ابھی مٹی کو گوندھا بھی نہیں ہے

ابھی مٹی کو گوندھا بھی نہیں ہے

دلشاد دل سکندر پوری

ابھی مٹی کو گوندھا بھی نہیں ہے
مکمل میرا چہرہ بھی نہیں ہے

سمندر میں تُجھے کیسے بنا دوں
مرے حصے میں قطرہ بھی نہیں ہے

محبّت کے پرندے کیسے پالیں
ہمارے پاس پنجرا بھی نہیں ہے

خود اپنی موت پر کیسے یقیں ہو
کوئی اخبار سچا بھی نہیں ہے

تبسّم کیوں مرے روٹھے ہوئے ہیں
دکھوں کا مجھ پہ سایہ بھی نہیں ہے

ملاقاتوں کے امکاں بھی نہیں ہیں
بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے

جسے شاعر بتاتی ہے یہ دنیا
مزاج شاعرانہ بھی نہیں ہے

سمجھتے ہی نہیں کچھ لوگ دل کو
یہ تشبیہہ و کنایہ بھی نہیں ہے
***
دلشاد دل کی گذشتہ نگارش:دروازہ کھول دو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے