غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ

غضنفر کی شاعری سے ایک مکالمہ

(آنکھ میں لکنت کی روشنی میں )

سلیم انصاری

غضنفر کی تخلیقی صلاحیتوں سے میری واقفیت برسوں پرانی ہے، لیکن میں انھیں صرف ایک بہترین فکشن رائٹر کی حیثیت سے ہی جانتا تھا مگر جب پچھلے دنوں ان کی شاعری کی کتاب ’’آنکھ میں لکنت ‘‘ موصول ہوئی تو میں ایک خوشگوار حیرت سے دو چار ہوا اور میری یاد داشت مجھے برسوں پرانی لکھنئو میں ہوئی ان کے دفتر میں ایک ملاقات کے ان لمحوں میں لے گئی جب انھوں نے مجھے اپنا ناول ’’دویہ بانی‘‘ عنایت فرمایا تھا۔ چند منٹوں پر مشتمل یہ ایک رسمی سی ملاقات تھی جس میں ان سے کوئی خاص گفتگو بھی نہیں ہوئی تھی، بس میں ان کا ناول لے کر رخصت ہوگیا تھا. مگر جب میں نے ان کے ناول کا مطالعہ شروع کیا تو میری دل چسپی بڑھتی گئی اور میں نے ایک ہی نشست میں پورا ناول نہ صرف پڑھ لیا بلکہ اس پر ایک تفصیلی مضمون بھی تحریر کیا جو کلکتہ سے شائع ہونے والے رسالے ترکش میں شائع بھی ہوا، انسانی نابرابری اور طبقاتی کش مکش کے موضوع پر لکھا گیا یہ ناول اپنے پلاٹ، زبان، اسلوب اور کرافٹ کی انفرادیت کے سبب ایک قابلِ ذکر ناول قرار دیا گیا اور برسوں تک ادبی حوالوں میں روشن رہا۔ پھر میں نے یکے بعد دیگرے غضنفر کے کئی ناولوں کا مطالعہ کیا اور یہ رائے بنانے میں حق بہ جانب ٹھہرا کہ وہ بلا شبہ ایک منفرد اور بہترین ناول نگار اور فکشن رائٹر ہیں اور گذشتہ کئی برسوں میں لکھے گئے ناولوں میں دویہ بانی، وش منتھن، پانی، کینچلی اور مانجھی جیسے ناول خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
آنکھ میں لکنت کا مطالعہ میرے لیے ایک خوش گوار تجربہ ثابت ہوا کہ میں غضنفر کی تخلیقی سوچ کے ایک نئے محور سے آشنا ہوا.
عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی افسانہ نگار جب شاعری کرتا ہے تو اس کی نثر اور نظم کے ڈکشن میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا مگر یہ مفروضہ یا کلیہ غضنفر کی شاعری کے حوالے سے سچ ثابت نہیں ہوا۔ ان کے یہاں نثر اور نظم کی لفظیات میں نہ صرف واضح فرق ہے بلکہ لفظوں کو برتنے کی ہنرمندی بھی ان دونوں شعبوں میں مختلف اور منفرد ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں آزاد نظمیں، غزلیں اور نثری نظمیں شامل ہیں، جو ان کی وسیع تخلیقی سوچ اورفکری میلانات کی مظہر ہیں۔ آج جب کہ شاعری کو روایتی، ترقی پسند، جدید اور مابعد جدید تحریک اور رحجانات کے خانوں میں بانٹ کر ہمارے ناقدینِ شعر و ادب اپنی سہولت کے مطابق تخلیق کاروں کو اس میں فٹ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ غضنفر کی شاعری ان میں سے کس خانے میں فٹ ہوگی مگر میں پورے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی شاعری براہِ راست زندگی کے مسائل و مصائب سے مکالمہ کرتی نظر آتی ہے۔ سیاسی، سماجی اور تہذیبی فکر و شعور سے لبریز ان کی تخلیقی سوچ شاعری کا ایک ایسا منطر نامہ خلق کرتی ہے جس سے ادب کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔
اس لحا ظ سے دیکھیں تو ہمیں غضنفر کی شاعری کے ابعاد اور اعماق کو نہایت باریک بینی سے اپنے مطالعے کا حصہ بناکر ہی کوئی حتمی رائے قائم کرنی ہوگی۔ اور ان کی شاعری کے ڈکشن، اسلوب اور فکری نظام کو شاعری کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا کیونکہ انھوں نے کئی جگہ شاعری کے کلیشوں کو توڑ کر نئے اصول وضع کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں براہِ راست مکالمے کی صورتِ حال ان کی سوچ کے سروکار کو واضح کرتی ہے اور چونکہ ان کے یہاں کوئی پیچیدہ علامتی نظام بھی کار فرما نہیں لہٰذا ترسیل کے المیے کا کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی تہہ در تہہ معنویت کے امکانات ان کی شاعری کو مشکل بناتے ہیں. شاید یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں استعمال ہونے والے کئی الفاظ مثال کے طور پر جمن، الگو، موبائل، گیند، مینڈک، منگرو، جھگرو، منا، ساری اور اسکرٹ وغیرہ غزل کی تہذیبی وراثتوں کے حوالے سے بعض ناقدین کے نزدیک غیر شاعرانہ قراد دے دیے جائیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غضنفر کے یہاں شاعری کے موضوعات بالکل عصری اور relevant ہیں اور معاشرے کے ایک عام آدمی کے مسائل و مصائب سے عبارت ہیں اور میرے نزدیک اچھی شاعری کی خصوصیت بھی یہی ہے۔
غضنفر کی شاعری پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے واحد نظیر نے لکھا ہے کہ ’’غضنفر کربِ ذات کو کربِ کائنات اور کربِ کائنات کو کربِ ذات بنانے کا ہنر خوب جانتے ہیں، غضنفر کی غزلیہ شاعری حیات و کائنات کے مشاہدے کی رنگا رنگی کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں دنیا کے کئی روپ سامنے آتے ہیں. حق تلفی، بے انصافی، مصلحت کوشی، ضمیر فروشی اور رشتوں کی پامالی کا کرب زیادہ شدید ہے.‘‘ واحد نظیر کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے میں غضنفر کو اس سے آگے کا شاعر تصور کرتا ہوں اور یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ ان کی شاعری کا کینوس وسیع ہے، ان کا مشاہدہ اپنے گرد و پیش سے نکل کر آفاقیت حاصل کرلیتا ہے اور یہیں ان کے اندر کا افسانہ نگار اور ناول نویس اپنی امیجری اور محسوسات کو بروئے کار لاتے ہوئے بین الاقوامی سطح کے مسائل اور بکھرتے ٹوٹتے انسانی رشتوں کو اپنی شاعری کا حصہ بنانے میں پوری طرح کامیاب نظر آتا ہے۔
غضنفر کی شاعری میں ایک ایسے انسان کا تصور ہے جو مثالی نہیں بلکہ اپنے مسائل و مصائب سے نبرد آزما، زندگی سے برسرِ پیکار، اپنی ضرورتوں کے حصول میں ناکام ہوکر ذہنی انتشار کا شکار، گھر دفتر اور سڑکوں پر بکھرا ہوا ایک ایسا انسان ہے جسے بیک وقت اپنی معاشرتی اور انفرادی ذمہ داریوں کا احساس ہے، یہی نہیں بکھرتی ٹوٹتی تہذیبی قدروں کے درمیان زندگی کرتا ہوا ایک ایسا فرد غضنفر کی شاعری میں نظر آتا ہے جو مسلسل جدو جہد کرنے کی ایماندارانہ کوشش کرتا ہے.

دفتر میں ذہن، گھر میں نگہ، راستے میں پاؤں
جینے کی کوششوں میں بدن ہاتھ سے گیا

کسی کے پاس نہیں ہے یہاں غموں کا علاج
الجھ رہا ہے مریضوں سے اب مسیحا بھی

کئی ایسے بھی رستے میں ہمارے موڑ آتے ہیں
کہ گھر آتے ہوئے اپنے کو اکثر چھوڑ آتے ہیں

جنہیں ہم روز باہر چھوڑ آتے ہیں مکانوں سے
وہ آوازیں چلی آتی ہیں جانے کیسے بستر میں

ہم اپنے آپ کو شاید کہیں پہ کھو آئے
کہ آج شہر کا ہر فرد شاد ہم سے ہے

محولہ بالا اشعار کی تفہیم و تعبیر سے غضنفر کی گہری فکر کا اندازہ ہوتا ہے، ان کے یہاں شاعری میں ایک ایسا انسان زندگی کرنے کی جد و جہد میں مصروف نظر آتا ہے جو سائبر اور انٹرنیٹ عہد کی اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں، اپنی ضرورتوں اور زندگی کے تقاضوں کے درمیان کہیں گم ہو گیا ہے اور مسلسل اپنی ہی تلاش میں سرگرداں بھی، بے رشتگی، بے یقینی، تشکیک، خوف، بے چہرگی اور تہذیبی قدروں کے زوال کے سبب کھوتے ہوئے جذبوں اور انسانی رشتوں اور رفاقتوں کی کھوج میں اپنے وجود سے محروم ہوتے ہوئے انسان کا زندگی نامہ ہے غضنفر کی شاعری کا سارا سفر، اور یہی ان کی سوچ کے کینوس کو وسیع کرکے انھیں سنجیدہ عصری فکر سے نہ صرف ہم آہنگ کرتا ہے بلکہ اپنے معاصرین میں ممتاز و معتبر بھی کرتا ہے، حالانکہ انھوں نے خود کو شاعر کی حیثیت سے بہت زیادہ پروجیکٹ نہیں کیا مگر ان کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اظہار کا یہ وسیلہ بھی نہایت کامیابی سے برتا ہے۔
ان کی شاعری سے گذرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک درد مند انسان ہیں اور انھوں نے آفاقی مسائل کو بھی اپنے مشاہدے اور شعری تجربے کا نہ صرف حصہ بنایا ہے بلکہ اسے اپنی شاعری میں نہایت خوب صورتی سے برتا بھی ہے، آج دنیا کے کئی ملک دہشت گردی کی زد میں ہیں اور انسانی رشتوں اور آپسی بھائی چارگی اور خیر سگالی کے جذبے کی ناقدری اور پامالی گزشتہ چند برسوں میں جس قدر ہوئی ہے وہ شاید ماضی بعید میں بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ بدلتی ہوئی بین الاقوامی سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورت حال کے اسباب اور ان کے نتائج سے کسی بھی حساس شاعر کا صرفِ نظر ممکن ہی نہیں، لہٰذا غضنفر کی تخلیقی سوچ نے نہ صرف اس صورتِ حال کا اثر قبول کیا بلکہ اپنی شاعری میں بھی اسے خوب صورتی سے پیش بھی کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں:

گھر میں بیٹھے ہیں اور آنکھوں میں
عکس ٹھہرا ہے خوف و دہشت کا

سیاہی روز بڑھتی جارہی ہے
یہ کیسی روشنی پھیلی ہوئی ہے

اندھیرے میں اگر ہم چل سکے تو چل سکے ورنہ
ہمارے سامنے روشن کوئی رستہ نہیں ہوگا

آگے جانا بھی کٹھن پیچھے پلٹنا بھی محال
منتخب میں نے کیا جان کے رستہ ایسا

عجب صورت ہے خونی سلسلوں کی
زبانیں تھک گئیں ہیں خنجروں کی

خوف اور دہشت کے اس ماحول میں جینے پر مجبور لوگ، اپنے ملک سے ہجرت کرکے دیار غیر میں پناہیں ڈھونڈتے لوگ، اپنے لوگوں کو بلا سبب کھوتے لوگوں کا کرب ہمارے عہد کی ایک سنگین اور عبرتناک سچائی ہے، جس کا علاج بین الاقوامی برادری کے پاس بھی نہیں مگر غضنفر کو یہ احساس ہے کہ یہ سارا ماحول اور خون آلود فضا کے لیے چند لوگوں کا سیاسی اور معاشی مفاد ہے، جس کی نشان دہی اشارے کنایہ میں ہی سہی انھوں نے اس طرح کیا ہے:
مجمع تھا، ڈگڈگی تھی، مداری بھی تھا مگر
حیرت ہے پھر بھی کوئی تماشہ نہیں ہوا

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ غضنفر کی شاعری کا کینوس وسیع ہے، ان کی سوچ کئی دشاؤں میں سفر کرتی ہے، انھیں کئی اصناف سخن میں اظہار کا سلیقہ ہے، انھوں نے غزل کے علاوہ آزاد اور نثری نظموں میں بھی طبع آزمائی کی ہے، اچھی نظمیں لکھنا میرے نزدیک خاصا مشکل کام ہے کہ اس میں جس طرح کے انہماک، ارتکاز اور ڈکشن کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر شاعر کے بس کی بات نہیں مگر مجھے خوشی ہے کہ غضنفر نے بعض کامیاب نظمیں لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ انھیں اس شعبے میں بھی خاصی دسترس حاصل ہے۔
نئے آدمی کا کنفیشن، ہجرت، میری آنکھ خالی ہے، وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے اور لکھنئو تیرا میرا زیاں وغیرہ ان کی کامیاب آزاد نظمیں ہیں، جن میں انھوں نے اپنی تخئیلی اور تخلیقی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے، اپنی سوچ اور وژن کو نئی دشاؤں میں روشن کیا ہے۔ نظم ہجرت میں انھوں نے تلاش رزق میں ہجرت اور حضور ﷺ کے زمانے میں اسلام کے پھیلاؤ کے لیے ہجرت میں فرق واضح کیا ہے، جب کہ لکھنئو تیرا میرا زیان میں غضنفر نے اس خوب صورت شہر سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ خوابوں کے اس شہر کی لطافت، شیرینی، نغمگی اور خوب صورتی کا ذکر کرتے ہوئے وہ جذباتی بھی ہوئے اور اس شہر کی ختم ہوتی ہوئی تہذیبی وراثت کو بیان کر کے غمگین بھی ہوئے۔ نثری نظموں کے باب میں بھی انھوں نے کئی کامیاب نظمیں لکھی ہیں، جس میں مہا بھارت سب سے مؤثر اور پاور فل ہے، اس نظم کو انھوں نے مہا بھارت کو استعارہ بناتے ہوئے عصری تناظر میں لادین اور افغانستان کے حوالے سے ایک نیا سیاسی منظر نامہ پیش کیا ہے، جس کے لیے وہ یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں، انھوں نے مختصر نثری نظمیں بھی اس کتاب میں شامل کی ہیں جو یقینی طور پر اپنے مضبوط مواد اور content کے لحاظ سے سنجیدگی سے پڑھے جانے کا مطالبہ کرتی ہیں، ان مختصر نثری نظموں کے موضوعات بھی موجودہ صورتِ حال سے عبارت ہیں، ایک نظم ملاحظہ فرمائیں جس کا عنوان ’’ہم‘‘ ہے:

ہم ایسی جگہ رہتے ہیں
جہاں سبھی ہمارے لئے لڑتے ہیں
مگر عجیب بات ہے
کہ مرتے بھی ہمیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ہم )

ایک اور نظم شناخت بھی قابلِ توجہ ہے:

ماں باپ نے ہماری شناخت
قائم نہ رکھی
کہ ہم بچ جائیں
مگر ان کے اسی عمل نے
ہماری جان لے لی
کہ ہمارے اپنے
ہمیں پہچان نہ سکے (شناخت)

ان نظموں کا حجم اگر چہ مختصر ہے مگر اپنے موضوع کے اعتبار سے ان نظموں کا پھیلاؤ بہت ہے اور یہ پھیلاؤ ایک ایسی حقیقت کو بیان کرتا ہے جس سے انسانی برادری آج جوجھ رہی ہے اور اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اس طرح کی کئی نظمیں غضنفر کی زیرِ نظر کتاب "آنکھ میں لکنت‘‘ میں موجود ہیں، جو ان کی تخلیقی ہنر مندی کا روشن ثبوت ہیں، ان کی شاعری کے مطالعے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ان کی شاعری محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں اور نہ ہی منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہے، بلکہ انھوں نے شاعری کے سفر میں سنجیدگی اختیار کی اور اس صنف کا حق ادا کر دیا، تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اپنے افسانوں اور ناول کی طرح انھوں نے شاعری کو بھی وسیلۂ اظہار کی طرح اختیار کیا ہے اور وہ اس میں کامیاب رہے ہیں، ان کا شعری سفر جاری ہے، لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کتاب یعنی ’’آنکھ میں لکنت‘‘ سے آگے کا سفر طے کریں گے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:غضنفر کی غزلیہ شاعری کا اختصاص

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے