حقیر

حقیر

ارم رحمٰن (ایڈووکیٹ)
لاہور، پاکستان

جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے پتا لگا کہ میں محمد سعید اور آمنہ بی بی کا اکلوتا بیٹا اور دو بہنوں شکیلہ اور جمیلہ کا اکلوتا بھائی ناصر ہوں۔
اس کے علاوہ یہ بھی علم ہوا کہ میرے ابا سرکاری اسکول میں کلرک ہیں۔ دوپہر کو گھر آکر وہ گھر کے تین کمروں میں سے ایک کمرے میں پرچون کی دکان چلاتے ہیں۔ اماں گھر کا کام کرتی ہیں اور کبھی کبھار محلے پڑوس کی خواتین اماں سے اپنے کپڑے مناسب داموں پر سلوا لیتی ہیں۔ بس یہی معلومات تھیں اور مزید معلومات ملنے کی امید بھی نہیں تھی کیونکہ ہمارے گھر کے ماحول میں ایک عجیب دبی دبی سی خاموشی چھائی ہوئی ہوتی تھی. گھٹن آلود اور سیلن زدہ دیواریں اور ہنسنے بولنے پر پابندی….
ہاں، ایک اور عجیب بات بھی تھی۔ وہ یہ کہ گھر میں یا تو صرف اماں گوری تھیں یا میں باقی سارے خاندان والے آبنوسی رنگت کے حامل تھے۔ تنگ و تاریک سا ماحول، کمرے میں بھی ملگجی روشنی، سب کے چہرے اور بھی تاریک لگتے۔ دونوں بہنیں بہت سانولی تھیں۔ یہاں تک کہ میری خالہ اور ان کے بچے  بھی اسی رنگت کے!
لیکن سب دبے دبے گھٹن زدہ ماحول کے عادی۔ شاید ان سب کی رنگت بھی اسی لیے گہری تھی کہ وہ کھلی فضا میں سانس نہیں لیتے تھے اور نہ کھل کر ہنستے بولتے تھے۔ اماں، ابا، بہنیں، سب خاموش۔ جیسے سب نے خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہو۔ کبھی باجی کچھ کہنا چاہتیں تو اماں ان کے سامنے ہونٹ پر انگلی رکھ کر چپ ہونے کا اشارہ کردیتیں۔ کبھی میں شور کرنا چاہتا یا کھل کر ہنسنا چاہتا تو فوراً ‘شش` کی آواز سنائی دے جاتی۔ تین کمروں کا گھر، چھوٹا سا برآمدہ اور پھر صحن۔ گھر میں تین بچے، دادا، دادی، اماں، ابا۔ لیکن ہر طرف گہری خاموشی! طویل اور تھکا دینے والی خاموشی!
سب نے چپ کاروزہ رکھا ہوتا تھا۔ پتا نہیں عرض مدعا کے لیے کون سی زبان بولی جاتی یا نامحسوس اشارے بازی ہوتی۔ کمروں میں ملگجی روشنی یعنی روشنی بھی گھٹی گھٹی سی۔
میں دس سال کا ہوا تو بڑی باجی شکیلہ 18 سال کی ہوگئیں۔ انھوں نے میٹرک کیا اور پھر خالہ کے بڑے بیٹے مصطفی سے بیاہ دی گئیں۔ دوسال بعد دوسری باجی جمیلہ کی شادی مصطفی کے چھوٹے بھائی مرتضی سے ہوگئی۔ ایک محلے میں ہم رہتے تھے تو دوسرے محلے میں خالہ. 
بارات بھی ایسی کہ گلی کے نکڑ پر ٹینٹ لگ گئے۔ چالیس پچاس بندے خاموشی سے کھا پی کر دلہن کی رخصتی کروا کے چلے گئے۔ اگلے دن دوسرے محلے کی گلی کے نکڑ پر ٹینٹ لگے۔ یہاں بھی چالیس پچاس بندے ولیمہ کھا کر چلے گئے۔ کوئی دھوم دھڑکا، کوئی باجے گاجے، ڈھول ڈھمکہ، کوئی پٹاخے شرلیاں، کچھ نہیں! بس خاموشی، جیسے کوئی منت مانی ہوئی ہو چپ رہنے کی یا کسی کی بددعا لگ گئی ہو۔ اس ماحول سے مجھے بہت الجھن ہوتی تھی۔ دادا دادی ایک کمرے میں لیٹے رہتے جیسے حنوط شدہ ممیاں۔ جب وہ کھانستے یا امی کو آواز دیتے تب پتا چلتا کہ ہنوز قید حیات میں ہیں۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ دونوں بھی ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ بہنیں بھی بیاہ دی گئیں تو پھر گھر میں بچے ہم تین۔ مگر بلا کا سناٹا۔ چپ کی زبان، اشارے، کنایے۔ رات جلد گھپ اندھیرا کرکے سوجاتے، تڑکے اٹھتے اور پھر روزمرہ کے کام۔ میں پڑھائی میں اچھا تھا۔ ابا نے میرے میٹرک میں شان دار نمبر لینے پر اپنی قسم توڑی اور مجھے پیار کیا۔ سر پر ہاتھا پھیرا، ماتھا چوما اور یہ کہتے ہوئے ہزار روپے کا نوٹ دیا کہ میں تمھیں آگے پڑھاؤں گا۔ میں خوش ہونے کی بجائے حیران رہ گیا کہ ابا اتنا لمبا جملہ بول گئے؟ امی نے گال چومے، گلے لگایا اور صرف مسکراتی رہیں۔ ہر سال اچھا نتیجہ نکلنے پر یہی ہوتا تھا۔ شام کو سوجی کا حلوہ بن جاتا یا میٹھا انڈہ پراٹھا، کیونکہ مجھے بہت پسند تھا۔ پھر حسب دستور لمبی خاموشی طاری ہوجاتی۔
میں نے اپنی پسند کے کالج میں داخلہ لیا اور پھر اپنے سارے شوق کالج میں ہی پورے کر نے لگا۔ زیادہ تر دوست بھی ہنسنے بولنے والے اور شرارتی تھے۔ دوستوں کے درمیان ہنسی مذاق، ٹھٹھے قہقہے اور کھیل کود معمول تھا۔ میں جان بوجھ کر گھر کافی دیر سے آیا کرتا تھا کیونکہ گھر میں بولنا منع تھا۔
کبھی دو چار جملے زیادہ بول لیے جاتے تو امی چپکے سے کہہ دیتیں "بیٹا بس!" اس سے زیادہ بولنے پر شاید ٹیکس لگتا تھا یا جرمانہ ہو جاتا۔ امی ابا دونوں پتا نہیں کب باتیں کرتے ہوں گے۔ ابا گھر آکر کھانا کھاتے اور دکان میں بیٹھ جاتے۔ ماں کے پاس کپڑے سینے کے علاوہ گھر کے بہت سے کام ہوتے تھے۔ میں نے میٹرک تک اماں کے ہاتھ کے سلے کپڑے پہنے تھے، حتی کہ شرٹ اور نیکر بھی وہی سیتی تھیں۔ لیکن اب کالج میں گیا تو ابا سے کہہ کر میں نے اپنے لیے ریڈی میڈ کپڑے لیے۔ پینٹ شرٹ اور دوسرے کپڑے۔ ابا ایک لفظ نہ بولے۔ چپ چاپ پیسے ہاتھ میں رکھ دیے۔ مجھے جب بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی، میں ابا سے مانگ لیتا اور وہ خاموشی سے دے بھی دیتے۔ میں نے بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کر لیا۔ اس موقع پر ابا نے گلے لگایا لیکن بولے کچھ نہیں۔ بس آنکھوں میں دو موتی سے جگمگانے لگے۔ امی کی تو یوں بھی خاموشی کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ کالج کے پرنسپل نے میری شان دار کامیابی دیکھی تو کہا،
"ناصر بیٹا! ایک اچھی کمپنی میں اکاؤنٹس ڈیپارٹمینٹ میں جگہ خالی ہے۔ کہو توبات کروں؟ لیکن ایک شرط ہے کہ تم نے پڑھائی نہیں چھوڑنی۔ اگر دونوں کام ایک ساتھ کر سکو تو بتاؤ."
میں بہت خوش ہوا کیونکہ میرا مضمون ہی اکاؤنٹس تھا اور جب کمپنی کے الاؤنس اور بونس کے پیکج کا علم ہوا تو میں خوشی خوشی مان گیا۔ پرنسپل صاحب نے پڑھائی جاری رکھنے کا وعدہ لے لیا تھا۔ یوں بھی ایسی ملازمت کے لیے لوگ ترستے تھے اور مجھے تو بیٹھے بٹھائے مل گئی تھی۔ میں نے دو سال میں ایم اے فرسٹ ڈویژن پاس کرکے ثابت کر دیا کہ میں واقعی اس ملازمت کا اہل تھا۔ میری تنخواہ کل ملاکر والد کی تنخواہ اور پرچون کی دکان سے بھی دوگنی تھی۔
میں نے گھر میں یہ خوش خبری سنائی تو ماں نے پہلے تو ماتھا چوما اور قدرے توقف کے بعد بولیں، جیسے ہمت جمع کررہی ہوں، بیٹا، روشن چھ ماہ پہلے بیوہ ہوگئی ہے. 
” تو پھر؟ حد ہوگئی! ادھر میں آپ کو خوش خبری سنا رہا ہوں اور آپ یہ دکھی خبر بتانے میں لگی ہیں۔" میں جھنجھلا کر بول گیا۔
روشن آراء، خالہ کی سب سے بڑی بیٹی تھی جس کی شادی 10 سال پہلے ہوئی تھی۔ میری بڑی باجی کی شادی سے بھی پہلے۔
میں تب 12 سال کا تھا اور روشن آپی 20 سال کی۔ ان کی شادی پر جب میں نے پٹاخہ پھوڑا تھا تو سب مجھے ایسے گھورنے لگے تھے کہ میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔ اس دن کے بعد آج روشن آپی کا نام سن رہا تھا۔
"ارے ناصر بیٹا، بیوہ سے شادی کرنے کا بہت ثواب ہوتا ہے، اور اب تو تیری نوکری بھی لگ گئی ہے۔"
یہ مبہم سی بات کر کے اماں نے چپ کا روزہ رکھ لیا.۔
میں زور سے بولا، "کیا مطلب؟" لیکن اماں کی جانب سے پھر خاموشی۔
رات کھانے کے وقت ابا اور اماں پہلی بار اکٹھے بیٹھے نظر آئے۔ مجھے اشارہ کیا تو میں بھی بیٹھ گیا۔ ابا نے بات شروع کی، "ناصر بیٹا! پہلے وہ عدت میں تھی اس لیے ہم چپ رہے۔ اب اس کی عدت بھی ختم ہوگئی ہے۔ تمھاری خالہ بھی پینتیس سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں لیکن ان کے 4 بچے تھے۔ سب سمجھ دار ہوگئے تھے، بڑا بیٹا بھی میٹرک کر رہا تھا۔ پھر اس نے دکان سنبھال لی باپ کی، کچھ چچا تایا نے سنبھال لیا۔ گزار دی زندگی۔ اب یہ روشن بیوہ بھی ہے اور بانجھ بھی۔ کون شادی کرے گا اس سے؟
گھر کی بچی ہے اور تمھاری دونوں بہنیں بھی تو خالہ کے گھر ہی بیاہی گئی ہیں۔" مجھے ابا جی کے منہ سے اتنی تفصیلی باتیں سن کر حیرت ہورہی تھی کہ وہ بولے بھی تو کب، کیا اور کس کے حق میں بولے!
کاش نہ ہی بولتے۔ اس سے اچھی تو ان کی چپ تھی۔ میں جزبز ہوگیا۔
بہت غصہ آیا لیکن بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ بڑوں کے سامنے نہیں بولا کرتے، شدید بے ادبی ہوتی ہے اور پھر والدین کے سامنے بولنا تو گناہ عظیم ہوتا ہے۔ پھر چاہے ان کے فیصلے اولاد کی زندگی ہی تباہ کیوں نہ کردیں۔ میرے ذہن میں کوئی لڑکی نہیں تھی نہ ہی کوئی آئیڈیل۔
سچ تو یہ ہے میری عمر صرف 22 سال تھی اور میں آگے بہت ترقی کرنا چاہتا تھا۔ اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنا چاہتا تھا۔ حالانکہ یہ گھر بھی ہم تین لوگوں کے لیے کافی تھا مگر مجھے بہت کھلا اور روشن گھر بنانا تھا۔ قمقمے، جھاڑ، فانوس لگوانے تھے۔ مجھے کھلے بڑے صحن، پیڑ پودے اور ہنس مکھ، باتونی لوگ پسند تھے۔ اپنے لیے ہنستی کھیلتی گوری رنگت والی شریک سفر لانی تھی۔ لیکن ابا نے پہلی بار زبان کھولی اور میری بولتی بند کردی۔
چار و ناچار مجھے ان کا فیصلہ ماننا پڑا۔ پھر وہی گنتی کے لوگ، ہم تین، کچھ ابا جی کے خاص جاننے والے، باقی خالہ کا گھرانہ۔ سادگی سے نکاح ہوا اور دو گھنٹے میں رخصتی۔ روشن آراء ایک محلے سے دوسرے محلے میں اٹھ آئی۔
شب عروسی کو میں اپنے ہی کمرے میں جانے سے ہچکچا رہا تھا۔ لیکن جائے بغیر چارہ ہی کیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سامنے ایک تیس سالہ بانجھ بیوہ، سیاہ رنگت والی روشن آراء سرخ عروسی لباس میں موجود تھی۔ میری جمالیاتی حس کرچی کرچی ہوکر بکھر گئی۔ پتا نہیں اس تاریکی کا نام روشن کیوں رکھا گیا تھا خالہ نے؟ پیدا ہوتے ہی کیا شکل نہیں دیکھی تھی یا نام پہلے رکھا اور بچی بعد میں پیدا ہوئی؟ اس وقت روشن آراء میری زندگی کا سب سے بڑا اندھیرا بن کر میرے گھر میں موجود تھی۔
میں کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا کہ کسی زاویے سے اچھی لگنے لگے۔ مگر کسی طرح وہ اچھی نہیں لگ سکی۔ میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ غصہ اور غضب میرے اندر بھرا ہوا تھا۔
میں نے انتہائی درشتگی سے اس سے کہا، "تم تو شادی شدہ ہو، تمھیں تو سب پتا ہے پھر یہ نخرے کیسے؟ جاؤ کپڑے بدلو."
"جی" اس نے ہلکے سے کہا، "کپڑے بدلوں یا ۔۔۔" وہ جملہ مکمل کیے بغیر خاموش ہوگئی۔
افففففف! میرا سر بھنا اٹھا۔ پھر چپ۔ ملگجی سی روشنی میں ملگجا سا وجود۔ حالانکہ سارے بلب روشن تھے۔ مگر پھر بھی اس روشن نام کے اندھیرے نے میری زندگی میں اندھیر مچادیا تھا۔ اس کا اس ادا سے آدھا جملہ کہہ کر چپ ہوجانا، میرا خون کھولا گیا۔
میں اس پر ٹوٹ پڑا۔ میرے اندر کی وحشت نے اسے سنبھلنے کاموقع ہی نہیں دیا اور اس کی ایسے درگت بنادی جیسے کسی دشمن پر شب خون ماردیا ہو۔
دو گھنٹے کی نوچ کھسوٹ اور دھینگا مشتی نے مجھے ہلکان کردیا تھا۔ کبھی کبھی اس کی دبی دبی سسکی نکلتی لیکن وہ اسے برداشت کرنے پر تلی تھی کیونکہ خاموشی اور برداشت ہمارے خاندان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ لیکن میری گھٹی نے آج دھوکا دے دیا تھا۔ عجیب حالت تھی، سوار تھک گیا تھا لیکن سواری میں دم خم باقی تھا، میں اپنی ساری وحشت کا اظہار کرکے بیڈ کی ایک جانب بے سدھ ہوکر لیٹ گیا۔ لیکن وہ اطمینان سے اٹھ کر غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔
اگلے دن ولیمہ ہوا جس میں صرف گھر والے شامل تھے۔ پھر رسم کے مطابق وہ روشن کو ساتھ لے گئے۔ میں نے دفتر سے کوئی چھٹی نہیں لی تھی۔ اتوار کی چھٹی پہلے ہی تھی۔ ہفتے کی بارات، اتوار کا ولیمہ، شادی ختم!
میں صبح وقت پر دفتر چلا گیا۔ کچھ قریبی کولیگز نے مذاق کیا۔ کچھ نے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی مگر میرا اترا ہوا منہ دیکھ کر چپ ہوگئے۔ البتہ مٹھائی کی فرمائش مجھے پوری کرنی پڑی۔ مٹھائی کے ساتھ سموسے اور چائے منگوائے گئے. میں ان کی باتیں سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ مٹھائی کھلا کر ان کا منہ بند کردیا۔ دو تین دن بعد جب دفتر سے گھر پہنچا تو روشن کمرے میں موجود تھی۔ اس نے آج بھی سرخ رنگ کا جوڑا پہنا ہوا تھا۔ اوپر سے لال لپ اسٹک۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سرخ تربوز کے بیچ کالا بیج۔ اس کو دیکھ کر میرا دماغ پھر گھوم گیا۔ اس نے شائستگی سے سلام کیا۔ میں نے جواب نہیں دیا اور چیخ کر بولا، "آئندہ یہ سرخ رنگ نہ پہننا، ورنہ کپڑے پھاڑ دوں گا۔ بالکل زہر لگ رہی ہو۔ اتارو یہ لپ اسٹک ،تم جیسی عورت کے لئے نہیں بنے یہ خوبصورت رنگ۔" میرے لہجے میں اہانت اور حقارت نمایاں تھی۔
وہ بے چاری روہانسی ہوکرکمرے سے نکل گئی۔
کپڑے بدل کر منہ دھو کرجب وہ واپس آئی تو میں پھر اس پر ٹوٹ پڑا۔
پھر وہی وحشت، غصہ، نوچ کھسوٹ۔ اس کے پورے جسم کو نیلو نیل کردیا۔ جب تک تھک نہیں گیا میں نے اسے مشق ستم بنائے رکھا۔ ایک بار بھی نہیں سوچا کہ اس پر کیا بیت رہی ہوگی۔
میرے اندر کی سفاکیت اس کے گہرے رنگ پر حاوی ہوچکی تھی۔ اگلے دن میں نے ایک نیا سرخ رنگ کا سوٹ خریدا اور اسے لے کر ماں کے پاس پہنچا۔
"امی، یہ لیجیے۔"
امی پہلے سمجھیں کہ میں یہ سوٹ ان کی بہو کے لیے لایا ہوں۔ لیکن جب میں نے دوبارہ کہا کہ "امی، یہ آپ کے لیے ہے۔" تو وہ بولیں، "ارے بہو کو دے، میری عمر تھوڑی ہے یہ پہننے کی۔"
لیکن جب میں نے کہا "امی یہ لال رنگ کا سوٹ آپ کے لیے ہے، آپ کی رنگت کتنی صاف ہے اور یہ رنگ صرف اجلی رنگت والے لوگوں کو ہی زیب دیتا ہے، تاریک رنگت والوں کو نہیں۔"
اماں نے میری بات سن کر مجھے ایسے دیکھا جس سے مجھے لگا کہ وہ شاید وہ سب سمجھ گئی ہیں۔ ان کے چہرے پر خوشی کی جگہ فکرمندی نمایاں ہوگئی۔
لیکن وہ ہمیشہ کی طرح خاموش رہیں۔
روشن اسی طرح مشق ستم بنی رہی۔ پھر جب خبر ملی کہ وہ ماں بننے والی ہے تو سب کے ساتھ ساتھ میں بھی حیران رہ گیا۔ دس سال تک بانجھ کے طعنے سننے والی، بیوہ ہوگئی مگر ایک بچہ نہ جن سکی۔ اور اب اچانک کیا ہوا کہ تین مہینوں میں ہی حاملہ ہوگئی۔ خبر سن کر خالہ بھی مٹھائی لیے دوڑی چلی آئیں۔ ہم دونوں کو دعائیں دیں اور پھر وہی خاموشی۔ مجھے روشن سے کوئی لگاؤ تھا ہی نہیں۔ اور اب اس کی طبیعت کی خرابی، متلی اور قے وغیرہ نے میری طبیعت مزید بوجھل کردی۔ میرے مشق ستم کی شدت میں تو کمی آگئی لیکن میں نے اسے چھوڑا نہیں۔ وقت آنے پر روشن نے ایک روشن اور کھلے دن اپنی جیسی ایک بچی کو جنم دیا۔ میں نے جب بچی کی رنگت دیکھی تو دل ہی نہیں چاہا اسے گود میں لینے کو۔
وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر اپنی ماں کے گھر چلی گئی۔
روشن کے دو بھائی تھے۔ دونوں نے ہسپتال کا خرچ اٹھانے کی بات کی لیکن میں نے اپنی اکڑ اور انا میں منع کردیا اور سارا خرچ خود اٹھایا۔ میکے جاتے ہوئے بھی میں نے روشن کے ہاتھ میں بھاری رقم رکھی اور کہا "میری بہنوں پر بوجھ نہ بننا۔" اس کے بھائی میرے بہنوئی بھی تھے اور سالے بھی۔
لیکن آفرین ان کی خاموشی پر۔ اس جملے کی ترشی اور تلخی بھی برداشت کرگئے۔
دو ماہ روشن وہیں رہی مگر میں کبھی اس سے یا بچی سے ملنے خالہ کے گھر نہیں گیا۔ حالانکہ امی ہر تین چار دن بعد چکر لگایا کرتیں۔ دو گلیاں چھوڑ کر ہی تو گھر تھا مگر مجھے توفیق نہ ہوئی۔
دو ماہ بعد روشن بیٹی کو لے کر گھر آگئی۔ میں نے اس کی قطعاً پروا نہیں کی۔ رات ہوتے ہی دشمن کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا۔ میرا رویہ ایسا رہا جیسے بچی سے میرا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
آفس سے گھر آکر بھی بچی کو گود میں نہ لیتا۔ البتہ بیٹی کی پیدائش کے بعد روشن پر ہاتھ ہلکا کر لیا تھا مگر شدید غصے میں پھر اپنی پرانی روش پر آجاتا۔ بچی سال بھر کی ہوگئی تو اسے ساتھ والی گلی کے سلائی سینٹر میں کام کی آفر ہوئی۔ روشن آراء بہت ماہر تھی سلائی کڑھائی میں اور پہلی شادی کے بعد وہ وہیں کام کیا کرتی تھی۔
چونکہ میری تنخواہ اچھی خاصی تھی اور روشن کو کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن جب اس نے جھجھکتے ہوئے اجازت مانگی تو میں بددلی سے بولا  "جو دل چاہے کرو", امی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا. 
کچھ مہینے مزید گزرے کہ وہ دوبارہ حاملہ ہوگئی۔ ساتواں مہینہ لگا تو اس نے کام سے چھٹی لے لی. اس بار اس نے بیٹے کو جنم دیا۔ بیٹے کا سن کر ایک پل کو مجھے خوشی ہوئی کہ ہوسکتا ہے بیٹا مجھ پر یا دادی پر گیا ہو۔ مگر جب دیکھا تو ہو بہو روشن کا دوسرا روپ. وہی رنگت۔ بڑی بڑی چمک دار آنکھیں، کھلا کھلا چہرہ، ماتھا کشادہ، ناک ستواں اور ہونٹ رس دار۔ میرا بیٹا میری ماں کی طرح نہیں بلکہ اپنی ماں کی طرح تھا۔
یہ مجھے کیا ہورہا تھا؟ میں اپنے بیٹے کو گود میں لے کر روشن سے موازنہ کر رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ کیا واقعی مجھے روشن کے نقوش حفظ ہیں؟ کیا روشن میرے حواس پر اس قدر سوار ہے کہ نو مولود بیٹے کو دیکھتے ہی روشن کا ایک ایک نقش یاد آنے لگا۔
میں نے روشن کی صرف رنگت دیکھی تھی۔ باقی خوبیاں یکسر فراموش کردی تھیں، ورنہ اس کا قد عام لڑکیوں سے لمبا تھا، اس کا بدن چھریرا اور دو بچوں کی پیدائش کے باوجود متناسب تھا۔ کھانا اچھا پکاتی تھی اور سلائی کڑھائی میں تو استانی تھی۔ میں نے ایک دم خیالات کو جھٹک دیا اور بچہ دادی کو پکڑا دیا۔ اب دو گہری رنگت والے بچے میرے گھر میں تھے۔ میں جب اپنی ماں کو سلام کرنے جاتا تو ان پر نظر پڑجاتی تھی۔ روشن اور بچے دادی کے پاس ہی بیٹھے ہوتے۔ بڑی بچی میری طرف لپکتی مگر میں اس کو دیکھ کر مسکراتا تک نہیں تھا۔ ان کے نام بھی دادی نے رکھے. مجھے کوئی نام  سوجھا ہی نہیں تھا۔
میں بہت چڑچڑا اور بدمزاج ہوگیا تھا۔ مجھے گھر جانے سے کوفت ہونے لگی تھی۔ گھر جاکر اماں کے سوا کسی کی شکل دیکھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔
بچوں کی قلقاریاں بھی مجھے ان کی طرف راغب نہیں کرسکی تھیں۔
لیکن سب خاموش تھے۔
ابدی خاموشی! اور میرے اندر کا شور مجھے پاگل کر رہا تھا۔
میں جینا چاہتا تھا اس اندھیر محل سے دور کھلی روشن فضا میں، جہاں اجلی اجلی رنگت والے خوب صورت چہرے ہوں، جن کی طرف دیکھتے ہی نگاہیں ملتفت ہوجائیں، جن کا ساتھ میری وحشت ختم کردے اور میرا غصیلا، کٹھور وجود پرسکون ہوجائے۔ میں ہنس مکھ کہلاؤں، چہکوں، قہقہے لگاؤں… میں خوش شکل مرد تھا پھر یہ کالک کیوں میرے مقدر میں بھر دی گئی، جس سے چھٹکارا پانا ممکن نظر نہیں آتا تھا، میں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر یہ خاموشی میری گھٹی میں ڈال دی گئی تھی۔ شاید جینیاتی طور پر رگوں میں انڈیلی گئی تھی یا ماں کی کوکھ سے نکلتے ہی مجھ پر مسلط کر دی گئی تھی۔
میں ہر چھٹی کے دن گھر کا سودا وغیرہ لا کر دیتا،
پھر رات گئے تک دوستوں میں وقت گزارتا۔
دوستوں نے کہا بھی کہ لوگ بال بچوں میں مست ہوکر دوستوں کو بھول جاتے ہیں لیکن تو نے تو کمال کردیا۔ پھر ایک دن میری سن لی گئی۔ میری زندگی میں بہار کا ایک جھونکا آگیا اورتھکی دبی گھٹن زدہ زندگی واقعی روشن ہوگئی۔ ہمارے دفتر میں ایک خوبصورت لڑکی عنبر نے ملازمت کرلی۔ جب وہ میرے پاس اکاؤنٹ سیکشن میں آئی تو میری دنیا ہی بدل گئی۔ اس کا دل فریب سراپا، اس کی اجلی رنگت اور خوش بو میں ڈوبا وجود مجھے اسیر کرگیا۔ پہلی ملاقات میں ہی مجھے لگا کہ وہ میرے لیے بنی ہے اور شاید وہ بھی مجھ سے متاثر ہوچکی تھی۔ پہلی ملاقات میں آدھ گھنٹے کا ساتھ نصیب ہوا اور پھر گاہے بہ گاہے وہ میرے کیبن کے چکر لگانے لگی۔ پہلے رسمی بات چیت پھر دوستی اور پھر بریک میں ایک ساتھ لنچ کرنا معمول ہوتا گیا۔ اکثر عنبر گھر سے میرے لیے کچھ بنا کر لانے لگی۔ میں تو کینٹین سے ہی کھاتا تھا کیونکہ اچھی کمپنیز میں کھانے کا بھی اچھا بندوبست ہوتا ہے لیکن جو وہ خود کھاتی مجھے بھی دکھلاتی. 
مجھے تو اس سے پہلی نظر میں ہی محبت ہوگئی تھی لیکن اسے ڈیڑھ دو ماہ لگے اظہار کرنے میں، لیکن میں اسے اپنی حقیقت نہیں بتا پایا کہ میں 26 سال کا کنوارا لڑکا نہیں بلکہ دو بچوں کا باپ ہوں، لیکن جب اس نے رشتہ لانے کی بات کی تو مجھے سچ بولنا ہی تھا، میں نے بڑے دکھ بھرے انداز میں اپنی آپ بیتی سنائی. اسے دھچکا لگا، مگر میں دو چار دن میں اسے قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ میرے ساتھ شدید زیادتی ہوئی ہے، وہ مان تو گئی مگر اس نے اپنے باپ ہر چھوڑ دیا کہ میں بات کرتی ہوں والد سے، اور ٹھیک چار دن بعد اس نے واضح کردیا کہ اس کے والد نے سنتے ہی میرے رشتے پر انکار کر دیا کہ "میری بیٹی میں کیا کمی ہے جو دو بچوں کے باپ سے بیاہوں"
میں پتہ نہیں کن ہواؤں میں تھا، میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ مجھے انکار ہوسکتا ہے، میری غلط فہمی یا خوش فہمی عروج پر تھی اور جب یہ اچانک ختم ہوئی تو میں عرش سے فرش پر آن گرا اور دفتر سے چھٹی کے وقت میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے. اس سے پہلے کوئی دیکھتا میں موٹر بائیک پر سوار یہ جا وہ جا. آنسو جتنی تیزی سے بہہ رہے تھے بائیک کی رفتار اس سے تیز کرتا گیا اور پھر اچانک میری آنکھیں دھندلائیں اور مجھے نظر آنا بند ہوگیا، جانے کیا چیز سامنے آئی، میری بائیک سے ٹکرائی اور میں اڑ کر سڑک کی دوسری طرف جا گرا. جب ہوش آیا تو جگہ جگہ پٹیاں ٹانکے، میں ایک دن بعد ہوش میں آیا تھا، جب مکمل حواس بحال ہوئے اور سارا پس منظر آنکھوں کے سامنے گھوما تو میرے آنسو بہنے لگے کہ کاش میں مرجاتا، عنبر کے روپ میں ایک خوشی ملی تھی وہ بھی چھن گئی. میں جی کر کیا کروں گا. بس بد دلی اور مایوسی نے مجھے مزید تھکا دیا، لیکن عنبر ہسپتال میں مجھے ملنے آئی تو پھر جینے کی امنگ پیدا ہوگئ اور دل پھر سراب کے پیچھے بھاگنے لگا کہ شاید عنبر کو میری شدید محبت کا یقین آ جائے یا اس کا باپ مان جائے، کوئی ایسا معجزہ ہوجائے کہ میں اور عنبر ایک ساتھ زندگی گزاریں، زندگی تو بعد کی بات تھی دس دن بعد چھٹی ہوئی مگر مجھے تین ماہ بیڈ ریسٹ کرنا تھا، کیونکہ بازو اور ٹانگوں پر کافی زخم تھے اور کریکس تھے. خوش قسمتی سے چہرہ بالکل صاف رہا. باقی بدن پر پٹیاں پلستر بندھے ہوئے تھے. ہسپتال کا سارا بل کمپنی نے ادا کیا، تین ماہ کی چھٹی مع تنخواہ دینے کا فیصلہ ہوا اور تیسری اہم بات عنبر کا کثرت سے میرے گھر مجھ سے ملنے آنا جس سے مجھے جلد ٹھیک ہونے کے احساس میں مدد ملی. عنبر میرا بہت خیال رکھتی، تین ماہ تک میرے گھر سے فروٹ ختم نہیں ہوا. عنبر ہمیشہ پھول اور ڈھیر سارے پھل لاتی. بچوں کے لیے بہت سے کھلونے بسکٹ اور چاکلیٹ وغیرہ اور میری دوائیں اس نے اپنے ذمے لے لی تھی. 
اس کے آنے پر امی اور روشن بالکل خاموش رہتے. 
عنبر کا اتنی کثرت سے آنے کا کیا مطلب ہو سکتا تھا، شاید اسے لگ رہا تھا کہ شادی سے انکار کی وجہ سے مجھے شدید دکھ ہوا تھا اور اس حادثے میں کہیں نہ کہیں اس کا بھی ہاتھ ہے، لیکن یہ میرا خیال تھا، اس نے کبھی کچھ نہیں کہا، تین ماہ میں روشن اور اماں دونوں نے بہت خیال رکھا، مگر مجھے عنبرکا ایک گھنٹے کا پھیرا بہت خوشی دیتا اور آخر میں تندرست ہوگیا اور دفتر پہنچ گیا. سب نے خوش آمدید کہا. اس میں عنبر پیش پیش تھی. کچھ دن بعد عنبر نے پھر بم پھوڑا، لنچ بریک کے وقت اپنا شادی کارڈ تھما دیا اور میں گرتے گرتے بچا. 
لیکن اس کے لہجے میں کوئی تاسف یا گریہ نہیں تھا. عام کولیگ کی طرح دعوت دی تو میں نے ہی بے تابی سے پوچھا کیا ملازمت چھوڑ دو گی؟ اس نے ہاں کہا اور میرے کیبن سے نکل گئی اور میں دھم سے کرسی پر گر گیا. بریک سے چھٹی کے وقت تک 3 گھنٹے تھے اور یہ وقت میرا دکھ کم کر گیا. میں دفتر سے اداس نکلا، مگر اب میرے ہوش و حواس بالکل قابو میں تھے. اس لیے خیریت سے گھر پہنچ گیا، لیکن روشن کو دیکھتے ہی میرا خون کھول گیا کہ یہ ہی وہ عورت ہے جو میری خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ ہے. 
میں نے اسے چائے بنانے کو کہا. جب وہ چائے لے کر کمرے میں آئی تو میں نے ایک دم کمرہ بند کیا اور اس پر حملہ کردیا، لیکن شاید وہ اس تابڑ توڑ حملے کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار تھی، کیونکہ میں نے چار سال میں اس کو اسی طرح جھنجھوڑے جانے اور شدت کا عادی کردیا تھا. میں اسے نوچ رہا تھا، کاٹ رہا تھا اور اس کا سیاہ بدن کسی تپتے گرم لوہے کی طرح تپ رہا تھا. اور اس تپش میں چمک تھی، تمتماہٹ تھی. اس کا رواں رواں اس وقت اسی کیفیت کا شکار تھا کہ اس کے ساتھ وہی سب کیا جائے جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا تھا. 
جسم کی ایننٹھن غمازی کر رہی تھی کہ اسی شدت اور وحشت کا انتظار ہے، جس کا میں اسے عادی کر چکا تھا. اب اس کا سارا وجود میرے جنون کی لپیٹ میں تھا، صراحی دار گردن جس پر پسینے کی نمی آچکی تھی اور پورا وجود چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا سو سنار کی ہوچکیں اب ایک لوہار کی بھی ہوجائے، ایک ایسی ضرب کاری کہ سارا وجود چور چور ہو جائے. میں اس کی کیفیت سمجھ چکا تھا. وہ میری شدتوں اور وحشتوں سے اذیت میں نہیں تھی بلکہ محظوظ ہورہی تھی اور  میں کچھ کر ہی نہیں پارہا تھا، لیکن شاید آخری ضرب لگنے سے پہلے ہی تپتا لوہا پگھل چکا تھا اور پھر ڈھیلا پڑگیا تھا. روشن کی آنکھیں بند تھیں اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں. وہ آخری چوٹ سے پہلے ہی سیراب ہو گئی تھی اور میں اس کے پہلو میں تشنہ کام پڑا تھا. کچھ لمحے توقف کے بعد میں نے دیکھا کہ روشن پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی ہے اور میں اس سے نظریں چرا رہا تھا، کیونکہ آج کا کھیل وہ جیت گئی تھی اور میں نے پہلی بار شکست کا مزا چکھا. 
مجھے لگا تھا کہ شاید حادثے کی وجہ سے جسمانی کم زوری کا شکار ہوں مگر آج احساس ہوا کہ کچھ ایسا ہے جو میری وحشت اور شدت کے باوجود میری بھڑاس اور غصے کو نہیں نکال سکا. 
اگلے ہی دن ڈاکٹر کے پاس پہنچا، تفصیلی معائنہ ہوا، کچھ ٹیسٹ ہوئے اور رپورٹ کے انتظار میں مجھے کچھ دیر بیٹھنا پڑا، میں ڈر رہا تھا کہ میرے پاس یہ ہی ایک یہ واحد ذریعہ تھا اپنی وحشت کم کرنے کا، دبی گھٹی زندگی کا غم کم کرنے کا، یہ بھی چھن گیا تو میں کیا کروں گا؟ کیسے بھڑاس نکالوں گا؟ اس روشن کو اذیت کیسے دوں گا، جس نے میری زندگی میں فقط اندھیرے بھرے ہیں. مجھے ابھی بھی روشن سے بالکل ہمدردی نہیں ہورہی تھی. اس سے میرا ازدواجی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ میرے لیے ریت کا تھیلا تھی جس پر لوگ مکے مار مار کر اپنا غصہ نکالتے ہیں، جس طرح ریت کا تھیلا خاموش مار کھاتا ہے، روشن بھی اس طرح خاموش میری دی ہوئی اذیت سہتی تھی. میں اس سے یہ سب کسی جنسی تسکین کے لیے نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے جسم کو نوچ کھسوٹ کر مجھے خوشی ملتی، اطمینان ملتا، میں اسے اکثر کاٹ کاٹ کر نیلا کر دیتا، اس کا پورا وجود میرے تھوک سے لتھڑ جاتا، میں اس کے سارے بدن کی نرمی چوس لیتا اور اسے اس طرح سے جھنجھوڑا کرتا کہ وہ نڈھال ہوجاتی تھی لیکن اب یہ نہ ہو سکا تو۔۔۔
بس ایسے خدشات اور وساوس مجھے ستا رہے تھے اور وہی ہوا، ڈاکٹر صاحب نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا پریشان نہ ہوں، جب کہ وہ اور میںدونوں پریشان ہوچکے تھے لیکن تسلی دیتے ہوئے کہا کہ یہ دوا کا کورس کیجیے ان شاءاللہ مردہ خلیوں میں جان پڑ جائے گی. 
میں بد دلی سے گھر چلا آیا. ایک ہفتے تک دوا کھائی پھر ایک ماہ لیکن تین ماہ بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا. میں مایوس ہوگیا تھا. ویسے بھی عنبر کی تو شادی ہوچکی تھی اور روشن سے مجھے لگاؤ نہیں تھا. مجھے واقعی اپنی اس کمی پر زیادہ رنج نہیں ہوا. میں نے روز مرہ کی بنیاد پر اوور ٹائم کرنا شروع کر دیا. پہلے دفتر کے اوقات کار 9 سے 5 تھا، پھر 9 سے 9 ہو گیا اور میں ڈبل تنخواہ کمانے لگا. اتوار کو دوستوں کے ساتھ رہتا، روشن اور بچوں سے غافل اپنی ذات میں مگن رہتا، میں روشن کی طرف بالکل بھی نہیں دیکھتا تھا، بچوں ہر بھی سرسری سی نظر ڈالتا. ایک دن اتوار کو میں گھر پر تھا اور سستی کی وجہ سے لیٹا ہوا تھا. روشن کی بھی چھٹی تھی. میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ کافی موٹی لگی اور اس کے پیٹ کا غیر معمولی ابھار ۔۔۔
میں سمجھ گیا کیونکہ وہ میرے دو بچے پیدا کر چکی تھی، میری آنکھوں میں خون اتر آیا. 
میں اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کرکے چلایا یہ کیا ہے
"کیا ہے”
جواب میں وہ بھی اسی طرح چیخی. 
میں ہکا بکا رہ گیا، اس کی تیز آواز پہلی بار سنی. 
"میں سب کو بتادوں گا تمھارے کردار کے بارے میں"
میں نے ایسے رعب سے کہا جیسے اس کی کمزوری ہاتھ آگئی ہو.
"جاؤ بتادو۔ میں بھی سب کو بتادوں گی کہ تم صرف دیکھنے میں مرد ہو کاغذی مرد پھوکے خالی کھوکھلے" اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالتے ہوئے دوبدو جواب دیا. میں نے اس کا بازو زور سے پکڑا لیکن اس نے دوہری طاقت سے جھٹکا دے کر مجھے پیچھے دھکیل دیا، میں واقعی بستر پر گر گیا. اس کی آنکھوں سے انگارے اور زبان سے شعلے برس رہے تھے اور مجھے اس طرح گھور کر دیکھا کہ مجھے کھسیانی ہو کر نظریں جھکانی پڑیں. 
کچھ دیر ہم دونوں خاموش رہے پھر وہ کمرے سے باہر نکل گئی، میں خجالت اور ندامت سے بستر پر اوندھا لیٹ گیا، میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، مجھے پہلی بار اپنا وجود اتنا بے بس اور حقیر لگا کہ شاید مجھے موقع ملتا تو میں خودکشی کر لیتا، روشن نے یہ سب کہہ کر میرے چودہ طبق روشن کردیے، پھر میں کبھی بھی اس سے نظریں نہیں ملا پایا. 
پھر وہ دن آگیا جب روشن نے تیسرے بچے کو جنم دیا، جب بچہ نرس نے میری ماں کو پکڑایا تو میری ماں دیکھتے ہی خوشی سے میری طرف بڑھی اور بولی
"ارے ناصر! دیکھ تو کتنا گورا بچہ ہے بالکل تجھ پر گیا ہے."
***
ارم رحمٰن کا گذشتہ افسانہ:دو سال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے