نے انگریزی اور دیگر جدید علوم کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ندوہ سے ہی مضمون لکھنے لگے تھے۔ "رسالہ جامعہ" سے وابستگی نے ان کی تحریری صلاحیت کو اور جلا بخشی۔ اسی دور میں انھوں نے بعض عربی مضامین کا ترجمہ بھی کیا۔
1930ء میں مولانا محمد علی جوہر کے انتقال کے بعد رئیس احمد جعفری نے ان کی سوانح "سیرت محمد علی" کے نام سے تحریر کیا۔ وہ 1934ء میں مولانا شوکت علی کی دعوت پر بمبئی گئے اور 1938ء تک روزنامہ "خلافت" کے مدیر رہے۔ مولانا شوکت علی کے انتقال کے بعد روزنامہ "ہندوستان" اور روزنامہ "انقلاب" لاہور جیسے اخبارات کے مدیر رہے۔
تقسیم ہند کے بعد رئیس احمد جعفری پاکستان چلے گئے۔ پاکستان میں بھی وہ کئی رسائل و جرائد کے مدیر اور نائب مدیر رہے۔ جن میں روزنامہ "خورشید" روزنامہ "زمیندار" ماہنامہ "ریاض" اور سہ ماہی "ثقافت" کے نام سرفہرست ہیں۔ اس دوران رئیس احمد جعفری "ادارہ ثقافت اسلامیہ" سے بھی وابستہ رہے۔
"پاکستان کرونیکل" کے مطابق رئیس احمد جعفری کی تصانیف، تراجم اور تالیفات کی تعداد 300 سے زائد ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تصنیف و تالیف اور تراجم میں لگا دیا. رئیس احمد جعفری کی تخلیقات و تراجم کے موضوعات بھی کافی ہیں۔ انھوں نے اسلامیات، سیرت و سوانح، علم و ادب، تاریخ، ناول اور افسانہ جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ اس مختصر مضمون میں ان کی تمام تصانیف کا ذکر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کچھ اہم تصانیف و تراجم کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
اسلامیات:- نگارشات محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اسوۂ علی رضی اللہ عنہ، اسلامی جمہوریت، سیاست شرعیہ، امامت و سیاست، اسلام اور عدل و انصاف اور دین و دنیا وغیرہ
تاریخ:- علی برادران، آزادی ہند، غدر، حیدرآباد جو کبھی تھا، تاریخ اسلام، تاریخ خوارج، خلیفہ ہارون رشید اور ان کا عہد، بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد اور واجد علی شاہ اور ان کا عہد وغیرہ۔
سوانح:- مولانا محمد علی جوہر، سیرت محمد علی، حیات محمد علی جناح، اقبال اپنے آئینے میں، اقبال اور عشق رسول اور اقبال اور سیاست ملی وغیرہ۔
اردو ادب:- طلسم ہوش ربا (انتخاب)، فسانہ آزاد (تلخیص) اور شخصیت اور فن وغیرہ۔
تاریخی ناول:- طارق، شہاب الدین غوری، غازی صلاح الدین، فتح قسطنطنیہ، بابر، شاہجہاں، احمد شاہ ابدالی، تغلق اور بالاکوٹ وغیرہ۔
ناول:- شکاری، اسی کا نام دنیا ہے، خون بہتا رہا، خون کی ہولی، گرد کارواں، چاندنی، پاگل، سومنات، غم آرزو، دل کے آنسو، محبت کا انتقام، نفرت، دوست اور تڑپ وغیرہ۔
ترجمہ:- حکایات آغانی (جزاول تاہفتم)، زاد المعاد (جزاول تا چہارم)، حیات امام احمد بن حنبل، نہج البلاغہ اور سفرنامہ ابن بطوطہ (دوجلدیں) وغیرہ
رئیس احمد جعفری کی علمی وادبی خدمات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 1966ء میں انھیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔
رئیس احمد جعفری کی وفات 27 اکتوبر 1968ء کو لاہور میں ہوئی اور کراچی میں انھیں دفن کیا گیا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :آنس معین کا سوانحی خاکہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے