سید محمد اجمل فرید کی یاد میں

سید محمد اجمل فرید کی یاد میں

شاہ عمران حسن
(نئی دہلی)

روزنامہ قومی تنظیم کے سابق مدیر سید محمد اجمل فرید سے میری ملاقات کبھی براہِ راست نہیں ہوئی۔ مگر جب تک میرا قیام ریاست بہار کے ضلع مونگیر میں رہا، روزانہ اُن سے بالواسطہ میری ملاقاتیں کثیر الاشاعت روزمانہ قومی تنظیم کے طفیل ہوتی رہیں۔
اپنی زندگی میں صرف ایک بار مجھے سید محمد اجمل فرید کی براہِ راست تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ مونگیر میں روزنامہ قومی تنظیم کے علاقائی دفتر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے سید محمد اجمل فرید مونگیر آئے تھے۔ یہ تقریب 14 ستمبر 2006ء کو مولانا محمد ولی رحمانی کی صدارت میں منعقدکی گئی تھی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سید محمد اجمل فرید نے کہا تھا کہ قومی تنظیم محض تجارت نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد اُردو اور ملت کے کاز کا تحفظ اور قومی مفادات کی بہی خواہی ہے۔ یہ ایسا مقصد ہے جس کی پاس داری یہ اخبار شروع سے کررہا ہے۔
جب کہ مولانا محمد ولی رحمانی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا تھا کہ ’روزنامہ قومی تنظیم مسلمانوں اور اُردو والوں کا ترجمان اور ان کے جذبات کا عکاس اخبار ہے. جس نے ہر اہم موقع پر اپنی بے باک اور بے لاگ صحافت سے نہ صرف خبروں کی عمدہ ترسیل کی بلکہ قوم کی رہ نمائی بھی کی ہے۔ آج یہ اخبار مسلمانوں کی ضرورت بن گیا ہے۔ ‘(روزنامہ قومی تنظیم، پٹنہ ، 15 ستمبر 2006ء، صفحہ اوّل)
جہاں تک مجھے یاد ہے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد مجھے سید محمد اجمل فرید سے ملنے یا ان کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ بس ایک ہی ملاقات پوری زندگی کے لیے میری زندگی میں ایک ’یادگار ملاقات‘ بن گئی۔
روزمانہ قومی تنظیم میرے مطالعہ میں پہلی مرتبہ 1996ء میں آیا۔ اس کے بعد جب تک میرا قیام مونگیر میں رہا۔ قومی تنظیم تقریباً ہر روز میری نظروں سے گزرتا رہا۔ اپنی زندگی کا تقریباً 10سال میں نے مسلسل روزنامہ قومی تنظیم کی خبروں پر اعتماد کرتے ہوئے گزارا ہے۔ شاید قارئین کو یقین نہ آئے، فرصت کے اوقات میں، میں قومی تنظیم میں شائع شدہ اشتہارات کا بھی مطالعہ کرلیا کرتا تھا۔
میں نے اپنی زندگی میں سید محمد اجمل فرید کی ادارت میں قومی تنظیم کی مقبولیت کو براہِ راست رونما ہوتے دیکھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دیگر اُردو اخبارات بھی مونگیر شہر میں آیا کرتے تھے لیکن عوام و خواص میں جو اعتماد رونامہ قومی تنظیم کو حاصل تھا وہ شاید کسی دوسرے اُردو اخبارات کو حاصل نہ تھا۔ میں خود اپنی ابتدائی عمر میں اس اخبار میں اپنے مضمون اور اپنے مراسلات کی اشاعت کا انتظار بہت شدت سے کیا کرتا تھا۔ میں نے بعد کی زندگی میں بے شمار ملکی اور غیرملکی اُردو اخبارات کا مطالعہ کیا۔ مگر میرے خیال میں قارئین کرام کی ذوق کے اعتبار سے قومی تنظیم نے جو مواد فراہم کیا، اس کی روایت دیگر اُردو اخبارات میں مجھے نہیں ملا۔
آج بھی میں، َجب کبھی سال دو سال بعد بہار کی سر زمین پر قدم رکھتا ہوں تو سب سے پہلے قومی تنظیم اخبار تلاش کرکے اس کا مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔
یہ بڑا عجیب اتفاق یا حسن اتفاق ہے کہ میری تحریری زندگی کا آغاز روزنامہ قومی تنظیم کے ہفتہ وار کالم یوتھ فیچر (youth feature) میں شائع شدہ ایک مضمون سے ہوا. جس زمانے میں میرا مضمون شائع ہوا تھا، اس زمانے میں یوتھ فیچر کالم کے انچارج مولانا امام الحسن قاسمی ہوا کرتے تھے۔ میرا یہ مضمون روزنامہ قومی تنظیم میں 14 مئی 2002ء کو شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے باضابطہ لکھنا شروع کیا۔ میرے کثیر مضامین اور مقالے اور افسانے روزنامہ قومی تنظیم میں شائع ہوتے رہے۔ اور تو اور 6 مئی2007ء کو روزنامہ قومی تنظیم کے سنڈے ایڈیشن میں میرا ایک تعارفی خاکہ (انٹرویو) بھی شائع ہوا تھا۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہورہی ہے کہ میری ادبی زندگی کی ابتدا قومی تنظیم کے صفحات سے شروع ہوئی۔
اس کے بعد سے ہی میں نے باضابطہ ادبی دنیا میں اپنا قدم رکھا اور اپنے ناتواں قلم سے کئی کتابیں یعنی حیاتِ رحمانی، اوراقِ حیات، حیاتِ ولی، حیاتِ غامدی، مولانا وحید الدین خاں: اہل قلم کی تحریروں کے آئینے میں، ادھورے خواب (افسانوی مجموعہ) وغیرہ علمی دنیا کو دے سکا۔
قومی تنظیم نے نئی نسل کے نوجوان قلم کاروں کو اپنی فطرت کے اظہار کے لیے ایک موقع دیا، جس سے یقینی طور پر سینکڑوں مبتدی قلم کاروں کو اپنی قلمی صلاحیت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا موقع ملا۔
22 دسمبر 2012ء کی شام کو بہار کے ممتاز سیاست داں برادرم ارشد عباس آزاد نے میری ملاقات روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلا سید محمد اشرف فرید سے کروائی تو میں نے سید محمد اشرف فرید کے سامنے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا کہ میری تحریری زندگی کوجلا بخشنے میں روزنامہ قومی تنظیم کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے. میرا یہ بیان 24 دسمبر 2012ء کو روزنامہ قومی تنظیم میں شائع ہوا، جس کی شہ سرخی اخبار نے حسب ذیل لگائی تھی:
روزنامہ قومی تنظیم نوجوان قلم کاروں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے: شاہ عمران حسن
موجودہ وقت میں یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ روزنامہ قومی تنظیم بہار کا سب سے مقبول اور کثیر الاشاعت اخبار ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ روزنامہ قومی تنظیم نے اپنے قارئین کے ذوق کا پورا لحاظ رکھا۔ اس نے ہر ذوق کے لوگوں کے لیے مواد فراہم کیا۔ کسی نے کسی اعتبار سے سب کو اپنی اپنی پسند کی چیزیں اس میں ملنے لگیں۔کھلاڑیوں کے لیے جہاں اسپورٹس ایڈیشن مختص کیا تو شعر و ادب کے لیے کالم ’زبان و ادب‘ کا سلسلہ جاری کیا۔ مذہبیات میں کالم ’اسلامیات‘ رکھا گیا تو ’یومِ اطفال‘ اور ’خواتین ایڈیشن‘ وغیرہ کالموں نے اس اخبار کی افادیت اور مقبولیت میں چار چاند لگادیا۔
میرے کام کرنے کا اصل میدان تحقیق و تاریخ ہے۔ اس لیے یہاں میں روزنامہ قومی تنظیم کے وجود و بقا کا اجمالی پس منظر بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔روزنامہ قومی تنظیم لہریا سرائے (دربھنگہ، بہار) سے 1964ء میں جاری ہوا۔ اس کو سید محمد عمر فرید (وفات: 28 نومبر1997ء) نے شروع کیا تھا۔ تین سالوں تک یہ اخبار لہریا سرائے دربھنگہ سے شائع ہوتا رہا. اس کے بعد1967ء میں اس کو صوبائی سطح پر عام کرنے کے لیے سید محمد عمر فرید نے ریاست بہار کے درالحکومت ’پٹنہ‘ میں منتقل کردیا۔ اس کا صدر دفتر پٹنہ کا مشہور محلہ ہے ’سبزی باغ‘ ہے۔ میں اخبار کے دفتر میں اپنی زندگی میں بس ایک بار جاسکتا ہوں۔
ابتداً قومی تنظیم کو بہت حوصلہ شکن تجربات سے گزرنا پڑا۔ اس کی تعداد اشاعت بھی ابتداً کم تھی۔ اس درمیان کئی اردو اخبارات مثلاً سنگم اور ایثار وغیرہ بہار پٹنہ سے شائع ہوئے اور بند ہوگئے، جس نے قومی تنظیم کی اشاعت کو بڑی حد تک متاثر کیا۔
ہندستان کے مشہور عالم دین مولانا محمد ولی رحمانی نے بھی اپنی ادارت میں 1984ء میں روزنامہ ایثار نکالا جو کافی مقبول ہوا۔ اور مولانا نے اسی اخبار کے ذریعہ اُردو داں حلقوں کو بہار میں پہلی مرتبہ آفسیٹ پریس سے روشناس کرایا۔ ایثار کے بند ہونے کے بعد قومی تنظیم کو اپنی وسعت بڑھانے کا ایک بہترین موقع ملا۔ اس نے اپنی طباعت کے ساتھ ساتھ مضامین کا بھی معیار بلند کیا اور خطہ بہار کے ہر حصہ میں اسے پہنچانے کا عزم بنایا۔ جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی ملی۔
سید محمد عمر فرید ایک صاحبِ بصیرت شخصیت تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو مل جل کام کرنے کی ایک عمدہ مثال پیش کی۔ جس سے روزنامہ قومی تنظیم کو اپنی وسعت کو مضبوط کرنے میں بہت زیادہ کامیابی ملی۔اس کے مالکان نے خاندانی معاملات کو کاروباری معاملات سے بالکل الگ رکھا، جس کی وجہ سے روزنامہ قومی تنظیم داخلی انتشار سے بچا رہا۔ سید محمد عمر فرید نے اپنے بڑے صاحب زادے سید محمد اشرف فرید کو روزنامہ قومی تنظیم کا مدیر اعلا بنایا تو دوسرے صاحب زادے کو سید محمد اجمل فرید کو مدیر و مالک نامزد کیا جب کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو سید محمد فاروق فرید کو منیجنگ ایڈیٹر پر فائز کیا۔ تینوں صاحب زادوں کی ذمہ داریاں انھوں نے الگ الگ کردیں جس سے کام کرنے میں بڑی آسانی ہوئی۔ جس طرح آزادی ہند میں ’علی برادران‘ نے اپنی ایک مضبوط پہنچان بنائی تھی اسی طرح قومی تنظیم کے وجود کو استحکام بخشنے میں ’فرید برادران‘ کا زبردست اتحاد موجزن رہا ہے۔
1959ء میں سید محمداجمل فرید کی پیدائش لہریا سرائے (دربھنگہ، بہار) میں ہوئی تھی. اپنی عمر کی تیسری دہائی یعنی 1986ء میں انھیں قومی تنظیم کا مدیر و مالک بنایا گیا اور انھوں نے مسلسل 30 برسوں تک روزنامہ قومی تنظیم کی بے داغ ادارت کی. یہ بڑا حسن اتفاق ہے کہ اسی سال سے یعنی 1986ء سے روزنامہ قومی تنظیم آفسیٹ سے شائع ہونا شروع ہوا۔ سید محمد اجمل فرید نے اخبارکی نوک پلک درست کرنے میں اپنی اہم ذمہ داری نبھائی۔ اس درمیان بہت سے مراحل آئے اور گزر گئے۔ ان کے والد سید عمر فرید کا بھی انتقال ہوا۔ مگر سب بھائیوں نے مل جل کر ملی کام کرنے کا والد صاحب کا فیصلہ برقرار رکھا اور اخبار کی ساکھ پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دی. اسی سال میں پیدا ہوا۔

سنہ 1999ء میں سید محمد اجمل فرید نے قومی تنظیم پبلی کیشن پرائیویٹ لمیٹڈ  (Qaumi Tanzeem Publication Pvt.Ltd) قائم کرکے اس اخبار کو ایک کمپنی کی شکل دی۔ بہار کی تقسیم (15 نومبر 2000ء) کے بعد ایک نئی ریاست ’جھارکھنڈ‘ وجود میں آئی اور رانچی کو اس نئی ریاست کی راجدھانی بنادیا گیا۔ نئی ریاست اور نئی راجدھانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے قومی تنظیم کا جھارکھنڈ ایڈیشن 16 اپریل 2004ء سے رانچی سے شائع ہونا شروع ہوا۔
سنہ 2005ء میں سید محمد اجمل فرید نے اخبار کی اشاعت کے لیے اخبارکا اپنا پریس قائم کیا اور 18 جنوری 2006 ءسے اخبار کی اشاعت اپنے پریس سے ہونے لگی ۔ 23جنوری2006 ءوہ تاریخی دن تھا جب کہ روزنامہ قومی تنظیم دورِ قدیم سے نکل کر دورجدید میں داخل ہوا۔ یعنی اسی دن سے روزنامہ قومی تنظیم رنگین کاغذ پر شائع ہونے لگا۔پہلی دفعہ رنگین اخبار دیکھ کر مجھے بھی بہت زیادہ خوشی ہوئی تھی کیوں کہ اس کی اشاعت کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ دیگر زبانوں کے مقابلے میں ہماری مادری زبان میں اُردو کے اخبار کی اشاعت رنگین کاغذپر شائع ہونا شروع ہورہی تھی۔اس سے خوش آئند بات اور کیا ہوسکتی تھی ۔
15 جولائی2015ء کو مجھے بہار کانگریس پارٹی کے ترجمان برادرم ارشد عباس آزاد (پٹنہ)کے فیس بک پروفائل سے سید محمداجمل فرید کے انتقال کی خبر ملی تھی ۔روزنامہ قومی تنظیم سے گہری وابستگی کی وجہ سے یہ خبر میرے لیے ایک انتہائی اہم خبر تھی۔مجھے قومی تنظیم کے حوالے سے بہت سی باتیں یاد آنے لگی جس کو میں نے قارئین کرام کے روبرو پیش کرنا مناسب سمجھا۔
مولانا انیس الرحمٰن قاسمی (ناظم امارت شرعیہ) نے انجمن اسلامیہ ہال کے وسیع احاطے میں نماز جنازہ 16 جولائی 2015ء کو پڑھائی. رمضان کی مصروفیات کے باوجود کثیر تعداد میں لوگوں نے جنازے کی نماز میں شرکت کی اور انھیں شاہ گنج (پٹنہ) کے قبرستان میں اپنے والد کی قبر کے پہلو میں دفن کیا گیا. ایک شخص جو پوری زندگی اپنے والد کا فرماں بردار تھا اپنی زندگی کے بعد بھی والد کے پہلو میں جاکر لیٹ گیا۔
ایک تاریخ محض57 سال میں ختم ہوگئی، مگر اس کو خدا نے کام کرنے کا جو بھی موقع عنایت کیا تھا اور جو بھی ذمہ داریاں دی تھیں، اس کو اس نے پورا کرنے کی حتی الامکان کو شش کی اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ یہی سب سے بڑا سبق ہے جو ہمیں سید محمد اجمل فرید کی زندگی سے ملتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سید محمد اجمل فرید کو ان کے کام کے سبب زبردست عظمت و مقبولیت ملی۔شاید یہی سبب ہے کہ ان کی وفات کو کئی ماہ گزرنے کے بعد ان پر لکھنے کا اور بولنے کاسلسلہ جاری ہے گویا ان کی زندگی علامہ اقبال کی زبان کی عملی مصداق بن گئی:
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
Shah Imran Hasan
Plot No-22, Shah House,
Makki Masjid Colony, Madanpur Khadar Extn,
Part 3, Gaushala Road, Sarita Vihar,New Delhi-110076,
Mob:9810862382,E-mail:sihasan83@gmail.com
***
شاہ عمران حسن کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں: مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی : ایک تاریخ ساز شخصیت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے