حیرت انگیز اختراعی صلاحیتوں کا مالک قلم کار: اسلم حنیف

حیرت انگیز اختراعی صلاحیتوں کا مالک قلم کار: اسلم حنیف

جمال عباس فہمی

اسلم حنیف کا اصل نام عبدالمقیت ہے، اسلم حنیف اتر پردیش کے قصبہ گنور میں 3 جنوری 1956 میں ایک اسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو کئی پشتوں سے دینی علوم اور طب و حکمت کا گہوارہ رہا ہے۔

بیشتر شعرا روایتی طور پر موجود اصناف سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کے یہاں جدت طرازی زبان و بیان کی حد تک ہی ہوتی ہے. موجودہ اصناف سخن کی ہیئت میں ترمیم کرنا، اور نئی اصناف سخن ایجاد کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔ ہیئت کے اعتبار سے اصناف میں تبدیلی، نئی ہیئتوں کے ساتھ اصناف سخن کی ایجاد اور عروض کی من جملہ فنی خوبیوں کے ساتھ سخن کی اصناف ایجاد کرنے کا کام صرف اختراعی اور جدت طرز ذہن کا مالک ہی کرسکتا ہے۔ اس وقت بر صغیر ہندستان اور پاکستان میں صرف اسلم حنیف ہی ایسے فن کار ہیں جو متعدد اصناف کے موجد ہیں۔ انھوں نے مختلف اصناف کے اوزان بھی وضع کیے ہیں۔ انھوں نے رباعی میں توشیح کا تجربہ کیا ہے۔ اسلم حنیف نے رباعی کے اوزان کو غزلوں میں برتنے کا بھی کامیاب تجربہ کیا ہے۔ ان کا ایک کارنامہ تو منفرد نوعیت کا یہ ہے کہ انھوں نے 754 اوزان میں غزلیں کہی ہیں۔ اسلم حںیف نے ہیئتی تنقید اور تحقیق جیسے دقیق شعبے میں بھی کام کیا ہے۔ اسلم حنیف کی اختراعی صلاحیتوں اور ان کی ایجاد کردہ اصناف پر گفتگو کرنے سے پہلے ان. کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اسلم حنیف کا اصل نام عبدالمقیت ہے۔ اسلم حنیف اتر پردیش کے قصبہ گنور میں 3 جنوری 1956 میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو کئی پشتوں سے دینی علوم اور طب و حکمت کا گہوارہ رہا ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر محمد عبدالقیوم بھی حاذق طبیب تھے۔عبدالمقیت کی ابتدائی تعلیم مقامی اسلامیہ اسکول میں ہوئی۔ انھوں نے اردو میں ایم-اے کیا اور اپنے خاندانی پیشے طبابت اور حکمت سے متعلق ڈگری حاصل کی۔ اسلم حنیف کو اولاد کے سلسلے میں صدمات سے دو چار ہونا پڑا۔ ان کی بڑی دختر کا صرف ایک برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ بڑا فرزند چھ برس کی عمر میں مرگی کے مرض میں مبتلا ہوا اور طویل بیماری کے بعد 27 برس کی عمر میں 2013 میں انھیں جدائی کا داغ دے گیا۔ جوان بیٹے کی موت سے ایک حساس قلب کے مالک باپ کی کیا حالت ہوسکتی ہے اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس صدمے نے اسلم حںیف کی ادبی، تخلیقی اور تحقیقی سرگرمیوں کو بہت متاثر کیا۔ گنور ادب کی سرزمین رہی ہے۔ اس ادبی ماحول کے رنگ میں اسلم حنیف بھی رنگ گئے اور پھر یہ ہوا کہ شعر و سخن ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو گیا۔ اسلم حنیف نے ابتدا میں عروض داں اور استاد شاعر علامہ رمز آفاقی سے مشورہ سخن کیا۔ تجربات کرنے کی جبلت انھیں اپنے والد سے ورثے میں ملی۔ ان کے والد ادویات اور علاج معالجے میں تجربے کرتے تھے اور اسلم حنیف نے تجربات کرنے کی جرأت شعر و سخن کے میدان میں دکھائی۔ تجربے کرنے کی جرأت اور اختراعی طبیعت کے امتزاج کے نتیجے میں اسلم حنیف جیسا وجود تشکیل پا گیا۔
حالانکہ اسلم حنیف کی ادبی زندگی معرکوں اور چپقلشوں سے بھی عبارت رہی ہے۔ انھوں نے قتیل شفائی، بیکل اتساہی اور ابر احسنی گنوری جیسے مستند شعرا کے کلام میں عروضی غلطیوں کی نشان دہی کرکے "ادبی پنگے" لیے۔ گوپی چند نارنگ کی تھیوری ما بعد جدیدیت کی دھجیاں اڑائیں۔ لا تحریک بھی چلائی لیکن اس مضمون میں شعر و سخن کے حوالے سے اسلم حنیف کی اختراعات اور جدت طرازی کے نمونوں کا ہی تفصیل سے جائزہ لیا جائےگا۔ اسلم حںیف نے کئی اصناف سخن کی اختراع کی ہے۔ ان میں "موشح نما غزل"، "مثلثی"، "شکل ساز غزل"، "ٹھوس نظم"، "تضمینی غزل" جسے آدھی غزل بھی کہا جاتا ہے، "شخصیاتی نثری نظم" اور "آزاد معریٰ" اور "نثری توشیح" قابل ذکر ہیں۔
غزل اردو کی مقبول ترین صنف ہے۔ فنی اور ہیئتی اصولوں کے اعتبار سے یہ سخت صنف ہے۔ کسی بھی طرح کی تحریف اس کے مخصوص ہیئتی اور فنی آہنگ کو مجروح کرسکتی ہے۔ آزاد غزل کی مخالفت اسی بنا پر کی جاتی ہے کہ غزل کی سب سے بڑی خوبی ہر مصرعے کا آہنگ یکساں ہونا ہے اور آزاد غزل اس صوتی آہنگ کو تباہ کردیتی ہے۔ اس کو اسلم حںیف کی جدت طرازی نہیں بلکہ جرأت طرازی ہی کہا جائےگا کہ انھوں نے غزل کی اس بنیادی خوبی کو برباد کیے بغیر اس میں متعدد تجربے کیے۔ انھوں نے ایک غزل ہی سو سے زائد اوزان میں تخلیق کی۔

جو غم کی فضاؤں میں ہے دل اب
یہ کیسی سزاؤں میں ہے دل اب

انھوں نے ایسی غزل بھی کہی کہ جس میں مطلع کو چھوڑ کر ہر شعر کا پہلا مصرع مقفیٰ ہے۔

جو بنا رہا تو اپنے وجود کو سمندر
نہ ملا کوئی شناور تو بتا کہ کیا کرے گا

انھوں نے ایسی غزل بھی کہی جس کے ابتدائی چار اشعار بحر رجز کے آٹھ اوزان پر مشتمل ہیں۔

شور فضاؤں میں یہ حد سے سوا کیوں ہے
آج پریشاں ہر موج صبا کیوں ہے

اسلم حنیف ایسی غزل کے بھی خالق ہیں جو ایک حرفی آواز کے قافیہ پر مشتمل ہے۔

انا ہے میرے مقابل تو یہ بھی دیکھنا ہے
یہ سرد جنگ کہاں تک چلے گی دیکھنا ہے

انھوں نے ایسی غزلیں بھی کہی ہیں جو عطف و اضافت سے ماورا "صنعت تلون" میں ہیں۔

ہم نے جس کو چاہا ہے اس سے رشتہ کیسا ہے
سوچو تو وہ اپنا ہے پرکھو تو بیگانہ ہے

ان کا یہ کارنامہ بھی حیرت ناک ہے کہ ان کی ایک غزل میں قرأت کی تبدیلی سے "بحر رمل" کے دو اوزان پیدا ہو جاتے ہیں۔

خنجر شب جو اتر آئیں گے آنکھوں میں مری
منظر رفتہ ٹھہر جائیں گے آنکھوں میں مری

اسلم حنیف نے ایسی غزلیں بھی کہی ہیں جو "شجرہ اخرب و اجرم" کے اشتراک سے ماورا ہیں اور 24 اوزان میں ہیں۔

اظہار سے محروم ہوں ہو کر فنکار
یارب یہ عطا کئے ہیں کیسے آزار

اسلم حنیف "موشح نما غزل" کے موجد بھی ہیں۔موشح عربی شاعری کی صنف ہے۔ اس میں مختلف ہیئتیں موجود ہیں۔ فارسی شاعری میں اساتذہ نے اسے مستزاد کا نام دیا۔ ایک ہیئت میں شعر سے قبل چھوٹے چھوٹے مقفیٰ مصرعے چسپاں کیے جاتے ہیں۔ اسلم حنیف کی جدت طراز فطرت نے اس میں بھی تجربے کر ڈالے۔
انھوں نے ان تجربات سے پیدا شدہ صنف کو "موشح نما غزل" کا نام دیا۔

دوستی۔۔۔۔ اک وسیلہ بنی آگہی کے لئے
پیار کی۔۔۔ ایسی شمعیں جلا زندگی کے لئے

فارسی مستزاد کی صنف میں انھوں نے یہ تجربہ کیا۔ مقفیٰ چھوٹے مصرعے کی جگہ پورا مصرع لکھ دیا اور اس طرح یہ صنف وجود میں آئی۔

انکے رنگین خیالو ہم کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ پریشان کرو۔ مرحلہ آسان کرو
غم دوراں سے نکالو ہم کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک احسان کرو۔ خود کو نگہبان کرو

دونوں طرزوں کو یکجا کرکے بھی انھوں نے ایک صنف ایجاد کی۔

خلش ہے یا کہ محبت۔۔ اسے ہے ضد کہ گلوں کی قطار میں نہ رہوں خموش ہیں مرے لب

ہے کس لئے یہی چاہت نگاہ میں رہوں لیکن شمار میں نہ رہوں یہ بات بھی ہے عجب

انھوں نے دو بیتی غزل بھی تخلیق کی جس کے درمیان قطعے کی طرح دو بیتی تخلیق کی گئی ہے۔

سینے کا ہر زخم مہک جاتا ہے
چھن جاتا ہے ہر ہر مرا احساس قرار

پیمانہ صبر کا چھلک جاتا ہے
آتی ہے یاد رفتہ جب بھی اے یار

اسلم حنیف کی اختراعی صلاحیت ان کی ایک غزل میں اس طرح نمودار ہوتی ہے کہ اس کو پڑھتے وقت پڑھنے والے کے ہونٹ ہی آپس میں نہیں ملتے۔

یہ ہے چراغ دل کی حقیقت
خون کی حدت سے جلتا ہے

انھوں نے ایک غزل تو اس ترکیب سے کہی ہے کہ ہر مصرع کے خاتمے پر ہی پڑھنے والے کے ہونٹ باہم ملتے ہیں۔

جو اس کی گلی سے اٹھے ہیں تو اب
سوئے دشت جائیں کہ گھر جائیں ہم

اسلم حنیف نے دو رکنی غزل بھی کہی ہے

جہان غم
ہے تجھ میں ضم

وہ لہجہ ہے
کہ ہے ریشم

نہ بن شیطاں
بنی آدم

کہاں ہے گم
بتا اسلم

754 اوزان پر مبنی غزلوں کے ان کے مجموعے "ورق ورق نیا آہنگ" کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے جو وزن کسی ایک غزل میں اختیار کیا اس کو پھر کسی اور غزل میں دہرایا نہیں۔ اس مجموعے میں بعض ایسی غزلیں بھی شامل ہیں جو نہایت ثقیل بحروں میں ہیں۔ جن پر اساتذہ فن بھی طبع آزمائی سے گریز کرتے ہیں۔

میں الم نصیب بھرتا رہا شب و روز گوشوارہ شب
نگہ ستم بنا گئی جب مرے گھر کو ایک ادارہ شب

جب سے میری ہمسفر ویرانی ہوئی
لمحہ لمحہ معتبر ویرانی ہوئی

ہے خلاؤں کی اگر تو ہی فنکار ہوا
مرے خوابوں کے بھی رکھ یہاں آثار ہوا

دوہا ہندی کی صنف سخن ہے۔ اسلم حنیف نے دوہا کی صنف میں غزلیں کہہ ڈالیں۔

بستی کے سب لوگ ہیں بے دل بے احساس
اپنا دکھڑا روئیں ہم جا کر کس کے پاس

اسلم حںیف نے مروجہ 24 اوزان میں رباعی نظم کی۔انھوں نے تضمینی رباعیات بھی نظم کی ہیں۔

رکھتا ہے انہیں انکا تکبر سرشار
جنگل سے جدا ہوتا ہے انکا کردار
کر دیتے ہیں واپس جو صدا آتی ہے
لیتے نہیں احسان سماعت کہسار

انھوں نے 12 نئے اوزان میں بھی رباعیات تخلیق کی ہیں۔

ہر حوصلہ ٹوٹا تلوار گر گئی
اک کیف سا ابھرا تلوار گر گئی
یہ کس کی طرف ہاتھ بڑھا ہے میرا
رعشہ ہوا پیدا تلوار گر گئی

ہائیکو ایک جاپانی صنف سخن ہے۔ جو تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن اس میں قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی۔ اسلم حنیف نے ہائیکو میں یہ تجربہ کیا کہ پہلے اور تیسرے مصرعے میں قافیہ استعمال کیا۔ اس طرح ہائکو کی ایک نئی جہت وجود میں لانے کا سہرا بھی انھی کے سرہے۔

اندھی گونگی شب
مجھ سے مل کر پچھتائی
لنگڑی لولی شب

نظر کی جست
اگر نہیں بلند
اڑوگے پست

سین ریو (SENRYU) بھی جاپانی صنف سخن ہے. ہائیکو اور سین ریو کی ہیئت یکساں ہے لیکن ہائیکو میں سنجیدہ مضامین باندھے جاتے ہیں جب کہ سین ریو میں طنز و مزاح کا پہلو غالب رہتا ہے۔ اسلم حنیف نے سین ریو میں بھی قوافی، اور تخلص کا التزام کیا۔ انھوں نے تضمینی سین ریو بھی لکھے۔

مجھ سے اٹھلائی
گود میں لے کر بیوی
آٹھواں بچہ

ماہیا۔ پنجابی لوک گیت ہے۔ یہ اردو میں رائج ہے. لیکن کم ہی شعرا اس پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اسلم حنیف نے ماہیا میں بھی جدت طرازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے 24 اوزان میں ماہیے تخلیق کیے۔ ماہیا میں بھی قوافی استعمال کیے۔ اس میں تخلص کا استعمال بھی انھوں نے ہی شروع کیا۔ اسلم حںیف نے ترجمانی اور تضمینی ماہیے بھی تخلیق کیے۔ اسلم حنفیف نے قرآنی آیات کے مطالب کو بھی ماہیے میں پرویا ہے۔

آکاش پہ چڑھنا سیکھ
رفتہ رفتہ تو
معیار میں بڑھنا سیکھ

جب پیار کا موسم تھا
اپنا وجود اسلم
احساس مجسم تھا

اسلم حنیف نے توشیح میں بھی تجربے کیے۔ توشیح ایسی صنعت ہے جس میں ممدوح کی شان میں لکھے اشعار اس کے نام کے پہلے حرف سے لے کر آخری حرف تک سے شروع ہوتے ہیں۔ اسلم حنیف نے اس میں یہ تجربہ کیا کہ اپنے تخلص کو بھی اس طرح شامل کیا کہ ممدوح کے نام کے پہلے حرف سے شروع ہوئے مصرعے کا اختتام شاعر کے نام کے پہلے حرف پر ہوتا ہے۔ توشیح پہلے پابند نظم ہوتی تھی لیکن اسلم حنیف نے معریٰ اور نثری توشیحات بھی لکھیں۔انھوں نے حمدیہ اور نعتیہ توشیحات بھی لکھیں۔ ایک توشیح تو انھوں نے چار شخصیات کی مدح سرائی میں لکھ دی۔ انھوں نے توشیحی رباعیات بھی لکھی ہیں۔
Altar Poems انگریزی شاعری کی ایسی صنف ہے جس میں مصرعوں کے ذریعے کوئی شکل تشکیل دی جاتی ہے۔ اردو ادب میں صنعت مشجرہ کی مثالیں اسی ذیل میں ملتی ہیں۔ لیکن اردو میں اس فن شاعری سے متعلق باقاعدہ کوئی صنف نہیں تھی۔ لیکن اسلم حنیف نے شکل ساز نظم کی صنعت ایجاد کی۔ انھوں نے انسانی ڈھانچہ اور لیمپ کی شکل ابھارنے والی نظمیں لکھیں۔ اس صنف میں ہیئت اور آہنگ کا امتزاج ملتا ہے۔ اسی صنعت کے ذیل میں ٹھوس نظم یعنی Concrete Poems بھی آتی ہیں۔ دونوں میں فرق شکل سازی کا ہے۔ ٹھوس نظم میں جیومیٹری کے ذاویوں کی شکل والی سہ گوشہ، چہار گوشہ، پنج گوشہ اور شش گوشہ نظموں کی شروعات اسلم حنیف نے کی۔ ان گوشوں کی تخلیق میں بحر و ارکان کی کمی و بیشی کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ان کا نظم کردہ سہ گوشہ ملاحظہ کیجیے۔ اس میں پہلے مصرعے میں ایک مرتبہ، دوسرے میں دو مرتبہ اور تیسرے میں تین بار فاعلن لایا گیا ہے۔

با وفا
کون تھا جو مجھے
روشنی کی طرف لے گیا

اسلم حںیف نے اردو میں موجود مثلثی یعنی سہ مصرعی صنف میں ہیئت کے اعتبار سے تبدیلیاں کی ہیں۔ انھوں نے مطلع پر آزاد یا غیر مقفیٰ مصرع لگا کر نئی ہیئت ایجاد کی۔ دوسری ہیئت اس کے بر عکس وضع کی۔ جس میں غیر مقفیٰ مصرع پر مطلع نظم کیا۔

سب ہوا کے راستے مسدود ہیں
خوشبوئیں بس جسم تک محدود ہیں
یہ کہاں تو آگیا ہے سیم تن

اسلم حنیف کو کچھ اعزازات بھی دیے گئے۔ کچھ ادبی جریدوں نے ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے خصوصی گوشے بھی ترتیب دیے. لیکن یہ سب ان کی قد آور شخصیت، ان کی جدت طرازی اور اختراعی صلاحیتوں کا کمہ حقہ اعتراف نہیں ہے۔تعجب ہے کہ کسی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے کسی سربراہ کو اسلم حنیف کی شعری ایجادات پر کسی اسکالر سے ایم فل یا پی ایچ ڈی کرانے کا خیال نہیں آیا۔۔۔دعا ہے کہ اللہ انھیں اب کسی اور ذہنی اور جذباتی صدمے سے دوچار نہ کرے تاکہ وہ اپنی اختراعی طبیعت کے عین مطابق شعری تجربات کرتے رہیں۔
***
گذشتہ نگارشات فہمی :مزاحیہ شاعر دلاور فگار: پیروڈی کا باد شاہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے