مثنوی کرب جاں ایک موج خوں

مثنوی کرب جاں ایک موج خوں

عشرت ظفر

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

معروف فکشن نگار و شاعر غضنفر کی مثنوی کرب جاں پڑھ کر مرزا اسداللہ خاں غالب کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے۔
موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستان یار سے اٹھ جائیں کیا؟
غضنفر کو اردو اور ہندی دونوں زبانوں پر یکساں دسترس حاصل ہے. زبان کے بارے میں ان کا موقف واضح اور مستحکم ہے. یہی وجہ ہے کہ دونوں زبانوں کے سبزہ زاروں میں ان کا طائر قلم خوب چہچہاتا ہے. اس چہکار سے شبنم بھی تراوش کرتی ہے. شعلے بھی لپکتے ہیں اور موج خوں کا آوازہ بھی خوب گونجتا ہے۔ غضنفر کی نثری و شعری تصانیف پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو مثنوی کرب جاں ان کی چھبیسویں کتاب ہے۔ ان میں شاعری بھی ہے، افسانہ بھی ہے، ناول بھی ہے اور تنقید بھی ہے۔ خاکہ نگاری میں بھی انھیں کمال حاصل ہے. کوئی بھی صنف ہو ان کا قلم اس کے خدو خال ابھارنے میں پوری مہارت رکھتا ہے. کوئی کوتاہی یا کمی نظر نہیں آتی. گویا وہ پتھر کے فاضل ٹکڑوں کو ہٹاتے جاتے ہیں اور ہنستے مسکراتے ہوئے اصنام طلوع ہوتے جاتے ہیں۔ غضنفر سے میری شناسائی، ملاقات، جان پہچان یا دوستی کم و بیش تیس سال پر مشتمل ہے اور خاص طور پر اس لمحے سے منسلک ہے جب ۱۹۸۹ء میں ان کا شاہ کار ناول ”پانی “ شائع ہوا تھا. وہ اس وقت ہماچل پردیش کے سولن میں تھے اور میں نے پانی کے لیے ان کے سامنے دست طلب دراز کیا تھا کیونکہ تشنگی میرا مقدر ہے، چنانچہ پانی سے میری تشنگی کم نہیں ہوئی. ان کی کتابیں آتی رہیں. میں پڑھتا رہا. میں نے ان کی تنقید بھی پڑھی، فکشن بھی، شاعری بھی اور خاکے بھی. کچھ ہی دنوں پہلے ساجدہ زیدی اور شمس الرحمن فاروقی سے متعلق لکھے جانے والے خاکے بھی میرے زیر مطالعہ رہے۔
غضنفر سولن سے لکھنؤ آچکے تھے، وہ کانپور بھی آئے، میری ان سے ملاقات ہوئی، میں ان کی بے پناہ محبت اور خلوص کا قائل ہوں. جو آج بھی ہے اور ان سے ایک تعلق خاطر بھی جو میری آخری سانس تک رہے گا. ان کی بہت سی کتابیں مجھے ڈاک کے ذریعہ موصول ہوتی رہیں اور میں پڑھتا رہا۔
گزشتہ ۱۳ اگست ۲۰۱۷ء کو جب میں شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی شعری نشست میں شریک تھا تو غضنفر سے میری وہاں ملاقات ہوئی اور انھوں نے اپنی تازہ تصنیف مثنوی کرب جاں مجھے عنایت فرمائی. یہ وہ شعری کتاب ہے جو اس وقت زیر گفتگو ہے۔
مثنوی کرب جاں میں شاعر نے جس بحر کا استعمال کیا ہے وہ ابوالقاسم فردوسی کے شاہ نامہ ایران کی وہ معروف بحر ہے جس میں اس نے ساٹھ ہزار اشعار کہے تھے یعنی بحر متقارب مثمن محذوف ( فعولن فعولن فعولن فعل).
فارسی اور اردو مثنویوں میں کم و بیش سات بحروں کا استعمال ہوا ہے. اردو فارسی میں بیشتر یہی بحریں ہیں. لیکن یہ کوئی قطعی یا اصولی اصول نہیں ہے. اردو مثنوی نگاروں نے فارسی شعرا کی تقلید کی ہے. میں نے ان بحروں کی تقریبا سبھی مثنویاں پڑھی ہیں. لیکن الفاظ کی در و بست روانی اور بہاؤ فعولن فعولن فعولن فعل جیسا کسی بھی بحر میں نہیں ہے۔ عبدالرحمن جامی کی یوسف زلیخا اسی بحر میں ہے. نظامی گنجوی کا سکندرنامہ مفاعیلن مفاعیلن فعولن میں ہے. مگر اس میں وہ روانی نہیں ہے جو شاہ نامہ فردوسی یا یوسف زلیخا میں ہے. یہ بحریں کچھ اس طرح ہیں (فعولن فعولن فعولن فعل بحر متقارب مثمن محذوف) مفاعیلن مفاعیلن فعولن بحر ہزج مسدس محذوف) مفعول مفاعلن فعولن بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض) فاعلاتن مفاعلن فعلن بحر خفیف مسدس مخبون محذوف) مفتعلن مفتعلن فاعلن بحر سریع مسدس محذوف) فاعلاتن فاعلاتن فاعلن بحر رمل مسدس محذوف) فعلاتن فعلاتن فعلن بحر رمل مسدس مخبون محذوف) اردو میں مرزا شوق، دیا شنکر نسیم، میر حسن اور بہت سے شعرا کی مثنویاں انھی بحروں میں ہیں. فیض اللہ خاک کا پیام نامہ اور جوش ملیح آبادی کی ایک مثنوی بھی بحر متقارب مثمن محذوف میں ہے. عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ دیگر بحور و اوزان مثنوی جیسی صنف سخن کو راس نہیں لیکن بیشتر شعرا اور ناقدین فن نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے. وہ اسے کوئی کلیہ نہیں مانتے کہ اور بحروں میں مثنوی نہیں لکھی جا سکتی یا پھر ان بحور میں وہ روانی نہیں ہے. دوسری بحریں بھی خوب استعمال ہوئی ہیں. ان میں محسن کا کوروی کی مثنوی سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل شاہ کار ہے. اس تحریر میں میرا موضوع مثنوی کرب جاں ہے جس میں شاعر نے قدیم طلسموں کو توڑا ہے. اپنی الگ راہ نکالی ہے اور کرب جاں کو اپنے زمانے سے ہم آہنگ کیا ہے. شاعر روایتی موضوعات کا اسیر نہیں ہے. اور یہی مثنوی کرب جاں کی خوبی ہے۔
مثنوی میں سترہ عنوانات قائم کئے گئے ہیں. جن میں حمد باری تعالی، مدح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مناجات بھی ہیں. یہ امتیاز قدیم مثنویات کا بھی ہے. تقریباً 116 صفحات میں ایک ہزار ایک سو ستائیس اشعار ہیں جن میں شاعر نے اپنی برش تیغ نظر کے جوہر دکھائے ہیں اور یہ اشعار ہر زاویے سے شاعر کی بلندی فکر کے آئینہ دار ہیں۔
عصر رواں ایک ایسی موج خوں ہے جو ہم سب کے سروں سے گزر رہی ہے. بس یہ کہ ہمیں ثابت قدم رہنا ہے. احساس کرنے والے کم ہیں اور جو محسوس کرتے ہیں وہ خوں آشام تیروں کے بستر پر لیٹے ہیں اور ہرلمحہ ایک عفریت کی طرح ان کا خون پی رہا ہے. انھی میں ایک غضنفر بھی ہیں. انھوں نے یہ کرب انگیز مثنوی ہی موج خوں کے سر سے گزرنے کے احساسات کے زنداں میں قید ہو کر لکھی ہے۔
حمد خدا، مدح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مناجات باری تعالی کے بعد انھوں نے "روداد قصہ گو کی زندگی کی“ کے عنوان سے جو شعر لکھے ہیں اس میں انھوں نے اپنی زندگی کے فکر و نظر اور محسوسات کے بہت سے مناظر ہمیں دکھائے ہیں. کچھ شعر مثالاً پیش کیے جاتے ہیں۔
میں انیس سو ترپن میں پیدا ہوا
غضنفر مرا نام رکھا گیا
روایت کے رستے پر لایا گیا
مجھے مدرسے میں بٹھایا گیا
کلام الہی پڑھایا گیا
مجھے نیک بندہ بنایا گیا
دکھائی گئیں وہ حسیں صورتیں
کہ حیرت میں پڑ جائیں خود حیرتیں
مگر مدرسے سے میں گھر آگیا
کہ مجھ پر عجب اک سماں چھا گیا
شاعر ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور بیسویں صدی کا نصف اول ختم ہونے کے بعد اسے مذہبیات کی طرف گھر کے لوگ لے گئے مگر اس کا وہاں جی نہیں لگا آخر اسے گاؤں کی فضا راس نہیں آئی اور جوانی کے شروع ہوتے ہی وہ شہر جا نکلا. گو یا اب قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہیں تھا اور شہر کی ہوا کھانے لگا تھا، جوانی عمر کی دہلیز پار کر رہی تھی، علی گڑھ آیا جہاں علم کی خوشبو کا تموج تھا، اسے یہاں طرح طرح کے لوگ ملے. روشن نظریات والے بھی اور تاریکی کی دبیز دھند میں اپناراستہ تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف اصحاب و احباب بھی۔
قصہ گو کی زندگی کی روداد میں مثنوی نگار نے بہت سے اشعار کہے ہیں جو تقریبا ۲۲ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں. اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے جس میں بصیرت کی فسوں خیز چاندنی چھٹکی ہوئی ہے۔
اسی عالم کرب میں یہ لگا
کہ چپکے سے جیسے کسی نے کہا
ابلتا ہے جو جسم میں کرب جاں
کسی طرح اس کو کروں میں بیاں
رقم اس طرح اک فسانہ ہوا
مرا کرب کرب زمانہ ہوا
یعنی شاعر عرفان کی منزلوں تک پہنچا، اور ہر طرف سے یہ صدا آنے لگی کہ جو دل پر گزررہی ہے وہ رقم کرو. قلم کا بطن ہو یا نافۂ لفظ، رنگ ہو یا خوشبو، سمندر ہو یا سراب حساس شاعر ان حالات میں قلم اٹھاتا ہے اور چشم قلم سے سیل اشک رواں ہو جاتا ہے اور شاعر اپنے عہد کو اشعار میں ڈھالتا چلا جاتا ہے، جو کچھ اس طرح ہے مدعا کرب جاں بیان کرنے کا۔
رواں مثنوی کا ہوا سلسلہ
کہانی سنانے کا پھر مدعا
طبیعت کا ہو جائے پھر امتحاں
دکھائیں ہنر بھی زبان و بیاں
پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے، ” آغاز کرب جاں کے قصے کا" ان اشعار سے ہوا ہے۔
سنو اک زمانے کے دانش ورو
سنو ایک کہتا ہوں قصہ سنو
چنانچہ اس قصے میں ایران، توران، خراسان، افغانستان، جن، بھوت، پری، شہزادی کی باتیں نہیں ہیں. یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب انسان آسمان میں تھگلی لگا رہا ہے. یہ آب و آتش کے اسیر کرنے کا زمانہ ہے. لیکن بہر حال انسان تو وہی ہے، لیکن ذہنی افق بے حد کشادہ اور ضوفشاں ہے. شاعر اس قصے کو تریاق بتاتا ہے اور رواں نسل پر واضح کرتا ہے کہ یہ اندھیرے کا چقماق ہے پھر داستان اساس قصہ کی کچھ یوں شروع ہوتی ہے۔
سنا ہے کہ سارا جہاں ایک ہے
زمیں ایک ہے آسماں ایک ہے
سبھی انس و جن کا خدا ایک ہے
سبھی کے نفس میں ہوا ایک ہے
تو پھر کوئی کیسے ہوا باہری
کہ جس کے لیے ہے مچی کھلبلی
کہ جس کے سبب آشیاں منتشر
مکیں منتشر ہیں مکاں منتشر
مثنوی میں اس طرح کے موضوعات قائم کئے گئے ہیں جن سے سارے عہد کا گہرا تعلق ہے (داستان ان کے قیام کے اسباب کی) داستان ان کے دم سے سماں بدلنے کی) داستان بدلے ہوئے سماں کے رد عمل کی) داستان منتھن، چنتن اور منن کی) داستان صحیفے سے نکلی ہوئی روشنی کی) داستان کھلے ہوئے قدموں کی روانی کی) جس کے دم سے بستی ہنوز باقی ہے داستان اس وجود کی) داستان ایک خوف کے اسباب کی) داستاں اندیشہ ہائے دور و دراز کی) داستان صف بے زبانی کے کردار کی)۔
اس طرح کے سترہ عنوانات کے تحت مثنوی نگار نے ماضی سے لے کر مستقبل تک ایک داستان رقم کی ہے جو اس عہد کا المیہ ہے. گویا ایک صندوق ہے، اسطوری و صنمیاتی نہیں بلکہ حقیقی، جس میں مصائب کا ایک انبار عظیم ہے۔ سوالات در بدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں. جوابات ان سے مجرم کی طرح گریزاں ہیں. لیکن اس صندوق میں امید کی ایک تابناک کرن بھی ہے، جو وسعت پذیر ہو کر تمام مصائب کے اندھیروں کو نگل جائے گی، نئی صبح طلوع ہو گی۔ شاعر بشارتیں دے سکتا ہے، اندھیرے میں چلنے کا ہنر سکھاتا ہے. شاعر مبلغ، مفسر، شارح یا ہادی نہیں ہوتا. اس کی بساط ادراک پر آنے والے زمانوں کا ظہور ہوتا ہے. اس کی تحویل فکر میں ماضی کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے. جس میں سے تصویریں نکال نکال کر وہ دکھاتا ہے. اس کا بیان گرم، نازک پیچیدہ استعاروں اور اشاروں میں ہوتا ہے۔ غضنفر نے یہ تکنیک حاصل کرلی ہے. ان کا ذہن بالیدہ اور منزہ ہے. انھوں نے حزنیہ لہجے میں اپنی فکری بصیرتوں کا اظہار کیا ہے، اور یہی بہتر طریقہ بھی ہے. کیونکہ عیب جوئی، دشنام طرازی تو کم ظرفی گفتار کی دلیل ہے. دیدۂ تر کی شائستگی ہی اصل میں تہذیب کا اعلامیہ ہے، سنگ میل ہے، وہ مینارہ نور ہے جس کی روشنی میں آنے والی نسلیں اپنے سفر کا تعین کرتی ہیں. چند مثالیں یوں ہیں:
جڑے تھے جواہر بھی دیوار میں
کھدے تھے عجب نقش مینار میں
عجب اک روشن سماں فرش پر
کہ جیسے کوئی کہکشاں فرش پر
کوئی کنس پاؤں پسارے یہاں
کوئی رام راون سے ہارے یہاں
کنہیا کی مرلی میں بادھا پڑے
محبت میں کوئی بھی رادھا پڑے
نہ لکشمن کی ریکھا کو لانگھے کوئی
نہ دیوار مریم کی پھاندے کوئی
نہ خوبی مہاویر کی ماند ہو
گہن میں کبھی گوتمی چاند ہو
کوئی اور بھی اس کہانی میں ہے
مگر وہ صف بے زبانی میں ہے
جو ملنا ہے اس سے تو مقصد پہ آؤ
ذرا اپنی نظروں کو پینی بناؤ
دکھائی پڑے گا وہ کردار بھی
سمائے گا دل میں وہ فن کار بھی
بنا جس نے قصہ بڑے چاؤ سے
ملن کے لیے نار الگاؤ سے
مثنوی کا اختتام ان مصرعوں پر ہوتا ہے جس میں شاعر نے اتحاد کا فلسفہ پیش کیا ہے جو کرہ ارض پر نسل آدم کے لیے تریاق ہے. یہ وہ نوشینہ  ہے جو زہر ہلاہل سے ہی برآمد ہوا ہے۔
محبت بنے ایسی یاد بہار
نکھر جائے گلشن کا ہر برگ و بار
نہ شاخ شجر پر رہے کوئی خار
نہ گل پر کسی طرح کا کوئی بار
فضا چپے چپے کی ہو مشکبار
جدھر دیکھتے ہوئے نظر لالہ زار
محبت سے فولاد بن جائے موم
نکل جائے اعلیٰ دماغی کا زعم
محبت محبت کے جھونکے چلائے
محبت ہوا کی طرح پھیل جائے
غضنفر کو زبان و بیان پر پوری دسترس ہے۔ ہندی، اردو، فارسی، عربی الفاظ کا کوئی امتیاز نہیں ہے. یہ ایک متوسط اور سیکولر زبان ہے. گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہندستانی زبان ہے، جس میں یہ مثنوی رقم کی گئی. ہمارے مثنوی نگار کی علم تاریخ علم اساطیر اور علم بشریات و نفسیات پر گرفت مضبوط ہے اور یہ تمام علوم اس مثنوی کے اشعار سے قطرہ قطرہ تراوش کر رہے ہیں. میں کہہ سکتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں تخلیق کی جانے والی یہ مثنوی اس صدی ہی کے آئندہ برسوں میں آنے والی نسلوں کے لیے نئی فکری راہیں ہموار کرے گی۔ اور ان کا سفر بالخصوص مثنوی کرب جاں کی روشنی میں آسان ہوگا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے