طفیل احمد مصباحی کی نعتیہ شاعری

طفیل احمد مصباحی کی نعتیہ شاعری

مفتی سید شہباز اصدق غوثی چشتی قادری
صدر شعبۂ افتا دارالعلوم قادریہ غریب نواز ( ساوتھ افریقہ)

جامعہ اشرفیہ (مبارک پور) کے مصباحی علما و فضلا شروع سے ہی زبان و ادب اور شعر و سخن کی دنیا میں گراں قدر اور بیش بہا خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں۔ عہدِ حاضر کے مصباحی برادران میں سے جن حضرات نے بالخصوص اربابِ شعر و سخن کو متاثر کیا ہے اور اہلِ سخن سے اپنی شعری صلاحیت پر داد و تحسین حاصل کیا ہے، ان میں جواں سال شاعر، سخن داں، سخن فہم اور سخن ور عزت مآب برادرم مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب کا نام نامی ممتاز ہے۔ موصوف نظم و نثر دونوں پر قابلِ داد درک رکھتے ہیں۔ صاحبِ طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر و سخن ور ہیں۔ نثر میں موصوف کی دو درجن کے قریب تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں "کلام نورؔ کے ادبی محاسن" ان کے ادبی ذوق کا آئینہ دار ہے۔ نظم میں موصوف کا ایک مجموعۂ کلام بنام "حرفِ مدحت" چند سال قبل شائع ہو کر اہلِ علم و ادب سے خراجِ تحسین وصول کر چکا ہے۔ اب ان کا دوسرا مجموعۂ نعت "حرفِ ثنا" ترتیب و تہذیب کی منزل سے گزر کر اشاعت و طباعت کے لیے تیار ہے۔ اس مجموعۂ نعت میں بھی پہلے کی طرح سلاست ہے، روانی ہے، سادگی ہے، زورِ کلام ہے، فکر و فن کی رعنائی ہے، زبان و بیان کی پاکیزگی ہے، نقد و نظر کی پختگی ہے، مترنم بحور و اوزان کے ساتھ ساتھ ردیف و قافیہ کا حسنِ انتخاب ہے، اسلامی عقائد و نظریات کی تبلیغ ہے، سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کا ذکرِ جمیل ہے اور ان سب پر مستزاد عشقِ رسالت علیہ التحیۃ و الثنا کی فراوانی ہے۔ اس دوسرے مجموعۂ نعت سے چند منتخب کلام برادرم مولانا طفیل احمد مصباحی نے مجھ خاکسار کو ارسال کیا۔ انھی جاں فزا، مترنم اور عقیدت و محبت سے لبریز نعوت کی روشنی میں "کلامِ طفیل احمد مصباحی کی چند علمی ادبی فنی اور شرعی خوبیاں" ذیل میں درج کرتے ہیں.
▪ شرعی محاسن کی بات کریں تو دو چیزیں قابل لحاظ ہیں۔ شرعی احتیاط اور رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت اور عشق صادق کا اظہار. مولانا موصوف چوں کہ حسّان الہند امام احمد رضا خاں محدث بریلوی قدس سرہ العزیز کے دبستانِ نعت کے نہ صرف شیدائی ہیں، بلکہ مریدِ صادق ہیں۔ پھر طرفہ یہ کہ علومِ اسلامیہ میں بھی مکتبِ رضا سے ہی فارغ التحصیل ہیں، اس لیے شرعی احتیاط اور آقاے کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سچی محبت کا اظہار دونوں ہی خوبیاں مولانا کے کلام میں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ حزم و احتیاط اور شرعی نزاکتوں کو خیال میں رکھ کر مولانا مصباحی کا قلم نعت کی سمت رواں دواں ہے. الفاظ و معانی کے انتخاب میں شرعی احتیاط کے ساتھ ساتھ ادب و احترام کا بھی خوب خیال رکھا گیا ہے۔ رہی عشق رسول علیہ التحیۃ و الثناء کی بات تو ان کا ہر ہر شعر عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز ہے. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کا دل عشقِ رسول کا مدینہ ہے، جس میں عقیدت و محبت، ادب و احترام، سوز و گداز، عشق و عرفان اور ذوق و شوق پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں. شاعر کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ایسا عزیز ہے کہ وہ اپنے طائرِ سخن کو صنفِ نعت سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے. انھیں بس ذکرِ سرکار سے ہی عشق ہے اور وہ نعت کے احرام میں ہی زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں، جو اہلِ دل کے نزدیک لائق تحسین اور قابلِ تقلید ہے. موصوف کے اس مجموعۂ نعت سے درج ذیل اشعار ہدیۂ ناظرین ہیں، جو ان کے عشقِ رسول اور نعتِ مصطفی علیہ التحیۃ و الثناء سے ان کی دلی وابستگی کے عکاس ہیں۔
اے کاش وقف فکرِ رسا ہو برائے نعت
کوئی بھی صنف راس نہ آئے سوائے نعت
میرے تخیّلات کے بلبل بصد خلوص
شعر و سخن کے باغ میں بس گنگنائے نعت
یہ نعت کا ہے دور، صدی ہے یہ نعت کی
ہر صنفِ شاعری کو کنارے لگائے نعت
یارب دعا ہے گنبدِ خضریٰ کے سامنے
احمدؔ مچل مچل کے کبھی گنگنائے نعت
شاعر کے دل میں عشقِ مصطفیٰ علیہ التحیة و الثناء کا جو چراغ روشن ہے، جب وہ ایک مصلح اور داعی کی صورت اختیار کرتا ہے تو اہلِ دل کو سیرتِ مصطفیٰ کی اطاعت و پیروی کی طرف بلاتا ہے اور انھیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے ہوئے عشق و محبت میں ڈوب کر پکار پکار کر کہتا ہے:
یہ زندگی جو ملی ہے تو بندگی کرلو
رسولِ پاک کی سنت کی پیروی کر لو
حیات کی شبِ تاریک میں طفیل احمدؔ
چراغِ عشقِ محمد سے روشنی کر لو
الغرض مولانا طفیل احمد مصباحی کا نعتیہ کلام عشق رسول علیہ التحیۃ و الثناء کا ایک ایسا جام ہے، جس کا ایک ایک گھونٹ اہلِ ایمان کو لذتِ عشق سے سرشار کرتا ہے اور سننے والا وجد و کیف کی حالت میں جھوم اٹھتا ہے اور بے ساختہ زبان پر سبحان اللہ ماشاء اللہ کی صدائیں جاری ہوجاتی ہیں۔
▪ عزیز القدر مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب زید مجدہ کے نعتیہ کلام کی فنی خوبیاں تو اہل فن جانیں۔ ہاں! کلام کی سادگی، سلاست، روانی، زورِ کلام، حسنِ زبان و بیان، علوے فکر و خیال، الفاظ و معانی کی لطافت، آسان محاورے، جدتِ اسلوب، ردیف و قافیہ کا حسنِ انتخاب اور قرآن و احادیث سے نو بہ نو عناوین و موضوعات کا استخراج، موصوف کے کلام کی وہ خوبیاں ہیں جو قاری کے دل کو کافی متاثر کرتی ہیں۔ ذیل میں چند اشعار چشمِ سرور سے پڑھیے جن میں سلاست و روانی اپنے عروج پر ہے:
نبی کا پاک روضہ دیکھتا ہوں
خوشا کعبے کا کعبہ دیکھتا ہوں
خیالوں کی حسیں وادی میں اکثر
مدینہ ہی مدینہ دیکھتا ہوں
غبارِ کوئے بطحا تیری جانب
مہ و انجم کو تکتا دیکھتا ہوں
اشارے سے محمد مصطفی کے
قمر ہوتے دو پارہ دیکھتا ہوں
نبی کی نعت گوئی کی بدولت
قلم کو مسکراتا دیکھتا ہوں
اس ضمن میں یہ اشعار بھی خوب ہیں :
پھیلی ہوئی ضیا ہے لقد جاء کم رسول
مہکی ہوئی فضا ہے لقد جاء کم رسول
ماحول خوشنما ہے لقد جاء کم رسول
کونین مشک زا ہے لقد جاء کم رسول
میلادِ مصطفیٰ کی سہانی گھڑی ہے یہ
ہر لب پہ مرحبا ہے لقد جاء کم رسول
دیکھو لبِ نبی کو ” تشہُّد" کے ما سوا
ہر گز نہ ” حرفِ لا" ہے لقد جاءکم رسول
اس آخری شعر میں شاعر نے حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جود و نوال کو بیان کرتے ہوئے زورِ تخیل کا خوب مظاہرہ کیا ہے کہ "حرفِ لا" جو کہ اپنے اندر نفی کا معنی رکھتا ہے، یہ حرف فقط معبودانِ باطل کی تردید کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض مآب زبان سے ادا ہوا جو کہ قابل تعریف ہے۔ باقی انعام و اکرام کے موقع پر کبھی بھی آپ کی فیض مآب زبان پر "حرفِ لا" نہ آیا کہ آپ جود و نوال کے اعلا مقام پر فائز تھے۔ شاعر کے فکر و خیال کی یہ بلند پروازی قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی.
▪ اہل ذوق کا ماننا ہے کہ تشبیہ و استعارہ کسی بھی اچھے کلام کی جان ہوا کرتے ہیں۔ مولانا طفیل احمد مصباحی کے کلام میں بھی تشبیہ و استعارہ اپنی دل فریبیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ تشبیہ کی ایک مثال ذیل میں ملاحظہ کیجیے:
صحنِ ادب میں پھیلی ہوئی ہے ضیائے نعت
بامِ سخن پہ مثلِ قمر جگمگائے نعت
” استعارۂ تصریحیہ" کی یہ مثال بھی خوب ہے:
جانِ جاناں کی آمد آمد ہے
روحِ ایماں کی آمد آمد ہے
بام و در کو سجائیے احمدؔ
شاہِ خوباں کی آمد آمد ہے
▪ اہل فن جانتے ہیں کہ صنعتِ اقتباس کو کلام میں برتنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے فن میں مہارت درکار ہوتی ہے۔ مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب چوں کہ ایک کہنہ مشق شاعر اور باکمال ادیب و محقق کے ساتھ ایک باصلاحیت عالم و فاضل ہیں، اس لیے وہ اپنے قلبی واردات کو قرآن و احادیث سے مزین و مبرہن کرنے کے لیے بعض اوقات صنعتِ اقتباس کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی علمی و فنی صلاحیت کو بروئے کار لاکر اسے بڑے اچھے پیرایے میں برتتے ہیں. دو اشعار "صنعتِ اقتباس" پر مشتمل ملاحظہ کریں:
عیاں ہے آیتِ *مما قضیت* سے احمؔد
نبی کے فیصلے پر کوئی چوں چرا نہ کرے
کم ظرف، اے کوتاہ نظر جسم نبی پر
عظمت کی ردا خلعت *لولاک لما* دیکھ
▪ مولانا طفیل احمد مصباحی کے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ صنفِ نعت کو انھوں نے وسیع تناظر میں برتنے کی مبارک و مسعود کوشش کی ہے، جس میں عظمت و شان اور فضائل و مناقبِ مصطفی صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اظہار کے ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہٖ و سلم کے عادات و اطوار، اخلاقِ حسنہ، احسان، محبت، مروت، عدل و انصاف، تواضع، انکساری، حسنِ سلوک، خلوص، للہیت، فقر، شانِ استغنا، بے نیازی، جود و نوال، الغرض سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کو شاعرِ با کمال نے موضوعِ سخن بنایا ہے۔ یہاں بہ طورِ نمونہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
صحرائیوں کو بخشا تعلیم کا اجالا
حکمت کے آسماں کا وہ نیّرِ اتم ہے
سنتے نہیں سوالی ” لا" ان کی بارگہ سے
ان کی زباں پہ ہر دم ایجاب ہے، نَعَمْ ہے
قسّامِ نِعَم، مصدرِ الطاف و عنایت
دریائے سخا، منبع افضال حمیدہ
ظلم و جفا و جبر فنا ہوگئے سبھی
اب عدل کو بقا ہے لقد جاءکم رسول
▪ حضرت مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب متدیّن عالم و فاضل اور مخلص داعی و مبلغ ہیں۔ اس لیے ان کی نعتیہ شاعری کا ایک درخشاں پہلو احقاقِ حق، ابطالِ باطل، تبلیغِ دین اور اصلاحِ معاشرہ بھی ہے. چنانچہ وہ اپنے نعتیہ کلام میں عقائد و معمولات کے سلسلے میں امتِ مسلمہ کی اصلاح کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ایک کلام سے چند اشعار ذیل میں ملاحظہ کیجیے:
رحمت کا ہے دروازہ کھلا عید کا دن ہے
پڑھ صلِ علیٰ صلِ علیٰ عید کا دن ہے
پھر دیپ محبت کا جلا عیدکا دن ہے
ہر نقشِ عداوت کے مٹا عید کا دن ہے
کر سنتِ آقا پہ عمل، بھول جا رنجش
آ لگ جا گلے، ہاتھ ملا عید کا دن ہے
رکھ پیشِ نظر اسوۂ سرکارِ دو عالم
سینے سے یتیموں کو لگا عید کا دن ہے
کر صدقہ و خیرات، غریبوں کی خبر لے
کر مفلس و بیکس کا بھلا عید کا دن ہے
المختصر مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب کے شعری و ادبی ذوق کا یہ نقشِ ثانی (حرفِ ثنا) بہت جلد اپنی صوری و معنوی خوبیوں کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ گر ہو رہا ہے۔ اس مبارک اشاعت پر راقم الحروف موصوف کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہے. 
احمدؔ تو اپنی خوبیِ قسمت پہ ناز کر
حاصل ہے رب کے فضل سے تجھ کو ولائے نعت
***
طفیل احمد مصباحی کی یہ نگارش پڑھیں: ماہنامہ جام میر : علم و ادب کے ایک نئے عہد کا آغاز

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے