صفدری قلم کی تصویریں: "جانے پہچانے لوگ"

صفدری قلم کی تصویریں: "جانے پہچانے لوگ"

سلمان عبدالصمد

صفدر امام قادری کے ”جانے پہچانے لوگ" میں شامل چند لوگوں کو ہم جانتے ہیں اور جنھیں نہیں بھی جانتے، ان سے صفدری قلم نے پہچان کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ عموماً جانے پہچانے لوگوں کا ہی خاکہ لکھا جاتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر قاری کو جانے پہچانے لوگوں کا خاکہ پڑھنے کو مل ہی جائے۔ جب ایسے لوگوں کے خاکے مل جائیں تو پڑھنے والوں کا شوق مزید بڑھ جاتا ہے۔ پھر سانس کی ڈور ٹوٹنے کے بعد بھی جانے پہچانے لوگ بولنے لگ جائیں تو قاری ہمہ تن گوش بھی ہو جاتاہے۔ درحقیقت صفدری خاکوں میں مُردے بولتے ہیں۔ جان وتن سے عاری تصویریں بھی متحرک نظر آتی ہیں۔
خاکہ دراصل مجسم قلمی تصویر کا نام ہے۔ تصاویر گرچہ ساکت و جامد رہتی ہیں تاہم مخاطب کو بولنے اور سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ تصویروں سے مماثلت رکھنے کے باوجود خاکہ یک گونہ مختلف و منفرد ہوتا ہے۔ کیوں کہ حقیقی تصویریں اکثر بولتی نہیں البتہ بولنے کا موقع ضرور دیتی ہیں. مگر خاکے کی تصویریں بولتی بھی ہیں اور ہم کلامی کی فضا بھی تیار کرتی ہیں۔ اس لیے خاکہ نگاروں کے لیے دو سطحوں پر فن کاری کا مظاہرہ لازمی ہے۔ اول، وہ قلمی تصویر بنائیں۔ دوم، تصویر کشی ایسی ہو کہ اس میں ازخود قوت گویائی پیدا ہو جائے۔
صفدر امام قاردی کے تمام خاکے یا شخصی مضامین خاکوں کی مروّجہ شعریات پر کتنے کھرے اُترتے ہیں، یہ الگ بحث ہے۔ تاہم انھوں نے چند خاکوں میں متعلقہ شخصیات کی بہترین تجسیم کی اور انھیں قلم سے قوتِ گویائی بھی بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خاکوں میں پوری شخصیت کھُل کر سامنے آتی ہے اور خاکہ نگار کو منہا کرتے ہوئے قاری سے ہم کلامی بھی شروع کر دیتی ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ افسانوں سے افسانہ نگار خود کو منہا کرلے تو یہ فن کاری کی دلیل ہے اور تخلیقی معراج ہے۔ خاکہ نگارخاکوں سے خود کو کیسے منہا کرسکتا ہے، جب کہ خاکہ شخصی مشاہدات سے ہی تیار ہوتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب خاکوں میں متعلقہ شخصیات کے خط وخال، عادات و اطوار اور نشست و برخاست سے زیادہ خاکہ نگار خاکے کی فضا پرچھا جائے تو سمجھ لیں کہ خاکہ نگار خود کو منہا نہیں کر پارہا ہے۔ کم از کم میری نگاہ میں خاکے کی یہ سب سے بڑی کم زوری ہے۔ کیوں کہ جس طرح خاکہ خالص تنقیدی فکر اور گہرے تاریخی تناظر کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اسی طرح وہ عُجب و تعلّی کو خود میں مدغم کر لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ خاکہ، افسانہ کی طرح حساس ہوتا ہے کہ خود اسے خاکہ نگار کی حد سے زیادہ مداخلت برداشت نہیں۔ خاکہ، انشائیہ کی طرح کی زبان کا قائل ہے۔ اسی لیے اسے تنقید کی سختی وخشکی سے نفرت ہے۔ اسی طرح خاکوں کا طنزیہ پہلو اسی وقت دل چسپ ہوسکتاہے جب اس میں کنایہ ہو۔ ورنہ پھر طنزیہ پہلو، ہجویہ سرحد میں داخل ہوجائے گا جو کہ حسنِ خاکہ کے منافی ہے۔ گویا خاکہ طنزیہ تناظر میں ایجاز کا قدر داں ہے۔ ساتھ ہی وہ گہرے مطالب اور احوالِ شخصیت کے بیان کے لیے ایک نَپے تُلے اسلوب کا طلب گار بھی۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے لکھا ہے:
”خاکہ کا فن بہت مشکل اور کٹھن فن ہے۔ اسے اگر نثر میں غزل کا فن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جس طرح غزل میں طویل مطالب بیان کرنے پڑتے ہیں، ٹھیک اسی طرح خاکے میں مختصر الفاظ میں پوری شخصیت پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔" [بحوالہ صابرہ سعید، اردو ادب میں خاکہ نگاری، مکتبہ شعر وحکمت، حیدرآباد، 1978، ص 9]
صفدر امام قادری نے یقین اکثر مضامین میں خاکہ نگاری کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا۔ شاعرانہ خوبیوں کو نثر میں پیوست کرنے کی کوشش نہیں کی۔ گہرے مطالب کے بیان اور لطیف اشاروں کے اظہار کے لیے ایسے نثری اسلوب کو بھی بروے کار نہیں لایا جس میں حد درجہ ابہام ہو۔ خاکوں یا شخصی مضامین میں غزل جیسے ابہام و ایہام کی بھی ضرورت نہیں۔ البتہ انتخابِ الفاظ میں غزلیہ برتاو کو پیش نظر رکھا جاسکتا ہے. جیسا کہ خلیق انجم بھی تسلیم کرتے ہیں۔
پیش نظر کتاب ”جانے پہچانے لوگ" کے تمام مضامین کو خاکے کے زمرے میں رکھا جانا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ البتہ صفدر امام قادری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے طول طویل مضامین میں بھی خاکے کا احساس پیدا کردیا۔ اِکّا دُکّا مثال کو چھوڑ دیں تو اردو میں طویل خاکوں کی روایت بھی نہیں رہی۔ منٹو نے چند ہی خاکے طویل لکھے۔ تاہم ڈاکٹر قادری نے طویل شخصی مضامین میں خاکے کے عناصر بڑی عمدگی سے شامل کردیے۔ سرِدست حبیب تنویر اور شفیع جاوید والے مضامین کی بات کی جائے تو کئی اہم پہلو واضح ہوں گے۔ یعنی اول الذکر جتنا مختصر ہے، موخرالذکر اسی قدر طویل۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ طویل مضمون ‘شفیع جاوید: ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا’ میں خاکوں کے عناصر نسبتاً زیادہ ہیں اور حبیب تنویر والا مضمون مختصر ہونے کے باوجود خاکوں کی شعریات سے قدرے دور۔ صفدر امام قادری نے شفیع جاوید کی عادات واطوار، نشست و برخاست، سونے جاگنے کے بہت سے اوقات، مطالعے کے لمحات اور دیگر امور و احوال کو نہ صرف دیکھا بلکہ محسوس بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ان کی حسین مرقع کشی کی گئی۔ تقریباً ۲۶ صفحات پر مشتمل اس مضمون میں شفیع جاوید کے افسانوں کی فنّی خصوصیات بھی ہیں اور احوالِ شخصی بھی۔ بہت سے اقتباسات میں صفدر امام قادری نے ان سے اپنی قربت دکھا کرجو نتیجہ اخذ کیا، وہ بھی انتہائی دل چسپ ہے۔ خاکوں کی تشکیل میں ایسے امور نہ صرف دل چسپی پیدا کرتے ہیں بلکہ ان میں قوتِ گویائی کا احساس رچ بس جاتا ہے۔ حبیب تنویر والے مضمون کے آغاز میں تعارفی اور تنقیدی فضا ہے مگر آہستہ آہستہ اس میں شخصی احوال اور ذاتی تعلقات کا پس منظر بھی ابھرتا ہے۔ اس پس منظر میں یقینا قاری کے لیے دل چسپی کے سامان ہوتے ہیں مگر شفیع جاوید والے مضمون سے کم۔ کیوں کہ اس طویل مضمون کا خمیر ذاتی تعلقات، قلبی مشاہدات اور علمی معاملات سے تیار کیا گیا۔ لہذا آغاز تا اختتام اس میں دل چسپی برقرار ہتی ہے۔ تنقیدی آہنگ اور فنی رنگ کے بیان سے قطع نظر یہاں ایک اقتباس:
”شفیع جاوید ایک خاص رکھ رکھاو کے آدمی تھے۔ جن لوگوں کو اُن سے ملنے اور ان کے گھر آنے جانے کے مواقع ملے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہر کام میں وہ سخت انتخاب اور مخصوص قرینے کے قائل تھے۔ خوش پوش تو تھے ہی، اپنے گھر کو بھی اسی طرح سجا سنوار کر انھوں نے رکھا تھا۔۔۔ ایک روز انگریزی کی ایک ضخیم کتاب میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسے آج ہی مکمل کیا ہے۔ کسی کی خود نوشت تھی۔ کہنے لگے، اسے مکمل کرنے میں مجھے دس برس لگ گئے۔ یہ کتاب جان کا جنجال بنی ہوئی تھی۔ چند صفحات کے بعد چھوڑ دیتا تھا اور پھر کئی مہینوں کے بعد وہاں سے آگے بڑھتا تھا. یہ کبھی مجھ سے دور نہیں ہوئی۔ میں نے کتاب کے حاشیے پر دیکھا کہ جگہ جگہ ان کے تاثرات اور مشاہدات انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں۔"
اس اقتباس میں شفیع جاوید کی فن کاری کے بجاے ان کے شخصی احوال سامنے آ رہے ہیں۔ ان احوال کی پیش کش سے ڈاکٹر قادری کے خاکوں کا رنگ بھی ابھرتا ہے۔ ان کی زبان کا نمونہ بھی مل جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ وہ خاکوں میں شعری پیکر تراشتے ہیں اور نہ ہی استعارات و کنایات سے بھر پور کوئی تخلیقی اسلوب تیار کرتے ہیں۔ انھوں نے خاکوں اور شخصی مضامین کے لیے اُسی زبان کا انتخاب کیا جو عام فہم ہو۔ لیکن اس طویل مضمون میں یکساں طور پر خاکے کی فضا نہیں۔ کیوں کہ اس میں ان کے افسانوں کی خصوصیات بھی واضح کی گئیں۔ اس لیے سوال ہوتا ہے کہ خاکوں میں تنقیدی تناظر کی کس حد تک گنجایش ہے؟ یا پھر صفدر امام قادری ہی شخصی مضامین اور خاکوں میں تنقیدی فضا ابھارتے ہیں یا پھر بہت سے معتبر خاکہ نگاروں نے بھی ایسا رویہ اختیار کیا؟ اس تناظر میں اگر مجتبیٰ حسین کی مثال دی جائے تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے بھی بے شمار خاکوں میں تنقیدی اسلوب کو بروے کار لایا۔ متعلقہ شخصیات کی عادات واطوار کے ساتھ ان کے خاندانی پس منظر اور سوانحی معاملات کو بھی پیش کیا۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مجتبیٰ حسین نے چھوٹے چھوٹے خاکوں میں خاندانی پس منظر اور سوانحی حقائق سے اپنی بات مکمل کی۔ یہ سچی بات ہے کہ ان کے اس رویّے سے خاکوں کا مزہ کبھی کبھی پھیکا بھی ہوجاتا ہے۔ شخصیت کی بھرپور مرقع کشی نہیں ہوپاتی ہے۔ ان کے حوالے سے یہ راے بھی صائب ہوسکتی ہے کہ ان کے خاکوں کا طنزیہ اسلوب ہی ان کے فن کی جان ہے۔ اگر ان کے خاکوں سے طنزیہ انسلاکات کو الگ کردیا جائے تو ان کے یہاں بھی محض شخصی بیان اور تاریخی اظہار بچ جائے گا۔ در حقیقت ان کے خاکوں کو دل چسپ بنانے میں ان کے طنزیہ اور مزاحیہ پہلو کا ہی عمل دخل ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مجتبیٰ حسین عموماً خاکوں کی متعلقہ شخصیت پر طنز نہیں کرتے بلکہ اکثر خاکوں میں وہ ضمنی طور پر مزاحیہ پہلو ابھار تے ہیں۔ جب وہ ضمناً طنزیہ روش اپناتے ہیں تو خاکے کی شخصیت اوجھل ہوجاتی ہے۔ رہی بات صفدر امام قادری کے طویل شخصی مضامین کی تو ان میں وہ بھی تنقیدی تناظر اور خاکائی عناصر کو مدغم کرتے ہوئے ایک جدید اسلوب تیار کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ الغرض خاکہ نگاری میں مشہور فن کاروں نے بھی تاریخی اور سوانحی واقعات کو بروئے کار لایا ہے۔
موجود ہ عہد میں غضنفر نے بہت سے تجربات کیے اور بہت سی اصناف میں طبع آمائی بھی کی۔ انھوں نے شمس الرحمن فاروقی اور ارتضیٰ کریم کے خاکے لکھے ہیں۔ اگر ان دونوں خاکوں کا مجتبیٰ حسین کے خاکوں سے موازنہ کریں تو پہلی بات یہ نظر آتی ہے کہ غضنفر نے ان دونوں شخصیات کی تصویر کشی میں تاریخی بیان کا زیادہ سہارا نہیں لیا۔ متعلقہ شخصیات کی تصویر کشی میں عادات و اطوار کی مرقع کشی کی اور انتہائی والہانہ انداز میں فاروقی صاحب کی ایک دو منفی باتوں کا بھی تذکرہ کیا جس سے خاکے میں لطف پیدا ہوگیا، مگر مجتبیٰ حسین نے شمس الرحمن فاروقی اور ارتضیٰ کریم کی کسی منفی عادت کا ذکر نہیں کیا بلکہ پورے مضمون میں تعریف ہی تعریف ہے یا پھر کوئی تاریخی تناظر، یا پھر کہیں کچھ اور ہے تو وہ ہے مزاحیہ انداز۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے مزاحیہ انداز سے خاکوں میں جان پیدا ہوجاتی ہے مگر کبھی یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ یہ مزاحیہ پہلو خاکے کا اَٹوٹ حصہ نہیں۔
صفدر امام قادری کی بات کریں تووہ بھی شخصیات کی منفی عادات کا اکثر ذکر نہیں کرتے۔ البتہ وہ کہیں کہیں فنّی تناظرات میں تنقیدی جرح کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے بے شمار خاکے لکھے۔ ظاہر ہے ان میں بہت سے فرمائشی خاکے بھی ہوں گے۔ فرمائشی خاکوں میں شخصیت کی منفی باتوں کے اظہار کی قطعاً گنجایش نہیں نکل سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ مجتبیٰ حسین فطرتاً اور مزاجاً صلح پسند تھے۔ اس لیے ان کے خاکوں میں ایسے عناصر مل جاتے ہیں مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ فرمایشی معاملات سے اظہار کا ایک ایسا اسلوب تیار ہوتاہے جس میں زیادہ تعریف کی ضرورت پڑتی ہے۔
”جانے پہچانے لوگ" کی قرأت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر قادری نے کوئی فرمایشی خاکہ نہیں لکھا اور نہ ہی کسی باحیات شخص کا قلمی چہرہ بنایا۔ یہی سبب ہے کہ انھیں نہ شخصیات کو رنگین بنانے کی ضرورت پیش آئی اور نہ ہی کسی کے عہدے سے مرعوب ہونا پڑا۔ باحیات لوگوں پر لکھتے وقت اکثر مختلف پہلوؤں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے متعلقہ فرد کی خوشی اور نا خوشی کے پیشِ نظر لفظوں اور واقعات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد لکھنے والا یہ بھی دیکھتا ہے کہ میں نے خاکے میں ایک فرد کے متعلق جو راے قائم کی، اس سے دوسرے افراد کتنا اختلاف یا اتفاق کریں گے۔ گویا اس مخمصے میں پھنسنے کے بعد لکھنے والے کا ذہن اپنا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے قلم کی روشنائی سے صداقت کی کوئی روشنی پھوٹتی ہے۔صفدر امام قادری شاید ادبی جبر کے قائل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرمایشی تبصرے لکھتے ہیں اور نہ ہی فرمایشی خاکے۔ جس طرح انھوں نے اپنی تصنیف ” نئی پرانی کتابیں" کو فرمایشی تبصروں سے محفوط رکھا، اسی طرح ”جانے پہچانے لوگ" کو فرمایشی خاکوں سے پاک۔ اسی پاکی کا اثر جابجا ان کے خاکوں اور شخصی مضامین میں نظر آتا ہے۔ اکثر خاکہ نگاروں کے یہاں دو تہائی مضامین باحیات لوگوں پر ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے خاکہ نگار اُن خاکوں میں زیادہ سچے نظر آتے ہیں جو دنیا سے کوچ کرنے والوں پر لکھے گئے ہوں۔ صفدر امام قادری کے خاکے اور شخصی مضامین کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ انھوں نے باحیات لوگوں کو موضوع بحث بنایا ہی نہیں۔ اس لیے فرمایشی علتوں اور ادب کے جبریہ رویوں سے ان کے خاکے پاک ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے جس طرح طول طویل تبصرے لکھے، اسی طرح طول طویل خاکے بھی لکھے۔ ظاہر ہے، ان کے خاکے فرمایشی جبر سے آزاد ہیں تو کسی نہ کسی حد تک وہ دوسرے خاکہ نگاروں سے زیادہ سچے ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ باحیات لوگوں پر لکھتے وقت منہ بھرائی بھی پیشِ نظر ہوتی ہے اور آنکھوں کا تارا بننے کی کوشش بھی۔ اس لیے صفدر امام قادری اگر یہ دعوی کریں کہ میں نے جس کو جیسا پایا، ویسا ہی پیش کردیا تو اُن کی صداقت تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خاکوں سے اس دعوے کی متعدد دلیلیں بھی بہ آسانی پیش کی جاسکتی ہیں۔ خاکہ لکھنے والے اکثر قلم کار اس بات کو دہراتے ہیں کہ ہم نے خاکوں میں شخصیت کی ہو بہو تصویر کشی ہے۔ یہاں تک کہ ایک جگہ مجتبیٰ حسین نے بھی لکھا ہے:
”اپنی صفائی میں صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ میں نے یہ خاکے کسی کے حق میں یا خلاف بالکل نہیں لکھے جس طرح دل ودماغ نے کسی شخصیت کو قبول کیا، اسے ہو بہو کاغذ پر منتقل کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ خاکے میں خاکہ نگار کا زاویہ بھی درآتا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ خاکہ نگار جب کسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے تو وہ انجانے طورپر خود اپنا خاکہ بھی لکھ ڈالتا ہے" [مجتبیٰ حسین، آدمی نامہ، حسامی بک ڈپو، حیدار آباد، 1981، ص6]
یہ بات سچی ہوسکتی ہے کہ مجتبیٰ حسین نے جس شخصیت کو جیسا پایا ویسا ہی پیش کردیا مگر اکثر خاکہ نگار یہ دعوا کرتے ہیں کہ خاکے کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہم شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کو اُجاگر کرتے ہیں مگر خال خال ایسی صداقت نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں غضنفر کی مثال دی جائے تو وہ انتہائی صاف گو ٹھہرتے ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے پہلے خاکوں کے مجموعے ”سرخ رو" میں بَرملا اظہار کیا کہ میں شخصیت کی سیاہی سے زیادہ سفیدی کو اجاگر کروں گا اور وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ مجموعہ ”سرخ رو" میں شامل خاکوں کے عناوین انتہائی دل چسپ ہیں تاہم کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید انھوں نے عناوین کے معاملے میں مجتبیٰ حسین کے عناوین سے بہت استفادہ کیا۔ کیوں کہ مجتبیٰ حسین کے ” آدمی نامہ" کے عناوین میں قسم قسم کے آدمی موجود ہیں۔ صفدر امام قادری کے عناوین کی بات کریں تو انھوں نے کُل پندرہ میں سے آٹھ مضامین میں شخصیت کے نام کے بعد’ کالن` کا استعمال کیا اور اس کے بعد دل چسپ عناوین قائم کیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے تمام عناوین میں متعلقہ شخصیت کے نام بھی بڑی خوب صورتی سے پرو دیے۔ گویا ان کے عناوین غضنفر اور مجتبیٰ حسین کے عناوین سے منفرد ہیں اور ان کا کوئی کوئی عنوان ہی ذرا طویل ہوا۔ ان پندرہ مضامین میں انتہائی مختصر عنوان ”میری ماں" ہے اور سب سے طویل ”راحت حسین بزمی: اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر" ہے۔ الغرض ان کے عناوین میں بھی دل کشی اور مقناطیسیت پائی جاتی ہے۔
”راحت حسین بزمی: اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر" میں استاد کی استادی اور مستعدی کا بھر پور تذکرہ ہے۔ جس سے نہ صرف فریضے کے تئیں ان کی حساسیت بلکہ استادانہ شفقت بھی اُبھر تی ہے۔ درحقیقت استادوں میں اب ایسی شفقت دیکھنے کو ملتی کہاں ہے:
”جسم سے نڈھال، چھاتے کے سہارے سے جاڑا، گرمی اور برسات ہر موسم میں گرتے سنبھلتے چلنے والے پروفیسر راحت حسین گھر میں ہمیشہ اپنے بستر پر ہی ہوتے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ کھانستے اور بیماری کا ثبوت دیتے ہوئے دکھائی دیتے تھے لیکن باری باری سے آنے والے طلبا ان کے سامنے نشستیں اختیار کرتے اور درس وتدریس کی مشق شروع ہوجاتی"۔
صفدر امام قادری نے شخصیات کو پیشے اور دیگر مشغولیات سے جوڑ کر اُن کا نقشہ اتار اہے۔ اس طرح نہ صرف انھوں نے شخصیت کی پیکر تراشی کی بلکہ زبانِ حال سے اداے فرضِ منصبی کے تئیں بھی احساسِ ذمے داری کی تلقین کردی ۔
مضمون ”میرے والد اشرف قادری مرحوم" تقریباً پچپن صفحات پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے، اس کی طوالت سے اکثر قارئین ڈر جائیں گے مگر صفدر امام قادری نے اپنے والد کی زندگی کی سمت ورفتار، شغل و مشغلہ خصوصاً دیہی تہذیب کو انتہائی دل پذیر انداز میں پیش کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چند صفحات کی قرأت کے بعد قاری تجسس کی ایک منفرد کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے اور اختتام تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتا ہے۔ اس شخصی مضمون میں جس قدر اُن کے والد صاحب کے شب و روز قابل التفات ہیں، اسی قدر اس عہد کا ماحول بھی اپنے آپ میں ایک مثالی عہد بن کر ابھرتا ہے. صفدر امام قادری نے اپنے والد کے ساتھ اپنی اور اپنے بھائیوں کے تعلیمی سفر کا بھی ذکر کیا مگر اسی حد تک کہ والد صاحب مضمون کے منظرنامے سے غائب نہ ہو نے پائیں۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں ادبی تسلط اور اجارہ داری کے اشارے بھی بہت خوب ہیں۔ ساتھ ہی اس میں ہم کئی ایسے لوگوں کا بچپن اور لڑکپن بھی دیکھ لیتے ہیں جن کے دَم سے آج ادبی بزم کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔
” ہماری یادوں میں زندہ ہیں اسرار جامعی" مضمون کا شخصی اور تاثراتی رنگ انتہائی دل کش ہے۔ کیوں کہ اس میں جہاں ان کے علامہ بن جانے کی پُراسرار کہانی ہے، وہیں اسرار کی مستند’جامعیت` بھی۔ اس کے علاوہ پٹنہ کی ادبی ہلچل ہے اور بعض بلند قامت ادبی شخصیات کی تعلی کے اشارے بھی۔ ساتھ ہی علامہ کی کسم پُرسی اور ان کے خاندان کی کم مائیگی بھی بہت پُردرد اسلوب میں سامنے آتی ہے۔ گویا صفدر امام قادری نے علامہ اسرار جامعی کو محور بناتے ہوئے پٹنہ کے حوالے سے بہت سی ایسی باتوں کا تذکرہ کردیا جو کتابوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گی۔ اس مضمون کی اہمیت و انفرادیت میں گویا ایک ادبی کائنات کی سمت و رفتار اور بے مروّتی و خلفشار کی ایک داستان پوشیدہ ہے۔
”وہاب اشرفی : ایک شخصی خاکہ" انتہائی دل چسپ خاکہ ہے جس میں دل جمعی اور عالمانہ وقار کے ساتھ ان کی زندگی کی مرقع کشی کی گئی۔ اس لیے ان کی شخصیت قابلِ تقلید ادبی شخصیت بن کر ابھرتی ہے۔ کیوں کہ وہاب اشرفی جس طمطراق اندا زسے اپنا مفروضہ پیش کرتے اور ادبی قافلے تیار کرتے تھے، وہ بھی ایک قابل قدر رویہ نظر آتا ہے۔ اس خاکے میں صفدر امام قادری نے ان کی شفقت، قدیم قدروں کی پاس داری، مہان نوازی اور مشکل حالات میں ان کی جواں مردی کی داستان ایک انتہائی شگفتہ اسلوب میں پیش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس خاکے سے کبھی حوصلہ مندی کا سبق ملتا ہے تو کبھی شخصیت کی بُردباری ہمیں ملتفت کرتی ہے۔ کبھی عالمانہ وقار کے ساتھ ساتھ تہذیبی قدروں کا پاس دار استاد مجسم شکل میں نمودار ہوتا ہے تو کبھی زندگی کا رکھ رکھاو بہت کچھ سکھا جاتا ہے۔ الغرض یہ ایک بھر پور خاکہ ہے جس میں صفدر امام قادری نے کسی بھی مقام پر تنقیدی یا تاریخی تناظر کو فوقیت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاب اشرفی کی متنوّع شخصیت کی بھرپور جلوہ نمائی ہوتی ہے اور وہ مجسم ادبی تصویر نظر آتے ہیں۔
”میری ماں" والے خاکے کا تہذیبی پس منظر انتہائی دل چسپ ہے کیوں کہ ڈاکٹر قادری نے اپنی ماں کے پس منظر میں دیہی گھرانوں اور دیہی تہذیب و ثقافت کی بھر پور عکاسی کی۔ اس خاکے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تہذیبی بیان کے لیے انھوں نے کسی بھی ایسے واقعہ کا سہار ا نہیں لیا جس میں اُن کی ماں کا تذکرہ نہ ہو۔ گویا ہر واقعے میں ان کی ماں حاوی ہیں۔ خاکہ کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ متعلقہ شخصیت خاکے کی فضا میں دھندلی نظر نہ آئے۔ انتہائی ثروت مند گھرانے سے ایک متوسط گھرانے میں آکر ان کی ماں نے جو مثالی طریقہ اپنا یا، وہ اپنے آپ میں ایک سبق ہے۔ دراصل یہ تمام تر معاملات ان کی مناسب پرورش و پرداخت کی غمازی کرتے ہیں۔
اس مضمون کی قرأت سے اندازہ ہوتاہے کہ صفدر امام قادری نے دانستہ اپنی ماں کو مرکز بناتے ہوئے ایک عہد کا تہذیبی منظرنامہ پیش کیا جس میں انھیں کامیابی ملی۔ جس طرح ایک مثنوی میں تہذیب کی عکاسی کے مواقع ہاتھ آتے ہیں، اسی طرح شاید خاکوں میں تہذیبی بیان کی گنجایش ہوتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ خاکوں میں تاریخ کا بیان اکہرا ہو اور نہ ہی خالص واقعات کا اظہار۔ ایک شخصیت کی مرقع کشی میں ضمناً تاریخ و تہذیب کا رنگ مستعار لیا جاسکتا ہے۔ صفدر امام قادری نے متعدد شخصی مضامین کے لیے یقینا تہذیبی و تاریخی رنگ مستعار لیا اور اپنے مضامین کو انتہائی دل چسپ بنا دیا۔
”ناز قادری: انھیں جیسا میں نے دیکھا" بھی انتہائی دل چسپ خاکہ/ شخصی مضمون ہے۔ اس میں جہاں پروفیسر ناز قادری کی عادات و اطوار ہیں، وہیں ان کی استادانہ شفقت اور محنت و ریاضت کی دل سوز کہانی بھی۔ ساتھ ہی غیر محسوس طریقے سے صفدر امام قادری کی زندگی پر اُن کے اثرات مرتب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھی مسلّم حقیقت ہے کہ خاکہ نگار کو خاکے کے لیے منتخب کی گئی شخصیات سے قلبی لگاو ہوتو خاکے کا رنگ ہی جداگانہ ہوتاہے۔ صفدر امام قادری نے پروفیسر ناز قادری کو بدوِ شعور سے ہی دیکھا ہے۔ ان کی نشست و برخاست، مُدرّسانہ احوال اور ذاتی معاملات کو محسوس کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون میں ان کی زندگی سے بہت سے حوالے اور تناظرات ابھرتے ہیں۔ ساتھ ہی خاکہ نگار نے اس میں کہیں کہیں ادب کی موجودہ صورت حال پر ہلکی طنزیہ فضا بھی ابھارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
پروفیسر ناز قادری کی تحریری صلاحیتوں کا زمانہ معترف ہے لیکن ان کے تقریری آہنگ سے ہر ایک باخبر نہیں۔ صفدر امام قادری نے ان کی تقریری صلاحیت کے متعلق جو لکھا، وہ بھی خوب ہے۔ کیوں کہ خاکہ لکھنے والا متعلقہ شخصیات کے ایسے ایسے پہلوؤں سے مدد لیتا ہے جن سے ہرایک واقف نہیں ہوتا۔ صفدر امام قادری لکھتے ہیں:
”۔۔۔لیکن جب کوئی خاص موقع ہو اور ناز قادری پر تقریر کی کیفیت طاری ہوجائے توکیا کہنا !
آغاز میں ان کا جادو نہیں کھلتا۔ لڑکھڑاتے ہوئے مختلف انداز کے بے ربط جملوں سے ہمارا سابقہ پڑتا لیکن جب لمبی ریس کے دوڑنے والے کی کیفیت قائم ہو اور تفصیل سے کسی موضوع پر گھنٹوں خطاب مقصود ہو تو اس وقت ناز قادری کی تقریری قوت کا اندازہ ہوتا۔ نپے تلے الفاظ، چمکتے ہوئے استعارات اور نفیس تشبیہات، انشا پردازوں اور خطیبوں کی جلوہ سامانی ایک ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔"
ظاہر ہے، کسی بھی شخصیت کے متعلق ایسی راے قائم کرنا اسی وقت ممکن ہے جب لکھنے والا اس شخص سے اچھی طرح واقف ہو۔ صفدر امام قادری نے اس شخصی مضمون میں ناز قادری کو کئی حوالوں سے ہمارے سامنے پیش کیا جس سے ان کی پوری شخصیت ہماری آنکھوں میں رقص کناں ہوجاتی ہے۔
مجموعہ ”جانے پہچانے لوگ" میں شامل اکثر مضامین خاکوں کی مروّجہ شعریات سے منحرف ہیں۔ البتہ تقریباً ہر ایک شخصی مضمون میں خاکے کی پُرکیف فضا موجود ہے۔ ڈاکٹر قادری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ طول طویل مضامین میں بھی خاکوں جیسا لطف پیدا کردیتے ہیں۔ عموماً شخصی مضامین کی طوالت قاری کا امتحان لیتی ہے اور بعض اوقات قارئین ہار بھی جاتے ہیں مگر قادری کے طویل مضامین خاصے کی چیز ہیں۔ ان کے خاکوں کا تخلیقی رچاو اور شگفتہ پیکر تراشی قاری پر گراں نہیں گزرتی۔ والد صاحب پر لکھا گیا ان کا مضمون بہت طویل ہونے کے باوجود اپنے اندر پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس میں انھوں نے ان کے احوالِ زندگی اور دیہی تہذیب کا جو نقشہ کھینچا وہ اپنے آپ میں منفرد ہے۔
اگر صفدری قلم کے اسلوب و زبان کی بات کریں تو یہ کہنا پڑے گا کہ ان کے بیان میں سادگی ہے۔ تفہیم و ترسیل ہی ان کا مقصود ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے تنقیدی اور صحافتی بلکہ شخصی مضامین میں بھی تقریباً ایک ہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید میں خشکی و سختی کا احساس نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ایک تو وہ سلیس زبان استعمال کرتے ہیں۔ پھر تنقیدی مضامین میں تاریخی حوالوں سے بھی مدد لیتے ہیں۔ اس طرح موازنے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ موازنے والی تحریروں میں نسبتاً زیادہ دل چسپی پائی جاتی ہے۔ صفدر امام قادری اپنے صحافتی کالموں میں بھی وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو گویا ان کی اپنی زبان اور اپنا منفرد اسلوب ہے۔ جس طرح ان کے تنقیدی مضامین میں تاریخی حوا لے، موازناتی کیفیت اور پُرکشش تجزیاتی عناصر ملتے ہیں اور ایک منفرد منظرنامہ تیار ہوجاتا ہے، اسی طرح ان کے کالموں میں اکثر سوالات زیادہ ہوتے ہیں۔ سوالات کی اس فضا سے ان کی تحریروں میں گہرائی اور علمیت نظر آتی ہے۔ رہی بات شخصی مضامین کی تو اس میں بھی اسلوب ویسا ہی ملتا ہے جو تنقیدی اور صحافتی مضامین میں پایا جاتا ہے مگر ان میں شخصی احوال، سوانحی معاملات اور زندگی کے پُرکشش لمحات کی مرقع کشی کی جاتی ہے۔ ان تمام پہلوؤں کی وجہ سے ان کے طول طویل شخصی مضامین میں بھی عالمانہ اطوار کے ساتھ ساتھ ایک شگفتہ و شستہ بیان موجود رہتا ہے۔ اس لیے یہ کہا جانا مناسب ہے کہ وہ زبان میں تصنع و پُر کاری پر قطعاً توجہ نہیں دیتے۔ شخصیت کو جس انداز سے دیکھتے ہیں ، اسی انداز سے دکھا بھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج خاکوں میں شاعرانہ لب و لہجے کی ہوا چلنے لگی ہے۔بہت سے قلمی چہرے بنانے والے نثر میں مصرعے گڑھ کر شخصیت کو پُرکشش دکھانا چاہتے ہیں مگر یہ طریقہ کم از کم میرے لحاظ سے نہ نثر کے لیے مفید ہے اور نہ ہی خاکوں کے لیے۔ صفدر امام قادری نے خاکوں میں شاعری بالکل نہیں کی جو ایک مستحسن رویہ ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی مناسب ہے کہ ان کے شخصی تاثرات میں طنزیہ کیفیت زیادہ نظر نہیں آتی۔ تنقیدی مضامین لکھتے وقت وہ کبھی کبھی سخت گیر تو نظر آتے ہیں مگر شخصی مضامین میں اکثر وہ نرم خو ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یعنی انھیں شخصی عیوب سے کوئی سروکار نہیں۔ فقط ادبی علتوں پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ گویا ادب کے نام پر آنے والی تمام چیزوں میں ان کی نگاہ ادبیت ہی تلاش کرتی ہے۔ طنز و تنقید کا صفدر شخصی مضامین سے اسی طرح ندارد ہے جس طرح اکبر الہ آبادی کے خطوط میں ان کا طنزیہ پہلو۔ یہ تو حقیقت ہے کہ اکبر الہ آبادی اپنی شاعری میں طنزیہ رنگ و آہنگ سے کام لیتے ہیں مگر اُن کے خطوط میں طنز کا پہلو گویا صفر ہے۔ صفدر امام قادری کا شاید یہی فلسفہ ہے کہ کسی کی زندگی میں تاک جھانک کر فقط سیاہی جمع نہ کی جائی بلکہ اصلاحی پہلوؤں کو ہی ابھارا جائے۔لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے مضامین میں ہر ایک فرد فرشتہ ہی نظر نہیں آتا۔ مولانا ابوالحسن ندوی نے ”پرانے چراغ" کے عنوان سے جو شخصی مضامین لکھے، ان میں ہر انسان شریف اور باوقار نظر آتا ہے۔ ان کے اس رویے پر کسی فرد نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ شاید دنیا میں انسان نہیں، فرشتے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس معترض کا جواب یوں بھی دیا گیا کہ دنیا میں ہر آنے والا فرد فرشتہ تو نہیں ہوتا مگر یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مولانا نے جتنے لوگوں کو لکھنے کے لیے منتخب کیا، ان میں سے اکثر فرشتہ صفت ہوں۔ اس لیے انھوں نے شخصیت کے تعارف میں تنقیص کا کوئی رویّہ اختیار نہیں کیا۔ صفدر امام قادری بھی شخصی سطح پر بہت زیادہ سیاہی پھیلانے کے قائل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نہ مزاح کا پہلو ہے اور نہ ہی سخت طنزیہ اسلوب بلکہ صفدری قلم کی تصویریں باوقار انداز میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں اور سوز و رقّت کی کیفیت ابھارتی ہیں۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ خاکہ، افسانہ تو نہیں ہوتا تاہم اس میں چند افسانوی خصوصیات ضرور پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح خاکہ مرثیہ تو نہیں ہوتا لیکن اس میں قلبی سوز اور رقّت آمیزی پیدا کی جاسکتی ہے۔ صفدر امام قادری کے خاکوں اور شخصی مضامین میں رقّت آمیزی اور سوز کی ایک انوکھی کیفیت پائی جاتی ہے جس کے اثر سے قاری کا ذہن و دماغ صلاح و فلاح کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی بے ثباتی سامنے آتی ہے تو دو فرد کے درمیان پائے جانے والے قلبی تعلق کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ خاکہ نگار کے اس رویّے سے متعلقہ شخصیت کی زندگی کاوہ روپ بھی سامنے آتا ہے جس کے متعلق کسی بھی سوانحی یا تاریخی کتاب میں کچھ نہیں مل سکتا۔ کیوں کہ یہ سب خاکوں میں ہی ممکن ہے۔ وہاب اشرفی کی خود نوشت میں ان کی زندگی کے مختلف رنگ پائے جاتے ہیں مگر سوز کی کیفیت کے باب میں یہ کتاب قابلِ التفات نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ خود نوشت میں بہت سی ایسی باتوں کا اظہار نہیں کیا جاسکتا جو ایک خاکہ نگار کے لیے ممکن اور جائز ہے۔ صفدر امام قادری نے وہاب اشرفی کے خاکے میں ان کے متعلق جن جن پہلوؤں کا نقشہ کھینچا، ان سے رقّت آمیزی کی فضا قائم ہوئی ہے اور وہ تہذیب کے پاس دار اورانسانیت نواز فرد بن کر ابھرتے ہیں۔ یہ دراصل خاکہ نگار کا کمال ہوتا ہے کہ وہ شخصیات کی زندگی کے واقعات کو دل کش پیرہن عطا کرے۔ ڈاکٹر قادری نے خاکوں میں واقعات کے بیان کے لیے جو اسلوب اختیار کیا، اس میں احترامِ آدمیت کا جذبہ اور بزرگوں کی قدر دانی کا راز پوشیدہ ہے۔ گویا ان کے خاکوں میں شخصیت پرستی نہیں بلکہ شخصیت کے اکرام و احترام کے تئیں وفورِ جذبات موجود ہے۔
سرِدست یہ بھی عرض کردینا ضروری ہے کہ صفدر امام قادری کے خاکوں میں وہ افسانوی فضا نہیں جس میں بسا اوقات شخصیت ہی غائب ہوجائے۔ کیوں کہ کئی ایک خاکہ نگار ابتدائی سطروں میں شخصیت کی وضاحت نہیں کرتے بلکہ افسانوی سطح پر جملے تراشتے جاتے ہیں اور اختتامی سطور پر شخصیت کا نام لیتے ہیں۔ موجودہ عہد میں ایسے خاکوں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یا نہیں، مگر کم از کم تحیر و تجسس اور خالص افسانوی رنگ کے خاکے مجھے حد درجہ پسند ہیں۔ مجتبیٰ حسین اور صفدر امام قادری نے اپنے خاکوں اور شخصی مضامین میں اس طرح کی افسانوی خصوصیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ مضمون کے ابتدائی جملوں میں شخصیت کی شکل و شباہت واضح ہوتی چلی جاتی ہے اور قارئین شخصیت کو جانتے پہچانتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ صفدر امام قادری نے پیرایۂ بیان تو نہیں اپنایا مگر ان کے اکثر خاکوں کا آغاز تخلیقی انداز میں ہوتا ہے مگر اس تخلیقیت سے شخصیت الگ نہیں ہوتی بلکہ شخصیت کا نام بھی ہوتا ہے اور چہرہ و حلیہ بھی۔
اس لیے یہ سوال ہوتا ہے کہ آخر خاکوں میں کس حد تک افسانوی خصوصیات شامل کی جاسکتی ہیں؟ ساتھ ہی یہ بھی سوال وارد ہوتاہے کہ خاکوں میں طنزیہ اور مزاحیہ پہلوؤں کی کس حد تک گنجایش ہے؟ کیوں کہ ”خاکہ اڑانے" کا لفظ سنتے ہی یہ خیال آتا ہے کہ طنزیہ پہلوؤں کے بغیر شاید خاکہ لکھا جانا ممکن نہیں۔ شاعری کی بحث میں ”مناسبت لفظی" کا موضوع جس قدر دل چسپ ہے، اسی طرح فن خاکہ نگاری کے باب میں ”مناسبت صنفی" کی بحث ضروری ہے کیوں کہ خاکوں میں کن کن اصناف کی کس حد تک شمولیت ہوسکتی ہے، اس کا تعیّن ممکن ہوسکے۔
صنفِ خاکہ بہت زیادہ قدیم ہے یا جدید، اس سے قطع نظر یہ کہ اردو میں طویل خاکوں کی روایت بہت مضبوط نہیں رہی۔ گویا مختصر افسانوں کی طرح اکثر خاکے بھی مختصر لکھے گئے۔ صفدر امام قادری کے چند شخصی مضامین نسبتاً طویل ہیں مگر ان میں بھی خاکوں کے روشن عناصر پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب خاکے طویل ہوں گے تو ان میں مختلف احوالِ زندگی کو پیش کرنے کی گنجایشیں بھی نکل آئیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے طویل مضامین میں سوانحی انداز اور تنقیدی اظہار کا رویہ بھی ملتا ہے۔
ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ صفدر امام قادری اپنے خاکوں میں ” ہم ہی ہم" کا ورد نہیں کرتے۔ ورنہ بہت سے خاکہ نگار متعلقہ شخصیت سے اس قدر قربت کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ شخصیت اوجھل ہونے لگتی ہے اور لکھنے والا خود پوری فضا پر محیط ہوجاتا ہے۔ اس عُجب و تعلّی سے خاکے اور شخصی مضامین کی شگفتگی و پاکیزگی جاتی رہتی ہے۔ صفدر امام قادری نے بھی شخصیات سے اپنی قربت کا اظہار ضرور کیا مگر انھوں نے کسی بھی موقعے پر شخصیات کو اَونے پَونے لفظوں میں خرید نے کی کوشش نہیں کی۔ شخصی مضامین لکھنے والوں کے لیے قربت کے اظہار کا یہ مرحلہ انتہائی دشوار گزار ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں بہت سے لکھنے والے یا تو عُجب کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر جانب داری کو ہوا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : ’دین‘ کے ظفر کو خدا آخرت میں کامران کرے!

 یہ تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیں : کتاب : جانے پہچانے لوگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے