احسان قاسمی کے پانچ افسانچے

احسان قاسمی کے پانچ افسانچے

احسان قاسمی
رابطہ: ehsanulislam1955@gmail.com

(1) سیڑھی

"ڈارلنگ! آخر ہم لوگ کب تک اس پستی میں گرفتار رہیں گے؟"
"میں اپنے مالک سے سیڑھی مانگ لاؤں؟"
"ٹھیک ہے! اب تم چڑھ جاؤ۔ میں سیڑھی تھامتی ہوں."
"ہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈارلنگ! دیکھو میں کس بلندی پر ہوں۔"
"ہاں! مگر میں اب تھک گئی ہوں۔"
"نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھیں اسی طرح سیڑھی مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے."
"لیکن میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اب نیچے نہیں جا سکتا۔ تمھیں یوں ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"میرے ہاتھ شل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"تو فوراً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اور دوسرے لمحہ اس کی بیٹی نے سیڑھی تھام لیا۔
***

(2) کوئلہ

وہ کالی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ بہت کالی۔
اسی لیے اس کی شادی نہیں ہو پا رہی تھی.
پھر ایک دن سنا کہ یکایک اس کی شادی ہو گئی۔
اس کا شوہر کوئلے کا دلال ہے۔
***

بے وقوف

میرے ایک دوست نے بھگوا دھوج اٹھا رکھا تھا۔ اس کے پیچھے بہت بڑی بھیڑ جمع تھی۔ بھیڑ کی آنکھیں سرخ تھیں، منھ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
میرا دوسرا دوست سبز پرچم لہرا رہا تھا۔ اس کے پیچھے بھی بھیڑ کچھ کم نہ تھی۔ بھیڑ کے تیور بھی کچھ کم نہ تھے۔
میں اپنا سفید جھنڈا اٹھائے بیچ چوراہے پر آ گیا۔
دونوں میرے قریب آئے۔
"ارے! یہ تو نے کون سا جھنڈا اٹھا رکھا ہے؟"
"دیکھو بھائی! ترنگے میں تین رنگ تھے۔ دو تم لوگوں نے لے لیے تو یہ سفید ہی بچا نا؟"
"دھت ت ت ت۔۔۔۔۔۔ بے وقوف کہیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!"
***

مرضیِ انساں

اماوس کی مہیب سیاہ رات کا سفر۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا، سنسناتی سرد ہوائیں، آسمانی بجلی کی مسلسل چمک اور کڑک۔ دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونسے، میں آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف ہوں۔ جب جب بجلی چمکتی ہے اُس کی روشنی میں دو چار قدم بڑھا لیتا ہوں، پھر ٹھہر جاتا ہوں۔ کافی دیر بعد دامنِ کوہ میں نور کا ایک ہالہ نظر آتا ہے۔ اُس جانب چلنے لگتا ہوں، اِس امید پر کہ شاید وہاں کوئی الاؤ روشن ہو جس کی گرمی اپنے جسم و جان میں بھر کر خود کو محفوظ کر سکوں اور آگے کا راستہ تلاش کر سکوں۔
دامنِ کوہ تک رسائی گرچہ مشکل ہے لیکن کافی تگ و دو کے بعد بالآخر وہاں پہنچ جاتا ہوں۔ چوٹی کی داہنی جانب سے ایک ندا آتی ہے "اے ابنِ آدم! میں خدا ہوں۔ یہ زمین و آسمان اور یہ تمام کائنات میری ہی تخلیق کردہ ہیں اور میں ہر شے کا مالک و مختار ہوں۔ میری تعظیم کر کہ میں تجھے سچی تعلیم دینا چاہتا ہوں۔"
میں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ جاتا ہوں اور اپنے ہاتھ دعائیہ انداز میں اوپر اٹھا کر کہتا ہوں "اے میرے معبود حقیقی! تو بےشک مجھے تعلیم فرما کہ اس کی مجھے اشد ضرورت ہے۔ لیکن اتنی سی بات ضرور یاد رکھنا کہ وہ میری مرضی کے خلاف نہ ہو۔"
روشنی یکایک غائب ہو جاتی ہے۔
شاید خدا عرشِ بریں کی جانب لوٹ گیا ہے۔
***

پرانی کہانی

دور بہت دور گھنے جنگلات سے معمور ایک چھوٹے سے گمنام جزیرے میں واقع غار کے اندر میم اور عین معجزاتی طور پر زندہ تھے۔ ان کے علاوہ دنیا میں تیسرا کوئی انسان زندہ تھا بھی یا نہیں انھیں نہیں معلوم۔ تیسری جنگِ عظیم کے دوران پوری دنیا راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھی۔ ایٹمی تاب کاری دھرتی کی فضا اور پانی کو زہر آلود کر چکی تھی۔ چرند، پرند، نباتات اور انسانی ہوس، نفرت، خود غرضی، نسل پرستی، وطن پرستی، مذہب۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر شے ایٹمی حرارت سے بھاپ بن کر فضا میں تحلیل ہو چکی تھی۔
کئی برس بعد اُس غار میں جڑواں بیٹے پیدا ہوئے اور پھر کئی برس بعد جڑواں بیٹیاں۔
ایک روز قابیل تنہا غار میں آیا۔ اس کے چہرے بشرے سے پریشانی ہویدا تھی۔
میم نے دریافت کیا "کیا بات ہے بیٹے۔ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟"
"میں نے ہابیل کو مار ڈالا."
میم بدحواس سا غار کے پتھریلے فرش پر لڑھک گیا۔
پرانی کہانی خود کو دہرا رہی تھی۔"
***
احسان قاسمی کی گذشتہ نگارش:خدا ناراض ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے