کتاب: سالک لکھنوی : عہد اور شاعری

کتاب: سالک لکھنوی : عہد اور شاعری

مصنف: محمد ارشاد علی
تبصرہ: نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر : 10/9،گلی نمبر:3،
جگتدل ،24 ؍پرگنہ، مغربی بنگال

کسی عہد کی تاریخ جاننے کے لیے ہم تاریخی کتابوں کے اوراق چھانتے ہیں کیونکہ ان اوراق میں عہد اور انسانی تہذیب کی داستانیں چھپی ہوتی ہیں، کبھی دوسرے وسائل کو بھی بروئے کار لاتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی اس عہد کی کچھ عبقری شخصیتیں بھی ہوتی ہیں جن کی زندگی خود دستاویزی حیثیت رکھتی ہے اور ان کی زندگی تاریخ کی کتاب کا ایک ورق نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک کتاب ہوتی ہے۔ایسی ہی ایک تاریخی کتاب سالک لکھنوی کی ذات گرامی ہے۔ سالک لکھنوی کو ترقی پسند شاعروں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے ادب کے دوسرے اصناف میں بھی نمایاں کام انجام دیا ہے۔ بہ طور افسانہ نگار، محقق، نثر نگار، مزاح نگار اور مترجم ان کی مستحکم شناخت ہے۔
محمد ارشاد علی کی کتاب سالک لکھنوی: عہد اور شاعری ان کا مقالہ ہے۔ ارشاد صاحب نے سالک لکھنوی کو اپنے مقالے کا موضوع چن کر یہ صاف واضح کردیا کہ آگے ان کے قدم کس ڈگر پر پڑنے والے ہیں۔ یہ کتاب ان کی تنقیدی بصیرتوں کا اظہار ہے۔کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول میں جدید اردو شاعری کا سیاسی و ادبی پس منظر بیان کیا ہے۔ جدید شاعری کے سیاسی و ادبی پس منظر کو بیان کرتے وقت ان کا قلم ایک محقق کی طرح چلتا ہے، وہ باتوں کو چھان پھٹک کر مع دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس لیے مضمون کے دوران ان حقائق کو پیش کیا ہے جن سے قلم کار کی توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بنگال کے معروف ناقد ڈاکٹر دبیر احمد رقم طراز ہیں۔
"ارشاد نے مطالعے کے دوران جن خارجی اور داخلی شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جن حالات و کوائف کو معتبر حوالوں سے حاصل کرکے مثالیں بنائی جاتی ہیں، سالک لکھنوی کے سلسلے میں ان کو ملحوظ رکھا ہے اور غیر جانب داری کے ساتھ تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے."
موصوف نے جدید اردو شاعری کا احاطہ کرتے ہوئے نظیر، حالی، اکبر الہ آبادی، محمد حسین آزاد، شبلی، اسمعیل میرٹھی،چکبست اور اقبال کی شاعری کا ایک معروضی تجزیہ پیش کیا ہے جس سے جدید اردو شاعری کے ادبی پس منظر پر ایک خاطر خواہ روشنی پڑتی ہے۔
باب دوم میں سالک لکھنوی کی شخصیت عہد اور معاصرین کو موضوع بنایا گیا ہے، جس کے تحت سالک لکھنوی کے خاندان کا پس منظر پیش کیا گیا ہے جو انتہائی معلوماتی ہے۔ ان کے پردادا سنگرام رائے کپور سے مصنف نے شروعات کی ہے جو ایک مفصل مضمون ہے اور چند ایسے حقائق کو بھی پردۂ خفا سے باہر نکالا ہے جو یقیناً قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوں گے۔ موصوف نے حقائق کے بیان میں دیانت داری سے کام لیا ہے۔ سالک لکھنوی کی پیدائش، تعلیم و تربیت، شادی، ادبی خدمات، تصانیف و اعزازات کی ایک مختصر تفصیل پیش کی ہے۔
سالک لکھنوی کے ظاہری خدوخال اور باطنی کیفیات کو ارشاد علی نے اس قدر تفصیل سے پیش کیا ہے کہ وہ قاری جس نے سالک صاحب کو نہ دیکھا ہو وہ بھی ان لکیروں کی مدد سے ان کی ایک تصویر، تصور کی دیوار پر بنا لے گا۔ سالک صاحب کے معاصرین اور ان معاصرین کی ادبی خدمات کا بھی بہ خوبی جائزہ لیا گیا ہے۔
موصوف کی تنقیدی بصیرت کے چراغ اس وقت روشن ہوتے ہیں جب وہ سالک صاحب جیسے باکمال شاعر کے کلام کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ سالک لکھنوی نے اس وقت شاعری کا ہاتھ تھاما جب وہ رومانیت کو چھوڑ کر عقلیت کا لبادہ اوڑھ چکی تھی۔ جب شاعری کا محبوب خواب و خیال کی دنیا سے باہر نکل کر زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے لگا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی پسندی نے شاعری کا مزاج تو ضرور بدلا پھر بھی رومانیت کا نمایاں عکس شاعری پر دکھائی دیتا رہا۔سالک صاحب کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی کہ انھوں نے زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے درپیش انسانی و سماجی مسائل کو بھی پیش کیا اور شعریت کو ملحوظ خاطر رکھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ لکھنو کی تھال میں زمانے کی گردشوں کو کسی ڈش کی طرح رکھا، سخت سے سخت لمحات میں کراہیت اور بے کسی کے بیان میں بھی شعریت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ کچھ ترقی پسند شاعروں، پرویز شاہدی اور مجروح سلطان پوری کی غزلوں میں بھی ایسا رکھ رکھاؤ ملتا ہے۔ جب کہ ہنگامہ آرائی کےاس دور میں کچھ شاعری ہنگاموں کی نذر ضرور ہوگئی۔
غزل گوئی کے جو فنی لوازمات ہیں وہ سالک لکھنوی کی غزلوں میں بدرجہ اتم ملتے ہیں۔ اشارے و کنایے، استعارات، خیالات کا اظہار ہو یا فکر و فن کی معنویت سب کا برابر خیال رکھا۔ موصوف نے سالک لکھنوی کی نظموں اور قطعات کا بھی عمیق مطالعہ پیش کیا ہے جو داد طلب ہے۔ مارکسسٹ ذہنیت کے حامی شاعر کے حمدیہ کلام کا تذکرہ اور اس کا تجزیہ بہت دل چسپ ہے۔ لکھنو میں پیدا ہونے والے اس شاعر نے اپنے لیے بڑی صاف و شفاف راہ نکالی تھی اور لفظوں، استعاروں کے استعمال میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا اور سطحیت سے شاعری کو بچائے رکھا۔
ارشاد علی نے سالک لکھنوی کی شاعری کی ان تمام خصوصیات کو زیر بحث لایا ہے جو ان کی شعری عظمت پر دال ہیں۔ تلمیحات ہوں، استعارات، محاورات یا تجربات و مشاہدات ان تمام پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔
سالک لکھنوی کی شاعری پر محاکمہ جامع اور پر اثر ہے، جو دیر پا اثر رکھتا ہے۔ اس کتاب کا باطنی حسن اس وقت اور نکھر جاتا ہے جب ہم سالک لکھنوی کے غیر مطبوعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جنھیں ارشاد علی نے شامل کتاب کیا ہے۔
سالک لکھنوی کی شخصیت و ادبی خدمات پر یہ کتاب بہت اہم اور قابل مطالعہ ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے ارشاد علی کی تنقیدی بصیرت اور تحقیقی نقطۂ نظر، وسعت فکر و نظر کے ساتھ ان کے مشاہدے کی گہرائی و گیرائی کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف کی اس اہم ادبی کاوش کا ادبی حلقے میں یقیناً والہانہ استقبال ہوگا نیز قارئین کے ایک وسیع حلقے کی سالک لکھنوی سے شناسائی کی بھی ایک صورت نکلے گی۔
اس امید کے ساتھ کہ آنے والے دنوں میں ارشاد علی کی مزید تخلیقات منظر عام پر آئیں گی، میں انگیں صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
***
نــسیــم اشــک کی گذشتہ نگارش :طیب فرقانی کی تحقیقی کاوش

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے