جن لوگوں سے ہم متاثر ہوتے ہیں ہمیں بالکل ویسا نہیں بن جانا چاہیے: ڈاکٹر طیبہ قدوائی

جن لوگوں سے ہم متاثر ہوتے ہیں ہمیں بالکل ویسا نہیں بن جانا چاہیے: ڈاکٹر طیبہ قدوائی

سرسید احمد خاں کے رفیق سید زین العابدین کی پوتی ڈاکٹر طیبہ عابدین قدوائی سے علیزے نجف کی ایک ملاقات


انسان کے مثبت افکار و خیالات اور نظریات ہی اس کی اصل پہچان ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ افراد و معاشرے پہ اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں، اس کے ذریعے ان کی نشوونما ہوتی ہے، صاحب فکر لوگ قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بنیاد کے پتھر ہوتے ہیں، بنا کسی نمود و نمائش کے افراد کی تعمیر و تشکیل میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں، ڈاکٹر طیبہ عابدین قدوائی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جنھیں قوم کی خدمت اور علم سے محبت کا جذبہ ورثے میں ملا ہے، ان کا خاندان جدید و قدیم تعلیم کا بہترین امتزاج رکھتا ہے، ان کے والد کے دادا زین العابدین بانیِ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سر سید احمد خاں کے قریبی رفقا میں سے تھے جنھوں نے اپنی قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا. وہ مسجد میں سرسید احمد خان کے پہلو میں ہی مدفون ہیں. ان کا خاندان اعلا تعلیم یافتہ افراد پہ مشتمل رہا، ان کے والد آئی۔ اے۔ایس۔ آفیسر تھے، تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان کے بیشتر لوگ پاکستان ہجرت کر گئے، ڈاکٹر طیبہ قدوائی نے گھر پہ والدہ سے مذہبی علوم حاصل کیے اور عصری تعلیم کانونٹ سے حاصل کی، پھر انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم۔بی۔بی۔ایس۔ کیا، ان کے شوہر ماہر ارضیات (geologist) ہیں. شادی کے بعد وہ عمان منتقل ہوگئیں. 45 [برس] تک وہیں مقیم رہیں. بہ حیثیت ڈاکٹر فرائض بھی انجام دیتی رہیں، قوم کی خدمت کا جذبہ ان کے اندر موجود تھا، اس لیے انھوں نے عمان سے اپنے بچوں کے پاس امریکا ہجرت کرنے کے بجائے ہندستان میں مستقل قیام کرنے کا فیصلہ کیا، عیش و عشرت بھری زندگی چھوڑ کر وہ لکھنؤ میں قیام پزیر ہوئیں اور مارننگ اسٹار سوسائٹی کے نام سے ایک رفاہی ادارہ قائم کیا، جہاں پہ غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہوئے دیگر سماجی، ملی، تعلیمی کام کر رہی ہیں، نمود و نمائش سے ہمیشہ دور رہیں. ڈاکٹر طیبہ قدوائی انتہائی سادہ مزاج، مخلص اور علم پسند خاتون ہیں. پہلے پہل تو وہ انٹرویو دینے سے گریز کرتی رہیں لیکن میرے اصرار نے انھیں راضی کر ہی لیا. اس وقت وہ میرے سامنے ہیں اور میرے ذہن میں سوالات کی لہریں اٹھ رہی ہیں. یقینا آپ بھی متجسس ہوں گے، تو آئیے ہم اب بنا تاخیر کے سوالات کی طرف بڑھتے ہیں.
علیزے نجف: سب سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کا اور آپ کے آبا و اجداد کا تعلق ہندستان کے کس خطے سے رہا ہے. اس خطے کی تاریخی حیثیت کیا رہی ہے اور اس وقت آپ کہاں پہ قیام پذیر ہیں؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ہمارا نام طیبہ عابدین تھا جو شادی کے بعد طیبہ عابدین قدوائی ہو گیا۔ پیشے کے اعتبار سے ہم ڈاکٹر ہیں لیکن اب عمر کی اس منزل میں ہم بیوی ماں، نانی اور دادی ہیں۔
فی الحال ہم سماجی کاموں میں منہمک ہیں۔ والد کی طرف سے ہمارے اجداد کا تعلق مشرقی اتر پردیش کے جون پور ضلع میں قصبہ مچھلی شہر سے ہے، جو مشہور شاعر سلام مچھلی شہری کا بھی وطن تھا۔ کہتے ہیں جون پور فیروز شاہ تغلق نے بسایا تھا، جو اس زمانے میں شیراز ہند کے نام سے مشہور تھا۔ یہی شرقی بادشاہوں کا دار الحکومت بھی رہا اور اسلامی تعلیمات کا مر کز بھی رہا ہے۔ لیکن ہمارے پر دادا جناب زین العابدینؒ نے جو سر سید کے انتہائی قریبی دوست تھے انھی کی در خواست پر انیسویں صدی کے اواخر میں مچھلی شہر چھوڑ دیا اور علی گڑھ میں بس گئے۔
ہماری ننیہال کا تعلق مغربی اترپردیش میں ضلع مظفر نگر کے قصبے تھانہ بھون سے ہے۔ ہمارے نانا نے اپنی پوری زندگی دہلی میں گذاری اور اخیر عمر میں تھانہ بھون منتقل ہو گئے۔ تھانہ بھون اسلامی اور علمی خدمات کے لیے مشہور ہے. یہاں کے علماے ربانی جن میں سب سے مشہور مولانا اشرف علی تھانوی  تھے حکیم الامت کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ان کی خانقاہ مرجع خلائق رہی، جہاں وہ مسلمانوں کی تربیت فرماتے تھے۔ ہماری والدہ حضرت مولانا تھانوی کی بھتیجی تھیں۔ اس وقت ہم خود  اپنے رفاہی کاموں کے سلسلے میں لکھنؤ میں مقیم ہیں۔
علیزے نجف: آپ کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ آزادی کے زمانے میں آپ کے خاندان نے آزادی کے حصول کے لیے کس طرح کی خدمات انجام دیں؟ کیا تقسیم ہند کے نتیجے میں آپ کے خاندان میں سے کسی نے ہندستان سے ہجرت کی تھی؟ کیا اس وقت ہجرت کرنے والوں نے بہ خوشی ہجرت کی تھی یا انھوں نے بےبسی کی حالت میں یہ قدم اٹھایا تھا؟ اس کے اثرات نے ان کی نفسیات کو کیسے متاثر کیا؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ملک کی آزادی سے بہت پہلے سے ہمارے والد سرکاری ملازمت میں تھے۔ ہمارے دادا بھی سِوِل سروس میں تھے اور ہمارے نانا پولیس میں ملازمت کرتے تھے۔ بعد میں ہمارے والد بھی سِوِل سروس میں آ گئے۔ ہمارے نانا نے تقسیم وطن کے بعد ہندستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا، لیکن ہمارے دادا اپنے آدھے خاندان یعنی اپنی دوسری بیوی، ایک بیٹے اور بھائی اور دو بیٹیوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔ لیکن ہمارے والد نے اپنے ایک بھائی اور ایک شادی شدہ بہن کے ساتھ ہندستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا، جب کہ ان کے اکثر دوست اور بچپن کے ساتھی سب نئے ملک کی طرف ہجرت کر گئے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ ان فیصلوں کا محرک کیا تھا۔ وہ ایک انتہائی سخت اور انتشار کا دور تھا لیکن ہر شخص نے اپنے حالات اور درپیش عوامل سے متاثر ہو کر فیصلے کیے جن سے ان کی زندگی میں ایسا انقلاب آ گیا جس کے نتیجے میں خاندان بٹ گئے، لوگ آ نکھوں میں آنسو اور دل میں درد لیے اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے۔
اُن حالات میں انھوں نے جو فیصلے کیے آج ہم ان پر سوالات اٹھا سکتے ہیں لیکن ان غیر معمولی حالات میں ہر ایک نے اپنے حالات اور ترجیحات کی بنیاد پر فیصلے کیے۔ ہمارے والد نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ خصوصاً اتر پردیش سے بڑی تعداد میں پاکستان جا رہا ہے جس کے سبب نئے ہندستان میں تعلیم یافتہ مسلمان سرکاری افسروں کا فقدان ہو جائے گا جو ہند کے مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا تھا، اس لیے انھوں نے اسے اپنی اخلاقی ذمے داری سمجھتے ہوئے ہندستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ جو لوگ یہاں سے گئے ہم انھیں بھی الزام نہیں دے سکتے، ممکن ہے ان کے ذہن میں یہ بات ہو کہ نئے ملک کی تعمیر میں ملک کو ان کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ دونوں ممالک کے تعلقات اس حد تک خراب ہو جائیں گے کہ جدا ہو نے کے بعد اپنے خاندان والوں سے ملنا ہی ایک مسئلہ بن جائے گا۔ ہمارے والد کے سلسلے میں تو یہ بات یقینی ہو گئی، یعنی ہجرت کے بعد وہ اپنے اس بھائی سے کبھی نہیں مل سکے جو بعد میں وہاں کی سول سروس میں شامل ہو گئے تھے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں جہاں ایک بھائی سرحد کے ایک طرف تھا تو دوسرا بہنوئی سرحد کی دوسری طرف ملکی خدمات انجام دے رہا تھا۔ لیکن دونوں طرف یہ خوف بھی تھا کہ وہ ایک دوسرے کی موت کا سبب نہ بن جائیں۔
علیزے نجف: تعلیم و تعلم انسان کی شخصیت کو گروم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، تعلیم و تعلم آپ کی ذات کا جزو لازم ہے. آپ نے اسکول کی سطح پہ اس سفر کی ابتدا کہاں سے کی اور اس کی آخری منزل کیا تھی اور اس تعلیمی مرحلے کو آپ نے کن اصولوں کے ساتھ طے کیا؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ہماری ابتدائی تعلیم کر سچن مشنری اسکول سے شروع ہوئی۔ یہ اسکول اتر پردیش کے مختلف شہروں اور قصبوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ ہمارے والد چونکہ آئی اے ایس آفیسر تھے اس لیے ہر چند سال بعد ان کا تبادلہ کسی دوسرے شہر میں ہو جاتا تھا جس کے سبب ہمارے اسکول بھی مستقل بدلتے رہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمارے بڑے بھائی نور العابدین کو لکھنؤ کے ایک بورڈنگ اسکول میں داخل کروا دیا گیا تاکہ ان کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ لیکن ہم اور ہماری چھوٹی بہن مرحومہ سیدہ اپنے والدین کے ساتھ مشنری اسکولوں میں شہروں شہروں گھومتے رہے۔ اس زمانے میں مشنری کی راہبائیں عموماً یورپین یا اینگلو انڈین ہوا کرتی تھیں، جو طلبہ کی شخصیت سازی میں اہم کر دار ادا کرتی تھیں، جس میں اچھے اخلاق، اقدار کی پاس داری کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں لیاقت پیدا کرنا شامل تھا۔ خوش قسمتی سے ہمارے گھر میں ہماری والدہ تھیں جو خود نظم و ضبط کی پابند تھیں اور اسی چیز کا التزام انھوں نے اپنے بچوں کی تر بیت میں بھی رکھا۔ ساتھ ہی وہ ہمیں اسلامی تعلیمات سے بھی کما حقہ واقف کرواتی رہتی تھیں۔ اس لیے ہم نے کلام اللہ، اسلامی فرائض کی تعلیمات اور اردو اپنی والدہ سے گھر ہی میں سیکھی۔ اس اعتبار سے ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ اپنے والدین کے بھی شکر گذار ہیں کہ ہمیں اعتدال کے ساتھ دنیوی اور دینی دونوں تعلیمات سے روشناس کر وایا۔
اسکول کا سارا زمانہ ہمارا مختلف شہروں میں گذرا. جب ہمارے والد کا تبادلہ چھوٹے اضلاع سے بڑے شہروں جیسے بریلی یا لکھنؤ وغیرہ میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہا اور پھر آخر کار ہم دہلی پہنچ گئے۔ ہماری ثانوی اسکولی تعلیم دہلی کے مشہور کانونٹ اسکول میں ہوئی۔ اس اعتبار سے ہم خوش قسمت رہے کہ عصری تعلیم اچھے اسکولوں میں حاصل کرتے رہے جب کہ دینی تعلیم سے اپنی والدہ کی نگہداشت میں گھر پر ہی بہرہ مند ہوتے رہے۔
علیزے نجف: آپ کے طالب علمی کے زمانے میں تعلیمی اداروں کا معیار کیسا تھا؟ کیا آپ اس سے مطمئن تھیں یا اس میں کسی طرح کی تبدیلی دیکھنے کی خواہاں تھیں اور آج جب کہ کئی دہائیاں گزر چکی ہیں اس وقت کے تعلیمی نظام کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: مشنری اسکولوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ طلبہ کوضبط و نظم، انکساری، سخت محنت اور جد و جہد کی تعلیم دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ روابط عامہ اور مواصلات کی صلاحیت بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ جہاں وہ مطالعہ کا ذوق پیدا کرتے ہیں وہیں مضمون نویسی اور تقریری صلاحیتوں کو بھی جِلا بخش دیتے ہیں۔ گو انگریزی زبان میں مہارت ایک طالب علم کو اعلا تعلیم حاصل کرنے میں معاون ہوتی ہے لیکن اس تعلیم کا بنیادی مقصد صرف زبان سکھانا نہیں بلکہ طالب علم کی شخصیت سازی ہوتا ہے تاکہ وہ کسی بھی معاشرے میں اجنبیت نہ محسوس کرے۔ البتہ ہمیں اس کا افسوس رہے گا کہ ہم نصابی کتب کے ذریعے اردو کی با قاعدہ تعلیم اسکول میں نہیں حاصل کر سکے۔
یہ صحیح ہے کہ آزادی کے بعد کے تیس سے چالیس سالوں میں تعلیمی میدان میں زبر دست تبدیلیاں ہو گئیں، جن کے تحت طلبہ کی متوازن شخصیت سازی کا کام تقریباً ختم ہو گیا۔ بلکہ تعلیم کا مقصد یہی رہ گیا کہ طلبہ فراغت کے بعد اچھی ملازمتیں حاصل کر سکیں۔اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پانے یا اخلاقی اقدار کی رعایت کرنے کی صلاحیتیں کھو بیٹھے، جس کی ہمارے زمانے میں غیر معمولی اہمیت تھی۔ طلبہ اور اساتذہ کا تناسب بھی اس قدر بڑھ گیا کہ ان کا آپس کا ربط ہی ختم ہو گیا۔ اس کا ایک سبب نصاب میں غیر معمولی اضافہ بھی ہے، جس میں اب ایک استاذ کا سارا وقت نصاب کو پورا کرنے ہی میں چلا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اساتذہ کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کہ انھوں نے طالب علم کی شخصیت سازی پر توجہ کیوں نہیں دی۔ اب انگریزی زبان کی بھی وہ اہمیت نہیں رہی۔ اساتذہ اور طلبہ میں روابط میں کمی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے معیار میں بھی افسوس ناک حد تک کمی نظر آ تی ہے۔
علیزے نجف: آپ نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم_بی_بی_ایس مکمل کیا. اس ادارے سے آپ کے خاندان کی گہری وابستگی رہی ہے. آپ کے والد کے دادا سید زین العابدین سر سید احمد خاں کے خصوصی رفیق کاروں میں سے تھے. اس طرح آپ نے فکر سرسید کو نہ صرف قریب سے سمجھا بلکہ ان سے وابستہ زندہ شخصیات سے استفادہ بھی کیا. میرا سوال یہ ہے کہ سرسید احمد خاں نے اپنی قوم میں جس تعلیمی شعور کے پیدا کرنے کے لیے محمڈن کالج (جو کہ اب مسلم یونی ورسٹی بن چکا ہے) قائم کیا، کیا وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا، کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ تعلیمی شعور اتنی تاخیر کے بعد پیدا ہوا جس کی وجہ سے آج ملک میں اسے ہر جگہ پستی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: اگر تعلیم کا مقصد مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہی سمجھ لیا جائے تو ہمارے نزدیک سر سید کی تحریک اس اعتبار سے یقیناً کامیاب ہے۔ مسلم یونی ورسٹی نے مسلمان ماہرین کی تعداد میں قابل قدر اضافہ کیا ہے اور اگر ملک تقسیم نہ ہوتا تو مسلمان ہمیں متحدہ ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اعلا مقامات پر نظر آتے۔ تقسیم وطن کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اور مختلف شعبوں کے ماہرین ہجرت کر گئے جس سے یہاں نئے تعلیمی اداروں کی کمی اور مسلمانوں کی صلاحیتوں کے ضیاع کے سبب کئی نسلوں پر محیط ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جس سے نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ اجتماعی ترقی میں بھی ہم پچھڑ گئے۔ اس نے مسلمانوں کی نفسیات پر بھی منفی اثر ڈالا۔ دو سو سالہ غلامی اور پھر تقسیم وطن کا الزام ایسے عوامل تھے جو کسی بھی قوم کی بنیاد کو متزلزل کر کے اسے تعلیمی اور اقتصادی زوال کی طرف لے جا سکتے تھے. ہماری اقتصادی و تعلیمی نکبت کی یہ بھی ایک اہم وجہ ہے جس کے سبب آ ج ہم قابل رحم حالت میں ہیں۔
علیزے نجف: آپ نے ایک ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جو عصری اور مذہبی قدروں کی آماج گاہ تھا، ایام طفلی میں آپ کی شخصیت کو اس ماحول کے کن اقدار و روایات نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟ اس وقت کے ماحول کی کن خصوصیات کو آج آپ معاشرے میں اور خود اپنے خاندان میں بھی مفقود پاتی ہیں اور اس فقدان کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ہمارے نزدیک عاجزی اور دوسروں کا احترام وہ اخلاقی قدریں ہیں جن کی پاس داری ہماری نسل کرتی رہی ہے۔ ہماری نسل کے لیے اپنے جذبات پر قابو اور سماجی آداب جیسی دو صفات کا ہونا ازحد ضروری تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ جب بھی کوئی اختلاف ہو یا ہمارے دل میں کوئی منفی خیال یا جذبہ پیدا ہو تو اس کے اظہار کے لیے ایک مہذب رویہ اختیار کریں۔ اب یہ اختلاف خواہ خاندان میں ہو، دوستوں میں ہو یا دفتر میں یا کسی اور جگہ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہم دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اسے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسا کرنے والے کو دوسروں سے اخلاقی مدد بھی ملتی ہے۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں. جب انکسار اور نرمی کو لوگ یا تو کم زوری پر محمول کرتے ہیں یا پھر جھوٹ سمجھتے ہیں۔ نئی نسل ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا حق گردانتی ہے اور کسی سمجھوتے کے لیے یا پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اسکول ہی کے زمانے سے یہ بات ان کے دماغوں میں بھر دی جاتی ہے کہ وہ بہت خاص شخصیت کے مالک ہیں، اس لیے بہت عظیم ہیں، اس لیے ان کی رائے کی بڑی اہمیت ہے۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ ناراضگی یا نا پسندیدگی کا فوراً اور بر ملا اظہار کر دینا چاہیے. خواہ اس سے کسی کی دل شکنی ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے بچوں کی انا اور عزت نفس کو تو یقیناً تسکین ملتی ہے لیکن وہ یہ سیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ ناکامی کی صورت میں مایوسی کے شکار نہ ہوں یا ایسے حالات میں خود کو کس طرح سنبھالیں۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا کہ وہ بہ شمول والدین اور اساتذہ ہر ایک کی رائے کو نظر انداز کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ  ملازمت میں بھی وہ جن لوگوں کے تحت کام کرتے ہیں ان کی رائے کو بھی قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ الغرض وہ ایک متضاد شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں، جس کے سبب وہ ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں اور ان کے کردار میں بد تہذیبی اور بد تمیزی در آتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہے، جس میں ہماری نئی نسل باوجود اس کے کہ وہ انتہائی با صلاحیت اور ہوشیار ہے، ان سماجی اقدار اور تہذیب سے دور ہوتی جا رہی ہے جن کی اہمیت ہر مذہب اور سماج میں رہی ہے۔ ہمارے نزدیک دینی اقدار سے دوری اور مادّی فائدوں کے حصول کی خواہش ہی اس تبدیلی کا بڑا سبب ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی پیدائش آزادی کے چند سال بعد ہوئی جب ہندستان کا سیاسی و معاشرتی نظام ارتقائی مراحل میں تھا. تقسیم ملک کے کرب نے بےشمار خاندانوں کو متاثر کیا تھا. یوں تو اس کے متعلق ہم نے کتابوں میں پڑھ رکھا ہے. آپ نے چوں کہ خود اسے قریب سے دیکھا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ آپ اس وقت کے حالات پہ روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی بتائیں کہ تقسیم ہند کا فیصلہ کس حد تک صحیح تھا اور آپ کی نظر میں اس فیصلے کے پیچھے کس طرح کے عناصر کارفرما تھے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: تقسیم کے بعد حالات نا گفتہ بہ ہو گئے جسے آپ نے تقسیم کا کرب کہا ہے اس کا ہمیں ذاتی طور پر کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ ہمارے خاندان کے جن لوگوں نے ہجرت کی الحمدللہ ان کے متعلق بھی کبھی کوئی ناگوار بات نہیں سنی۔ ہماری والدہ نے ہمیں بتایا تھا کہ چونکہ ہمارے والد اعلا سرکاری عہدوں پر رہے اس لیے وہ اس زمانے میں لکھنؤ میں تھے اور وہاں امن و امان قائم کرنے یا نظم و ضبط کے قیام میں مصروف رہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ہمارے دادا نے بھی فوراً ہجرت نہیں کی تھی، کیونکہ پنڈت جواہر لعل نہرو تمام پرانے سرکاری افسروں کو منانے کے لیے کوشاں تھے تاکہ وہ ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔ ۱۹۴۹ میں ہمارے دادا نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پھوپا جو شالیمار اسٹوڈیو کے مالک تھے، وہ پاکستان جانا نہیں چاہتے تھے لیکن ان کے بعض ’’خیر خواہوں‘‘ نے انھیں مشورہ دیا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ وہ عارضی طور پر پاکستان چلے جائیں اور حالات بہتر ہونے پر واپس آ جائیں، لیکن ان کے جانے کے بعد مشورہ دینے والے انھی’’خیر خواہوں‘‘ نے خود ہی ان کی املاک پر قبضہ کر لیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے خاندان کو کسی پریشان کن صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا سوائے اس تکلیف کے کہ خاندان بکھر گیا اور قریبی اعزہ کو ایک دوسرے سے جدائی کا غم برداشت کرنا پڑا. ہمارا خیال ہے کہ غیر معمولی حالات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات خواہ ذاتی ہوں یا اجتماعی، خوش گوار ہوں یا ناگوار ان کے نفسیاتی اثرات انسانی ذہن اور سلوک پر پڑنا ناگزیر ہے۔ یہی اثرات ہم نے تقسیم وطن کے بعد دیکھے جو ایک خوفناک حادثے کا پیش خیمہ بنے، جب ذاتی اور اجتماعی طور پر نفرتیں اس عروج پر پہنچ گئیں جو ملک کے بٹوارے پر منتج ہوئیں۔ ملک تو تقسیم ہوا ہی لیکن کاش اس تقسیم کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر آ بادی کے تبادلے کے سلسلے کو روکا جا سکتا۔
علیزے نجف: آپ کے والد صاحب آئی_اے_ایس آفیسر تھے، گورنمنٹ ملازمت کی وجہ سے بہ قول آپ کے آپ کا گھر ایک ٹوکرے کی طرح تھا جسے ہم سب اٹھائے شہر در شہر گھومتے رہے. اس خاک نوردی کی وجہ سے آپ نے کم و بیش ہر طرح کی انسانی نفسیات کو قریب سے دیکھنے و پرکھنے کا موقع ملا. میرا سوال یہ ہے کہ اس وقت کے لوگوں کی نفسیات میں کس طرح کے افکار کا غلبہ تھا اور اس افکار و نظریات میں تعمیری عناصر کا تناسب کیا تھا؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آج کی نئی نسل ان اقدار و روایات کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: اس زمانے میں جب ہمارے والد اتر پردیش میں ضلعی سطح پر یا بڑے شہروں میں تعینات ہوتے رہے، وہاں دونوں طرف نفرتیں یا عدم اعتمادی کی فضا نہیں تھی۔ لوگوں کے اذہان میں تقسیم کا غم تازہ تھا اور اس کے بعد جو نفرتوں کا سیلاب آیا وہی ان کے لیے کافی تھا۔ لوگ عام طور پر امن اور بھائی چارے کے خواہاں تھے۔ سچائی اور اخلاق جیسی قدریں ابھی باقی تھیں۔ ہمارے والد کی تمام لوگ ہی بہت عزت کرتے تھے اور ان سے ملنے کے خواہش مند بھی رہتے تھے۔ ہمارا اکثر تعلق غیر مسلم سرکاری افسران یا پڑوسیوں سے رہا جن میں سے کچھ سے ہماری گہری دوستی بھی ہو گئی تھی۔ ہم لوگ آپس میں خوب ملتے تھے بلکہ بے تکلفی سے ایک دوسرے کے گھر میں کھانا بھی کھا لیتے تھے۔ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام تھا۔ ہماری والدہ اکثر عیسائی مشنری والوں سے یا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بین المذاہب یک جہتی پر باتیں کیا کرتی تھیں جس سے ایک خوش گوار ماحول بن جاتا تھا اور ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے میں آسانی بھی ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ تعلقات کی وہ گرمی ختم ہو گئی. اس کی جگہ دونوں قوموں میں عدم اعتمادی، شک اور احتیاط نے لے لی۔ بد قسمتی سے اب ہم اس خوب صورت ہم آہنگی سے بھی محروم ہو گئے جو اس زمانے میں پڑوسیوں میں ہوا کرتی تھی۔
علیزے نجف: موجودہ دور کا تعلیمی نظام بھی آپ کے سامنے ہے. پچھلی سات دہائیوں سے تعلیمی اداروں کے نشیب و فراز پہ آپ کی گہری نظر ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر میں موجودہ وقت کے تعلیمی نظام کی دو خصوصیات کیا ہیں اور وہ دو کون سے عناصر ہیں جو تعلیم کی اصل روح کو مجروح کرنے کا سب سے بڑا سبب بنے ہوئے ہیں اور اس کا سد باب کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ہمارے نزدیک موجودہ دور میں تعلیمی میدان میں جو سب سے اہم مثبت تبدیلی آئی وہ آڈیو ویژوَل (Audio visual) کا استعمال ہے. خصوصاً ابتدائی نصاب میں، جس سے کسی بات کو زیادہ وضاحت کیے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ دوسری تبدیلی وہ بے شمار تعلیمی ادارے ہیں جو ہماری قوم میں بہترین ماہرین پیدا کر رہے ہیں جو ملکی اور عالمی سطح پر نام کما رہے ہیں۔ البتہ دو خامیاں بھی مو جودہ دور کی اس تعلیمی ترقی میں نظر آ تی ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں طلبہ کو غور و فکر کی آزادی نہیں رہتی ہے۔ وہ مختلف سوتوں سے معلومات حاصل کر کے امتحانات میں اسے نقل کر کے ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اس سے ان میں غور و فکر کی یا تجزیہ کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، جس کے سبب جس موضوع پر وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس میں ان کی معلومات بڑی سطحی ہوتی ہیں۔ لیکن سب سے اہم یہ کہ کتاب کی جگہ کمپیوٹر کی اسکرین کی عادت لت کی طرح پیچھے پڑ جاتی ہے، یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور اور اس پر غیر اخلاقی چیزوں تک بھی ان کی رسائی ہو جاتی ہے، جس کے سبب ان میں جذباتی و نفسیاتی ہیجان پیدا ہوتا ہے جو ان کی ذہانت اور قابلیت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ بہ ظاہر اس مسئلہ کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اس چیز نے طلبہ میں ایک اجتماعی لت کی شکل اختیار کر لی ہے۔
علیزے نجف: تعلیم نسواں ایک ایسا موضوع ہے جس کی بازگشت چار سو سنائی دے رہی ہے لیکن ابھی اس آواز میں وہ سُر نہیں جو کہ نغمہ بن کے دلوں کو مسخر کر سکے. مطلب یہ کہ ابھی بھی مسلم آبادی کا اکثریتی تناسب لڑکیوں کی اعلا تعلیم کو اہمیت دینے کا قائل نہیں. اس حوالے سے  سب سے پہلے تو میں یہ چاہوں گی کہ آپ یہ بتائیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں فرق کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اس تفریق کی حامل ذہنیت کو نشوونما کہاں سے ملی؟ دوسرے میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ دیہی عورتیں اعلا تعلیمی مراحل کو ہموار کرنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اپنائیں؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: مردوں کی اعلا تعلیم کو عورتوں کی تعلیم پہ فوقیت دینے کی سماجی ذہنیت اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اب زیادہ سے زیادہ لڑکیاں خواہ اسکول میں پڑھ رہی ہوں یا کالجوں میں وہ اعلا تعلیم کی طرف جا رہی ہیں اور لڑکوں سے مسابقت حاصل کر رہی ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان میں اُن بچیوں کی ماؤں کا بڑا کردار ہے جو بچیوں کی اعلا تعلیم کے لیے انھیں ترغیب دیتی رہتی ہیں کیونکہ وہ خود اعلا تعلیم حاصل نہیں کر پائیں۔ میرا تجربہ ہے کہ وہ خاندان جو معاشی طور پر خود کفیل ہیں اب ان میں بچوں اور بچیوں دونوں کو اعلا تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں۔ لیکن اقتصادی طور پر ایسے غریب خاندانوں میں جو دونوں کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے سے معذور ہیں وہاں یقین رکھیے کہ دونوں میں سے لڑکے کو ہی چُنا جا ئے گا۔ میری ایسے کئی خاندانوں کے افراد سے گفتگو ہوئی، وہاں میں نے دیکھا کہ ماں باپ جب کام پر چلے جاتے ہیں اور لڑکا اسکول میں تو:
۱۔ گھر کی ذمے داری لڑکی کے کاندھوں پر آ جاتی ہے۔
۲۔ جس ماحول میں وہ خاندان رہتا ہے وہاں لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں. 
۳۔ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے رشتے نہیں ملتے۔ یہ مسئلہ خصوصاً مسلمانوں میں ہے جہاں پڑھی لکھی لڑکی کو مناسب رشتہ نہیں ملتا. 
۴۔ اقتصادی طور پر خاندان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دونوں کے تعلیمی اخراجات بر داشت کر سکیں۔
۵۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی والدین کے ذہن میں آتا ہے کہ پڑھنے کے بعد لڑکی بغاوت پر نہ آ مادہ ہو جائے۔
میرے خیال میں یہ کام لڑکیوں ہی کا ہے کہ وہ اپنے دل میں اعلا تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور اس کے حصول کے لیے محنت بھی کریں۔ ساتھ ہی وہ اپنے خاندان کے لوگوں خصوصاً عورتوں کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ وہ انھیں اعلا تعلیم حاصل کرنے میں کم از کم اخلاقی مدد کریں کیونکہ بہت سی سرکاری اسکیموں اور اداروں سے بھی مالی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔
علیزے نجف: آپ نے شادی کے بعد ایک لمبا عرصہ عمان میں گذارا. بہ حیثیت ڈاکٹر  اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے آپ نے وہاں کی تہذیب و ثقافت اور ہر طبقے کی انسانی نفسیات کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی انسانی نفسیات ہے جو ہر ملک کے لوگوں میں یکساں طور پہ آپ نے محسوس کی؟ عمان کی طرز معاشرت میں آپ نے کن اقدار کو ہمیشہ غالب دیکھا اور اس نے آپ کو کیسے متاثر کیا؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: آج کے دور میں عمان غالباً واحد ملک ہے جہاں مختلف اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ امن و امان کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور فرقہ واریت یا نسلی یا صنفی تعصب کے بغیر خوش گوار زندگی گذار سکتے ہیں۔ ہم نے بہ حیثیت ایک ڈاکٹر اپنے کام کے سبب مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نفسیات اور سماجی روایات کا مطالعہ کیا، جن میں امیر، غریب، کالے گورے، شاہی خاندان کے افراد اور غریب غربا سب ہی شامل تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ مختلف ملکوں اور سماجوں سے تعلق رکھنے والے یہ سارے لوگ صرف ایک خواہش رکھتے ہیں کہ اس ملک میں سارے انسان ایک انتہائی نیک اور مخلص بادشاہ کے زیر سایہ امن و امان کی زندگی اس طرح گذاریں کہ وہ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں، ایک دوسرے کا خیال ہو اور اختلافات کو برداشت کرتے ہوں۔ خوش قسمتی سے عمان کو ایک ایسا سمجھ دار اور عوام سے محبت کرنے والا بادشاہ نصیب ہوا جس نے قریب نصف صدی تک حکومت کی۔
علیزے نجف: سیکھنا ایک ایسا عمل ہے جو سانس کے ساتھ چلتا رہتا ہے. انسان جیسی اشرف مخلوق کے لیے یہی عمل  باعث شرف ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ دہائیوں سے سیکھنے کے عمل کو اداروں کے ساتھ منسوب کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے نئی نسل اپنی صلاحیتوں کو صحیح طرح سے بروئے کار لانے میں ناکام ہے. میرا سوال یہ ہے کہ اس ذہنیت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے اور خود آپ نے مسلسل سیکھتے رہنے کی صلاحیت کو کیسے پروان چڑھایا اور اس کے اہم ذرائع کیا تھے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: جی ہاں پالنے سے قبر تک علم حاصل کرنے کا حکم حدیث شریف میں آ یا ہے اس لئے ایک مسلمان کو علم کے حصول کے لیے اس حدیث کے علاوہ اور کسی تحریک کی ضرورت نہیں۔ البتہ مطالعہ، سفر کرنا اور لوگوں سے ملاقاتیں بھی ذہنی ارتقا اور حصول علم کا اہم ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ہم خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ اپنے والد کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے بچپن ہی سے ہمیں مختلف شہروں میں رہنے کا تجربہ ہو گیا۔ پھر شادی کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہم عمان کے شہروں میں رہتے رہے۔ اس اعتبار سے ہمیں مختلف لوگوں اور تہذیبوں کا مطالعہ کرنے اور نئی باتیں سیکھنے کا بھر پور مو قع ملا جس نے ہمارے ذہن اور فکر کو وسعتیں عطا کیں۔ پھر مطالعے کا شوق تو ہمیں بچپن ہی سے رہا، جس نے ہماری معلومات اور علم کی ثروت میں ہمیشہ اضافہ کیا۔ الحمدللہ۔
علیزے نجف: آپ ایک ڈاکٹر ہیں اس لیے میں ایک سوال اس حوالے سے بھی پوچھنا چاہوں گی ایک وقت تھا جب وسائل زیادہ نہیں تھے اور بیماریاں بھی کم تھیں. موجودہ دور افراط آسائش کا دور ہے. اس کے ساتھ بے شمار نئے امراض بھی پائے جا رہے ہیں. کیا وجہ ہے کہ اس قدر انفارمیشن اور آسائش کے باوجود لوگوں کے جسمانی و نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے. آپ اس کے پیچھے کیا وجوہات پاتی ہیں اور اس تناسب کو معتدل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: جی ہاں اس دور میں انسان کہیں ضرورت سے زیادہ کھا رہا ہے، کہیں پیٹ بھر روٹی میسر نہیں۔ کہیں زندگی تیز رو ہے تو کہیں بالکل رکی ہوئی کسی کو نیند کی کمی تو کوئی سماجی محرومی کا شکار۔ یہ سب در اصل مادی خوش حالی، اور ٹکنالوجی کی دَین ہے جس نے نئے امراض پیدا کیے، جن میں سب سے زیادہ ذیابیطس، ذہنی تناؤ، موٹاپا، معدے کی بیماریاں، کینسر اور الرجی سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ٹکنالوجی نے مستقل ہمیں نئی آ سانیوں کے ساتھ ساتھ نئے مسائل سے بھی دو چار کیا اور ای میل، میسیج، یوٹیوب اور سوشل میڈیا کا عادی بنا دیا، جس سے کچھ نئی بیماریوں نے جنم لیا جن میں ذہنی تناؤ، افسردگی، سماجی تنہائی یا محرومی شامل ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جرائم کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے سائنسی تحقیقات مستقل ہو رہی ہیں اور ماہرین نفسیات بھی شب و روز محنت کر رہے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اس کا کوئی حل نظر نہیں آ تا۔ بس ہم اس کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کے شوہر ماہر ارضیات ہیں. آپ ایک بہترین لرنر ہیں. ان کی رفاقت میں آپ نے اس حوالے سے یقیناً بہت کچھ سیکھا ہوگا. میں چاہتی ہوں کہ آپ اس لرننگ کو ہمارے قارئین سے مختصرا شیئر کریں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ نے یہ سب کچھ ایک خاموش لرنر کی طرح مشاہدے و مطالعے سے سیکھا یا سوالات کر کے آپ نے Geology کے بنیادی پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس ضمن میں آپ کے شوہر نے کس طرح سے تعاون کیا؟
ڈاکٹر طیںہ قدوائی: عمان کو ہم ارضیات کی جنت کہہ سکتے ہیں۔ اگر آپ ماہر ارضیات نہیں ہیں تب بھی آپ یہاں کی قدرتی خوب صورتی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں. خوب صورت پہاڑوں کا حسن، سمندر کی وسعتیں  اور ریگستان کی خاموشیوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ہم خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنے خاندان کے ساتھ تفریح کی غرض سے بھی گئے تو ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس موضوع پر ایک ماہر ارضیات کی رائے بھی حاصل رہی۔ ایک ماہر ارضیات کی زندگی بڑی پُر مشقت ہوتی ہے کیونکہ اسے ہفتوں جنگلات، پہاڑوں اور ریگستانوں میں خیمہ زن ہونا پڑتا ہے، جس کے سبب ان کے خاندان کے افراد کو تنہائی سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے۔ لیکن اسی میں کچھ خوش گوار لمحے بھی آتے ہیں، جب دیگر ممالک کے ماہرین ارضیات آتے ہیں اور مختلف سماجی مجلسوں میں ان حضرات سے گفتگو رہی، جس سے خود ہمیں علم ارضیات پر بہت سی مفید اور دلچسپ معلومات حاصل ہوئیں۔ ہمیں چاند اور مریخ کے پتھر دیکھنے کو ملے، دنیا میں ایسے پانچ پتھر گرے ہیں جن میں سے تین عمان ہی میں گرے تھے، جن کے نمونے ماہر ارضیات ہونے کے سبب ہمارے شوہر کے پاس آ گئے۔ ان کے علاوہ مختلف پہاڑی پتھروں کے نادر و نایاب رنگ برنگے خوب صورت پتھر بھی ہمارے پاس ہیں، اور بھلا کسے یہ عجیب چیزیں حاصل ہوں گی ۔ اس لیے یہ چیزیں ہمارے لیے یقیناً جہاں نئی معلومات کا ذریعہ بنیں وہیں ہمارے لیے دل چسپی کا سامان بھی ہیں۔
علیزے نجف: آپ ۴۵ [برس] کے بعد واپس ہندستان لوٹ آئیں جب کہ لوگ آسائشوں کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں. میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ عمان سے اپنے بچوں کے پاس امریکا ہجرت کرنے کے بجائے ہندستان کیوں واپس آئیں اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ہمارا ذہن ہمیشہ سے یہی رہا کہ ہر شخص کو اپنے سماج کے لیے کچھ ضرور کرنا چاہیے۔اپنی عائلی اور خاندانی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اگر ہمیں توفیق اور وقت دیں تو زندگی میں کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے۔ پھر راہِ مقصد میں قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔ اس لیے جب تک ہمت ہے ہم ان سماجی اور فلاحی کاموں سے جڑے رہیں گے۔ ان شا اللہ۔
علیزے نجف: اس وقت آپ لکھنؤ میں مقیم ہیں. اسٹار مارننگ سوسائٹی کے نام سے ایک رفاہی ادارہ چلا رہی ہیں. میں چاہتی ہوں کہ آپ اس ادارے کے متعلق بتائیں کہ معاشرے میں اس کی خدمات کی نوعیت کیا ہے اور اس کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان میں سے کن مقاصد کو آپ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں اور مستقبل میں اس کے حوالے سے آپ کیا اہداف رکھتی ہیں؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: مورننگ اسٹار سوسائٹی ایک رجسٹرڈ ادارہ ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پر مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی پر ای میل پر مختلف گروپس خصوصاً علی گڑھ اردو کلب اور علی گڑھ ابنائے قدیم کا گروپ تھا جس میں اس پر کافی بحث و مباحثہ رہا جس کے نتیجے میں گروپ کے ممبران نے کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے سر سید احمد خان، ابنائے قدیم کے ممبران کو جھنجوڑ کر ان کے تعلیمی خواب کو ایک نئی تعبیر دینے کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو اسی خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے ہم نے مورننگ اسٹار ادارہ قائم کیا۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہی ہے کہ جس طرح صبح کا ستارہ جو رات کے ختم ہوتے ہی آسمان پر نمودار ہو کر صبح کی نوید دیتا ہے بالکل اسی طرح ہمارا یہ ادارہ جہالت اور گم راہی کے اندھیرے کو دور کرنے میں ممد و معاون ہوگا، میرا تصور یہی تھا کہ ہماری اگلی نسل کے نوجوان اس تعلیم کے ذریعے وہ طاقت حاصل کر سکیں جس سے وہ اپنی قوم کے لیے مثبت اور معتدل خیالات کے ذریعے مکمل اور ذمے دار قائد پیدا کرسکیں اور اپنی ذاتی زندگی میں بھی خوش حالی لا نے کے ساتھ ایک خوش گوار اور انصاف پسند سماج کی تعمیر کر سکیں۔ ہر تعمیری کام کو دیر پا اور مضبوط بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے ہم نے اپنی قوم کی تعلیمی بنیاد کے لیے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم دینے کے لیے یہ ادارہ قائم کیا۔ یہاں ایسے بچوں کی رہائش، خورد و نوش اور اسکولی تعلیم کا ہماری اکیڈمی ہوم میں مکمل نظم ہے۔
اس سلسلے میں پہلا کام بچوں کی رہائش کا انتظام تھا۔ ان میں زیادہ تر بچے یتیم ہیں یا انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے اکیڈمی ہوم میں ہمیں ان بچوں کو ایک صحت مند ماحول مہیا کرنا تھا جو شخصیت سازی کی پہلی شرط ہے۔ ساتھ ہی ان کی تعلیم اور تربیت جس میں ان کی نفسیاتی، اخلاقی اور دینی ضرورتیں بھی شامل ہیں، ان پر توجہ دی جاتی ہیں۔ ان تمام بچوں کا انگریزی کے بہترین اسکول میں داخلہ کروایا گیا اور ساتھ ہی اکیڈمی ہوم میں ان کی دینی تعلیم کا مکمل نظم قائم کیا گیا۔
الحمد للہ یہ کام گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری ہے۔ عموماً ایک وقت میں ہمارے پاس بیس سے پچیس بچے رہتے ہیں۔ شروع میں جن دس بچوں کے ساتھ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا جو کے_جی میں داخل ہوئے تھے ان میں سے ایک بچہ بی ٹیک کر رہا ہے، دوسرا میکانیکل انجینیرنگ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، ایک اور لڑکے نے بی_ایس کیا ہے جب کہ ایک نے بی_کام کر لیا ہے۔ ذاتی طور پر ہم ہمیشہ ان بچوں کی پرورش پر دھیان دیتے ہیں، ان کی خوشیوں اور غموں کا بانٹنا اور ان کے خاندان کے لوگوں سے بھی رابط رکھتے ہیں۔
علیزے نجف: مطالعہ کرنا آپ کے شوقیہ مشاغل میں سرفہرست ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کن موضوعات پہ کتابیں پڑھنا پسند کرتی ہیں اور وہ کون سی کتاب ہے جس نے آپ کو ازحد متاثر کیا، آپ کے پسندیدہ مصنفین کے نام کیا ہیں؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: مطالعہ کی عادت وقت اور عمر کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ابتدا میں ہم اردو کے مقابلے میں انگریزی کتابوں کا مطالعہ زیادہ کرتے تھے لیکن اب دونوں زبانوں کا مطالعہ برابر برابر ہے۔ موجودہ دور میں مجھے تاریخ، انسانی نفسیات، کردار سازی، اسلامی تاریخ اور مذہبی کتب میں خصوصاً سیرت کا مطالعہ پسند ہے، جس سے ہمیں خود اپنی کردار سازی کا موقع ملتا ہے اور ساتھ ہی اس کی روشنی میں ہم بچوں کی تربیت کا کام آ سانی سے کر پاتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے علامہ اقبال کے کلام کا بھی تفصیلی مطالعہ شروع کیا ہے۔ افسانوی ادب سے ہمیں کوئی خاص دل چسپی نہیں رہی۔
علیزے نجف: کہتے ہیں کہ زندگی سے سیکھا ہوا سبق ہمیشہ ذہن میں نقش رہتا ہے اور اس میں لوگ اور ان کے رویے اہم کردار ادا کرتے ہیں. آپ اس نظریے کو کس طرح دیکھتی ہیں، خود آپ نے لوگوں سے کیسے اور کیا کیا سیکھا؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی : ہمیں اس سے پورا اتفاق ہے کہ تجربات اور جن لوگوں سے ہم ملتے ہیں ان کے اثرات ہماری شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ہمارا یقین ہے کہ قدرت نے ہمیں عقل و شعور کے ساتھ ساتھ اخلاقی طاقت بھی ودیعت کی ہے جس کی رہ نمائی میں ہم یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ زندگی میں ہمیں کیا کرنا ہے۔ اس کام کے لیے ہمارا شعور اور عقل کے ساتھ خود شناسی اور خود آ گاہی وہ چیزیں ہیں جن کا حصول ہمارے لیے از بس ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ہماری زندگی پر ہماری والدہ کا غیر معمولی اثر ہے۔ اس کے با وجود ہم بالکل ویسے نہیں ہیں جیسی ہماری والدہ تھیں۔ سیرت کے مطالعے نے ہمیں یہ شعور عطا کیا کہ جن لوگوں سے ہم متاثر ہوتے ہیں ہمیں بالکل ویسا نہیں بن جانا چاہیے بلکہ ہمیں اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے ان کے نقوش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سچ پوچھیے تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا حسن ہے جس کی مثال ہمیں صحابہ رضی اللہ عنھم کے اسوہ میں مل جاتی ہے، جو رسول اللہ ﷺ سے غیر معمولی طور پر متاثر تھے لیکن ان کے کردار میں خود ان کی اپنی ایک پہچان اور انفرادیت ملتی ہے جسے خود رسول اللہ ﷺ نے پسند فرمایا۔۔
علیزے نجف: اگر آپ کو اپنی اب تک کی گذری ہوئی زندگی کو کوئی عنوان دینا پڑے تو وہ کیا ہوگا ؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: دریا میں ایک قطرہ ہی اس کی مثال ہو سکتی ہے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے بحر زخار میں ہم ایک چھوٹے سے قطرے کی مانند ہیں۔ ہم نے جو کچھ بھی زندگی میں حاصل کیا اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہماری زندگی تبدیلیوں کے ساتھ ایک مسلسل سفر رہا بالکل اسی طرح جس طرح ایک دریا پتھریلے راستوں پر اپنی راہ بنا کر بہتا رہتا ہے، اس احساس کے ساتھ کہ بالآخر اسے سمندر کی وسعتوں میں کھو جانا ہے۔
بہ قول شاعر: ع عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
یا پھر یہ بھی صحیح ہے:
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستے ہو جائیں گے
علیزے نجف: کھونا اور پانا دونوں ہی زندگی کا حصہ ہیں جو کہ ہر انسان کی زندگی سے متعلق ہے، آپ نے اپنی زندگی میں ایسا کیا پایا جس کی خوشی آپ کو آج بھی سرشار کر دیتی ہے اور کیا کھویا جس کی کسک دل کے کسی نہاں خانے میں اب بھی موجود ہے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: جہاں تک خوشیوں کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ہماری والدہ کی شکل میں ہمیں سب سے بڑا تحفہ دیا تھا جو ایک مکمل استاذ تھیں اور ہمیشہ ہماری خیر خواہ اور صلاح کار رہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ تقسیم وطن کے بعد خاندان سے تعلقات کا منقطع ہوجانا رہا۔ چچا، ماموں، بھائی بہن اور قریبی اعزہ وہ رشتے ہیں جن سے جدائی کی کسک ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس نے زندگی میں ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جو شاید کبھی نہ بھر سکے۔
علیزے نجف: زندگی اصولوں سے مرکب ہو کر ہی کامیاب ہو سکتی ہے. آپ کی زندگی کے وہ کون سے اصول ہیں جس نے آپ کی زندگی میں کلیدی کردار ادا کیا اور کیسے؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: ہمارے نزدیک اچھی زندگی جینے کا پہلا اصول یہی ہے کہ آپ دوسروں کی بات سننے کی عادت ڈالیں۔ اس عادت نے جہاں ہمیں اپنے کام میں مدد کی وہیں ذاتی زندگی میں بھی اس کی مدد سے لوگوں کو سمجھنے اور تعلقات نباہنے کا موقع دیا۔ اس کا بڑا فایدہ یہ ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ انسان کی زندگی آسان ہو جاتی ہے بلکہ اس کا اکثر وقت تعمیری کاموں میں صرف ہوتا ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ کوئی مقصد ہونا چاہیے. یہی انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ بہ قول خواجہ میر درد: 
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں
علیزے نجف: آپ کی شخصیت اور زندگی ہم سب کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے، ذہن میں اب بھی کئی سوالات موجود ہیں لیکن طوالت کے باعث مزید سوالات کرنے سے متامل ہوں. بس ایک آخری سوال پوچھنا چاہوں گی کہ یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کےاحساسات کیا تھے؟ سوالات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟ چلتے چلتے کیا کوئی نصیحت کرنا چاہیں گی؟
ڈاکٹر طیبہ قدوائی: شروع میں ہم ہچکچا رہے تھے کیونکہ ہم نہیں سمجھتے کہ ہماری زندگی میں کوئی ایسی خاص بات ہے جو کسی کو متاثر کر سکے، لیکن آپ کے سوالات نے ہماری اپنی زندگی کی بہت سی یاد داشتیں تازہ کر دیں، جس نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہم نے کہاں غلطی کی اور کہاں ہم اس سے بہتر کر سکتے تھے جو ہم کر سکے۔ اس سے یہ آ گاہی بھی ہوئی کہ ہم اپنی زندگی کے واقعات سے کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں اور کیا سیکھ سکتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ہمارے لیے خود آ گاہی کا ذریعہ بن گیا۔ اصل اصول یہی ہے کہ زندگی میں انسان جدو جہد کرتا رہے اور اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھے تو ہر مشکل آ سان ہو سکتی ہے۔
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں:مشق کے بغیر خدا داد صلاحیتیں خام ہیں : بلقیس ظفیر الحسن 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے