داغ

داغ

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان
(نوٹ: "مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ داغ ایک عورت کے بدن پر نہیں بلکہ ایک مرد کی مردانگی پر لگے تھے."
مذکورہ اقتباس ارم رحمٰن (لاہور، پاکستان) کے زیر نظر افسانے کا آخری جملہ ہے. افسانے کا عنوان بھی داغ ہے. داغ کا لفظ ذہن میں منفی معنی متصور کرتا ہے. افسانہ نگار نے افسانے کے نسائی مرکزی کردار کے جسم پر بہت سے داغ دکھائے ہیں. اور قاری کے تجسس کو ابھارا ہے کہ آخر اس کے جسم پر اتنے داغ کیوں ہیں، اور یہ داغ جسم کے نچلے حصے مثلاً رانوں اور پنڈلیوں پر ہی کیوں ہیں. اختتام پر یہ راز خود نسائی کردار کی زبانی افشا کیا گیا ہے. اس راز کے افشا ہونے پر مرد مرکزی کردار کو ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ داغ جسم پر نہیں بلکہ ایک مرد کی مردانگی پر لگے ہیں. قاری کو اس جملے پر رک کر افسانے کو پھر سے ذہن میں دہرانے پر مجبور کیا گیا ہے تاکہ وہ سوچ سکے کہ داغ کیا صرف ایک عورت کے جسم پر ہے یا وہ داغ، داغ بنانے والے کے ذہن میں ہے؟ پھر یہ کہ داغ بنانے والے کو داغ بنانے پر کس بات نے اکسایا؟ افسانہ نگار نے اس آخری سوال کا جواب صرف ایک لفظ میں دیا ہے. وہ یہ کہ داغ لگانے والا نفسیاتی مریض تھا. ہم جانتے ہیں کہ نفسیاتی مرض کی بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں، کوئی ایسا محرک، کوئی واقعہ، یا سوچنے کا کوئی مخصوص زاویہ. افسانہ نگار نے شاید اس کی وجہ "مردانگی" کو قرار دیا ہے.
افسانے کا مرکزی واقعہ بہت چھوٹا سا ہے. وہ یہ کہ ایک مرد جو خود راوی ہے اور واحد متکلم میں کہانی سناتا ہے، ایک عورت کے برہنہ جسم کا مساج کر رہا ہوتا ہے. اسی دوران اسے عورت کے جسم کے کچھ حصے پر متعدد نمایاں داغ نظر آتے ہیں. وہ متجسس ہوتا ہے اور عورت کو زور دے کر ان داغوں کا راز بتانے کے لیے کہتا ہے. عورت راز بتاتی ہے اور کہانی ختم. یہ خلوت میں ایک شوہر کی اپنی بیوی کے ساتھ پیش آئے واقعے کا بیان ہے.
افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس مختصر کہانی کو اس طرح مضبوط پلاٹ میں گوندھا ہے اور چھوٹے چھوٹے دوسرے واقعات و حادثات کے تانے بانے میں پرویا ہے کہ افسانہ قاری کو اپنے سحر میں گرفتار رکھتا ہے. اس تکنیک کو ہم رجعت قہقری کا نام دے سکتے ہیں. یعنی افسانہ دائروی شکل میں گھومتا ہوا اختتامی منظر سے آغاز کی طرف لوٹتے ہوئے پھر اختتام پر پہنچتا ہے. درمیان میں کچھ واقعاتی اور نفسیاتی مناظر ہیں، جن میں مرد مرکزی کردار کے خاندان، کاروبار، تعلیم، ذریعۂ معاش، رومان، اور حادثاتی شادی کے مناظر ہیں. اس صورت میں دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ افسانہ نگار نے ان مناظر کے درمیان علت و معلول کی کیسی صورت گری کی ہے. ارم رحمٰن اس فن سے خوب آگاہ ہیں اور افسانے کی فنی بساط پر سبھی مہرے درست مقام پر فٹ کرتی ہیں.
ارم رحمٰن کے قریب آدھا درجن افسانے میری نظر سے گذرے ہیں. ان افسانوں میں جنس ان کا حاوی موضوع ہے. اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جنس کے حوالے سے عورت اور مرد کے رشتوں میں اور رشتوں سے پیدا ہونے والے معاملات و مسائل کی پیش کش ان کے یہاں حاوی ہے. انھیں جنس کی پیش کش کہنا زیادتی ہوگی. ان کے یہاں جنس تلذذ یا شہوانیت کا استعارہ نہیں بلکہ جنسی زندگی میں ان رویوں کا تجزیہ ہے جو ان کرداروں کو پیش آتے ہیں. ان کے یہاں مختلف پیشے سے جڑے مردوں کی کہانیاں ہیں، ارم رحمٰن نے معاشرے کے مختلف طبقے کے مردوں میں پائے جانے والے ان رویوں کی نشان دہی کی ہے جو وہ اپنی عورتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں.
زیر نظر افسانہ اپر مڈل کلاس فیملی کی کہانی بیان کرتی ہے. جس کا مرکزی کردار اپنے سے 15 برس سے زاید عمر کی مطلقہ عورت سے شادی کرنے پر اس لیے مجبور ہوتا ہے کہ اس کے سامنے خاندانی اقدار ہیں. اسے اپنا من پسند پیشہ اختیار کرنے کی آزادی تو مل جاتی ہے لیکن من پسند لڑکی سے شادی کرنے سے محروم ہوجاتا ہے. یہ واقعہ اس کی شادی شدہ زندگی میں کس رویے کی طرف لے جاتی ہے افسانہ نگار نے اس کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے. اور اس طرح کیا ہے کہ کہانی بالکل حقیقی معلوم ہوتی ہے. طیب فرقانی

اس کا نازک گداز بدن میرے سامنے بالکل عریاں پڑا تھا. اس کی آنکھوں کو اسی کی مرضی کے مطابق ایک گہرے رنگ کی پٹی سے باندھ دیا تھا، کیونکہ جو عمل ہونے جارہا تھا وہ کسی خاص کیفیت کو محسوس کروانے کے تحت نہیں تھا بلکہ وہ مجھ سے شرم اور جھجھک محسوس کر رہی تھی. کمرے کی ساری بتیاں گل کردی تھیں، وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں اسے بھرپور روشنی میں دیکھوں لیکن ایک ہلکی روشنی والا بلب جلانا لازمی تھا کیونکہ بہرحال مجھے اسے دیکھنا تھا.
مدہم پیلی روشنی میں اس کا گندمی بدن سنہرا لگ رہا تھا اور جلد چمک دار، جیسے اس میں سے روشنی پھوٹ رہی ہو، سورج کی روپہلی کرنوں کی طرح جگمگ جگمگ یا ماہتابی رنگ و روپ آج پہلی بار میرے سامنے آیا تھا.
اس وقت وہ پشت کے بل لیٹی ہوئی تھی تو محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ یہ 25 سالہ لڑکی کا جسم ہے یا کسی 40 سالہ مطلقہ کا، اس کا وجود بالکل ان چھوا لگ رہا تھا، کیوں کہ میرے ہاتھوں کے لمس سے وہ کسی شہوانی انداز میں نہیں بلکہ گھبراہٹ کا شکار ہو کر سخت ہونے لگتا تھا، جب میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر گردن پہ مخصوص انداز سے انگلیاں پھیریں، واقعی اس کی رگیں تنی ہوئی تھیں، اس کے پٹھے اکڑے ہوئے تھے. انھیں مساج کی ضرورت تھی، جو کوئی ماہر ہی کر سکتا تھا. وہ کسی سیلون یا اسپا میں جاکر مساج کروانے کی خواہش مند تھی اور نہ ضرورت مند، کیونکہ وہ شوقیہ نہیں بلکہ مجبوری میں مساج کروا رہی تھی اور یہ مشورہ میں نے ہی اسے دیا تھا، کیونکہ میرا پیشہ ہی یہی تھا. تھکے جسم اور اکڑے پٹھوں کو نرم کرنے کے لیے مساج کرتا تھا اور باقاعدہ اس کی ٹریننگ لی تھی. جب تین دن پہلے مجھے امی نے کہا "ارمغان، ندرت کی طبعیت خراب ہے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ"، امی نے جس انداز میں بات کی، میں سمجھ گیا کہ وہ جو سمجھ رہی ہیں ایسا کچھ نہیں، لیکن امی کی خاطر میں نے اسے ڈاکٹر کے پاس بھجوا دیا، خود نہیں گیا اور واپسی پہ ندرت نے بتایا کہ ڈاکٹر نے پٹھوں کی کم زوری اور کچھ پرہیز بتائے ہیں. میرے نہ جانے پر امی خفا تھیں کہ تم ساتھ نہیں گئے، پھر مجھے امی کو بتانا پڑا کہ ابھی وہ خوش خبری نہیں جو وہ سننا چاہتی ہیں۔
جب ندرت نے مجھے تفصیل بتائی تو لاشعوری طور پر میں نے اپنا ہاتھ ایک دم اسکی گردن پر رکھ دیا کہ رگیں چیک کر سکوں تو وہ ایسے پیچھے ہٹی جیسے کرنٹ لگ گیا ہو، میں نے ملائمت سے کہا "ایک بار مجھے چھونے دیجیے تا کہ مجھے پتا لگے کہ دوا سے ٹھیک ہوں گے یا مساج بھی کارگر ہوگا"
میں نے گردن اور پھر کندھے کو ہاتھ سے دباکر اچھی طرح معائنہ کیا اور ایک ماہر کی طرح اسے قائل کیا کہ اس کے جسم کو مساج کی اشد ضرورت ہے. اس کے پٹھے واقعی کھنچے ہوئے تھے.
مجھے اس کی گردن کندھے اور پشت کی سختی بتا رہی تھی کہ ندرت نے مجھ سے بالکل جھوٹ نہیں بولا تھا. اس کو علاج کی ضرورت تھی اور پھر ان پٹھوں کو نرم کرنے کے لیے کسی اچھے تیل کے مساج کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا، وہ عام عورت سے بھی مساج کے لیے تیار نہ ہوئی چہ جائے کہ کوئی غیر مرد، میں نے اسے بالکل پروفیشنل انداز میں سمجھایا کہ میں مساج کروں گا، آپ پریشان نہ ہوں. مجھے وہ انکار کرنا چاہتی بھی تو نہیں کرسکتی تھی کیونکہ میں شرعی لحاظ سے اس کا محرم تھا. وہ الگ بات ہے کہ تین ماہ پہلے ہمارا نکاح بہت ڈرامائی انداز میں ہوا تھا، ندرت کا نہیں پتہ لیکن میں اس نکاح کے لیے ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں تھا. اس لیے ازدواجی تعلق قائم کرنا تو دور کی بات میں ندرت کو کبھی دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا، کیونکہ کرن ہی میری منزل تھی. اس لیے کبھی، نظر پڑگئی یا کبھی آمنا سامنا ہوگیا تو سلام دعا کر لی یارسمی سی بات، "کچھ چاہیے تو بتا دیں، کہیں جانا ہے تو گاڑی لے جائیں اور ایک مناسب رقم اس کو دیتا اور وہ خاموشی سے رکھ لیتی، لیکن ہمارے درمیان تکلف کی دبیز دیوار تھی جسے ڈھانے کی اس نے کوشش کی نہ میں نے. بس پہلی رات اس کو حق مہر ایسے دیا تھا جیسے اس کا قرض چکانا ہو اور پھر اس نے میرے تیور دیکھ کر خود ہی کہا کہ وہ کسی دوسرے کمرے میں منتقل ہوجاتی ہے. وہ شکر ہے کہ بالکل ساتھ والاکمرہ بھی میرے پاس تھا، وہ وہیں شفٹ ہوگئی. خوش قسمتی تھی کہ امی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھیں، لہذا ہم دونوں کا بھرم رہ گیا تھا، ملازم بھی میرے سیلون جانے کے بعد اوپر آتے تھے.
میں اپنے والد اور بڑے بھائی کی طرح کاروباری ذہن کا مالک نہیں تھا، میرا شوق فیشن اور اسٹائل میں تھا، والدین کی طرف سے کوئی دباؤ یا انکار نہیں تھا، کیونکہ والد کے پاس پیسے کی کمی نہیں تھی اور میرے پاس ٹیلنٹ کی. پہلے این سی اے سے ماسٹرز کیا اور اپنے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے میں فیشن کے حوالے سے انتہائی جدید معلومات حاصل کرنے بیرون ممالک کورس کرتا رہا.
اور جب میں پانچ سال بعد لندن اور چائنا سے سیلون، اسپا اور ہئیر اسٹائلسٹ کے کورس کرکے آیا تھا اور چائنا سے خاص طور پر مساج کے طریقے، آکو پنکچر کی مہارت بھی حاصل کی تھی، مجھے معلوم تھا کہ کون سی رگ دبانے سے نتیجہ کیا نکلے گا، انسانی تھکن کیسے دور ہوسکتی ہے اور کس جگہ دباؤ ڈالنے سے بے ہوش کیا جاسکتا ہے.
آتے ہی میرے والد صاحب کے قریبی دوست عبداللہ صاحب کے اصرار پر لبرٹی کے پوش ایریا میں بہترین سیلون کھولا اور اسے جدید ترین انداز میں مزین کیا اور اس میں وہ تمام خدمات میسر تھیں جو دیگر سیلون میں دستیاب نہیں ہوا کرتی تھیں، عبداللہ صاحب میرے والد اعجاز علی کے دوست تھے اور کاروبار میں شراکت دار بھی، اسی طرح ان کی بیٹی کرن میری دوست تھی اور اب کاروبار میں بھی شراکت دار یعنی دوستی اور کاروبار اگلی نسل میں منتقل ہورہا تھا. کرن سے میری دوستی بچپن سے تھی، کیونکہ والدین بالکل فیملی کی طرح تھے، اتفاق سے ہمارے شوق بھی یکساں تھے، ہم دونوں ہی فیشن کی دنیا میں تہلکہ مچانا چاہتے تھے. اس بات سے ہمارے والدین بہ خوبی واقف تھے. اس لیے انھوں نے میرے ہنر اور شخصیت کے مطابق نئے کاروبار کے لیے میرا انتخاب کیا، یہاں بھی انھوں نے کامیاب کاروباری ذہن رکھتے ہوئے ایک بہترین سودا کیا، کیونکہ کرن اور میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھا کام کرسکتے تھے. ہم دونوں ہم مزاج تھے اور کاروباری سوچ بھی یکساں تھی. میں دل ہی دل میں کرن کو پسند بھی کرنے لگا تھا اور شادی کا خیال بھی آگیا تھا، لیکن میں نے ابھی کرن سے شادی کی بات نہیں کی تھی، کیونکہ کرن کو بیوٹیشن کے کچھ ورکشاپ اٹینڈ کرنے تھے وہ امریکہ چلی گئی. 6 ماہ کا ڈپلوما کرنے، بس اس کے آتے ہی میں اسے پرپوز کرکے سرپرائز دینا چاہتا تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس کے والد بھی مجھے اپنی فرزندی میں خوشی سے لینا پسند کریں گے. کرن میرے ہی مردانہ سیلون کے دوسری منزل میں لیڈیز بیوٹی پارلر کا انعقاد کرنے والی تھی، بس اسی دن کا مجھے انتظار تھا.
میری 28 سالہ زندگی میں سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا، گھر میں اختلاف تھا نہ میری تعلیم کے حوالے سے نہ کاروبار کے حوالے اور خوش قسمتی سے شادی کے لیے بھی کوئی فلمی قسم کی رکاوٹ نہیں تھی، کیونکہ مجھے پوری آزادی تھی اپنی پسند بتانے اور بیاہ کے گھر لانے کی، کسی مقام پر آگ کا دریا عبور نہیں کرنا تھا، سب کچھ پرسکون اور پرامن چل رہا تھا کہ ایک دن والد صاحب کے دیرینہ دوست عارف احمد کی بیٹی کا فون آگیا کہ ابا پر فالج کا شدید حملہ ہوا ہے. یہ وہی دوست تھے جو پچھلے سال بری طرح دیوالیہ ہوگئے تھے. سب کچھ بک گیا. ایک گھر اور کچھ پیسہ بچا تھا. ان کے بارے میں جان کر ابا جی کی آنکھوں میں آنسو آگئے. میرے استفسار پر بتایا کہ کبھی عارف جیسے شخص کا طوطی بولتا تھا کاروبار میں. سب سے آگے مٹی بھی چھوتا تو سونا بن جاتی لیکن بس کچھ لوگوں پہ اندھا اعتماد کر لیا، کاروبار بھی ڈوبا اور بیٹی کی زندگی بھی خراب ہوئی. ایسی ہی مزید دل خراش حقائق سے پردہ اٹھایا کہ مجھے بھی عارف صاحب سے شدید ہم دردی ہوگئی. میں ان سے کئی سال پہلے ملا تھا، اس لیے ان سے ملنے میں بھی والدین کے ساتھ چلا گیا، عارف صاحب کی حالت دگرگوں تھی، ان کی زبوں حالی دیکھی نہیں جارہی تھی، ابا جی نے بتایا تھا کہ بہت بار مالی مدد کرنی چاہی مگر عارف صاحب کی خودداری آڑے آئی، گھر کافی بڑا تھا، اس کا دو تہائی حصہ کرائے پر دے کر گزارا کررہے ہیں، گھر کا یہ حصہ بھی کافی بڑا تھا ان دو باپ بیٹی کے لحاظ سے، مگر افسوس بالکل بھائیں بھائیں کرتا ہوا، کچھ ضرورت کا فرنیچر ہوگا کیونکہ ان کے کمرے میں ان کے بیڈ کے سوا 4 کرسیاں تھیں، ہم تینوں بیٹھ گئے، ان کو میں شاید  6,7 سال پہلے مل چکا تھا لیکن اب مجھ سے پہچانے نہیں جارہے تھے، ہڈیوں کا ڈھانچہ، منہ ٹیڑھا، فالج کے حملے سے دایاں بازو بے کار اور شدید علالت کے باعث ہلنا جلنا مشکل تھا، ایک ملازم ان کی دیکھ بھال پر معمور تھا، ابا اپنے دوست سے لپٹ کر رونے لگے، وہ بھی بے چارے بے بس تھے، اٹھ نہ سکے، بس دائیں بائیں موٹے موٹے آنسو گرنے لگے، اتنے میں ان کی اکلوتی بیٹی ندرت چائے لے کر آگئی، پھر میرے ابا اور ندرت کے ابا نے ایک دوسرے کو دیکھا اور انکھیوں ہی انکھیوں میں کیاصلاح بنی کہ فوراً ابا نے کہا "عارف بے فکر رہو، ندرت کی فکر نہ کرو میں اور میری فیملی اس کا خیال کرے گی" عارف صاحب شاید مسکرانا چاہتے تھے لیکن مسکرا نہیں پائے اور اباجی نے ان کا بے جان ہاتھ تھاما اور اس طرح دبایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، پھر باہر نکل گئے، ایک گھنٹے کے اندر اندر میرے بڑے بھائی اور بھابھی دو دوست اور مولوی صاحب تشریف لے آئے. میں چونک گیا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے، تو مجھے اباجی اٹھاکر ایک طرف لے گئے اور کہا کہ ندرت سے نکاح کر لو. میں چونکا شاید چیختا لیکن والد صاحب کی آنکھ میں آنسو تھے، بس اتنا بولے کہ "یہ وہ شخص جس نے مجھے کاروبار کرنا سکھایا، مجھے میرے پیروں پہ کھڑا کیا، آج یہ بے بسی کی موت مر رہا ہے، اس کی بیٹی اجڑی بیٹھی ہے، کاروبار کا صدمہ اور اکلوتی کی طلاق کا دکھ اسے کھا گیا، میری عزت رکھ لو، میرا دوست مرنے سے پہلے مطمئن ہو جائے گا."
میں جھجھکا گھبرایا، میرے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے، والد صاحب کی آنکھوں سے بہتے آنسو میرے دل کو چبھ رہے تھے، کیا بولتا بس اتنا کہا کہ "ندرت سے تو پوچھ لیں" "تم اپنا بتاؤ برخوردار! ندرت انکار نہیں کرے گی" اس ساری کاروائی کے دوران ندرت بالکل خاموش بیٹی رہی، ابا جی کو ندرت کی ہاں پر اتنا اعتماد کیسے تھا، لیکن ابا جی بالکل درست تھے، ندرت نے آرام سے ان حالات کے تحت تین بار قبول ہے بول دیا اور ہمارا نکاح ہوگیا اور جب بیٹی نے نکاح کے بعد اپنے باپ کے سامنے سر جھکایا کہ وہ دایاں نہ سہی اپنا پایاں ہاتھ ہی سر پر رکھ دیں، ہاتھ تو اٹھا مگر اٹھتے ہی گر گیا، ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی، شاید قبولیت کا لمحہ تھا کہ بیٹی کا گھر بستا دیکھ لیں یا نکاح کے لیے ہی اللہ تعالیٰ سے کچھ لمحے مستعار لیے تھے. 
ندرت کے باپ کا حال اور میرے باپ کی آنکھ کے آنسو مجھے مجبور کر گئے تھے اور مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ نکاح کرنا پڑگیا. 
لیکن نکاح کے فوراً بعد ان کے مرنے سے مجھے افسوس سے زیادہ شدید ذہنی کوفت ہوئی کہ کاش کچھ لمحے پہلے مرجاتے تو میں اس نکاح سے بچ جاتا جاتا، مجھے اب ہوش آنے لگا تھا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے اور یہ 12 سالہ بڑی عمر کی عورت مستقل طور پر میرے پلے پڑگئی، سارا کام کفن دفن اسی دن ہو گیا اور رات کو جنازے کے بعد ہم گھر پہنچ گئے، سمجھ نہیں آتا تھا کہ ندرت اگلے سال اس تاریخ کو اپنی شادی کی سال گرہ منائے گی یا اپنے باپ کی برسی. 
انھی سوچوں میں گم میں ندرت کے گردن اور کندھوں کا مساج کرتا رہا، تقریبا پندرہ منٹ کے مساج نے اس کے پٹھوں کا کھچاؤ کم کردیا تھا، اور اس کے بدن کی اکڑن بھی کافی کم ہوگئی تھی، اب میں اپنے ماضی سے نکل کر حال میں آیا تو سوچا کہ باقی جسم کا بھی مساج کردوں. 
میں اپنی تیل میں ڈوبی انگلیاں اس کی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ ایک خاص انداز میں پھیرنے لگا، مجھے کمر پر چھوٹے چھوٹے ایک ہی جیسے دھبے نظر آئے، کہیں پہ ہلکے کہیں پہ گہرے داغ دھبے، کچھ ہموار کچھ ابھرے ہوئے، اب میرا دماغ پوری طرح ندرت کے جسم کا جائزہ لینے لگا، ایک دم ندرت کی ران اور پنڈلیوں پر بھی ویسے ہی داغ نظر آنے لگے، وہاں کافی کثرت سے تھے. 
مجھے بہت تعجب ہوا کہ کیسے نشان ہیں. چھالے تھے، یا کوئی خاص بیماری، کیونکہ ایک جیسے حجم میں تھے. 
میں نے ندرت سے کہا،  آپ سیدھی ہوکر لیٹیں "۔۔جی" وہ گھبرائی اور ہچکچہاہٹ سے بولی "بس کافی ہے، رہنے دیجیے"
میں نے بالکل پیشہ وارانہ انداز میں کہا "آپ سیدھی لیٹیے" میں واقعی سنجیدہ تھا کیونکہ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ داغ دھبے صرف پشت پر ہیں یا سامنے بھی، میں نے یہ اصرار اس لیے نہیں کیا کہ مجھ پر شہوانی جذبات غالب تھے بلکہ مجھے شدید تجسس تھا کہ داغ کیسے ہیں. 
ویسے بھی یہ میراپیشہ تھا، میں ایک گھنٹے کے مساج کے لیے بھاری رقوم وصول کیا کرتا تھا، آکو پنکچر کی وجہ سے اور دیگر طریقوں سے مجھے انسانی جسم کو سکون پہنچانا آتا تھا، صرف ایک گھنٹے میں تھکا ماندہ انسان تروتازہ کرنے کا ہنر رکھتا تھا، حتی کہ رتجگوں کے مسافر بھی میرے مساج کے بعد گھوڑے گدھے بیچ کر سوتے تھے اور خاص بات یہ کہ مرد ہی نہیں خواتین بھی مجھ سے مساج کروایا کرتی تھیں، کیونکہ میں بلا تخصیص صرف اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتا تھا، بیمار خواتین و حضرات پٹھوں کی بیماری تھکن اور ذہنی سکون کے لیے آنے والے لوگ میرے لیے صرف ایک جسم ہوتے، جو ایک گھنٹہ میرے سامنے بےحس وحرکت پڑے رہتے. مساج مکمل ہوتا فیس دیتے خوشی خوشی گھر چلے جاتے. مجھے ان سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا تھا لیکن کچھ خواتین کے جسم میرے ہاتھ لگتے ہی ان میں نرمی اور سختی پیدا ہونے لگ جایا کرتی تھی اور میں یہ اندازہ کر لیتا تھا کہ خاتون اس وقت جنسی تناؤ کا شکار ہے یا مرد کے ہاتھ کا لمس اسے جنسی تسکین پہنچا رہا ہے. 
لیکن ایک بات یہ بھی تھی کہ ہر عورت کا مساج کروانے کا مقصد جنسی تسکین نہیں ہوتا تھا بلکہ ان میں سے اکثریت کے تھکے اکڑے پٹھے اس بات کی غمازی کیا کرتے تھے کہ ان بدنوں کو حد سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے، وہ مشقت انسانوں کے لیے کی گئی ہو یا سخت روزگار کے حوالے سے اور شاید کچھ عورتیں اپنے شوہر کی بے حسی کو جھیلنے کے بعد کہ ان کا جسم سرد ہونے سے بچ سکے، اس لیے مساج کے بہانے مرد کے ہاتھ کا لمس لینے آجاتی تھیں. 
میں عورتوں کی نفسیات کو سمجھ چکا تھا، میرے پاس عورتوں کی بڑی تعداد ممنوعہ علاقے میں بسنے والی خواتین کی تھی. ان کا جسم مساج کرواتے وقت اس طرح کا ردعمل دیتا جیسے وہ محسوس کرنا چاہتی ہوں کہ ہر مرد ان کا جسم صرف شہوت اور ہوس پوری کرنے کے لیے نہیں چھوتا، کیونکہ شہوت زدہ مردوں کی دی ہوئی تھکن ہی تو دور کرنے آتی تھیں اور میں ان مردوں سے مختلف تھا، ان کو اذیت دینے کی جگہ سکون دیتا تھا، لیکن ایک بات جو بالکل سچ ہے میرے پاس کبھی کوئی شریف اور باپردہ عورت نہیں آئی اور جو آیا کرتی تھیں ان کے رومانی خیالات دم توڑ چکے ہوتے، وہ سمجھ چکی ہوتیں ہیں کہ مرد اور عورت کے درمیان کھیلے جانے والے جسمانی کھیل میں عقل و شعور، جذبات و احساسات کا کوئی عمل دخل نہیں، وہ صرف جسمانی اور نفسانی تسکین کے لیے ہے، جوں ہی وہ حاصل تو کھیل ختم. 
میں ندرت کے مساج کے دوران الجھ چکا تھا، دو تین بار میں نے ضد کی اور سخت لہجے میں کہا تو مان گئی اور سیدھی لیٹ گئی اور میں نے پہلی بار اپنی بیوی کے خدو خال پہ غور کیا، ایک متناسب جسم کی خوش شکل عورت جس کو شادی کے صرف ایک سال بعد طلاق ہوگئی اور وہ بھی صرف 22 سال کی عمر میں، بچہ نہیں ہوا تھا، اس لیے اس کا جسم 40 سال کے ہونے کے باوجود بالکل کنواری جوان لڑکی کا لگ رہا تھا. 
اس کے وجود کے نشیب و فراز اس کے دل کی تیز دھڑکن کا پتہ دے رہے تھے، لیکن میرا دماغ صرف ان داغ دھبوں کی طرف تھا، میں نے بہ غور جائزہ لیا اور پھر اچانک میں نے کمرے کی تیز روشنی جلا دی. ندرت بدستور خاموش لیٹی رہی. اسے روشنی تیز لگی ہوگی مگر وہ چپ رہی. میں نے دیکھا کہ اس کے پیٹ اور رانوں، پنڈلیوں پر ویسے ہی نشان تھے، سینہ اور گردن ان داغوں سے بالکل محفوظ تھے اور چہرہ بالکل صاف شفاف. داغ دھبے تو کیا رواں بھی نہیں تھا لیکن باقی ہر جگہ نشان. 
میں نے اس کے پیٹ رانوں اور پنڈلیوں پر ہلکا سا مساج کیا تو وہی کیفیت، کہیں دھبے ہموار کہیں ابھرے، بازو پر کہنی سے اوپر والے حصے پر کچھ داغ تھے مگر کہنی سے نیچے بالکل نہیں. جب میں نے پیروں کا مساج کیا تو پیروں کے تلوں ہر بھی یہ نشان تھے. 
مجھے اس وقت شدید حیرت تھی کہ آخر یہ کون سا مرض ہے جو اسے لاحق تھا، جو صرف نظر نہ آنے والے یعنی کپڑوں میں ڈھکے رہنے والے حصوں پر اثر انداز ہوا تھا اور اگر ایساہی تھا تو پھر سینے پر بھی ہونے چاہیے تھے. 
میں پھرتی سے اٹھا اور اٹھ کر کمرے کی ساری روشنیاں جلا دیں اور تیز روشنیوں میں اس کا خوب صورت جسم بالکل داغ دار لگ رہا تھا، برہنگی کے باوجود مجھے اپنی طرف راغب کرنے سے قاصر تھا، شہوت کی جگہ ہمدردی پیدا ہورہی تھی.
مجھ سے رہا نہیں گیا، میں اونچی آواز میں بولا "ندرت! یہ آپ کے جسم پر داغ کیسے ہیں؟" ندرت جیسے سوتے سے ہڑبڑا کر جاگی، ہو وہ اٹھ کر پیٹھ گئی اور اس کا سمٹنا اور خود کو ہاتھوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے دیکھ میں فورا سمجھ گیا، اس پر چادر ڈال دی جو اس نے فوراً اپنے گرد لپیٹ لی اور ہکلاتے ہوئے کچھ بولنا چاہا مگر لفظوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا، مجھ تک صرف "جججی وہ" بس پھر خاموشی. 
میں نے اسے چادر سے اچھی طرح ڈھانپ کر آنکھوں کی پٹی کھول دی، کچھ لمحے کے توقف کے بعد میں نرمی سے بولا  "ندرت! بتائیے نا یہ داغ دھبے کیسے ہیں؟" وہ سر جھکا کر بولنے کی کوشش کرنے لگی مگر اس کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے، لیکن چہرے سے خجالت ظاہر ہورہی تھی. اس نے شرمندگی اور خوف سے میری طرف دیکھا اور پھر جیسے تھکے ہوئے مایوس کن لہجے میں بولی "سگریٹ کے داغ ہیں."
میرا سر بھنا گیا، میں نے اسے کبھی اپنی بیوی نہیں سمجھا تھا مگر اس وقت میری غیرت جاگ اٹھی
"کیسے ..کب …کس نے کیا کیا آپ کے ساتھ"
میرا خون کھولنے لگا. بتاؤ! میں نے اس کے کندھے جھنجھوڑے. 
میرے اندر کا شوہر پن بری طرح ظاہر ہو رہا تھا اور ایک لمحے میں ہزار طرح کے خیال بجلی کی طرح کوندے کہ ایسا کیا ہوا، کب ہوا، طلاق کے بعد کسی مرد کا چکر تھا یا طلاق بھی اس لیے ہوئی، غلط کام یاکسی مرد کی بلیک میلنگ۔۔ میرے جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگیں. 
میں کھڑا تھا لیکن ٹہلنے لگا تو وہ بھی چادر میں لپٹے کھڑی ہوگئی. پھر میری طرف دیکھا، میں پھر چیخا "بتاؤ، کیا ہوا تھا؟ کس نے داغ لگائے؟ ،کتںے مرد تھے؟ سچ بولنا ورنہ میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا تمھیں چھوڑنے میں.. "
غصے سے میرے منہ سے جھاگ نکلنے لگے، میری آواز بلند ہوگئی تھی، اس نے سہمے ہوئے انداز میں مجھے دیکھا، پھر نظریں جھکا کر بولی
"میرا شوہر نشئی ہونے کے ساتھ نفسیاتی مریض بھی تھا، وہ جب بھی میرےقریب آتا تو اپنی نفسانی تسکین کے بعد سگریٹ پی کر میرے جسم پر بجھایا کرتا، یہ سارے داغ ان قربتوں کی دین ہیں، اس کی ہر بار کی قربت میرے بدن پر ایک داغ کا اضافہ کر جاتی "ایک سال میں سارا جسم داغ دار ہوگیا لیکن ایک رات اس نے سگریٹ میرے سینے پر بجھانا چاہا، میرا ہاتھ اٹھ گیا اور میں نے اسے زوردار تھپڑ دے مارا، وہ پہلے ہی نشے میں تھا، لڑکھڑا کر گرا اور پھر مغلظات بکنے لگا اور جب میں نے طلاق کے لیے اکسایا تو اس نے قہقہہ لگا کر کہا کہ "طلاق لے بھی لوگی تو کرو گی کیا؟ کسی اور مرد کے قابل تو رہی نہیں، تم سے شادی کرنے والا پہلی ہی رات تمھارے داغ دیکھ کر طلاق دے دے گا."
اور پھر طلاق دے دی اور میں جسم کے داغوں کے ساتھ ساتھ ماتھے پر طلاق کا داغ لے کر گھر آگئی اور اس کے بعد آنے والے ہر رشتے سے انکار کرتی رہی، کیونکہ میرے شوہر کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے تھے اور میں کسی اور مرد پر بھی اعتبار کیسے کرسکتی تھی؟"
اور آپ سے بھی شادی کبھی نہ کرتی لیکن حالات آپ کے سامنے ہیں، میں مجبور ہوگئی تھی اور آپ بھی."
میں دم بخود کھڑا سن رہا تھا. 
"تو پہلے داغ پر ہی کیوں نہیں تھپڑ مارا"، میں نے پوچھا. 
"کیسے مارتی اس کا باپ میرے باپ کا بہت گہرا دوست اور کاروبار میں شراکت دار تھا اور میں نے شادی شدید محبت میں مبتلا ہو کر کی تھی، والد نہیں مان رہے تھے، انھوں نے مجھے بہت سمجھایا مگر میں نے خودکشی کی دھمکی دی اور پھر شادی ہوگئی، اس لیے ہمت نہیں پڑی کیونکہ میرا شوہر میرا انتخاب تھا."
"تو پھر ہمت کیسے ہوئی؟" میں بولا. 
"کیونکہ میری ہمت جواب دے گئی تھی" اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے. 
کچھ دیر ہم دونوں بالکل خاموش رہے. پھر وہ پرسکون مگر اداس لہجے میں گویا ہوئی "آپ چاہیں تو ایک داغ اور لگا سکتے ہیں."
میں نے ندرت کی طرف دیکھا تو وہ نگاہیں جھکائے کھڑی تھی جیسے میرے فیصلے کی منتظر ہو
میں ایک دم وارفتگی سے اسے چمٹ گیا. 
مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ داغ ایک عورت کے بدن پر نہیں بلکہ ایک مرد کی مردانگی پر لگے تھے.
***
ارم رحمٰن کا گذشتہ افسانہ یہاں پڑھیں: ناجائز
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں: حقیر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے