اردو ادب کی چند معروف کنواریاں (قسط دوم)

اردو ادب کی چند معروف کنواریاں (قسط دوم)

جبیں نازاں
Jabeen nazan 2015 @gmail.com

اردو ادب کی دوسری صاحبِ دیوان شاعرہ : مہ لقا بائی چندا

مہ لقا بائی کا اصل نام بی بی چندا تھا. کہا جاتا ہے یہ نام اس کی نانی جان کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ماہ لقا اسے خطاب دیا گیا تھا. واقعہ یوں ہے کہ چندا بی بی کے شوہر یعنی کہ مہ لقا کے نانا خواجہ محمد حسین رنگیلے طبعیت کے مالک تھے، اپنی عیش پسندی سے مغلوب سرکاری خزانے کا تصرف دل کھول کر کیا، لہذا شاہی خزانے میں خرد برد کا الزام ان پہ عائد کیا گیا. خواجہ محمد حسین راجا کے عتاب کے خوف سے بیوی بی بی چندا اور بچوں کو چھوڑ کر غائب ہوگئے. ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے، جب عسرت نے بےحد ستایا، فاقہ کشی کی نوبت آئی، کوئی پرسان حال نہ رہا، چندا بی بی یہ شہر چھوڑ کر چل پڑیں. پیدل چلتے ہوئے جب ہمت جواب دے گئی، ایک گاؤں میں پڑاؤ ڈالا. یہ گاؤں بھنگی برداری کی آبادی پہ مشتمل تھا. انسانی ہمدردی سے متاثر ہوکر گاؤں والوں نے نووارد تباہ حال، فاقہ کش چندا بی بی اور اس کے بے سہارا بچوں کی خوب خاطر تواضع کی. چند دن بعد سب نے مشورہ دیا کہ تم بھی اپنی بچیوں کو گانا بجانا سکھاؤ تاکہ تمھارے گزر بسر کا ایک انتظام ہوسکے. یہاں یہ واضح کرتی چلوں کہ یہ گانا بجانا ان بھنگیوں کا آبائی پیشہ تھا. کسی شریف خانوادے کی خاتون کے لیے یہ پیش کش کسی طور قبول نہ تھا، محلے والے بی بی چندا کی مالی معاونت سے دستبردار ہوئے. پیٹ کی آگ کب تک خاندانی شرافت کا درد سمجھتی چاروناچار بی بی چندا نے اپنی بیٹیوں کو اجازت دے دی، لیکن اندر ہی اندر ملامت، ندامت، لجاجت، غیرت کی آگ میں سلگتی رہیں. بالآخر اس صدمے نے چندا بی بی کی جان لے لی.
بی بی چندا کی بڑی بیٹی نور بی بی اور بولن بی بی گانے بجانے میں مہارت حاصل کر چکیں، تو محافل میں گانے بجانے لگیں، چھوٹی بیٹی میدہ بی بی گھر رہا کرتی۔ لیکن اس کے حسن و جمال کے چرچے مشہور ہوکر گاؤں سے راجا کے محل تک پہنچ گئے. ‘دیولیہ` کا راجا سالم سنگھ نے اسے دیکھا اور فریفتہ ہوگیا، پھر اسے اپنے محل سرا میں داخل کرلیا. واضح ہو کہ یہ شادی شدہ تھا، راجا کی بیوی کو ناگوار گزرا. اور اس نے سوتن حربہ اپنایا. میدہ بی بی بیمار ہوگئی. اس درمیان ایک بیٹی کو جنم دیا. 
بہرحال یہ تھا مختصر خاندانی پس منظر. 
مہ لقا چندا کی پیدائش بروز پیر 20/ ذی قعدہ 1181ء بہ مطابق 2/ اپریل 1768ء حیدرآباد کے بہادر خاں (موروثی خطاب نواب بسالت خاں بہادر تھا) اور بی بی کنور کے گھر ہوئی. لیکن ان کی پرورش میر نظام علی خاں نے کی، جو آصف جاہ دوم کے وزیراعظم تھے. 
ماہ لقا نے فن موسیقی و رقص کی تعلیم اکبر اعظم کے دربار کے مشہور و معروف [موسیقار] تان سین کے پسرزادے خوش حال خاں سے حاصل کی. اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہ لقا نے اس فن میں کس قدر مہارت کی بلندیوں کو عبور کیا ہوگا. 
مہ لقا  جنگ کی بہترین سپاہی تصور کی جاتی تھی، گھڑ سواری، تیر اندازی غرض کہ فن حرب سے بھی واقفیت رکھتی تھی. تو دوسری طرف رقص و سرور کی محفل میں رونق محفل بھی تھی، اسے دھرپد، خیال اور ٹپہ پہ کمال قدرت حاصل تھی۔ اس کی آواز کے سب شیدائی تھے، یہ اپنے وقت کی بہترین مغنیہ بھی تھی. کہا جاتا ہے، جن سے اپنے شعری کلام پہ اصلاح لیا کرتی تھی یعنی استاد نواب میر ابو القاسم موسوی وہ بی بی چندا کے حسن و جمال، ناز و انداز پہ فریفتہ ہوچکے تھے۔
ایک بات بتادوں جو مثل شمع پروانوں کے بیچ ہمیشہ گھری رہی، یہ پیشہ سے طوائف نہیں تھی بلکہ ایک شہزادی تھی. اور اس شہزادی نے تا عمر شادی نہیں کی- لہذا اس کی حالت زندگی کے مطالعے کے بعد بعض لوگ مغالطے کے شکار ہوئے اور اسے طوائف ٹھہرانے کی کوشش کی. لیکن شفقت رضوی کی کتاب "دیوان مہ لقا بائی چندا اور راحت عزمی کی کتاب ‘مہ لقا چندا حالات زندگی مع دیوان` اس حقیقت کو عام کرتی ہے. 
یہ نہایت تعلیم یافتہ حقوق نسواں کی علم بردار خاتون تھی. شاہی خزانے سے ملنے والی رقم وہ تا عمر فلاح و بہبود کے لیے بے دریغ خرچ کرتی رہی، مفلس غریب کے لیے راشن کا زبردست بندوبست کیا کرتی۔ اس کی حالت زندگی پہ مبنی کتاب میں درج ہے کہ بہ وقت موت اس کے خزانے میں ایک کروڑ رقم موجود تھی. (ماہ لقا کے سوانح نگار راحت عزمی”ماہ لقا- حالات زندگی مع دیوان سنہ اشاعت دسمبر 1998)
مہ لقا بائی چندا کو خداے عزوجل نے مختلف فنون لطیفہ سے نوازا تھا. حیرت کشا یہ امر کہ بی بی چندا جملہ فنون پہ کمال دسترس رکھتی تھی. 
اس کی شاعری بھی عام سی شاعری نہیں بلکہ آپ پڑھیں تو محسوس کریں اس عہد میں نسائی جذبات و احساسات کا اظہار نہایت بے باک لیکن دیانت داری کے ساتھ کرتی ہے. نسائی جذبات سے مملو چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: 
گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے

گر مرے دل کو چرایا نہیں تو نے ظالم
کھول دے بند ہتھیلی کو دکھا ہاتھوں کو

بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب

تیر و تلوار سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے

کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے

جو پوچھے ہجر کی حالت مری وہ بے وفا ہنس کر
تصدق ہوکے کہہ با آہِ سرد و چشم تر قاصد

حسن کے شعلے سے تیرے جب کہ ٹپکے ہے عرق
شرم سے بس ابر کے دامن میں ہے تر آفتاب

شاہ و گدا تو دنگ ہوے رقص پر تیرے
عاشق ہے نیم جان، نئی لے میں تان پھر

چندا کے اشعار کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں نغمگی اتم پائی جاتی ہے. اس لیے کہ وہ خود جہاں مغنیہ تھی وہیں موسیقی کے فنون سے اچھی طرح واقف تھی. سادگی بیان کی ندرت، زبان کی لطافت ملتی ہے. اس کا دیوان لطف النساء امتیاؔز کےدیوان کے ایک سال بعد 1798ء میں طبع ہوا. اس لحاظ سے چندا اردو کی دوسری صاحبِ دیوان شاعرہ قرار دی گئی. اس کے دیوان میں 125 غزلیں موجود ہیں. جو اس بات کا اعلان ہے کہ چندا بنیادی طور پہ غزل کی شاعرہ ہے! ان کی بیشتر غزل پانچ اشعار پہ مشتمل ہوتی ہے. راحت سلطانہ مضمون میں لکھتی ہیں چوں کہ چندا کا جھکاؤ اہل تشیع کی طرف تھا، ان کے یہاں پنجتن کا تصور پایا جاتا ہے، اسی نسبت سے وہ اپنی غزلوں میں پانچ کے اعداد پہ تکمیل کیا کرتی تھی. 
اہلِ بیت سے قلبی لگاؤ کا اظہار دیکھیں:
سرفروش ہرگز نہ ہو چندا کسی سے دہر میں
یہ جناب مرتضیٰ کی ہے کنیزی کا غرور

سو جان سے ہوگی وہ تصدق مرے مولا
چندا کی جو کونین میں امداد کرو گے

نمونہ کلام
ترميم
نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب
رکھا چشم نظر شبنم میں اپنے یار سے مطلب

یہ دل دام نگہ میں ترک کے بس جا ہی اٹکا ہے
بر آوے کس طرح اللہ اب خوں خوار سے مطلب

بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب

نہ سمجھا ہم کو تو نے یار ایسی جاں فشانی پر
بھلا پاویں گے اے ناداں کسی ہشیار سے مطلب

نہ چنداؔ کو طمع جنت کی نے خوف جہنم ہے
رہے ہے دو جہاں میں حیدر کرار سے مطلب

ماہ لقا بائی کا انتقال ماہ اگست 1824ء کو ہوا. اسے قبر کوہِ مولا علی کے دامن میں اپنی والدہ کی قبر کے قریب دفن کیا گیا. 
***
پہلی قسط یہاں پڑھیں:اردو ادب کی مشہور و معروف کنواریاں (قسط اول)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے