شکیل بدایونی: سوانحی حالات و ادبی خدمات

شکیل بدایونی: سوانحی حالات و ادبی خدمات

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور 244901 یوپی،انڈیا
موبائل: 9719316703

اردو کی غزلیہ شاعری اور فلمی گیتوں کے لحاظ سے جن چند شاعروں نے نہ صرف بر صغیر بلکہ دیگر ممالک میں بھی زبردست شہرت و ناموری حاصل کی ان میں شکیل بدایونی کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی ولادت ہندستان کے معروف مردم خیز خطے بدایوں میں ہوئی۔ وہ اپنی شاعری، دل کش ترنم اور فلمی گیتوں کے باعث ہر دو خاص و عام میں مقبول تھے لیکن اس میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں کہ بدایوں جیسے عظیم شہر کے کئی دیگر عالمی شہرت یافتہ ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور دیگر فنون کے ماہرین کی طرح شکیل بدایونی کو اردو کے ادبی تذکروں اور تاریخی و تحقیقی کتابوں میں وہ مقام و مرتبہ نہ مل سکا جس کے وہ بجا طور پر مستحق و حق دار تھے۔ آج شکیل بدایونی کے انتقال کے تقریباً پینتالیس سال بعد بھی ان سے متعلق وافر مقدار میں اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے والا مواد نہیں ملتا اور جو کچھ ملتا بھی ہے اس کو تلاش کرنے میں کافی جدوجہد اور محنت و جستجو کرنی پڑتی ہے۔
شکیل بدایونی نے اپنی خود نوشت ’میری زندگی‘ عنوان سے تحریر کی تھی۔ وہ اسے کافی عرصے تک لکھتے رہے تھے اور ١٧/اکتوبر ١٩٦٩ء کو اس کا آخری صفحہ تحریر کیا تھا۔ اس سوانح میں انھوں نے اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے ہر دور کے واقعات، تعلیم، اپنے استاد، شعر و شاعری پر اپنے نظریات، اپنی کتابوں کے نام، خاندانی حالات، بیٹیوں سے محبت، غرض سبھی کچھ تحریر فرمایا تھا۔ شکیل کی تاریخ پیدائش سے متعلق ضروری معلوم دیتا ہے کہ خود ان کی ہی تحریر سے رجوع کیا جائے ۔درج ذیل اقتباس میں انھوں نے مختصر طور پر اپنی تاریخ پیدائش، نام و تخلص اور خاندان کی بابت اس طرح لکھا ہے:
”میری پیدائش جمعرات ۳/اگست١٩١٦ء مطابق۳/شوال ١٣٣٤ھ کو مشہور شہر بدایوں میں ہوئی۔ سنہ ہجری کے حساب سے میرا نام غفار احمد ہے لیکن گھر والوں نے شکیل احمد نام رکھ دیا۔ میرا تخلص شکیل ہے۔ بچپن میں کچھ عرصے کے لیے صبا اور فروغ بھی تخلص کر چکا ہوں۔ میرے والد کا نام مولوی جمیل احمد قادری سوختہ تھا جو بمبئی میں بیس سال خواجہ سنی مسجد کے خطیب رہے اور وہیں ان کا انتقال بہ عارضہ ذیابطیس ٣٠/جون ١٩٣٩ء میں ہوا۔ (میرے والد کا) سوختہ کوئی تخلص نہیں تھا بلکہ ہمارے خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت سراج الدین کا لقب تھا اور اسی نسبت سے خاندان کے لوگ اپنے ناموں کے ساتھ سوختہ لکھا کرتے تھے۔ اسی سوختہ خاندان میں میرے ایک بہت قریب کے رشتے دار تھے جن کا نام منشی مبارک علی تھا۔ وہ الہ آباد کے آنند بھون میں سورگیہ موتی لال نہرو کے منشی تھے۔ ان کا تذکرہ پنڈت موتی لال نہرو نے اپنی سوانح حیات میں بھی کیا ہے۔“
’کچھ شکیل بدایونی کے بارے میں‘
ہفتہ وار ’ہماری زبان‘ دہلی، ۸/تا ١٤/مارچ ٢٠٠١ء
شکیل بدایونی اسم با مسمٰی تھے۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور دل کش خط و خال کے مالک تھے۔ دل آویزی اور دل نشینی ان کی شخصیت کا ایک حصہ تھی۔ وہ مخاطب کو پہلی ہی نظر میں متاثر کرنے کا ہنر رکھتے تھے۔ ڈاکٹر عرفان عباسی نے نہایت دل کش پیرائے میں شکیل بدایونی کا خاکہ اس طرح کھینچا ہے:
”اوسط قد، اکہرا مضبوط جسم، داڑھی مونچھ سے محروم، متین و سنجیدہ، بھرا بھرا چہرہ، دل آویز خدوخال، چوڑا ماتھا، متوسط ذہین آنکھیں، چھوٹی ناک، قدرے موٹے ہونٹ، ننگے سر، سر پر انگریزی قطع کے تیل کنگھی سے سنوارے بال، نرم اور پرخلوص لہجہ، عمدہ کپڑے کی نہایت موزوں شیروانی اور پائجامے میں ملبوس شکیل بدایونی بہ حیثیت انسان خوش طبع، انسان دوست، شریف النفس، خوش گلو، خوش شکل، خوش پوشاک اور خوش اخلاق۔“
تذکرہ شعرائے اترپردیش، جلد اول، مطبوعہ: ١٩٨٢ء
شکیل بدایونی نے ابتدا میں اردو، فارسی، انگریزی اور عربی کی تعلیم مولوی عبدالغفار، مولوی عبدالرحمٰن (کچھ کتابوں میں حبیب الرحمٰن نام بھی دیا ہوا ہے)، بابو رام چندر وغیرہ معروف استادوں سے حاصل کی۔اس کے بعد ان کو بدایوں کے اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں سے انھوں نے ١٩٢٨ء میں درجہ ۶ پاس کیا۔ اس سے قبل وہ قرآن عظیم بھی پڑھ چکے تھے۔ ان کے والد چونکہ ایک عرصے سے بمبئی میں مقیم تھے اس لیے وہ ان کے پاس بمبئی چلے گئے، جہاں ان کی تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ تو جاری نہ رہا لیکن وہاں انھوں نے کچھ عرصہ سکنڈری اور پاپولر اسکول میں دیگر مضامین کے علاوہ انگریزی کی بھی تعلیم حاصل کی۔بمبئی میں شکیل کی تعلیم و تربیت کے لیے ان کے والد نے انھیں ایک نہایت قریبی اور عزیز دوست کے سپرد کر دیا تھا۔ اس سلسلہ میں شکیل نے واضح الفاظ میں اپنی خود نوشت میں درج ذیل جملے تحریر فرمائے ہیں:
”بدایوں میں میرے گھر کے قریب چاہ نونی کے سامنے ایک بزرگ رہا کرتے تھے جو اب کراچی میں مقیم ہیں، ان کا نام یعقوب حسین ہے۔ نعت و منقبت کے بڑے شاعر اور عالم دین ہیں، ان کا تخلص ضیاء القادری ہے۔ وہ میرے والد کے سب سے زیادہ عزیز دوست تھے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں میرے والد بمبئی میں رہا کرتے تھے اسی لیے میری تعلیم و تربیت ان ہی کے زیر سرپرستی ہوئی۔“
١٩٣٢ء میں وہ بدایوں واپس آگئے اور مذکورہ بالا اسکول میں ان کا دوبارہ داخلہ کرایا گیا جہاں سے انھوں نے ١٩٣٦ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد تعلیم کے سلسلے کو مزید جاری رکھتے ہوئے ١٩٣٧ء میں وہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ١٩٤٢ء میں بی. اے کی سند بھی حاصل کی۔ اس سال انھیں سرکاری ملازمت بھی مل گئی اور وہ مستقل طور پر دہلی میں رہنے لگے۔ وہ تقریباً چار سال سرکاری محکمہ سپلائی میں کلرک اور کلرک انچارج کی حیثیت سے کام کرتے رہے لیکن اس درمیان ان کی شہرت ملک بھر میں پھیل چکی تھی اور وہ کل ہند پیمانے کے بڑے بڑے مشاعرے پڑھنے لگے تھے۔ شکیل کی غزلوں نے ملک بھر میں دھوم مچا رکھی تھی جس سے فلم انڈسٹری بھی ان کی طرف متوجہ ہوئی اور ان کے دوست فلم پروڈیوسر ڈاکٹر عبدالرشید کاردار کی فرمائش بلکہ بے حد اور پیہم اصرار پر شکیل نے سرکاری ٦٠ روپے ماہانہ کی نوکری چھوڑ کر ٤٠٠ روپے ماہانہ کے مشاہرہ پر بمبئی جانا اور وہاں رہ کر فلمی گیت لکھنا منظور کر لیا۔ اس طرح ان کی فلمی زندگی کا باقاعدہ آغاز ۳/جون ١٩٤٦ء کو ہوا۔
شکیل کی شادی ١٩ برس کی عمر میں ١٩٣٥ء میں مولوی قیصر حسین کی صاحب زادی سلمیٰ سے ہو گئی تھی جن سے ان کی کئی اولادیں ہوئیں۔ ان کے نام اس طرح ہیں – رضیہ، صفیہ، نجمہ، جاوید اور طارق۔
مولانا یعقوب حسین ضیاء القادری نعت و منقبت اور تصوف کے استاد شاعر تھے۔ شکیل کے والد کے قریبی دوستوں میں شامل تھے اور شکیل کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں ان کا زبردست ہاتھ رہا تھا اس لیے ان کے فیض صحبت کا اثر تھا کہ شکیل میں بھی شاعری کا جو فطری ذوق تھا اس کو جلا ملی اور انھوں نے اپنی پہلی غزل ١٣ برس کی عمر میں ١٩٢٩ء میں کہی جو اس دور کے بمبئی کے مقامی اخبار ’شان ہند‘ میں ١٩٣٠ء میں شائع ہوئی۔ شکیل نے چونکہ شرف تلمذ مولانا ضیاء القادری سے حاصل کیا تھا اس لیے ان کی ابتدائی غزلوں میں تغزل اور روایتی شاعری کے ساتھ تصوف کا پرتو بھی صاف نظر آتا ہے۔
علی گڑھ میں داخلہ کے بعد ان کے مطالعہ کا ذوق پروان چڑھا۔ وہاں کی شعری فضا، ادبی ماحول اور آئے دن کی شعری محفلوں کی وجہ سے ان کا حلقۂ شعری اور حلقۂ احباب وسیع ہوتا گیا۔ ملک بھر کے شعرا سے ان کا ربط ضبط بڑھنے لگا۔ انھیں ایسے شعرا سے بھی ملنے کا موقع ملا جن سے وہ بے حد متاثر تھے اور جن کی شاعری کو وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ جگر مرادآبادی کے ایک عزیز شاگرد راز مرادآبادی کے توسط سے جگر صاحب سے بھی نیاز حاصل کرنے گئے اور ان کے طرز شاعری خصوصاًرنگ تغزل سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ علامہ سیماب اکبر آبادی، بہزاد لکھنوی، نوح ناروی، روش صدیقی، خمار بارہ بنکوی، شوق گلاؤٹی، جام نوائی وغیرہ معروف شعرا کا فیض صحبت بھی شکیل کو حاصل رہا جس سے ان کے ذوق شعری میں ترقی ہوئی، ان کے کلام میں نکھار آیا اور تجربات و مشاہدات کی دنیا وسیع ہوئی جس کا اثر بجا طور پر ان کی شاعری میں نمایاں نظر آتا ہے۔ کتنے ہی شعرا تھے جو عروس البلاد بمبئی پہنچ کر اور فلمی دنیا سے وابستہ ہو کر اپنی شاعری کا وہ مزاج برقرار نہ رکھ سکے جو ان کی شاعری کی پہچان اور علامت تھا لیکن شکیل کا معاملہ جدا تھا۔ انھوں نے مقبول عام اور سدا بہار گیت لکھنے کے علاوہ اعلا معیار کی غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت اور اپنے تخلیقی معیار کو دولت کے حصول پر قربان نہیں کیا۔ انھوں نے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کے شعری سرمایہ میں غزلیں، قطعات، سلام، نظمیں، حمد، نعت، گیت وغیرہ کئی چیزیں شامل ہیں۔
فلمی گیتوں میں بھی شکیل نے قلم کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ انھوں نے گیت لکھنے کی ابتدا کی تو ایسے شان دار گیت لکھے کہ ہندستان کا شاید ہی کوئی ایسا گھر اور گلی و کوچہ ہو جہاں شکیل کے نغموں نے لوگوں کو مسحور اور جھومنے کے لیے مجبور نہ کر دیا ہو بلکہ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہوگا کہ ان کے درد بھرے اور رومانی جذبات سے لبریز نغمے آج بھی لوگوں کو جھومنے اور رومانی و خیالی دنیا میں پہنچا دینے کے لیے مجبور کر دیتے ہیں۔
شکیل کا شعری ذوق فطری تھا لیکن ان کی یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ ان کو ابتدا  میں ادبی و شعری ماحول بھی ایسا نصیب ہوا جس سے ان کی ذات و شخصیت میں چھپے ہوئے جوہر جلد ہی نمایاں ہو گئے۔انھوں نے ذاتی تجربات و مشاہدات کو ایسا شعری پیکر عطا کیا کہ لوگوں کو ان کا غم اور درد و الم اپنا محسوس ہونے لگا۔ انھوں نے زندگی سے جڑے ہوئے جذبات اور مسائل کی نمائندگی کی اور اپنی فکر اور اپنے شعری رجحان کی بابت فرمایا:
میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں
وہ اپنی شاعری کے بارے میں یہ بھی کہتے تھے: ”میں نے اپنی شاعری میں قدیم و جدید دونوں رنگوں کا امتزاج پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔“خدا نے ان کو دل کش ترنم سے نوازا تھا. اس لیے وہ مشاعروں میں خوب داد و تحسین حاصل کرتے رہے۔ ان کا شمار اردو کے ان شعرا میں ہوتا تھا جنھوں نے اپنی زندگی میں ہی شہرت و ترقی کی منزلوں کو چھو لیا تھا۔ انھیں ایک یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ ان کی شاعری اور ان کے گیتوں نے ان لوگوں کے دلوں پر بھی راج کیا جو اردو سے ناواقف اور ناآشنا تھے۔ ان کی زبان کی چاشنی اور نغمگی لوگوں کو جھومنے پر مجبور کر دیتی تھی۔
غزل کے بارے میں شکیل کا نظریہ بڑا واضح اور دو ٹوک تھا۔ وہ کہتے ہیں:
عموماً غزل کے شعرا کا نظریۂ شاعری مبہم اور غزل کی شاعری میں مقصدیت کا عنصر بہت کم ہوتا ہے لیکن جدید غزل گو شعرا نے اس روایت سے انحراف کرکے ثابت کر دکھایا ہے کہ غزل کو مقصدی شاعری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں جدید غزل کا قائل ہوتے ہوئے بھی روایت کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔روایت اور تجربے کے تال میل ہی سے غزل کا رنگ روپ نکھر سکتا ہے۔ میں ترقی پسند ہوں نہ رجعت پسند، بس شاعر ہوں۔“
انسان کی قسمت اگر ساتھ دے تو اسے وہ چیزیں حاصل ہو جاتی ہیں جو اس کی شہرت، ترقی اور ناموری میں ممد و معاون بنتی ہیں۔ شکیل کو بھی کئی ایسی چیزیں حاصل تھیں جن سے ان کی کامیابی کی راہیں ہموار اور استوار ہوتی گئیں۔ ان میں بدایوں جیسے شہر کی علم و ادب سے معمور فضا، گھر کا شعری و ادبی ماحول، علی گڑھ کی تعلیم، اردو کے معروف استادوں اور علماے ادب کا فیض صحبت، مشہور و مقبول شعرا کی ہم نشینی، باذوق سامعین و قارئین اور مخلصین کا حلقہ وغیرہ اس کے علاوہ ذہانت و فطانت بھی ان کے اندر موجود تھی۔اس لیے کامیابیوں کو ان کے قدم چومنے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور اس طرح شکیل نے اپنی زندگی میں وہ شہرت پائی جس کی تمنا ہر شاعر کے دل میں ہوتی ہے۔ان کی زندگی میں ہی اعلا پیمانے پر ان کے کئی یادگار جشن بھی منائے گئے۔
شکیل کی غزلوں کے کئی اشعار نے ایسی شہرت پائی کہ وہ عوام میں مقبولیت کے باعث ضرب المثل کے درجے تک پہنچ گئے۔ ملک میں شعر و ادب سے کم سے کم ادبی ذوق رکھنے والا بھی کوئی ایسا شخص نہ ہوگا جس نے شکیل کا یہ شعر نہ پڑھا ہو:
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
مذکورہ شعر والی پوری غزل ہی بے حد خوب صورت اور تغزل سے بھر پور ہے۔ اس کا ہر شعر دل کش اور دل پر اثر کرنے والا ہے۔ انسانی نفسیات اور قلبی جذبات کا بھر پور اظہار ہے۔ ذیل میں شکیل کی یہ پوری غزل پیش کی جاتی ہے:
غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت مرے نام تک نہ پہنچے
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بددعا دی
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے
مرے طائر نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے
وہی اک خموش نغمہ ہے شکیل جان ہستی
جو زبان پر نہ آئے جو کلام تک نہ پہنچے
ان کی غزلوں اور نظموں کے بہت سے اشعار اس قدر مقبول و معروف ہوئے کہ گویا زبان زد خاص و عام ہو گئے:
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق کے ہر گام پہ رونا آیا
میں ہر غم سے الجھتا جا رہا ہوں اس توقع پر
کوئی ان میں سے شاید زندگی کو راس آجائے
یہ عیش و طرب کے متوالے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غموں کا علم نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں
ناحق ہے ہوس کے بندوں کو نظارۂ فطرت کا دعویٰ
آنکھوں میں نہیں ہے بے تابی دیدار کی باتیں کرتے ہیں
یہ اہل قلم، یہ اہل ہنر، دیکھو تو شکیل ان سب کے جگر
فاقوں سے ہیں دل مرجھائے ہوئے دلدار کی باتیں کرتے ہیں

شکیل نے اپنی فطری شاعری اور فلمی شاعری کے فرق کو واضح کرتے ہوئے بڑے دل چسپ انداز میں اظہار رائے کیا ہے:
”ہر چند کہ فلمی دنیا میں شامل ہونے اور ادبی ماحول سے دور رہنے کے بعد ایک فطری شاعر کا ذوق لطیف مجروح ہونا چاہیے۔ پھر بھی میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے حتی الامکان علمی فراست پر فلمی حماقت کو مسلط نہ ہونے دیا۔ فلمی ماحول نے میری شاعری پر یہ اثر ڈالا کہ میں ذاتی طور پر تو شاعر تھا ہی لیکن پیشے کے لحاظ سے بھی شاعر ہو گیا اور اس طرح میری مشق سخن بڑھ گئی……اس ماحول میں رہ کر میں نے جو غزلیں کہی ہیں ان کو ادبی حلقوں نے کافی سراہا ہے اور عوام نے بھی کیونکہ آسان الفاظ میں بڑی بات کہنے کا سلیقہ میں نے فلمی دنیا میں آکر سیکھا۔“
شکیل نے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔حمد، نعت، سلام، غزل، نظم، قطعہ، گیت وغیرہ کے ذریعہ انھوں نے اپنے دل کی بات عوام و خواص تک پہنچائی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج کا ہر طبقہ ان کے کلام سے محظوظ اور مسرور ہوا۔ ان کی حمد و نعت میں قلبی و روحانی خلوص اور جوش و جذبہ بڑی شدت سے نمایاں ہے۔ ایک حمد میں وہ پردگار عالم سے اپنی محبت کا اظہار بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں:
یہ زمیں آسماں، تیرے صدقے
میں ہی کیا، دو جہاں تیرے صدقے
ہر نفس ہر خیال تجھ پہ نثار
ہر نظر، ہر زباں تیرے صدقے
نقش ہے لوح دل پر تیرا کلام
رحمت جاوداں تیرے صدقے
حمد شریف کی طرح ان کی مقدس نعتوں کا بھی ہر مصرعہ حضور پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ہے۔ یہاں بہ طور نمونہ دو اشعار پیش کیے جاتے ہیں:
موت ہی نہ آجائے کاش ایسے جینے سے
عاشق نبی  ہوکر دور ہوں مدینے سے
آنکھ بند کرتے ہی ہم تو اے شکیل اکثر
چل دیے مدینے کو آگئے مدینے سے
انھیں ایک نہایت مشکل فن یعنی مادۂ تاریخ نکالنے پر بھی قدرت حاصل تھی لیکن انھوں نے اس طرف بہت کم توجہ دی۔ بہرحال بہ طور نمونہ ذیل میں اقبال کی وفات پر شکیل کا مادۂ تاریخ پیش کیا جاتا ہے:
تاریخ انتقال رقم کیجیے شکیل
بدر کمال و عزت و اقبال اٹھ گیا ١٣٥٧ھ
شکیل نے اپنے نغموں سے جس طرح لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کیا اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے درد، نائک، میلہ، انوکھی ادا، دل لگی، دلاری، چاندنی رات، جادو، داستان، بابل، آن، دیدار، بیجو باورا، اڑن کھٹولہ، امر، شباب، مدر انڈیا، سوہنی مہیوال، کوہ نور، پردیس، چودھویں کا چاند، گھونگھٹ اور مغل اعظم جیسی عظیم الشان فلموں کے ایسے خوب صورت نغمے لکھے جو آج بھی بے حد مقبول ہیں اور جنھیں شاید کسی بھی دور میں فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔مغل اعظم کے ریلیز ہونے کے بہت بعد تک شکیل کے نغموں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی چائے کے ہوٹل پر بھی ریڈیو میں وہ نغمے گونجتے تو لوگوں کی بھیڑ وہاں جمع ہو جاتی۔ لتا کی آواز، نوشاد کا سنگیت اور شکیل کے نغمے جو غضب نہ ڈھاتے کم تھا:
تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
گھڑی بھر کو ترے نزدیک آکر ہم بھی دیکھیں گے
تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
ترے قدموں میں سر اپنا جھکا کر ہم بھی دیکھیں گے
بہاریں آج پیغام محبت لے کے آئی ہیں
بڑی مدت میں امیدوں کی کلیاں مسکرائی ہیں
غم دل سے ذرا دامن بچا کر ہم بھی دیکھیں گے
شکیل نے غزلوں کے ساتھ نظمیں بھی خاصی تعداد میں کہی ہیں اور ان میں کئی طرح کی نظمیں شامل ہیں، تاثراتی بھی اور موضوعاتی بھی۔ انھوں نے کئی مشاہیر ادب کے انتقال پر بھی تعزیتی قطعے اور نظمیں کہیں۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ’یاد ایامے‘ ہے۔ اس کے چند اشعار اس طرح ہیں:
آغاز محبت میں اکثر وہ دور بھی آیا کرتے تھے
میں ان میں سمایا کرتا تھا وہ مجھ میں سمایا کرتے تھے
جب جوروستم کے چہرے پر تھا لطف و عنایت کا غازہ
جب دل کو بھی کرنا مشکل تھا جذبات دروں کا اندازہ
جب پھول سے نازک دل پہ مرے تھا زخم نظر تازہ تازہ
اک بار تبسم فرما کر سو بار ہنسایا کرتے تھے
شکیل نے شہید کربلا سید الشہداء عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار اپنے سلاموں میں اس طرح کیا ہے:
سلام ان پر شہید کربلا کہتے ہیں سب جن کو
ضیائے قلب و عین مصطفی کہتے ہیں سب جن کو
جنھوں نے جان دے کر کردیا اسلام کو زندہ
ہے جن کی یاد سے اب تک خدا کا نام تابندہ
شکیل کے کلام میں کئی قطعات بھی ملتے ہیں جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ذیل میں ان کے دو قطعات پیش کیے جاتے ہیں:
جو ایک نظر کی جنبش سے سب دل کی بستی لوٹ گیا
وہ جس سے آنکھیں چار ہوئیں اور ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا
دل اس کا بھی ہے میرا بھی، ہے فرق شکیل اتنا لیکن
وہ پتھر ہے جو ثابت ہے، یہ شیشہ تھا جو ٹوٹ گیا
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے
یوں دیجیے فریب محبت کہ عمر بھر
میں زندگی کو یاد کروں زندگی مجھے
شکیل کو ١٩٦٤ء میں ذیابطیس اور تپ دق جیسے موذی امراض نے آگھیرا تھا اور کئی سال کی بیماری کے بعد آخر ٢٠/اپریل ١٩٧٠ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات شاعری اور فلم دونوں کے لیے سانحۂ عظیم تھی۔ شکیل کی وفات پر ملک بھر میں رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔متعدد تعزیتی نشستیں ہوئیں۔ شعرا نے خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کی وفات پر کئی رسائل و جرائد نے خاص نمبر اور خصوصی گوشے شائع کیے۔ ان میں ہماری آواز بدایوں، گل کدہ سہسوان اور صبح امید بمبئی کے نام خاص طور سے لیے جا سکتے ہیں۔
شکیل سے متعلق جو کتاب ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئی تھی وہ ڈاکٹر شکیل الرحمٰن کی کتاب’شکیل بدایونی کی رومانی شاعری‘ تھی۔ ڈاکٹر عرفان عباسی نے ’تذکرہ شعرائے اتر پردیش‘ کی پہلی جلد میں پانچ صفحات پر مشتمل شکیل کا ایک جامع خاکہ مع نمونہ کلام تحریر فرمایا۔ یہ کتاب ١٩٨٢ء میں شائع ہوئی تھی۔ڈاکٹر یوسف حسین نے ’اردو غزل‘ میں شکیل کا تعارف نمونہ کلام کے ساتھ پیش کیا۔ نریش کمار شاد کا لیا ہوا شکیل کا ایک انٹرویو ١٩٦٥ء میں ماہنامہ ’پاسبان‘ چنڈی گڑھ میں شائع ہوا۔ طالب دہلوی کی ’یہ تھی دلی‘ اور بال مکند عرش ملسیانی کی ’ہست وبود‘ میں بھی شکیل کا تذکرہ موجود ہے۔
شکیل کے کئی شعری مجموعے دہلی، لکھنؤ، بمبئی، لاہور، کراچی وغیرہ شہروں سے شائع ہوئے جن کی تفصیلات پیش کرنے سے قبل ضروری معلوم دیتا ہے کہ خود شکیل بدایونی کے الفاظ ان کی خود نوشت سے پیش کر دیے جائیں۔ اس تحریر سے ان کی کتابوں کی اشاعت سے متعلق ضروری معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ شکیل اپنی خود نوشت میں تحریر فرماتے ہیں:
”میرا پہلا مجموعہ کلام ’رعنائیاں‘ ١٩٤٤ء میں دہلی کے عزیزیہ کتب خانہ کے مالک مولوی سمیع اللہ قاسمی مرحوم نے شائع کیا۔ اس کے بعد یہی مجموعہ اور ایک نیا مجموعہ کلام ’صنم و حرم‘ بمبئی کے تاج آفس بک ڈپو نے شائع کیا۔ یہ مجموعے کتابی سائز میں ہیں۔ میرے نعتیہ کلام کا مجموعہ ’نغمۂ فردوس‘ بھی مکتبہ سلطانی بمبئی نے شائع کیا۔ میرے دو اور مجموعہ ہائے کلام ’رنگینیاں‘ اور ’شبستاں‘ نیا ادارہ لاہور نے بڑے سائز میں اور ٹائپ کے حروف میں شائع کیے۔ میرا ایک ضخیم مجموعہ ’کلیات شکیل‘ کے نام سے اعوان پبلشرز کراچی نے میری اجازت کے بغیر شائع کیا۔ میرے مندرجہ ذیل انتخاب کلام پنجابی پستک بھنڈار دہلی نے گاہ بگاہ شائع کیے۔ ان کے نام یہ ہیں جو پاکٹ سائز میں شائع ہوئے: رعنائیاں، رنگینیاں، صنم و حرم، دور کوئی گائے اور نثر میں شکیل الرحمٰن کی لکھی ہوئی کتاب ’شکیل بدایونی کی رومانی شاعری‘ جو کتابی سائز اور پاکٹ سائز دونوں میں شائع ہوئی۔ آج سے ڈیڑھ سال قبل لکھنؤ کے مکتبہ دین و ادب نے میرا نعتیہ کلام ’نغمۂ فردوس‘ شائع کیا۔ میری غزلوں کے کچھ مجموعے ہندی میں بھی شائع کیے گئے ہیں جو پاکٹ سائز میں ہیں۔ ان ہندی کتابوں کے علاوہ میرا ایک مجموعہ کلام ’شکیل بدایونی اور ان کی شاعری‘ ہندی میں راج پال اینڈ سنز دہلی نے بھی کتابی سائز میں شائع کیا ہے۔“
مولوی یوسف حسین قادری نے بھی شکیل بدایونی کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’زیبائیاں‘ ١٩٨٦ء میں کراچی سے شائع کیا تھا۔ یہ مجموعہ محض ١٢٨ صفحات پر مشتمل تھا اور اس میں شکیل کا بیشتر وہ کلام شامل تھا جو اس سے پہلے کسی شعری مجموعہ یا انتخاب میں شائع نہیں ہوا تھا۔ اسی ادارہ نے ١٩٨٧ء میں شکیل کے نعتیہ مجموعہ کلام ’نغمۂ فردوس‘ کو بھی شائع کیا تھا۔
رضا لائبریری رام پور میں بھی شکیل کی کئی کتابیں موجود ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ رعنائیاں (شعری مجموعہ) انتخاب: ١٩٣٨ تا ١٩٤٤ء
صفحات : ٢٠٨
سائز : ١٦ /٣٠×٢٠
ناشر : مکتبہ جدید، لاہور
قیمت : تین روپے آٹھ آنے
انتساب : بنام والد محترم حضرت مولانا ابوالجمال مولوی جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی مرحوم
مقام و تاریخ وفات: بمبئی ٣٠/جولائی ١٩٣٩، میں تنہا جن کی یادگار ہوں (شکیل بدایونی، بمبئی، ستمبر ١٩٥٠ء)
مقدمہ : رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی (ص: ٧٠١٠)
عرض مصنف : شکیل بدایونی (ص: ۱۱-١٢)
حمد : یہ زمیں آسماں ترے صدقے
نعت : موت ہی نہ آجائے کاش ایسے جینے سے (بہ اجازت آل انڈیا ریڈیو، دہلی)
نظمیں : چور، تصادم، نمائش علی گڑھ، ترقی معکوس (کالج میں دو گھنٹہ)، زلزلہ، شب رنگیں، کہاں ہے آجا، مجھے بھول جا، چاند کی زبانی،
رقاصۂ حیات سے، محبت، علی گڑھ چھوڑنے کے بعد ،ان کی تصویر دیکھ کر، سورج، یاد ایامے، عہد وفا، ساون کی گھٹائیں، فصیح الملک داغ کے حضور میں، تعلیم، نوحۂ اقبال، نوحۂ فانی، نوحۂ قمر بدایونی، شہید کربلا کی یاد میں
تعداد قطعات : ۵
تعداد غزلیات: ١٥٥
پہلی غزل: لا رہا ہے کوئی شیشے میں بھر کے سامنے
آخری غزل : موسم گل ساتھ لے کر برق دوام آہی گیا

٭رعنائیاں (شعری مجموعہ) اسٹار پاکٹ سیریز نمبر ٦٩
قیمت : ایک روپیہ
حسن کار : بھاردواج
کاتب : قمر امروہوی
ناشر : اسٹار پبلی کیشنز، دہلی
نوٹ : اس کتاب کی باقی تفصیلات ’رعنائیاں‘ کے پہلے مجموعہ کی طرح ہی ہیں

۲۔صنم و حرم (شعری مجموعہ) انتخاب ١٩٤٤ تا ١٩٥٠ء
صفحات : ١٢٠
سائز : ١٦ / ٣٠× ٢٠
ناشر : مکتبہ جدید، لاہور
قیمت : دو روپے چار آنے
انتساب : بنام عم معظم حضرت مولانا ضیاء القادری بدایونی (وارد حال کراچی) جن کے آغوش تربیت نے میری خوابیدہ صلاحیت شعر کو بیدار کیا (شکیل بدایونی، بمبئی، ستمبر ١٩٥٠ء)
مقدمہ : فراق گورکھ پوری (ص: ۶- ٢١) تقریظ : ساحر لدھیانوی، بمبئی، نومبر ١٩٥٠ء (ص: ۲۲- ٢٣)
عرض حال شکیل بدایونی (ص: ٢٤-٢٥)
نعت : تمنا ہے کہ مرتے وقت بھی ہم مسکراتے ہوں
سلام : سلام ان پر شہید کربلا کہتے ہیں سب جن کو
نظمیں : دیباچہ، روزن، دنیا یہی ہے دنیا یہی ہے، بے خودی، شب مہتاب
تعداد غزلیات : ٨٠
پہلی غزل : اک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں
آخری غزل : دھندلی دھندلی فضا نہ صبح نہ شام

۳۔ شبستاں (شعری مجموعہ)
صفحات : ١٢٠
سائز : ١٦ / ٣٠× ٢٠
سنہ اشاعت : درج نہیں ہے
طابع و ناشر : نذیر احمد چودھری، سویرا آرٹ پریس، نیا ادارہ لاہور
قیمت : تین روپے
انتساب : ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے نام
تعداد گیت: ۸
تعداد غزلیات : ٨٥
پہلی غزل: منزل کی دھن میں ہوش و خرد سے گزر گئے
آخری غزل : بیت گیا ہنگام قیامت، روز قیامت آج بھی ہے
نوٹ : اس کتاب میں پیش لفظ، مقدمہ، تعارف وغیرہ کچھ بھی درج نہیں ہے

۴۔ رنگینیاں (شعری مجموعہ)
صفحات : ١٥٢
سائز : ۸ /۲۲× ١٨ (ڈیمائی)
سنہ اشاعت : بار اول ١٩٦١ء
طابع و ناشر : نذیر احمد چودھری، سویرا آرٹ پریس، نیا ادارہ، لاہور
تزئین و آرائش : حنیف دامے
قیمت : درج نہیں ہے
انتساب : نوشاد علی (میوزک ڈائریکٹر) کے نام جن کی دلنواز موسیقی نے میرے فلمی نغموں کو زندگی بخشی (شکیل بدایونی)
شکیل کا تعارف : نذیر احمد چودھری (ص: ١٢-١٤)
تعداد گیت: ١٦
تعداد غزلیات : ١١٨
پہلی غزل : بیگانہ ہو کے بزم جہاں دیکھتا ہوں میں
آخری غزل : دل غم زدہ کو خوشی کب ملے گی
دیگر وضاحتیں : اس کتاب میں شکیل کی ایک خوب صورت تصویر بھی موجود ہے، یہ کتاب اردو ٹائپ میں شائع کی گئی ہے، کتاب کا کاغذ نہایت دبیز ہے اور ہر صفحہ پر ڈیزائن باؤنڈری بنائی گئی ہے. 

۵۔ دور کوئی گائے: (شعری مجموعہ) اسٹار پاکٹ بکس سیریز نمبر ۲۲
صفحات : ١٢٧
سائز : پاکٹ سائز
سنہ اشاعت : درج نہیں ہے
ناشر : اسٹار پبلی کیشنز، دریا گنج، دہلی
مطبوعہ : سود لیتھو پریس، دہلی
سول ایجنٹس : پنجابی پستک بھنڈار، دریبہ کلاں، دہلی
قیمت : ایک روپیہ
انتساب : میوزک ڈائریکٹر نوشاد علی کے نام (شکیل بدایونی)
پیش لفظ : اکرم الہ آبادی (ص:۹-١٢)
تعداد گیت ١٤
تعداد غزلیات ٨٤
پہلی غزل : زندگی کا درد لے کر انقلاب آیا تو کیا
آخری غزل : بیت گیا ہنگام حیات، روز قیامت آج بھی ہے
دیگر وضاحت کتاب کی پشت پر شکیل کی تصویر بھی دی گئی ہے

۶۔ دھرتی کو آکاش پکارے: (فلمی گیت) اسٹار پاکٹ بکس سیریز نمبر ایس- ٨٢
صفحات : ١٦٠
سائز : پاکٹ سائز
سنہ اشاعت: درج نہیں ہے
ناشر : اسٹار پبلی کیشنز، دریا گنج، دہلی
قیمت : ایک روپیہ
انتساب : اپنی بڑی بیٹی رضیہ سلطانہ کے نام جو ہمیشہ مجھ سے دور رہی کیونکہ اس کی چچی نے بچپن سے گود لے لیا تھا اب وہ پاکستان میں کالج کی طالبہ ہے اور میرے گیتوں اور غزلوں کی مقبولیت سے بہت خوش ہوتی ہے (شکیل بدایونی)
ابتدائیہ : دلیپ کمار، بمبئی، ١٣/اگست ١٩٦١ء
اپنے قلم سے : شکیل بدایونی ۲۲/جولائی ١٩٦١ء(ص:۵-۸)
تعداد گیت: ١٥٢
پہلا گیت: ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے
آخری گیت : حسن والے ترا جواب نہیں
دیگر وضاحت : ہر صفحہ ڈیزائن کیا گیا ہے

۷۔ کلیات شکیل بدایونی: مرتب کا نام درج نہیں ہے

صفحات : ٣٠٤
سائز : ۸ /۲۲×١٨ (ڈیمائی)
سنہ اشاعت : ١٩٩٨ء
ناشر : انجم بک ڈپو، دہلی
مطبوعہ : فائن آرٹ پریس، دہلی
قیمت : ٦٠ روپے
تعارف شکیل بدایونی : پروفیسر طاہر فاروقی (ص:۹-١٢)
مقدمہ : جگر مراد آبادی (ص:١٣-١٥)
تقریظ : پروفیسر رشید احمد صدیقی (ص:١٦)
تعارف شکیل بدایونی : ادارہ انجم بک ڈپو، دہلی (ص:١٧-١٨)
تعداد حمد : ایک
غزلیات : ٢٣٨
قطعات : ١٧
نظمیں : ١٨
گیت : ١٣
نعت و منقبت ٤٨ (ان میں نوحہ اقبال، نوحہ فانی، نوحہ قمر بدایونی اور داغ کے حضور میں کتاب ’رعنائیاں‘ میں نظموں کی حیثیت سے شامل کی گئی ہیں، اس طرح کلیات میں نعت و منقبت کی کل تعداد ۴۴ ہوتی ہے)
پہلی غزل : لا رہا ہے مے کوئی شیشے میں بھر کے سامنے
آخری غزل : دل غم زدہ کو خوشی کب ملے گی
دیگر وضاحتیں : سرورق خوب صورت ہے، کاغذ بہترین ہے، طباعت بھی اچھی ہے، پشت پر شکیل کا عکس تحریر بھی موجود ہے. 

شکیل بدایونی کی شاعری کی ایک خاص بات اس کی مسرت آگیں کیفیت اور حسن کا اظہار ہے۔ ان کی شاعری میں نہ گریہ و زاری ہے، نہ شکوہ و شکایت، نہ رومانی شاعروں کی طرح خیال آرائی اور نہ تصور آفرینی و الفاظ کا زور۔ ان کی شاعری ایسی عشقیہ شاعری ہے جس میں شاعر کے محسوسات، جذبات اور تجربات سب کے عکس دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی کے یہ مختلف رنگ شکیل کے ان اشعار میں ملاحظہ کیجیے:
اے دل خیال ترک تمنا بجا سہی
لیکن یہاں کی بات نہ جائے یہاں سے دور
کیا خبر تھی بہار میں اب کے
چاک ہوں گے دلوں کے پیراہن
میرا جنون شوق ہی کیوں ہو قصور وار
شامل تری نگاہ بھی رسوائیوں میں ہے
بے فصل گل ہی بار تھی ناصح کی گفتگو
ظالم کہاں بہار کے موسم میں آگیا
نظم دو عالم گیسوئے جاناں
یہ بھی پریشاں وہ بھی پریشاں
شکست حوصلۂ ضبط غم مجھے منظور
چلے بھی آؤ کہ دل کب سے انتظار میں ہے
ان اشعار سے شکیل کی انفرادیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے عہد کی غزل کے ایک نمائندہ رجحان کے مقبول شاعروں میں ہیں۔ وہ ان شعرا میں ہیں جنھوں نے اردو غزل اور اس کے ذریعہ اردو زبان کو عوام میں مقبول بنایا۔ ان کی غزل سادہ اور بے تکلف اظہار کا نمونہ ہے جس کے دامن میں زندگی کے تجربے بھی ہیں اور عشق کی واردات بھی۔ حسن کی دل نوازی بھی ہے اور اظہار کی خوب صورتی بھی، جس کے لیے تاریخ انھیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔
(۸/ ستمبر ٢٠١٥ء) 
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش:مقالہ مارکیٹ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے