کلکتے کا جو ذکر کیا

کلکتے کا جو ذکر کیا

غضنفر

کلکتے کو کولکتا ہوئے عرصہ گزر گیا مگر شہرِنشاط کا یہ نیا نام نہ آنکھوں میں بسا اور نہ ہی زبان پر چڑھا۔ جب بھی یہ لفظ سنائی دیتا ہے تو آنکھوں میں وہی املا ابھرتا ہے اور کانوں میں وہی تلفظ گونجتا ہے جسے غالب نے اپنے اس شعر میں استعمال کیا ؂
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
یہ شہر اپنے نام کے حرف و صوت کے ساتھ رگ و ریشے میں اس طرح رچا بسا ہے کہ کوئی خوف یا دباؤ بھی مجھ سے کولکتا نہیں کہلوا پاتا۔ شہروں کا نام شاید اس لیے بدلا جاتا ہے کہ اس نام میں اس شہر کے مخصوص کام کا عکس ابھر آئے یا اس کا تہذیبی تشخص منعکس ہو جائے یا پھر اس میں کانوں کو بھلا لگنے والا کوئی سر گھل مل جائے مگر یہ اوصاف نہ تو کولکتا میں آپائے اور نہ ہی چنئی اور ممبئی میں سما پائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو رس کلکتہ، مدراس اور بمبئی سے سماعت میں گھلتا تھا، ان شہروں کے بدلے ہوئے سر تال سے نہیں گھلتا۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ کلکتہ مجھ میں ایسا رچا بسا ہے کہ نام سنتے ہی ایک انوکھی گاڑی لہراتی، بل کھاتی شہر کے بیچ و بیچ سے گزرتی ہوئی میری آنکھوں میں ابھر آتی ہے۔ ساتھ ہی ایک لمبا چوڑا پل بھی ابھر جاتا ہے۔ ایسا لمبا پل کہ جب فلم "کبھی کبھی" کی ہیروئین راکھی ایک گوشۂ تنہائی میں اپنے ہیرو ششی کپور سے کہتی ہے کہ میری آنکھوں کی تعریف کرو تو عاشق ہیرو اسی پل کا سہارا لیتا ہے اور جواب دیتا ہے: "میں کوئی شاعر وائر تو ہوں نہیں کہ تمھاری آنکھوں کی تعریف میں ہوڑہ کا پل باندھ دوں۔"
اس نام کے ذکر پر آنکھوں کی چھوٹی چھوٹی پتلیوں میں ایک بہت بڑا میدان بھی سمٹ آتا ہے جس کے دامن میں ٹرام گاڑیوں کا رقص تو ہوتا ہی ہے مختلف گوشوں میں جذبۂ شوق سے مغلوب جوڑوں کے لب و رخسار کا رقص بھی اپنے شباب پر ہوتا ہے۔ جگہ جگہ لنگی دھوتی، شلوار ساڑی اور اسکاٹ و پینٹ والے کالے گورے سانولے سلونے عورت مرد خوانچہ والوں کے پاس پھچکا ( گول گپے، پانی پوری) کھاتے ہوئے نظروں کے پاس آ جاتے ہیں۔
اس نام کو سنتے ہی دیدوں میں ایڈن گارڈن کے رنگین نظارے بھی ابھر آتے ہیں اور اس کے پڑوس میں بسے شانتی نکیتن کے شانت اور متین ماحول کا روح پرور سماں بھی سامنے آ جاتا ہے۔ ساتھ ہی لمبے بالوں اور ایک مخصوص قسم کی داڑھی والے مہا رشی کی تصویر بھی بصارت میں ابھر آتی ہے اور یکایک سماعت میں جذبۂ حب الوطنی سے لبریز ایک ترانہ بھی گونجنے لگتا ہے۔
کلکتہ مجھے بہت پسند ہے مگر ذکرِ کلکتہ پر میرے لبوں سے یہ آواز نہیں نکلتی:
اک تیر مرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
اس لیے کہ میری پسندیدگی کا سبب وہ نہیں جو غالب کا تھا۔ لہذا جب کوئی ہم نشیں یا غیر ہم نشیں اس شہر کا ذکر کرتا ہے تو میری کیفیت ہائے ہائے والی نہیں ہوتی بلکہ مجھ پر سنجیدگی طاری ہو جاتی ہے۔ میں طرح طرح کی کیفیات سے گزرنے لگتا ہوں: ان میں وہ کیفیت بھی ہوتی ہے جو منظرِ خوش رنگ سے پیدا ہوتی ہے اور وہ کیفیت بھی جو رنگِ بد رنگ سے جنم لیتی ہے ۔فضائے طرب ناک سے ابھرنے والی کیفیتِ جاں گداز بھی ہوتی ہے اور کربناک صورت حال سے پیدا ہونے والی کیفیتِ جاں گسل بھی ہوتی ہے۔
کیفیت جاں گداز یک لخت مجھے اسپلینیڈ کی گہما گہمی سے گزارتی، برلا پلینٹیریم کے چاند ستاروں اور سیاروں کی کرشمات دکھاتی ہوئی دریاے ہگلی کے کنارے ٹھنڈی فضاؤں میں ہونے والی گرم اداؤں کے پاس پہنچا دیتی ہے۔ اور کیفیتِ جاں گسل شہر کے گلی کوچوں میں لے کر پہنچ جاتی ہے جہاں ایک آدمی بھاری بھاری بوجھ سے بھری ایک انوکھی گاڑی کو پہیوں کے بجائے اپنے پیروں سے کھینچ رہا ہوتا ہے اور گاڑی کھنچتے کھینچتے بیمار پڑ کر انسانوں کے شفا خانے کے بجائے گھوڑے کے اسپتال میں پہنچ جاتا ہے۔
ذکرِکلکتہ پر جب یہ کیفیتیں ابھرتیں توان کے ساتھ ایک شخصیت بھی ابھر آتی جس کی پرورش سے لے کر تربیت تک اس شہر کی مٹی نے کی اور اسے ایسا خلیق اور شفیق بنایا کہ اس شہر کے ایک بڑے علاقے کا ایک ایک شخص اس کا حبیب و رفیق بن گیا۔ نیز اس شہر کی مٹی نے اس سے اتنی اور ایسی محبت کی کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس شہر کا ہو کر رہ گیا۔ اسے بھی اس شہر سے ایسا لگاؤ ہوگیا کہ مرنے کے بعد بھی وہ اپنے گھر نہ جا سکا۔
اس شہر کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس شخص کو اس شہر نے پروان چڑھایا اسی شخص کے ہاتھوں میری پرورش و پرداخت ہوئی۔ گویا میرے خون میں اس شہر کی مٹی کا رنگ ہی نہیں بلکہ اس کی خو بو بھی شامل ہے۔ یہ شہر میرے جننی کو پناہ گاہ، کار گاہ اور آرام گاہ نہیں دیتا تو شاید آج میرے چہرے پر وہ رنگ نظر نہیں آتا جس سے میں پہچانا جاتا ہوں۔ میرے خامے سے وہ رنگ نہیں نکلتا جس سے میں دوسروں کو خوش رکھتا ہوں اور خود بھی خوش رہتا ہوں۔ ممکن ہے میں خوش رنگ نظر آنے کے بجائے بد رنگ نظر آتا۔ میں تعلیم کی اتنی سیڑھیاں نہیں چڑھ پاتا اور میری تحریر اور معاملات زندگی میں جو بے باکی اور بے خوفی نظر آتی ہے وہ دکھائی نہیں دیتی اگر اس بے باک، بے لاگ اور نڈر انسان کا خون میری رگوں میں دوڑ نہیں رہا ہوتا۔ اس کی بے باکی کی بس ایک مثال دیکھ لیجیے:
بش اور صدام میں ٹھنی ہوئی تھی۔ امریکہ اور عراق میں جنگ جاری تھی۔ دوسرے اسلامی خطوں کی طرح کلکتہ شہر کے بیشتر حصوں میں بھی معاملے کو جذباتی نقطۂ نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جا رہا تھا اور صدام کو ہیرو اور بش کو ویلن بنایا جا رہا تھا، ایسے میں وہ شخص صدام حسین اور ان کے اقدامات کو معروض نقطۂ نظر سے دیکھ پرکھ رہا تھا اور عراق کی تباہی و بربادی کا قصور وار صدام حسین اور ان کے اڑیل روپے کو ٹھہرا رہا تھا جب کہ اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ اپنے اس نظریے کے باعث جانی مالی نقصان بھی اٹھا سکتا تھا۔
ظاہر ہے کہ یہ بے باکانہ وصف اس شخص کو اس شہر کے ماحول سے ملا جس نے اس کی تربیت کی اور اس کی اسی تربیت کا اثر ہے کہ وہ اس وصف کو اپنی اگلی نسل میں منتقل کر سکا۔
مجھے یہ بلاد اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ یہاں سادگی میں پرکاری اور پرکاری میں سادگی نظر آتی ہے۔ یہاں تکلفات کے دباؤ میں فطرت دبتی اور رسمیات کے بوجھ تلے اینٹھتی نہیں بلکہ پتھروں کو پرے ڈھکیلتی اور انھیں توڑتی ہوئی باہر نکل آتی ہے۔
یہاں کہیں جانے، کسی سے ملنے، کسی جگہ گھومنے پھرنے کے لیے ہر بار کوٹ اور لنگوٹ نہیں کسنا پڑتا۔ دھوتی کرتا اور لنگی بنیائن میں بھی یہ کام ہو جاتا ہے۔ کہیں پر بھی کسی طرح کی اڑچن پیدا نہیں ہوتی۔ دوسرے بڑے شہروں کی طرح اس شہر میں بیڈ روم سے ڈرائنگ روم تک پہنچنے میں ڈریسنگ روم سے نہیں گزرنا پڑتا۔ حالاں کہ یہاں بھی عرش کی کمی نہیں ہے مگر فرش کی کشش زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کو تنگی میں بھی کشادگی پیدا کرنے کا ہنر آتا ہے۔ وہ کار گاہ کو آرام گاہ اور آرام گاہ کو کارگاہ آسانی سے بنا لیتے ہیں۔ تکلفات کی گراں باری سے زندگی کو آزاد کر دیتے ہیں۔ دشوار کن سفر آسان، سبک اور سہل ہوجاتا ہے۔
سادگی میں پرکاری کیسے داخل ہو جاتی ہے اس کی ایک مثال دیکھیے:
بیشتر گھروں کے دسترخوان پر پیاز کے چھلے وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ کہیں پر سادہ صرف نمک کے چھڑکاؤ کے ساتھ اور کہیں پر لیموں اور توے پر بھونی ہوئی لال مرچ کے سفوف کے آمیزے کے ساتھ۔
سبز سلاد پتے green salad leave کے بجائے وافر مقدار میں پیاز کے چھلوں کا ہونا مزاج کے فطری پن اور سادگی کو دکھاتا ہے مگر چھلوں کی باریکیاں، مناسب مقدار میں لیموں کے رس اور بھونی ہوئی لال مرچ کے رنگ کی سلیقے سے ملاوٹ اس سادگی میں پرکاری پیدا کر دیتی ہے۔
دسترخوان پر سجے پیاز کے باریک باریک چھلے اشیائے طعام کو اور بھی لذیذ اور ذائقے کو مزید مزے دار بنا دیتے ہیں۔
اسی طرح دہی اور زیرا وغیرہ گرم مسالوں سے بنا گھول "کچی" میں پکی لذت گھول دیتا ہے اور بند بھوک کو بھی اپنے ذائقے کے لمس سے کھول دیتا ہے۔ اس گھول کے آگے مشروباتِ جدید پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ یہاں کے ہوٹلوں کے گول گول رول زبان کو رولر بنا دیتے ہیں۔ اس رول کے منہ میں آتے ہی زبان رولر کی طرح چلنے لگتی ہے اور حلق تک چکنا ہو جاتا ہے۔
یہاں کے لوگ سادہ ضرور ہیں مگر ان کے اندر ہر طرح کا رنگ بھرا ہوا ہے۔ رنگِ دیو داسی بھی ہے اور رنگ چندر بوسی بھی، رنگ ٹیگوری بھی ہے اور رنگ چٹرجی اور چکرورتی بھی. رنگِ ستیہ جیتی بھی ہے اور رنگِ نذرل اسلامی بھی۔ یہ رنگ ان کی سادگی میں پر کاری بھی پیدا کرتا ہے اور شبنم شعاری و شعلہ باری بھی۔ یہ رنگ انھیں شعور بھی بخشتے ہیں اور سرور بھی۔
یہ شہر اس لیے بھی دامنِ دل کو کھینچتا ہے کہ یہاں مظلوم ظالم کے ظلم و جبر پر چپ نہیں رہتا بلکہ ٹکر لینے اور ٹکرانے کے لیے گھر سے نکل کر جانبِ میدان چل پڑتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں جھنڈا کوئی بھی ہو، اس میں اس کے کھولے ہوئے خون کی سرخی لہراتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ شہر مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ اس شہر کی زندگی پر کسی قسم کا کوئی ملمع نہیں۔ جو جیسا ہے ویسا ہی نظر آتا ہے۔ یہاں کا انسان ویسا نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ
سرخیاں اوڑھ کے سڑکوں پہ نکلتا ہوگا
ورنہ وہ شخص تو کمرے میں دھواں لگتا ہے
یہاں کے رہن سہن، کھان پان، ہاؤ بھاؤ، کردار، گفتار کسی میں کوئی تکلف نہیں، کوئی تصنع نہیں، اسی لیے یہاں زندگی کرنے میں آسانیاں بہت ہیں۔ سپر مارکیٹ جانا ہو یا بگ بازار پہنچنا ہو، بوس کے ڈھابے میں مچھی بھات اور نذرل کے ہوٹل میں گوشت روٹی کھانا ہو یا مغل دربار میں مغلئی لنچ لینا ہو یا کسی کیفے ٹیریا میں ڈنر پہ جانا ہو، مال میں جا کر مال خریدنا ہو یا کسی تھیٹر میں پکچر دیکھنا ہو، کسی جلسے میں شرکت کرنی ہو یاکسی کا مہمان بننا ہو، نہ کوٹ پینٹ چڑھانے اور نک ٹائی باندھنے کی جھنجھٹ، نہ شیروانی زیب تن کرنے اور جوتے کے تسمے باندھنے کی ضرورت، آپ جس لنگی یا دھوتی کرتا اور ہوائی چپل میں گھر پر ہیں اسی حلیے میں کہیں بھی پہنچ جائیے۔ نہ اندر کوئی تناؤ، نہ باہر کوئی دباؤ، نہ نسوں میں کہیں کوئی کھنچاؤ، نہ من میں کوئی بھاری بھاؤ۔ ایسا سادہ اور سہل چلن کہ نہ گھٹن، نہ چبھن، نہ جلن نہ کوئی اینٹھن۔
یہاں کے بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر یہ جانا کہ کسی سے کچھ لینے میں وہ خوشی نہیں ملتی جو کسی کو کچھ دینے سے حاصل ہوتی ہے اور یہ بھی محسوس کیا کہ خدمت خلق کا نشّہ کیا ہوتا ہے اور اس نشے کا سرور چڑھتا ہے تو رگ وپے میں کیسی ترنگیں اٹھتی ہیں۔ کیف و نشاط کی کیسی کیسی موجیں ابھرتی ہیں اور وہ موجیں کیسا اور کیا کیا جادو کرتی ہیں۔
کلکتہ مجھے اس لیے بھی پسند ہے کہ اسی کے سرمائے سے ایک طرف جہاں میرا بچپن پروان چڑھا، وہیں دوسری جانب اس کی پروردہ دوشیزہ بنگال کےحسن و جمال سے مجھ میں جذبۂ عشق جگا۔ اسی سے تصورِ وصل سے لطف اندوز ہوا اور ہجر کے کرب کا مزہ بھی چکھا۔
کیتکی کے روپ جیسے گوری بنگالن کے گورے رنگ میں کالا جادو ہوتا ہے اور بنگال کی جادو گرنیاں جادو کرکے دام سحر میں جکڑ لیتی ہیں، یہ میں سنتا تھا، کبھی دیکھا نہیں تھا مگر کالج کے دنوں میں بنگال کی جادوگرنی اور وہاں کے کالا جادو دونوں سے سابقہ پڑا. جادو گرنی نے ایسا کالا جادو کیا کہ میرا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اس جادو کا اثر ہمیشہ بنا رہا۔ اس نے میرا رنگ زرد تو کیا مگر زندگی میں ایک ایسا رنگ بھی بھر دیا کہ میں سرخ رو ہوتا چلا گیا۔
کلکتہ مجھے اس لیے بھی عزیز ہے کہ میں جس پیڑ کی شاخ ہوں اس پیڑ کی جڑیں کلکتہ کی زمین میں پیوست رہیں۔ وہیں کی مٹی سے رس حاصل کرتی رہیں۔۔ یہ اسی رس کا اثر ہے کہ میرے رگ و ریشے میں زندگی کے تقریبا سارے ہی رس گھلے۔ صرف گھلے ہی نہیں بلکہ گاڑھا بھی ہوتے گئے۔
یہ شہر اس لیے بھی قابل تعظیم ہے کہ اس شہر نے دنیا کو گیتنانجلی جیسا گرنتھ دیا۔ اپنے ملک کو راشٹر گان دیا۔ ٹیگور، شرت چندر، بنکم چٹرجی، بھبھانی بھٹا چاریہ جیسے مہان قلم کار دیے۔ فلم پریمیوں کو دیو داس اور شطرنج کے کھلاڑی جیسی فلمیں دیں، ستیہ جیت رے جیسا ہدایت کار، کشور کمار جیسا گلو کار، اشوک کمار جیسا ادا کار اور شرمیلا ٹیگور جیسی کلا کار دیا۔ نیز سیاست کے میدان میں نیتا جی سبھاش چندر بوس جیسا انقلابی اور اصلاح معاشرہ کے لیے راجہ رام موہن رائے جیسا مصلحِ قوم بھی دیا۔
کلکتہ شہر مجھے اس لیے بھی زیادہ پسند ہے کہ یہاں غریب کا پیٹ بھی آسانی سے بھر جاتا ہے اور پوری زندگی لنگی اور گنجی (بنیائن ) میں کٹ جاتی ہے۔
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:سیانا مجذوب
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے