بہتر کا شاعر دلاور علی آزر

بہتر کا شاعر دلاور علی آزر

محمد طاہر کمال جنجوعہ

دلاور علی آزر صاحب کی محبتوں کا مقروض ہوں کہ انھوں نے اپنا مجموعۂ سلام "بہتر" کا تحفہ عطا فرمایا۔
کتاب "بہتر" بہتر کی نسبت سے بہتر سلاموں پہ مشتمل خوب صورت نذرانۂ عقیدت ہے۔
عمومی طور پر کسی بھی کتاب پر مبصر تبصرہ کرتے ہوئے شاعر کی تخلیق پر اپنی راۓ پیش کرتا ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے تخلیقی محاسن کے ساتھ ساتھ کتاب کے ظاہری محاسن پر گفتگو کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ ماضی میں جہاں معیارِ تخلیق کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا وہیں کتاب کی زیب و آرائش پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔
"بہتر" اس حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عمدہ کاغذ، خوب صورت سرورق، لاجواب ڈیزائننگ اور دل کش پرنٹنگ یہ عناصر قاری کی بصری ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔
ڈیزائننگ سے لے کر پرنٹنگ اور بینڈنگ تک نفاست اور خوب صورتی سے کیا گیا کام قابلِ دید ہے۔
اردو ادب میں نثر سے پہلے نظم آئی، اسی سے آپ اردو ادب میں شعری روایت کی عظمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اردو زبان کا یہ اعجاز بھی ہے کہ 300 سال کے کم ترین عرصے میں جتنا ادب اردو زبان میں تخلیق ہوا کسی اور زبان میں اس کی نظیر نہیں ملتی، تازہ لسانی تحقیق کے مطابق اردو دنیا کی دس بڑی زبانوں میں شامل ہے۔
سلام ہمارے مذہبی اور رثائی ادب کی ایک صنف ہے، اسی طرح مرثیہ، سوز اور نوحے بھی رثائی ادب کے زمرے میں آتے ہیں. یہ عربی ادب سے اردو میں منتقل ہوئے۔ مگر عربی میں "سلام" جیسی کوئی الگ صنف موجود نہیں، البتہ فارسی ادب میں سلام گوئی کی شعری مثالیں کہیں کہیں ملتی ہیں۔
سلام گوئی کی ابتدا دکن سے ہوئی، قلی قطب شاہ، عادل شاہ، رستمی، ملا وجہی جیسے شاعروں نے سلام گوئی کی آبیاری کی۔
البتہ اُس وقت سلام کی ہیئت موجودہ سلام کی ہیئت سے مختلف تھی۔ اردو ادب میں رثائی ادب کی ایک لمبی تاریخ ہے مگر انیس و دبیر نے اس صنفِ شاعری میں جو کمال حاصل کیا وہ کسی اور کے نصیب میں نہ آسکا۔
باوجود اس کے کہ متقدمین و متاخرین میں کئی ایسے شعرا قابلِ ذکر ہیں، جنھوں نے اس صنفِ شاعری میں طبع آزمائی کی. اِنھی شعرا میں ایک نام دلاور علی آزر کا بھی ہے۔
دلاور علی آزر تمام اصنافِ شاعری میں اپنا جداگانہ اسلوب رکھتے ہیں۔
دلاور علی آزر کی کتاب "بہتر" کا مقدمہ غلام مصطفی دائم نے لکھا ہے. گو کہ ناقدینِ ادب اس مقدمہ پر بھی اپنی آرا میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں، مگر میں یہاں صرف دلاور علی آذر کی سلام گوئی تک ہی اپنی بات محدود رکھنا چاہوں گا۔
” بہتر" میں جہاں آپ کو عقیدت کے ساتھ تاریخی صداقت کا حسین امتزاج ملتا ہے، وہیں موضوعات کا تنوع، تلازمہ، سوز و گداز، تشبہ و استعارات، فصاحت و بلاغت، صنائع و بدائع، منفرد تراکیب، مشکل زمینیں، بندشِ لفظی اور صنعت کے استعمال سے سلام حسنِ تاثیر سے خالی اور فنی عظمت سے محروم نہیں رہتا۔
"بہتر" میں تقریباً چھوٹی بڑی پندرہ بحور میں سلام کہا گیا ہے۔ بڑی بحور میں کلام کی تعداد زیادہ ہے۔ "بہتر" کے 72 سلاموں میں تقریباً 35 سلام بحر "مجتث مثمن مخبون محذوف" (مفاعلن فَعِلاتن مَفاعِلن فَعِلن) میں کہے گئے ہیں۔ جس سے شاعر کے پختگیِ فن کا اندازہ ہوتا ہے۔
سلام کہنے سے زیادہ سلام کہنے کا سلیقہ اہمیت کا حامل ہے اور دلاور علی آزر اس سلیقہ سے بہ خوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ دلاور علی آزر کی سلام گوئی میں آپ کو مصائب، منظر نگاری، فلسفۂ شہادت اور فضائل کے اشعار ایک خوب صورت انداز سے نظر آتے ہیں۔
شعر دیکھیے۔
کھُلی جو حُرؑ پہ حقیقت تو آ کے خود شہؑ سے
معافی مانگ لی اور شاملِ سپاہ ہوا
مندرجہ بالا شعر میں کس قدر خوب صورتی اور سہل ممتنع سے ایک تاریخی صداقت کو شعر کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔
قلبی واردات اور جذبی کیفیات کا اخلاص اور شعوری ہم آہنگی اس طرح معنی آفرینی سے سلام میں معجزانہ رنگ ابھارتی ہے کہ شہادت کے واقعات میں خلوص و صداقت کا عنصر ایک طرف تو سوز و گداز پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف خود داری اور خود اعتمادی کا جذبہ ابھارتا ہے۔
بعض اشعار قاری کے قلب پر یوں اثر انداز ہوتے ہیں کہ جس کا اظہار اشکوں کی صورت عیاں ہوتا ہے۔ راقم الحروف ایسی کیفیات سے کتاب پڑھتے ہوئے گزرا ہے۔
معرکۂ کربلا تاریخِ عالم کا وہ سانحہ ہے کہ جس کو اگر ظلم کی صورت میں دیکھا جاۓ تو ظلمِ عظیم ہے اور اگر باطل کے خلاف ڈٹے رہنے اور ظلم کے خلاف نعرۂ حق بلند کرنے کی صورت میں دیکھا جاۓ تو امامِ عالی مقام حریت کی معراج پہ نظر آتے ہیں۔
گردن میں تیر سینے میں نیزے گڑے رہے
پیاسے کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے

بیعت نہ کی کسی نے بھی دستِ یزید پر
حکمِ خدا سے حق پہ اَڑے تھے، اڑے رہے

موت بہ ظاہر شکست ہوتی ہے اور زندہ رہنا گویا فتح کی علامت، مگر کربلا کی جنگ نے فطرت کے اِس اصول کو ایسے بدل کر رکھ دیا کہ نامِ حُسینؑ قیامت تک نشانِ جرات و بہادری بنا اور نامِ یزید قیامت تک کے لیے بدبختی، جہالت و پستی، ظلم و بربریت اور نشانِ عبرت بن کر رہ گیا۔

لُٹا کے اپنا گھرانہ بھی آہ تک نہیں کی
یہ کون شخص بھلا کربلا میں رہتا ہے

دلاور علی آزر کی سلام گوئی میں استعارے کی روایت کو غیر معمولی انداز سے پیش کیا گیا ہے جو کہ اُن کی شاعرانہ جِدّتِ طبع اور قوتِ فکر کی علامت ہے، اِن استعارات سے آپ کو حسنِ کلام اور ادائیگی میں جاذبیت و دل کشی نظر آتی ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
"حُسینُ مِنّی" کی تفسیر یوں کھلی کہ مجھے
امام پر بھی پیمبر کا اشتباہ ہوا
ان کے کلام میں روایت کی پاس داری نظر آتی ہے، فضائل کے باب میں آپ کو ایسے اشعار بھی ملتے ہیں کہ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے متقدمین کی بات کو آگے بڑھایا ہے۔
امام احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر دیکھیں۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
اب دلاور علی آزر کا شعر بھی ملاحظہ فرمائیے:
تیرے افکار نے تازہ کیا ایمانوں کو
نور ہی نور کے پیکر سے نمودار ہوا
دلاور علی آزر کے مطالعۂ سلام سے یہ حقیقت کھل کر آشکار ہوتی ہے کہ انھیں مداحیِ شبیرؑ پر ناز ہے۔ آزر کے سلام عملی زندگی میں اسوۂ شبیرؑ کو رائج کرنے کا درس بھی دیتے ہیں۔

مجھے دیا گیا ایسا مقام شاعروں میں
مجھے کیا گیا معمورِ مدحِ اہل بیتؑ

اب اس کے بعد مِرے راستے میں مت آنا
دلا! میں آج سے اعلانِ گریہ کرتا ہوں

اور ایسا کلام بحرِ عشقِ رسولؐ اور مودتِ اہل بیتؑ میں غوطہ زن ہوۓ بغیر ممکن نہیں۔
دُعا ہے کہ اُن کی اس کاوش کو حسنین کریمینؑ کی اَمّی حضور اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائیں اور اللہ تعالیٰ اِس کتاب "بہتر" کو دلاور علی آزر کے لیے وسیلۂ نجات بناۓ، آمین.

انتخاب ملاحظہ فرمائیں۔

"حسین و منی" سے آغاز ہو سمجھنے کا
کہ سب سے پہلے مقامِ حسینؑ سمجھا جاۓ

ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اِک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا

جس کو غمِ حسین میں کھینچا تھا آنکھ سے
اس اشک کا نمک مِرے سارے لہو میں ہے

ورنہ اثر پذیر نہ ہوتا مِرا کلام
صد شکر ان کا ذکر میری گفتگو میں ہے

دیا بجھا کے بھی ہوتی ہے روشنی پیدا
اگر مزاجِ امامِ حسینؑ سمجھا جائے

کسی یزید کی بیعت نہیں کرے گا کبھی
سمجھ گیا جو پیامِ امامِ عالی مقام

وہ جس نے پیاس بجھانا تھی آلِ احمد کی
اسی ندی کے کنارے خیام کیسے جلے

اِنھی نے آگ لگائی نہ ہو کہیں آزر
جو پوچھتے ہیں تمھارے خیام کیسے جلے

ہمی نے خلق کو رونے کا ڈھب دیا آزر
بپا ہمی نے کِیا انقلابِ اشکِ عزا

ہماری آنکھ میں نم ہے کہ ہم حسینی ہیں
ہمیں حسین کا غم ہے کہ ہم حسینی ہیں

آزر یہ جاں کنی کا سفر طے ہو کس طرح
پڑتی ہے کربلا ہمیں جنت کی راہ میں

ایک شعلے کی لپک نور میں ڈھل کر آئی
ایک کردار بہتر سے نمودار ہوا

حق کی پہچان ہوئی خلق کو آزر اُس وقت
جب علیؑ آپؐ کے بستر سے نمودار ہوا

غمِ حسینؑ میں آنسو بہائے جب میں نے
پتا چلا کہ مِری آنکھ کتنے کام کی ہے

میری آنکھوں میں ہے لہو آزر
اور یہ ابتدائے گریہ ہے

اس کی نظیر مل نہیں سکتی جہان میں
ابن علی نے بخشا زمانے کو جو شعور

دُھلا جو اشکِ عزا سے سخن کا آئنہ
کُھلا جو حرف کا دفتر سلام پیش کیے

وگرنہ فردِ عمل میں لکھا بھی کیا جاتا
خدا کا شکر کہ آزر سلام پیش کیے
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کربلا کے جاں نثاروں کو سلام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے