مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی : ایک تاریخ ساز شخصیت

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی : ایک تاریخ ساز شخصیت

شاہ عمران حسن
نئی دہلی
E-mail:sihasan83@gmail.com
9810862382

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اُن خوش نصیب شخصیات میں سے ایک تھے، جنھیں اپنے ماموں مولانا علی میاں کی تربیت و سرپرستی میں رہنے کا موقع ملا۔ اگر یہ بات کہی جائے کہ انھوں نے اپنے بھائیوں میں اپنے ماموں سے سب سے زیادہ استفادہ کیا تو یہ بات عین درست ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں مولانا عبداللہ عباس ندوی لکھتے ہیں: مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی خود مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی تصویر ہیں اور تصویر مجسم ہیں، صورت شکل بھی مولانا سے مل گئی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کا نمونہ ہے کہ مولانا کو ایسا جانشین دیا جو بلا نزاع ان کا آئینہ ہے۔(مولانا سیدابوالحسن علی ندوی: عہد ساز شخصیت، مولانا عبداللہ عباس ندوی، صفحہ:22)
یہ حقیقت ہے کہ مولانا علی میاں نے زیر تربیت افراد کی ایک پوری ٹیم چھوڑی ہے جو ان کے بعد ان کے کاموں کو بہ حسن و خوبی انجام دے رہی ہیں، ان میں سے اہم ترین نام ‘مولاناسیدمحمد رابع حسنی ندوی` کا ہے جن کی تحریر و تقریر سے عالمِ اسلام نہ صرف واقف ہے بلکہ جن سے استفادہ بھی کر رہا ہے۔ وہ اپنی اعتدال پسندی اور غیر متنازع شخصیت ہونے کے سبب ہر مسلک و مشرب میں نہاہت ہی عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ فطری سی بات ہے کہ آدمی ان کے حالات و واقعات بھی جاننا چاہتا ہے، اس لیے ذیل میں ان کی زندگی کا مختصر سا منظر نامہ پیش کیا جارہا ہے۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی پیدائش 25 اکتوبر 1929ء تکیہ کلاں (رائے بریلی) میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید رشید احمد حسنی تھا اور والدہ کا نام سیدہ امۃ العزیز تھا۔ ان کی والدہ مولانا علی میاں کی بڑی ہمشیرہ تھیں۔
آج بتاریخ 13 اپریل 2023 کو مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا انتقال لمبی علالت کے بعد لکھنو میں 94 سال کی عمر میں ہوگیا۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے اپنی ابتدائی تعلیم خاندانی روایت کے مطابق رائے بریلی کے اپنے خاندانی مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد ان کا داخلہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہوا، جہاں سے انھوں نے 1948ء میں فراغت حاصل کی، دریں اثنا انھوں نے دارالعلوم دیوبند میں بھی ایک سالہ کورس کیا. 1949ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ کے شعبہ ادب عربی میں بہ حیثیت معاون اُستاد مقرر ہوئے۔ دو سال (1950-1951) تک انھوں نے حجاز مقدس میں علمی استفادہ کے لیے اپنا وقت گزارا، جہاں کے علماء ادبا، علمی شخصیات اور وہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔
سنہ 1952ء میں وہ ہندستان واپس آئے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عربی ادب کا درس دینے لگے. 1955ء میں انھیں شعبہ ادب عربی کا صدر بنایا گیا۔ 1970ء میں عمید کلیتہ اللغۃ العربیہ دارالعلوم ندوۃ العلماء مقررہوئے۔ 1993ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا منصب اہتمام ان کے سُپرد کیا گیا. 1998ء میں انھیں نائب ناظم بنایا گیا اور مولانا علی میاں کی وفات کے بعد متفقہ طور پر انھیں دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ناظم بنایا گیا۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بنانے سنوارنے میں نہ صرف ان کے بڑے ماموں ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی کا ہاتھ رہا بلکہ چھوٹے ماموں یعنی مولانا علی میاں کا بھی انھیں بہت زیادہ تعاون ملا۔ انھوں نے بھی ان کی تعلیم و تربیت میں خاص دھیان دیا۔ جب مولانا علی میاں حج کے سفر پر گئے تھے اس وقت ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی نے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو یک سالہ تعلیم کے لیے دیوبند بھیجا اور اس کے تمام اخراجات خود برداشت کیے. ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی روز مرہ کی زندگی کے کام کرتے ہوئے اپنے بچوں اور اپنے رشتہ داروں کے بچوں کی تربیت کرتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بچوں نے اعلا صلاحیتوں کے ساتھ اپنا قدم علم کی دنیا میں رکھا اور دنیا والوں کے لیے علم کا ذریعہ بنے۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے متعدد مرتبہ اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے دونوں ماموں کا حصہ رہا ہے۔ اگرچہ چھوٹے ماموں یعنی مولانا علی میاں کی نگاہ شفقت انھیں زیادہ ملی، یہی وجہ ہے کہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی لکھتے ہیں: ‘مجھ کو اپنے چھوٹے ماموں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی نگرانی اور سرپرستی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا، بلکہ میری تعلیم کا خاصا حصہ براہِ راست ان کی استادی میں گزرا اور پھر شاید اسی مناسبت سے بعد میں مجھ کو ان کی علمی مشغولیتوں میں خدمت اور تعاون کی سعادت بھی زیادہ ملی اورعربی سے تعلق کے کاموں میں خدمت اور ذیلی طور پر تعاون دینے کا موقع ملا، اور باہر کے سفروں میں جو زیادہ تر بلاد عربیہ میں ہوئے، اکثر ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ ان کے علمی مسودادت کو صاف کرنے اور پروف دیکھنے اور طباعت و اشاعت کے سلسلے میں جو خدمت درکار تھی، اس میں بھی خاصی حد تک لگنا ہوا۔ اس طریقہ سے ان کے ساتھ رہنے اور ان کو مختلف موقعوں پر کام کرنے اور کسی مسئلہ میں رائے رکھنے سے واقفیت کا موقع ملا، اور ان خدمت سے بڑی حد تک ان کے اطمینان و رضا مندی کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک طرف مجھے ان کا بھانجا ہونے کی وجہ سے شفقت حاصل رہی دوسری طرف شاگردی کا تعلق ہونے کی وجہ سے عقیدت حاصل ہوئی اور تیسری طرف ان کے کاموں میں خدمت کا شرف حاصل ہونے سے ذیلی مناسبت بھی حاصل ہوئی۔` ( مولانا سید ابو الحسن علی ندوی: عہد ساز شخصیت مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، صفحہ: 18-19)
مولانا علی میاں کی تربیت میں رہ کر انھوں نے جو چیز سیکھی ان میں سے ایک چیز تھی کہ ہر انسان سے محبت کرنا اور ہر انسان کو برابر سمجھنا ہے۔ اپنے کو بڑا نہ سمجھنا اور جو کسی بھی ضرورت کے لیے ان سے مدد مانگے، ان کی مدد ضرور کرنا۔ اس کی ایک واقعاتی مثال میں اپنی زندگی سے دینا چاہتا ہوں۔ میں نے مختلف مراحل کے سلسلے میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو کئی خطوط لکھے اور ہر خط کا جواب انھوں نے اپنے دستخط کے ساتھ دیا۔ فروری 2006ء کے پہلے ہفتہ میں نے مولانا وحیدالدین خاں کے سلسلے میں ایک خط لکھا تھا اور ان سے مولانا موصوف کے متعلق رائے پوچھی تھی۔ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے اپنے دستخط کے ساتھ جو جواب دیا، وہ یہاں نقل کررہا ہوں تاکہ سند رہے:
مکرمی جناب شاہ عمران حسن صاحب زید لطفہ السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
آپ کا خط بصورت پوسٹ کارڈ مجھے موصول ہوا۔ رمضان کا مہینہ تھا. میں جلد جواب نہ دے سکا۔
آپ نے مجھ سے مولانا وحیدالدین خاں صاحب کے بارے میں رائے معلوم کی ہے۔ ماہنامہ ‘الرسالہ` میرے پاس نہیں آتا ہے، میرے پاس اس کے شمارے بھی نہیں ہیں۔اس طرح وہ میرے مطالعہ میں نہیں آتا۔ لہٰذا اس میں شائع ہونے والی باتوں سے میں واقف نہیں ہوں۔ لہٰذا اس میں طبع ہونے والی باتوں کے بارے میں کوئی رائے بھی نہیں دے سکتا۔ مولانا وحیدالدین خاں سے میری ملاقات بھی عرصہ سے نہیں ہوئی ہے۔ وہ بہت عرصہ قبل جب علم جدید کا چیلنج (مذہب اور جدید چیلنج) تصنیف کر رہے تھے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تھے، ان سے ملاقات ہوئی تھی. جس کو کئی دہائی کا عرصہ گزرا، لکھنؤ سے جانے کے بعد رابطہ نہیں رہا؛ اس لیے مجھ سے ان کے متعلق رائے معلوم کرنا زائد از ضرورت بات ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ والسلام
8 شوال1427 ہجری مطابق 31 مارچ 2006ء محمد رابع حسنی ندوی
اسی طرح جب میں نے مولانا منت اللہ رحمانی پر لکھی جانے والی اپنی کتاب ‘حیاتِ رحمانی` (شائع شدہ: 2012ء) کے لیے ان سے پیغام لکھنے کی درخواست کی تو انھوں نے فوراً اپنے دستخط کے ساتھ ایک پیغام ارسال کیا جو کہ کتاب مذکورہ میں شامل ہے۔ اس تاریخی پیغام کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
مکرمی جناب شاہ عمران حسن صاحب السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
آپ کا خط (3جنوری2007ء) ملا۔ اِس میں آپ نے اپنی تصنیف ‘حیاتِ رحمانی` کا ذکر کیا ہے، جو آپ نے مولانا منت اللہ رحمانی کی شخصیت پر تیار کی ہے۔ یہ کام آپ نے بہت اچھا کیا ہے۔ مولانا منت اللہ رحمانی بڑی شخصیت کے مالک تھے۔ امت مسلمہ کے لیے اُنھوں نے بڑی قابلِ قدر رہ نمائی کا کام انجام دیا اور باطنی اصلاح و ارشاد کا کام بھی موثر ڈھنگ سے انجام دیا۔ وہ مسلمانوں کے قائدین اور مفکرین میں سے تھے، اُن کی شخصیت سے واقفیت حاصل کرکے اُن کی خوبیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
والسلام، 19؍1؍1428ہجری، محمد رابع حسنی ندوی
مطابق 18؍فروری2007 ء دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
(حیاتِ رحمانی، شاہ عمران حسن، صفحہ: 10، اشاعت اوّل: 2012، ناشر: رہبر بک سروس، نئی دہلی)
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اِنھی گونا گوں خوبیوں کی وجہ سے ہر طبقہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، جہاں وہ بڑوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں وہیں وہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا بھی خوب جانتے ہیں، جس کی بین مثال میری پہلی کتاب ‘حیاتِ رحمانی` کے لیے لکھے گئے ان کے پیغام میں دیکھی جاسکتی ہے۔
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو تصنیف و تالیف سے بھی دل چسپی ہے، ان کی عربی اور اُردو میں 30 سے زائد کتابیں  شائع ہوکر مقبول خاص وعام ہوچکی ہیں۔ انھوں نے 1959ء میں ایک عربی مجلہ ‘الراعد` جاری کیا، جس کی اشاعت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عربی داں اہل علم کے علاوہ طلبہ بھی بڑی تعداد میں اس کا مطالعہ و استفادہ کرتے ہیں۔ عربی زبان و ادب کی  خدمات انجام دینے کے اعتراف میں اُنھیں 1982ء میں صدرِ جمہوریہ ایوارڈ مل چکا ہے۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دارالعلوم ندۃ العلماء کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ ہندستان کے مختلف اداروں مثلاً آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، رابطہ ادب اسلامی، مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام، مجلس صحافت و نشریات، دینی تعلیمی کونسل، دارِ عرفات، رابطہ عالم اسلامی، دارالمصنفین، آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز، مولانا محمد ثانی میموریل سوسائٹی، مولانا عبدالباری سوسائٹی، مولانا ابوالکلام آزاد اکیڈمی، تحریک پیامِ انسانیت، مولانا ابوالحسن اکیڈمی وغیرہ سے بھی وابستہ [رہے] ہیں اور اُن اداروں کو مسلسل اپنا تعاون دیتے رہتے [رہے] ہیں۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا نکاح ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی کی صاحب زادی سیدہ رقیہ سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک بیٹی سے نوازا، اس کا نام سیدہ ہاجرہ حسنی ہے۔ انھیں شعر و ادب سے بھی لگاؤ ہے، وہ اشعار موزوں کرتی ہیں۔ مولانا علی میاں کی وفات پر انھوں نے ایک نظم لکھی جو کہ میری کتاب میں شاملِ اشاعت ہے۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی اہلیہ سیدہ رقیہ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ ان کی زندگی پر بھی ان کے والد ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی کا زبردست اثر ہوا۔ انھوں نے اپنے شوہر کا پورا ساتھ دیا۔ آخر میں ان کی صحت خراب ہوگئی تھی، بالآخر وہ 9 فروری 1996ء کو انتقال کرگئیں۔ اہلیہ کے انتقال کے محض 4 دن بعد 13 فروری 1996ء کو مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی والدہ ماجدہ سیدہ امۃ العزیز کا بھی انتقال ہوا تھا۔ ایک ہفتے میں دو دو جانکاہ ذاتی حادثے پیش آئے، انھوں نے اسے مشیتِ ایزدی سمجھ کر قبول کرلیا اور اپنا سب کام حسب معمول کرتے رہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے آگے سبھی کو سرِ تسلم خم کرنا پڑتا ہے۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی جیسی نابغہ روزگار شخصیت پر نہ صرف جامع مضمون لکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ان پر مسقتل کتاب لکھی جانی چاہئے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی خدمات کو جان سکیں اور اپنے لیے کوئی لائحہ عمل تیارکر سکیں، جب تک نئی نسلوں کو ان کے اسلاف کی کارکردگی کے بارے میں نہیں بتایا جائے گاتب تک ان کے اندر کام کرنے کا جذبہ نہیں اُبھر سکتا۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے یہاں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے بارے میں معلومات درج کرتے وقت بہت اختصارسے کام لیا ہے تاہم میں نے طوالت کے خوف سے ایسا کیا ہے۔
****
شاہ عمران حسن کی گذشتہ نگارش :شاملی کا سفر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے