پیغام آفاقی پر سلمان عبدالصمد کا مونوگراف

پیغام آفاقی پر سلمان عبدالصمد کا مونوگراف

محمد اشرف یاسین
رابطہ: 8002260577

پیغام آفاقی (1957ء-2016ء) ایک خلاقانہ ذہن اور اردو ادب میں مجتہدانہ صفات کے حامل شخص تھے۔ ان کا حقیقی نام علی اختر فاروقی ہے، لیکن ادبی حلقوں میں یہ اپنے قلمی نام ”پیغام آفاقی" سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے نظمیہ اور غزلیہ شاعری، افسانہ اور ناول نگاری، مضامین، ڈراما نگاری و اسکرپٹ رائٹنگ کے ساتھ ساتھ ایکٹنگ وغیرہ میں بھی قسمت آزمائی کی۔ لیکن پیغام آفاقی کو ادبی دنیا میں شہرت ان کے ناولوں کی وجہ سے ملی۔ انھوں نے اپنے پیچھے چار ناول چھوڑے اور شاعری و افسانے کے ایک ایک مجموعوں کے ساتھ تقریباً دو درجن مضامین بھی۔  
زیرِ تبصرہ کتاب، فرد نامہ(مونوگراف) پیغام آفاقی کی جملہ خصوصیات پر لکھی گئی اور شائع ہونے والی ان معنوں میں یہ پہلی کتاب ہے، کیوں کہ اس میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ پیغام آفاقی کی سوانح، شخصیت، شعر و شاعری، ناول نگاری، افسانہ نگاری، تنقید نگاری، ڈراما نگاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کے ساتھ ساتھ ان کی ایکٹنگ پر بھی حتیٰ الامکان گفتگو کی گئی ہے۔ گرچہ پیغام آفاقی پر اس کتاب سے پہلے بھی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک خان محمد آصف کی ہے اور دوسری عارفہ شبنم کی، لیکن خان محمد آصف کی کتاب مضامین کا مجموعہ ہے، جب کہ عارفہ شبنم کی کتاب پیغام آفاقی کی افسانہ نگاری پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کتابوں سے پیغام آفاقی کی جملہ خصوصیات پر روشنی نہیں پڑتی۔ یہ دونوں کتابیں اس مونوگراف سے بہت مختلف ہیں۔ ویسے تو پیغام آفاقی پر ہندستان کی کئی جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی و تنقیدی مقالات لکھے گئے ہیں اور کچھ فی الحال لکھے بھی جارہے ہیں، لیکن اشاعت کے پیشِ نظر ان کی حیات و خدمات کا مکمل احاطہ کرنے والی باقاعدہ یہ پہلی کتاب ہے۔ یہ کتاب ان معنوں میں بھی منفرد ہے، کیونکہ اس میں پہلی مرتبہ پیغام آفاقی کے گھر سے برآمد ہونے والے ان کے دو مسودوں کا بھی تذکرہ ہے۔ جن کا ذکر سب سے پہلے اسی کتاب میں کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اُردو ڈائریکٹوریٹ (پٹنہ) کے ذریعے شائع کی گئی پیغام آفاقی پر سب سے پہلا مونوگراف ہے۔ جسے ساہتیہ اکیڈمی کے یُوا ایوارڈ یافتہ، جواں سال فکشن رائٹر اور ناقد ڈاکٹر سلمان عبد الصمد نے تحریر کیا ہے۔ 
سلمان عبد الصمد نے اس مونوگراف کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ (1) پیغام آفاقی کی زندگی، (2) ناول نگاری، (3) افسانہ نگاری، (4) شاعری، (5) تنقید، (6) ڈراما اور ماحصل وغیرہ، سلمان عبد الصمد نے پہلے باب میں  پیغام  آفاقی  کی تاریخِ پیدائش کا اختلاف واضح کرتے ہوئے، ان کے خاندانی پس منظر، یو پی ایس سی(UPSC) کی تیاری اور شادی بیاہ، اولاد و ثقافتی مصروفیات جیسے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر بہترین گفتگو کی ہے۔ اس باب کے مطالعے سے پیغام آفاقی کے ساتھ سلمان عبد الصمد کے تعلقات کا علم ہوتا ہے اور اہلِ علم سے اختلافات کا سلیقہ بھی سیکھا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا باب پیغام آفاقی کی ناول نگاری پر مشتمل ہے۔ سلمان عبد الصمد نے پیغام آفاقی کے چاروں ناولوں کا ضمناً تذکرہ کرنے کے بعد ہر ناول پر الگ الگ بھی گفتگو کی ہے۔ مصنف کے ناولوں پر تنقیدی بحث کرنے کا یہ طریقہ مجھے بہت پسند آیا۔ کیوں کہ انھوں نے ناولوں پر براہِ راست بات چیت کرنے سے پہلے ہر ایک کے شروع میں ”ناول کی کہانی" کا عنوان قائم کرکے اس میں موجود کہانی کی تلخیص پیش کردی، جس کی وجہ سے قاری مکمل ناول پڑھے بغیر صرف تلخیص کی قرأت کر لینے سے ہی، مصنف کے ساتھ ساتھ خود کو بھی شریکِ گفتگو تصور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مصنف نے ہر ہر ناول کے مرکزی کردار اور ضمنی کرداروں کو اجاگر کرنے کی ایک مستحسن کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مصنف نے سبھی ناولوں کو زمان و مکان کے میزان سے بھی گزارا ہے۔ 
تیسرے باب میں پیغام آفاقی کی افسانہ نگاری کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور پیغام آفاقی کے افسانوں میں پائے جانے والے متعدد اور اہم عناصر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس بات میں پیغام آفاقی کے کچھ افسانوں کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیغام آفاقی کی افسانہ نگاری سے دوری کی وجہ بھی تلاش کرنے کی بہت ہی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ سلمان عبد الصمد اپنی اس کوشش میں مجھے پوری طرح سے کامیاب نظر آتے ہیں۔ 
چوتھے باب میں پیغام آفاقی کی شعر و شاعری کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور ان کی شاعری پر اس باب میں ایک بہترین تفہیمی نوٹ بھی موجود ہے۔ اس حصے کے مطالعے سے پیغام آفاقی کی شاعری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ کاش کہ اس باب میں پیغام آفاقی کی شاعری کے کچھ کلیدی الفاظ کا بھی تذکرہ کر دیا گیا ہوتا، تو  پیغام آفاقی کی شاعری کے قارئین و ناقدین کو پیغام آفاقی کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے میں مزید آسانی ہو جاتی۔ 
پانچویں باب میں پیغام آفاقی کے تنقیدی مضامین پر گفتگو کی گئی ہے اور جابجا ان کے مضامین سے اقتباسات پیش کرکے پیغام آفاقی کے افکار و نظریات کا بھر پور محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ کیا ہی اچھی بات ہوگی اگر مصنف پیغام آفاقی کے دستیاب تمام مضامین و مقالات کو بھی ان کے ناول ہی کی طرح پورے اہتمام سے شائع کردیں تاکہ ان کے تنقیدی افکار و نظریات پر مزید گفتگو کی راہ ہموار ہوسکے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر سلمان عبد الصمد پیغام آفاقی کے دو نالوں "دوست" (2018ء) اور ”راگنی" (2022ء) کو پیغام آفاقی کے انتقال کے بعد مرتب کرکے شائع کرا چکے ہیں۔
چھٹے باب میں پیغام آفاقی کی ڈراما نگاری پر بات کرتے ہوئے ان کے دونوں ڈراموں ”درد" اور ”یہ شہر کس کا ہے؟" پر اچھی گفتگو کی گئی ہے اور ان دونوں ڈراموں کی نمایاں خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں۔ خدا کرے کہ جلد از جلد پیغام آفاقی کے یہ دونوں ڈارمے بھی شائع ہوں، تاکہ ہم سب بہ حیثیتِ ڈراما نگار بھی ان کے فن کو پڑھ اور سمجھ سکیں۔ 
پیغام آفاقی کے اس مونوگراف پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے دو باتیں مزید عرض کرنی ہیں، پہلی یہ کہ نئی نسل کو ہمیں اپنے ہر ایک پلیٹ فارم سے پرموٹ کرنا چاہیے اور انھیں آگے بڑھنے و بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں، کیوں کہ نئی نسل میں بھر پور تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی صلاحیت موجود ہے۔ نئی نسل کو جب جب اور جہاں جہاں بھی مواقع ملتے ہیں، یہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کا بھر پور مظاہرہ کرتی ہے۔ بہ طورِ مثال ہم اسی مونوگراف کو دیکھ لیں، جو ہندستان بھر کی کسی بھی اکیڈمی سے شائع ہونے والے کسی بھی سینئر قلم کار اور بڑے بڑے دانشوروں کے لکھے گئے مونوگراف کے پہلو بہ پہلو رکھا جاسکتا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ یہ مونوگراف کسی بھی دیگر مونوگراف سے مواد اور معیار کے نقطٔ نظر سے کسی بھی معنیٰ میں کم نہیں ہے۔  
میری دوسری بات کا تعلق اُردو اکیڈمیوں اور اُردو کے اُن معتبر اداروں سے ہے، جو قلم کاروں کو معمولی معاوضہ دے کر مونوگراف لکھواتی ہیں جو کہ شاید مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ ایک قلم کار سو صفحات کا مونوگراف لکھنے کے لیے ہزاروں صفحات کی تلاش و تحقیق کرکے پہلے انھیں خود پڑھتا ہے، پھر اس کا تجزیہ اور دراسہ کرکے نتائج اخذ کرتا ہے۔ اس کے بعد اسے ایک مربوط و منطقی ترتیب سے پیش کرتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ شاید اگر معاوضوں میں اضافہ کر دیا جائے تو کسی حد تک اس کے معیار میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ 
اس پورے مونوگراف میں سلمان عبد الصمد کی تنقیدی زبان بالکل کھری، دو ٹوک، صاف ستھری، نفیس، شستہ اور شائستہ ہے۔ اس کتاب کے بالاستیعاب مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سلمان عبد الصمد کو تخلیقی زبان کے ساتھ ساتھ تنقیدی زبان و بیان پر بھی پوری قدرت حاصل ہے اور یہ لفظوں کے ایک اچھے رمز شناس بھی ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ کتاب بھی ان کی سابقہ کتابوں کی طرح ان کی شہرت و مقبولیت میں اضافے کا ضرور سبب بنے گی۔ واضح رہے کہ یہ مونوگراف اُردو ڈائریکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سیکریٹریٹ، حکومت بہار، پٹنہ سے 2023 میں شائع ہوا ہے.
***
تبصرہ نگار کی گذشتہ نگارش: کتاب: مبادیاتِ صحافت و ادارت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے