غلطی کرنا بھی انسان کا حَسین امتیاز

غلطی کرنا بھی انسان کا حَسین امتیاز

عبدالرحمٰن
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
دہلی- این سی آر
Email:rahman20645@gmail.com

ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
مندرجہ بالا پُر کشش رومانوی شعر میں عمومی طور پر اپنی غلطی تسلیم نہ کرنے کی انسانی نفسیات کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔ نہ صرف غلطی تسلیم کرنا انسان کے لیے مشکل ترین کام ہے، بلکہ اپنی غلطی کے ارتکاب سے کسی دوسرے شخص کو آلودہ کردینے میں بھی اسے ملکہ حاصل ہے۔ مذکورہ شعر اس نغمہ کا حصہ ہے جو مشہور و معروف شاعر، جناب عبدالحئی (مرحوم) عرف ساحر لدھیانوی نے سنہ 1965 عیسوی میں بنائی گئی فلم "کاجل" کے لیے تخلیق کیا تھا۔
بہترین ساخت پر تخلیق (سورۃ التین-95: 4) کیے جانے کے ساتھ ساتھ، انسان اللہ تعالیٰ کی ایک نہایت دل چسپ مخلوق ہے۔ وہ غلطی کرنے کے باوجود اس کو قبول کرنے سے حتی الامکان گریز کرتا رہتا ہے۔ کئی بار تو وہ ایسا طریق کار اپناتا ہے، گویا غلطی اس کی نہیں بلکہ کسی اور سے سرزد ہوئی ہے۔ اتنا ہی نہیں، کئی مرتبہ تو غلطی تسلیم کرنے کو وہ اپنی عزتِ نفس کا مسئلہ بھی بنا لیتا ہے اور معاشرے کے امن و آشتی کو مجروح کر ڈالتا ہے۔
مرد و خواتین میں غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی ہٹ دھرمی یا گستاخی اس سچائی کے باوجود ہوتی ہے کہ ہر انسان کا غلطی کرنا ایک مسَلم حقیقت ہے، سوائے ان مقدس اور پاکیزہ ہستیوں کے جن کا انتخاب خود اللہ تعالیٰ اپنا پیغمبر بنانے کے لیے فرماتا ہے۔ خود پروردگار کی نگرانی میں اور زمین پر خدائی ہدایت کی نمائندگی کرنے کی وجہ سے انبیاء اور رسولوں (علیہم السلام) کے متعلق ضرور کہا جاتا ہے کہ وہ "معصوم عن الخطا" ہوتے ہیں۔ اپنے آخری پیغمبر اور رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں کے جِس خاص طبقہ میں شامل ہیں بلند پایہ مومنین، اُس کے متعلق بھی یہ حُسن ظَن ہونا چاہیے کہ وہ نہ کرنے کے مترادف ہی غلطیاں کرتا ہے۔ ایسا اس لیے کہ ایک سچا مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے (مؤمن کی فراست سے ڈرو، بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے)۔
باقی سب لوگوں کے بارے میں جو بات شائع و ذائع ہے، وہ یہ ہے کہ انسان غلطی کا پُتلا ہے، یعنی انسان نہ صرف غلطی کر سکتا ہے بلکہ وہ اکثر اوقات غلطیاں کرتا رہتا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ غلطی کرنے کی خصلت کے باوجود انسان ہمیشہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے سے بھاگتا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ غلطی نہیں کرتا۔ آخر کار انسانی دنیا میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اپنی شخصیت کے اندر پیدائشی طور پر موجود دوسروں کے مقابلے اپنی بڑائی اور برتری کے داعیات انسان کو اکثر اوقات غلطی کا اعتراف کرنے میں مانع ہو جاتے ہیں۔ مردوں کی انانیت (egotism) اور عورتوں کی جذباتیت (emotionalism) جہاں ایک طرف ان کی شخصیات کو فوقیت حاصل کرنے کے میدان میں کچھ بھی کر ڈالنے کی تحریک عنایت کرتی ہیں، تو وہیں دوسری جانب وہ ان کو اتنا بزدل بھی بنا دیتی ہیں کہ غلطی سرزد ہو جانے کی معمولی نوعیت کے ایک عام واقعہ کا اعتراف کرنا بھی انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے، گویا اس نے دوسرے لوگوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہوں اور اپنے حقیر ہونے کا اعلان کر رہا ہو۔ یہی نفسیات انسان کو زندگی بھر غیر مطمئن اور تذبذب کا شکار بنائے رکھتی ہے۔
معاشرتی رجحانات (trends) بھی لوگوں کو اپنی غلطی کے اعتراف سے روکتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سبھی لوگ غلطی کرتے ہیں، معاشرے میں لوگ عام طور پر اپنے علاوہ دوسرے افراد کی غلطیوں کو بہت اچھالتے ہیں اور اکثر انھیں ذلت آمیز نظروں سے اس طرح دیکھا کرتے ہیں، گویا انھوں نے کوئی بڑا غیر اخلاقی کام (an immoral act) کر دیا ہو۔ اس صورت حال کے پیش نظر بیشتر افراد اپنے غلطی سرزد ہو جانے کے فعل کو نہ صرف لوگوں سے چھپاتے ہیں، بلکہ اس کوشش میں بھی لگے رہتے ہیں کہ غلطی کرنے کا الزام کیوں نہ کسی دوسرے شخص پر چسپاں ہو جائے یا کردیا جائے۔
مذکورہ قسم کے واقعات سے انسانی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس نوعیت کا ایک بڑا واقعہ خود میرے ساتھ بھی وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ میرے آفس کے ایک ساتھی نے میری غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر، اپنی ایک واضع کوتاہی کا الزام میرے سر رکھ دیا۔ حقیقت کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے یہ بات تو بہت جلد جھوٹی ثابت ہوگئی، مگر میرا وہ ساتھی جس نے مکاری کا فعل کیا تھا، ایک لمبے عرصے تک شرمندگی کی ذلت محسوس کرتا رہا۔
معاشرے میں اس طرح کے رجحانات کی نشوونما اور ان کو تقویت ملتے رہنا پوری انسانیت کے لیے مضر ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر ایمان داری اور دیانت داری جیسے بلند پایہ انسانی اوصاف کے کم زور ہونے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جو گُھن اور دیمک کی طرح، آہستہ آہستہ مثبت اقدار سے پورے معاشرے کو محروم کردیتا ہے۔ سبھی خاص و عام مرد و عورت کو اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ غلطی ہونے جیسی معمولی چیز کو بھی افشا نہ کرپانے کی جھجک اور مختلف قسم کی دوسری مصالحت، آدمی کو ایک دن جھوٹا انسان بنادیتی ہیں، جب کہ کسی بھی قسم کے شک و شبہات سے بالاتر، جھوٹے انسان کی کوئی قیمت نہیں- نہ دنیا کے اعتبار سے اور نہ آخرت کے اعتبار سے۔
جس طرح کرۂ ارض کے حدود کی حفاظت کرنے والی قوت(gravity) کو زیر کرتے ہوئے باہر نکلنے کے لیے مزید قوت (escape velocity) درکار ہوتی ہے، اُسی طرح اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے لیے بھی انسان کو اپنے ارادہ و اختیار کی طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ قوتِ ارادی کم زور ہونے کی وجہ سے، معاشرے میں بیشتر افراد اپنی غلطیوں کے اقرار و اظہار کا حوصلہ نہیں کرپاتے، اور عروج کی اس سطح پر پہنچنے سے اکثر محروم رہ جاتے ہیں، جہاں برعکس طور پر، غلطی کا اعتراف کرنا غلطی کو درست کرنے کا محرک فراہم کر دیتا ہے اور پھر انسان بہت جلد ترقی کی شاہراہ پر دوبارہ گامزن ہوجاتا ہے۔
دراصل انسان کے نئی نئی چیزوں کو سیکھنے اور سمجھنے کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ بار بار غلطی کرے اور بار بار اپنی غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ دنیا کے سارے انسانی علوم کی تخلیق میں، غلطی کرنے کی انسانی فطرت کا بڑا دخل ہے۔ انسان کے غلطی کرنے کو کسی برائی سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ برعکس طور پر اسے انسان کو حاصل فطری عطیہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ فطری کمزوری یا نزاکت (tendency) انسان کا صرف امتیاز ہی نہیں، حَسین امتیاز (delightful distinction) ہے۔ غلطی کر کے غلطی کا اعتراف کرنے کا عمل انسان کو متقی بنائے رکھنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ انسان کی اسی خصوصیت کے زیر اثر ماضی کے علوم پر بھی مسلسل نظر ثانی ہوتی رہتی ہے اور علم ان کثیر الجہاتی(multi-dimensional) حقیقتوں سے بھی آراستہ ہوتا جاتا ہے، ماضی میں جن کا احاطہ کرنے سے انسان یا تو چُوک گیا تھا یا اس وقت اس کے پاس وہ اہلیت موجود نہ تھی۔
راقم الحروف کو زیر نظر مضمون تصنیف کرنے کی تحریک معروف قلم کار، مضمون و کالم نگار، شاعرہ اور انٹرویو نگاری کے فن کی ماہر، محترمہ علیزے نجف کے "اشتراک ڈاٹ کام" پر شائع شدہ (26 اگست 2023ء) مضمون کی شکل میں ایک انٹرویو کے عنوان سے حاصل ہوئی ہے۔ ان کی تحریر سے تحریک حاصل ہونے کے لیے میں ان کا ممنون و مشکور ہوں۔ ان کی فکر کی عکاسی کرنے والے عنوان کے متعلق، مذکورہ ویب سائٹ پر اسی دن میں نے بھی ایک مختصر مضمون کے توسط سے اپنی رائے کا اظہار کر دیا تھا، جس کو قارئین کے استفادہ کے لیے اس مضمون کی عبارت میں شامل کردیا گیا ہے۔ مضمون کی تصنیف کے متعلق ایک بات اور واضح کر دینا موزوں رہے گا۔ گو کہ زندگی کے تمام معاملات میں استثنائی (exceptional) واقعات بھی موجود ہوتے ہیں، لیکن یہاں مضمون میں استثنیات (exceptions) سے قطع نظر، زندگی کی صرف عمومی صورت حال کو ہی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
دراصل انسانی اوصاف اور علمی دیانت داری کے پیش نظر؛ تعاون چھوٹا ہو یا بڑا، جہری ہو یا خاموش، علمی نوعیت کا ہو یا عملی نوعیت کا اور بالواسطہ ہو یا براہِ راست، احساسِ تشکر کا متقاضی ہوتا ہے۔ حالاں کہ کسی کے لیے دل میں پیدا ہونے والے شکرانے کے احساسات بھی کم قیمت نہیں ہوتے، لیکن تحریر میں ان کے اظہار کی بات ہی الگ ہے۔ اس صورت حال میں شکریہ ادا کرنے والے شخص کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو اپنے رب کی رضا بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، علمی حلقوں میں مثبت علمی و فکری رجحانات کو بھی فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔
انسانوں کے اندر جذبہ تشکر کو تقویت دینے کے لیے ناگزیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے ساتھ ساتھ انسانوں کا بھی شکریہ ادا کیا جائے۔ انسانوں کے تئیں شکر کے اظہار کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔
موجودہ زمانہ سوشل میڈیا (Social Media) کا زمانہ ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا، خصوصاً فیس بُک وغیرہ کے موجودہ رجحان کے متعلق بھی کچھ بات کرنا مناسب رہے گا۔ علم کے فروغ کے لیے یہ ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے، لیکن یہاں جو علمی سرگرمیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ان میں علمی تنقید کا رجحان ضعف و پستی کا شکار نظر آرہا ہے، جو ایک خوش آئند بات نہیں ہے۔
عام طور پر اپنی تحریر کے متعلق مضمون نگار کی خواہش ہوتی ہے کہ پڑھنے والے افراد تجزیے کے طور پر صرف تعریفی کلمات لکھیں۔ بہ صورت دیگر، کچھ نہ لکھیں یا لائِک کا نشان لگا کر ہی کام چلائیں؛ جب کہ تنقیدی نگاہ (critical approach) کے بغیر کسی تحریر، مضمون یا کتاب کا مطالعہ کرنے سے کسی کا بھی کوئی فائدہ نہیں. نہ پڑھنے والے کا اور نہ ہی لکھنے والے کا۔ ایسا مطالعہ صرف مصنوعی نوعیت کا ہوکر رہ جاتا ہے، جس کے سبب دونوں ہی فریق علم و فکر و آگہی کے ضمن میں کسی نئی دریافت سے محروم رہتے ہیں۔ ٹیبل پر رکھی خوب صورت ٹوکری میں سجائے گئے خوش نما پھلوں کو سرسری نظر سے دیکھتے رہنے میں وہ لطف کہاں، جو چُھری کانٹے کا استعمال کرتے ہوئے انھیں کاٹ کر کھانے میں ہے۔ چھری کانٹے کو تنقید کے نعم البدل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح مہمان اور میزبان دونوں ہی اپنی اپنی حیثیت میں پھلوں سے ضرور محظوظ (delighted) ہوں گے۔
رائٹرس(مصنفین) کے متعلق میری تو یہ رائے ہے کہ ایک شاہکار مصنف بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مضامین کے لیے بڑے پیمانے پر تنقیدی تجزیات طلب کریں اور مختلف لوگوں کو ایسا کرنے کی رغبت دلائیں، پھر چاہے وہ تنقید کے نام پر تنقیص ہی کیوں نہ ہو۔ صرف تعریفی تنقید کرنے والے کو ہی دوست نہیں سمجھنا چاہیے؛ نتیجے کے اعتبار سے، تنقیصی تنقید کرنے والا شخص اس سے بھی اچھا دوست ہوسکتا ہے اور آپ کے شکریے کا سچا مستحق۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے آپ کی تحریر کو پڑھنے کے لیے وقت نکالا، کچھ غور و فکر کا عمل کیا اور پھر اپنے تجزیات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔
غور کیجیے، یہ علم و ادب کی معمولی خدمت نہیں ہے، نہ جانے اس کی تحریر میں کتنی پوشیدہ جہتوں کو افشا کیا گیا ہوگا۔ ان افشا کیے گئے زاویوں کا ادراک حاصل کرنا اب آپ کی ذمے داری ہوجاتی ہے۔ اس لیے، ایسی تنقیدات کو ترجیحی طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس طریقے کو فروغ دینے سے ایک نہایت عظیم کام بھی وقوع پذیر ہوسکتا ہے، یعنی علمی اور ادبی حلقوں میں یکساں فکر کے حامل دانشور (like-minded intellectuals) جیسی گروہی عصبیت یا تعصبات (prejudice or discriminations) کمزور ہوں گے، جو حقیقتاً علم کے نام پر علم کے راستے میں مستقل رکاوٹ ہیں، بلکہ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ عصبیت چاہے انفرادی ہو، مکتبی ہو، مسلکی ہو یا پھر گروہی، ہمیشہ علم کی دشمن ہی نہیں، قاتل بھی ہوتی ہے۔
میری فیس بُک پوسٹ کی عبارت حسبِ ذیل ہے:
ماشاءاللہ، محترمہ علیزے نجف کی تحریروں میں ادبی جاذبیت بھی ہوتی ہے، اور علمی کشش بھی! "اللہ کرے زور قلم اور زیادہ".
میڈم نجف کی فکر:
"غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے"
پر میں بھی اپنی رائے کا اظہار کچھ اس طرح کرنا چاہوں گا کہ غلطیوں کو اچھا یا برا ہونے سے مشروط کرنا درست نہیں۔ غلطی کے دہرائے جانے کو بھی برا نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ انسان کا ذہنی شاکلہ اس طرح تخلیق کیا گیا ہے کہ غلطی پہلی بار کی جائے یا دہرائی جائے، وہ ہر مرتبہ چیزوں کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کر دیتی ہے۔ اور یہ زاویہ نظر انسان کے ذہنی ارتقا میں ہمیشہ معاون ہوتا ہے۔
دراصل جو چیز بری ہے وہ ہے غلطی ہونے کے باوجود غلطی کو تسلیم نہ کرنے کی حماقت کرنا اور غلطی کو درست ثابت کرنے کی گستاخی کو سرکشی کے مقام تک لے جانا۔ صالح شخصیت کو پرکھنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ کون شخص کتنی جلدی اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور کتنے مثبت طریقے سے اپنا ردعمل پیش کرتا ہے.
یہاں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ غلطی (mistake) کرنا گناہ (wrong) کرنے کے مترادف نہیں ہے، بلکہ غلطی کرنا انسان کے اپنے پروردگار کا نہ صرف ایک بندہ، بلکہ عاجز مطلق بندہ ہونے کی علامت ہے۔ ایک سلیم الفطرت انسان کو غلطی کرنے کے ساتھ ہی اپنے خالق و مالک اور قادر مطلق پروردگار کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے اور وہ فوراً اپنی حیثیتِ اصلی (cut – to – size) میں واپس لوٹ آتا ہے۔ یہ کیفیت تقوے کے راستے کی بنیادی ضرورت ہے، جب کہ غلطی نہ ہونے کی صورت میں انسان کے فخر و انانیت، زعم اور استکبار جیسی متعدد مہلک برائیوں کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے برخلاف غلطی کرنے کی انسانی فطرت اس کو مذکورہ تمام برائیوں کے اندھیرے میں بھٹکنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ غلطی کرنے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ غلطی کرنے والا شخص اگر مخلصانہ طبیعت کا مالک ہے، تو اس کی شخصیت میں تواضع (modesty) کی خصوصیات کو مزید فروغ حاصل ہونے کی امید بھی نہایت قوی ہوجاتی ہے۔
غلطی کرنے کے مثبت پہلوؤں کا ذکر کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہمیں جان بوجھ کر غلطی کرنی چاہیے۔ دراصل جان بوجھ کر کی گئی غلطی، غلطی کے خانہ سے نکل کر گناہ کے زمرے میں چلی جاتی ہے اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ گنہگار سزا کا مستحق ہو جاتا ہے، اِلا یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلے اور متعلقہ انسان سے معافی و تلافی کے ذریعے اپنی اصلاح۔
غلطی اور گناہ میں فرق کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے، موجودہ مسلم معاشرے میں بیشتر افراد اللہ تعالیٰ کی کتابِ ہدایت یعنی قرآن مجید کو تلاوت کرنے کے باوجود اس کے پیغام کو سمجھنے سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اُن بزرگوں کو معاف فرمائے جن کی سادہ لوحی سوجھ بوجھ نے عام مسلمانوں کے اندر یہ تاثر پیدا کر دیا کہ قرآن پاک کا ترجمہ یا تفسیر پڑھنے میں غلطی ہو جانے پر وہ گمراہ ہو سکتے ہیں۔ یہ تاثر آج بھی اتنی شدت کے ساتھ زندہ ہے کہ بہ ظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی اللہ کی کتاب کو معنی و مطالب کے ساتھ پڑھنے سے نہ صرف خود گھبراتے ہیں، بلکہ اپنے بچوں کو بھی قرآن کی صرف عربی عبارت کی تلاوت تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اگر بالفرض قرآن مجید کو اپنی زبان میں سمجھ کر پڑھنے پر غلطی اور گناہ دونوں کے سرزد ہونے کا امکان ہے، تو بھی غلطی کی تصحیح اور گناہ سے معافی ملنے کا امکان نسبتاً زیادہ قوی ہے۔ بلا شبہ یہاں اپنے معاملات میں مخلص ہونا بنیادی ضرورت ہے۔
جہاں تک گمراہی کا معاملہ ہے، وہ بہت آگے کی بات ہے۔ غلطی یا گناہ کرنے کے باوجود، جب کوئی شخص اپنے فعل پر نادم ہونے کے بجائے برائی کو تسلیم نہ کرنے پر مُصر (adamant) رہتا ہے اور اپنی اس گستاخی کو سرکشی کی سطح تک لے جاتا ہے، تب اس کا یہ فعل گویا خدا کے جبار و قہار ہونے کو للکارتا ہے۔ مگر بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ ہمارے رحمٰن و رحیم پروردگار نے توبہ اور اصلاح کے دروازے پھر بھی کھلے رکھے ہیں، اور اعلان کردیا ہے کہ لا تقنطو من رحمۃ الله (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو)- بحوالہ قرآن مجید کی سورۃ الزمر(39) کی آیت نمبر 53.
قرآن مجید، غلطی، گناہ اور گمراہی کے متعلق جو حقیقت اوپر بیان کی گئی ہے، معاشرے میں کوئی بھی شخص بذات خود اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ میں نے خود متعدد بہ ظاہر سمجھ دار مسلمانوں کو اس حقیقت پر مطمئن کرنا چاہا کہ قرآن مجید کو سمجھ کر نہ پڑھنا دونوں جہان میں ہمیشہ کی محرومی ہے، جب کہ غلطی اور گناہ کا ہو جانا اتنا سنگین معاملہ نہیں ہے، کیوں کہ ان دونوں کی اصلاح اور معافی کی گنجائش موجود ہے۔ مگر کوشش ابھی تک بے سود ہے۔ اس دلیل نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا کہ لوگ عربی عبارت کی ناظرہ تلاوت کرتے وقت بھی تو غلطیاں کرتے ہیں، مگر یہ غلطیاں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتیں۔ پڑھنے والا خود یا پڑھانے والے اساتذہ غلطی کی نشان دہی کروا دیتے ہیں اور وہی عبارت دوبارہ غلطی کے بغیر پڑھ لی جاتی ہے۔ قرآن پاک کے مطبوعہ (printed) تراجم و تفاسیر میں تو اس طرح کی غلطیوں کا امکان بھی نہیں رہتا، کیوں کہ ترجمہ یا تفسیر کا کام خود قرآن پاک کے کسی مستند عالم نے کیا ہوتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنے معتبر اور پسندیدہ عالم کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ میری ساری بے چینی اور تگ و دو اس محور کے گرد گھوم رہی ہے کہ مسلم معاشرے میں جلد از جلد قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے کے متعلق جو جَڑتا (inertia) پیدا ہوگئی ہے وہ ٹوٹ جائے اور عمومی طور پر قرآنی مطالعہ کا رجحان جاری و ساری ہوجائے۔
جیسا کہ واضح کیا جا چکا ہے گناہ دراصل اس غلطی کو کہا جائے گا جو نیت میں کھوٹ، یعنی بری نیت یا غیر صالح ارادے سے کی جاتی ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں انسان کی نیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے، یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر 4927)۔
علم سیکھنے میں غلطی کرنا کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں ہے، بلکہ غلطی کرنے میں تو برعکس طور پر انسان ہونے کا حُسن پوشیدہ ہے۔ غلطی کرنے سے ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کا بندہ اور مخلوق ہونے کا احساس تو زندہ رہتا ہی ہے، بار بار غلطی اور بار بار اصلاح کا عمل خود بہ خود ہمارے علم کو یادداشت میں پیوست کر دیتا ہے، اور چیزوں کا یادداشت میں شامل ہو جانا، علمی ترقی کی بنیادی ضرورت ہے۔ پنسل(پینسِل) کے سر پر لگی ہوئی ربڑ(eraser) یہ مستقل پیغام دیتی ہوئی نظر آئے گی کہ غلطی کرنا کوئی معیوب چیز نہیں ہے، کیوں کہ غلطی کو درست کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں معیوب چیز ہے غلطی کو غلطی کے طور پر تسلیم کرنے کا حوصلہ نہ کر پانا، کیوں کہ اس طرح کی پست ہمتی لوگوں کو ان کے انسانی اوصاف سے محروم کردیتی ہے۔
مسلمان ابھی تک سنجیدگی کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک حاصل نہیں کر پارہے ہیں کہ قرآن مجید کے پیغام کو براہِ راست نہ سمجھ پانے کے سبب وہ کتنے زیادہ بڑے نقصان سے دوچار ہیں۔ قرآنی ہدایات سے دور ہونے کی وجہ سے صالح اقدار کے مالک ہو نے کے باوجود مسلمان سوسائٹی میں دستیاب دھوکا، فریب، جھوٹ، مکاری، شیطانی چالاکی، خود غرضی، منفی ردعمل، نفرت اور انتقامی نفسیات جیسی کم تر اور منفی اقدار کے ساتھ جینے میں ہی گویا فخر محسوس کرنے لگے ہیں، اور یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یہ ساری اشیا ان کی ایمانی شان کے مطابق نہیں۔ دنیا و آخرت کی کامرانی کے لیے مسلمانوں کو لامحالہ دین اسلام کے ہدایت کردہ سامان زیست کو ہی اپنانا ہوگا۔ میری نظر میں اب اس حقیقت میں شک کرنے کی گنجائش بھی نہیں کہ آج کا مسلمان اللہ(تعالیٰ) اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات پر من و عن عمل پیرا نہیں ہے۔ بلا شبہ مسلمان جب دل کی پوری آمادگی اور رغبت کے ساتھ اپنی عملی زندگی قرآنی رہ نمائی کی روشنی میں جینا شروع کر دیں گے، تب عوام الناس کے لیے بھی ان کی زندگی خود بہ خود مجسم دعوت الی اللہ بن جائے گی۔ گویا مسلمانوں کا راہ راست پر آجانا دنیا کا راہ راست پر آجانے کے مترادف ہے۔
علم و آگہی میں پس ماندہ ہونے کی وجہ سے آج کا مسلمان جدید انسان (modern man) کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے قاصر ہے، جب کہ معاشرے میں قرآنی آیات پر تدبر اور تفکر کا رجحان پیدا ہو جانے کے بعد نہ صرف قرآنیات کے ماہرین بلکہ عام مسلمان بھی اپنے ہم عصر جدید تعلیم یافتہ افراد کو رہ نمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی بے پایاں خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نہ صرف حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے کے واقعات بیان کرتا ہے، بلکہ ہمارے حال اور مستقبل کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ دراصل قرآن پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت الی اللہ، یعنی انذار و تبشیر کے عمل کی سرگزشت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے قرآن مجید کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دینے کا مطلب اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ماضی میں نازل کی گئیں آیات کے ساتھ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی حقیقت کو بھی اس طرح منسلک کردیا گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود بہ خود ظاہر ہوتی رہتی ہے۔
اس پس منظر میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ خالقِ کائنات، اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے کہ:
ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے(سورہ فصلت-41: 53)۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک کی صورت میں جو علم چودہ سو سال پہلے نازل کیا گیا تھا، اس کی حقانیت کو ترقی یافتہ دورِ جدید (The Modern Age) میں کائنات کا احاطہ کرنے والے الگ الگ نوعیت کے مطالعات، تحقیقات اور دریافتوں (The comprehensive studies, various researches and discoveries) کا انسانی علم بھی تصدیق کر رہا ہے۔
"مصیبت کے وقت شُتُرمرغ (ostrich) اپنا سر ریت میں چھپا لیتا ہے" جیسی مفروضہ کہانی کے مانند جہاں کم زور اقوام یا اشخاص اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال کر غلطیوں کو تو عارضی طور پر لوگوں کی نظروں سے چھپا کر بہ ظاہر خوشی محسوس کرلیتے ہیں، لیکن نتیجے کے اعتبار سے وہ زمانے میں انھی لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں؛ جب کہ وہیں زندہ دل اور خود اعتمادی سے لبریز شخصیات اپنی یا اپنے بزرگوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہیں، اپنی اصلاح کرتی ہیں اور ان کوتاہیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہونے والی متوقع شرمندگی سے خود کو بچا لیتی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی عادات و افعال کو تحقیق و تنقیح
(Research and Investigation) جیسے مراحل سے گزارتے ہیں، اپنی کارکردگی کا بے لاگ تنقیدی جائزہ لیتے ہیں اور اس طرح پائی گئیں کمیوں اور کم زوریوں کا سدباب کرتے ہوئے، اپنی ترقی کے راستے پر دوبارہ گامزن ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد ہی تاریخ سازی (making of the history) کا کام انجام دیتے ہیں۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے، اپنی غلطی کو کسی دوسرے شخص سے منسوب کردینے یا زمانے کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی غرض سے، اپنی غلطی پر پردہ ڈال دینے جیسے سارے عوامل خود کو زمین میں دفن کر دینے کے مترادف ہوتے ہیں؛ جس کے بعد پھر کوئی زندگی نہیں۔ غلطی کو درست کرنے کا سلسلہ غلطی کے اعتراف سے شروع ہوتا ہے، موشِگافیوں سے نہیں۔
بھارت میں آج کل چاند پر بھیجے گئے خلائی مشن کا چرچا زوروں پر ہے، اور ملک کے طول و عرض میں جشن کا ماحول۔ مورخہ 23 اگست 2023ء کو خلائی تجربات کے میدان میں ہندستان نے ایک سنہری تاریخ (Golden History) رقم کی ہے، جب ہم نہ صرف اپنے مصنوعی سیارے (man made satellite) کو چاند پر بھیجنے میں کام یاب ہوئے، بلکہ چاند کے قطب جنوبی علاقہ (Southern Polar Region of the Moon) میں اپنی خلائی مشین (وکرم لینڈر) کو اتارنے والا دنیا کا پہلا ملک (1st Nation) بھی بن گئے ہیں۔
ا س ر و (ISRO)، یعنی انڈین اِسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے مذکورہ مِشن کو چندر یان-3 (Chandrayan-3) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ انسانی خلائی سیارہ تین حصوں پر مشتمل ہے. آربٹر (orbiter) جو ایک طے شدہ مدار میں چاند کے چکر لگا رہا ہے، وکرم لینڈر (Vikram Lander)، یعنی وہ خلائی مشین جس کو چاند کے قطب جنوبی علاقہ میں اتارا گیا ہے اور تیسرا ہے پرگیان رُووَر (Pragyan Rover)، یعنی یہ بھی ایک مشین ہے جس کو تجربہ گاہ کے طور پر، وکرم لینڈر کے اندر رکھ کر بھیجا گیا ہے اور اب وہ باہر نکل کر چاند کی سطح کا معائنہ (inspection) کررہا ہے اور وہاں موجود کچھ نیا دریافت کرنے کی کوشش۔ دریں اثنا خلائی مشن کے زمینی اسٹیشن نے چاند کے متعلق کچھ حوصلہ افزا معلومات بھی حاصل کر لی ہیں۔
اِسرُو کے ہزاروں سائنس دانوں کو ان کی بے نظیر اور دل فریب کام یابی کے لیے مبارک باد پیش کرتے ہوئے، واپس اسی مقام پر لوٹتے ہیں جہاں غور و خوض کا یہ عمل جاری تھا کہ غلطیوں، بہ الفاظ دیگر ناکامیوں کو اگر مثبت نظر سے دیکھا جائے تو وہ مزید بڑی کام یابی کا باعث ہوسکتی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چندر یان-3 سے چند سال قبل اور اسی مقصد کے لیے، چندر یان-2 نام کا مشن لانچ کیا گیا تھا۔ حالاں کہ اُس مشن کا آربٹر ابھی بھی اپنے مدار میں گھوم رہا ہے، مگر اس کا وکرم لینڈر چاند کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا۔
بلا شبہ چندر یان-2 کا حادثہ اسرو کے سائنس دانوں کے لیے ایک بہت بھاری جھٹکا اور غم کا معاملہ تھا؛ مگر زندہ افراد کی طرح دیر تک سوگوار رہنے کے بجائے وہ لوگ مشن میں واقع ہوئی غلطیوں کی نشان دہی میں سرگرم ہوگئے۔ بہت جلد سائنس دانوں کی سنجیدگی نے ان کی رسائی ان خامیوں اور کم زوریوں تک کرادی جن کی وجہ سے چندر یان-2 کو حادثہ لاحق ہوا تھا۔ چندریان-2 کی ناکامی سے اخذ کیے گئے اسباق (lessons) نے انھیں غلطیوں کو چندر یان-3 میں نہ صرف دہرائے جانے سے بچا لیا، بلکہ تجربات کی روشنی میں ممکنہ مشکلات کے پیش نظر، مزید احتیاطی تدابیر سے بھی چندر یان- 3 کو مزین کردیا گیا تھا۔ نتیجتاً، خلائی مشن کو توقع کے عین مطابق سنہری کام یابی حاصل ہوئی اور ملک کے تمام باشندوں کو باغ باغ ہونے کا ایک دل فریب اور ناقابل فراموش موقع۔
جس طرح کہا جاتا ہے کہ گِرنا کوئی بری بات نہیں، لیکن گر کر اٹھنے کی کوشش نہ کرنا یقیناً بری بات ہے؛ اُسی طرح غلطی کرنے کا بھی تقاضا ہے کہ اس کو نہ صرف درست کیا جائے، بلکہ مسائل کو مزید مختلف زاویوں سے سمجھنے کی کوشش بھی کی جائے، تاکہ چیزوں کے نئے نئے پہلو دریافت ہو سکیں اور ناکامیاں بھی انسانیت عامہ کی ترقی کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں۔ اس ضمن میں مِسٹر تھامس الوا ایڈیسن (Thomas Alva Edison) کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔
تھامس الوا ایڈیسن (1931-1847) انیسویں صدی کے ایک مشہور سائنس داں ہیں۔ بجلی کے بلب (Electric Bulb) کی ایجاد کے ساتھ ساتھ، حیران کن طور پر ایک ہزار سے زیادہ (1093) چھوٹی بڑی ایجادات و اختراعات انھی کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ہمت اور حوصلے کا کیا عالم رہا ہوگا کہ ان کو تقریباً ایک ہزار ناکام کوششوں کے بعد بلب بنانے کی خوشی حاصل ہوئی۔ غلطیوں اور ناکامیوں سے متعلق ان کا ایک سبق آموز قول اس طرح نقل کیا جاتا ہے:
I haven’t failed, I have just found 10,000 ways that would not work.
(میں ناکام نہیں ہوا، میں نے ابھی 10,000 طریقے تلاش کیے ہیں جو کام نہیں کریں گے)، گویا تھامس الوا ایڈیسن کی انفرادی غلطیاں اور ناکامیاں بھی دنیا بھر کے سائنس دانوں اور دیگر افراد کو انھی غلطیوں کے دہرائے جانے سے محفوظ رہنے میں رہ نمائی فراہم کر رہی ہیں۔
بے شک غلطی کرنے کے بعد بھی ہر اس شخص کا سر ہمیشہ اونچا رہتا ہے جو کسی تعصب یا تذبذب کے بغیر اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہنے کا حوصلہ کرسکتا ہو کہ میں غلطی پر تھا (I was wrong) — 
(03.09.2023AD=16.02.1445 AH)
***
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:خوش گوار ازدواجی زندگی کی ضمانت: مرد کی دہری ذمے داری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے