غضنفر کی غزلیہ شاعری کا اختصاص

غضنفر کی غزلیہ شاعری کا اختصاص

(آنکھ میں لکنت کے حوالے سے )

ڈاکٹر منظر حسین
(سابق صدر شعبہ اردو رانچی یونی ورسٹی) 

اکیسویں صدی میں غزل کے افق پر جن فنکاروں نے اپنے اسلوب لب ولہجہ اور تخلیقی رویے کی بنیاد پر اپنی فنی خوبیوں کا واضح احساس دلایا ہے، اُن میں بلاشبہ ایک معتبر نام غضنفر کا ہے۔ یوں تو غضنفر کی شناخت اردوادب میں فکشن کے معتبر دستخط کی ہے لیکن ناول، افسانے کے علاوہ انھوں نے خاکہ نگاری، لسانیات کے ساتھ ساتھ شاعری کے سرمایے میں بھی اضافہ کیا ہے۔ غضنفر کا شعری مجموعہ "آنکھ میں لکنت“ شائع ہو چکا ہے۔ کتاب کا عنوان بہت ہی بلیغ ہے اور فنکار کے اس شعر سے ماخوذ ہے جو شاعر کے افکار ونظریات اور عقائد کا آئینہ دار ہے۔
نظر بھی حال مرے دل کا کہہ نہیں پاتی
زباں کی طرح مری آنکھ میں بھی لکنت ہے
غضنفر کی غزلوں کی تہہ میں جائیں تو ایک ایسے شخص کی آواز سنائی دے گی جس نے محسوسات کو فکر کا رتبہ عطا کیا ہے۔ وہ محض واردات قلبی کے شاعر نہیں ہیں، ان کی فطانت غزل کے سانچے میں اپنی اظہاریت کو پہنچتی ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی بانکین بھی ہے اور مہذب لب و لہجہ بھی اور سب سے بڑھ کر وہ عصر بھی ہے جسے ہم صدائے دروں (Radical Internalisation) سے موسوم کر سکتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے بے ضمیر اور بے حیا دور تاریخ سے گذر رہے ہیں جہاں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ اقدار کے شکست وریخت، ماحول کا جبر، رشتوں کی پائمالی، سیاست کی شعبدہ بازی، عدالت کی متعصبانہ ذہنیت، سماجی اتھل پتھل کا بازار گرم ہے۔ ایسے سفاک عہد میں شاعر کا سب سے اہم کام اپنی داخلی ترنم ریزی کو زندہ رکھنا اور اُس کی حفاظت کرنا ہے۔ غضنفر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے درد و کرب اور اپنے عہد کے خوفناک و غمناک فضا اور اس سے پیدا شدہ مسائل و حقائق کو مکمل بصیرت و آگہی اور گہرے شعور کے ساتھ مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان اشعار کو پڑھ کر بصارت بھی بڑھتی ہے اور بصیرت بھی۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ فکر وخیال کی یہ زمینی سچائی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کی گہری شناسائی کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں چند اشعار ملاحظہ ہوں:

کہیں بھی جائیں سزائیں ہمیں ہی ملنی ہیں
عدالتوں کی ہماری عجیب حکمت ہے

اسی کو سونپ دیا ہم نے منصفی کی زمام
کہ جس کے خواب میں بھی عکسِ غاصبیت ہے

بے وزن تھے جو لوگ وہ سکوں میں تل گئے
منصف تمہارے عدل کے سب پول کھل گئے

موبائل پر محبت بک رہی ہے
بس اک جنبش میں چاہت بک رہی ہے

کھیل میرا تو اسی شخص کے ہاتھوں بگڑا
وہ جو ہر کام بنانے کا ہنر رکھتا ہے

ان اشعار میں غضنفر کی نظری توانائی اور تخلیقی شیفتگی کے واضح نشانات ملتے ہیں۔ ان میں خود آگہی کی نعمت بھی ہے اور افکار کے مشعل بھی روشن ہیں۔ اوپر کے دونوں اشعار میں حرماں نصیبی کا احساس چھایا ہوا ہے۔ ” عدالتوں کی ہماری عجیب حکمت ہے کہ جس کے خواب میں بھی عکس غاصبیت ہے" عصر حاضر کا یہ ہم کو انعام ہے جو ایک طاقتور Slogan بن گیا ہے جو شاعر کے عرفان کی قوت اور اس کی قوت گویائی پر دال ہے۔ غضنفر کی شاعری ایسی صداقت سے منضبط ہے جس میں جرات مندی، حق گوئی و بیبا کی ہے۔ ان کے یہاں ایسے بہت سے اشعار مل جائیں گے جن میں فنکار کے رنگ افشاں جذبات مجروح آرزوؤں اور پیچیدہ نفسی کیفیتوں کا بڑی دلآویزی کے ساتھ اظہار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں فنکار اپنے علاوہ باشعور قاریوں کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ دیکھیے یہ اشعار:
یقین کیسے دلائیں وفا شعاری کا
دلوں کو چاک کریں یا کہ ہم جگر کھولیں

دشمن ہے کون؟ دوست کون؟ کسی کو کیا پتا
سب لوگ رہ رہے ہیں نقابوں کے شہر میں

کیوں کر کوئی سنبھال کر رکھے متاع جاں
اس شے کی اس جہان میں قیمت نہیں رہی

ان اشعار میں فکر کی تمازت کے علاوہ ہلکے ہلکے طنز کی زیریں لہریں بھی نظر آتی ہیں۔ لہجے میں گھن گرج نہیں بلکہ دھیمی دھیمی مدھم لے ہے جو آہستہ آہستہ اثر دکھاتی ہے۔ پہلے شعر میں سارے الفاظ و استعارے جانے پہچانے ہیں اور عصری حسیت اور عصر حاضر کے ایک حساس فنکار کا احساس شکستگی کی داستان بھی۔ تیسرے شعر میں عصری شعور اور آگہی کا التزام ہے۔ چوتھا شعر فنکار کے درد و کرب کی اندرونی کیفیت کو ایک مخصوص معنویت عطا کرتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ غضنفر اپنے عہد کی تہذیبی، معاشرتی، سیاسی ابتذال کی تمسخرانگیز صورتوں کو آئینہ کر کے اپنے دل میں چھپے ہوئے درد و اضطراب کی کیفیت اور اُس کی کارفرمائی کو اجاگر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ غضنفر کی غزلیہ شاعری کی ایک اہم شق عشق و محبت کے جذبات و کیفیات کی آئینہ داری بھی ہے۔ وہ عشق کے معاملے میں بھی منفرد اظہار و اسلوب کے شاعر ہیں۔ جذبات و واردات کے بیان میں سچائی اور خلوص ہے۔ وہ عشق کے حوالے سے نہ تو آسمان سر پر اٹھاتے ہیں اور نہ ہی عشق کی لذت اور معاملات عشق کی کیفیت سے آنکھیں چراتے ہیں۔
دیکھیے یہ اشعار :

غمزدہ صورت کسی محبوب کو بھاتی نہیں
عشق میں عاشق کو بھی بننا سنورنا چاہیے

عشق کی سرحد میں شاید عقل داخل ہوگئی
کوئی بے تابی اب نہیں کوئی نادانی نہیں

کس قدر لپٹے ہیں دل سے اضطراب
مرے بستر کی شکن کو دیکھیے

آتش ہجر میں دل پھر سے سلگنا چاہیے
سردی وصل کی یلغار سے بچنا چاہے

یہ بھی اک صورت غضنفر زندگی کرنے کی ہے
عمر کوئی ہو کسی صورت پہ مرنا چاہیے

یہ تمام اشعار عشق کی جمالیات کے لطیف احساسات کے آئینہ دار ہیں۔ ہر شعر میں Transparacy ہے جو قاری کی توجہ اپنے اندر جذب کر رہا ہے۔ فنکار پوری طرح رہ و رسم عاشقی کی اور اس کے رچاؤ سے واقف ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی شعر میں جذبات کے اظہار میں بلند آہنگی یا تموج و تلاطم نہیں بلکہ بیان میں اعتدال اور توازن ہے۔ رومانیت سے مزین، ہم کہہ سکتے ہیں کہ غضنفر کی شاعری میں عشق و محبت کے اظہار میں منضبط جذبات و احساسات کی جلوہ گری ہے جو پڑھنے والے کو عشق کے معاملے میں یہ اشعار Provoke نہیں کرتے بلکہ Motivate کرتے ہیں۔ غضنفر کی غزلیہ شاعری کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ عصری حسیت اور داخلی حسی کیفیات کو ابھارنے کے لیے مختلف استعاروں کا استعمال وسیع تر معنویت کے ساتھ کیا ہے۔ مثلاً خواب، صحرا، سمندر، کربلا اور اس کے متعلقات ان کی شاعری میں پوری طرح شاعرانہ جمال کے حامل ہیں جو معاصر حالات کے ادراک کی تخلیقی شناخت کا ضامن ہیں۔ مثلاً خواب کا استعارہ عصری غزل کا ایک معنی خیز استعارہ ہے۔
رفتہ رفتہ آنکھوں کو حیرانی دے کر جائے گا
خوابوں کا یہ شوق ہمیں ویرانی دے کر جائے گا

خوابوں کا اک طلسم بچا تھا دماغ میں
اب کے برس اُسے بھی کوئی توڑ لے گیا

کیا پتہ نیند کب چلی جائے
مختصر خواب کا سفر کرلوں

پہلے شعر میں خواب کا استعارہ بے چینی اور نا امیدی و نا آسودگی کا اشاریہ بن گیا ہے۔ دوسرے شعر کا لفظی مفہوم بالکل سادہ اور عام فہم ہے۔ شعر کا دوسرا مصرع ”اب کے برس اُسے بھی کوئی توڑ لے گیا" اس خواہش کا غماز ہے جس کے نتیجے میں شعری کردار کے اعصاب پر تنی کوئی کیفیت نمایاں ہے۔ کون لے گیا میں جس کرب کا اظہار ہے اس میں فنکار نے داخلی کیفیت کو اجاگر کرنے میں فنی ہنرمندی دکھائی ہے۔ تیسرا شعر سہل ممتنع کی صنعت میں ہے جس میں خود کلامی کی کیفیت ہے۔ شعر کا دوسرا مصرع ”مختصر خواب کا سفر کرلوں" پہلے مصرع ”کیا پتہ نیند کب چلی جائے“ کی ذہنی پیچیدگی اور نفسیات کو اجاگر کرتا ہے اور یہ مصرع اس بات کا اشاریہ بن جاتا ہے کہ شاعر اپنی تشنہ آرزؤں کی تکمیل کے لیے خوابوں کی دنیا میں پناہ لینا چاہتا ہے۔ غضنفر کی شاعری میں کربلا کے استعارے اور اس کے متعلقات اور تلازمات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایک کثیر الا بعاد علامت ہے۔ عصری غزل میں اس کا استعمال تواتر کے ساتھ ہوا ہے۔ غضنفر کے یہاں بھی عصری صورت حال کے تناظر میں کربلا کا استعارہ وسیع تر معنویت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ دیکھیے یہ اشعار:
راہ خدا میں امن وصداقت کے نام پر
سیکھے کوئی حیات لٹانا حسین سے

گردن بھی کٹ پڑے تو غضنفر گلہ نہیں
سیکھا ہے میں نے خون بہانا حسین سے

مانا کہ کچھ نہ چاہیے راہ حسین میں
شانوں پہ کوئی سر تو مگر ہونا چاہیے

پہلے شعر میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صحت مند قدروں کی یاد یعنی باطل پر حق کی فتح کا اشاریہ بن گیا ہے جب کہ دوسرا شعر والہانہ جذبوں کی سربلندی کا اشاریہ ہے۔ تیسرے شعر میں بھی وہی احساس ہے۔ شعر کا دوسرا مصرع "شانوں پر
کوئی سرتو مگر ہونا چاہیے" میں ایک اعلان نامہ ہے باطل قوت اور طاغوتی نظام سے نبرد آزما اور برسر پیکار ہونے کا۔
غضنفر میں یہ آواز ایک چوٹ کھائے ہوئے دردمند دل کی آواز ہے جس میں اسلامی تاریخ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں عالمی پیمانے پر لوگ کرونا جیسی وبائی مرض کی وجہ سے خوف و دہشت میں مبتلا ہیں۔ چاند پر قدم جمانے والا انسان اور خلائی پروازوں کی کامیابی پر اترانے والے ممالک اس وبائی مرض کی وجہ سے بے بس اور مجبور نظر آرہے ہیں۔ پوری دنیا میں انتشار اور افراتفری کا ماحول ہے۔ لاک ڈاؤن نے لوگوں کو مقید اور محصور کر رکھا ہے۔ Social distance کا نعرہ دیا جارہا ہے۔ لوگ ڈاکٹروں اور میڈیکل ٹیم سے ہاتھا پائی کر رہے ہیں۔ مسجدیں ویران پڑی ہیں۔ اس تناظر میں غضنفر کی غزلیہ شاعری میں ایسے اشعار مل جائیں گے جو کرونا کی وجہ سے عالمی سطح پر خوف و دہشت کا آئینہ دار بن گئے ہیں۔ دیکھیے یہ اشعار:
گھر میں بیٹھے ہیں اور آنکھوں میں
عکس ٹھہرا خوف و دہشت کا

پل میں ہنستا ہوں پل میں روتا ہوں
ہے عجب رنگ اب طبیعت کا

کسی کے پاس نہیں ہے یہاں غموں کا علاج
الجھ رہا ہے مریضوں سے اب مسیحا بھی

گھر میں رہتے ہیں مگر کچھ اس طرح
رات دن جیسے کسی گھیرے میں ہیں

اذانوں کا یہ سارا مسئلہ ہے
نہیں ہے بات کچھ بھی مسجدوں کی

یہ تمنا نہیں کہ مر جائیں
زندہ رہنے مگر کدھر جائیں

مصلحت کا اب تقاضا ہے یہی
دوستوں سے کچھ قدم پیچھے رہیں

مسیحائی کو نکلے تھے بنے عیسی غضنفر جی
مریضوں نے انھیں بھی دار پہ لٹکا دیا اب کے

ان اشعار میں کرونا کے خوف کا قہر بھی ہے اور فنکار کے تفکر کا اظہار بھی۔ یہ اشعار کرونا کے موضوع کے حوالے سے معنوی امکانات پر محیط بھی ہیں اور تاثر کو ابھارنے میں پوری طرح کامیاب بھی اور لوگوں کے اضطراب و انتشار کا اشاریہ بن گئے ہیں۔ غضنفر کی غزلیہ شاعری کے پیچھے جذبات و احساسات کی شاعری ہے جس میں فکر کی گہرائی بھی ہے اور فن کی تہہ داری بھی۔ اُن کی غزلوں کا لہجہ روح میں اندر تک اتر جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غضنفر کا تخلیقی سفر جاری ہے۔ وہ ایک کثیر الجہات فنکار ہیں۔ اپنی گفتگو کا اختتام غضنفر کے اس شعر پر کرتا ہوں جس میں تعلی تو ہے لیکن صداقت سے مزین بھی۔

لوگ اس پر بھی ہیں برہم کہ غضنفر کیوں کر
زخم کو پھول بنانے کا ہنر رکھتا ہے
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:افسانہ سائبر اسپیس کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے