ناجائز

ناجائز

ارم رحمٰن
لاہور، پاکستان

وہ اس کی جائز اولاد تھا مگر ناجائز سے بدتر، جب موقع ملتا تو غصے میں اسے گالی نکالتی
"حرامی! کتے کے پلے ذرا بڑا ہو تو تیری ٹانگیں توڑوں"، تو نہ ہوتا تو زندگی اچھی گزر سکتی تھی"، اور نہ جانے کیا کیا خرافات جو جو منہ میں آتا بکے جاتی. چھوٹا سا بچہ جو ابھی دو سال کا بھی نہیں ہوا تھا بےچارہ ماں کی گالیاں سن کر بھی ماں کی طرف لپکتا اور ماں بھی ایسی کہ اس کے سارے کام بھی کرتی اور کوسنے بھی دیتی. ذرا سی تکلیف پر رو پڑتی اور ذرا سی بات پر ایک جڑ بھی دیتی، شاہینہ کا واحد سہارا ہی وہ تھا چھوٹا سا گول گوتھنا سا عادل. 
اس معصوم کو کیا پتا کہ ابھی تو اس نے چلنا شروع کیا تھا اور ماں ٹانگیں توڑنے کی باتیں بھی کرنے لگی تھی،
شاہینہ جوان ہوئی تو بہت خوب صورت نکلی لیکن غربت نے اس کا حسن گہنا دیا تھا، نہ پیٹ بھر کھانا نہ اچھا کپڑا لتا، بس سادہ سی زندگی، کرائے پر ٹرک چلانے والے کی آمدنی کتنی ہوسکتی تھی جو اپنی بیوی اور بچی کو عیش کرواتا، گھر اپنا تھا یہ ہی کمال تھا، بیوی اور ایک بچی. 
پانچ بچے تو جنتے ہی مر گئے تھے وہ بھی ہزار خرچے، دوا دارو، ڈاکٹر اور دائی کی فیسیں، لے دے کر بچی تو شاہینہ، 15 کی ہوئی تو اس کی ماں ساتواں بچہ جنتے ہوئے اللہ کو پیاری ہوگئی اور ننھی سی جان کی قبر ماں کی کوکھ ہی بن گئی، چپ چاپ دنیا میں سانس لیے بنا ہی دفن ہوگئی، اللہ جانے بیٹا تھا یا بیٹی، ماں کے مرتے ہی گدھ شاہینہ کے گرد منڈلانے لگے، سب سے بڑھ کر حمید عرف میداں ٹرکاں والا جس کا ٹرک اس کا باپ کرائے پرچلاتا تھا، سارا پیسہ وہ ہتھیا لیتا اور کچھ پیسے اجرت کے نام پر فضل دین کے ہاتھ پر رکھ دیتا. اسی وجہ سے فضل دین اس کا مقروض بھی تھا کیونکہ گاہے بہ گاہے قرض لینا پڑتا تھا. کئی بار پیسے لینے کے چکر میں شاہینہ پر نظر پڑ گئی، آنکھوں میں میل، نیت میں فتور آگیا، دن کی روشنی میں شاہینہ کے ساتھ ایک دو بار منہ ماری کی کوشش کی، دست درازی کی نوبت آئی تو شاہینہ کی حقارت نے اسے روک دیا، اس کی انا کو ٹھیس لگی اور مردانگی کی ناگن پھنکاری تو اسی رات اپنے ہی مقروض ملازم فضل دین کے گھر ہاتھ باندھ کر اس کی سولہ سالہ بیٹی شاہینہ کا رشتہ مانگنے جا پہنچا، شرط طے پائی کہ خرچہ سب حمید کے ذمے، سارے قرضے معاف, فضل دین ویسے بھی بے چارہ ٹی بی کا مریض، پھر بیوی اور ڈھیر سارے بچوں کی موت دیکھ کر ادھ مرا سا بوکھلایا سا پھرتا بچوں کا دکھ تو جیسے تیسے سہہ گیا لیکن بیوی کا دکھ اسے دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ گیا تھا. رات کو ٹرک چلاتا اور صبح افیم کھا کر سو پڑتا، بس اس نے بھی کیا سوچنا تھا، شاید کچھ سوچنے کی حالت میں تھا ہی نہیں، غنیمت جانی اس نے بھی فوراً شاہینہ کے لیے ہاں کردی. اگلے ہی دن سولہ برس کی شاہینہ ،35 سال کے حمید سے بیاہی گئ ،دو بیویوں کو طلاق دینے کے علاوہ بظاہر کوئی اور حقیقت نہیں کھلی ، سہاگ رات میں پرانی بیویوں کے کپڑے گہنے سب اس نے نئ نویلی دلہن کے قدموں میں ڈھیر کر دئیے ،نہ بھی دیتا تو کیا ہوتا، شاہینہ تو بے بس تھی، حمید نے واقعی خوشی سے ولیمہ کیا، ساری گلی والوں کو قورمہ پلاؤ اور زردہ کھلا کر اپنا گواہ بنا لیا کہ حمید جیسا دریا دل کیسے کسی غریب کی بیٹی کو بیاہ کر لے گیا. 
کسی کو اس شادی پر اعتراض کیا ہونا تھا اور تھا بھی تو اتنا اچھا اور کھلا کھانا ملنے پر منہ بند ہوگئے یا کر دیے گئے، شاہینہ کو حمید سے نکاح پر کوئی خوشی نہیں تھی، مگر غریب بچے اپنی عمر سے پہلے ہی بڑے اور سمجھ ھدار ہوجاتے ہیں، اسے معلوم تھا کہ اس کے لیے کوئی شہزادہ نہیں آئے گا، آٹھویں جماعت تک پڑھنے کی وجہ سے وہ ساری کہانیاں پڑھ لیا کرتی تھی، کچھ ماں نے سکھا دیا تھا اور کچھ حالات نے، جس گھر میں اس کی ماں کام کیا کرتی تھی وہاں اس صاحب کے دو جوان لڑکوں نے بھی شاہینہ کو مفت کا مال سمجھ کر اس پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی، لیکن قسمت مہربان تھی، شاہینہ کی ماں موقع پر تھی، چپ چاپ اگلے دن کام کرنے سے منع کر دیا، مالکن نے پوچھا بھی مگر وہ بیماری کا بہانہ کرگئی، شاہینہ سب نہیں سمجھی مگر اتنا سمجھ گئی تھی کہ وہ لڑکے اس کے ساتھ بدتمیزی کر رہے تھے وہ ڈری سہمی، ماں کے درست اور بر وقت فیصلے سے سب ٹھیک ہوگیا، ویسے بھی جن آنکھوں نے غربت دیکھی ہو انھیں امیری کے خواب نہیں آتے، شادی کے وقت تو شاہینہ نے اس کریہہ الوجود شخص کو اپنا لیا تھا مگر مسلسل ایک ذہنی اذیت کا شکار رہتی تھی، حمید کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ شاہینہ خوش نہیں بس خاموش ہے. 
اب حمید نے بھی نئی دلہن کا دل جیتنے کے چکر میں خوب اہتمام کرنا شروع کردیا، اچھے کپڑے پہنتا، خوش بو لگاتا اور شاہینہ کو بھی اس نے کھلا پلا کر دو تین ماہ میں کھلتا گلاب بنا دیا، حسین تو پہلے ہی تھی غربت سے گدلایا حسن نکھر کر سامنے آیا تو نظر نہیں ٹکتی تھی. 
حمید کے ذاتی دو ٹرک تھے، ایک خود چلاتا ایک کرائے پر، لیکن پہلو میں حسین بیوی کو چھوڑ کر کبھی کبھار کام پر جانا ناممکن ہوجاتا تو اپنا ٹرک بھی کرائے پر دے ڈالتا اور وہ دن شاہینہ پر بھاری گزرتے، کیونکہ اس دن اس کے جسم سے حمید مسلسل خراج وصول کرتا اور ایسا لگتا کہ شاہینہ سے کھلائی پلائی کی قیمت اور گھر پر رکھنے کا بھتہ وصول کیا کرتا. 
کرتی کیا نہ کرتی. اپنے پیٹ کے جہنم کو ایندھن مہیا کرنے کے لیے اور خود کو باہر منہ کھولے عفریتوں سے بچانے کے لیے اسے اپنے جسم کو ہوس کی بھٹی میں جھونکنا پڑتا. یہ اس کی مجبوری تھی. وہ سمجھ نہیں سکی تھی کہ حمید کی قربت اس کے لیے اتنی درد ناک کیوں ہوتی تھی. اتنی خوش بو لگا کر بھی سانسوں سے سڑاند اور بدن کی باس نہیں جاتی تھی، جانے کون سی آگ بھری تھی کہ بار بار شاہینہ میں انڈیل کر بھی چین نہیں ملتا تھا، دس پندرہ منٹ میں ہی شاہینہ کے جسم میں آگ بھر جاتی یا پھر کوئی تیزاب جو اسے اندر تک جھلسا کر رکھ دیتا. خود تو اپنے وجود کو سکون دے کر کھڑا ہو جاتا اور شاہینہ کتنی دیر تک اس آگ میں جلتی رہتی، کیا کیا جتن کرتی تھی ٹھنڈا کرنے کے مگر ٹھنڈا ہو کر نہ دیتی اور جب اسے کچھ سکون ہوتا تو پھر اسی مشق ستم سے گزرنا پڑتا. 
حمید کی شدید پکڑ دھکڑ کے باوجود گود نہ بھری اور ایک سال ہوگیا، امیر ہو یا غریب شادی کے بعد ایک ہی خوشی شاید مشترکہ ہوتی ہے، گودبھرنے کی مگر شاہینہ اس سے محروم تھی. 
ایک دن حمید کی پڑوسن کچھ کھانے کے لیے لے کر گھر آئی تو جاتے ہوئے بولی”ارے حمید کسی ڈاکٹرنی کو دکھا دے ایک بچہ تو ہو جائے" اپنی طرف سے اس اماں نے سرگوشی کی مگر شاہینہ نے سن لیا، اس کے جواب میں حمید نے کھل کر کہا "خالہ جلدی کیا ہے ابھی تو کھیلنے کے دن ہیں، عمر ہی کیا ہے اس کی، ویسے بھی خواہ مخواہ کی جھک جھک، نہ ہی ہوں تو اچھا ہے. "
اماں تو چلی گئی مگر شاہینہ کے دل میں گرہ ڈال گئی، رات کو شاہینہ نے حمید کو بد مست دیکھ کر پوچھ ہی لیا کہ "تم کیا کھاتے ہو جو میرے جسم میں آگ اتر جاتی ہے، ہزار ٹھنڈا پانی ڈالو جلن ختم نہیں ہوتی" لہجہ کرخت اور سوالیہ تھا، حمید کو شدید ناگوار گزرا کہ اس نے اس کے عمل میں رخنہ کیوں ڈالا ؟ اس نے اس کا اظہار غصے میں گندی گالی دے کر کیا اور کرختگی سے بولا
"تو یہ سوال بعد میں بھی تو پوچھ سکتی تھی"
” اور کان کھول کر سن لے بچہ نہیں چاہیے مجھے"
شاہینہ منہ تکتی رہی، اس سے پہلے کہ مزید کچھ بولتی حمید پھر گرجدار آواز میں بولا:
"نہیں چاہیے بچہ"
مجھے نہیں پسند کہ عورت موٹی بھدی ہو جائے، پھولے جسم کے ساتھ میرے پاس آئے، کنوارے بدن کی خوش بو کی جگہ دودھ کی ہمک آنے لگے."
شاہینہ کے پاس اب راستہ نہیں تھا، اس نے سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال دیا تھا اور اب اس کی سزا تو ملنی تھی، بار بار ڈسے جانے کی سزا، رات بھر ایک اذیت سہنا مشکل تھا اور اب تو درگت ہی بنا دی گئی. 
پھر کبھی شاہینہ کو کوئی سوال پوچھنے کی ہمت نہیں پڑی، اس کے پاس کیا نہیں تھا، وافر مقدار میں کھانا پینا، گوشت دودھ، پھل فروٹ، کپڑا زیور، لیکن حال ایسا کہ بہترین جوتا مگر کیل نکلا ہوا، جو مستقل اس کے پیر میں چبھتا آ رہا تھا، باہر کا حسن نکھرتا گیا اور اندر کی اذیت بڑھتی گئی، تین سال ہوگئے تھے شادی کو، باپ بھی پچھلے سال چل بسا اور اب حمید کے سوا اس کا کوئی نہیں تھا اور اوپر سے قلانچیں بھرتا جوبن، بھرا گداز جسم کہ ہر کپڑا سجتا، اور وقت بھی بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑ رہا تھا. حمید بولتا کم تھا. بس اس کے حسن کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اتارتا جاتا، ایسے تکتا کہ چکور چاند کو، اب تو شاہینہ کو بھی اولاد کا خیال آنے لگا تھا اور حیران بھی ہوا کرتی کہ اب تک
اولاد سے محروم کیوں تھی، لیکن حمید سے پوچھنے کی جرأت نہیں تھی، سب سے بڑھ کر حمید کی دی ہوئی آگ پہلے تو کچھ دیر بعد ہلکی ہوجاتی تھی، لیکن اب تو وہ نڈھال ہو جایا کرتی، لاکھ کوشش کے باوجود وہ پہلے کی طرح کسی لمحے بھی سکون نہیں پاتی تھی، پھر دھیرے دھیرے جلن کے ساتھ خون بھی رسنے لگا، تب اس کا درد اسے سسکیاں لینے پر مجبور کر دیتا، حمید
بے حس بنا اپنے کام میں مگن رہتا، لیکن اب شاہینہ کی رنگت پیلی پڑنے لگی، ہونٹ نیلے اور بخار کی شدت سے جسم کھوکھلا محسوس ہونے لگا، ہر بارحمید کا جنون اس کے ہی جسم کو لال کرنے تو حمید کی طبعیت کو مکدر کرنے لگا، کراہت زیادہ ہوئی تو چڑچڑا ہو کر حمید اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے ہی گیا یا لے جانا ہی پڑا، کیونکہ اس کی آگ نکلنے کی بجائے اسے ہی جلا کر بھسم کرنے پر تلی تھی، سارے معائنے اور تفصیلات جاننے کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے تفتیش ناک انداز میں حمید کو دیکھا اور بولی
” کیا یہ مانع حمل کی دوا کھاتی ہے"
حمید نے مثبت انداز میں سر ہلایا اور شاہینہ ہکا بکا رہ گئی کہ یہ مجھے دوا کب دیتا تھا؟
پھر خیال آیا کہ رات کو ہمیشہ یہ ہی دودھ لاتا تھا اس کے اور اپنے لیے۔۔۔۔شاہینہ کی آنکھیں نمناک ہوگئیں. 
پھر ڈاکٹر بولی کہ مانع حمل کی جو دوا یہ کھاتی رہی ہے اس کی وجہ سے اس کی بچہ دانی گلنے کی تشخیص ہوئی ہے اور تنبیہہ کی، اگر علاج نہ کروایا تو یہ مرض کینسر بن سکتا ہے. 
پہلی بار حمید کو تشویش ہوئی اور بولا "کیا اس کا کوئی حل ہے" ڈاکٹر نے پرامید انداز میں کہا:
"ہاں! علاج کے ساتھ ساتھ اس کا فوری طور پر حاملہ ہونا ضروری ہے، شاید اس طرح اس بیماری سے نجات مل جائے ورنہ۔۔۔"
ڈاکٹر جملہ ادھورا چھوڑ کر شاہینہ کا اترا ہوا منہ دیکھنے لگی. 
پھر ڈاکٹر نے دوا کا نام پوچھا کہ کون سی دوا دیتا آرہا تھا اتنے عرصے سے. 
اب حمید بتاتا بھی تو کیا کہ وہ خود تو طاقت کے کشتے کھاتا تاکہ بیوی کی جوانی کا رس چوس سکے اور بیوی کو بھی کسی حکیم کی لائی پڑیاں دودھ میں گھول کر دیتا رہا کہ بچہ ہونے سے جسم بدہیئت نہ ہوسکے. 
ڈاکٹر نے پھر پوچھا اور حمید کی ہکلاہٹ اور اڑے رنگ دیکھ کر سمجھ گئی کہ معاملہ کافی مشکوک ہے. 
ڈاکٹر صاحب سب سوال چھوڑیں بس میری بیوی کو بچالیں، سر جھکائے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا. 
خیر وہ ڈاکٹر تھی پولیس والی نہیں، ویسے بھی جو ظلم شاہینہ کے ساتھ ہو چکا تھا اس کا حل بتانا ضروری تھا، ڈاکٹر نے دوائیں لکھ دیں اور سختی سے منع کردیا کہ "اب کوئی دوا دی اور تمھاری بیوی کو کچھ ہوا تو میں ذمہ دار نہیں"
حمید اس وقت واقعی گھبرا گیا تھا اور پھر کچھ دن سہما رہا، اتنی خوب صورت بیوی سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا، اس نے اپنی طاقت کے کشتے کھانے کم کردیے مگر چھوڑ نہیں سکا، کیونکہ اس کا جسم بھی شاید ان کا محتاج ہوچکا تھا، جیسے وہ شاہینہ کے جسم کا، لیکن شاہینہ کو کوئی بھی دوا دینی بند کردی، پھر ایک ماہ کی محنت سے شاہینہ حاملہ ہوگئی، حمید نے پوری کوشش کی کہ وہ شاہینہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھے مگر جب ساتواں مہینہ لگا تو جسم میں نمایاں فرق آ چکا تھا، وزن کافی بڑھ گیا، پیٹ پھول گیا، قمیض چھاتیوں پر سے گیلی ہونے لگی تو حمید کی وحشت نے اس کے صبر کا پیمانہ چھلکا ہی دیا، بیوی کا بدن نہیں رہا وہ کسی کی مامتا سے لبریز درخت بن چکا تھا ایسا تناور درخت جو ذرا سے دباؤ پر رس کی جگہ دودھ اگلنے لگتا اور حمید کے لیے شاہینہ کے رس میں آگ بجھانے کی صلاحیت کم ہوچکی تھی، بلکہ وہ کسی نئے بیج کو اندر ہی اندر سینچ رہا تھا، جوان بدن کی مہک ختم ہوکر دودھ کی ہمک آنے لگی اور خوب صورت عورت کا روپ اس قدر بھدا لگنے لگا کہ آٹھویں ماہ باقاعدہ دھکے دے کر اسے گھر سے نکال دیا، کپڑے لتے زیور پیسہ اس کے ہاتھ میں رکھا، اپنے ایک ملازم کے ذریعے اس کے باپ کے گھر بھجوا دیا، شاہینہ اس وقت کسی بھی ردعمل دکھانے کے قابل نہیں تھی اور حمید کچھ سننے کے لیے تیار ہی کب تھا. آخر رات کے اندھیرے میں اپنے گھر پہنچی، تالا لگا ہوا تھا، جس کی چابی مرتے وقت اس کا باپ حمید کو دے گیا تھا، اب وہ شاہینہ کو دینا بھول گیا. ملازم نے شاہینہ کو دروازے پر چھوڑا، یہ جا وہ جا. بے چاری جاتی کہاں، پڑوسن کا دروازہ کھٹکھٹایا، 
اس کی ماں کی سہیلی تھی، بچی کو اس وقت اور اس حالت میں دیکھ کر افسردہ ہوگئی. 
رات کو اپنے ہی گھر رکنے کا مشورہ دیا اور کہا صبح تالا تڑوا لیں گے یا چابی بنوا لیں گے، رات آنکھوں میں کٹی، صبح ہوتے ہی صبر نہ ہوا تو شاہینہ نے اماں کی سہیلی سے کہا:
"خالہ تالا توڑ ڈالو مجھے ابھی گھر جانا ہے."
اور پھر اس کے بیٹے نے اینٹ کے دو تین زور دار وار کیے تو دو گھڑی میں زنگ آلود تالا دھڑ سے ٹوٹ کر گر گیا.
اسے افسوس ہوا کہ رات ہی ایسا کر لیتے تو اچھا ہوتا۔
گھر مٹی سے اٹا ہوا تھا، خود صفائی کرنے کا فیصلہ کیا تو اماں نے مدد کرنے کی کوشش کی لیکن شاہینہ نے صاف منع کردیا، پکے منہ سے بولی "صرف دو کمرے ہی تو ہیں، چھوٹا سا برآمدہ اور صحن، کون سی کوٹھی بنگلہ ہے جو مدد کریں گی"، کیونکہ شاہینہ کے ذہن کو توجہ بٹانے کی اشد ضرورت تھی، وہ کچھ دیر صرف اپنے ساتھ تنہا رہنا چاہتی تھی، اپنے دکھوں کو چیخ چیخ کر دیواروں کو سنانا چاہتی تھی، رات کو وہ پڑوسن کے سامنے خاموش رہی، مگر اب تنہائی میں وہ کھل کر رونا چاہتی تھی، وہ حمید کے اس رویے سے اس قدر دل گیر تھی کہ دو تین گھنٹے صفائی کرنے میں لگے مگر اسے پتہ ہی نہیں لگا اور روتے روتے گھر صاف ہوگیا. ماں باپ کی یاد، غربت اور پھر حمید کے ساتھ شادی کی اذیت، اس کی غربت نے اکیس سال کی لڑکی کو بڑی بوڑھی بنا دیا، طبعیت بوجھل اور تھکن سے چور جسم، چہرہ نقاہت زدہ، لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ابھی تو جوان ہوئی ہے، دنیا میں سانس لیتے فقط اکیس سال ہی تو گزرے ہیں. اس کے سارے بہن بھائی تو کھل کر ایک سانس بھی نہ لینے پائے تھے، شاید اچھا ہی ہوا، ورنہ وہ سب بھی اس کی طرح نہ جانے کیا کیا دکھ بھوگتے، 
پھر وقت آگیا اور اس کی کوکھ نے ایک اور حمید اگل دیا. 
بہ ظاہر تو اپنے جیسا جیتا جاگتا جان دار جننا ایک تکلیف دہ عمل تھا، لیکن اس تکلیف کے طفیل اس کے مردہ ہوتے جسم میں جان پڑ گئی، اسے اس مرض سے چھٹکارا مل گیا جس کا وہ کافی عرصے شکار رہی، بیٹے کی خبر سن کر حمید ہسپتال پہنچ گیا اور خرچہ بھی اٹھایا. اور رات کو ماں بیٹے کو گھر چھوڑنے بھی آیا اور اپنا حکم بھی سنا ڈالا کہ بچہ رکھنا ہے تو طلاق نہیں ملے گی، طلاق لینی ہے تو بچہ چھوڑنا ہوگا، اگر بچہ پالے گی تو بچے کے ساتھ ساتھ تیرا خرچہ بھی اٹھا لوں گا،
لیکن رہنا تجھے یہیں پڑے گا. شاہینہ خاموش رہی اور خود ہی کہہ سن کر حمید جا چکا تھا. 
شاہینہ ہر بار نئی آزمائش سے گزرتی تھی. وہ مسلسل سوچتی رہتی کہ آزمائشیں کب ختم ہوں گی،  جب خود بچی تھی تو شدید غربت، دو وقت کھانے کو ملنا مشکل، سیانی ہوئی تو ماں مرگئی، جوانی کا دریا چڑھا تو اس کے بہاؤ میں پھسل جانے کے ڈر سے باپ نے حمید کے پلے باندھ دیا، وہاں سب کچھ تھا تو بیماری ایسی کہ کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے اور جب عورت ذات کی تکمیل ہوئی تو بچہ زندہ باپ کی شفقت سے محروم. 
کسی بھی وقت نے اسے مکمل طور پر خوش نہیں ہونے دیا. اس کی زندگی کے تانے بانے الجھے ہی رہے، کبھی سلجھ ہی نہ سکے. 
بچے اور شاہینہ کا خرچہ باقاعدگی سے حمید اپنے کسی ملازم کے ہاتھ بھجوا دیتا، لیکن خود ملنے نہیں آیا اس دن کے بعد. 
اسے کبھی کبھی بہت احساس ہوتا کہ جب حمید جیسا گھنا، سایہ دار, درخت جو اسے ہر گرمی سردی اور گدھوں سے محفوظ رکھتا تھا، لیکن جب تک اس کے پاس تھا تو وہ ثمر سے محروم تھی، اب وہ باثمر ہوگئی تو اسے اپنی ذات کی بنیادی احساس سے محروم ہونا پڑ گیا تھا. 
جیسے اس کے پاس اب صحت مند تنا تو ہے، لیکن جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، حالانکہ اب ان جڑوں نے زمین کو مضبوطی سے جکڑ لیا تھا، اب ان میں اگر کوئی دوا ڈال بھی دی جائے تو یہ سہار جائیں گی. 
ایسے ہی خرافات اور بے ہنگم خیالات اسے دبوچے رکھتے، اس کو یہ سوچیں دن رات کچوکے لگاتی تھیں، کیونکہ وہ دنیا کی نظریں بھانپ چکی تھی، اسے مرد تو کیا کہتے محلے والی عورتیں ہی جس چبھتی نظر سے دیکھتیں کلیجہ کٹ کے رہ جاتا، جیسے کہہ رہی ہوں کہ شوہر کے بنا پڑے رہنے میں کونسا سکھ مل رہا ہے, اولاد نہ بھی ہو تب بھی شوہر سائبان تو ہوتا ہے، اسے شدت سے کمی محسوس ہونے لگی تھی، اب اسے حمید کے سب عیب بھول گئے تھے. 
ایک دن ایسے ہی سوچوں میں گم تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، وہ بوجھل قدموں سے دروازے تک گئی اور پوچھا "کون ہے"
"حمید بھائی نے بھیجا ہے." جواب ملا تو اس نے جھٹ دروازہ کھولا. 
دروازے پر ایک جوان لڑکا ایک بھاری لفافہ پکڑے کھڑا تھا
"حمید بھائی نے یہ آپ کے لیے بھیجا ہے"
شاہینہ نے کانپتے ہاتھوں سے پکڑا اور بولی
"حمید صاحب سے کہنا اگلی بار پیسے نہ بھیجیں میں ان سے لینے خود آؤں گی"
***
ارم رحمن کا یہ افسانہ بھی پڑھیں: حقیر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے