اردو ادب کی چند معروف کنواریاں (قسط سوم)

اردو ادب کی چند معروف کنواریاں (قسط سوم)

جبیں نازاں

اردو ادب میں ہی نہیں بلکہ عالمی ادب کے ناول نگاروں میں قرۃالعین حیدر ایک دبستان ایک عہد کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرچکی ہیں. 
قرۃ العین حیدر صاحبہ کی پیدائش ۔۔20/ جنوری 1927ء علی گڑھ میں والد سید سجاد حیدر یلدرم ماں نذر سجادحیدر کے گھر ہوئی۔ والدین اردو ادب کے مشہور و معروف شخصیات تھیں. قرۃالعین حیدر نے اپنی ماں کی طرح بچپن سے لکھنا شروع کیا، بچوں کے رسالے ‘پھول` کے لیے۔
پھر صرف 13 سال کی عمر میں پہلا افسانہ ‘ایک شام` لکھ کر اپنے چچا مشتاق صاحب کو سنایا- وہ حیرت زدہ رہ گئے اور انھیں مشورہ دیا کہ تم اسے فرضی نام سے شائع کروانا. کیوں کہ تمھاری عمر دیکھ کر لوگ یقین نہیں کریں گے کہ یہ افسانہ تم نے لکھا ہے۔ عینی نے چچا کی بات مان لی. اور’ لالہ رخ` فرضی نام سے افسانہ شائع کروایا۔ خاصی پذیرائی ہوئی. اور پھر عینی نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا. ان کا قلم رواں دواں ہوا، اور یہ حقیقی نام سے لکھنے لگی. ارود ادب میں افسانوں، کہانیوں، ناولوں کی ایسی نئی بہاریں آئیں کہ ازیں قبل اردو ادب اس بہار سے محروم تھا. اور منتظر بھی، سر سبز بہار یوں چھائی کہ اب تک اردو ادب مستفید ہورہا ہے، ان کے تیسرے افسانوی مجموعہ ‘پت جھڑ کی آواز` کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔
ایک بات یہاں بتاتی چلوں کہ تقسیم ہند کے وقت اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان چلی گئی تھیں۔ لیکن جنرل ایوب کی مارشل سے پریشان، اور قدرت اللہ شہاب سے کسی بات کی وجہ سے بد دل ہوکر برطانیہ چلی گئیں اور برطانیہ میں جواہر لال نہرو سے ملیں، جواہر لال نہرو سے قرۃالعین کے گہرے مراسم تھے. جواہر لال نہرو نے انھیں ہندستان واپس بلا لیا.
قرۃ العین حیدر صاحبہ کو اردو ادب کی ‘ورجینا وولف` کہا جاتا ہے. جب کہ وہ اپنا یہ موازنہ سختی کے ساتھ مسترد کیا کرتی تھیں۔ انھیں موازنہ سے چڑ تھی. کہا کرتی تھیں یہ”اہل اردو موازنہ انیس ودبیر کے مرض میں کب تک مبتلا رہیں گے؟"
واقعی ادب کے حوالے سے اس کے سوا بھی بہت کام باقی ہیں کرنے کے لیے، میں نے بھی محسوس کیا ہے یہ مرض اس قدر سرایت کرگیا ہے اہل اردو میں کہ کسی "چھٹ بھیے" شاعر کی شاعری پہ تبصرہ کرتے ہوئے ہر کوئی شاعر کی قدر کا تعین بالکل سہل انداز کہہ لیں، یا ایک فارمولہ سمجھیں، اس راہ پر چلنے کا عادی بن چکا ہے. میؔر و اقبالؔ سے موازنہ کریں یا نہ کریں لیکن غاؔلب سے موازنہ کرتے ہوئے تاج غاؔلب پہنا ڈالتے ہیں، اور اس شاعر کو غالب کے ہم پلہ ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا کرتے.
قرۃالعین حیدر مصورہ بھی تھیں. اور پیانو نہایت عمدہ بجانا جانتی تھیں. قرۃالعین حیدر صاحبہ کا نام اردو ادب کے مشہور شاعر مرزا غاؔلب کے شاگرد الطاف حسین کے نواسے خواجہ احمد عباس کے ساتھ لیا جاتا ہے. یہ ترقی پسند تحریک میں شامل رہے. خواجہ احمد عباس بہ یک وقت اردو ہندی انگریزی زباں میں ناول کہانیاں لکھا کرتے تھے. یہ بالی ووڈ میں فلم کے ڈائرکٹر، مکالمہ نویس، اور کہانی نویس بھی تھے. ان کی کہانی پر مشتمل کئی سپر ہٹ فلمیں ہیں جن میں آوارہ، شری چار سو بیس اور حنا وغیرہ نمایاں ہیں. جب کہ انھوں نے کیرئیر کی شروعات 1941ء نیا سنسار فلم کے لیے مکالمہ نویس کی حیثیت سے کی. اپنی ہدایت میں بننے والی فلم "سات ہندستانی" میں ملینیم اسٹار امیتابھ بچن کو متعارف کروانے والے خواجہ احمد عباس ہی ہیں۔
فلمی دنیا کی چکا چوند دنیا نے خواجہ صاحب کی ادبی حیثیت کو دھند میں لپیٹ کر رکھ دیا، حالاں کہ خواجہ احمد عباس کی ادبی حثیت ایک عہد جیسی ہے، انھوں نے 73 کتب تصنیف کی. افسانے، کہانیاں، ناولیں وغیرہ. ابابیل، ایک لڑکی، کھدر کا کفن، ماں کا دل، ٹڈی دل وغیرہ ان کی مشہور کہانیاں ہیں. دھرتی کے لال، "انقلاب" کافی  مشہور ناول ہیں، "انقلاب"  کا ملک اور غیر ملک کی زبانوں: انگریزی، فرانسیسی، جرمن  وغیرہ میں ترجمہ ہوچکا ہے. 
بہر حال! پھر یہ ہوا کہ خواجہ احمد عباس صاحب اور قرۃالعین حیدر صاحبہ کے لیے ازدواجی رشتے میں بندھنے کی نوبت تو آئی، لیکن پھر نہ جانے کس وجہ سے بات بن نہیں پائی. 
بہرحال قرۃالعین نے اردو ادب کو افسانوں، کہانیوں، رپورتاژ، خاکے، ناولز کے بیش بہا خزینے عطا کیے. میرے بھی صنم خانے، گردش رنگ چمن، آخر شب کے ہم سفر، شاہراہ حریر، سیتا ہرن، اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کیجیئو، چائے کا باغ، کف گل فروش، شیشے کا گھر، ماہ ستمبر کا چاند، روشنی کی رفتار، چاندنی بیگم، آگ کا دریا، کار جہاں دراز ہے( اسے سوانحی ناول کہا جاتا ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے) ان کے ناول ہیں. "آگ کا دریا" کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی ادب کے دس بہترین ناول میں "آگ کا دریا" کا شمار ہوتا ہے، نوبل جیوری کے سامنے کئی بار پیش کیا جاچکا ہے۔لیکن جیوری پینل ہر بار اردو اسکرپٹ کے سائز کا حوالہ دے کر نوبل انعام نہ دینے کا بہانہ بنا لیتا ہے. 
ویسے قرۃالعین حیدر کو ان گنت اعزازات سے نوازا جا چکا ہے، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، فراق گورکھ پوری کے بعد ادب کا دوسرا عظیم ایوارڈ گیان پیٹھ، انھیں ملا. غالب ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر، اقبال سمان، ہندستان کا قومی ایوارڈ پدم شری اور پھر پدم بھوشن ایوارڈ وغیرہ.
واضح کرتی چلوں کہ عینی اپنے ناولز کے انگریزی ترجمے خود کیا کرتی تھیں. یہ صحافی بھی تھیں۔ انگریزی اخبار ‘السٹرڈ ویکلی` اور ‘امپائر` میں لکھا کرتی تھیں. دنیاے اردو ادب میں عینی آپا کے نام سے جانی جاتی ہیں. یہ ایک عہد ساز شخصیت کی مالک ہیں. اپنے آپ میں ایک انجمن، آج تک ان کے مدمقابل کوئی دوسرا کھڑا نظر نہیں آتا. اردو دنیا کی ‘عینی آپا` سے مشہور ہستی. 21 /اگست 2007ء نوئیڈا( دہلی) میں انتقال کرگئیں. 
 (جاری) 
***
اردو ادب کی چند معروف کنواریاں (قسط دوم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے