ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی شخصی رباعیات کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی شخصی رباعیات کا تنقیدی جائزہ

شاہینہ پروین
ری سرچ اسکالر، قاضی نذرل یونی ورسٹی، مغربی بنگال 

رباعی عربی لفظ رباع سے مشتق ہے، جس کے معنی چار چار کے ہیں۔ چوں کہ یہ چار مصرعوں یا دو بیتوں پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے رباعی کہلائی۔ قدیم زمانے میں اسے مختلف ناموں جیسے ترانہ، دو بیتی، چہار بیتی بھی کہا جاتا تھا اور ہندی میں اسے چوپائی یا چو بولا جاتا ہے۔ اصطلاح میں رباعی اس مختصر نظم کو کہتے ہیں جو چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے جس کے پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے مقفی اور مردف ہوتے ہیں جسے خصی کہا جاتا ہے جو مخصوص اوزان میں لکھی جاتی ہے، جب کہ تیسرا مصرع غیر مقفی ہوتا ہے اور تیسرے مصرعے میں قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب بھی نہیں۔
بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری: "رباعی شاعرانہ اصطلاح میں اس صنف کا نام ہے جس کے چاروں مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔  رباعی کا وزن مخصوص ہے، پہلے دوسرے اور چوتھے مصرع میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرع میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر قسم کے خیال کو نظم کیا ہے، اس لیے اس کے موضوعات کا تعین نہیں۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں بالخصوص چوتھے مصرع پر پوری رباعی کے حسن و اثر اور زور کا دارو مدار ہے۔ چنانچہ علمائے ادب اور فصحائے سخن نے ان امور کو ضروری قرار دیا ہے۔"
(اردو شاعری کا فنی ارتقاء، از فرمان فتح پوری)
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رباعی کے لیے بحر ہزج میں ہونا لازمی ہے، پہلا، دوسرا، اور چوتھا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہو، ان مخصوص اوزان و عروض کی پابندی کے بغیر رباعی معرض وجود میں نہیں آسکتی ہے، چوں کہ تمام اصناف سخن میں رباعی لکھنا نہایت مشکل اور نہایت لیاقت کا کام ہے۔ جس کے لیے استادانہ مہارت کی اشد ضرورت ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ نومشق شعرا اس میدان میں قدم رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن بیدل عظیم آبادی کی سرزمین کا ایک اہم اور نمایاں نام ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم (بھاگل پور ) کا ہے۔ یوں تو انھوں نے تقریبا تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن شعر گوئی کے لیے اردو ادب کی سب سے ثقیل صنف رباعی کا انتخاب کیا جو وقت اور طویل مشق طلب کرتی ہے۔ دراصل یہ صنف صوفیوں اور پختہ کار فن کاروں سے مختص سمجھی جاتی ہے، لیکن اسلم صاحب نے وسیع مطالعہ، تسلسل اور خیال کی برجستگی کو بروئے کار لاتے ہوئے صنف رباعی پر ماہرانہ عبور حاصل کر لیا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد دل و دماغ عش عش کر اُٹھتا ہے۔ ان کی رباعیات کے مطالعہ سے ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ رباعی سے آپ کو فطری لگاؤ تھا جس کی وجہ سے غزل کے دائرہ اثر سے نکل کر رباعی کو آنکھوں سے لگایا اور ہونٹوں سے چوما اور ملکی و غیر ملکی سطح پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب بھی ہوئے اور اپنے فن سے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں. بہ ذات خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اک کار نمایاں ہے رباعی گوئی
شہرت ہی کا ساماں ہے رباعی گوئی
فن کار اگر فن سے ہے واقف اسلم
مشکل نہیں، آساں ہے رباعی گوئی

جوہی سے چنبیلی سے کنول سے بہتر
مرمر سے بنے تاج محل سے بہتر
اوصاف تجھے اس کے بتاؤں میں کیا
اچھی ہو رباعی تو غزل سے بہتر

عصر حاضر کے رباعی گو شعرا میں ڈاکٹر اسلم پرویز اسلم صاحب کا نام کئی حیثیتوں سے نمایاں ہے۔ اب تک ان کی رباعیات کے تین مجموعے جن میں پہلا مجموعہ "پرواز" (نومبر 2010) اور دوسرا مجموعہ "شخصیات" ( ستمبر 2021) اور تیسرا "آہنگ" (ستمبر 2022) منظر عام پر آکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ شخصیات 50 صفحات پر مشتمل اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے جس سے رباعیات کی پیشانی ہمیشہ تابندہ رہے گی۔ اس مجموعہ میں مختلف 99 ادبی شخصیات کو رہائی کی صنف میں کہیں عمدہ خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے تو کہیں ان کی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے تو کہیں ان سے اپنی بے پناہ عقیدت و محبت کا کھلے دل سے اظہار کیا گیا ہے۔ ان ادبی شخصیات میں شامل سر فہرست نام شمس الرحمن فاروقی کا ہے۔ فاروقی کی ادبی خدمات اور فنی مہارت کو اسلم صاحب نے بڑی ہی سادگی و نفاست کے ساتھ چار مصرعوں میں ترتیب دیا اور بہت عمدگی سے لفظوں کا جامہ پہنایا۔ جیسا کہ ذیل کی رباعیات سے عیاں ہے:
سب سے اعلی فاروقی صاحب تھے
برتر بالا فاروقی صاحب تھے
اردو دنیا میں اسلم پرویز
ہر فن مولا فاروقی صاحب تھے
اور آگے ان کی قادر الکلامی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
با معانی ہے فاروقی کی تحریر
اک ہادی ہے فاروقی کی تحریر
دنیا چاہے مانے یا نہ مانے
لاثانی ہے فاروقی کی تحریر ہے
کہکشاں صفت شخصیت شمس الرحمن فاروقی نے اپنی محنت لگن، وقعت پسندی اور دل چسپی سے جو ادب تخلیق کیا ہے وہ اردو زبان کا بیش قیمتی سرمایہ ہے۔ اپنی سرکاری ملازمت کی مصروفیتوں کے باوصف علم و ادب کی گرہیں کھولتے رہے، وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جو بیک وقت کئی اصناف ادب پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کے تعلق سے اسلم پرویز صاحب اپنی رباعی میں رقم طراز ہیں:
ہر صنف پر ہے ان کی زبردست نگاہ
فاروقی کی تنقید بھی ہے اس کی گواہ
میں ذرہ نا چیز ہوں کیا خاک کہوں
بے ساختہ دنیا نے کہا دیکھ کے واہ!!

تنقید کے گلشن میں بہار آئی
ہر صنف میں ہر فن میں بہار آئی
فاروقی کے افکار کی بارش ہی سے
اردو ترے آنگن میں بہار آئی

فاروقی نئی فکر کا عنواں ہے تو
ہاں! اپنے نظریے کا نگہباں ہے تو
یوں دوسرے نقاد بھی اچھے ہیں مگر
دنیائے ادب میں تو نمایاں ہے تو

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ فاروقی کا شمار اردو کے نامور نقادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں سے ایسی ایسی کتابیں تخلیق کی ہیں جو اردو ادب کے سرمایے میں گراں قدر اضافے کا سبب بنیں:
ہر لفظ یہ روشن ریاضت کا ہو
ہر ایک ورق میں ہے تری ہی خوشبو
"تنقیدی افکار" ہے بے مثال کتاب
تعبیر کے ہیں اس میں ہزاروں پہلو

ہر رنگ معانی کا مچل جاتا ہے
ہر لفظ کسی فکر میں ڈھل جاتا ہے
فاروقی کی تنقید کو پڑھ کر اسلم
تخلیق کا انداز بدل جاتا ہے

تحقیق کا انداز سکھایا اس نے
کیا چیز ہے تخلیق بتایا اس نے
فاروقی کا ہم سب پہ نشہ طاری ہے
تنقید کا وہ جام پلایا اس نے
شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت اور فن کارانہ جہات کو اسلم صاحب نے رباعی کے پیرایے میں بڑی ہی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے، بلکہ یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ انھوں نے فاروقی کی فنی کارکردگی کو اپنی رباعی کے ذریعہ سمندر کو کوزے میں سمونے کا کام کیا ہے۔ فاروقی کے بعد شخصی رباعیات میں جن شعرا کا نام آتا ہے ان میں ناوک حمزہ پوری ہے جو منفرد رنگ اور اسلوب کی وجہ سے اپنے ہم عصر شعرا میں ممتاز نظر آتے ہیں. ناوک حمزہ پوری نے اردو رباعی کی راہ میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں. اس تعلق سے ڈاکٹر اسلم پرویز اپنی رباعی میں لکھتے ہیں:
آفت سے مصیبت سے نکالا تو نے
ہر رنگ میں روپ میں ڈھالا تو نے
ہے قابل تحسین کرشمہ تیرا
معیار رباعی کو سنبھالا تو نے
ناوک کی شخصیت کے شایان شان اور صورت حال کے مطابق لفظوں کے استعمال کے ہنر سے بہ خوبی واقف تھے، جو لفظ جہاں رکھ دیا مانو اس کا حق ادا کر دیا ہو۔ اس حوالے سے موصوف لکھتے ہیں:

الفاظ کا ہو حسن کہ جملوں کا شباب
ہم عصر ادب میں ہے یقیناً کمیاب
دیکھی ہی نہیں میں نے ہنوز اے اسلم!!
” تادیب ادب" جیسی زبر دست کتاب

اردو معلی کے ثنا خواں  ناوک
الفاظ و معانی کے گلستاں ناوک
وہ نظم ہو دوہا ہو رباعی کہ غزل
ہر صنف ادب کے ہیں نگہباں ناوک

یہ اسلم پرویز صاحب کی انفرادیت ہے جو کسی بھی شعرا و ادبا کی شخصیت اور ان کے ادبی کارنامے کو بڑی ہی سادگی، سلاست اور روانی کے ساتھ  رباعی کے سانچے میں ڈھال دینے پر خلاقانہ قدرت رکھتے ہیں۔
اردو کی مشہور و معروف افسانہ نگار جیلانی بانو کے افسانوں کی فنی پختگی اور ان کی تخلیقات کی تنقید و تعریف کے لیے رباعی کو ہی وسیلہ اظہار بنایا.
افسانوں کا افسانہ بنا کر چھوڑا
ناول کا تو پیمانہ بنا کر چھوڑا
تخلیق میں جادو کا اثر ہے بانو
قاری کو تو دیوانہ بنا کر چھوڑا

” تریاق" سے دنیا نے لیا کچھ بھی نہیں
"نروان ہوا" پھر بھی ہوا کچھ بھی نہیں
ہے جھوٹ کا بازار بہت گرم مگر
تخلیق تری سچ کے سوا کچھ بھی نہیں

ہر دل کو محبت سے ٹٹولا تو نے
خاموش تھے سب شہر میں بولا تو نے
ہے تیرا کمال اے جیلانی بانو
رستہ تھا اگر بند تو کھولا تو نے

محولہ بالا رباعیات فنی پختگی، فکر و خیال کی بلندی اور فصاحت و بلاغت سے معمور ہیں، ان کا مطالعہ و مشاہدہ کافی وسیع ہے۔ وہ اپنی رباعیوں میں حقیقت بیانی و راست گوئی سے کام لینے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ جیسا کہ ذیل میں چند رباعیات سیدہ جعفر کو بہ طور خراج پیش کی ہیں جو ان کے باطن کو آشکارا کرتا ہے:

اس عالم اردو میں معمر ہیں وہ
وہ راہ نما ہیں اچھی رہبر ہیں وہ
ہیں سیدہ جعفر کے کمالات
تحقیق میں مردوں کے برابر ہیں وہ

تحقیق کے گلشن میں گل تر ہیں وہ
ہر علم کی خوشبو سے معطر ہیں وہ
وہ کون ہیں؟ اب جن کی مہک ہے ہرسو
خاتون دکن سیدہ جعفر ہیں وہ

اسلم پرویز کی شخصی رباعیات کے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے رباعی جیسی مشکل اور دقیق صنف کو جس طور سے گلے لگایا اور اس کے فن کی گہرائی و گیرائی میں اُترنے کی جو حتی الامکان کوششیں کیں ہیں وہ خوش آئند بات ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ اردو رباعی کی تاریخ جب بھی تحریر کی جائے گی، ڈاکٹر اسلم پرویز کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں کی جا سکتی ہے۔
اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے عظیم الرحمن رقم طراز ہیں: "اسلم پرویز اردو کا سب سے کم عمر پختہ رباعی گو شاعر ہی نہیں بلکہ اردو شعر و ادب کا ایک مستقل ادارہ ہے، اخلاقیات و ایمانیات کے میدان میں ایک قندیل ربانی ہے۔ اتنی کم عمری میں ایسا روشن ستارہ کم ہی نمودار ہوتا ہے۔" اسلم صاحب نے رباعی کے فن میں غوطہ زنی کی ہے، اس کے بعد اپنی ایک الگ راہ نکالی اور اسی میں ان کی فن کاری ہے۔
"شخصیات" میں شامل تمام ادبی شخصیات کے بارے میں لکھنے کے لیے ایک مبسوط مقالے کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے میں اپنے اس مضمون میں چند اہم نام درج کرنا ضروری سمجھتی ہوں جن میں سید امین اشرف، پروفیسر طلحہ رضوی برق، پروفیسر اشرف رفیع، شاه حسین نہری، مظفر حنفی، پروفیسر عظیم الرحمن، پروفیسر علیم اللہ حالی، پروفیسر محمد علی اثر، کلیم الرحمن، حبیب صرا، ڈاکٹر عنوان چشتی، خورشید اکبر، ڈاکٹر کہکشاں قسیم، خورشید اکرم، ظفر کمالی، عالم خورشید، عتیق الله تابش، صفدر امام قادری، ابھئے کمار بیباک ،ڈاکٹر پرویز اختر، ڈاکٹر عقیل احمد، مجتبی حسین، ثریا جبیں، ڈاکٹر نصرت جہاں اور دیگر کئی اہم شخصیات پر اظہار تحسین پیش کیا ہے. اس کے علاوہ دو سو کے قریب غیر مطبوعہ شخصی رباعیات بھی قلم بند کر چکے ہیں۔
ان کی رباعیات میں ترکیبوں اور اصطلاحوں کی نادرہ کاری و تازہ کاری قابل توجہ ہے، جدید خیالات و افکار کو اپنانے کی وجہ سے ان کی رباعیات کی شگفتگی کو نئی رمق ملتی ہے۔ ناقدین نے اچھی رباعیوں کا ایک وصف یہ بھی بتایا ہے کہ اس کا آخری مصرع مکمل اور جامع ہونا چاہیے، اگرچہ رباعی کے تینوں مصرعوں کو حذف کر دیا جائے تب بھی چوتھا مصرع اپنے معنی میں مکمل ہوگا، اسلم صاحب کی بیشتر رباعیاں اس صفت کی حامل ہیں۔ مثلاً:
ہونا ہے گہر جس کو وہی آب ہے تو
اب چشم تمنا کا حسین خواب ہے تو
اردو کے نگہبان اے "سب رس" کے مدیر
دنیائے صحافت کا نیا باب ہے تو

غالب کا حسین خواب ہے سنت ہے غزل
شاعر کے لیے ایک عبادت ہے غزل
لاکھوں ہیں نئی فکر کے شعرا لیکن
تابش کے تخیل سے "عبارت" ہے غزل

یہ پیار، خلوص اور محبت بھرا جام
ہے میری رفاقت کا عقیدت کا پیام
تم کہنا صبا دست بدستہ ہوکر
"دخمہ" کے مصنف کو مرے دل کا سلام

رباعی کا اسلوب جس حد تک سہل، سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا ہو گا رباعی اسی قدر زیادہ پر اثر اور اعلیٰ درجے کی ہوگی۔ چنانچہ اسلم صاحب کی بیشتر رباعیاں اتنی سہل اور عام فہم زبان میں ہیں کہ اپنے شیشے پر عطف واضافت تک کا بال نہیں آنے دیا۔
المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب اسلم پرویز صاحب کی ہر ایک رباعی سے ان کی قدرت کلام، فن پر ماہرانہ دسترس خاص طور سے فن رباعی کی نزاکتوں سے آگہی اور موضوعات و مواد پر ان کی عمیق نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں انھوں نے رباعیات نہایت توجہ اور فن کارانہ انداز میں کہی ہیں وہیں اس صنف کو وسعت اور مختلف جہتیں بھی عطا کی ہیں۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے جناب تنویر پھول صاحب ( نیو یارک) گویا ہیں:
بے مثل قلم کار ہیں اسلم پرویز
شاعر ہیں، طرحدار ہیں اسلم پرویز
مہکا یا قلم سے ہے رباعی کا باغ
اے پھول! وہ فنکار ہیں اسلم پرویز

حواشی
1 – ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۔ "اردو شاعری کا فتی ارتقا" عفیف پر نٹس لال کنواں دہلی 6-1994 ص : 308 –

2. ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم "آہنگ رباعیات"، دی پرنٹ لائن سبزی باغ پٹنہ، 2022 ص: 2

ایضاً، ص: 9

3- ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم "پرواز"، دی پرنٹ لائن سبزی باغ، پٹنہ2021 ص: 

ایضاً – 107،99،159
4- ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم ” شخصیات” ، دی پرنٹ لائن سبزی باغ پٹنہ 2021 ص: 9
ایضاً 112-28-27-19-17-13-12-11-
SHAHINA PARWEEN
Research Scholar
Kazi Nazrul University
Asansol(West Bengal)
Email id:shahinajamuria@gmail.com
(شایع شدہ: ماہنامہ خواتین دنیا جولائی 2023)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے