ورود دل

ورود دل

منظوم پیش لفظ برائے "آغوش میں چاند"

امان ذخیروی
ذخیرہ، جموئی، بہار، ہند

شکر رب العالمیں کا بے پناہ
جس نے مجھ پر کی کرم کی اک نگاہ

علم و فن سے مجھ کو وابستہ کیا
کی عطا پھر شعر و حکمت کی ضیا

اس نے میری فکر کو پرواز دی
جس کی پروردہ ہے میری شاعری

میں تھا اپنی ذات میں جوئے کم آب
کر دیا مجھ کو رواں مثل چناب

آج جو شعر و سخن میں نام ہے
یہ خدائے پاک کا انعام ہے

آ چکے ہیں چار مجموعے مرے
جن میں دو غزلوں کے ہیں دو نظم کے

پانچواں ہے آپ کے پیش نگاہ
لطف کا بچوں کے ہے آماجگاہ

روشنی ہرگز نہ اس کی ماند ہے
اب مری”آغوش میں" وہ "چاند" ہے

یہ مری نظمیں بری ہیں یا حسیں
فیصلہ اس کا کریں گے قارئیں

وہ” فریحہ" جو نواسی ہے مری
معنون ہے یہ اسی کے نام ہی

نظمیں چونسٹھ اس میں ہیں چھوٹی بڑی
جن میں بچوں کے لیے ہے دل کشی

اس میں ہر ممکن یہ کوشش کی گئی
جس سے ہو بچوں کی ہر پل رہ بری

نسل نو کی اس طرح تعمیر ہو
خواب ہر شرمندۂ تعبیر ہو

ہر قدم ہوں حوصلے ان کے جواں
یوں مری محنت نہ جائے رائیگاں

ملک و ملت کا ہے ان پر انحصار
ان سے مستقبل ہے اپنا تاب دار

ان کے ذہن و دل سے نفرت دور ہو
پیار سے ان کا جہاں معمور ہو

شیوۂ گنگ و جمن کو ہو فروغ
جذبۂ حب وطن کو ہو فروغ

ہو نگاہوں میں وہ ماضی شان دار
جس سے دنیا میں ہے کچھ اپنا وقار

ہند کی عظمت کا چرچا خوب ہے
یہ عمل مجھ کو بہت محبوب ہے

نونہالان وطن بھی جان لیں
ملک کی عظمت کو وہ پہچان لیں

موریا سمراٹ ہوں یا شیر شاہ
نسل نو کو ان سے ہو کچھ رسم و راہ

غالب و سر سید و اقبال کو
جان لیں یہ ان کے سب احوال کو

اس کا بھی رکھا ہے میں نے اہتمام
ان میں ہو پیدا کوئی عبدالکلام

"تاج" کی عظمت "ہمالہ" کا وقار
ان کے دل میں ہو ہمیشہ برقرار

وادیِ کشمیر ہے جنت نظیر
یہ بھی بچوں کے لیے ہے دل پزیر

ذہن سازی بھی ہو اور تفریح بھی
ہے مری تخلیق کا مقصد یہی

غرض ہر شعبے میں ہوں یہ کامیاب
آج جو ذرے ہیں، کل ہوں آفتاب

ہوں بہت ممنون ان احباب کا
وہ جنھوں نے میرے فن پر کچھ لکھا

ان میں ہے لندن کی فرزانہ کا نام
جس نے میرے فن کو بخشا ہے دوام

ان سے بھی پہچان کچھ ویسی نہ تھی
فیس بک پر گفتگو تھی سرسری

رفتہ رفتہ بات کچھ آگے بڑھی
جڑ گئی شعر و سخن کی پھر کڑی

جب ہوا اک دوسرے پر اعتبار
یوں تعلق بھی ہوا تب استوار

اس طرح میری گزارش مان کر
لکھ گئیں مضمون بے خوف و خطر

ان کی شفقت کا میں گرویدہ ہوا
وہ خوشی پائی کہ نمدیدہ ہوا

اپنی تحریروں سے عزت بخش دی
مجھ کو فرزانہ نے فرحت بخش دی

دوسرے جاوید بھی ہیں اور حیات
آپ نے بھی کی ہے مجھ پر خاص بات

شعبۂ اردو سے ہے وابستگی
ان میں پوشیدہ ہے علم و آگہی

معتقد راسخ کے ہیں اور شاد کے
آپ ہیں شہر عظیم آباد کے

آج تک ان سے نہیں دیدار ہے
پھر بھی ان کے دل میں میرا پیار ہے

آپ نے جو بھی لکھا دل کھول کر
روشنائی میں بھی مصری گھول کر

ایسے مخلص اب یہاں ملتے کہاں
اب ہے لکھوانا بہت مشکل یہاں

اس قدر لکھنے سے کتراتے ہیں لوگ
اور خوشامد خوب کرواتے ہیں لوگ

حضرت جاوید نے ایسا لکھا
جب پڑھا، جس نے پڑھا، اچھا کہا

حضرت فاروق صارم بے مثال
آپ نے ہی کر دکھایا یہ کمال

تیسرے حضرت رفیع الدین راز
ہیں جو امریکا کے شاعر دل نواز

عالمی شہرت ہے بےشک آپ کی
ایسی کچھ رفعت ہے بےشک آپ کی

دل میں تھی خواہش، مگر امید کم
وہ کبھی مجھ پر اٹھائیں گے قلم

وہ مگر شاید کہ ساعت نیک تھی
آپ نے میری گزارش مان لی

جو کیا وعدہ وہ پورا کر دیا
اور مرا دامن خوشی سے بھر دیا

شاکر انور ہیں کراچی میں مقیم
ان کے فرمودات ہیں مثل نسیم

ان کا آبائی وطن بھی ہے بہار
وہ بھی تقسیم وطن کے ہیں شکار

ان میں پنہاں مہربانی اب بھی ہے
ان کا دل ہندوستانی اب بھی ہے

اور ہیں”مژگاں" کے جو فاضل مدیر
حضرت نوشاد مومن بے نظیر

شکریہ ان سب کا بےحد، بے حساب
جن کی تحریروں سے روشن یہ کتاب

آ رہے ہیں وہ کرم فرما بھی یاد
جو ترقی سے مری ہوتے ہیں شاد

حضرت معصوم کا اول ہے نام
آپ نے بخشا ہے مجھ کو یہ مقام

رہ بری ان کی مجھے ملتی رہی
ہر کلی فن کی مرے کھلتی رہی

آج بھی ہیں مجھ پہ وہ سایا فگن
جن سے ہے آراستہ میرا سخن

وہ بھی ہیں مجھ پر ہمیشہ مہرباں
نسبتی بھائی صلاح الدین خاں

مجھ پہ ہے ان کی عنایت بےشمار
وہ ہیں میری شاعری کے پاس دار

ان کا ہے اردو ادب سے واسطہ
جا بجا مجھ کو دکھایا راستہ

ماہر حکمت و علم نفسیات
ڈاکٹر سید حسن شبر کی ذات

ان کے علم و فضل کا قائل ہوں میں
ان کی جانب اس لیے مائل ہوں میں

وہ جو میری روح کی تسکین ہیں
عصر حاضر کے جمال الدین ہیں

رو بہ رو ان کے سراپا میں سپاس
مجھ پہ بھی مائل ہیں وہ جوہر شناس

نقش اک حاصل ہوا سیال کو
پیر رومی مل گئے اقبال کو

دوستوں کو بھولنا بھی ہے محال
جن کو میری فکر ہے، میرا خیال

ان میں بھائی سید اسرافیل ہیں
جو محبت، پیار کی قندیل ہیں

شخصیت ان کی بڑی باغ و بہار
جو ہے ان کی شاعری سے آشکار

دور رہ کر بھی ہیں جو نزدیک جاں
وہ بڑے بھائی مرے ارشاد خاں

وہ بھی ہیں میرے بڑے ہی خیر خواہ
مجھ پہ رکھتے ہیں محبت کی نگاہ

بھائی انشاء صورت یعقوب ہیں
میں ہوں ان کو، وہ مجھے محبوب ہیں

ڈاکٹر پرویز افسانہ نگار
جن سے روشن انجمن باغ و بہار

بھائی رضواں ہم جماعت ہیں مرے
ذکر ان کا کیوں نہ یہ شاعر کرے

وہ ہیں اردو کے پروفیسر جناب
صنف افسانہ کے ہیں وہ ماہتاب

اور ہیں فیروز بھائی باکمال
ان کی افسانہ نگاری بے مثال

ہیں مرے پیارے علی احسن چچا
وہ بھی ہیں سو جان سے مجھ پر فدا

کیوں جمیل احمد کو میں بھولوں اماں
جو سدا رہتے ہیں مجھ پر گلفشاں

ایک ہیں شاداب اک ہیں آفتاب
ان سے مجھ کو ہے محبت بے حساب

ذکر ہے اس شخص کا بھی ناگزیر
جو ہے اپنی ذات میں روشن ضمیر

وہ مرے محسن ولی احمد جناب
ان کی خدمت کا نہیں کوئی جواب

ان کی خدمت میں نہیں کوئی کلام
ان کی اس اردو نوازی کو سلام

ہاں ستائش کے وہی حق دار ہیں
وہ کہ جو خاموش خدمت گار ہیں

یہ نوازش دل کے بیماروں پہ ہے
ان کا احساں ہم قلم کاروں پہ ہے

یہ جو مجموعہ گل گلزار ہے
یہ ولی احمد کا ہی ایثار ہے

مرحلے جو تھے اشاعت کے تمام
ہو گئے سب آپ کی نصرت سے رام

دے خدا اس کا انھیں اجر عظیم
نام ہو ان کا ثریا پر مقیم

کیوں نہ ہو ان ہستیوں کا ذکر خیر
رب بھی ہو راضی نہیں جن کے بغیر

یہ مرے ماں، باپ ہی کی ہے دعا
جو ہے اتنی پر اثر میری نوا

کی انھوں نے ہر قدم پر رہ بری
ناز اٹھائے میرے اور کی دل بری

حوصلے میرے سدا رکھے جواں
یوں مرے آساں ہوئے سب امتحاں

بس حصول علم ہی اک کام تھا
یہ انھیں کا فیض تھا، انعام تھا

مشتری خاتون جو ہیں میری ماں
میرے والد حاجی سعد الله خاں

مجھ کو ان کی پرورش پر ناز ہے
جس کی میری شاعری غماز ہے

ان کی شفقت اب بھی ہے مجھ پر نثار
وہ مری خاطر شجر ہیں سایادار

رب کی رحمت ان پہ ہو ہر صبح و شام
وہ رہیں دنیا میں ہر پل شادکام


ان کو پہنچے دکھ نہ میری ذات سے
ہوں نہ وہ ناراض میری بات سے

یا الٰہی! ان پہ کر اپنا کرم
سب کی نظروں میں رہیں وہ محترم

ان کا سایا حشر تک مجھ پر رہے
دست شفقت ان کا، میرا سر رہے

ہے مری تحریر کا حاصل یہی
اک فقط میرا ورود دل یہی
(١٢؍اگست ٢٠٢٢)
***
امان ذخیروی کی گذشتہ نگارش :خاک چھنوا کے ہاتھ آئی تھی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے