غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے: علیزے نجف

غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے: علیزے نجف

ہندوستان کی ابھرتی ہوئی قلمکار علیزے نجف سے  خصوصی گفتگو

انٹرویو نگار: ابوشحمہ انصاری
لکھنؤ بیورو چیف، نوائے جنگ لندن

یقیناً ہند و پاک ہمیشہ سے بے شمار نابغۂ روزگار شخصیات، اصحابِ قلم اور فکر ادب کا مخزن رہا ہے۔ متعدد اہل علم و فن نے اپنی ہمہ گیر خدمات سے اس دنیاے رنگ و بو کی عطربیزی کی ہے، یہاں ایسی شخصیتیں بھی رونما ہوئیں جو مردم ساز اور عہد آفریں ہیں، جن کی علم و ادب کی وسعت، فکر و فن کی گہرائی اور ان کی گونا گوں خصوصیات و کمالات کی جامعیت اپنے اندر دور رس اور گہرے اثرات رکھتی ہیں۔ انھی اہم شخصیات میں سے ایک قابلِ قدر شخصیت محترمہ علیزے نجف کی ہے۔ آپ نہایت فعال اور باصلاحیت مضمون نگار، اور تبصرہ نگار صحافی اور شاعرہ ہیں۔ آپ ایک ایسی ادیبہ ہیں جن کے اندر بے پناہ انفرادیت پائی جاتی ہے، وہ تقلیدی رویے سے گریز کرتی ہیں، اپنی اس انفرادیت پہ اعتماد کی وجہ سے آپ اوروں سے کہیں آگے نکلتی ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ آپ ایک ایسی ادیبہ ہیں جن کی مضمون نگاری، کالم نگاری اور تبصرہ نگاری میں رنگ بھی ہے اور آہنگ بھی، یقیناً آپ کے یہاں زندگی اور زندگی سے وابستہ حقیقتوں کے بارے میں بہت خوب صورت اور حقیقت پسندانہ نظریات و خیالات ملتے ہیں۔ وہ زندگی کو قوس قزح سے زیادہ رنگوں کا مجموعہ سمجھتی ہیں، واضح نظریات کی قوت بخش موجودگی بھی نظر آتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ان کے یہاں اپنی ذات کا اقرار بھی ملتا ہے۔ وہ خود پہ کام کرتے ہوئے افراد و معاشرے پہ کام کرنے کی خواہاں نظر آتی ہیں، آپ نے زندگی کی نفسیات سے بہت کچھ سیکھ کر ایک بڑی وسیع تحریری بساط بچھائی ہے، یہی وجہ ہے ان کے مضامین میں موضوعات کا تنوع اور فکر کی کشادگی ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اردو ادب کے علمی سنجیدہ حلقوں میں بہت جلد اپنی ایک الگ پہچان بنالی ہے۔ آپ جب محترمہ علیزے نجف صاحبہ کو پڑھیں گے تو آپ کو بھی ان کی انفرادیت کا بہ خوبی احساس ہوگا اور ان کے اندر موجود ہمہ رنگی کا بھی تجربہ ہوگا۔
قارئین کرام آج ہم محترمہ علیزے نجف سے کچھ خصوصی بات چیت کریں گے۔
ابوشحمہ انصاری : السلام علیکم
علیزے نجف: وعلیکم السلام
ابوشحمہ: آپ اپنا تعارف پیش کریں اور یہ بتائیں کہ آپ کی پرورش کس طرح کے ماحول میں ہوئی ہے؟
علیزے نجف: میں علیزے نجف یعنی میرا تعلق اعظم گڑھ کے ایک نواحی علاقہ سرائے میر سے ہے، اعظم گڑھ ایک ایسی زرخیز سرزمین ہے جہاں سے بےشمار ذرے اٹھے اور علمی افق پہ نیر تاباں کی صورت جلوہ افروز ہوئے، علامہ شبلی نعمانی، مولانا امین احسن اصلاحی، علامہ حمید الدین فراہی، علامہ سہیل اقبال، مولانا وحیدالدین خاں، کیفی اعظمی جیسی نابغۂ روزگار شخصیات اعظم گڑھ کی ہی مٹی سے اٹھ کر اوج ثریا پہ پہنچیں، میں بھی اسی مٹی سے اٹھنے والا ایک چھوٹا سا ذرہ ہوں۔ میں ایک شاعرہ، ادیبہ، صحافی ہوں، علمی شخصیات کا انٹرویو لینا میرے محبوب مشغلے میں شامل ہے، فکر و قلم سے مجھے فطری انسیت ہے۔ انسان اور انسان سے جڑی حقیقتوں کو سمجھنا، بہ حیثیت انسان  اپنی حقیقت اور اپنے اصل سے جڑے رہنے کی کوشش کرتے  رہنا میری جستجو میں شامل ہے۔
جہاں تک سوال ہے کہ میری پرورش کس ماحول میں ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد علمی ماحول پایا، میرے والدین نے ہمیشہ ہم سب بھائی بہنوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی پہلی ترجیح میں شامل رکھا، بچپن سے ہی ان کی طرف سے ایک ڈسپلنڈ لائف گزارنے کی تاکید کی گئی، بڑے بھائی بہن فرصت کے لمحات میں کسی نہ کسی علمی موضوع پہ بات کرتے اور اپنی رائے رکھتے، اس وقت میں چھوٹی تھی تو ان کو خاموشی سے سنتی رہتی، یہاں سے میرے سیکھنے کا عمل شروع ہوا،  گھر میں ہمیشہ کتابیں آتی تھیں، اس لیے بچپن میں ہی کتابیں پڑھنے کا چسکا لگ گیا، کتابیں میری ایسی دوست بن گئیں جن سے باتیں بھی کر لیا کرتی تھی، کتابوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا لیکن اس سے کہیں زیادہ اپنے مشاہدے اور تجربے سے سیکھا، ایک نامعلوم سی جستجو ہمیشہ میرے اندر رہی، جس نے آج تک مجھے محو سفر رکھا ہوا ہے، اللہ کے کرم سے میرے سیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت بہت اچھی تھی، اس لیے ابتدائی عمر میں ہی میرے شعور کے ارتقا کا سفر شروع ہو گیا تھا، جو کہ اب تک جاری ہے۔ اس کے لیے میں اپنے رب کی بہت ممنون ہوں کہ اس نے مجھے ایسی صلاحیتیں عطا کیں الحمدللہ۔
ابوشحمہ انصاری: آپ کا تعلیمی سفر ابھی جاری ہے، آپ کو کیا لگتا ہے کہ تعلیم انسان کی شخصیت پہ کس طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے؟
علیزے نجف: انسان کی فطری جبلت اور ان میں موجود صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے سیکھنا ناگزیر ہے، تعلیم اسی ضرورت کی تکمیل کا نام ہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیم کو تعلیمی اداروں سے جوڑ کر دیکھنے کا رویہ عام ہوگیا ہے، سیکھنے کو تعلیمی اداروں سے مشروط کردیا گیا ہے، جب کہ تعلیم ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے جو کہ تعلیمی اداروں سے باہر بھی جاری رہتا ہے. سب سے پہلے ہمیں اس نظریے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں مسلسل سیکھتے رہنے کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا. غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے. غلطیوں سے صرف ہم کچھ کھوتے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور یہیں سے  شخصیت سازی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ آپ کے سوال کا تعلق تعلیمی اداروں سے مربوط تعلیم سے ہے تو میں اس ضمن میں یہ کہنا چاہوں گی کہ تعلیم ایک ایسا شعوری آئینہ ہے جس سے ایک طالب علم اپنے آپ کو بہتر طور سے دیکھنے کے قابل ہوتا ہے. وہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو نہ صرف مہمیز دیتا ہے بلکہ اپنے اخلاقی وجود کی اصلاح کر کے ایک اچھا انسان بنتا ہے، اس میں نصاب سے زیادہ ایک اچھے استاد اور تعلیمی نظام کا کردار ہوتا ہے، کیوں کہ اب نصاب سے کہیں زیادہ معلومات محض ایک کلک پہ دستیاب ہیں، لیکن محض علم کسی کو اچھا انسان نہیں بنا سکتا، علم کو برتنے کا سلیقہ ہمیشہ ایک استاد ہی سکھاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ علم رکھتے ہوئے علم کی لذت سے بے بہرہ ہوتے ہیں، تربیتی شعور کی کمی اب جابجا دیکھی جا سکتی ہے، تعلیمی معیار کی حالت ہمارے تعلیمی اداروں میں مخدوش ہوتی صاف دکھائی دے رہی ہے، اب طلبہ کے کردار کی تربیت کرنے سے زیادہ اس کو معلومات فراہم کرنے پہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ سارے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہو سکیں، اب انسانیت اور اخلاقیات تعلیمی اداروں میں ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ اس کے لیے صرف اساتذہ ہی ذمےدار نہیں بلکہ ہم سب یعنی پورا معاشرہ ذمےدار ہے. استاد کو وہ عزت نہیں حاصل رہی جو پہلے کبھی اسے روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے حاصل تھی. اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ہو تو تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب اساتذہ اس کی ذمےداری قبول کریں گے اور ہم اساتذہ کو وہ عزت دیں جس کے کہ وہ مستحق ہیں۔
ابوشحمہ: آپ کے لکھنے کی ابتدا کیسے ہوئی اور اسے کیسے پروان چڑھایا؟
علیزے نجف: میرے اندر لکھنے کی صلاحیت خداداد ہے، خوش قسمتی سے مجھے بچپن میں ہی اس کا اندازہ ہو گیا تھا، اس وقت سے ہی کسی نہ کسی شکل میں یہ صلاحیت پروان چڑھتی رہی، مطالعے کے شوق نے اس کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا، آٹھویں کلاس میں جب پہنچی تو میں اپنی نوٹ بک میں اپنے خیالات کو لکھنے لگی، کسی کو دکھاتی نہیں تھی لیکن ہاں میری دوست لوگ اسے اکثر پڑھتیں اور حوصلہ افزائی کرتیں، اس معاملے میں میں بہت خوش نصیب ہوں کہ میرے دوستوں نے ہمیشہ مجھے خاص ہونے کا احساس دلایا، میری کامیابی پہ وہ مجھ سے زیادہ خوش ہوتیں، خواہ وہ اول پوزیشن لانا ہو یا غیر نصابی سرگرمیوں میں اچھا پرفارم کرنا ہو، وہ میرے ساتھ یوں پیش آتیں جیسے میں ان کی لیڈر ہوں، رہی بات قلمی سفر کے آغاز کی تو شروع میں تو بس یوں ہی لکھ لیا کرتی تھی، لیکن پانچ سال پہلے باقاعدہ لکھنا شروع کیا، پہلے شاعری کی صنف میں طبع آزمائی کرتی رہی، مختلف آن لائن طرحی مشاعروں میں شرکت کی، پھر میں نثر کی طرف متوجہ ہوئی، ادب کے ساتھ صحافت کا دامن بھی پکڑا، مختلف سیاسی و سماجی موضوعات پہ لکھا، ہندستان کے کثیر الاشاعت اخبار انقلاب سے میرے اس سفر کا آغاز ہوا جو کہ ابھی تک جاری ہے، ہندستان کے دس تا پندرہ مؤقر اخبارات میں میرے کالم اور انٹرویوز شائع ہوتے رہتے ہیں، اس وقت میری زیادہ توجہ نثر کی صنف کی طرف ہے، مطالعہ و مشاہدہ اور مسلسل لکھنے کی جدوجہد نے میری قلمی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ابوشحمہ: آپ نے سب سے پہلے کس صنف میں طبع آزمائی کی اور وہ کس اخبار کی زینت بنی؟
علیزے نجف: اگر ابتدائی سفر میں لکھنے کے آغاز کی بات کروں تو میں نے پہلے نثر میں لکھنا شروع کیا تھا جسے میں نے کہیں شائع نہیں کروایا تھا، اس کے بعد میں نے جب باقاعدہ لکھنا شروع کیا تو نظم کی صنف میں طبع آزمائی کی. میری پہلی نظم پاکستان کے اخبار ‘کشمیر` میں شائع ہوئی تھی، اس دوران بہت سارے آن لائن طرحی مشاعروں میں شرکت کی، رفتہ رفتہ ہندستان کے اخبارات و رسائل میں میری غزلیں شائع ہونے لگیں، جیسے رابطہ ٹائمز، سہارا امنگ، انقلاب، سیاسی تقدیر، قومی صحافت پاکستان کا ہفت روزہ اخبار مارگلہ نیوز وغیرہ وغیرہ۔
ابوشحمہ: کیا آپ کے اندر شروع سے قلم کار بننے کا شوق تھا؟ اس کے علاوہ آپ کیا شوق رکھتی ہیں؟
علیزے نجف: ہاں بےشک میرے اندر قلم کار بننے کا شوق شروع سے تھا، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بچپن میں ہی یہ بات مجھ پہ منکشف ہو گئی تھی کہ میرے اندر لکھنے کی صلاحیت ہے اور میرے پاس اپنے خیالات بھی ہیں، کیوں کہ میری مشاہداتی قوت بہت اچھی تھی، ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی خواہش بھی تھی، میں نے ہمیشہ خود اپنے خیالات کی آبیاری کی، مستعار شدہ خیالات کبھی میرے لیے کافی نہیں ہوئے اور نہ ہی میری ضرورت بن سکے، دوسروں سے سن کر اور جان کر خود کی تسلی کے لیے ہمیشہ خود بھی مزید جاننے کی تگ و دو میرے اندر ہمیشہ سے رہی. کیوں کہ ہر انسان ہر واقعے کو اپنے زاویے سے دیکھتا ہے. ضروری نہیں کہ اس کے لیے بھی وہ بات اہم ہو جو آپ کے لیے اہم ہے. اس لیے خود دیکھ لینے سے اس اہم بات تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے، اس سے ہم زمانے کی بھیڑ میں گم ہونے کے بجائے ہمیشہ اپنے منفرد نظریات کی وجہ سے نمایاں نظر آتے ہیں، ایسے لوگوں کا معاشرے میں ہونا بہت ضروری ہے. تاکہ حقائق کے سارے پہلو دریافت کیے جا سکیں۔ جب ہمارے پاس خیال و فکر بھی ہوں، الفاظ بھی ہوں تو پھر ہمیں ایک قلم کار ہی بننا ہوتا ہے۔ لکھنا میرا شوق ہے. اس کے ذریعے میں اپنے خیالات پیش کرتی ہوں اور بےبنیاد کہنہ روایتوں پہ تنقید بھی کرتی ہوں۔ اور اس کی وجہ سے خود مزید نئی باتیں نئے حقائق کو جاننے کی جستجو بھی پیدا ہوتی ہے، جو ایک مقصد بن کر انسان کو محو سفر رکھتی ہے۔
کتابیں پڑھنے اور لکھنے کے علاوہ مجھے سیاحت کا بہت شوق ہے، میں دنیا گھومنا چاہتی ہوں، ہر طرح کی سوچ رکھنے والی علمی شخصیات سے گفتگو کرنا اور ان سے سیکھنا؛ یہ بھی میرے شوق میں شامل ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ میں انٹرویو نگاری کی طرف متوجہ ہوگئی. میں نے اس کے ذریعے بہت ساری اعلا علمی شخصیات سے انٹریکٹ کیا. ان سے بہت کچھ سیکھا۔ خود اپنے اندر ان کے اوصاف کو پیدا کرنے کی کوشش کی. کیوں کہ ہم کبھی پرفیکٹ نہیں ہوتے. ہمیں ہمیشہ سیکھتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ابوشحمہ: آپ نے صحافت میں قدم کیسے رکھا؟ ایک صحافی بننے کے لیے آپ کن خوبیوں کو اہم سمجھتی ہیں؟
علیزے نجف: اگر میں یہ کہوں کہ صحافت میں قدم رکھنے کا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا تو شاید یہ کہنا کچھ غلط نہیں ہوگا، بےشک ملک کی سیاسی صورت حال کے متعلق جاننا اور اس کے متعلق رائے قائم کرنا؛ یہ مجھے بہت پسند تھا، ایک وقت کے بعد مجھے ضروری لگنے لگا کہ میں اپنے ان خیالات کو سامنے بھی لاؤں، پھر میں نے اپنے ان خیالات کو لکھنا شروع کردیا. کسی مخصوص جماعت کی مذمت و مدحت کرنے کے بجائے ہمیشہ برائیوں اور غلطیوں پہ تنقید کی، کیوں کہ ضروری نہیں کہ آپ کسی جماعت سے جڑ کر ہی ایک اچھے صحافی بن سکتے ہیں. کوئی ایک جماعت مکمل طور سے اچھی ہو اور کوئی مکمل طور سے خراب ہو یہ بھی ممکن نہیں. اس لیے میں نے اپنے صحافتی سفر میں ہمیشہ حقیقت بیانی کو ملحوظ رکھا، میرا پہلا کالم روزنامہ انقلاب میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا. پھر دھیرے دھیرے انقلاب کے علاوہ دوسرے اخبارات جیسے راشٹریہ سہارا، سیاسی تقدیر، قومی صحافت، سری نگر جنگ کشمیر، میں بھی لکھنے لگی وقت کے ساتھ یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔
صحافی بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک سوچنے والا ذہن ہو، جو اپنی رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، مشاہداتی قوت بھی اچھی ہونی چاہئے، تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھنے کی کوشش جاری رہنی چاہئے، تقلیدی سوچ سے پرہیز کرنا چاہئے، اپنی بات کو حکمت اور دلیل کے ساتھ بروقت پیش کرنا آنا چاہئے، کیوں کہ ایک صحافی عوام کے نظریات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ ان کے مسائل کو دنیا کے سامنے لاتا ہے اور حکومتی فیصلوں کے حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود واضح اور حقیقت پسندانہ نظریہ رکھتا ہو۔ بہاؤ کے ساتھ بہنے کے بجائے اپنے قدموں میں جماؤ پیدا کرنا اسے آتا ہو، اس شعبے میں کام کرتے ہوئے مثبت اور دوررس سوچ کا ہونا بھی ازحد ضروری ہے. کیوں کہ سیاسی بساط پہ کیے جانے والے فیصلے حال کے ساتھ مستقبل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
ابوشحمہ: آپ نے اپنے کالم اور مضامین میں عام انسانی زندگی کے مسائل پہ خصوصی توجہ دی ہے، اس کی بنیادی وجہ کیا رہی ہے؟
علیزے نجف: آپ نے بالکل صحیح کہا. میں نے اپنے مضامین میں عام انسانی زندگی کے مسائل کو اضافی توجہ دی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان صرف ایک فرد ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک معاشرے کے وجود کی تشکیل میں ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے، ایک انسان اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں جتنا کامیاب ہوگا، اتنا ہی وہ ایک معاشرے میں تعمیری کردار ادا کر سکے گا، اگر وہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل کی کوشش شعوری سطح پہ نہیں بھی کرتا ہے تو بھی کم از کم وہ ایک ایسا فرد ہوگا جو کہ معاشرے میں کسی تخریب کاری کا حصہ نہیں ہوگا، ذرا سوچیے اگر تخریب کاری کرنے والے لوگ کم ہوتے چلے جائیں گے تو کیا معاشرے کو اس کا فائدہ نہیں پہنچے گا، ایسے میں کیا ان کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہوگا جو  معاشرے کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں، اگر معاشرے کے پچاس فی صد لوگ بھی ذاتی سطح پہ اپنی ذمےداری قبول کر لیں تو بھی معاشرے میں ایک بہت بڑا بدلاؤ آ سکتا ہے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہزاروں میل سفر کی ابتدا ایک قدم سے ہی ہوتی ہے. میں یہ قطعا نہیں کہتی کہ فرد کی تعمیر سے معاشرے کی تعمیر کا کام مکمل ہوجاتا ہے لیکن یہ ایک سچ ہے کہ فرد کی اصلاح معاشرے کی تعمیر میں معاون ہوتی ہے، قطرہ قطرہ دریا بن کر اپنی طاقت پیدا کر لیتا ہے۔ اسی لیے میں انسان کے بنیادی مسائل کو اپنے مضمون کا موضوع بناتی ہوں تاکہ زندگی کو آسان بنایا جا سکے۔
ابوشحمہ: آپ نے اب تک خود بہت ساری اعلا علمی شخصیات کے انٹرویوز لیے ہیں. انٹرویوز کا سلسلہ شروع کرنے کا خیال کیسے پیدا ہوا، انٹرویو لیتے وقت آپ کن پہلوؤں پہ خصوصی توجہ دیتی ہیں؟
علیزے نجف: بہت اچھا سوال ہے، انٹرویوز دراصل سوالات و جوابات کا مجموعہ ہوتے ہیں، جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ایک اچھا انٹرویو سوال کرنے کی صلاحیت سے مشروط ہے، میرے ذہن میں ہمیشہ سوالات کی لہریں اٹھتی رہی ہیں. غالباً بچپن سے ہی میرا ذہن سوالات کی آماج گاہ بنا رہا ہے، جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اکثر و بیشتر سوالات کرنے والے اسٹوڈنٹ کی نہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور نہ اسے اچھا سمجھا جاتا ہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا. سچ یہ ہے کہ اس انجام کو دیکھتے ہوئے میرے اندر سوال کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، ایک دو ٹیچرز ایسے تھے جو بہت ہی شفیق تھے. ان میں سے ایک میرے اسکول کی پرنسپل تھیں. دوسرے پرائمری کلاس کے ایک استاد تھے جو کہ نہایت ہی مشفق تھے. جن سے میں نے کئی سارے موضوعات پہ بات کی لیکن کھل کر سوال کبھی نہیں کیا، وہ سوالات ہمیشہ میرے اندر موجود رہے، جب میں نے پہلا انٹرویو کیا جو کہ پاکستان کی ماہر نفسیات حیا ایشم کا تھا، اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میں یہاں اپنے ان سوالات کرنے کی صلاحیت کو بہتر طور سے چینلائز کر سکتی ہوں، یوں پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور بہت کامیاب رہا، ہر شعبے کے ماہرین سے بات چیت کی اور سوالات و جوابات ترتیب دے کر مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے قارئین کے سامنے پیش کیا، جس کو  بہت پسند کیا گیا الحمدللہ۔ اس انٹرویو سے میں نے خود بھی بہت سیکھا، زندگی سے جڑے مسائل کو موضوع سوال بنانے کے لیے حقائق کو مزید دوسرے پہلوؤں سے سمجھنے کی اضافی کوشش بھی کی، اس انٹرویو نگاری کی وجہ سے میرے حلقۂ احباب میں بہترین لوگوں کا اضافہ بھی ہوا، سچ کہوں تو مجھے انٹرویو لینا بہت اچھا لگتا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کا انٹرویو لینا جو زندگی سے جڑے ہر شعبے سے متعلق ایک واضح اور حقیقت پسندانہ نظریہ رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
انٹرویو لیتے وقت سامنے والے کی ذاتی شخصیت سے زیادہ ان کے نظریات پہ فوکس کریں تاکہ لوگ اسے سیکھ کر اپنی زندگی میں اپلائی کر سکیں، معاشرے کے حساس موضوعات پہ ان کے خیالات کو جاننے کی کوشش کریں، کوشش کریں کہ سوالات کا تعلق ماضی سے زیادہ حال و مستقبل سے ہو، تاکہ لوگ اس کی روشنی میں اپنے نظریات و خیالات کا جائزہ لے سکیں، اچھا سوال کرنے کے لیے مطالعہ و مشاہدہ کی شرط کو پوری کرنا ضروری ہے۔
ابوشحمہ: آپ ایک شاعرہ بھی ہیں، شاعری کی طرف رجحان کیسے پیدا ہوا؟
علیزے نجف: شاعری لفظوں اور احساسات کو ایک ردھم کے ساتھ پیش کرنے کا نام ہے، مجھے شاعری ہمیشہ سے ہی فیسی نیٹ کرتی رہی ہے. جب شعر کہنا نہیں شروع کیا تھا اس وقت شعر پڑھ کر بہت خوش ہوا کرتی تھی. پروین شاکر کو میں نے بہت پڑھا، ان کی شاعری پڑھ کر ایک الگ طرح کی جذب کی کیفیت ہو جایا کرتی تھی، جب لفظوں پہ گرفت مضبوط ہوئی تو بےاختیار لفظوں میں ردھم لانے کی کوشش شروع ہوگئی، جو رفتہ رفتہ اصول و قواعد میں ڈھل کر شاعری بن گئی۔ شاعری بہت مختصر لفظ میں بہت خوب صورتی کے ساتھ انسان کے احساسات کی ترجمانی کر دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ میر و غالب و اقبال کی شاعری اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اپنی تحریر و تقریر میں استعمال کرتے ہیں۔
ابوشحمہ: آپ اردو زبان کی قلم کار ہیں کیا سوشل میڈیا اردو کی ترقی میں معاون ہے؟
علیزے نجف: سوشل میڈیا ہی وہ دوسری دنیا ہے جہاں پہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد پچھلی ایک دہائی سے آباد ہو رہی ہے، وقت کے ساتھ یہ آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے، ایسے میں اردو کی بقا و ارتقا کے لیے اسے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے جوڑنا ازحد ضروری ہے، زبان وہیں پہ فروغ پاتی ہے جہاں اس کے بولنے والے پائے جاتے ہیں، بےشک سوشل میڈیا اردو کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اردو دان طبقے کو اس پہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، بہت افسوس کے ساتھ میں ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ ہم بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے عادی ہیں، یعنی جو لوگ کہتے ہیں اسے ہم الاپنا شروع کر دیتے ہیں لیکن کبھی خود نہ اس کی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی مداوا کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں، بےشک ہم اردو کی بقا و ارتقا کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی سطح پہ ہم اس کے برعکس کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں، اردو مشاعروں کے بینرز بھی ہندی میں تیار کیے جاتے ہیں، پھر کہتے ہیں اردو زوال پزیر ہو رہی ہے، اس کے پیچھے شاید ذہنیت یہ بھی ہے کہ اردو کے ساتھ احساس کمتری کو جوڑ دیا گیا ہے اور انگلش کو تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سے جوڑ دیا گیا ہے. ہم خود کو کہیں سے بھی کمتر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے. اس لیے ذرا اس سے دور دور سے ہی رشتے داری نبھاتے ہیں جس سے کمتر کا لیبل جڑا ہوا ہو۔
ابوشحمہ: آپ نفسیاتی مسائل کے حوالے سے بھی لکھتی اور بات کرتی نظر آتی ہیں. موجودہ وقت میں نفسیاتی صحت کے حوالے سے کتنی بیداری پائی جا رہی ہے؟
علیزے نجف: نفسیات ہماری شخصیت کا وہ حصہ ہے جس سے ہمارے رویے، عمل رد عمل، کیفیت، سکون، خوشی، غمی جڑی ہوئی ہے، مطلب نفسیات ہمارے اندرونی وجود کا دوسرا نام ہے، ہماری ذاتی زندگی میں نفسیات کا گہرا عمل دخل ہونے کے باوجود لوگ نفسیاتی صحت کے حوالے سے غافل ہیں، وہ مسائل کی وجہ باہر تلاشنے کے عادی ہیں. جب کہ نفسیاتی مسائل کی وجہ ہمیشہ ہمارے اپنے اندر ہوتی ہے، ہمیں خود پہ کام کرنا مشکل لگتا ہے. اس لیے دوسروں کو الزام دے کر خود کو مظلوم ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں، نفسیات ہمیں خود پہ کام کرنے کو کہتی ہے. یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے بہ آسانی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، ماہرین کی رائے کے مطابق اس ناواقفیت اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ہم میں سے ہر تیسرا انسان کسی نہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے، دوسرے لوگ اس ایبنارمل رویے کو اس کا حقیقی رویہ یا فطرت سمجھ لیتے ہیں اور وہ خود اس پہ کام کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کرتے، بعض اوقات وہ انسان اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ وہ خود کو بہتر بنا سکے. ایسے میں اسے دوسروں سے تعاون چاہئے ہوتا ہے، چوں کہ دوسرے لوگ بھی اسی طرح لاعلم ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس حوالے سے اپنی ذمےداری کا شعور ہی نہیں رکھتے ہیں. نفسیاتی مسائل کا گراف بڑھتا چلا جاتا ہے، میں نے لوگوں کے رویوں میں موجود نفسیاتی مسائل کو بہت قریب سے دیکھا ہے. اس کی وجہ سے لوگوں کو اور ان کے پیاروں کو مبتلاے آزار بھی دیکھا ہے، میں نے جو کچھ اپنے مشاہدے میں پایا اور مطالعے سے سیکھا اسے اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ لوگ اپنے مسائل کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔
ہمارے معاشرے میں اول تو نفسیاتی صحت کے حوالے سے بہت کم آگہی پائی جاتی ہے، دوم اگر لوگ سمجھ بھی لیتے ہیں تو اپنی زندگی پہ اپلائی کرنے کے بجائے دوسروں کے رویوں پہ لیبل لگانا شروع کر دیتے ہیں. اس کی وجہ سے بھی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے، ہم ایک ایسے پرآشوب دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں ہمیں اپنی جسمانی صحت کے ساتھ نفسیاتی صحت پہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے. تاکہ معاشرے میں پنپنے والے نفسیاتی الجھاؤ سے بچا جا سکے اور خود کو پرسکون رکھا جا سکے۔ اگر ہم خود نفسیاتی و جسمانی طور سے صحت مند نہیں ہوں گے تو ہم معاشرے، خاندان اور اپنی ذاتی زندگی میں بھی کبھی ایک مثبت کردار نہیں ادا کر سکتے۔
ابوشحمہ: کسی انسان کی شخصیت کی تشکیل میں کن عناصر کا اہم کردار ہوتا ہے؟
علیزے نجف: کسی انسان کی شخصیت کی تشکیل میں کئی عناصر کا اہم کردار ہوتا ہے، جیسے گھر کا ماحول، والدین کا رویہ، دوستوں کی صحبت، تعلیمی نظام. اس کے ذریعے ہی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کی بنیاد رکھی جاتی ہے، بنیاد ہمیشہ بےحد اہم ہوتی ہے. کیوں کہ بنیاد میں پائی جانے والی کجی باقی اوپر اٹھنے والی دیوار اور عمارت کو بھی کج نما بنا دیتی ہے. جس کی بقا و استحکام پہ ہمیشہ ایک سوالیہ نشان لگا ہوتا ہے، اس لیے اس پہ خصوصی توجہ دینا ازحد ضروری ہے، خاندان، ماحول، معاشرے کے بعد خود انسان کو بھی اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے شعوری سطح پہ کوشش کرتے رہنا چاہیے. ٹکنالوجی نے بےشمار ایسے ذرائع پیدا کر دیے ہیں جن کے ذریعے ایک انسان اپنے thought process کو بہتر بنا سکتا ہے۔ وہ کہیں بھی رہتے ہوئے ماہرین کی کتابیں اور ویڈیوز دیکھ سکتا ہے جس سے وہ زندگی گزارنے کا صحیح سلیقہ سیکھ سکتا ہے۔
ابوشحمہ: جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ ادبی فن پارہ تخلیق کرنا ایک وہبی فن ہے، اسے محنت کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا، آپ اس کو کتنا سچ مانتے ہیں؟
علیزے نجف: بےشک ہر انسان اپنے اندر بےپناہ امکانی صلاحیت رکھتا ہے، اور کچھ صلاحیتیں اسے خصوصی طور پہ عطا کی جاتی ہیں، جسے برت کر وہ بہ حیثیت فن کار  انتہائی درجے کی خوشی محسوس کرتا ہے، ادبی فن پارے کی تخلیق بھی ایک ایسا ہی وہبی فن ہے، یہ ابتدائی درجے میں ایک رجحان کی طرح ہوتا ہے جسے بروقت پہچان کر اس کو صحیح رخ پہ لاتے ہوئے مسلسل طبع آزمائی کرتے رہنا ضروری ہوتا ہے، محض صلاحیت کے ہونے سے کوئی بھی فن کار نہیں بنتا. اس کو پہچاننا اس پہ کام کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے. قدرت کا کام تھا عطا کرنا. اب اسے استعمال میں لانا اور اسے عروج پہ پہنچانا انسان کی ذمے داری ہوتی ہے۔
انسان کے اندر قدرت نے بےپناہ صلاحیت رکھی ہے اگر کوئی صحیح معنوں میں یکسو ہو کر خود میں ادبی صلاحیت کو پروان چڑھانے پہ کمر بستہ ہو جائے تو اس پہ کمال حاصل کیا جا سکتا ہے، سچ یہ ہے کہ بہت کم لوگ اس قدر ڈیڈیکیشن کے ساتھ محنت کرتے ہیں، اس لیے عمومی سطح پہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محنت کے ذریعے اس صلاحیت پہ دسترس حاصل کرنا ذرا مشکل ہے۔
ابوشحمہ: کیا ایک فن کار اپنے فن سے کبھی مطمئن ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے؟
علیزے نجف: ایک فن کار کا اپنے فن سے مطمئن نہ ہونا ہی اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتا ہے، کیوں کہ جس لمحے وہ مطمئن ہو جاتا ہے اس کے اندر کی فن کارانہ صلاحیتوں کا ارتقا سست ہو جاتا ہے، یہ دنیا اپنی پیدائش کے ساتھ ہی مسلسل متحرک اور تغیر پذیر ہے، یہی صفت ایک فن کار کے فن کو عروج پر پہنچانے کے لیے درکار ہوتی ہے، اس دنیا کے سارے عیش و آسائش کی ایجاد و دریافت بھی اسی غیر مطمئن ذہن کا ثمر ہے۔ غیر مطمئن ہونا اچھی بات ہے لیکن بہرحال اتنا اطمینان ضروری ہے کہ آپ اعتماد کے ساتھ اپنے فن کو لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں۔
ابوشحمہ: معاشرتی مسائل پہ آپ کی گہری نگاہ ہے. موجودہ معاشرتی صورت حال کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟
علیزے نجف: مسائل و مواقع پر معاشرے کی بنیاد میں موجود ہوتے ہیں، ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے، اس کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ہم مسائل کے متعلق سوچنا چھوڑ دیں، بےشک مسائل کو حل کرنا ہمیشہ ہماری پہلی ترجیح میں شامل ہونا چاہیے، لیکن اس کے ہونے سے حواس باختہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں اعلا اخلاق و کردار کا فقدان واضح طور پہ نظر آتا ہے، تعلیم یافتہ لوگوں کے بڑھتے تناسب کے باوجود جہالت کا باقی رہنا انتہائی تشویشناک صورت حال کی طرف نشان دہی کرتا ہے، یوں تو اس کے علاوہ بھی کئی سارے مسائل موجود ہیں لیکن اخلاق و کردار کا فقدان ہمارے انسانی معاشرے کی بنیاد کو کھوکھلا کر رہا ہے؛ اس پہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب انسان اپنے اندر موجود انسانی کردار کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہو جائے گا تو وہ ازخود بہت سارے فروعی مسائل پہ قابو پا لے گا۔ انسان ہمیشہ سے ہی سعی و خطا سے سیکھتا رہا ہے، اسی طرح اس کے سیکھنے کا عمل جاری رہے گا۔
ابوشحمہ: اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزر چکی ہیں، اس میں اردو زبان کی صورت حال کیسی رہی؟
علیزے نجف: اردو زبان ایک زرخیز زبان ہے جس میں علوم کا ایک بڑا سرمایہ محفوظ ہے، اکیسویں صدی میں اس زبان کی نشوونما متاثر ہوئی ہے، یہ اپنوں کے ہاتھوں بھی ستم رسیدہ ہوئی ہے، پھر بھی صورت حال مایوس کن نہیں. اب بھی اس زبان کے بےشمار چاہنے والے لوگ دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں، جو  اسے اپنی مادری زبان کہنے اور فروغ دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ سچ ہے کہ ان گذری دو دہائیوں نے اردو زبان کو کئی طرح کے مسائل سے دوچار کیا ہے. اس حقیقت کو سامنے رکھ کر اردو کی بقا و ارتقا کے لیے ازسر نو حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے. اس کی بدحالی کا ماتم کرنے کے بجائے اپنے حصے کی کوشش کو سرانجام دینے کی ضرورت ہے۔
ابوشحمہ: کیا آپ کی کوئی کتاب شائع ہو چکی ہے یا مستقبل قریب میں شائع کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
علیزے نجف: میری ابھی تک کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے، ہاں مستقبل قریب میں اپنے انٹرویوز کا مجموعہ اور مضامین کا مجموعہ کتاب کی شکل میں شائع کروانے کا ارادہ رکھتی ہوں، غزلوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، ان دو کتابوں کے بعد ان شاء اللہ اس کی ترتیب و تدوین کی طرف اپنی توجہ مبذول کروں گی۔
ابوشحمہ: اکیسویں صدی کی کس تبدیلی نے معاشرے کے ارتقا پہ سب سے زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں؟
علیزے نجف: یہ جگ ظاہر ہے کہ اکیسویں صدی کے انقلاب کا اصل مآخذ ٹکنالوجی ہے، اس نے تبدیلی کے سفر کو اس قدر تیز رفتار کر دیا ہے کہ ہر دن ایک نئی چیز دریافت ہو رہی ہے، لوگ اس تبدیلی کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ انھیں محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے، لیکن ان کی نفسیات ابھی بھی بیسویں صدی کے طرز زندگی میں ہی اٹکی ہوئی ہے. اگر چہ بہ ظاہر لوگ تبدیل ہو گئے ہیں، لیکن وقت کی ظاہری تبدیلی کے ساتھ ذہنی طور سے ہم آہنگ ہونے میں ابھی بھی ناکام ہیں، اس غیر متوازن انقلاب نے کئی طرح کے منفی و مثبت اثرات معاشرے پہ مرتب کیے ہیں۔ اس لیے ہمیں ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اس کے استعمال کرنے کے صحیح طریقے پہ غور کرنا چاہیے، زندگی میں توازن روح کی حیثیت رکھتا ہے. اس کے بغیر زندگی مسائل کا شاخسانہ بن جاتی ہے، ٹکنالوجی کے معاملے میں بھی ہمیں اسی آفاقی اصول کو ملحوظ رکھنے کی اشد ضرورت ہے، یہ یاد رکھیے کہ ٹکنالوجی آپ کے لیے آسانی پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں آئی ہے. اسے اپنا ریموٹ کنٹرول دے کر اسے اپنے لیے مصیبت نہ بنائیں، ٹکنالوجی کے بےشمار فائدے ہیں، جس سے  ہم سب مستفید ہو رہے ہیں. بس ضرورت ذرا سے شعور کی ہے جو اسے اعتدال میں رکھ کر تعمیری سطح پہ استعمال کرنے میں تعاون کر سکے۔
ابوشحمہ: آپ کا کوئی پیغام قارئین کے نام؟
علیزے نجف: میرے پاس صرف باتیں و خیالات ہیں، جنھیں گفت و شنید کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں، اگر پیغام کے تحت کچھ کہنا پڑے تو یہ کہنا چاہوں گی کہ آپ اعلا عہدے و مرتبے کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگتے ہوئے ایک اچھا انسان بننے کی جدوجہد کو کبھی ترک نہ کریں، ہر حیثیت سے اپنی ذمےداری کو صد فی صد قبول کرنا سیکھیں، اپنے حصے کا کام کیے بغیر اوروں سے امید رکھنے کی نفسیات سے آزاد ہو جائیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

شیئر کیجیے

2 thoughts on “غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے: علیزے نجف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے