ہندستانی فٹ بال کے کنگ تھے محمد حبیب

ہندستانی فٹ بال کے کنگ تھے محمد حبیب

خواجہ احمد حسین
ممبر محمڈن اسپورٹنگ کلب

جب دنیاے فٹبال کی تاریخ رقم کی جائے گی تو محمد حبیب "جرسی نمبر 10" کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ برسوں پہلے کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں محمڈن اور موہن بگان کا وہ تاریخی میچ جس کا گواہ راقم خواجہ احمد حسین بھی ہے کہ ریفری نے میچ اسٹارٹ کی وسل دی، بال حبیب کے پیروں میں تھی، انھوں، موہن بگان کے ٹیریٹوری میں اکبر کو بڑھایا اور اکبر نے 17سیکنڈ میں گول کرکے دنیاے فٹبال میں تاریخ رقم کر دی۔ یہ ریکارڈ رہتی دنیا تک شاید ہی ٹوٹ سکے۔ جی ہاں وہی عظیم فٹبالر جسے کنگ آف فٹبال پیلے PELE نے 1977میں پریس کو خطاب کرتے ہوئے ایڈن گارڈن میں کہا تھا کہ حبیب آپ بھارتی فٹبال کے کنگ ہیں۔ وہی حبیب جو کلکتہ میدان میں” بڑے میاں" کے نام سے مشہور تھے۔ ٹھیک 77ویں یوم جمہوریہ 2023 کی شام 4 بجے ملک عدم کو حیدرا آباد سے روانہ ہو گئے۔ سارے ہندستانی اور دنیاے فٹبال سوگ میں ڈوب گئے۔ کلکتہ میدان جیسے ماتم کدہ بن گیا۔ سب سے پہلے یہ اطلاع مجھے بھائی بلال احمد خان کے ذریعہ موبائل پہ ملی کہ "محمد حبیب نہیں رہے" حبیب صاحب کلکتہ کے تینوں بڑے کلبوں کی نمائندگی کر چکے تھے۔ انڈین فٹبال ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ بھارت سرکار نے آپ کو 1980 میں ارجن ایوارڈ سے بھی نوازا۔ 18 برسوں تک آپ ہندستانی فٹبال شیدائیوں کے دلوں پہ راج کرتے رہے۔ کلکتہ کے تین بڑے کلبوں کی کپتانی بھی آپ نے کی۔ آپ شیدائیوں کے ہر دل عزیز کھلاڑی تھے۔ ایک زمانے میں حبیب، اکبر اور بھومک کلکتہ میدان کے سپر اسٹار کھلاڑی رہے۔ وہ میرا کالج کے طالب علمی کا زمانہ تھا۔ ان تینوں کھلاڑیوں کے علاوہ شبیر علی۔ سرجیت سین گپتا اور بدیس بوس اور مانس مکھرجی نے کلکتہ میدان میں ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ کلکتہ میدان میں حبیب صاحب نے جو عزت پائی اس کا اعتراف انھوں نے خود محمڈن کلب کی ایک تقریب میں کیا تھا۔ ٹینٹ میں تھوڑی دیر ان کی صحبت میں وقت گزارنے کا شرف بھی حاصل رہا مجھے، لہجے میں کیا نرمی و خاکساری تھی، بہت متاثر ہوا ان سے بات کرکے، دوران گفتگو، میں نے منور رانا کا شعر ترمیم کے ساتھ ان کو سنا ڈالا، بس مسکرا کر رہ گئے، شعر یہ تھا:
لہجے میں خاکسار ی کا چمبک ہے اس لیے
جو شخص بھی ملا وہ حبیب کا ہو گیا
حبیب صاحب محمڈن کلب سے بے پناہ محبت کرتے تھے، حالانکہ انھوں نے اپنے کھیل کا آغاز 1966 میں ایسٹ بنگال سے کیا تھا۔ بنگالیوں نے انھیں جو عزت بخشی اسے وہ کہتے نہ تھکتے، خاموش طبیعت کے مالک تھے، صاف ستھری چھوی تھی، اس دور کے بنگال کے ہر وزیراعلا اور خاص کر سابق وزیر اسپورٹس سبھاش چکرورتی ان کے بہت بڑے فین تھے۔ سبھوں نے ان کا میچ دیکھا اور اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ محمڈن کے سابق روح رواں میر محمد عمر اور پروفیسر سلیمان خورشید کے زمانے میں کلب سے میرا گہرا لگاؤ تھا اور اب فعال جواں سال صدر امیر الدین بابی اور حضرت الحاج قمرالدین صاحب ورکنگ صدر سے تھوڑے بہت مراسم ہیں۔ فی الحال قمر بھائی کے ہمراہ ایک دو بار کلب جانے کا اتفاق ہوا، ٹینٹ اور میدان کی جدت کاری دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اخبار میں خبر پڑھی کہ وزیر اعلا نے نئے ٹینٹ کی افتتاح کی اور صدر بابی کی جم کر ستائش کی۔ واقعی صدر اور تمام عہدہ داران بالخصوص بزرگ صادق علی صاحب، الحاج قمر صاحب، میر اعظم صاحب، اشتیاق احمد راجو، مرحوم سلطان بھائی کے صاحب زادے شارق احمد، دیپیندو بسواس، بلال احمد خان کے بارے میں شیدائی بتاتے ہیں کہ یہ حضرات روزانہ کلب آتے ہیں اور مغرب کی نماز کلب میں ادا کرتے ہیں۔ ایک دو بار کی گواہی راقم خواجہ احمد حسین بھی دے سکتا ہے، جب میں نے کلب میں مغرب کی نماز ادا کی تو یہ حضرات موجود تھے۔ گراونڈ فلور میں پرانے کھلاڑیوں کی تصویروں کی گیلری اچھی لگی۔ سامنے ہی حبیب صاحب اور پرسون بنرجی کی دیدہ زیب تصویر ان کی یادوں کو تازہ رکھے گی، زیادہ تر تصویریں معروف اسپورٹس صحافی ظفر علی خان کی پیش کردہ ہیں، حبیب صاحب بھی ظفر علی خان کو بہت عزیز رکھتے تھے. گیٹ پہ دو سفید شیر سنگ مر مر کے بنے، ہر آنے والوں کا استقبال کرتے ہیں، جس میں ایک کا منھ کھلا اور دوسرے کا منھ بند ہے. کیا لوجک ہے پتہ نہی؟ ویسے کلب کے تمام ایک ہی جماعت کے عہدہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بات حبیب صاحب کی ہو رہی تھی، ان کی ایک منفرد یادگار الگ سے ٹینٹ میں قائم ہو جائے تو کلب کی جانب سے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔ جس نے ایک طویل عمر کلکتہ فٹ بال میدان کو وقف کردی. رب العالمین حبیب صاحب کی مغفرت فرما دینا، آمین. سنا ہے بہت دنوں تک جب کوئی انسان دنیا میں بیمار رہتا ہے تو اللہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، ویسے بھی حبیب صاحب نیک انسان تھے۔ منور رانا کا یہ شعر بہ طور خراج عقیدت:
میں پھوٹ کر رونے لگا جب موت کے ڈر سے
نیکی نے کہا نامۂ اعمال میں ہم ہیں
اور اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
***
خواجہ احمد حسین کی گذشتہ نگارش:جو سر اس کے آگے جھکاتا نہیں ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے