احمد کمال حشمی کی تضمین نگاری : سنگ بنیاد کی روشنی میں

احمد کمال حشمی کی تضمین نگاری : سنگ بنیاد کی روشنی میں

فرزانہ پروین (کولکاتا)

اردو ادب میں شاعری ہر دل عزیز صنف رہی ہے اور بات جب غزل کی ہو تو اس کی مقبولیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے. غزل کے اشعار پر تضمین کی روایت بھی بہت پرانی ہے. جس طرح اردو غزل فارسی سے اور فارسی غزل عربی کے بطن سے وجود میں آئی اسی طرح تضمین کی روایت بھی فارسی سے اردو میں آئی ہے. فارسی کے متعدد معتبر شعرا کے اشعار کی تضمینیں بعد کے شعرا نے بڑے ذوق و شوق سے کیں. اٹھارویں صدی کے شعرا کے کلام میں بھی تضمین کے اشعار ہمیں جا بجا ملتے ہیں.
اصطلاح شاعری میں دوسرے کے شعر پر مصرع لگانے کو تضمین کہتے ہیں. تضمین نگاری کا شوق فطری ہوتا ہے. بعض اوقات کسی شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے کوئی مصرع یا شعر ذہن سے چپک کر رہ جاتا ہے اور پھر اسی مصرع پر دوسرا شاعر کوئی نئی گرہ یا کئی گرہیں لگا کر اپنے خیالات و جذبات کی ترسیل کرتا ہے. دراصل تضمین نگاری کا مقصد یہ نہیں کہ ہم شاعر کے شعر میں کوئی خامی نکال رہے ہیں یا اس سے بہتر مصرع جوڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اصل مصرع پر ہم کوئی ایسی گرہ لگائیں جس سے نئی سوچ، نئی فکر یا نئے خیالات کا در وا ہو جائے اور یہی تضمین کی کامیابی ہے.
عہد حاضر میں یوں تو کئی نام ادبی افق پر نمودار ہوئے ہیں جن میں ایک نام مغیث الدین فریدی کا ہے جن کی تضامین کا مجموعہ "کفر تمنا" کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے. اس کے علاوہ آکولہ (مہاراشٹر) سے تعلق رکھنے والے محبوب راہی اور اڑیسہ سے تعلق رکھنے والے خالد رحیم کی تضامین کے مجموعے بھی اپنی طرز کی خوب صورت کتابیں ہیں. بات جب مغربی بنگال کی آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں اچھے معتبر شعرا کے مختلف اصناف پر کئی بہترین شعری مجموعے تو ملتے ہیں لیکن تضمین کا میدان خالی نظر آتا ہے. لہذا بنگال میں اس خلا کو پر کرنے کا کام احمد کمال حشمی نے بہ حسن و خوبی کیا ہے. انھوں نے بنگال میں ایک نئی قسم کی تضمین کی شروعات کی جسے ان کا اختراع بھی کہا جاسکتا ہے. 2017ء میں ان کی کتاب "آدھی غزلیں" شائع ہوئی. یہ ہندستان کے مختلف شعرا کی غزلوں پر کی گئی نئی قسم کی تضامین کا مجموعہ ہے، جس میں کسی شاعر کی غزل کے تمام اولیٰ مصرعوں کو ہٹا کر ان کے ثانی مصرعوں پر احمد کمال حشمی نے اولیٰ مصرعے لگائے. تضمین کی یہ شکل اردو شاعری میں بالکل نئی ہے جسے بنگال اور بنگال کے باہر ادبی حلقوں میں خوب سراہا گیا اور 2020ء میں ان کی تضمین کی دوسری کتاب "سنگ بنیاد" منظر عام پر آئی جس میں انھوں نے قدما سے لے کر جدید دور کے معتبر شعرا کے منتخب اشعار پر تین تین مصرعے جوڑ کر مخمس نما تضمینیں کی ہیں-
احمد کمال حشمی کا نام شعر و ادب کی دنیا میں کوئی نیا نہیں ہے. یہ کل چھ کتابوں کے خالق ہیں "آیات سخن" 1995ء ، ان کی مرتب شدہ کتاب ہے اس کے بعد ان کی غزلوں کا مجموعہ "سفر مقدر ہے" 2005ء میں شائع ہوا- 2009ء میں آسان اور سلیس زبان میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا مجموعہ "چاند، ستارے، جگنو، پھول" کے نام سے منظر عام پر آیا. 2016ء میں ان کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ "ردعمل" شائع ہوا، اور پھر 2017ء میں انوکھے اور دل چسپ انداز میں کی گئی تضامین کا مجموعہ "آدھی غزلیں" نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور 2020ء میں "سنگ بنیاد" کے نام سے تضامین کا دوسرا مجموعہ شائع ہوا.
احمد کمال حشمی کا شمار مغربی بنگال کے استاد شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی علمی اور ادبی لیاقت کی بنا پر ادبی حلقوں میں اپنی شناخت مستحکم کرلی ہے. غزل، غزل کے فن اور اس کی باریکیوں پر ان کی گرفت کافی مضبوط نظر آتی ہے. غزل کے بعد ان کی دوسری پسندیدہ صنف تضمین نگاری ہے جس کی زندہ مثالیں آدھی غزلیں اور سنگ بنیاد ہیں.
"سنگ بنیاد" مغربی بنگال میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے. یہ مخمس نما تضامین کا مجموعہ ہے. اس میں تضمین نگار نے قدما سے لے کر جدید دور کے معتبر شعرا کے منتخب اشعار پر تین تین مصرعے جوڑ کر مخمس نما تضمین کی ہے. اگرچہ تضمین کی یہ شکل روایتی ہے اور "سنگ بنیاد" سے قبل ایسی تضمینیں بھی کی جا چکی ہیں اور بنگال میں بھی مختلف شعرا نے فقط منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر اس صنف پر طبع آزمائی کی ہے لیکن یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ احمد کمال حشمی نے اس صنف میں خصوصی دل چسپی دکھائی اور اپنے اس فن کو ایک مجموعہ کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کیا جو بعد کے شعرا کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے. "سنگ بنیاد" میں کل 296 اشعار پر مخمس نما تضمینیں کی گئی ہیں جن میں ہندستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے 37، سرزمین بنگال سے تعلق رکھنے والے 12 شعرا کے اشعار پر اور اس کے علاوہ 23 ضرب المثل اشعار پر طبع آزمائی کی ہے.
مولوی عبدالحق اپنے مضمون "تراجم کی اہمیت” میں رقم طراز ہیں:
"ترجمہ کا کام بہت کٹھن ہے. تالیف و تصنیف سے بھی زیادہ دشوار ہے. تالیف و تصنیف میں اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے. ترجمے میں قدم قدم پر پابندی کا سامنا ہوتا ہے. اصل مصنف کے طرز فکر، اسلوب بیان، اظہار خیال کے انداز، خاص الفاظ کے معانی کی نزاکت کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اور بڑی احتیاط برتنی پڑتی ہے تاکہ اصل مصنف کا مفہوم اپنے الفاظ اور محاورے میں اس طور سے ادا ہو جائے کہ مصنف کے منشا کے سمجھنے اور بیان کے انداز اور قوت میں فرق نہ آنے پائے".
یہی باتیں تضمین پر بھی لاگو ہوتی ہیں. تضمین نگاری اصل شعر کہنے سے بھی زیادہ دشوار ہے کیونکہ اصل شعر میں شاعر کو اظہار خیال کی پوری آزادی ہوتی ہے جب کہ تضمین نگار کو بالکل الگ زاویے سے سوچنا پڑتا ہے اور تضمین میں کوئی نیا نکتہ نیا خیال پیش کرنا ہوتا ہے. شاعر کے اسلوب بیان اور اس کے رنگ کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے اور اس انداز سے گرہ یا گرہیں لگانی ہوتی ہیں کہ وہ اصل شاعر کی تخلیق سے جدا نہ لگے بلکہ اصل شاعر اور تضمین نگار دونوں کے مصرعے آپس میں یوں شیر و شکر ہو جائیں کہ گویا یہ اصل شاعر کی ہی تخلیق ہے.
مثال کے طور پر ناصر کاظمی کے اس شعر پر احمد کمال حشمی کی تضمین دیکھیں :
الجھے ہیں بال، جسم پسینے سے تر بہ تر
تلووں میں پھوٹے آبلے، تپنے لگا ہے سر
سایہ ہے ابر کا نہ کہیں ہے کوئی شجر
"یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں"
اگرچہ ناصر کاظمی کا یہ شعر خود میں جہان معانی سمیٹے ہوئے ہے لیکن اس کے پہلے مصرعے میں جو استفہامیہ انداز ہے کہ
"یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر؟"
لفظ ‘یوں` کی احمد کمال حشمی نے جس طرح سے وضاحتیں پیش کی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شاعر کا حالِ زار، اس کے دل کی کیفیت، تڑپ، اضطراب سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے عیاں ہے اور اسی منظر کشی نے بند کے حسن میں اضافہ کر دیا ہے.
احمد ندیم قاسمی کے اس شعر پر تضمین دیکھیں:
ماحول تھا نہ وقت نہ موسم صدا کا تھا
ایسے میں بے قرار مرا دل بلا کا تھا
تھا تیرا انتظار، تقاضہ وفا کا تھا
"انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا"
اس تضمین میں عاشق کے انتظار کی تڑپ، اس کی شدت، محبوب سے وفا کی امید اور آخر میں شیشۂ امید کے پارہ پارہ ہو جانے کا ذکر کس خوب صورتی سے کیا گیا ہے. اس بند میں ایسی مقناطیسی کشش ہے جو عام طور پر نظم میں ہوتی ہے. بند کے پانچ مصرعوں میں مکمل نظم پوشیدہ ہے. یوں سمجھیے کہ احمد ندیم قاسمی کے ایک شعر کو احمد کمال حشمی نے اپنی ہنر مندی سے مربوط مصرعے جوڑ کر نظم کی کیفیت پیدا کر دی ہے.
شاد عظیم آبادی کا یہ شعر جو ضرب المثل کے طور پر زبان زد ہو چکا ہے، ان کے ہی رنگ و اسلوب میں یہ تضمین دیکھیں :
کبھی زمیں سے سنی اور کبھی زماں سے سنی
ہر ایک بات کسی اور کی زباں سے سنی
سنائی جس نے جہاں سے وہاں وہاں سے سنی
"سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم"
زندگی کی پیچیدہ گتھی جو آج تک حل نہیں ہو پائی ہے اس کی الجھنیں، کشیدگی اور پیچیدگی کے قصے کو جہاں تہاں سے سننے کا ذکر کر کے تضمین نگار نے اس کی فکر، خیال، شعر کی وسعت اور وقار میں مزید اضافہ کر دیا ہے-
ایک اور تضمین قتیل شفائی کے انداز میں حاضر ہے:
نہ تذکرے تھے نہ قصے جہاں محبت کے
خلافِ امن تھے، سب تھے عدو اخوت کے
کسی کے دل میں بھی جذبے نہیں تھے چاہت کے
"ہزاروں ڈھول جہاں بج رہے تھے نفرت کے
ہمیں وہاں بھی محبت کے گیت گانا تھا"
تضمین نگار نے یہاں غضب کی منظر کشی کی ہے. آنکھوں کے سامنے ایک پر آشوب ماحول کا نقشہ کھینچ دیا ہے. جہاں ہر شخص ایک دوسرے سے متنفر نظر آتا ہے. محبت سے ڈر اور اپنوں سے کشیدگی کا شکار ہے. ہر طرف نفرتوں کے انگارے سلگ رہے ہیں اور ایسے میں شاعر امن کا پیغام سنا رہا ہے. منظر کشی اس تضمین کا خاص وصف ہے.
پروین شاکر کے اس شعر کی تضمین کا انداز دیکھیں:
بھیگا موسم بھی ہے، بھیگی ہیں یہ پلکیں بھی مری
رائگاں جائیں گی کیا اشک بھی آہیں بھی مری
آخری سانس ہے چاندی ہوئیں زلفیں بھی مری
"شام بھی یو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں"
پروین شاکر کا یہ شعر تانیثی جذبات کی بھر پور عکاسی کرتا ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ تضمین نگار کو شاعر کے اسلوب اور اس کے رنگ کا بھی خاص خیال رکھنا پڑتا ہے. لہٰذا یہاں پروین شاکر کے ہی اسلوب میں ایک عورت کے کرب، اس کا انتظار، اضطراب، اس کی بے بسی، لاچاری کا احاطہ کس چابک دستی سے کیا گیا ہے اور تیسرے مصرعے میں زلف کا چاندی ہونا تو درد کی انتہا کو ثابت کرتا ہے. محبوب کے انتظار میں اب شاعرہ کے بالوں میں سفیدی آ چکی ہے اور اس کی آخری سانسیں چل رہی ہیں اور یہ سانسوں کی ڈور بھی نہ جانے کب ٹوٹ جائے، ایسے میں بھلا وہ کہاں تک اپنے محبوب کا انتظار کرے. پانچوں مصرعے میں ایسی تال میل ہے کہ کسی بھی زاویے سے یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ اصل شعر کون سا ہے اور تضمین کا مصرع کون سا؟
کسی کتاب کی کامیابی اس بات میں مضمر ہوتی ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد قارئین کی تشنگی بجھنے کے بجائے اور بڑھ جائے اور سنگ بنیاد ایسی ہی ایک کتاب ہے. اس کی بیش تر تضامین میں وہ مقناطیسی کشش ہے جو قاری کو خود سے دور ہونے نہیں دیتی بلکہ وہ قاری کو ایک اور بند پڑھنے پر اکساتی ہے. یہ انسانی فطرت ہے کہ یکسانیت اسے راس نہیں آتی اور وہ اس سے جلد اوب جاتا ہے. لہذا احمد کمال حشمی ایک ماہر نباض کی طرح نوع بشر کی اس فطرت کو ملحوظ خاطر رکھ کر شاعری میں کچھ نیا یا کچھ نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. وہ روایت سے بغاوت تو نہیں کرتے ہیں مگر آنکھیں بند کر کے اسے قبول بھی نہیں کرتے اور اپنی علمیت، قابلیت، زبان و بیان، اسلوب و انداز، لطف و بیان کی چاشنی سے فرسودہ پامال موضوع کو بھی رنگ و روغن ڈال کر دل کش اور دیدہ زیب بنا دیتے ہیں.
شعر کہنا کسی بھی شاعر کے لیے آسان ہوتا ہے، لیکن شاعری کرنی مشکل، اور واقعی احمد کمال حشمی کی تمام کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ شعر نہیں کہتے بلکہ شاعری کرتے ہیں اور شاعری میں جب تک جدت نہ ہو وہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کرا سکتی اور احمد کمال حشمی کے یہاں جدت ہے جس کی مثال آدھی غزلیں اور سنگ بنیاد ہیں.

Farzana Parveen
Assistant Teacher
The Quraish Institute
5/1, Kimber Street
Kolkata – 700017
Mobile – 7003222679

مضمون نگار کا تعارفی خاکہ:

خاندانی نام : فرزانہ پروین
قلمی نام : فرزانہ پروین
تاریخ پیدائش : 19، دسمبر
جائے پیدائش : کولکاتا
تعلیم : ایم – اے (اردو)،
بی – ایڈ
ڈی – ایل – ایڈ
ذریعۂ معاش : درس و تدریس
تلمذ : احمد کمال حشمی
آغاز شاعری: 2017ء
شعری مجموعہ : کوئی نہیں
سرکاری انعامات و اعزازات : کوئی نہیں
پسندیدہ شعرا : میر تقی میر، مرزا غالب، احمد فراز، پروین شاکر، فیض احمد فیض، خورشید طلب اور احمد کمال حشمی
مشغلہ : شعری و نثری کتب کا مطالعہ کرنا، سیر و تفریح کرنا، کلاسیکی شعرا کی غزلیں اور پرانے گانے سننا
پورا پتہ: 3/1, گورا چاند لین کولکاتا – 700014
موبائل نمبر : 7003222679
ای۔میل : fparveen150@gmail.com
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے