علامت  اور چند علامتی کہانیاں

علامت اور چند علامتی کہانیاں

غضنفر

علامت کا معاملہ عجیب و غریب ہے۔ یہ چاہے تو مخمل میں مورچہ اور بادام میں آدمی دکھا دے۔ دریا کی کلائی توڑ دے اور زلف کو بام میں الجھا دے۔ پروانے کے خون کا رشتہ مگس کے باغ میں جانے سے جوڑ دے۔ نرگس کی بے نوری اور دیدہ ور کے بیچ کوئی منطق بٹھا دے۔ یہ اس لیے عجیب و غریب ہے کہ کارِ اثبات بھی کرتی ہے اور کارِ نفی بھی انجام دیتی ہے۔ علامت بتاتی بھی ہے اور چھپاتی بھی۔ راہ دکھاتی بھی ہے اور راہ سے بھٹکاتی بھی۔ علامت آب بھی ہے اور سراب بھی۔ آبِ زلال بھی ہے اور زہراب بھی۔ آبِ شیریں بھی ہے اور شوراب بھی۔ یہ اشیا کو بند بھی کرتی ہے اور چیزوں کو کھولتی بھی ہے۔ مطلعے کو ابر آلود بھی کرتی ہے اور صاف و شفاف بھی۔ منظر کو لطیف بھی کرتی ہے اور کثیف بھی۔ پیکر کو روشن بھی کرتی ہے اور دھندلا بھی۔ سمندر میں سکوت بھی لاتی ہے اور اضطراب بھی۔ عکس کو عکس بھی رہنے دیتی ہے اور اسے عکسِ برعکس بھی بنا دیتی ہے۔
علامتوں کا عمل پُل صراط پر چلنے جیسا ہے۔ توازن بگڑا کہ گرے۔ اور گرے تو گئے پانی میں۔ کیچڑ میں چلنے جیسا ہے۔ ڈگمگاۓ تو پھسلے۔ اور پھسلے تو منہ دکھانے کے لائق نہ رہے۔
علامت وہ آئینہ ہے جو ایک عکس میں کئی تصویریں دکھا دیتی ہے۔ ایک چہرے کے کئی روپ بنا دیتی ہے۔ ایک نقطے سے کئی نکتے نکال دیتی ہے۔ ایک ساز سے کئی راگ سنا دیتی ہے۔ ایک کمان سے ایک ساتھ کئی تیر چھوڑتی ہے اور سب کو نشانے پر بٹھا دیتی ہے۔ یہ  جادو کی وہ چھڑی ہے جو رسّی کو کبھی سانپ، کبھی زلف، کبھی زنجیر، کبھی پل بنا دیتی ہے۔
سیاہی کو تیرگی بھی بناتی ہے اور روشنی بھی۔ آگ کو راکھ اور خاک کرنے والی شے بھی بناتی ہے اور حرکت و حرارت پیدا کرنے والی چیز بھی۔ علامت آب کو آتش کا متضاد تو بناتی ہی ہے کبھی اسے اس کا مترادف بھی بنا کر رکھ دیتی ہے۔
مثلاً بلراج مین را کی کہانی” پورٹریٹ ان بلیک اینڈ بلڈ. " میں موجود ایف۔ایل بیچنے والی ڈرگ شاپ میں شامل لفظِ "پارسی" کو لے لیجیے۔ کوئی اس لفظ کا معنی یہ نکال سکتا ہے کہ پارسی قوم کو اپنے ملک کا کتنا خیال ہے، اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کو لے کر یہ کس قدر فکر مند ہے کہ حکومت کی پالیسی پر مستعدی سے عمل کر رہی ہے۔ آبادی کو روکنے میں ایک اہم کردار نبھا رہی ہے۔ یہ قوم اپنے اس کام کے لیے قابلِ ستائش ہے اور انعام و اکرام کی مستحق بھی۔
اور کوئی اس سے یہ معنی اخذ کر سکتا ہے کہ یہ قوم کتنی بری اور بد عنوان ہے کہ معاشرے میں ایک برائی اور بدعنوانی کو پنپنے میں معاونت کر رہی ہے۔ جنسی بے راہ روی کو سرِ عام ہوا دے رہی ہے۔ یہ قابلِ لعنت و ملامت ہے بلکہ سزاوار بھی ہے۔ اسی طرح کوئی شخص ایف۔ایل کو کوئی آلۂ انسدادِ آبادیِ نسل بتا کر مثبت علامت ثابت کر سکتا ہے اور کوئی اسے جنسی بے راہ روی کے وسیلۂ فروغ کی علامت بتا سکتا ہے۔
اس لیے علامت سازی کے عمل میں احتیاط بہت ضروری ہے، اور اس کے لیے دل اور دماغ دونوں پر پورا کنٹرول درکار ہے ورنہ بننے کے بجاۓ بگڑنے کا امکان بڑھ جاتا ہے اور ایسے میں مچھلی پکڑنے والے کے ہاتھ میں سانپ آ جاتا ہے۔ یا سانپ پکڑنے والا ہاتھ بل سے کیچوا نکال لاتا ہے۔ اور ایسا ہماری کہانیوں میں اکثر ہوا ہے۔ اور جب جب ایسا ہوا ہے کہانی سے ہوا نکل گئی ہے اور قصے کا غبارہ یا تو لجلجا ہو گیا ہے یا پھٹ کر چیتھڑوں میں بدل گیا ہے۔
زیادہ تر علامتیں ایک خاص مزاج رکھنے والے قلم کاروں نے بنا سوچے سمجھے استعمال کی ہیں۔ ان کو چننے اور برتنے میں اپنے دل و دماغ کا استعمال نہیں کیا ہے یا اتنا کم کیا ہے کہ ہاتھ میں سانپ آجانے کے بعد بھی ہم اسے مچھلی ہی سمجھتے رہے ہیں اور کبھی کبھی تو سانپ کے منہ اور دم کے دِکھ جانے کے باوجود اسے مچھلی سمجھنے کی ضد پر اڑے رہے ہیں اور ہمیشہ اڑے رہتے ہیں۔ اسی لیے ایسی کہانیاں شہرت کے بانس پر چڑھانے کے باوجود نگاہوں کو دیر تک اپنے پاس روک نہیں پاتی ہیں یا پروپیگنڈا کی تنی ہوئی رسی پر چلنے کے بعد بھی وہ کہانی کی متلاشی آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا نہیں پاتی ہیں۔ اردو کی وہی کہانیاں مقبولیت کے خانے میں گئی ہیں جن کی علامتوں کے عمل میں احتیاط برتی گئی اور خوب ہوشیاری دکھائی گئی۔ یہاں ہوشیاری دکھانے سے مراد وہ ہشیاری نہیں ہے جس میں مکّاری اور عیّاری شامل ہوتی ہے بلکہ زیرکی اور سمجھ داری مراد ہے جس میں سوچ سمجھ، اور فہم و فطانت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ مثلاً جو سمجھ داری سریندر پرکاش نے بجوکا اور باز گوئی میں، غیاث احمد گدی نے پرندہ پکڑنے والی گاڑی میں، خالدہ حسین نے سواری میں، انور سجاد نے گائے میں اور انتظار حسین نے آخری آدمی میں دکھائی ہے۔ یا کچھ اور لوگوں کی کہانیاں بھی ہیں جو پاس ہوگئے اپنی علامتوں کے امتحان میں اور سرینرر پرکاش کو تو انتظار حسین نے یہ سند بھی عطا کر دی:
"علامتی افسانہ لکھنا کوئی سریندر پرکاش سے سیکھے۔"
کہانیوں کی وہی علامتیں سرخ رو ہوتی ہیں جو اپنے مخصوص رنگ کی تابناکی سے قاری یا سامع کے حواس کو منور کرتی چلتی ہیں. جو ذہن و دل میں اپنا رنگ بھرتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں اور اختتام پر پہنچ کر ایسا پیکر بناتی ہیں یا ایسا منظر دکھاتی ہیں کہ وجود رنگ یا رنگوں سے پیدا ہونے والی بصیرت سے شرابور ہو جاتا ہے. رگ و ریشے میں سرشاری کی موجیں لہر لینے لگتی ہیں۔ گنجینۂ معانی کا طلسم اپنا در کھول کر سامنے آ جاتا ہے۔
علامت اگر اپنے ہالے سے نکل کر باہر جاتی بھی اور آپ کو کچھ اور دائروں میں لے جاتی بھی ہے تو وہاں کی جھلکیاں دکھا کر پھر سے اپنے اصل ہالے، اپنے اصلی رنگ میں لوٹ آتی ہے۔
اچھے رموز آشنا یا علامتی کہانی کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اوپری سطح پر بھی ایک بھر پور یا بھری پُری کہانی ہوتی ہے۔ ایسی کہ آسانی سے بیان ہو جاتی ہے۔ اور اپنا پہلا یا ظاہری اثر ڈال دیتی ہے۔ دوسرا وصف اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس کی علامت یا علامتوں کے ڈانڈے ٹھوس حقائق سے بنا کھینچے تانے یا کھینچ تان کیے مل جاتے ہیں ہیں۔ ان علامتوں میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت مختلف حقیقتوں کے انعکاس کا آئینہ بن جاتی ہیں۔ اس آئینے میں جو جس حقیقت کو دیکھنا چاہے وہ اسے دکھائی دے جاتی ہے یا دکھانے والا جو منظر یا پیکر اس میں دکھانا چاہتا ہے، دکھا دیتا ہے۔ یعنی اچھی علامت میں پھیلاؤ ہوتا ہے۔ اس کا دائرہ بڑا ہوتا ہے. اتنا بڑا کہ ایک ہی شے میں چوڑائی بھی نظر آ جاتی ہے اور گہرائی بھی۔ لمبائی بھی اور موٹائی بھی۔ پانی زندگی بھی بن جاتا ہے اور موت بھی۔ آگ تاب و توانائی اور حرکت و حرارت کی علامت بھی بن جاتی ہے اور ان کے تضاد کی علامت بھی۔ ہوا میں ہولناکی کا منظر بھی سمٹ آتا ہے اور خوش باشی کا سماں بھی۔
اچھی علامت کی تیسری اچھائی یہ ہے کہ اس کو سمجھنے میں اتنا زور نہیں لگانا پڑتا کہ دماغ کی ہڈّیاں چٹخ جائیں۔ اعصاب تن جائیں۔ نسیں ڈھیلی پڑ جائیں۔اتنا زور لگانا پڑے کہ یا تو قبض ہو جاۓ یا دست چھوٹ جائے اور سر درد کی دوا یا قبض کشا گولیاں کھانی پڑے۔
یہاں اردو کی کچھ کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں جو علامتی کہانیوں کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں. میں نے بھی انھیں علامتی کہانیوں کی طرح پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے. میرے تجزیے سے شاید آپ کو بھی اندازہ ہو جائے کہ علامتیں کہاں مسئلے کو سلجھاتی ہیں اور کہاں معاملے کو الجھا دیتی ہیں. کوئی فن کار علامتوں کے استعمال میں کیوں کامیاب ہو جاتا ہے اور کوئی کیوں کر ناکام رہ جاتا ہے ؟
گائے
انور سجاد کی کہانی ” گائے" اردو کی چند مشہور و مقبول کہانیوں میں سے ایک ہے۔ میرے خیال میں اپنی اوپری سطح پر ایک کامیاب کہانی ہے۔ اس میں ایک ایسے سیدھے، سادے، معصوم، مفید، کار آمد اور نفع بخش جانور جو اپنی ان خصوصیات کی بدولت معصومیت اور سیدھے پن کی علامت بن چکا ہے، اس کی پرسوز اور المناک کہانی بیان کی گئی ہے۔ وہ جانور ایک گاۓ ہے جو ایک طویل مدّت تک دودھ دیتی رہی ہے، اپنے بوڑھاپے یا کم زوری کے سبب اب وہ دودھ دینے سے معذور ہو گئی ہے تو اس کے مالکان اسے بوجھ سمجھنے لگے ہیں اور اسے ٹھکانے لگانے کے در پے ہیں۔ وہ بے چاری اپنے کھونٹے سے الگ ہونا نہیں چاہتی مگر زبر دستی اسے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے ہٹانے اور بوچڑ کھانے میں بھیجنے کے لیے زور زبر دستی سے کام لیا جا رہا ہے۔ اسے مارا پیٹا جا رہا ہے۔ طرح طرح سے زد و کوب کیا جا رہا ہے۔ اس کی دم اینٹھی جا رہی ہے۔ اس کی پیٹھ اور منہ پر ڈنڈے برساۓ جا رہے ہیں۔ اسے بری طرح گھسیٹا جا رہا ہے۔ اس کے منہ میں کھرلی پھنسائی جا رہی ہے. 
اس عمل میں اس کی زبان اینٹھ اینثھ جا رہی ہے۔
اسے نہیں معلوم کے اسے کہاں لے جایا جا رہا ہے مگر اس کے احتجاج اور زمین پر کھروں کے جماو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹھکانے کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔ اسے اپنی زمین سے جدا ہونا قطعی گوارا نہیں۔ اس کا ایک سبب، یہ بھی ہے کہ یہاں اس کا بچھڑا بندھا ہے۔ جس سے اس کو اتنا پیار ہے کہ وہ سخت اور سنگین قسم کی بندشوں کو توڑ کر اپنے جگر کے ٹکڑے کے پاس پہنچ جاتی ہے اور اس اذیت ناک حالت میں بھی وہ اسے چومنے چاٹنے لگتی ہے۔ اولاد کی محبت میں اسے یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ اس کی زبان زخمی ہے۔ ادھر ایک ماں ہے کہ اولاد کے لیے تڑپی جا رہی اور اُدھر اس کا بیٹا ہے کہ وہ اپنا چارہ کھانے میں مست ہے۔
ماں کی کوئی فکر نہیں، کوئی پرواہ نہیں، ماں کی پیٹھ پر پڑنے والی ضرب سے نکلنے والی درد ناک آواز کا کوئی اثر نہیں، اسے اس بات کا بھی غم نہیں کہ اس کی ماں بوچڑ خانے میں قصائیوں کے ہاتھوں کٹنے جا رہی ہے۔
سالوں تک خدمت کرنے اور اپنے خون سے بنے دودھ سے مالکوں کے تن بدن کو توانا اور چہروں کو سرخ و سپید بنانے اور کبھی کوئی قصور نہ کرنے والی گائے کو بوچڑ خانے میں بھیج دیا گیا اور کسی کے دل پر رتّی بھر بھی اثر نہیں ہوا۔ ایک پر ہوا بھی تو اس پر لعنت ملامت کے تیر برستے رہے۔ اور برستے بھی کیوں نہیں کہ ان کے اس عمل میں اس سے رخنہ جو پڑتا رہا۔ گھر کے طبیلے میں پلی اور اپنے کھونٹے سے بندھی گائے کو گھر اور کھونٹے سے اس لیے الگ کر دیا گیا کہ کرنے والوں کی داڑھیوں میں عقل باس کرتی تھی۔ عقل جو زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے تو احساس اور جذبے کو کچل دیتی ہے۔
اب ذرا اس کہانی کے اندرون میں اتریے اور نچلی سطح پر دیکھیے کہ کیا یہ گائے ہماری، آپ کی، ہمارے معاشرے کی، ہمارے سنسار کی کہانی نہیں کہتی؟
کیا ہم اپنے اپنوں کو بلا کسی قصور کے اپنے سے الگ نہیں کر دیتے؟
کیا ہمیں کسی کی پیڑا کا احساس ہوتا ہے؟ 
اور اگر کسی کو ہوتا ہے تو کیا ہم اسے لعنت ملامت نہیں کرتے؟ 
کیا ہماری عقل زیادہ بڑھ نہیں گئی ہے؟
یہ گائے ہماری کہانی تو کہتی ہی ہے، اس کے علاوہ اس گائے کی کہانی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے حس کے سینگوں پر یہ دنیا ثکی ہے۔ وہ تو ہمیں سنبھالے ہوئی ہے مگر ہم اس کو آئے دن اپنی عقل کا نشانہ بناتے رہتے ہیں، ہماری مادہ پرستی اور خود غرضی اسے ہی مٹانے پر تلی ہوئی ہے جو ہمیں بقا اور تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ علامتی کہانی مگر سادہ زبان، کوئی پیچ نہیں، کہیں کوئی الجھاو نہیں۔
کہانی کے آخری پیراگراف میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ گائے کو ان انسانی معصوم، منفعت بخش مثبت جذبوں کی علامت سمجھا جائے جو وقت کے شہ زور مادہ پرستی کے رویے اور عقلیت کے غلبے سے متصادم ہیں. جو ان طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر ہی ہیں اور ان کے زور لگانے اور مٹانے سے بھی نہیں مٹتیں کہ دنیا میں توازن قائم رکھنے اور چہرۂ کائنات کو خوب صورت دکھائی دینے کے لیے ان کا وجود بھی نا گزیر ہے۔ اگر یہ نکتہ افسانہ نگار کے شعور یا لاشعور میں نہیں ہوتا تو وہ یہ نہیں کہتا :
” پھر مجھے نہیں پتا کیا ہوا۔ نکے نے کسے نشانہ بنایا‌۔گائے کو، بچھڑے کو، بابا کو، اپنے کو، ڈرائیور کو، یا وہ ابھی تک ‌نشانہ باندھے کھڑا ہے۔
کوئی وہاں جا کر دیکھے اور آ کے مجھے بتائے کہ پھر کیا ہوا۔ مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ اب گائے کو بوچڑ خانے میں دے ہی دیا جائے۔"
پھر تو وہ سیدھے سیدھے یہ کہتا کہ گائے کو بوچڑ خانے میں پہنچا دیا گیا۔
ممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دوسرے لوگ اس گائے کا کوئی اور روپ تلاش کریں۔ اس میں سے کوئی اور پیکر نکا لیں۔ اس کا کچھ اور معنی و مفہوم ڈھونڈ لیں۔ ایسی صورت میں اس کہانی کی معنویت اور بڑھ جائے گی۔ اس کا دائرہ اور وسیع ہو جائے گا۔
پرندہ پکڑنے والی گاڑی
پرندہ پکڑنے والی گاڑی ان افسانوی گاڑیوں، لاریوں اور سواریوں میں شامل ہے جو شاہراہِ ادب پر خوب دوڑیں، تیز دوڑیں۔ مسلسل دوڑیں۔ کبھی رکی نہیں. کبھی بند نہیں ہوئیں۔ جن کے پہیے نہیں گھسے۔ پرزے ڈھیلے نہیں پڑے۔ موبل آئل خراب نہیں ہوا. جن کی کبھی بریک فیل نہیں ہوئی اور جو آج بھی اسی فُل اسپیڈ سے دوڑ رہی ہیں اور جن کے چلنے کی آوازیں آج بھی دور تک سنائی دیتی ہیں۔
پرندہ پکڑنے والی گاڑی اپنے پہلے ہی پگ کی چاپ (آہٹ) سے سماعتوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ہم ریل گاڑی، گھوڑا گاڑی، بیل گاڑی، چھکڑا گاڑی، مال گاڑی وغیرہ کے نام تو سنتے آئے ہیں مگر یہ کون سی گاڑی ہے جو انسانوں کو ڈھونے اور ان کو منزلوں تک پہنچانے کے بجائے پکڑنے کا کام کرتی ہے، وہ بھی کتُوں بلٰیوں کو نہیں پرندوں کو؟ لہٰذا پہلے قدم پر ہی ہم چونک پڑتے ہیں. آنکھیں وہ عجیب و غریب اور انوکھی گاڑی دیکھنے کے لیے بے تاب ہوجاتی ہیں۔ ذہن اس گاڑی کا مقصد جاننے کے لیے بے چین ہو اٹھتا ہے۔ اور ہم بنا دیر کیے افسانے میں کود پڑتے ہیں۔ تو اس طرح یہ کہانی اپنے پہلے قدم سے ہی کمال دکھانا شروع کر دیتی ہے۔
گاڑی کیسی ہے اس کی جھلک تو پہلے ہی پراگراف میں ہمیں دکھائی دے جاتی ہے:
"یہ گاڑی چاروں طرف سے رنگین شیشوں سے بند ہےحد خوبصورت ہوتی کہ نگاہ اٹھ کے داد دیتی۔ اس کے چاروں طرف ننھی ننھی گھنٹیاں بندھی ہوتیں جو چلتے وقت دھیرے دھیرے بج رہی ہوتیں۔ گھنٹیوں کی آواز عجیب و غریب ہوتی۔ کچھ ایسی جیسے کوئی سحر پھونک رہا ہو۔ ایک لمبا خمیدہ کمر زرد رو آدمی گاڑی کھینچ رہا ہوتا۔ بانس کے سرے پر برش جیسا گچّھا سا ہوتا جس پر گوند یا اسی طرح کی چپک جانے والی رس دار رطوبت لگی ہوتی۔ جس سے وہ پرندوں کو پکڑتا تھا۔"
گاڑی کی یہ جھلک قاری کو اور متجسس کر دیتی ہے اور دنا دن سوالوں کے کئی گولے دا غ دیتی ہے یا چھوڑ دیتی ہے۔
_ اس رنگین گاڑی کا گاڑی بان، لمبا خمیدہ کمر اور زرد رو کیوں ہے؟ یہ گاڑی پرندے کیوں پکڑتی ہے؟ پرندے آوارہ کتّے تو ہیں نہیں کہ جن سے شہریوں کو خطرہ ہو اور جنھیں میونسپلٹی کی گاڑی پکڑ کر لے جائے؟ یہ گاڑی پرندے کیوں پکڑتی ہے؟ ان پرندوں کو کیا کرتی ہے؟ پھر یہ گاڑی کس کی ہے؟ سرکاری ہے یا کسی پرائیویٹ کمپنی کی ہے؟ رنگین شیشوں سے سجا کر اس کو بے حد خوب صورت کیوں بنایا گیا ہے؟ اس میں عجیب و غریب اور پرکشش آوازیں نکالنے والی گھنٹیاں کیوں باندھی گئی ہیں؟
ہم ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے تیز تیز چلنے لگتے ہیں جب کہ وہ گاڑی نہایت مست رفتار سے ہولے ہولے چل رہی ہوتی ہے۔
آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ گاڑی کے پیچھے چلنے والا آدمی اپنے ہاتھ کے بانس جس کی لمبائی کافی زیادہ ہے اور جس کی پھنگی یعنی آخری سرے پر ایک برش جیسا گچھا بنا ہوا ہے اور جس گچھے میں لسّہ یعنی گوند لگا ہوا ہے، سے پرندوں کو پکڑتا ہے اور پکڑ کر انھیں اس گاڑی میں ڈال دیتا ہے۔ اس کام کے لیے گاڑی دن بھر مختلف محلوں سے گزرتی ہے۔ اور گلی محلوں میں گھوم گھوم کر طرح طرح کے رنگ برنگے پرندے پکڑا کرتی ہے۔
ہم گاڑی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ راہ میں طرح طرح کے مناظر آتے ہیں جنھیں دیکھ دیکھ کر ہمارا تجسس اور بڑھتا جاتا ہے۔ بیچ بیچ میں راوی کچھ دل چسپ اور تعجب خیز واقعات بھی سناتا جاتا ہے جو ہمارے ذہن و دل کو ایڑ لگاتے ہیں اور ہم انجام جاننے کے لیے اور بھی مضطرب ہو جاتے ہیں۔
راوی جو دل چسپ اور حیرت انگیز واقعات سناتا ہے ان میں ایک بچے کی بیمار بہن، اس کے ماہ لقا کبوتر، اس کی ماچس کی ڈبیا میں بند تتلی، کوٹھے کی منّی، منّی کے مٹّھو اور جلیبی والے حلوائی سے راوی کی ہونے والی بات چیت کے قصے بھی شامل ہیں۔
اس طرح پرندہ پکڑنے والی گاڑی کا دن بھرکا معمول پورا ہوتا ہے اور کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے اور انجام سامنے آ جاتا ہے۔
ہمارے کچھ سوالوں کا جواب یہ ملتا ہے کہ یہ گاڑی رنگین، خوب صورت اور پرکشش آوازوں سے پر اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ سماعتوں اور بصارتوں کو اپنے میں الجھا سکے۔ انھیں یہ موقع نہ مل سکے کہ وہ کچھ اور دیکھ سکیں. کچھ اور سن سکیں۔ وہ یہ نہ دیکھ سکیں کہ کسی کے پر کسی پھندے میں پھنس گئے ہیں۔ کوئی بند پنجرے میں پھڑپھڑا رہا ہے۔ کوئی یہ نہ سن سکے کہ کہیں سے کسی کے چھٹپٹانے کی آواز آ رہی ہے۔ کسی کے گلا بھنچنے کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ یہ اہتمام اس لیے کیا گیا ہے کہ مقاصد کے حصول میں کوئی اڑچن نہ آ جائے۔ کوئی رخنہ نہ پڑ جائے۔ کوئی صداے احتجاج نہ بلند کر دے۔ اور اگر کوئی آواز اٹھاتا بھی ہے تو اس کے آگے اتنے سکًے اچھال دیے جائیں کہ ان کی کھنک سے سماعت ایسی مست ہو جائے  کہ منہ کھولنا بھی چاہیں تو نہ کھل سکے۔ گویا ایسا فن کارانہ بلکہ شاطرانہ کہنا چاہیے، نظام بنایا گیا ہے کہ مقصد کے حصول میں کسی طرح کی کوئی دشواری نہ آئے۔ مدعا کا پرندہ آسانی سے دام میں آ جائے۔
یہ تو رہیں کچھ خاص خاص باتیں جن کی باہمی آمیزش یا منطقی ترتیب سے یہ کہانی بنتی ہے کہ ایک گاڑی شہر میں داخل ہوتی ہے۔ مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر کچھ رنگ برنگے پرندے پکڑتی ہے. انھیں ایک خاص طرح کی گاڑی میں بھر کر شہر سے باہر لے کر چلی جاتی ہے۔ اور جو پرندے پکڑے جاتے ہیں ان میں کبوتر، طوطا، مینا، بلبل، قمری، گوریلا، نیل کنٹھ وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں، زیادہ تر وہ پرندے ہیں جن کی منقاروں سے خوش الحان آوازیں نکلتی تھیں اور پروں سے رنگ پھوٹتے تھے۔ ان آوازوں سے کائنات کی فضاؤں میں موسیقی گھلتی تھی۔ رنگوں سے سنسار کو رنگینی و رعنائی ملتی تھی۔جن کے دم سے جبینیں دمکتی تھیں۔ جن کے نور سے آنکھیں چمکتی تھیں۔ جن کے سُروں سے سرور ملتا تھا۔ جن کے زیر و بم سے چاروں طرف چہروں پر پھول کھلتا تھا۔
مگر یہ رنگ، نور، سُر سب قید کر دیے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کو قید ہونے سے کسی نے نہیں روکا۔سب اپنے اپنے کاروبار میں لگے رہے۔ اپنے اپنے نفع نقصان کے چکّر میں پڑے رہے۔ اپنے اپنے محدود دائروں میں سمٹے رہے۔ یہ نہیں دیکھا کہ مہ لقا کبوتر اگر چلا گیا تو ایک بیمار بچی کی جان چلی جائے گی۔ ان پرندوں کے جانے کی فکر کچھ لوگوں کو ستاتی رہی مگر دھیرے دھیرے وہ بھی تھک ہار کر بیٹھ گئے یا وہ بھی بے حس ہو کر رہ گئے۔
ہماری تنقید اس روش پر چل پڑی ہے کہ کہانی کے صرف معنی کو پکڑنا ہے یا زیادہ سے زیادہ زبان کی کچھ غلطیوں کو پکڑ میں لانا ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ معنی و مفہوم کے ساتھ ساتھ ہماری نگاہیں کہانی کہنے کے ڈھنگ پر بھی جاتیں. زبان و بیان کے حسن پر بھی ٹھہرتیں۔ جملوں کے در و بست سے قائم ہونے والے لسانی توازن اور اس سے پھوٹنے والی تخلیقی شفق پر بھی رکتیں۔ سمجھتیں اور سمجھاتیں کہ کہاں کہاں پر فن کے فوّارے چھوٹے ہیں؟ کس کس جگہ سے تخلیقی آبشار پھوٹے ہیں؟ کس کس مقام پر کس کس اسلوب کی دھنک تنی ہے اور اس سے جن رنگوں کی شعاعیں نکلتی ہیں وہ کیسی ہیں؟ کہاں گاڑھی ہیں اور کدھر مدّھم ہیں؟ اس کہانی میں یہ جملے :
” تو بابو! جلیبیوں کا یہ رس جو مکھیاں چوستی ہیں تو رس اور مکھّیاں کہاں جاتی ہیں، ذرا اتنا تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلوائی فیصلہ کن لہجے میں بولا،
” رس مکھیوں کے پیٹ میں اور مکھیاں جلیبیوں کے ساتھ پلڑے پر۔۔ سمجھ گئے نا؟
۔۔. 
"ماچس کی ڈبیا میں میری آنکھوں کے سامنے ایک بے حد خوش رنگ تتلی نیم جان سی پڑی تھی جو باہر کی ہوا اور دھوپ لگتے ہی پھڑپھڑانے لگی۔ اس کے ننھے پروں کے ارد گرد زعفرانی رنگ بکھرا ہوا تھا۔ اور پروں کے عین درمیان زیرہ کے برابر سرخی تھی۔ اور اس سرخی کے چاروں طرف گلابی رنگ چھٹکا ہوا تھا اور پروں کے کناروں پر افشاں چمک رہی تھی۔ ڈوبتے سورج کی روشنی میں وہ بے حد حسین دکھ رہی تھی۔"
کس طرح کا جلوہ دکھا رہے ہیں؟ فن کے کیسے کیسے موتی لٹا رہے ہیں؟ زندگی کی کیسی کیسی بلیغ اور معنی خیز تصویریں بنا رہے ہیں؟
کاش ہم دیکھ پاتے کہ ان مکھی اور جلیبی والے جملوں میں کتنا مکھن ہے؟ کتنی ملائی ہے؟ کتنے میوے پڑے ہوۓ ہیں؟ رس گلّوں کا کتنا رس گھلا ہوا ہے؟ ان جملوں میں کیسے کیسے رنگ ہیں؟ کیسا کیسا نور ہے؟ ان رنگوں سے کیسی کیسی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں؟ ان کے لمس سے لبوں پر کیسی کیسی تتلیاں بیٹھ رہی ہیں؟ ان سے مور نکل کر کیسا کیسا رقص دکھا رہے ہیں؟
غیاث احمد گدّی نے اپنی اس افسانوی گاڑی میں ایسی سبک، خوب صورت اور پرسوز کہانی سوار کر دی ہے اور جزئیات نگاری کے وہ وہ کمالات دکھائے ہیں کہ ایک ایک بیان، ایک ایک جملے، ایک ایک منظر، ایک ایک نکتے پر بے ساختہ داد نکلتی ہے۔ انھوں نے منی بائی کے پیشے اور کہانی کے دھندے کے موازنے سے ادب و فن کی نا قدری کا وہ مذاق اڑایا ہے، کہ قدروں کی دھجیاں روئی کے گالوں کی طرح بکھر گئی ہیں۔ مادہ پرستی کے آگے علم و فن کی کیا حیثیت ہے اور پیٹ کی بھوک کی آگ روح کی ضرورت کو کس طرح جلا کر خاک اور زندگی کے باقی سارے رنگوں کو راکھ کر دیتی ہے اس کی ایسی ایسی پرکشش تصویر کھینچی ہیں کہ انھیں دیکھ کر آنکھوں میں لہو اتر آتا ہے۔
ایسے صاف شفّاف اور سفّاک پیکر بنائے ہیں کہ جن سے نہاں خانوں کے منظر بھی اجاگر ہوجاتے ہیں۔ پرندوں کو پکڑنے والے کون ہیں؟ پرندوں کی چھٹپٹاہٹ کو دیکھ کر کیوں ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے، سب کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ ایک ایک سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ ایک ایک بات اور ایک ایک ہونی کا جواز سامنے آ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے کی ماچس کی ڈبیا میں بند رنگین تتلی کے نکل جانے کے غم کا تصور بھی متشکل ہو جاتا ہے اور فن کار کے سینے کا دکھ اور اداسی کا سبب بھی متجسم ہو کر نگاہوں میں آ جاتا ہے۔
یہ گاڑی آج بھی شہروں شہروں، قصبوں قصبوں، قریوں قریوں، گاؤوں گاؤوں گھوم گھوم کر پرندے پکڑنے میں مصروف ہے۔ اپنی پھنگی کے گچھے میں گوند یا کوئی لس دار مادّہ لپیٹے منڈیروں، میناروں، چھتوں، کھمبوں وغیرہ پر بیٹھے معصوم، خوش رنگ، خوش بیان، خوش جمال اورخوش خصال پرندوں کو چپکاتی پھر رہی ہے۔ انھیں اپنے اندر قید کرتی جا رہی ہے۔ دنیا ان کی چھٹپٹاہٹ کو دیکھ بھی رہی ہے مگر وہ کچھ نہیں کرتی۔ اپنے کاروبار میں مگن اور مصروف رہتی ہے۔ اگر کوئی اس جانب ملتفت ہوتا بھی ہے تو اس کے آگے چمچماتے ہوئے سکّے بکھیر دیے جاتے ہیں اور وہ ان سکوں کو سمیٹنے میں ایسا منہمک ہو جاتا ہے کہ اسے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ وہ سب کچھ بھول جاتا ہے. 
یہ پرندے کیا ہیں؟ یہ در اصل وہ قابلِ قدر انسانی قدریں ہیں جو حیات و کائنات کی رگوں میں رس گھولتی ہیں۔ کسی قدر کے نرم پروں  کے لمس سے بے حس و حرکت جسموں میں جان پڑتی ہے۔ کسی کے قرب سے کسی ٹھکرائی، تھکی اور ٹھٹھکی ہوئی منّی کی زندگی کو امید و آس کی راہ اور رفتار ملتی ہے۔ کسی کا نور کسی کے دل میں درد مندی کی جوت جگاتا ہے۔ اور کسی کا لمس کسی کے اضطراب کو اطمینان میں بدل دیتا ہے۔ کسی کا رنگ کسی میں تتلی کے رنگوں کو محفوظ کرلینے کا جذبہ بھرتا ہے۔ کسی کا زور کسی کو دن دن بھر اداس رکھتا ہے۔ اس سے کہا‌نی لکھواتا ہے اور اس کہانی کے عوض ملی اجرت کو کسی ضرورت مند کو بنا کسی غرض اور لالچ کے دلوا دیتا ہے۔
مگر افسوس کہ خوش رنگ قدروں کے پرندے ایک رنگین گاڑی کے زرد و سیاہ رو گاڑی بانوں کے ہاتھوں میں تھمے اس بانس کی زد پر ہیں جس کے اوپری سرے پر بنے گچھے میں بہت سارا لس دار چپچپا مادہ بھرا پڑا ہے۔
کوؤں سے ڈھکا آسمان
” کہانی کا عنوان ‘کوؤں سے ڈھکا آسمان" چونکاتا ہے۔ عنوان پڑھتے ہی آنکھیں متجسّس ہو جاتی ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ عام طور پر بادلوں یا گرد و غبار سے ڈھکنے یا ڈھک جانے والا آسمان کوؤں سے کیوں ڈھکا ہے؟ آسمان کو ابر کی سیاہ پرتوں سے ڈھانپنے اور کوؤں کے کالے پروں سے ڈھکنے میں کیا فرق ہے۔ اگر افسانہ نگار کوؤں کی جگہ بادل استعمال کرتا تو کیا ظلمت میں کچھ فرق پڑ جاتا؟ آسمان سے زمین پر آنے والی روشنی کو کیا بادل پوری طرح روک نہیں پاتے؟ کیا کوؤ‌ں کے پر روشنی کو روکنے اور تاریکی کو پھیلانے میں زیادہ کار گر ہیں؟ یا آسمان کو بھجنگ کوؤں سے ڈھانپنے کا کوئی اور معنی نکلتا ہے؟ اگر کوئی اور معنی نکلتا ہے تو وہ معنی کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب یا کوئی منطقی جواز کہانی کے اندر داخل ہونے اور تلاش کرنے پر کہیں نہیں ملتا۔ البتہ انورخان کا یہ افسانہ ظاہری سطح پر ایک کہانی کہنے میں کامیاب ہے‌. یہ اور بات ہے کہ کہانی انور سجاد کی گائے اور غیاث احمد گدی کی پرندہ پکڑنے والی گاڑی کی طرح پہلی سطح پر بیان تو ہو جاتی ہے مگر ذہن میں اس طرح کھل نہیں پاتی جس طرح گائے اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی ذہنوں میں کھل جاتی ہیں۔
یعنی یہ افسانہ پہلی سطح پر یہ بیان کرنے میں کامیاب ہے کہ کچھ لوگ بے شمار بھجنگ کوؤں سے ڈھکے آسمان کے نیچے کڑکڑاتی ہوئی سردی میں آگ کے الاؤ کے پاس اندھیرے میں بیٹھے اپنے ٹھٹھرے ہوئے جسم کو گرماہٹ پہنچانے کے جتن میں مصروف ہیں۔ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا ہے۔ بجلی غائب ہے۔ لکڑیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ آگ کی حدّت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ آگ کو جلائے رکھنے کے لیے جد و جہد کے باوجود آس پاس جب کسی قسم کا کوئی ایندھن نہیں مل پاتا ہے تو وہ باری باری سے اپنے جسم کے کپڑے اتار کر آگ میں جھونک دیتے ہیں تاکہ آگ بجھے نہیں۔ اس سے لو نکلتے رہیں اور ان کے کپکپاتے ہوے جسم و جاں کو گرمی ملتی رہے. کالے کوؤں سے آٹے سیاہ آسمان، سردموسم، بجھتی ہوئی آگ، بجلی گل ہو جانے کے باعث فضا پر چھائی ہوئی تاریکی میں ماحول سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ رات لمبی محسوس ہونے لگی ہے۔ ماحول، موسم، مشکلات کی مار اور مضطرب ذہن و دل کی بڑھتی ہوئی اذیت سے بچنے اور وقت کاٹنے کے لیے وہ کہانی سنانا شروع کرتے ہیں۔ یہ ترکیب انھیں اس لیے سوجھتی ہے کہ اسی دوران انھی کی طرح کا ایک اور آدمی ان کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے جس کا دھندا کہانی جمع کرنا اور سنانا ہے۔
مگر یہ کہانیاں بھی ان کے دکھوں کا مداوا نہیں بنتیں اور رات کے کسی پہر میں آگ بجھ جاتی ہے۔ لو ٹھٹھر کر اینٹھ جاتی ہے۔ ان سبھی کے جسم بھی سرد پڑ جاتے ہیں اور متحرک رہنے والی جان جم کر بے حس و حرکت ہو جاتی ہے۔ صبح میونسپلٹی کی گاڑی آتی ہے اور کوڑا کرکٹ کی طرح انھیں بھی اپنے اندر ڈال کر لے جاتی ہے۔
یہ افسانہ اپنی کہانی تو سنا دیتا ہے مگر سمجھا نہیں پاتا کہ اس کا تھیم کیا ہے؟ اس میں کہا کیا گیا ہے؟کہانی کار کا مقصد کیا ہے؟ کہانی کے بیانوں، مکالموں اور ڈرامائی منظروں سے کوئی صورت نہیں بنتی کہ ہم صحیح انجام تک پہنچ جائیں۔ یہاں ڈانڈے اس طرح نہیں ملائے گئے ہیں جس طرح ہماری کلاسیکی کہانیوں میں ملائے جاتے ہیں یا متذکرہ جدید کہانیوں گائے اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی میں ملائے گئے ہیں۔
اس کہانی میں کچھ لوگ گھور تاریکی، کڑاکے کی سردی کے سبب اور آگ کی کمی کے باعث مر جاتے ہیں مگر ان کی موت بھی قاری پر وہ اثر نہیں ڈال پاتی جیسا اثر انور سجاد کی گائے کی اذیت اور پرندہ پکڑنے والی گاڑی میں بند پرندوں کی چھٹپٹاہث اور اپنی بیمار بہن کے تئیں ایک چھوٹے سے بھائی کے ذہن و دل میں لہر لینے والی کیفیت سے ہوتا ہے. حالاں کہ یہاں افسانہ نگار نے ڈرامائی فضا اور میر امن کے باغ و بہار یعنی قصۂ چہار درویش کی داستانوی ٹیکنیک سے بھی کام لیا ہے مگر وہاں قصۂ چہار درویشوں کی کہانی کُھلی کُھلی اور کھِلی کھِلی سی لگتی ہے۔ اس کی معنویت کھلی ہوئی فضا میں سانس لیتی ہے اور یہاں کہانی بند بند اور بجھی بجھی سی لگتی ہے اور اس کی معنویت مجروح اور گھٹی گھٹی سی محسوس ہوتی ہے۔ وجہ غالباً جدیدیوں کے اسلوب کا وہ مبہم، تجرید اور رمز و کنایہ والا رویہ ہے جسے بیانیہ کے موقع پر بھی استعمال کیا گیا اور بیشتر جدید کہانیوں میں روا رکھا گیا۔
افسانہ اپنی کہانی سنانے میں تو کامیاب ہو گیا مگر اپنی معنویت کی تفہیم کرانے میں ناکام کیوں رہ گیا یہ جاننے کے لیے آپ کچھ سوال کھڑے کر سکتے ہیں۔ مثلاً اس طرح کے سوال:
_ آسمان کو کوؤں سے ڈھکا ہوا کیوں دکھایا گیا، وہ بھی بے شمار اور بھجنگ کووں سے؟
_ افسانے میں بجلی کیوں گُل کی گئی؟
_ آگ کے پاس کڑاکے کی سردی میں رات کے وقت بیٹھنے والے کون ہیں؟
_ وہ وہاں اس وقت کیوں بیٹھے ہوئے  ہیں؟ کیا ان کے پاس گھر نہیں ہے؟ کیا وہ مسافر ہیں جو کسی سبب سے گھِر گئے ہیں اور اپنے گھر نہ جا سکے ہیں؟ یا کیا وہ ہمیشہ وہیں رہتے ہیں؟
_اطراف کی اونچی اونچی عمارتوں کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟
_ان عمارتوں کے دروازے اور کھڑکیاں کیوں بند ہیں؟
_ عمارتوں میں روشنی کیوں نہیں ہے؟
_ کہانیوں کے جو عنوانات بتائے گئے ہیں، ان کے معانی و مفاہیم کیا ہیں؟
_ بعد میں آنے والا شخص کیوں کہتا ہے کہ اس کے پاس کوئی کہانی نہیں ہے جب کہ کہانیاں جمع کرنا اس کا پیشہ ہے؟
اور یہ بھی کہ شہر کے کسی بھی آدمی کے پاس کوئی کہانی نہیں ہے۔
_ وہ کن یا کس طرح کی کہانیوں کی بات کر رہا ہے؟
_ اس بات پر سبھی حیرت کناں اور دہشت زدہ کیوں ہیں کہ آج دن بھی نکلنے کا نہیں؟ اور دن کیوں نہیں نکلے گا؟ ایسا ہو نہیں سکتا کہ دن نہ نکلے، اس طرح کے سوال ان کے لبوں سے کیوں اچھل رہے ہیں؟
اب آئیے دیکھیں کہ افسانہ ان سوالوں کا جواب دیتا ہے کہ نہیں اور دیتا ہے تو وہ جواب اطمینان بخش ہیں یا نہیں؟
پہلے سوال کا جواب کہانی کی طرف سے یہ ہو سکتا ہے کہ بے شمار بھجنگ کوؤں سے مراد ہے کہ رات بہت کالی ہے اور مہیب کالی رات راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ مصیبت کو بڑھاتی ہے۔ یہاں صرف کوؤں کے رنگ سے کام لیا گیا ہے۔ اس کی آواز کائیں کائیں سے نہیں، جب کہ وہ زیادہ سماعت کی تکلیف اور ذہن کی اذیت کا باعث ہوتی ہے اور منحوس بھی سمجھی جاتی ہے۔
دوسرے سوال یعنی بجلی کیوں گل ہوئی؟ اس سوال کا جواب افسانے سے نہیں ملتا۔ جس شہر کا نظام اتنا اچھا ہو کہ وہ اپنی سڑکوں تک کا خیال رکھتا ہو اور جن پر ایک تنکا اور کاغذ کا  پرزہ تک نہ دکھتا ہو اور جو ہر وقت کی صفائی ستھرائی کی بدولت چمچماتی رہتی ہوں وہ نظام اپنے شہریوں کو گھنٹوں اندھیرے میں کیوں رکھتا ہے۔ یہاں انتظامیہ کا نظم و نسق فیل یا مجہول کیوں ہے؟
باہر اور چوراہوں پر تو بجلی نہیں ہے کہ یہ سرکاری معاملہ ہے، ممکن ہے مشین کی خرابی یا عملہ کی لاپروائی یا اسٹرائک کی وجہ سے چلی گئی ہو مگر اونچی اونچی عمارتوں میں اندھیرا کیوں؟ ان میں تو اونچے اونچے لوگ رہتے ہیں جن کی آنکھوں کو ایک لمحے کی بھی تاریکی گوارا نہیں اور جو اپنا ان ورٹر رکھتے ہیں۔ کؤئی یہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ جس زمانے میں یہ افسانہ لکھا گیا، انورٹر ایجاد نہیں ہوا تھا۔ چلو مان لیا مگر جینیٹر تو تھا۔ مدھو مکھیاں تو نہیں مر گئی تھیں۔
موم تو نکلتا ہوگا۔ موم بتیاں تو بنتی ہوں گی۔
رات کے وقت شدید سردی کے موسم میں آگ کے پاس بیٹھنے اور کہانی سنانے والے کون تھے؟ اس سوال کا بھی جواب موجود نہیں ہے۔
اطراف میں کھڑی اونچی اونچی عمارتوں کو شاید اس لیے دکھایا گیا ہے کہ زمین پر کھلے سیاہ آسمان کے نیچے بیٹھے آدمیوں کا کرب تضاد کے تناظر میں اور شدید ہو کر ابھر سکے مگر ایک تکلیف سے تو اونچی عمارتوں میں رہنے والے بھی دوچار ہیں۔ وہاں بھی اندھیرا مسلط ہے۔آسمانی ظلمت ان پر بھی مہربان نہیں ہے۔ لہذا کوؤں سے ڈھکے آسمان کی ظلمت کے شکار صرف وہی نہیں ہیں جو عمارت سے باہر زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
اونچی عمارتوں کے دریچے اور دروازے بند ہیں یا کھلے ہیں، گھپ اندھیرے میں وہ بھی ایسے عالم میں جب کہ کمروں کے چراغ تک گل ہوں، دیکھ پانا آسان نہیں۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دروازوں اور کھڑکیوں کو بند دکھانے میں کیا منطق ہے، یہ بھی کہانی سے ظاہر نہیں ہوتی۔
دن نہ نکلنے سے متعلق آخری سوال جس سے کئی اور سوال بھی جڑے ہوئے ہیں، پر بھی افسانہ چپ ہے۔
کہانیوں کے عنوانات سے کچھ اشارے تو ضرور ملتے ہیں کہ ان سے کچھ انسانی ضرورتوں اور خواہشوں کا انعکاس ہوتا ہے مگر ان کا عکس بھی اتنا روشن نہیں کہ ان کی تجسیمی صورت سامنے آ سکے۔
بعد میں آنے والے شخص کی اس بات کا بھی کوئی معقول سبب بیان نہ ہو سکا کہ اسے کہانیاں کیوں نہیں ملیں۔ اور نہ ہی اس طرف کوئی اشارہ ملتا ہے کہ وہ کس طرح کی کہانیوں کی بات کرتا ہے؟
کہانی میں موجود ان نئے درویشوں کے دل و دماغ سے نکلے کہانیوں کے عنوان اور ایک دوسرے کے عنوان پر ان کے مسکرانے کے انداز سے اتنا اندازہ ضرور لگتا ہے کہ وہ جاہل، ان پڑھ اور مزدور قسم کے کردار نہیں ہیں۔ وہ حساس بھی ہیں اور شعور و ادراک بھی رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں۔
اس کا ذمے دار کون ہے اور کیوں ہے اس کا جواب بھی افسانے سے ایسا نہیں ملتا جسے سن کر ہم لرز اٹھیں یا ہمارے حواس حیرت میں پڑ جائیں یا ہم بھی پتھر ہو جائیں۔
در اصل یہ ان کہانیوں میں سے ایک ہے جن میں جدیدیت کے ٹولز خوب استعمال ہوۓ ہیں۔ اور ان کے استعمال میں منطق کا استعمال کم سے کم کیا گیا ہے، ورنہ جہاں آسمان بے شمار کالے کالے کوؤں سے ڈھکا ہو
اوپر کی روشنی دبیز سیاہی میں دب چکی ہو، نیچے کی بجلی گل ہو، آس پاس کی عمارتوں کے دروازے اور کھڑکیاں بھی بند ہوں، کسی کمرے میں روشنی کی کوئی جھلک تک نہ ہو، ایسے میں شہر کی سڑکوں کی چمچماہٹ وہی دیکھ سکتا ہے جس کی پتلیوں میں بصارت کی جگہ بصیرت ہو۔
ہمارے بعض جدیدیے دنیا کو تیسرے نیتر سے دیکھتے تھے اور انھیں وہ چیزیں بھی دکھائی دے جاتی تھیں جو عام آنکھوں سے نظر نہیں آتیں۔ ممکن ہے کوئی تیسری آنکھ سے دیکھے تو سب کچھ ممکن ہو جائے۔
بانگ
بانگ کی بڑی اہمیت ہے، خواہ وہ علّامہ اقبال کی بانگ ہو یا شوکت حیات کی۔ خواہ کسی درند کی بانگ ہو یا پرند کی۔ بانگ نہ ہو تو صبح نہ ہو، دن نہ نکلے۔ حیات میں حرکت نہ ہو۔ معاملات میں برکت نہ ہو۔ کائنات بیدار نہ ہو۔ انسان برسرِ پیکار نہ ہو۔ کارِ کاروبار نہ ہو، حالات ساز گار نہ ہوں، شعور و ادراک ہشیار نہ ہوں۔ بانگ وہ سُر ہے جس کے تال پر سیاہ افق سے سرخ شعاعیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ پو پھٹ جاتی ہے۔ سورج نکل آتا ہے۔ جس کے شور سے زورِ جرّار تھرّا اٹھتا ہے۔ رعبِ زر دار لرز اٹھتا ہے۔ کاخِ امرا کے در و دیوار ہل جاتے ہیں۔ اوقات اور حالات بدل جاتے ہیں۔
بانگ بند ہو جائے تو وقت کی رفتار رک جائے۔ کاروبارِ دنیا ٹھپ پڑ جائے۔ دماغ تشویش میں پڑ جائے۔ دل میں خدشات کا کانٹا گڑ جائے۔ ذہن کا توازن بگڑ جائے۔ پولٹری فارم کے مالک کی چھری اپنے ہی دربے کے مرغ کی گردن پر پہنچ جائے۔ اپنے ہم زاد کا خون ہوتا دیکھ کر دربوں کے باقی مرغوں کی آنکھوں میں لہو اتر آئے۔ ان کی چونچ دربوں کی جالیوں پر پہنچ جائے اور پھر ان سیاہ سفید اور چتکبرے مرغوں کے سینے میں ایک سرخ انقلاب برپا ہو جائے۔
یہی منظر شوکت حیات کی کہانی "بانگ" میں نظر آتا ہے۔ شوکت حیات اس منظر کو اتنے بڑے کینوس پر پھیلاتے ہیں کہ مرغ کے پروں کے رنگ طرح طرح کے رنگ دکھانے لگتے ہیں۔ ان رنگوں سے سیاہ، سفید، سرخ اور چتکبرے پیکر ابھرنے لگتے ہیں۔ ان رنگ برنگے پروں والے مرغوں کے پاس ان کی مرغیاں بھی سمٹ آتی ہیں اور اپنی باریک باریک خشک منقاروں سے اپنی زندگی کی لہو میں تر بتر کہانیاں سنانے لگتی ہیں۔ اپنے پیاروں سے الگ ہونے کا کرب، ان کی گھٹن، ان کی بھنچی بھنچی سی آواز سب کچھ ان کے سینے سے باہر آنے لگتا ہے۔ طرح طرح کی محرومیاں جھانکنے لگتی ہیں۔
ہم جنسوں کی گردنوں پر چلنے والی چھریاں، ان کے جسموں سے نچے جانے والے پر، ادھیڑی جانے والی کھال، جسم کی بننے والی بوٹیاں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر ان کے گوشت اور گرم آگ پر سینکے جارہے اس گوشت سے نکلنے والے عرق کو دربوں کے مرغ دیکھتے ہیں تو ان کے انرر جل رہی انتقام کی آگ اور سلگ اٹھتی ہے۔ ان کی چونچیں چاقوؤں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور وہ چاقو چیڑنے پھاڑنے کے جذبے سے مغلوب ہو کر قفس نما دربوں کی مضبوط جالیوں سے بھڑ جاتے ہیں۔ مرغوں کے سینے میں انتقام کی آگ دہکتی رہتی ہے۔ احتجاج کے شعلے شرر فشاں ہونے کی تیاری کرتے رہتے ہیں۔ اپنی منقاروں میں طاقت بھرتے رہتے ہیں۔ اپنے ڈینے مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ اپنے پنجوں کی چھرّیوں کو تیز کرتے رہتے ہیں اور ایک دن دربوں کی جالیاں توڑ کر باہر نکل آتے ہیں۔
الگ الگ گوشوں، الگ الگ دربوں، الگ الگ خانوں میں بنٹے اور دور دور رہنے والے سارے مرغ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں۔ ان کی ایک منظّم فوج تیار ہو جاتی ہے۔ سر پر سرخ کلغیوں کے خود پہنے سپاہی اپنے پنجوں کے خنجر اور منقاروں کے تیر و تبر سے لیس ہو کر اجتماعی بانگ کے ساتھ دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ دشمن کے جسموں پر چونچ کی مار پڑنے لگتی ہے‌۔ پنجوں کی چوٹ سے چمڑی ادھیڑنے لگتی ہے. مرغ کا سوندھا سوندھا گوشت کھانے والے خود لہو لہان ہونے لگتے ہیں اور مرغوں کے مسلسل یلغار، پنجوں کی مار اور منقاروں کے وار سے زخمی ہو کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
دربے میں بند مرغوں نے کیسے باہر نکل کر مورچہ سنبھالا، سوئی ہوئی مرغیاں کس طرح تن کر راہ میں کھڑی ہوگئیں اور کس طرح ان کو ذبح کرنے والے ان کے حملوں سے زخمی ہوئے اور کیسے وہ اس مقام کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے جہاں وہ ان کی گردنوں پر چھری پھیرا کرتے تھے، یہ منظر آپ خود شوکت حیات کے بنائے ہوئے پیکروں میں دیکھیے:
” یہ دیکھ کر اس کی حیرت اور خوف کا ٹھکانہ نہ رہا کہ ابھی ابھی جو مرغیاں جو باہر سو رہی تھیں، وہ ان کے راستے میں تن کر کھڑی ہیں۔ سب کے سب اچھل کر دروازے تک آئے۔ ابھی وہ مرغی خانے کا دروازہ بند کرنا ہی چاہ رہے تھے کہ چتکبرے چوزوں کی فوج ان پر حملہ آور ہوگئی اور وہ بے تحاشا بھاگے۔ چاروں طرف ہوا میں مرغوں کی کلغیاں۔ بجلیوں کی طرح کوند رہی تھیں اور زمین پر جوزوں کی فوج اپنے چھری نما پنجوں سے اچھل اچھل کر ان پر حملے کر رہی تھی۔"
۔۔۔
” فضا کے چپّے چپّے میں جنگلی مرغوں کی پھڑپھڑاہٹ تھی۔ اور اچھلتے ہوئے ان کے بجلی نما پنجے اور چونچ دیکھتے دیکھتے ان کے سفید کپڑے تار تار ہوگئے۔
اندر سے سیاہ بنیائن اور لنگوٹ نظر آنے لگے۔ اندھا دھندھ وہ اس پولٹری فارم سے دور بھاگے جا رہے تھے جہاں آج تک ان گنت مرغوں کو بانگ اور ہتھیلی کی لکیروں کے غسلِ آفتاب کی آڑ میں وہ ذبح کرکے چٹخارے لے لے کے کھا چکے تھے اور رنگوں کی بنیاد پر ان کے جھنڈ کو ٹکڑے ٹکڑے کر چکے تھے۔"
۔۔۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شوکت حیات نے صرف پولٹری فارم کے مرغوں کی کہانی سنائی ہے تو آپ غلط سمجھتے ہیں. 
۔شوکت حیات نے مرغوں اور مرغیوں کے ساتھ ساتھ پولٹری فارم کے باہر رہنے والی مخلوق کی بھی کہانی سنائی ہے جو ایک مختلف رنگ کے درپے میں رہتی ہے جس کی گردن پر بھی چھری چلتی رہتی ہے۔
مرغے تو اپنے دربوں کو توڑ کر باہر نکل آئے ہیں۔ اب دیکھنا ہے باہر کی مخلوق کب اپنا دربہ توڑتی ہے۔
افسانہ نگار نے یہ سارا مرقع اس لیے نہیں بنایا ہے کہ ہم خاموش کھڑے ہو کر انسان اور مرغ کے درمیان ہونے والی لڑائی کا تماشہ دیکھیں، بلکہ آس معرکے کے مرقعے میں ہم یہ بھی دیکھیں کہ کہیں کہانی کار یہ تو نہیں کہہ رہا ہے کہ دربو‌ں میں بند انسانی مرغے اپنے پنجوں سے جالیاں توڑ کر باہر نکلیں اور اور سبھی مل کر ایک ساتھ بانگ دیں تاکہ چاقو بہ کف بوچروں کی سماعتوں کے پراخچے اڑ جائیں اور ان کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ قید و بند میں رہنے والے آپس میں مل سکیں اور باہمی اختلاط کا موقع پا کر اپنی نسل کو آگے بڑھا سکیں۔
شوکت حیات نے یہی دو مرقعے نہیں بنائے ہیں بلکہ انھوں نے اس بانگ سے زبان و بیان کے ایسے ایسے پیکر بھی بناۓ ہیں کہ لگتا ہے انھوں نے لفظوں کا ایک نگار
خانہ سجا دیا ہے. ایسا نگار خانہ جہاں تصویریں دکھائی ہی نہیں دیتیں بلکہ بولتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہیں۔ جھانکیے اس نگار خانے میں اور دیکھیے ان تصویروں کو، سنیے ان کی آوازوں کو:
"مرغ بانگ دینا بھول گئے ہیں اور انھیں یاد بھی ہے تو جان بوجھ کر جی چراتے ہیں۔۔۔انھوں نے فوراً مرغوں کو ذبح کر ڈالا۔"
۔۔۔
"اگر یہ حرام زادے ایک جگہ کر دیے جائیں تو نہ معلوم جالیو‌ں کا کیا حشر ہو۔"
۔۔. 
"جب تک انھیں ذبح نہ کیا جائے،اس ن کا دماغ درست نہ ہوگا اور یہ بانگ دینا یاد نہیں رکھیں گے۔"
۔۔۔
کاہلو! بانگ دینے کے ڈر سے غائب ہو۔ اسی لیے ہم تمھیں چھوڑتے نہیں۔ اگر ہم تمھیں ذبح کرکے کھائیں نہیں تو تم ہمیں غائب کردوگے۔"
۔۔۔
"جب بھی ان کی چونچیں جالیوں کو توڑنے کے لائق ہوئیں ہم نے انھیں ذبح کر دیا۔"
۔۔۔
"مختلف رنگوں کی چھری ان کی گردنوں پر سوار ہو گئی. انھوں نے چن چن کر ان تمام مرغوں کو ذبح کر دیا جن کی چونچیں لمبی اور مضبوط ہونے لگی تھیں اور بانگ دینے کے بجائے جالیوں کو توڑنے کا کام کرنے لگی تھیں۔"
۔۔۔
یہ تصویریں کیا اس صورتِ حال کو پیش نہیں کرتیں جہاں ایک دبنگ زبردستی کسی سے بانگ دلوار ہا ہے تاکہ اس کی صبح ہو۔ اس کی صبح ہو تو اس کا وقت جاگے۔اس کا مقدر بیدار ہو۔ انسان اگر ایسا نہیں کرتا، ہانکا نہیں لگاتا تو اس کی گردن پر چھری رکھ دی جاتی ہے۔اس کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے۔ اس کی کھال اتار لی جاتی ہے اور اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے وجود کو ہی مٹا دیا جاتا ہے۔
کیا اس پیکر میں اس زمین کے لاکھوں کروڑوں انسانوں کا عکس نہیں ابھرتا جو دربہ نما گھروں، کھولیو‌ں، جھونپڑوں، بیرکوں میں بند ہیں اور اپنے مالکوں کے من موافق بولنے، نہ بولنے، یا چپ رہ جانے یا کسی  قسم کا احتجاج کرنے پر جان سے مار دیے جاتے ہیں؟ کیا اس میں ایک کم زور قوم کی شبیہ نہیں ابھرتی جسے دوسری مضبوط قوم اسے جانور سمجھ کر جب چاہتی ہے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے؟
کیا اس میں ان لاکھوں لوگوں کے اندر کی گھٹی ہوئی چیخ سنائی نہیں دیتی؟ کیا ان کا خاموش احتجاج بولتا ہوا سنائی نہیں دیتا؟ کیا اس میں اس دبنگ قوم کی دبنگئی اور اس کا جبر اور اس کم زور قوم کے اندر کا کرب دکھائی نہیں دیتا؟
شوکت حیات کی یہ کہانی یہ بھی کہتی ہے کہ مرغ جب بانگ دوسروں کے لیے لگاتے ہیں تو یہ ان کی غلامی کی نشانی ہے۔ انھیں اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ وہ بانگ دیں تاکہ اسے سن کر مالک لوگ بیدار ہو کر تاریکی سے روشنی میں آ سکیں اور ان کی سوئی ہوئی ساکت زندگی متحرک ہو کر پھر سے رفتار پکڑ سکے مگر جب وہ اپنے لیے لگاتے ہیں تو یہ ان کی آزادی کی علامت بن جاتی ہے جسے سن کر بوچروں کے ہاتھ تھرّا اٹھتے ہیں۔لہراتی ہوئی چھریاں گھبرا کر گر جاتی ہیں اور ان کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔
کہانی میں آغاز کی بانگ غلامی کی بانگ ہے اور آخر کی بانگ آزادی کی بانگ ہے۔ کہانی کار کا منشا یہ ہے کہ پہلی بانگ رک جائے اور دوسری بانگ گونجتی رہے۔
مجھے لگتا ہے کہ میں نے علامت کی ماہئیت، معنویت، افادیت،اس کی صورت گری، اس کی کارسازی اور کار گزاری کو آپ کے سامنے میں رکھ دیا ہے. اگر میری بات آپ تک پہنچ گئی ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ علامت کی گتھیاں مجھ پر کھل چکی ہیں اور اگر میرا عندیہ آپ تک نہیں پہنچ سکا تو مجھے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ترسیل کی ناکامی کے المیے کا شکار میں اب بھی ہوں۔
***
غضنفر کا یہ انٹرویو بھی ملاحظہ فرمائیں: جب تنقید بھی ادب کا ایک حصہ ہے تو اس میں بھی تو ادبیت ہونی چاہیے: غضنفر

شیئر کیجیے

One thought on “علامت اور چند علامتی کہانیاں

  1. Name : DR.AZIMULLAH HASHMI
    Email : ahashmi3012@gmail.com
    Message : اس مضمون نے بہت متاثر کیا۔چندجدید افسانوں کی پرت اس طرح کھولی گئی ہے کہ مفہوم بڑی ۤسانی سے سمجھ میں ۤجاتے ہیں۔یہ تینوں جدید افسانے اپنی نوعیت اور اورکرافنگ کے اعتبارسے منفرد ہیں اورگتھی سلجھنے میں دیر لگتی ہے۔ لیکن اختتام پر سر نے جدید افسانوں مجھے لگتا ہے کہ میں نے علامت کی ماہئیت، معنویت، افادیت،اس کی صورت گری، اس کی کارسازی اور کار گزاری کو آپ کے سامنے میں رکھ دیا ہے. اگر میری بات آپ تک پہنچ گئی ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ علامت کی گتھیاں مجھ پر کھل چکی ہکی طرح وسوسے میں یہ کہہ کرڈال دیا کہ ٹن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے