چشمک

چشمک

وسیم حیدر ہاشمی 

اَجّن صاحب کا حلیہ بیان کرنا مقصود ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ لانبا قد، گورا چٹا رنگ، زندگی سے بھرپور بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں اور کھڑی ناک کے سبب وہ باوقار اور کافی پرکشش نظر آتے تھے۔ چونکہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کے ہنر سے خوب واقف تھے، اس لیے خداوند کریم کے اس بیش بہا عطیہ کا انھوں نے اپنی زندگی میں خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کا پورا نام سید امجد حسن عابدی تھا۔ چونکہ نوکری کے سلسلہ سے وہ زیادہ تر شہر سے باہر رہے، اس لیے بیشتر لوگ ان کے اصل نام سے واقف نہیں تھے۔ عوام کے درمیان وہ ’اَجّن میاں‘ کی کنیت سے زیادہ مشہور تھے۔ اَجّن میاں کا تعلق باوقار اور تعلیم یافتہ زمین دار گھرانے سے تھا۔ اس خاندان نے زمین داری کے ساتھ جاہ و حشمت کی نابودی کے بعد بچے ہوئے اثاثے کو بیچ بیچ کر کھانے کے بجائے تعلیم حاصل کرنے کو فوقیت دی، چنانچہ اس خاندان کا شمار اب بھی معزز گھرانوں میں کیا جاتا تھا۔ اَجّن میاں نے چونکہ اپنے زمانے میں بی.اے. تک تعلیم حاصل کی تھی، اسی سبب ان کا تقرر تحصیل دار کے عہدے پر ہو گیا تھا۔ اپنی ذہانت، محنت اور لگن کی بدولت انھوں نے اس شعبے میں خوب ترقی کی اور جب نوکری سے سبک دوش ہوئے تو ’مَجِسٹریٹ‘ کے عہدے تک پہنچ چکے تھے۔اُن سے زیادہ متاثر، بہت سے لوگ انھیں ’مجسٹریٹ صاحب‘ کہہ کر بھی مخاطب کرتے تھے۔ نوکری کے سلسلے میں چونکہ وہ ہمیشہ گھر سے دو رہے، اس لیے عام طور پر ان سے ان کے رشتہ داروں کے علاوہ شہر کے وہی بزرگ واقف تھے جو ان کے ہم عمر اور ہم رتبہ ہونے کے ساتھ اچھے عہدوں پر فائز تھے۔ چونکہ اکابرین شہر انھیں بہت عزت دیتے تھے اس لیے ان لوگوں کا دیکھی دیکھا نوجوان اور بچے بھی انھیں اَجّن صاحب، اَجن چچّا، یا اجن دادا کہہ کر مخاطب کرتے۔ عوام کے درمیان اپنی ان کنیتوں سے وہ خوش تھے۔ چونکہ شہر کا نوجوان طبقہ ان کی اصل شخصیت سے واقف نہیں تھا، اس لیے انھوں نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے عوام سے قربت حاصل کرنے کی غرض سے شادی بیاہ کی تقریبات، بیماری آرامی، محفلوں، مشاعروں اور مجلس ماتم سے خود کو اس درجہ وابستہ کر لیا تھا کہ اگر کسی سبب وہ کسی خاص موقع پر نظر نہیں آتے تو لوگ ان کے تئیں فکرمند ہوجاتے اور ایک دوسرے سے ان کی خیریت دریافت کرتے یا ان کے گھر تک بھی پہنچ جاتے تھے۔ اتنے کے باوجود بھی وہ عوام کے درمیان اپنی قدر و منزلت کے تئیں کچھ زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ اکثر وہ یہی سوچتے تھے کہ عام مسلمانوں کے درمیان زیادہ قدر و منزلت اور نمایاں مقام حاصل کرنے کے لیے انھیں مزید کون طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جب نوکری سے سبک دوش ہو چکے بہت سے اپنے جیسے لوگوں پر انھوں نے غور و خوض کیا تو ان کے ذہن کی رسائی نے انھیں ایک آسان اور مثبت طریقۂ کار کی طرف پھیر دیا۔ ’زائز بھائی اور فتّے بھائی نے نوکری سے سبک دوش ہونے کے بعد مجلسوں میں تبرک تقسیم کرنے کی بنا پر شیعوں کے درمیان خاص مقام حاصل کر لیا اور نَبّو بھائی نے مجلسوں کے اختتام کے بعد بڑی والی زیارت پڑھوا کر خود کو دہرا حصہ پانے کا مستحق بنا لیا ہے اور چند حضرات نے تو صرف سوزخوان کے بازو کی حیثیت سے ان کے بغل میں بیٹھ کر صرف آ…..آ…..آ کی الاپ کے ذریعہ ہی برادری میں اچھا مقام حاصل کر لیا ہے تو پھر کیا مَیں ان حضرات سے کسی معاملے میں کم ہوں؟ میں بھی اپنی اچھی اردو کے توسط سے ادبا، شعرا اور اکابر شہر کے درمیان وہ مرتبہ ضرور حاصل کروں گا جس کا کسی کو سان و گمان بھی نہ ہوگا‘۔ ان کی اردو اور فارسی تو اچھی تھی ہی۔ چونکہ عام طور پر شعرا حضرات علم عروض سے تقریباً نابلد ہوتے ہیں اس لیے انھوں نے چند عام بحور اور ان کی تقطیع کا سلیقہ بھی سیکھ لیا تھا، اس لیے علم عروض پر بھی انھیں تھوڑی بہت دسترس ہو گئی تھی۔ اس سلسلے میں ان کی کم مایگی کا اندازہ چند اکابر شہر اور بزرگ ادیبوں کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ اجن میاں کی انھی خوبیوں سے متاثر ہو کر شہر کے بہت سے نوعمر شعرا  نے انھیں اپنا استاد بنا لیا۔ پھر کیا تھا، شہر بھر کے بیشتر وہ شعرا جنھیں عام طور پر معمولی اور چھوٹا شاعر مان کر مشاعروں کے آغاز میں ڈائس پر بلا لیا جاتا تھا، ان سبھوں نے اَجن صاحب پر جھپٹّا مارا اور راتوں رات ان کے شاگردوں کی تعداد کافی بڑھ گئی۔ اپنی قدر و منزلت میں مزید اضافے کی غرض سے وہ اکثر مشاعروں کے تعلق سے عوام کے درمیان بہت سے من گڑھت قصے بھی بیان کرتے۔ مثلاً فلاں مشاعرے میں مَیں نے جب فلاں شاعر سے اس کے ایک شعر میں عروضی غلطی کے متعلق اشارہ کیا تو بچارے بہت شرمندہ ہوئے۔ اس قسم کے واقعات کے سبب ان کا وزن و وقار اور بڑھ گیا تھا۔ ان کے بیان کا انداز ایسا جاذب و جالب ہوتا کہ کم ہی لوگ انھیں لاغی سمجھتے۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود، ان کی ایک بہت بڑی کم زوری یہ تھی کہ وہ اپنی علمیت کے ٹھسّے میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ سرِمحفل اورسرِمنبر، شعرا کے ہلکے یا کم زور اشعار پر اسے بے ہچک ٹوک دینا، ان کی عادت بن گئی تھی۔ ان کے اس امر سے حاضرین مجلس کے درمیان تو ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا تھا مگر جو شاعر ان کے اس زہریلے تیر کا ہدف بنتا، وہ ان سے بیشتر کبیدہ خاطر اور چڑھا رہتا تھا۔ کسی شاعر کو سر منبر ٹوکنے والی داستان کئی دنوں تک چائے خانوں میں شعرا کے درمیان بحث کا موضوع بنی رہتی، جس پر وہ پھولے نہیں سماتے تھے۔ اگر کوئی شخص ان کی اس نازیبا حرکت کی مخالف کرنے کی ہمت کرتا تو اَجّن صاحب کے مصاحب اس کو یہ کہہ کر خاموش کروا دیتے کہ ”جس میں زبان و ادب کی صلاحیت ہوگی وہی نہ اس طرح علی الاعلان شعرا کو ٹوکنے کی جرأت کرے گا۔“ اکثر و بیشتر اَجن صاحب کا ہدف وہ شعرا ہوتے، جو ان کے شاگرد نہیں تھے یا ان کے بےجا زعم کے سبب ان سے فاصلہ اختیار کیے رہتے تھے۔ ایسے شعرا کے درمیان انھیں اپنی گھٹتی ساکھ کا اندازہ قطعی نہیں تھا۔ جو شاعر اُن کے شاگرد نہیں تھے، اگر وہ بھی کبھی اپنا کلام اَجن صاحب کو دکھاتے تو اسے ٹال دینے کے بجائے وہ صدق دل اور پوری ادبی دیانت داری کے ساتھ ان کی غزل، سلام اور نوحہ وغیرہ پر اصلاح فرمادیا کرتے تھے، جو ان کی بڑی خوبی تھی۔ اس معاملے میں وہ ایسے فراخ دل تھے کہ اگر ان کا کوئی سُنّی شاگرد ایسا کلام انھیں دکھاتا جو ان کے مسلکی عقائد کے برعکس ہوتا تو بھی وہ اس کی نہ صرف اصلاح کر دیتے بلکہ اگر مضمون میں کوئی فنی کجی یا کمی ہوتی تو اس کو بھی اَجن صاحب درست کر دیا کرتے تھے۔
اَجن صاحب کو سب سے زیادہ قلق اس بات کا تھا کہ ان کے ترکش میں ایک بھی ایسا تیر نہیں تھا جو فلکؔ صاحب کے کسی شعر کو اپنا ہدف بنا سکتا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ فلکؔ صاحب کی شاعری واقعی ہر معنی میں چست درست ہوتی تھی۔ اَجن صاحب کے خوف کے سبب بھی وہ اپنے ہر شعر کی طرف سے ہمیشہ کچھ زیادہ ہی چوکنّے رہتے تھے۔ کسی محفل یا چائے خانے میں شعر و شاعری کی بات چلتی تو لوگ اَجن صاحب کے سامنے بھی فلکؔ صاحب کو اس شہر کا سب سے اچھا عروضی گردانتے، جو اَجن صاحب کے لئے قدرے گراں بار ہوتا۔ اَجّن صاحب اور فلکؔ صاحب، جب کسی بڑے مشاعرے میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلتے تو ان دونوں کے ہمراہ، ان کے مصاحبوں کا جم غفیر ہوتا، جسے دیکھ کر عوام کو انشاءؔ اور مصحفیؔ کی ادبی معرکہ آرائیاں یاد آجاتی تھیں۔ فرق بس یہ تھا کہ اَجّن صاحب صرف ناقد تھے، شاعر نہیں۔ شعری نشستوں، محفلوں اور مشاعروں میں اَجّن صاحب کے غول والے فلکؔ صاحب کے کلام کو اس لیے بہ غور سنتے تھے کہ شاید وہ کسی مصرع میں غچہ کھاجائیں مگر اس سلسلے میں ہمیشہ اَجّن صاحب اور ان کے مصاحبوں کے حصے میں خفت اور مایوسی آتی، جب کہ فلکؔ صاحب کے حصے میں داد و تحسین۔
اگر کوئی شکاری مسلسل جال پھیلا کر کمین گاہ میں گھات لگائے بیٹھا رہے تو اس کی یکسوئی اسے کبھی نہ کبھی کامیابی کی منزل تک پہنچاہی دیتی ہے۔ گذشتہ شب منعقد ہوئے ایک مشاعرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب ناظم مشاعرہ نے فلکؔ صاحب کو دعوت سخن دی، اس وقت محفل اپنے پورے شباب پر تھی۔ یہ اعلان سن کر تمام سامعین تو خوش ہوئے مگر اَجن صاحب نے ایسا منہ بنایا گویا کسی نے زبردستی ان کے حلق میں کُنین ڈال دیا ہو۔ مطلع پر ہی فلکؔ نے حاضرین کی توجہ اپنی طرف مبزول کرلی۔ پانچویں اور چھٹے اشعار تک تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ’ہُوا، ہَواہ‘ کے شور سے چھت ہی اُڑ جائے گی مگر جب فلکؔ نے ساتواں شعر پڑھا تو اَجن صاحب کی دلی مراد برآئی۔ برسوں بعد آج انھیں وہ موقع مل ہی گیا، جو ان کی خواہش کے عین مطابق تھا۔ انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ بلند کرکے فلکؔ صاحب کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے قدرے بلند آواز میں کہا۔
”اس شعر کا ثانی مصرع بحر سے خارج ہے فلکؔ صاحب۔ بہتر ہوگا اگر آپ اس مصرعے کی تقطیع فرمَادیں تاکہ سامعین اور شعرا حضرات مطمئن ہو سکیں۔“ فلکؔ صاحب چونکہ اس موقع کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے تھوڑا بوکھلا گئے۔ شرمندگی کے باعث وہ فوراً ڈائس چھوڑ کر ہال کے باہر نکل گئے۔ مشاعرے کے اختتام کے بعد بھی کئی روز تک چائے خانوں میں اس واقعے کی چرچا کا بازار گرم رہا۔ اس درمیان فلکؔ صاحب نے گھر سے نکلنا تقریباً ترک کر دیا تھا، جب کہ اَجن صاحب اپنی تعریفیں سننے کی غرض سے معمول سے زیادہ چائے خانوں میں نظر آتے تھے۔ پہلے کے مقابلے اب اَجن صاحب زیادہ پرسکون اور مطمئن نظر آنے لگے تھے، جب کہ فلکؔ صاحب کی غیر حاضری کے سبب بیشتر شعرا ان کی ذہنی کیفیت سے واقف ہو چکے تھے۔ اس واقعے کے ہفتے عشرے بعد فلکؔ صاحب ایک روز اَجن صاحب سے ملاقات کی غرض سے ان کے دولت کدے پر جا پہنچے تو اپنی خاندانی روایت کے مطابق انھوں نے فلکؔ صاحب کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ان کی ضیافت کا عمدہ انتظام کیا۔ کسی فاتح کی طرح۔
”اس روز کے مشاعرے میں مجھ سے جو غلطی سرزد ہوئی تھی، اسے میں تہہ دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے میری رہ نمائی فرمائی۔ حقیقتاً لاپرواہی میری ہی تھی۔ اگر ڈائس پر جانے سے قبل میں نے آپ کو وہ غزل دکھا دی ہوتی تو…..!“ انھوں نے شرمندگی ظاہر کی تو اَجن صاحب کا دل خوشی سے بلّیوں اچھلنے لگا۔
”ارے میاں، یہ سب تو شعرا کے ساتھ لگا ہی رہتا ہے۔ اس میں شرمندگی کیسی؟ مرزا صاحب سے بھی اس قسم کی غلطی سرزد ہوچکی ہے؟ یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ بس آئندہ ذرا خیال رکھیے گا۔ ویسے اس سلسلے میں آپ کی مدد کے لیے میں ہمیشہ تیار ہوں۔ جب بھی کوئی نیا کلام کہیے، مجھے ضرور دکھا لیا کیجیے۔ یہ آپ کو میری مخلص صلاح ہے۔“ انھوں نے اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے فلکؔ صاحب کو اپنی شاگردی کی دعوت دے دی۔
”جی حضور، شکریہ۔ چونکہ محرم قریب ہے، اس لیے میں نے امام عالی مقام کے حال کا ایک مرثیہ کہا ہے، جو ستّر بندوں پر مشتمل ہے۔ اگر آپ نظر ثانی فرمالیں تو مطمئن ہو جاؤں گا اور عالی جناب کا شکر گزار بھی رہوں گا۔ اس کا اجر آپ کو بی بی سیدا دیں گی۔“ اور اَجن صاحب کا اشارہ پاتے ہی فلکؔ صاحب نے اپنے کرتے کی جیب سے وہ مرثیہ نکال کر اَجن صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ اس مرثیہ کو وہ چند لمحے غور سے دیکھتے رہے، پھر دبی زبان سے بولے۔
”ہاں، مرثیہ تو بہت عمدہ ہے مگر….. معاف فرمائیے گا فلکؔ صاحب، اس میں چند ایسی فنی اور عروضی خامیاں ہیں جو اس کے معیار کو کم کرتی ہیں۔ اگر اجازت ہو تو…..؟“ انھوں نے نہایت انکسار کے ساتھ کہا تو فلکؔ نے ہلکے سے گردن خم کر کے حامی بھر دی۔ پھر کیا تھا۔ ستر بند کے مرثیہ میں ڈیڑھ سو سے زائد غلطیاں۔ تصحیح شدہ مرثیہ کو واپس لیتے ہوئے فلکؔ صاحب نے ان کا مزید شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب کر باہر نکل گئے۔ وہاں سے باہر نکلنے کے بعد وہ اپنے گھر جانے کے بجائے سیدھے ایک فوٹو اِسٹیٹ والے کی دوکان میں داخل ہوگئے اور اس نسخہ کی دو سو مثنیٰ تیار کروائیں۔ اس نسخہ کے اخیر میں انھوں نے اپنے قلم سے  ذیل کی تحریر رقم کر دی تھی:
”محترمی…….، تسلیمات۔
یہ اعزاز پوری دنیا میں صرف ہمارے شہر کے جناب اَجّن صاحب کو حاصل ہے کہ وہ خدائے سخن میر ببر علی انیسؔ جیسے مہتم بالشان شاعر کے ایک چھوٹے سے مرثیہ میں ڈیڑھ سو سے زائد بچکانہ غلطیاں تلاشنے کی صلاحیت رکھتے ہیں…….! چونکہ یقین کرنا مشکل ہے، اس لیے موصوف کی تحریر آپ خود ملاحظہ فرما لیں“۔ فلکؔ
بعد ازاں ان سب نسخوں کو الگ الگ لفافوں میں رکھ کر ان پر شہر بھر کے متعدد شعرا، ادبا اور اکابرین شہر کے پتے تحریر کیے اور اسے ڈاک خانے کے حوالے کر دیا۔ اس کا اثر تین چار دنوں کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ اَجن صاحب کی تلاش، شہر کے بیشتر لوگ صرف اس غرض سے کرنے لگے کہ کہیں یہ کسی کی کوئی چال تو نہیں ہے کیونکہ اب بھی ان کی علمیت پر بیشتر افراد کو یقین تھا مگر انھی کے خط میں ’میرانیسؔ‘ کے کلام پر اصلاح…..! خدا معلوم حقیقت کیا ہے؟‘ اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد اَجّن صاحب  کسی محفل، مجلس، مشاعرے یا چائے خانوں میں پھر کبھی نظر نہیں آئے۔ اگر کوئی شخص، مزاج پرسی کے لیے ان کے گھر جاتا تو کسی بچے کے ذریعہ جواب ملتا کہ”دادا میاں گاؤں تشریف لے گئے ہیں…….“ اور بس۔ کچھ عرصہ بعد ایک روز اچانک یہ خبرجنگل کی آگ کی مانند پورے شہر میں پھیل گئی کہ گزشتہ شب اَجن صاحب کو دل کا شدید دورا پڑنے کے سبب ان کا انتقال ہو گیا۔ اَجن صاحب کے انتقال کی خبر پر پورا شہر تو غمگین تھا مگر شرمندہ، صرف فلکؔ صاحب تھے۔
***
صاحب افسانہ کی گذشتہ نگارش:حضرت ہوشؔ جونپوری کی نظم گوئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے