خدا ناراض ہے

خدا ناراض ہے

احسان قاسمی
پورنیہ، بہار، ہند
رابطہ: ehsanulislam1955@gmail.com

کورونا وبا کے دائرۂ عمل کی روز بروز توسیع اور لگاتار حاصل ہونے والی اموات کی خبروں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں سے ناراض چل رہے ہیں۔ یہ بات وثوق کے ساتھ اس لیے بھی کہی جا سکتی ہے کہ چند سال قبل تک جب بھی اپنا فیس بک اکاؤنٹ وا کرتا، اللہ تعالیٰ کے نام کا دیدار ہو جایا کرتا تھا ۔۔۔۔۔ کبھی کدّو پر، کبھی درمیان سے کٹے ہوئے بیگن میں اور کبھی بڑی سی ٹونا مچھلی کی پیٹھ پر جسے ہمارے مسلمان بھائی اپنے ہاتھوں میں سنبھالے نظر آتے تھے۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔ کوئی ایمان والا ہی ہوگا جو اسے شیئر کرے گا۔ بکرے کی پیٹھ اور آسمان میں اڑتے بادلوں کے درمیان بھی قدرتِ الہی کا ظہور اکثر ہوا کرتا تھا۔ بادلوں کے بیچ اور بادلوں سے ہی لکھی اللہ اور محمد والی تصویر تو میں نے بھی من کی مراد بر لانے کو اپنے ایک سو فیس بکی دوستوں کو میسیج کیا تھا۔ من کی مراد پوری نہیں ہوئی۔ بعد میں پتا چلا کہ سو میں بائیس اکاؤنٹ فرضی تھے۔ گویا کہ میسیج اٹھہتر لوگوں تک ہی پہنچ سکا، جب کہ شرط سو لوگوں تک پہنچانے کی تھی۔ بیڑا غرق ہو فرضی آئیڈیز بنانے والوں کا۔ کاری ندّاف کی بیٹی بلبل کسی اور کی ہو گئی۔
خیر! وہ تو بلبل تھی، کسی بھی ڈال پر بیٹھ سکتی تھی۔ لیکن حضرت آدم علیہ السلام کے کرتے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سلائی مشین کی تصاویر بھی تین بار سبحان اللہ لکھ کر شئیر کی تھیں پھر بھی اردو سبجکٹ میں فیل ہو گیا۔
حضرت عائشہ  کی سلائی مشین والی تصویر دیکھ کر ماموں جان نے دو جوتے لگائے۔ کہنے لگے سلائی مشین کی ایجاد ایک امریکی الیاس ہوو (elias howe)
نے ۱۸۴۶ء میں کی تھی۔ تُو یہ چودہ سو سال پرانی سلائی مشین کہاں سے اٹھا لایا؟ میں نے کہا ماموں جان میں خود سے کہاں لایا ہوں؟ یہ تو کسی حافظ قاری علامہ مولانا بلبلِ خوش گلو، طوطیِ ہند و پاک، خطیبِ ملت، بحرِ فصاحت ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ صاحب کی پوسٹ تھی جو ‘اسلام خطرے میں ہے` گروپ میں ڈالی ہوئی تھی، جسے میں نے محض شئیر کیا ہے۔ مجھ سے پہلے ڈھائی ہزار لوگ اس پوسٹ کو شئیر کر چکے ہیں۔ ماموں جان نے مزید دو جوتے رسید کرتے ہوئے فرمایا "جو شخص نقل کرتے وقت اپنی عقل سلیم کو انارکلی کے حوالے کر دیتا ہے وہ ایسے ہی جوتے کھاتا ہے۔"
بات کچھ نہیں!۔۔۔۔ دراصل الیاس ہوو انسان تھا ہی نہایت گھٹیا درجے کا۔ سلائی مشین کی ایجاد اور اس مشین کو پیٹینٹ کروانے کے بعد زندگی بھر دیگر درزیوں سے پٹائی کھاتا رہا کیونکہ ہاتھ سے سلائی کا کام کرنے والے درزیوں کے گھر فاقہ کشی کی نوبت آ گئی تھی۔ لیکن مرنے کے بعد بھی کم بخت نے چین کی سانس نہ لی اور آج میری بھی پٹائی کروا دی۔
خیر یہ تو تھی ماموں جان کے چپلوں کی بات۔ ان کی چپلوں سے کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں رہتا۔ ریلیکسو کمپنی کا ہوائی چپل آخر ہوتا ہی کتنے گرام کا ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ تو اباجی کے اولڈ ماڈل بھاری بھرکم جوتوں کا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اردو سبجکٹ میں کوئی طالب علم بھلا کیسے فیل ہو سکتا ہے؟ یہ سب بس ہمارے صوبے میں ہی ہوتا ہے ورنہ مرکزی سیکنڈری اگزام بورڈ میں تو تمام سبجکٹس میں سو میں سو نمبر ہی آتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے اردو ٹیچرز ہیں ہی دقیانوسی خیالات کے حامل۔ دقیانوسی، تنگ نظر اور احساسِ کمتری میں مبتلا۔ سائنس، میتھ اور انگریزی پڑھانے والے ٹیچرس کے یہاں پرائیویٹ پڑھنے والے اسٹوڈینٹس کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ وہاں بیچ در بیچ چلتے رہتے ہیں۔ اور اردو ٹیچرز کی حالت یہ ہے کہ ؂
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں 
نیتجہ یہ ہے کہ اکثر اردو کے ٹیچرز وقت گزاری کے لیے حکیمی دواخانہ کھول لیا کرتے ہیں یا گھر پر ہی صبح شام ہومیوپیتھ کی پریکٹس کرنے لگتے ہیں۔ ان کا سب کچھ بس یونہی چلتا ہے۔ نہ صحیح سے اردو آتی ہے، نہ حکیمی اور نہ ڈاکٹری۔ جن سے یہ بھی نہیں ہو پاتا وہ یا تو چِلّے کھینچنے میں مصروف ہو جاتے ہیں یا پھر شعر و شاعری میں۔ ارے سر! فارسی پڑھانے والوں سے سبق حاصل کیجئے۔ ہم طالب علموں نے فارسی پڑھنا کیا چھوڑ دیا، اسکول کالجوں سے شعبۂ فارسی ہی غائب ہو گیا، ساتھ ہی اس شعبے میں ملازمت کے امکانات بھی۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیے۔ ویسے بھی صوبائی حکومت نے اردو کو آپشنل سبجکٹ بنا دیا ہے۔ ہمارا کیا ہے، سنا ہے پنڈت رام دیالو جی بہت اُدار وادی اور رحم دل واقع ہوئے ہیں۔ امتحان کی کاپی میں کچھ لکھئے نہ لکھئے سنسکرت سبجیکٹ میں اسّی پچاسی نمبر دے ہی دیا کرتے ہیں۔ تھوڑی بہت سنسکرت تو ہمیں بھی آتی ہے۔ دادا جان مرحوم، اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، اکثر چارواک کا یہ مقولہ پڑھا کرتے تھے ؂
جاوت جِیویت سُکھنگ جیویت
رِیرنگ کِرتوا گھِر تنگ پِیویت
یعنی جب تک جینا ہے سُکھ سے جینا ہے
قرض لے کر بھی گھی پینا ہے۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے دادا جان مرحوم نے بڑے ہی کروفر کے ساتھ زندگی گزاری، قرض لے لے کر گھی پیتے رہے۔ گھی تو خیر سے ہضم ہو گیا، قرض ہضم نہ کر پائے۔ ہم بھی اسی نواب خاندان کے چشم و چراغ اور لعل و گہر ہیں، بس فی الحال ذرا وقت ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ دادا جان کے گھی نے بہت سی پراپرٹی ہضم کر ڈالی ؂
قرض کی پیتے تھے گھی لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
کبھی ابا جی کی دکان ۔۔۔۔۔ "نواب میر شجاعت علی جنگ بہادر آصف الدولہ عرف اچھّن میاں پولٹری چکن شاپ، پرانی حویلی، صدر روڈ" پر بھی تشریف لائیے۔
بہترین چکن شاپ ہے۔ اب لوگوں کا کیا ہے؟ انھیں تو بس یوں ہی بکواس کیے جانا ہے۔ کہتے ہیں خاندانی نواب نے بوچڑ کا پیشہ اختیار کر لیا۔ ابا جی کہتے ہیں کہ بادشاہت اور نوابی یوں ہی نہیں حاصل ہو جاتی، تلوار کے زور پر حاصل کرنی پڑتی ہے۔ فنِ سپاہ گری میں کمال حاصل کرنا ہوتا ہے۔ دشمنوں اور باغیوں کا سر تن سے جدا کرنا پڑتا ہے۔ اب نوابی کا زمانہ نہ رہا، تلوار نہ رہی۔۔۔۔۔۔ تو چُھرا بھی رکھ دیں کیا؟ یہ سالے محلے والے کیا جانیں؟ چھوٹے نواب یعنی والد صاحب کے زمانے میں محرم کا تہوار ہر سال کس آن بان شان سے منایا جاتا تھا۔ سال بھر لاٹھیوں کو تیل پلایا جاتا تھا۔ تلوار، برچھے، بھالے صیقل کیے جاتے تھے۔ ان مولویوں نے فتوے مار مار کر محرم کا تیاپانچہ کر دیا۔ آج حالت یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی گھر میں ایک عدد تیلیا سانپ بھی نکل آئے تو سارے محلے میں لاٹھی ڈنڈا ڈھونڈتے پھریں گے۔ یہ سالے میری چُھری پر اعتراض کرتے ہیں۔ آج کسی دشمن کا حملہ ہو جائے تو ان کے گھر سے مقابلے کے لیے ایک معمولی سا ہتھیار تک برآمد نہ ہوگا۔ مسجد کے کسی گوشے میں چھپ کر اللہ اللہ کرنے لگیں گے۔ میرے پاس تو چوبیس گھنٹے چُھری موجود رہتی ہے۔ ہے کسی چور اچکے کی مجال جو میرے آنگن میں چھڑپ کر دکھا دے؟"
ابا جی کبھی یہ نہیں بتاتے کہ ہمارے یہاں لے جانے لائق کوئی چیز ایسی ہے ہی نہیں کہ کوئی چور خواہ مخواہ اپنا وقت برباد کرنے پر آمادہ ہو۔ ڈھائی سال قبل ایک جوان نے رات کے وقت آنگن کی دیوار پھاندنے کی حماقت کی تھی، عین موقعے پر پکڑا گیا۔ اب وہ میرے بھانجے کا باپ ہے۔ دو بہنیں ابھی مزید انتظار میں بیٹھی ہیں لیکن آج کل کے نوجوانوں میں وہ دم خم کہاں کہ کسی کے آنگن میں چھڑپ سکیں۔
بہرحال مجھے ان اول جلول باتوں سے کیا مطلب؟ مجھے تشویش فقط اس بات کی ہے کہ ان دنوں فیس بک پر اللہ تعالیٰ کے درشن نہیں ہو پا رہے ہیں۔ خدا جانے وہ اللہ والے لوگ کدھر گم ہو گئے جو پوسٹ ڈالنے کے بعد یہ ضرور لکھتے تھے کہ ‘اس پوسٹ کو شئیر کرنے سے شیطان آپ کو روکے گا` یا پھر یہ کہ ‘کوئی ایمان والا ہی اس پوسٹ کو شئیر کرے گا`۔ اِن دنوں اُن کا کچھ اتا پتا نہیں۔
ارے ہاں! چند اور لوگ بھی ہوا کرتے تھے جو مسلک مسلک شارٹ باؤنڈری ٹورنامنٹ کا اہتمام کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ مخالف مسلک والوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کروانے کی خاطر ہر دم ہاؤز دیٹ۔۔۔۔ ہاؤز دیٹ کے ولولہ انگیز نعرے بلند کرتے رہتے تھے۔ خود کو مسلمان اور دیگر کو خارج از ایمان قرار دینا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ یہ ہمیشہ مخالف سمت میں اپنا منھ موڑے رہتے تھے لیکن کفر کے ایک ہی طمانچے نے ان کا منھ سیدھا کر دیا۔ ان دنوں ان میں سے کچھ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور کچھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اب کس کے دل کی بات کون جانے؟ کب این آر سی، سی اے اے اور کووڈ ۱۹ کا زور ٹوٹے اور ہمارے فیس بکی یہ احباب پھر سے مسلکی ٹی ٹوینٹی کا افتتاحی فیتہ کاٹ کر چئیر گرلس کا رول ادا کرنے لگیں.
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ فیس بک اسلام پسندوں سے یکسر خالی ہو چکا ہو۔ ابھی بھی چند جیالے ایسے موجود ہیں جو مذہبِ اسلام کا نام لے کر جھوٹی سچی حکایات، غیر مستند تاریخی واقعات، بے سر و پا پند و نصیحت فیس بک پر ڈالتے رہتے ہیں۔ اور ہمارے دیگر بھائی بھی بغیر کچھ سوچے سمجھے ماشااللہ، سبحان اللہ کہہ کر لائک دیتے اور پوسٹ کو شئیر کرتے جاتے ہیں۔ کوئی ایسی پوسٹس ڈالنے والوں سے سوال نہیں کرتا، سند نہیں مانگتا، لاجک نہیں پوچھتا۔۔۔۔۔۔ کیا اسلام کے نام پر کچا پکا کچھ بھی پیش کر دینا مناسب ہے، جائز ہے ؟؟
خدا ضرور ہم سے ناراض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
***
احسان قاسمی کی گذشتہ نگارش:سیمانچل میں اردو زبان و ادب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے