سیانا مجذوب

سیانا مجذوب

غضنفر

کچھ نوجوان اساتذہ مجھ سے ملنے میرے گھرآئے تو دورانِ گفتگو اُن سے میں یہ سوال بھی پوچھ بیٹھا:
’’لیکچرز کیسے لگ رہے ہیں؟‘‘
’’زیادہ تر تو پھسپھسے، بے مغز اور بے مصرف۔ بیشتر خطبوں میں وہی چربائی عملی کا رفرما ہوتا ہے جس سے آج کل کے مقالے تیار کیے جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہاں گوند سے چربوں کو صحیح جگہ پرچسپاں کردیا جاتا ہے اور یہاں گوند نہ ہونے کی وجہ سے چربے اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں اور خیال کا تانا بانا چرمرا جاتا ہے۔ کوئی کوئی تو رسورس پرسن ایسا بھی آتا ہے جس کے موادی غُبّارے کی ہوا پچیس تیس منٹ کے اندر ہی نکل جاتی ہے اور غُبّارے کے ساتھ ساتھ غُبّارہ اُڑانے والا بھی لجلجا ہوکر ایک طرف کو پڑ جاتا ہے۔‘‘
ان میں سے ایک نوجوان کے اس جواب پر چونک کر میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ پھر سے بول پڑا:
’’مگر آپ کا لیکچر ہمیں پسند آیا۔ اس لیے کہ وہ لیک سے ہٹ کر تھا اور آپ کے پڑھانے کا انداز بھی خاصا موثر تھا۔‘‘
’’یہ تو منہ دیکھے کی بات ہوئی۔‘‘ میں نے اپنا ردّ عمل ظاہر کیا تو اس نے نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا:
’’نہیں، یہ منہ دیکھے کی بات نہیں ہے بلکہ دل سے محسوس کیا ہوا سچ ہے۔ ہم منہ آگے اور پیٹھ پیچھے دونوں جگہ وہی کہتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ کا لیکچر پسند نہیں آیا ہوتا تو ہم اس کا بھی تیا پانچا کرڈالتے جیسا کہ اکثر کلاس روم میں کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اس کی بے باکی مجھے اچھی بھی لگی اور بری بھی۔ اچھی اس لیے کہ سچ بولنے کی اس میں ہمت تھی اور اس کا یہ بے لاگ تقابلی تبصرہ بلا کسی مصلحت کے سچ کو سامنے لارہا تھا اور بری اس لیے کہ میری تربیت جس طرح کے ماحول میں ہوئی تھی اور میری شخصیت جس نہج پر پروان چڑھی تھی اس کا تقاضا تھا کہ اس نوع کی بے باکی میری سماعت پر گراں گزرے اور مجھے ناگوار محسوس ہو۔ میں جس معاشرے سے آتا ہوں وہاں بے باکیاں دل و دماغ میں تو پنپ سکتی ہیں، زبان پر نہیں آسکتیں۔
جاتے وقت وہ مجھے اپنی ایک تازہ ترین کتاب بھی دے گیا۔ میں نے وہ کتاب کھولی تو اس بے باک لیکچرار کا تحریری منہ بھی کھلتا چلا گیا اور میرے اندر بار بار اقبال کے ایک شعر کے دونوں مصرعے الگ الگ ابھرتے رہے کبھی ع
چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ
اور کبھی
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند
اس نوجوان لیکچرار سے میری دوسری ملاقات اس کے شہر میں ہوئی. وہاں میرا ایک دفتری پروگرام چل رہا تھا جس میں وہ بھی شریک تھا۔ ایک دن اسے معلوم ہوا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے تو وہ میرے پاس آیا اور ضد کر کے مجھے ہوٹل سے نکال کر اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اس کی بیوی نے بھی میرا کافی خیال رکھا. بار بار میرے لیے پانی گرم کیا۔ صبح شام جوشاندہ ابالا۔ پرہیزی کھانوں کا اہتمام کیا اور میرا درد اور تنہائی بانٹنے کے لیے اپنے معمولات کو تج کر میرے پاس بیٹھی۔ مجھ سے باتیں کیں۔ہلکے پھلکے قصّے سنائے ادبی سیاست پر تبادلۂ خیال کیا اور وقفے وقفے سے گرم گرم چائے بھی پیش کرتی رہی۔ میاں بیوی دونوں نے وہ اپنائیت دکھائی کہ مجھے ذرا بھی محسوس نہیں ہوا کہ میں گھر سے باہر ہوں۔ ہر وقت یہ لگتا رہا کہ میں اپنے چھوٹے بھائی بہن کے درمیان ہوں۔ اس کے گھر پر قیام کے دوران میں نے خود سے اس کا موازنہ کیا تو اس معاملے میں خود کو چھوٹا پایا۔ شاید میں وہ نہیں کرسکتا تھا جو اس نے کیا تھا۔ کسی پرائے مرد کو مہمان بنانا اور اپنی غیر موجودگی میں اسے اپنی بیوی کے پاس گھنٹوں اکیلا چھوڑدینا کوئی آسان کام نہیں مگر اس نے یہ مشکل کام آسانی سے کیا اور مجھے یہ نکتہ بھی سمجھا گیا کہ ذہن کشادہ ہو اور دل میں تنگی نہ ہو تو کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے اور بنا بولے یہ بول بھی دل میں اُتار گیا کہ بھروسا اعتبار کو جنم دیتا ہے اور اعتبار سے بہاریں ملتی ہیں، کھوتی نہیں۔ تقریباً پانچ چھہ دنوں کا یہ قیام میرے لیے برسوں کا تجربہ گاہ ثابت ہوا۔ گھر بیٹھے بیٹھے مجھ پر زندگی کے اسرار منکشف ہوتے رہے:
ایک دن اس نوجوان لیکچرار کی بیوی ناشتے کے دوران مجھ سے بولی ’’غضنفر صاحب! آپ بالکل صوفی لگتے ہیں ۔‘‘
اس کے اس ریمارک پر میں چونکا تو اس نے وضاحت کی:
’’آپ کی نگاہیں ہمہ وقت مراقبے میں رہتی ہیں جب کہ عام طور پر مردوں کی نظریں بھٹکتی رہتی ہیں اور دور رہ کر بھی قریب سے چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ میرے شوہر کے دوسرے دوست بھی آتے رہتے ہیں اور قیام بھی کرتے ہیں مگر ان میں سے کسی کے ساتھ بھی میرا یسا مشاہدہ نہیں رہا جیسا کہ آپ کے سلسلے میں ہوا۔ مجھے یہ مشاہدہ یونیک بھی لگا اور اچھا بھی۔‘‘
اس کے اس مشاہدے سے مجھے اپنی شرافت کا پتا تو چلا ہی یہ علم بھی ہوا کہ بعض آنکھیں اپنوں کے گھر کو بھی نہیں بخشتیں جب کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر شکار کرتی ہے اور یہ بھی کہ عورت کتنی آسانی سے نگاہِ نیک و بد کو تاڑ لیتی ہے اور یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ اعلا ظرف کم ظرفوں اور کم ظرفیوں کو سمجھنے کے باوجود اپنے ظرف کو تنگ نہیں کرتا۔
اس پروگرام کے بعد وہ میرے کئی اور پروگراموں میں بھی شریک ہوا۔ اپنے شہر میں بھی اور شہر کے باہر بھی۔ ہر جگہ وہ میرے پروگرام میں دل، دماغ، آنکھ، کان، زبان سب کے ہمراہ شامل ہوا۔ کبھی اس نے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنا دماغ گھر پر چھوڑ آیا ہے یا دل کہیں اور رکھ آیا ہے۔ اپنی آنکھیں کہیں اور جمادی ہیں یا اپنے کان کہیں اور لگادیے ہیں یا آنکھیں تو کاغذ پر ہیں مگر زبان کسی اور کے کان میں پڑی ہوئی ہے۔ اس کے مکمل انہماک کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہمارے نتائج بہتر نکل آتے اور کم تگ و دو میں بھی میری سرخ روئی بڑھ جاتی۔ سرکاری پروگراموں میں فنانسیل دباؤ بہت ہوتا ہے اور یہ دباؤ کبھی کبھی تو اتنا بھاری ہوجاتا ہے کہ دل و دماغ دب کر رہ جاتے ہیں۔ نسیں اینٹھ سی جاتی ہیں۔ اعصاب چرمرا جاتے ہیں۔ اس کی موجودگی میں اس دباؤ سے بہت حد تک مجھے نجات مل جاتی.
ایک مرتبہ میرے ایک دوست نے مجھ سے شکایت کی کہ میں ایک ہی آدمی کو بار بار پروگرام کیوں سونپتا ہوں، جواب میں میں نے صرف اتنا کہا:
’’اب سے یہ پروگرام میں آپ کو سونپتا ہوں۔ کل 9بجے سے پہلے پہلے میرے ہوٹل آجائیے۔ آتے وقت دو چار گلدستے بھی لیتے آئیے گا اور کچھ ریز گاری بھی۔ باقی کیا کرنا ہے یہ کل صبح میں آپ کو سمجھا دوں گا اور ہاں، اس تیاری کے ساتھ آئیے گا کہ شام کے سات آٹھ بجے سے پہلے آپ کو فرصت نہیں مل پائے گی اور یہ سلسلہ کم سے کم ہفتہ بھر تو ضرور چلے گا۔‘‘
میری بات سن کر وہ بے دلی سے بولا:
’’باقی سب تو ٹھیک ہے مگر یہ وقت والا مسئلہ بڑا ٹیڑھا ہے۔ اتنا وقت میں چاہوں بھی تو نہیں دے سکتا۔‘‘
اپنے اس دوست کی اس بات پر میں نے اس سے کہا،
’’مگر اتنا وقت وہ شخص مجھے دیتا ہے بلکہ اکثر اس سے زیادہ بھی دیتا ہے۔ صبح جلسہ گاہ کی نشستوں کے انتظام سے لے کر اخبارات کے لیے رپورٹ تیار کرنے تک میرے ساتھ رہتا ہے اور اکثر مجھے رات کا کھانا کھلاکر رخصت ہوتاہے۔‘‘
’’کیا وہ سچ مچ ایسا کرتا ہے؟ ‘‘ اس نے چونکتے ہوئے سوال کیا۔
"آپ کو یقین نہیں آرہا ہے تو کل صبح ساڑھے آٹھ بجے آپ میرے ہوٹل آجائیے اور رات میں بھی ایک چکّر لگاجائیے، آپ کی حیرت کا جواب آپ کو مل جائے گا۔‘‘
’’تب تو تم نے صحیح آدمی کا انتخاب کیا ہے، میں اپنی شکایت واپس لیتا ہوں‘‘
ایک بار اس کے کسی قریبی دوست نے میری بیوی سے جو ایک پروگرام میں میرے ساتھ تھیں کہا کہ یہ غضنفر بھی عجیب ہیں۔ اکاونٹ کا کام بھی اسے سونپ دیا۔‘‘میری بیوی نے ان سے پوچھا کہ کوئی خاص بات ہے کیا؟ اس پر وہ صاحب ہکلاتے ہوئے بولے،
’’نہیں نہیں، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یوں ہی یہ جملہ میرے منہ سے نکل گیا۔ دراصل اس کام میں نزاکتیں بہت ہوتی ہیں نا شاید اس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجہ خواہ جو بھی رہی ہو میری بیوی کو ان صاحب کا یہ جملہ کچھ اٹ پٹا سا لگا اور جب میں نے سنا تو مجھے بھی کچھ عجیب سا لگا اور نہ چاہتے ہوئے بھی میری نگاہیں اس پروگرام کے اکاؤنٹ میں جا الجھیں مگر حساب کتاب میں کوئی بھی عدد مجھے ادھر سے اُدھر نظر نہیں آیا. لیکھا جوکھا، جوڑ، گھٹاؤ، ضرب، تقسیم کسی میں کوئی الجھاؤ نہیں تھا۔ سب کچھ صاف صاف اور واضح تھا۔ جب میں نے یہ واقعہ اسی شہر کے اپنے کسی اور دوست کو تفصیل سے سنایا تو وہ بولا ’’ممکن ہے اس صاحب کا کوئی مشاہدہ رہا ہو اور آپ کے معاملے میں ڈائن کے سات گھروں والا مثل حائل رہا ہو اس پر میں نے دوبارہ اپنے آس پاس سے ذرا ہٹ کر غور کیا تو یہ ڈائن مجھے دور دور تک کہیں نظر نہیں آئی. میں نے تو یہ دیکھا کہ جتنا اُسے اس کے کاموں کا معاوضہ ملتا تھا اس سے کہیں زیادہ وہ مجھ پر اور دوسرے مہمانوں پر خرچ کردیتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ پروگرام کی تصویریں جو فرداً فرداً لوگوں کو بھیجتا تھا ان کے اخراجات بھی وہ خود ہی برداشت کرتا تھا۔ مجھے دُکھ بھی ہوا کہ اندیشے کا ڈنک مجھ میں پیوست ہوا مگر اس سے زیادہ خوشی بھی ہوئی کہ وہ ڈنک رگ و ریشے میں زہر اُتارے بنا ہی باہر نکل گیا اور میرے استاد کے اس جملے نے ٹھنڈک کا کام کیا کہ اپنی اہمیت بڑھانے اور دوسرے کی وقعت گھٹانے کے لیے بھی کچھ شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ اس میں کسی بدنیتی کا دخل نہیں ہوتا۔
میرے پروگراموں کے دوران اس کی انتظامی صلاحیتوں کا سکّہ تو چمکا ہی اس کے علمی استعداد کا جوہر بھی خوب دمکا، اور اس کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو بھی ابھر کر سامنے آیا جس پر مجھے تو حیرت ہے ہی خود اسے بھی تعجب ہوتا ہوگا۔ نجی نشستوں میں اس کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی اردو میں بھوجپوری اپنی ٹانگ پھنساتی رہتی ہے اور علاقائیت قدم قدم پر اسے لنگڑی مارتی رہتی ہے اور اس مار سے کبھی فعل مجروح ہوتا ہے، کبھی مفعول پر ضرب لگتی ہے اور کبھی فاعل لڑکھڑا پڑتا ہے اور کبھی کبھی تو حرفِ جار یا حرفِ ربط کی ٹانگیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور جملہ بیٹھنے لگتا ہے مگر وہ شخص جیسے ہی کسی ادبی یا علمی محفل میں بولنے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی اردو ایسی رفتار پکڑتی ہے جیسے وہ بھوجپور کی کسی پگڈنڈی پر نہیں بلکہ لکھنؤ یا پرانی دلّی کی کسی شاہ راہ پر دوڑ رہی ہو۔ جملے ایسے موزوں، مر بوط اور معنی خیز نکلتے ہیں جیسے اسٹیج پر کوئی انسان نہیں بلکہ کمپیوٹر کھڑا ہو اور اس کے اندر موضوع سے متعلق مواد کسی اچھے زبان داں یا بہتر انشا پرداز نے فیڈ کیا ہو۔
اس شخص کی علمی گفتگو اور اس کی تحریروں میں بھی وکیلانہ وصف نظر آتا ہے۔ یہ وصف اس کے علمی دعوے کی ڈور کو دیر اور دور تک تھامے رہتا ہے۔ اسے کسی بھی موڑ پر کٹنے نہیں دیتا۔ وہ اپنی علمی یا انتقادی پتنگ کے لیے ایک ایسا وسیع آسمان تلاش کرتا ہے اور اپنی ڈور کو مواد و مآخذ اور دلائل و شواہد کے مانجھے سے اس قدر مانجھتا ہے کہ اس کی پتنگ اونچی اڑان تو بھرتی ہی ہے آس پاس کی نئی پرانی پتنگوں کو کاٹتی بھی جاتی ہے۔
کبھی کبھی وہ اپنے اس وصف کو اتنا دھار دار اور جارحانہ بنادیتا ہے کہ وہ ضرر رساں بھی بن جاتا ہے اور نیّت نہ ہونے کے باوجود کسی کے ذہن و دل کو چھلنی کردیتا ہے۔ اس کی تحریر کے اس تیور کے اسباب پر میں نے غور کیا تو مجھے یہ نہیں لگا کہ یہ تیور کسی خفگی، رنجش اور عداوت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے بلکہ مجھے یہ اس رد عمل کا نتیجہ معلوم ہو اجو کسی آئیڈیل کے بکھرنے یا اس آئیڈیل کے نظر نہ آنے کے سبب ظہور میں آتا ہے اور کبھی سچ بولنے کی بیماری کا بخار لگا جو چڑھتا ہے تو شدّتِ تپ سے دوسروں کو بھی تپا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اس بے باکانہ اور جارحانہ تیور کو دکھانے میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ زد میں آنے اور زد و کوب ہونے والا اس کی راہ میں کبھی زرفشانی بھی کرتا رہا ہے۔
اسے کتابیں جمع کرنے کا جنون ہے. وہ جس شہر میں بھی جاتا ہے بوریاں بھر کر وہاں سے کتابیں لاتا ہے اور اس انہماک سے کتابوں کی بوریاں ڈھوتا ہے جیسے وہ نوٹوں کے بنڈل ہوں جب کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمیں اگر دوچار سے زیادہ کتابیں تحفے میں مل جاتی ہیں تو ہم پریشان ہو اُٹھتے ہیں اور حتی الامکان ان سے بچنے کی سعی کرتے ہیں۔ جیسے ہمارے تھیلے میں کتابیں نہیں چوہے یا بچھو گھُس گئے ہوں۔ اگر ہم پر اخلاقی دباؤ نہ ہو تو ہم انھیں وہیں کہیں کسی کونے میں چھوڑ آئیں۔
اس کا یہ جنون کتابیں جمع کرنے اور اپنی لائبریری کو ثروت مند بنانے تک محدود نہیں ہے بلکہ کتابوں کے کھولنے اور انھیں گھنٹوں کھولے رکھنے میں بھی نظر آتا ہے۔ اس کی یہی دیوانگی اسے فرزانگی عطا کرتی ہے اور اسی کے سبب اس کی تحریریں ایک ایک کی مرکزِ توجہ بنتی ہیں۔
اس کی تحریریں بتاتی ہیں کہ وہ کسی موضوع کو ہلکے میں نہیں لیتا بلکہ ہر موضوع کو وہ بھاری سمجھتا ہے اور اُسے بارِ عشق کی طرح اپنے ذہن و دل پر اُٹھا تا ہے۔اس کا قلم جب اُٹھتا ہے تو کسی ایک موڑ تک جاکر نہیں رکتا بلکہ ہر گلی کوچے سے گزرتا ہے اور موضو ع کے تمام نشیب و فراز تک پہنچتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر سرسید کی طرح چھینکوں پر چڑھنے اور رسیوں کے سہارے بلندیوں تک جانے کا جو کھم بھی اُٹھاتا ہے۔ شاید اسی لیے اس کی تحریریں بعض ذہنوں پر گراں بھی گزرتی ہیں اور ان کے دلوں کو بھاری کردیتی ہیں۔
وہ جو بھی لکھتا ہے نہایت محنت و مشقت سے لکھتا ہے۔ اس کے لیے مشق و مزاولت سے کام لیتا ہے۔ لکھنے سے پہلے بہت کچھ پڑھتا ہے اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھتا ہے. پڑھتے وقت اس کی نگاہیں ہمیشہ اس نکتہ کی تلاش میں رہتی ہیں، جسے اُسے پانا ہوتا ہے۔ راہ کی ادبی و فنی پرفریبیاں بھی اسے روک نہیں پاتیں۔ وہ وہیں جاکر دم لیتا ہے جہاں اس کا آخری پڑاؤ ہوتا ہے۔ارجن کی طرح ہر وقت اس کی نگاہ بھی مچھلی کی آنکھ پر ٹکی رہتی ہے اسی لیے اس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا۔
وہ سریس سے سریس سچوئیشن میں بھی اپنا آپا نہیں کھوتا۔ گرد بادی فضا میں بھی ثابت قدم رہتا ہے۔ نامساعد حالات کا نہایت اطمینان سے مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور بادِ مخالف سے آخری دم تک جو جھتا رہتا ہے۔ اپنی جیت سے نہ زیادہ خوش ہوتا اور نہ اپنی ہارسے بہت زیادہ رنجیدہ ۔ اس کی شخصیت کا یہ متوازن پہلو اسے ٹوٹنے نہیں دیتا. پسپائی میں بھی اسے جوڑے رکھتا [ہے]۔
اس کی تحریریں اس لیے بھی با وزن محسوس ہوتی ہیں کہ ان کا مال و متاع صرف اردو تک محدود نہیں رہتا بلکہ ان میں ہندی اور انگریزی ادب کے گنجہائے گراں مایہ کا سرمایہ بھی شامل ہوتا ہے اور یہ سرمایہ وہ کسی کنجیکا کے سہارے حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنی اس کلیدِ زبان سے خزانے کو کھول کر نکالتا ہے جس میں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی کے ابجد بھی اچھی طرح کھُد گئے ہیں۔
وہ ایسا لیکچرار ہے جس کے گھر پر بھی شاگردوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو صرف شکشا ہی نہیں دیتا بلکہ ان کے ہاتھوں میں ایسے استر شستر بھی تھما دیتا ہے جن سے وہ زندگی کے مختلف سمتوں میں میدان مارتے چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کا یہ مشاہدہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو درون آچاریہ کی طرح شکشا دیتا ہے مگر بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اکلویہ کی طرح انگوٹھا بھی کٹوالیتا ہے۔ کتنے انگوٹھے کٹے یہ منظر تو کبھی دکھائی نہیں دیا البتہ اس کے آس پاس کچھ ہاتھ انگوٹھا دکھاتے ہوئے ضرور دکھائی پڑے۔
وہ شاگردوں کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقین کے لیے بھی فکر مند رہتا ہے۔ اس نے تقرری کے سلسلے میں ایک شخص کی مجھ سے پرزور سفارش کی جو ہر طرح کی مضبوطی کے باوجود برسوں سے لڑکھڑاتا پھر رہا تھا۔ اس سفارش کے پیچھے اس کی غرض صرف اتنی تھی کہ شاید وہ اس آدمی کو لڑکھڑاتا اور ٹھوکریں کھاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا جو چلنے بلکہ دوڑنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
وہ محبوباؤں کی طرح روٹھتا ہے اور عاشقوں کی طرح گھٹتا ہے۔ خفگی میں اس کے لب تو بند ہوجاتے ہیں مگر دوستوں کے لیے اس کے دل کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ ناراضگی کے عالم میں بھی وہ اپنے دوستوں کے سارے کام خاموشی سے انجام دیتارہتا ہے. اس کے ان کاموں کی روداد بھی کسی نہ کسی طرح مشتہر ہوتی رہتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے اپنے لب نہیں کھلتے۔ اس معاملے میں وہ واقعی محبوب بن جاتا ہے۔ اس کے کچھ دوست تو اُسے منا لیتے ہیں جو محبوب کی فطرت اور نفسیات سے واقف ہوتے ہیں۔ مگر کچھ اُسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں یا وہ خود بھی اسی کی طرح محبوب بن جاتے ہیں۔ ایسے میں اُسے عاشق بننا ہی پڑتا ہے۔ یہ عمل اس کے لیے خاصا جبریہ ثابت ہوتا ہے مگر اس سے اس کی دوستی کا ثبوت بھی فراہم ہوتا ہے۔
اس شخص کی بے باکانہ محویت کے منظر یوں تو آئے دن دکھائی دیتے رہتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں حیدرآباد کے ایک سفر کے دوران ایک ایسا مشاہدہ بھی ہوا کہ آنکھیں حیرت زدہ ہوکر رہ گئیں۔ اس منظر میں دریائے گنگا کا شناور بحرِ ہند کے موتی چننے میں اس طرح غرق ہے کہ پہلے سے جمع لو لو و مرجان سے بھی بے نیاز ہوگیا ہے۔ ارجن کی طرح اس کی نظریں مچھلی کی آنکھ پر اس طرح مرکوز ہوگئی ہیں کہ آس پاس کا ماحول تو کیا خود مچھلی بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔
میں جب جب اسے قریب سے دیکھتا ہوں تو وحید اختر کا یہ شعر ؎
ٹھہری ہے تو اک چہرے پہ ٹھہری رہی برسوں
بھٹکی ہے تو پھر آنکھ بھٹکتی ہی رہی ہے
میرے ذہن میں گونجنے لگتا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ بھٹکنے والی آنکھیں پھر سے کہیں پر ٹھہر جائیں کہ یہ ٹھہراؤ ہی بھٹکاؤ سے بچاسکتا ہے۔ جسم و جان کو اضطراب سے نجات دلاسکتا ہے۔ مانا یہ کام مشکل ہے مگر ٹھان لینے سے تو آسمان بھی زمین پر اُتر آتا ہے اور ٹھان لینا تو اسے خوب آتا ہے۔ ایک بار اس نے ٹھان لیا کہ روزہ رکھنا ہے تو رکھا اور اس طرح رکھا کہ کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ رمضان کے روزے رکھوانے کا ثواب تو میں لے چکا ہوں کیا پتا آنکھوں کے روزے کا ثواب بھی میرے اعمال نامے میں لکھ جائے.
سرسید احمد خاں کو ٹیڑھی نظر سے دیکھنے، اپنے محسن پروفیسر وہاب اشرفی کو نہ بخشنے اور دیگر کئی مضبوط صفوں میں گھس کر توڑ پھوڑ مچانے اور کچھ نئی پرانی کتابوں کی سیاہی کو روشن کرنے والا صفدری وصف سے مملو یہ ارجن کوئی اور نہیں، خاندانِ قادریہ کا وہ سیانا مجذوب ہے جسے نہ ستائش کی تمنا ہے، نہ صلے کی پرواہ اور نہ ہی اپنے ٹوٹنے بکھرنے کا کوئی خوف۔ کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ صفدری صفات رکھنے اور راہِ پُر خطر پر مستانہ وار چلنے والا یہ امام کون ہوسکتا ہے؟
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:علامت اور چند علامتی کہانیاں
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:صفدری قلم کی تصویریں: "جانے پہچانے لوگ"

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے