مہلک مرض کی سند

مہلک مرض کی سند

وسیم حیدر ہاشمی 

بڑے شعرا کے اکثر مصرعے ضرب المثل بن جاتے ہیں یا ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر وقت کے نشیب و فراز اکثر قدیم اور مستند محاوروں تک کو باطل کر دیتے ہیں۔ ادب میں ایسے محاوروں، کہاوتوں اور ضرب المثل کی کمی نہیں ہے جو ناگزیر حالات کی بنا پر بے معنی بلکہ ازخود باطل ہوگئے ہوں۔ کسی زمانے میں سنت کبیر نے نوکری کو ”نِشِدھ“ قرار دیتے ہوئے اسے بھیک کے مترادف بتایا تھا، جس کی معنویت وقت کے ساتھ از خود باطل ہو گئی۔ اب حال یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر نوکری حاصل کرنے کے سلسلے میں مفلس، نادار اور جاہل، ثروت مند اور تعلیم یافتہ طبقہ میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ہر طبقہ، کسی قیمت پر بھی، بہ طور خاص سرکاری نوکری حاصل کر لینے کا متمنی رہتا ہے۔ سرکاری نوکری حاصل کرنے کی خواہش میں اکثر عوام اپنی تعلیم، رتبہ اور معیار تک کو داؤں پر لگانے سے نہیں ہچکتے۔ نتیجہ کے طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ایسی نوکریوں میں بہ آسانی نظر آجاتے ہیں، جس نوکری کا ان کی تعلیم سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کا ہدف کسی بھی قیمت پر سرکاری نوکری حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لوگ سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے اپنے زیورات، کھیت اور گھر تک فروخت کر دیا کرتے ہیں۔
خداوندکریم کے عطیہ پر قانع اور صابر و شاکر رہنے کے بجائے خود پر زیادہ بھروسا کرنے والے لاتعداد افراد میں عبدالغفور بھی ایک تھا۔ اچھی سرکاری نوکری کے علاوہ اللہ تعلی نے اسے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کی دولت سے نوازا تھا۔ خدا کے فضل و کرم سے اس نے دو بیٹیوں کو اچھے گھروں میں بیاہ بھی دیا تھا، جو فعال تھیں مگر وہ بیٹوں کی طرف سے قطعی مطمئن نہیں تھا، کیوں کہ بی.اے. تک تعلیم حاصل کرنے لینے کے باوجود ان کی تقرری ممکن نہیں ہوسکی تھی۔ بس یہی فکر اسے کھائے جا رہی تھی۔ اس کی نوکری کے اب صرف دو برس باقی بچ رہے تھے۔ اسی عرصہ میں وہ دونوں بیٹوں کی نوکری اور سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کی فکر میں اپنی راتوں کی نیند اور دن کا چین گنوا بیٹھا تھا۔ بیٹی کی شادی کی طرف سے وہ زیادہ فکرمند نہیں تھا۔ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد’گریچویٹی‘ اور ’پراویڈنٹ فنڈ‘ وغیرہ کے اتنے پیسے تو مل ہی جائیں گے جس سے وہ چھوٹی بیٹی کو بہ آسانی بیاہ دے گا۔ اسے زیادہ فکر تھی تو کم از کم بڑے بیٹے عبدالحلیم کی نوکری کی۔ قاضی شہر کے اندیشے میں دبلا اور عبدالغفور بیٹے کی نوکری کی فکر میں۔ اچانک بلی کے بھاگ سے چھیکا ٹوٹا۔ ’لوک سَبھا‘ کے عام انتخابات سے قبل گورمنٹ کی جانب سے سرکاری اعلانیہ کے طور پر ایک ’سرکولر‘ جاری کیا گیا، جس کی رو سے اگر کوئی سرکاری ملازم کسی مہلک مرض کے سبب نوکری کرنے سے معذور ہو کر قبل از وقت از خود ’ریٹائرمِنٹ‘ لے لے تو اسے فوری مدد کے طور پر سرکار اس کے ایک بیٹے یا بیٹی کا تقرر کر لے گی۔ اس خبر سے سرکاری عملے کے وہ افراد زیادہ خوش تھے، جن کے ’ریٹائرمِنٹ‘ قریب تھے۔ ایسے لوگوں میں عبدالغفور بھی تھا۔ اب اسے صرف ایک ہی فکر تھی کہ سرکاری قانون کے مطابق وہ مہلک مرض کی سند لائے کہاں سے، جو اس کے خواب کی تعبیر بن سکے؟ اب، جب کہ اسے اپنے بیٹے عبدالحلیم کی نوکری کی امید کی کرن نظر آرہی تھی تو اس نے اس کا تذکرہ حلقۂ احباب میں بھی شروع کر دیا تھا۔ دوستی کے فرض کے ساتھ اسے اس فکر سے نجات دلانے کی غرض سے ایک روز اس کے ایک مخلص دوست نے، جو سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تھا، ایک بڑی مثبت اور دل خوش کن صلاح دے ڈالی۔
”اس میں اتنی فکر کی کیا بات ہے یار غفور؟ تمھارے ڈپارٹمِٹ کو مہلک مرض کی سند ہی چاہیے نہ۔ بس تم ایسا کرو کہ کسی روز موقع سے اچانک ’سِک‘ کر کے میرے ہسپتال میں بھرتی ہو جاؤ اور……. باقی سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو؟“ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اسے صلاح دی تو غفور نے خندہ پیشانی کے ساتھ دبی زبان سے کہا۔
”حقیقتاً میں بھی تم سے یہی کہنا چاہ رہا تھا یار قدوس مگر زبان کھولنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ اب، جب کہ تم نے ہی ساری باتیں صاف کر دی ہیں تو……تمھاری صلاح پر عمل کروں گا۔“ وہ کافی خوش اور مطمئن نظر آرہا تھا۔
”بس، جیسا کہا ہے، ویسا ہی کرو۔ میں تمھارا منتظر رہوں گا۔“ اپنے ڈاکٹر دوست کی ایسی حوصلہ افزا صلاح کے بعد وہ فوراً گھر کی طرف چل دیا۔ اب اسے اپنی منزل صاف نظر آ رہی تھی۔
اس روز کے ایک ہفتہ بعد غفور نے اپنے دفتر سے پندرہ روز کے ’میڈیکل لیو‘ کی درخواست دے کر سرکاری ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ جس روز وہ بھرتی ہوا تھا، اس روز غفور کا دوست، ڈاکٹر قدوس ڈیوٹی پر نہیں تھا۔ جب دوسرے ڈاکٹر نے غفور سے اس کی تکلیف کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے سوچی سمجھی صراحت کے مطابق کہا۔
”ادھر کئی دنوں سے نہ جانے کیوں بہت کمزوری محسوس ہو رہی ہے۔ ذرا سا پیدل چلتا ہوں تو چکر آنے لگتا ہے۔ زینا چڑھنا تو ایک دم محال ہو گیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے کیا ہو گیا ہے…..؟“ یہ تمام کیفیت اس نے ٹھہر ٹھہر کر مضمحل سی آواز میں ڈاکٹر سے بیان کی تو ڈاکٹر نے اس کا ’بلڈپریشر‘ دیکھنے کے بعد متعدد جانچ کے ساتھ دواؤں کی ایک لمبی فہرست تیار کرنے کے ساتھ اسے ہسپتال میں بھرتی ہوجانے کی صلاح دی۔ سب کچھ غفور کی توقعات اور پلان کے مطابق انجام پا گیا۔ اپنی اس کامیابی پر وہ دل ہی دل بہت مسرور تھا۔
دوسرے روز جب ڈاکٹر قدوس راؤنڈ پر آیا تو غفور کے بِیڈ کے نزدیک آکر رک گیا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے تو غفور نے اس سے کل کی ساری روداد سنا دی۔
”اب تک سب کچھ پلان کے مطابق ہی ہوا ہے۔ یہ بتاؤ کہ جونیر ڈاکٹر نے جو ہزاروں روپے کی دوائیں منگوائی ہیں، میں ان کا کیا کروں؟ نرس ہر گھنٹے آکر دوائیں کھانے کی تاکید کرتی ہے جب کہ اب تک میں نے ایک بھی دوا نہیں کھائی ہے۔“ اس کے چہرے سے فکرمندی صاف ظاہر تھی۔
”تم نے دوا نہ کھا کر اچھا ہی کیا ہے۔ تم نے جونیر ڈاکٹر کو جو کیفیت بتائی تھی، اسی کے مطابق اس نے نسخہ تجویز کردیا، جو ایک طرح سے اچھا ہی ہے۔ اب مجھے مہلک مرض کی سند دینے میں آسانی ہوگی۔ ایسا کرو کہ یہ ساری دوائیں واپس کروا دو اور دواؤں کا بل بنوا کر ’ری اِمبرسمِنٹ‘ کے لیے اپنے دفتر میں جمع کروا دو۔ فی الحال میں تمھیں پندرہ دنوں کا ’بِڈ رِسٹ‘ لکھ دے رہا ہوں۔ اب تم ’ریلیونگ بنوا کر گھر چلے جاؤ۔“ دونوں اپنی کامیابی پر مسرور تھے۔ غفور کا بیٹا حلیم، دوائیں واپس کرنے چلا گیا۔ دوا کے پرزے پر لکھی ہوئی جانچ کی ہدایت کے مطابق نرس نے اس کے خون وغیرہ کا نمونہ لے کر جانچ کے لیے لیبوریٹری میں بھیج دیا۔ ان کاموں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ شام تک گھر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر قدوس کی ہدایت کے مطابق اس نے دوسرے روز بیماری کی چھٹی کی درخواست کے ساتھ ’میڈیکل ری اِمبرسمِنٹ‘ کا بل بھی اپنے دفتر بھجوایا۔ اب وہ ہر طرح سے مطمئن، اپنے ریٹائزمِنٹ کے ساتھ بیٹے کی نوکری کے خواب سجانے لگا۔
شام کے تقریباً ساڑھے پانچ بجے گھر کے دروازے پر کسی نے دستک دی تو حلیم نے دروازہ کھول دیا۔ دروازے پر غفور کے دفتر کی ایک جیپ کھڑی تھی، جس میں سے چند لوگ اتر کر باہر کھڑے تھے اور کچھ اندر بیٹھے گھر کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ جیپ میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”ہم لوگ غفور صاحب کے دفتر سے آئے ہیں، ان کی مزاج پرسی کی غرض سے۔ ان کی طبیعت خرابی کی درخواست آئی تھی……!“
”جی ہاں، تشریف لایئے جناب۔ میں ابو کو اطلاع دے کر ابھی حاضر ہوا۔“ اور وہ اپنے والد کو اطلاع دینے کی غرض سے فوراً گھر میں چلا گیا۔ غفور کو چونکہ دفتر والوں کے گھر تک آنے کا سان و گمان بھی نہیں اس لیے وہ گھر کے برامدے میں اطمینان سے ٹہل ٹہل کر چاے کی چُسکیاں لے رہا تھا۔ حلیم نے جیسے ہی اسے دفتر والوں کے آنے کی اطلاع دی، وہ چاے کا کپ اسے پکڑاتا ہوا فوراً کمرے میں جاکر بستر پر دراز ہو کر چادر تانتے ہوئے دفتر والوں کو اندر لانے کی ہدایت دی۔ تقریباً دو منٹ کے اندر اس کے دفتر کے چند بابو اور دو جونیر افسر، حلیم کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہو گئے، جس میں غفور آرام کر رہا تھا۔ ان میں کئی لوگوں کے ہاتھوں میں پھلوں سے بھرے ہوئے بڑے بڑے تھیلے تھے، جسے ان لوگوں نے حلیم کو پکڑا دیا۔ حلیم نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس دوران غفور تقریباً خاموش ہی رہا۔ حلیم نے ہی دفتر والوں سے اس کی بیماری کی کیفیت بیان کی۔ غفور کے اشارے پر وہ چاے کے لیے اندر جانا چاہتا تھا مگر ایک افسر نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ ابھی اس کا موقع نہیں ہے۔ اور وہ لوگ پندرہ بیس منٹ تک ٹھہرنے کے بعد یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ ”بڑے صاحب چونکہ دورے پر گئے ہیں اس لیے غفور صاحب کو دیکھنے شاید کل تشریف لائیں“۔
دفتر والوں کے رخصت ہو جانے کے بعد غفور اور اس کے گھر والوں نے چین کا سانس لیا اور کل آنے والے بڑے افسر کے بارے میں سوچتے ہوئے بستر سے اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ غفور چونکہ پہلے سے ہی ’بلڈپریشر‘ کا مریض تھا اس لیے اس تگ و دو میں اس کے دل کی دھڑن قدرے بڑھ گئی تھی۔
دوسرے روز شام کے تقریباً چھ بجے غفور کے گھر کے دروازے پر اس کے دفتر کی ایک جیپ آکر رکی۔ ڈرائیور نے گھر پر دستک دینا چاہا مگر رک گیا۔ دروازہ مقفل تھا۔ اس نے جب دروازہ مقفل ہونے کی اطلاع بڑے صاحب کو دی تو انھوں نے ڈرائیور سے کہا کہ پڑوسیوں سے دریافت کرو۔ تقریباً پانچ منٹ کے بعد واپس کر ڈرائیور نے بڑے صاحب کو بتایا۔
”غفور صاحب کے بارے میں ان کے پڑوسی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ آج دوپہر میں وہ اچانک بے ہوش ہوگئے تو ان کے بیٹوں نے ’ایمبولینس‘ منگوائی اور انھیں لے کر بڑے ہسپتال چلے گئے۔ ان کا علاج وہیں پر ہو رہا تھا۔ “اور صاحب کے حکم کا انتظار کرنے لگا۔ چند لمحہ کے بعد بڑے صاحب نے کہا۔”گاڑی، بڑے ہسپتال کی طرف لے چلو۔“اور ڈرائیور نے جیپ، بڑے ہسپتال کی طرف موڑ دی۔ بڑے صاحب کے چہرے سے فکرمندی کے آثار صاف ظاہر ہو رہے تھے۔
ہسپتال کے احاطے میں ہی ان کی ملاقات غفور کے بیٹے سے ہوگئی، جو دوائیں لے کر لوٹ رہا تھا۔ اس نے بڑے صاحب کو بتایا۔
”ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ابو کو ’برین ہیمریج‘ ہو گیا ہے۔ وہ ایمرجنسی وارڈ میں ہیں۔ ڈاکٹر ان سے ملنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دے رہا ہے۔“ اتنا کہتے کہتے اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور آواز بھی بھرا گئی تو بڑے صاحب نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
”حوصلہ رکھو، گھبراؤ نہیں۔ وہ اچھے ہو جائیں گے۔ تم غفور صاحب کے بڑے بیٹے ہو۔ اگر اس طرح کمزور پڑ جاؤ گے تو تمھاری والدہ کو کون سنبھالے گا۔ ایشور پر بھروسا رکھو۔ چلو، ’سی.ایم.او.‘ کے کمرے تک میری رہنمائی کرو۔“ اور وہ بڑے صاحب کو ساتھ لے کر چل دیا۔
سی.ایم.او. کے کمرے کے دروازے پر جو اردلی کھڑا تھا اسے بڑے صاحب نے اپنا ملاقاتی کارڈ دیا تو وہ افسر کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے سی.ایم.او.کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ دومنٹ کے بعد باہر آکر اس نے بڑے صاحب کو اندر جانے کو کہا۔ سی.ایم.او. نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو انھوں نے غفور کی خیریت دریافت کی۔
”غفور صاحب کی حالت اب کیسی ہے جناب؟“ ان کا انداز متفکرانہ تھا۔
”ان کی حالت بہت کریٹیکل ہے۔ وہ کسی بڑے ذہنی ’ٹِنشن‘ کی وجہ سے ’ڈیپ کوما‘ میں چلے گئے ہیں۔ دس فی صد سے زیادہ امید نہیں ہے۔ ویسے تو ایمرجنسی میں کسی کا بھی جانا ممنوع ہے پھر بھی اگر آپ چاہیں تو انھیں دیکھ سکتے ہیں۔ تنہا جایئے گا۔“
***
صاحب افسانہ کا یہ افسانہ بھی پڑھیں:چشمک

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے