نامور محقق شانتی رنجن بھٹاچاریہ

نامور محقق شانتی رنجن بھٹاچاریہ

محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
فون نمبر : 9933598528

شانتی رنجن بھٹا چاریہ کا شمار بیک وقت مصنف، محقق، نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو نثر و تحقیق کا بڑا سرمایہ فراہم کیا ہے۔ بنگال میں کوئی ان کے اس کارنامے کی برابری نہیں کرسکا ہے۔ ان کی تحقیق کا خاص موضوع بنگال کا اردو ادب رہا ہے۔ بنگال کے اردو ادب کو ملک و بیرون ملک روشناس کرانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ شانتی رنجن بھٹا چاریہ تاحیات اردو صاحبان ادب کی خدمت کرتے رہے۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے تاسیس میں بھی پیش پیش رہے اور تاحیات اس کے رکن رہے۔ شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے بیٹے ہرا دھن بھٹاچاریہ نے اپنے والد کی اردو زبان و ادب سے والہانہ محبت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "میرے والد کو اردو زبان سے بہت محبت تھی۔ زندگی بھر انھوں نے اس زبان کی خدمت کی، متعدد کتابیں لکھیں، تحقیق پر کام کیا، آج ان کی کتابیں ہمارے گھر میں محفوظ ہیں۔"
ہرادھن بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ اپنے والد کی وجہ سے ہمارے گھر اور گھر کے لوگ بھی اردو سے روشناس ہوئے، میرے بیٹے کو بھی اردو زبان سے بہت رغبت ہے۔ میرے والد کی اور بھی کئی چیزیں ہیں، جو اب تک شائع نہیں ہو سکیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی شائع ہو جائیں۔
مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے ‘جشن اردو` پروگرام کا انعقاد پر انھوں نے ڈاکٹر فاروق اعظم کی مرتب کردہ کتاب "شانتی رنجن بھٹاچاریہ کے مضامین" کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ فاروق اعظم صاحب پہلے شخص ہیں جنھوں نے شانتی رنجن بھٹاچاریہ پر پی ایچ ڈی کی اور پھر تین برسوں کی محنت سے "مضامین شانتی رنجن بھٹاچاریہ" ترتیب دی ان کا میں بہت مشکور و ممنون ہوں۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی پیدائش 24 ستمبر 1930ء ضلع فرید پور، بھوجیشور کے مسورہ گاؤں (موجودہ بنگلہ دیش) میں ہوئی۔ وہیں ان کی ابتدائی تعلیم درجہ دوم تک ایک بنگلہ میڈیم اسکول میں ہوئی۔ اُن کے والد بیکنٹھ ناتھ بھٹا چاریہ 1930ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں فریدپور سے حیدرآباد چلے گئے اور وہاں اکتوبر 1930ء میں بہ طور اسٹیشن ماسٹر ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی. 1937 میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی ہروند ناتھ بھٹا چاریہ، اپنی اہلیہ چارو بالا دیوی اور بیٹے شانتی کو حیدرآباد بلالیا جہاں انھوں نے وویک بردھن ہائی اسکول میں اپنے بچے کو داخل کیا اور پانچویں جماعت تک تعلیم دلائی۔ اردو زبان کو حیدرآباد میں اولیت حاصل تھی، یہ وہاں کی دفتری زبان بھی تھی۔ وویک بردھن ہائی اسکول میں اردو کے ساتھ ساتھ تیلگو اور تامل زبانیں بھی پڑھائی جاتی تھیں لیکن انھوں نے اردو کو ہی ذریعہ تعلیم منتخب کیا، ساتھ ہی تیلگو اور تامل سے بھی واقفیت حاصل کی. وہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے محبوب کالج (ہائی اسکول) سکندر آباد میں داخلہ لیا، اس کالج میں انگریزی فرسٹ Language اور اردو Second Language کے طورپر پڑھی، وہیں سے انھوں نے 1948-49 میں سکنڈری کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران ان کے والد ریلوے کی ملازمت سے سبک دوش ہوگئے اور ان کا تعلیمی سلسلہ یہیں منقطع ہو گیا. کیونکہ ان کے والد مزید تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ 1956ء میں کلکتہ آنے کے بعد تلاش معاش کے لیے یہاں کی خاک چھانتے رہے. اس دوران یہ کولوٹولہ پہنچے جہاں انھوں نے اپنے دوست خلیل احمد کی مدد سے ایک پریس قائم کیا۔ یہاں وہ کلنڈر چھاپتے تھے اور ساتھ ہی بڑا بازار کے علاقے میں کچھ کتابت کا کام بھی کرتے تھے جو ان کے معاش کا ذریعہ بنی۔ انھوں نے کلکتہ کے جھاؤتلہ روڈ کے ایک پریس سے "فلم ویکلی" اخبار بھی جاری کیا. یہ سلسلہ 1960ء تک چلتا رہا۔ اس کے بعد ان کے دو افسانوی مجموعے "راہ کا کانٹا" اور "شاعر کی شادی" منظر عام پر آئے، پھر افسانہ نگاری ترک کر کے تحقیق کی طرف مائل ہوئے۔ انھوں نے سب سے پہلے ایک تحقیقی کتاب "بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات" لکھی، اس کتاب کے لیے ان کو 1965-66 میں مغربی بنگال حکومت کی طرف سے رابندر ناتھ ٹیگور ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہندستان کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے انھیں خط لکھ کر مبارک باد دی۔ اس کتاب پر سابق صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی چند تعریفی کلمات تحریر کیے، جو اس کتاب میں شامل ہیں۔ اسی وقت ماہر لسانیات اور دانشور سینتی کمار چٹرجی بھی ان سے متاثر ہوئے۔ اسی دوران 1965ء میں حکومت مغربی بنگال کی جانب سے رائٹرس بلڈنگ میں انھیں بحیثیت اردو مترجم اور انگریزی پروف ریڈر شعبہ اطلاعات و پبلک ریلیشن میں ملازمت مل گئی۔ انھوں نے انیسویں صدی تک بنگال میں شائع ہونے والی اردو کتابوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور تذکرہ تصانیف بنگال کے عنوان سے اپنا مقالہ شائع کیا. اس مقالے پر 1967ء میں اورینٹل کالج (ممبئی ) نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا۔
شانتی رنجن بھٹا چاریہ نے اردو اور بنگلہ ادب میں متنوع کام کیے ہیں۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی کاموں کی بہت وقعت ہے۔ وہ ایک تحقیقی ذہن کے مالک ادیب تھے۔ بنگال میں اردو کو لے کر انھوں نے کافی جدوجہد کیا اور اعداد و شمار جمع کرنے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی۔ ڈاکٹر الف انصاری نے ایک موقع پر ان کی بنگال کے ادب سے رغبت کے متعلق استفسار کیا تو اس ضمن میں موصوف نے جواب میں کہا تھا "بنگال میں، بنگال کے ادب" پر جتنا اچھا کام ہو سکتا ہے اس سے بہتر کام بنگال سے باہر کے ادب پر نہیں کیا جا سکتا اور پھر بنگال میں اتنے موضوعات ہیں کہ دوسری طرف مڑ کر دیکھنے اور سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ اگر میں صرف بنگال کے ادب پر کام کروں تو یہاں کے ادب کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ تنہا اسے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا سکتا۔" (نثر نگاران بنگالہ، مرتبہ:ڈاکٹر الف۔ انصاری)
شانتی رنجن بھٹا چاریہ کی ایک کتاب "اردو ادب اور بنگالی کلچر" کو مغربی بنگال اردو اکادمی نے پرنٹ ویل آفسیٹ، میکلیوڈ اسٹریٹ کلکتہ سے 1982 میں شائع کر کے اکادمی کے دفتر سندری موہن ایونیو کلکتہ 14 سے جاری کیا۔ یہ کتاب مصنف نے بنگلہ دیش میں ایک خادمِ اردو جناب شعیب عظیم کے نام معنون کیا ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو اور بنگلہ دونوں جدید زبانیں ہیں اور دونوں کا ادب بھی جدید ادب ہے۔ ہندستان کی دوسری زبانوں کی طرح اردو اور بنگلہ میں بھی الفاظ سنسکرت، پالی، پراکرت، اپ بھرنش، عربی، فارسی، ترکی، چینی، انگریزی وغیرہ سے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر آریائی نسل کی زبانوں جیسے تیلگو، تمل، کنڑ اور ملیالم وغیرہ سے بھی الفاظ ان میں شامل ہو ئے ہیں۔ کچھ الفاظ آدی باسی اور قبائیلی زبانوں کے بھی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی اصل (Origin) کا اب تک کوئی پتا نہیں چل سکا ہے۔ ان الفاظ میں سیکڑوں ایسے الفاظ ہیں جو خود اردو اور بنگلہ میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور خالص اردو یا خالص بنگلہ کے الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ایک عرصے تک فارسی کے ہندستان کی سرکاری زبان رہنے کے سبب بنگلہ اور اردو دونوں زبانوں پر عربی اور ترکی کے مقابلے میں فارسی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگرچہ اردو کے مقابلے میں بنگلہ میں عربی اور فارسی کے الفاظ کم شامل ہوئے ہیں۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ مغلوں کے زمانے سے لے کر انگریزی دورِ اقتدار کے ابتدائی دنوں تک ہندستان کی سرکاری زبان فارسی ہی رہی تھی۔ لیکن جب ان کی حکومت مستحکم ہو گئی اور کچھ لوگوں نے کام چلانے کے لائق انگریزی سیکھ لی تب انگریزوں نے فارسی کو سرکاری دفاتر اور عدالت سے ہٹا کر پہلے دیسی زبانوں کو نافذ کیا اور پھر چند سالوں کے بعد 1844 میں فارسی کو پورے ملک کی عدالتی اور سرکاری کام کاج کی زبان سے ہٹاکر انگریزی کو نافذ کر دیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مغلوں کے عہد میں سرکاری کام کاج میں بنگلہ کا کوئی مقام نہیں تھا، اس لیے فارسی کے جیسی بنگلہ کی ترقی نہیں ہو سکی۔ لیکن جب چند برسوں کے لیے بنگلہ کو بنگال کی عدالتوں اور دفاتر میں رائج کیا گیا تو ایسی لغت کی ضرورت پیش آئی جس میں فارسی کے عدالتی اور دفتری الفاظ کے متبادل تلاش کیے جا سکیں۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر جئے گوپال ترکالنکار نے جو فارسی بنگلہ لغت تیار کی وہ 1838 میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔ مصنف نے بنگلہ زبان کی موجودہ شکل و صورت پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ گرچہ آج بنگلہ زبان کے دامن سے عربی و فارسی کے وہ سیکڑوں الفاظ جو انیسویں صدی میں رائج تھے  خارج ہو چکے ہیں، پھر بھی سیکڑوں عربی و فارسی کے الفاظ کو اس نے اپنا بھی لیا ہے۔ انھوں نے کئی ایسے الفاظ کے نمونے پیش کیے ہیں جو تھوڑی سی شکل و صورت یا تلفظ کی تبدیلی کے ساتھ اس وقت بنگلہ میں مستعمل ہیں۔ انھوں نے دونوں زبانوں کے ڈھیروں الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ آج نہ صرف بنگلہ کے کتنے ہی الفاظ، محاورے اور کہاوتیں  اردو زبان میں مستعمل ہیں بلکہ اردو کے بھی سیکڑوں الفاظ، محاورے اور کہاوتیں بنگلہ زبان میں رائج ہیں۔
شانتی رنجن نے اپنی ایک اہم کتاب ’غالب اور بنگال‘ میں مرزا غالب کے سفر کلکتہ اور قیام کلکتہ کی روداد کو اجمال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب 1977 میں منظر عام پر آئی اور علمی و ادبی حلقوں میں بہ نظر استحسان دیکھی گئی۔ ان کی ایک اور تحقیقی تصنیف ’آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو‘ ہے، جس میں انھوں نے سرزمین بنگال سے شائع ہونے والی کتب، اخبارات اور رسائل و جرائد سے متعارف کرایا ہے۔
ان کی ایک اور وقیع کتاب ’اقبال، ٹیگور اور نذرل، تین شاعر، ایک مطالعہ‘ 1978 میں اشاعت پذیر ہوئی۔ شانتی رنجن نے اس میں بنگلہ زبان کے دو عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور، نذر الاسلام اور اردو کے علامہ اقبال کی شخصیت اور فن کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔
’تذکرہ شعرائے ٹالی گنج‘ مطبوعہ 1993 میں انھوں نے ماضی کے ایک مشہور و معروف اردو مرکز ٹالی گنج کے نامور شعرا و ادبا کے احوال و آثار اور نمونۂ کلام کے علاوہ وہاں کی تاریخی عمارات و مقامات کا خاکہ پیش کیا ہے۔
اردو دنیا کو چہار جانب روشن کرنے والا یہ فکر و فن کا آفتاب 63 سال کی عمر میں 15 ستمبر 1993 کو شہر نشاط کلکتہ میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے غروب ہو گیا اور اردو ادب کے خوشہ چینوں کے لیے انمول خزانہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لی. 
***
 صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے