بارہ قباؤں کی سہیلی: عذرا پروین

بارہ قباؤں کی سہیلی: عذرا پروین

جبیں نازاں
لکشمی نگر، نئی دہلی، ہند
jabeennazan2015@gmail.com

عذرا پروین نے 6/جنوری1961ء کی یخ بستہ رات کو کپکپاتے لمحات میں 4:30 منٹ پر اپنے نانیہال انّاؤ (یوپی) میں آنکھیں کھولیں. مانو آسماں سے جل پری اتری ہو، نرم و ملائم گورے پاؤں کو جب دایا نے سہلایا، نین کٹورے چھلک پڑے. جب ماں نے دیکھا دیکھتی رہ گئیں، گھنگھریالے سنہرے گھنے بال، کشادہ پیشانی، چہرہ چاند سا روشن، یاقوتی ہونٹ، رخسار، جیسے کشمیری سیب ۔۔۔۔
میرا قیاس ہے کہ انھیں دیکھ کر ہی مشہور زمانہ حسن و جمال میں یکتا عذرا (وامق) نام ذہن میں ابھرا ہوگا. اور ان کا نام عذرا پروین رکھا گیا ہوگا.
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ جو خوب صورت ہوتا ہے، اس کی ہر شے خوب صورت ہوتی ہے. عادات و اخلاق گفتار و کلام ۔۔خوش قسمتی سے گر وہ فن کار ہوجائے تو پھر اس کا فن بھی لاجواب ہوتا پے.
عذرا پروین صاحبہ اکتسابی شاعرہ نہیں بلکہ میں پیدائشی شاعرہ کہوں تو اسے مبالغہ آمیزی نہ سمجھا جائے.
عذرا پروین نے کم عمری سے لکھنا شروع کیا. پہلا افسانہ ‘سن پتلی` کے عنوان سے لکھا اور اس وقت کے معیاری رسالہ ‘روبی` کے کہانی نمبر میں شائع ہوا، اور اول انعام کا مستحق قرار پایا. سردست یہاں بتاتی چلوں کہ عذرا پروین چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہیں، چھوٹی بہن رعنا پروین کے اشتراک سے ایک ناول بھی تحریر کیا، لیکن عذرا کی لاپروائی کے سبب ردی کے ساتھ فروخت ہوگیا۔
پھر عذرا شاعری کی طرف متوجہ ہوئیں. غزلیں کہتی رہیں اور نظمیں لکھتی رہیں۔ لیکن قارئین نے ان کی غزلوں پر نظموں کو فوقیت دی۔ پھر عذرا نظموں کے تئیں سنجیدہ ہوگئیں اور شعوری طور پر نظموں کی طرف متوجہ ہوئیں، قارئین افسانہ نگار عذرا کو بھول بیٹھے. افسانہ نویس عذرا سے نظموں کی شاعرہ عذرا آگے نکل گئیں.
ان کی نظمیں ‘کہاں ہو شیام` اور ‘تم` کافی پسند کی گئیں۔
عذرا محبت سے لبریز معصوم میرؔا کی طرح بن بن اپنے شیام کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے. شاید شیام مدھوبن میں گوپیوں کے جھنڈ میں گھرا بیٹھا ہے.
‌ ‘تم کہاں ہو شیام`
آخر کتنا رقص کروں میں
اور اب کتنا روپ بھروں
کتنا چاند کی چاندنی پی لوں
کتنا پتوں پھولوں کے رس سے
کتنا موسم کی نس نس سے
رنگ پیا، شرنگار جیا ہے
پھر بھی چھپا
مِرا شیام پیا ہے
میں وہ ابھاگی، وہ میؔرا ہوں
جس سے اس کا شیام کھوگیا ہے
اب تو پھر آؤ!
اپنی کانتی سے اپنی جیوت سے
اپنی روح سے میری مان بڑھادو
مجھ میں اتنا رقص کرو کہ
وجد کے سارے رنگ جگادو
دیے کی لو تم اتنی بڑھادو
دیے سبھی سورج بن جائیں منظر اچرج بن جائیں
شیام پیا، میرےشیام پیا
نظموں کی محبت سے لبریز عذرا پھول، شبنم ستارہ ہے تو غزل کی عذرا بپھری ہوئی لہر لہر آگ، اور انگارہ ہے.
پھول شبنم، ستارہ سے آگ اور انگارہ بننے کا سفر اپنے آپ میں انتہائی خوفناک ہے. کم عمری کے خواب جب تعبیر کی شکل میں زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہوتے ہیں، تب ردعمل کے طور پہ بغاوت کا جذبہ ابھرتا ہے اور بہ حیثیت انسان اگر عملی طور پہ گھر، معاشرے، کی جانب سے طے کردہ اصول و اقدار سے انحراف کرنے میں ناکام ہوتا ہے، تب اس شخص کی فکر و خیال میں حد درجہ بغاوت اور انحرافی کیفیت پائی جاتی ہے، حتی کہ مثبت باتیں، درست اقدام کو بھی اپنے تئیں منفی نظر اور سازشی حربہ تصور کرنے لگتا ہے اور یہ مقام ماہر نفسیات کی زباں میں "ذہنی پیچیدگیاں" کی ابتدا کہلاتی ہے.
بہرحال! بغاوت اور انحرافی فکر و خیال کی انتہا ملاحظہ فرمائیں!
میں بد گمانی حوا سے خلق کردہ ہوں
میرے خمیر میں شک آگہی کی ابجد ہے
ڈوب جاؤں تو ڈبوتا نہیں پورا پورا
مجھ سے کرتا نہیں سودا کوئی پورا پورا
عجب ہوں تم میں لگا کر خود اپنے قد کا جوڑ
تلاش کرتی ہوں یہ تم ہو یا مرا قد ہے
تو میرے چین کی چابی چھپا گیا کس میں
ہوا میں ڈھونڈوں اسے میں فلک میں بادل میں
میں گھٹن بھرا پنجرہ ہوں گو محبت ہوں
یگوں سے میں نے خود اپنا جہاں نہیں دیکھا
کہتے ہیں ادب اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے. عذرا اس آئینے میں معاشرے کا عکس اتار کر زمانے کو دکھا رہی ہیں. لو دیکھو! ترقی یافتہ دنیا ترقی پذیر ملک کے روشن خیال معاشرے کے ایک مہذب اور دینی گھرانے کی تصویر ہے یہ ۔۔ا
ایک خاتون جس کے شعری سرمایے کو نسائی خانے میں ڈالنے کی دانستہ اور سوچی سمجھی ‘شرارت` سے تعبیر کرتی ہوں میں۔ یہ نسائی لب و لہجہ نہیں بلکہ مرد اساس معاشرے کے ظلم و ستم کا اظہار و بیان ہے. یہ طویل سلسلہ ہے، مجھے حیرت ہوتی ہے جب منٹو ٹھنڈا گوشت، کھول دو، لائسینس، ہتک، لکھتا ہے، تو معاشرے کا ‘ناسور، کہا جاتا ہے اور اس کہانی کار کو مریض معاشرے کا ‘معالج` قرار دیا جاتا ہے، اور جب عصمت چغتائی لحاف، ننھی کی نانی, واجدہ تبسم نتھ اترن، نتھ کا بوجھ لکھ رہی ہوتی ہے، ادبی دنیا انھیں باغی ادیبہ قرار دیتا ہے.
ادب کو صنفی خانوں میں تقسیم کرنے کی روش نے ادیبہ اور شاعرات کے ساتھ انصاف نہیں کیا. اس گلوبل عہد میں تو بالکل نہیں.
عذرا پروین مناظر فطرت کی شیدائی ہیں. وہ بادل، پھول، تتلی، سمندر، پہاڑ، جھرنوں سے مکالمہ کرتی ہیں. اور یہ مناظر بھی ان سے ہم کلام ہوتے ہیں. یہ گفتگو "خاموشیوں کی صدا" کہلاتی ہے. ایک مقام پہ یہ صدا "تنہائی کا شور" بن جاتی ہے. اسے سننے کی تاب ہر انسان گوارا نہیں کرتا اور جو گوارا کرتا ہے، وہ اسے کبھی شاعری میں، کبھی تصاویر، کبھی موسیقی میں جذب کرلیتا ہے. اور ہمارے سامنے پیش کرتا یے. عذرا ان میں سے ہی ایک فن کار ہیں. ہمارے سامنے ان کی یہ نیاز مندی کاغذ پہ لفظوں کے جال بننے لگتی ہیں. یہ قصہ ان کی دو بہترین دوست بیٹیاں سناتی ہیں، جدھر ہاتھ ڈالئے کاغذ کے پرزے مل جائیں گے. کسی ٹکڑے پہ ایک آدھ مصرع کسی میں صرف ایک دو الفاظ، کسی میں آدھ کسی میں ایک شعر، کسی میں فقط چند حروف، کبھی یہ آپ کو شکر کے ڈبے میں تو کبھی گیس چولھے کے نیچے مڑا تڑا سا ملے گا.
عذرا کو خود سے شکایت ہے، وہ دنیا بیزار نظر آتی ہیں. باوجود اس کے عشق کے رنگ میں پور پور ڈوبی نظر آتی ہیں. وہ عشق کا ایسا الاؤ ہیں، جس میں خود بھسم نہیں ہوتیں، بلکہ اپنے ساتھ قاری کو بھسم کر ڈالتی ہیں.
وہ کسی سے کوئی سمجھوتا کرنا نہیں چاہتیں، خود سے بھی نہیں، تصوف پسند عذرا ہمہ تن مراقب ہوکر اپنے عملی تجربے کو فنی شعور عطا کرتی ہیں. اپنے عشق میں سچی عذرا محبوب سے یوں ہم کلام ہوتی ہیں:
نہ تیرا عشق قائم نہ میرا حسن قائم
تیری نگاہ مٹی، میرا سہاگ مٹی
میں زندگی تھی مجھے بھی شہید رہنے دیا
وحید تم تھے کیوں مجھے وحید رہنے دیا
تو بھی شاید مجھ جیسا ہے
میرے سچ دب گئے اسی قیاس تلے
اب اتنا مجھے تنکا تنکا کون چنے
میں آندھی کے بعد کا منظر ہوں
تم رنگوں کی بھوک سے مرنے والے ہو
میں رنگوں کے بوجھ سے مرتا منظر ہوں
غلط ہے میں نے گزارے کسی حضور میں دن
بتائے ہیں میں نے سورہ کہف میں دن
میں پھر تمھارے قدموں سے چل پڑی ہوں شاید
تم جاگتے ہو مجھ میں، میں سو پڑی ہوں شاید
فنا ہیں آنکھیں یہ رخسار و حسن و لب دھوکا
لکھو گمان کے کھاتے میں سب کا سب دھوکا
عورت و مرد کے مابین صدہا سال کی نابرابری کی روایت کا اظہار شعوری کوشش نہیں، بلکہ فطری جذبہ ہے. جس طرح پھول کے کھلتے ہی خوش بو کا بکھرنا طے ہے، ویسے ہی دھوپ کی تمازت میں پھولوں کا مرجھانا بھی تسلیم شدہ حقیقت ہے. اس حقیقت سے سر موانحراف کذب بیانی کے سوا کچھ نہیں. ہر ظلم و ستم سہہ کر محبوب کی آزمائش پہ کھرا اترنے کےلیے کبھی سیتا بن کر "اگنی پریکشا" سے گزرنا ہوتا یے، کبھی میرا بن کر "وش" پینا پڑتا ہے، کبھی ایک ہزار رات تک کہانی سنانا پڑتی ہے. کبھی کچا گھڑا لے کر چناب میں کودنا ہوتا ہے. کبھی’امر پالی` کی طرح آگ کے گھنگھرو پہن کر ساری رات سوئی کی نوک پہ رقص کرنا پڑتا ہے، پھر بھی عورت بے اعتبار اور کم زور ترین مخلوق تصور کی جاتی ہے.
وہ میری راہوں میں آگ رکھ کر مجھے سفر سے ڈرا رہا ہے
اب آگ پہ ننگے پاؤں چل کر میں اس کو ڈرارہی ہوں
جنگل تمھارا ٹھیک ہے بارش تمھاری
مجھ کو بھی اک شجر پہ سفارش تمھاری
تم نے چھینے تھے پھول بھی میرے
آگ کا رقص بھی تمہی دیکھو
سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی
بپھری تو لہر لہر انگارہ تھی
جب آگہی کا مِرا سلسلہ بھٹکتا ہے
مِرا بھی ہاتھ مرا دل بہت جھٹکتا ہے
جسے نسائی جذبات و احساسات کی شاعری کہا جاتا رہا ہے، ان جذبات و احساسات سے مرد شعرا مبرا رہے ہیں؟
محبت، جہاں شبنم پھول ستارہ بنا ڈالتی ہے، وہیں بے اعتنائی، بے توجہی شعلہ، پتھر، خار، انگارہ، اور نہ جانے کیا کیا بنا کر رکھ دیتی ہے. عہد قدیم سے عہد جدید تک لڑی جانے والی جنگیں کیا ہیں؟ ہر کس و ناکس بہ خوبی واقف ہے. ان تمام جنگوں کے نصف حصہ کی بھی ذمے دار عورت نہیں، تو پھر مرد خود کو تعمیر پسند اور عورت کو تخریب کار کیسے کہہ سکتاہے؟؟
ہر شاعر نے کسی خاص لفظ کو اہمیت دی ہے، مثلاً کسی نے اسیری، قفس، زنداں، صیاد کو تو کسی نے درد دل، دل ناداں، ابن مریم، شمع، پروانہ، کسی نے شاہین، خودی، گنبد، بحر، کرگس، کسی نے صنم، چمن، صحرا جام و مینا، رقص و سرور. زنداں، وغیرہ الفاظوں کا خوب خوب استعمال کیا. پروین شاکر نے شاعری میں لفظ ‘خوشبو` اس قدر برتا کہ اردو ادب میں "خوشبو" کے نام سے مشہور ہوئیں. ویسے ہی عذرا ہوا پانی اور مٹی کو بہ طور خاص استعمال کرتی رہی ہیں. کبھی استعارے کے طور پہ تو کبھی علامت و تشبیہات کے طور پہ بہ کثرت مل جائیں گے. انسان کا آغاز مٹی ہے اور انجام بھی مٹی. لہذا ‘مٹی سے مٹی` ہونے تک کے سفر کے تمام اسرار و رموز کو مٹی کے پیرایے میں بیان کرنا ان کی حکمت عملی رہی ہو، کہ زندگی کی حقیقت بس اتنی سی ہے مٹی کا انجام مٹی.
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پہلے شعری مجموعہ کا نام بھی "راگ راگ مٹی" رکھا.
مٹی ہوں میں میرا پانی کل میری آگ مٹی
میں سب سروں میں مٹی میں راگ راگ مٹی
خود اپنی مٹی میں بیدار آگ بھی آندھی
مجھے خمار گل سے پلید رہنے دیا
کھویا جو تیری خاطر سب کچھ تو کچھ نہ کھویا
اپنی بساط کیا تھی مٹی کا تیاگ مٹی
عذرا کی شاعری کا ایک وصف بہت نمایاں ہے کہ وہ اپنی شاعری میں دسمبر (ماہ دسمبر کو آج کے تقریباً تمام شعرا و شاعرات استعمال کرتے رہے ہیں) کے علاوہ دیگر انگریزی مہینوں کو شاید پہلی بار بہ طور استعارہ اور علامت کثرت سے استعمال کرتی ہیں. ہندی کے بارہ مہینوں پہ مشتمل بارہ ماسہ بہت مشہور ہے۔ جسے کئی شعرا نے لکھا ہے۔ اردو میں صلاح الدین پرویز بھی ‘بارہ ماسہ` لکھ چکے ہیں.
بہرحال! عذرا پروین کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کبھی اسپرش میں جولائی تھا وہ
کبھی خوشبوؤں میں فروری تھا
بس عنقریب دسمبر مری قبا ہوگا
سب انہماک ہے سورج کے بس نومبر تک
یہ کس نے ڈھانپ دیا مجھ کو سرد پھولوں سے
یہ رس برستا ہے یا فروری کی آمد ہے
اب بھی اپریل کے آتے ہی میرے چاروں طرف
ایک روتی ہوئی عورت کی صدا تیرتی ہے
دوسرے شعری مجموعہ کا نام "بارہ قباؤں کی سہیلی" ہے. اس مجموعہ میں ایک نظم اس عنوان سے شامل ہے۔ "بارہ قباؤں کی سہیلی" طویل نظم ہے۔
بارہ قبائیں دراصل بارہ مہینے ہیں.
ان بارہ مہینوں کی سہیلی کوئی اور نہیں عذرا پروین ہیں. اور یہ عذرا عالمی گاؤں کی وہ عورت ہے جو خود کو آج بھی پدرانہ نظام کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسی ہوئی، جکڑی ہوئی، گھٹن محسوس کررہی ہے، کھلی فضا بھی اس قدر پراگندہ ہوچکی کہ صاف و شفاف ہوا ناپید ہے. اگرچہ جال وہی پرانا ہے، شکاری بھی وہی البتہ نام نیا دیا گیا، جسے ہم معاشی، سیاسی، سماجی مساوات کہتے نہیں تھکتے. لیکن اس مساوات کے پس پردہ مقاصد وہی رہے، استحصال جبر و تشدد. عالمی گاؤں کی عورت کی حالت زار پچھلی صدی کی عورت سے مختلف تو دور بلکہ پچھلی صدیوں سے کہیں زیادہ تشویشناک صورت حال ہے. اب حیوانیت درندگی مزید اندوہناک انداز میں ہمارے سامنے رونما ہورہی ہے.
دیکھیں! "فیشن چینل" نظم میں کیا کہہ رہی ہیں.
"تم اچھی بھلی عورت کو رنڈی تو بنا سکتے ہو
مگر رنڈی کو عورت نہیں بنا سکتے"
اور پھر ان کی نظم ‘ خسارہ، ملاحظہ فرمائیں!
"تم تو صرف کتے ہی نکلے
میں تو اس میں مرد ڈھونڈتی تھی
میں اس مرد میں باپ بھی چاہتی تھی
میں تو اس باپ میں ایک بچہ بھی
میں اس بچے میں خدا بھی
مگر تم
تم تو… صرف کتے نکلے
اور میں ماں نکلی"
بارہ قباؤں کی سہیلی کے اندر یہ بغاوت مرد اساس معاشرے کے رویے کے خلاف انحراف یا بغاوت نہیں بلکہ صدیوں سے رائج عمل کا رد عمل ہےجو ہر اس شخص کا علامیہ ہے، جو ذی فہم ذی شعور ہے، اور پھر اس کے وجدان کی آنکھیں وا ہوجاتی ہیں. وہ اپنی طاقت اور صلاحیت کے بل پہ مد مقابل سے زور آزما ہوتا ہے. عذرا اپنی شعری طاقت کے توسط سے دست و گریباں ہیں.
” میں سیتا نہیں رام کی پڑی رہ جاؤں اس جنگل میں وفا کے نام پر
انورادھا ماں نہیں رجنیش کی بنائی ہوئی
کہ بنا لوں جسم کو
ساروجنک موترالیہ بغاوت اور آزادی کے نام پر
مگر تم
آریہ سماجی مومنو
رجنیشی مومنو
آؤ دیکھو
اور سنو کہ ہم
سورۃ النسا کے سارے رکوع ختم کر کے اٹھے ہیں
اور تمہیں ہم خود سناتے ہیں
سورۃ طلاق کے کچھ رکوع
سماجی رویے کے خلاف اس قدر غم و غصہ اور شدید احتجاج ہمیں بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے.
"تب اگر واقعی خانم تمہارا بنا ہوا لباس تھی
تو یہ لباس چیخ کیوں بن گیا؟
وہ چیخ جو کفن کے لیے
کورا لٹھا پھاڑتے وقت آکاش کو پکارتی ہے
مگر بہرہ آکاش اس وقت بھی گا رہا ہوتا ہے
خانم تمہارا لباس ہے
اور تم خانم کا لباس!
یہ تم آخر ہے کون
اور کہاں ہے
اور میرے خالق اتنا اور بتا دو
کہ اگر تمھاری بنی قبا کو بھی
تار تار کر دینے کی سہولت جبر کو حاصل ہے تو
سچ سچ چپکے سے بتا دو
کہ خدا کون ہوا
بولو میرے خالق!
میں تمہاری ہی بنی ہوئی قبا بول رہی ہوں
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انسان خدا کے حضور اپنا شکوہ کب پیش کرتا ہے. جب اس کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے. یعنی کہ معاشرہ اپنی سماعت گنوا بیٹھتا ہے. آگے دیکھیں، ‘بارہ قباؤں کی سہیلی` نظم کے دو بند:
موسم مرے رہبر! مرے نادید معلم!
موسم مری شہہ رگ پہ اگے سرخ شرارے
موسم مرے دلبر! دلِ نایاب پکارے
میں نے تجھے اس بار بھی پہچان لیا رے
موسم مرے موسم!
جو بھیس میں آیا تھا "دسمبر" کے وہ تو تھا
"اپریل" کی بانہوں میں جو منظر تھا وہ تو تھا
"جولائی" نہیں جس نے شرابور کیا تھا
وہ پہلی دفعہ جس نے مجھے چور کیا تھا
موسم مرے موسم
موسم میں ترے دشت سبھی چھان چکی ہوں
موسم میں ترے کنج بھی چھان چکی ہوں
تو مجھ میں بہت آگے ہے، میں ہوں ترا سایہ
تو چھلتا ہے دنیا کو پہن کر مری کایا
آزاد بس اب کردے مری سوچ کے دھارے
رہنے دے مری مجھ میں کوئی ایک ادارے
موسم مرے موسم
موسم میں تری بارہ قباؤں کی سہیلی
موسم دراصل لمحۂ گریزاں ہے، جسے ہم نے سال مہینے ہفتوں میں منقسم کر رکھا ہے. یعنی کہ گزرتا ہوا لمحہ جسے ماہ و سال کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے. لیکن یہ موسم "لمحۂ گریزاں" ہوتے ہوئے، عالمی گاؤں بن جاتا ہے، اور یہ عالمی گاؤں عذرا پروین میں تحلیل ہوجاتا ہے کہ عذرا پروین کے ‘ہونے` سے یہ ‘وقت` ہے یا ‘عالمی گاؤں` کا منظر نامہ ہے.
عذرا پروین کا یہی وصف انھیں مزاحمتی اور انحرافی نسائی شاعری کی فہرست میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی یہ خوبی ہے کہ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے آپ یہ حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ خوش ہیں یا اداس۔
عذرا کی شاعری کو اگر بھلا بھی دیا گیا تو ان کا یہ شعر کافی مشہور ہوچکا ہے، ضرب الامثال اشعار کی فہرست میں جگہ بنا چکا ہے. یقیناً یہ شعر انھیں زندہ رکھے گا.
سچ کو حاجت سے بچا کر رکھنا
سچ اکیلا ہے خریدار بہت
عذرا ابھی فعال ہیں اور متحرک بھی کیوں کہ ان کے فن کا رقص ابھی ادھورا ہے.
آگ سے کہنا اور جلے یہ ہوا دیوانی اور چلے
دل کا ہر گھنگھرو جھنکاؤ، میرا رقص ادھورا ہے
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :عید کی صبح اکیلی ہے مرے کمرے میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے