کتاب: افسانے کی شعریات

کتاب: افسانے کی شعریات

"افسانے کی شعریات"، افسانہ تنقید کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والی ایک بہترین کتاب ہے. 

محمد اشرف یاسین

ڈاکٹر رضی الدین (رضی شہاب) کی یہ کتاب شمس الرّحمٰن فاروقی کے فکشن تنقید سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ اُردو کے افسانوی ادب بہ طورِ خاص صنفِ افسانہ سے تعلق رکھنے والی شمس الرحمٰن فاروقی کی کتاب "افسانے کی حمایت میں" سے قارئین بہ خوبی واقف ہوں گے۔ یہ کتاب فاروقی کی مندرجہ بالا کتاب کا نہ صرف تنقیدی محاکمہ کرتی ہے، بلکہ افسانہ تنقید سے تعلق رکھنے والے کئی گوشوں سے بحث بھی کرتی ہے۔ بیان، بیانیہ اور بیان کنندہ جیسی چیزوں پر گفتگو کرتے ہوئے اس کتاب میں اشاریہ سازی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
افسانے کی شعریات اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور جامع کتاب ہے، میرے علم و یقین کے مطابق یہ کتاب افسانے کی شعریات کی باضابطہ تفہیم اور تجزیہ کے سلسلے کی ایک بہت ہی اہم کڑی ہے۔ جس میں افسانے کے کئی اہم اجزا پر پہلی مرتبہ مکمل، مفصل اور سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، اس کتاب کو رضی شہاب نے دس عنوانات میں منقسم کیا ہے، جو کچھ اس طرح سے ہیں۔ "افسانے کی حمایت میں: شور برپا ہے خانۂ دل میں"، "افسانہ کہانی واقعہ اور فکشن کی توضیح"، "بیان، بیانیہ اور افسانہ"، "بیان کنندہ راوی اور بیانیہ"، "افسانہ حقیقت یا حقیقت کا سوانگ"، "پلاٹ کا تصور"، "افسانہ اور تصور زمان و مکان"، "باشندگانِ افسانہ و فسانۂ باشندگان"، "زبان تخلیقی زبان اور افسانہ"، "دلچسپی، کہانی پن اور افسانہ"۔ ان عناوین کے بعد بھی مزید چار عنوانات اس طرح سے ہیں۔ "شمس الرّحمٰن فاروقی اور افسانے کی عملی تنقید"، "اشاریہ: اشخاص"، "توضیحی اشاریہ" اور "کتابیات"۔
اب زیر نظر کتاب پر تبصرہ کو مندرجہ ذیل متعدد نکات کی شکل میں پیش کیا جارہاہے۔
1- پروف ریڈنگ کی غلطیاں جابجا کھٹکتی ہیں، جیسے مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 20 پر سطر نمبر 20 میں برتر یا "کمتر" کے بجائے "کہتر" ہوگیا ہے۔ صفحہ نمبر 42 پر پہلی سطر میں ارسطو سے "لے کر" ہیگل کے بجائے "لے لر" درج ہے اور صفحہ نمبر 156 پر ہارورڈ یونی ورسٹی کی جگہ پر باردوڈ ہوگیا ہے۔
2- پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ کتاب کی سیٹنگ میں بھی کچھ کمیاں رہ گئی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ صفحہ نمبر 55 پر پہلے پیراگراف کی آخری سطر "تھرڈ پرسن نیریٹر" کو اُردو کے بجائے انگریزی میں بھی لکھ دیا جائے تو اچھا ہے اور اُسی صفحہ پر بالکل آخری سطر میں کوما بھی اپنی درست جگہ پر نہیں ہے۔
3- کتاب میں انگلش الفاظ کا جابجا استعمال مجھے درست معلوم نہیں ہوتا، بطورِ خاص اس صورت میں جب کہ اُن انگلش الفاظ کے متبادل اُردو میں موجود ہیں، جیسے dust bin (ڈسٹبن): کوڑے دان، (صفحہ نمبر : 26 سطر نمبر 21) وغیرہ۔
رضی شہاب کی نیت اور خلوص پر مجھے شک نہیں، ہوسکتا ہے کہ ان اصطلاحات کو اُردو میں مروج کرنے کے پسِ پردہ سر سید احمد خان (1898:1817) کی طرح ان کی بھی یہ منشا ہو، کہ "دوسری زبان کے لفظوں کو اپنی زبان میں بولنا کبھی عبارت کا لطف بڑھانے کے لیے ہوتا ہے۔ کبھی اپنی زبان کو وسعت دینا اور نئے لفظوں کا اس میں داخل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ کبھی سامعین کو مطلب کی طرف زیادہ متوجہ کرنے کے لیے بولا جاتا ہے، کبھی اس عظمت کو جتانے کو کہا جاتا ہے جو عظمت اس کے مترادف سے جو اس زبان میں مستعمل ہے دل میں نہیں بیٹھتی۔"
(اُردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ، ڈاکٹر منظر اعظمی : ص224)
4- پوری کتاب میں کسی ایک زبان کا ہندسہ استعمال نہیں کیا گیا ہے، کہیں اُردو ہے تو کہیں انگلش، جیسے صفحہ نمبر : 18 سطر نمبر 13 اور 14، صفحہ نمبر : 23 سطر نمبر 15، 16 اور 18، صفحہ نمبر: 43، سطر نمبر 11، صفحہ نمبر 162، سطر نمبر 4، کتابیات والے حصہ میں تو یہ چیز سب سے زیادہ ہے۔
5- کتاب میں درج تمام فلاسفرز اور ناقدین کی تاریخ پیدائش اور وفات گرچہ توضیحی اشاریہ میں درج کردی گئی ہے، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ کتاب میں جہاں جہاں بھی مذکورہ فلاسفرز اور ناقدین کا نام آیا ہے۔ وہاں وہاں بریکٹ میں ان کی تاریخ پیدائش اور وفات بھی درج کردی جاتی تاکہ اُن کے مابین افکار و نظریات کے ساتھ ساتھ زمانی قُرب و بُعد بھی ہمارے پیشِ نظر رہے۔
6- کتاب میں درج "اشاریہ اشخاص" اور "توضیحی اشاریہ" نے کتاب کی اہمیت و افادیت کو دو چند کردیا ہے۔
7- کتاب میں مجھے ایک اچھی پہل اور خوبی یہ نظر آئی کہ مصنف نے جگہ جگہ انگریزی الفاظ و اصطلاحات کا اُردو ترجمہ بھی لکھ دیا ہے، جس سے کتاب کی تفہیم میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ جیسے، تہہ: Layrs (صفحہ نمبر :32)، بیانات: Narratology، بیانیہ: Narrative، بیان کنندہ (راوی): Narrator، (صفحہ نمبر:50) وغیرہ
8- کیا ہی اچھا ہو کہ کتاب کے عنوان میں شامل لفظ "شعریات" کی مختصر طور پر ہی سہی تعبیر و توضیح پیش کردی جائے، تاکہ مبتدی طلبہ کو بھی یہ چیز بہ آسانی سمجھ میں آسکے۔
میں اپنے تبصرے کے اختتام پر استادِ محترم پروفیسر معین الدین جینا بڑے کے ایک قول سے اتفاق کی وجہ سے، اُسے پیش کرنا چاہتا ہوں، جو اس کتاب کے "پیش لفظ" میں صفحہ نمبر 12 پر درج ہے۔ "افسانہ نگاری کارِ طفلاں نہیں، فلسفہ طرازی ہے۔ اس میں زندگی کا فلسفہ، فن کے قالب میں ڈھل کر دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ وہ منظر دیدنی ہوتا ہے جب رنگ صہبا شیشے سے چھلکا پڑرہا ہو اور ایک دنیا دیکھ کر دم بخود ہوئی جارہی ہو۔ تحیر کا وصف فن کا اعجاز ہوتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
تو ہم فن کی تعظیم و تکریم اور اس کے تقدس کا احترام کررہے ہوتے ہیں۔ اس اعتراف کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس سے فن کی تفہیم و تنقید کا حق ادا نہیں ہوتا۔ تفہیم و تنقید کا حق ادا کرنے کا اہل ہونے کے لیے بھی آدمی کو خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے۔ اس کی استعداد اور توفیق عام نہیں۔ اور پھر اس عمل کی اپنی بھی تو ایک تخلیقی جہت ہوتی ہے۔"
مجھے قوی امید ہے کہ ڈاکٹر رضی الدین اس کتاب کی دوسری اشاعت میں اسے مزید بہتر بنانے کی ضرور کوشش کریں گے۔
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:پیغام آفاقی پر سلمان عبدالصمد کا مونوگراف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے