دروازہ کھول دو

دروازہ کھول دو

دلشاد دل سکندر پوری

اللہ نے انسانی ذاتوں میں سے ایک ذات شاعروں کی بنائی ہے جو طرح طرح کے خیالات لفظوں کی لڑیوں میں پیرونے کا ہنر جانتا ہے۔ وہ اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کو مسرت اور نصیحت کے پیغام فراہم کرتا ہے. مگر اس شاعر کی زندگی خود کبھی حالات تو کبھی تنگ دستی تو کبھی فکرِ معاش جیسی بلاؤں کی گردشوں میں گھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہاں مگر یہ ذات بڑی خودار ہوتی ہے۔ اس ذات کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کبھی غصّہ نہیں کرتی۔ یہ گاندھی جی کے بندروں کی طرح ہوتی ہے۔ ان کی کشتی مصائب کے سمندر میں لاکھ غوطے کھاتی رہے مگر ان کی پیشانی پر کبھی کوئی بل نہیں دیکھا گیا۔ یہ ذات بڑی حساس ہوتی ہے. اب دیکھ لیجئے ہمیں ہی کل کی رات ہم مشاعرہ پڑھ کر جیسے ہی اپنے گھر کی چوکھٹ پر پہنچے پاؤں میں سکت باقی نہیں رہ گئی تھی کہ اپنے بیڈ روم تک چل کر جا سکیں، میں نے دیکھا کہ دروازہ اندر سے بند ہے. باہر سے میں نے آواز لگائی محترمہ دروازہ کھولو۔میں نے دروازے پر دستک دی. مگر آنکھوں میں جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور شاعر جب کسی مشاعرے سے کلام پڑھ کر آتا ہے تو اس کی آواز مترنم شاعر کی آواز نہیں بلکہ کسی گدھے کی بے سری ہے تالی آواز کی جیسی معلوم ہونے لگتی ہے۔ جو کانوں کو ناگوار معلوم ہوتی ہے اور یہ سانحہ میرے ساتھ اکثر ہوتا رہتا ہے۔
میں نے ایک بار پھر اپنے گلے کو حرکت دے کر صاف کرنے کی کوشش کی اور پھر آواز لگائی محترمہ دروازہ کھول. اسی طرح میں نے دس سے بارہ بار آواز لگائی۔ اچانک اندر سے آواز آئی۔۔کون ہے۔۔کون ہے.
میں نے کہا محترمہ دروازہ کھولو میں آج بہت تھک گیا ہوں.
اپنے نازک قدموں کو جنبش دیں اور دستِ مبارک سے دروازہ مبارک کی کنڈی کو کھولنے کی زحمت گوارہ کریں، نوازش ہوگی۔۔
اتنے میں دروازے تک اٹھ کر محترمہ آئیں اور کہنے لگیں، جی بولیے آپ کون ہیں۔ اور اتنی رات گئے آپ میرے گھر کیوں آئے ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ میری نیند آنکھوں سے فرار ہو گئی۔ میں نے کہا محترمہ اور کون ہو سکتا ہے اتنی رات کو جو دروازہ کھولنے کے لیے بولے گا۔۔ ۔
میں ہوں تمھارا شوہر. 
محترمہ: نہیں آپ میرے شوہر نہیں ہو سکتے، آپ کی آواز تو ایسی لگتی ہے جیسے کسی اِنسان کو لقوہ مار دے. میں دروازہ نہیں کھولنے کی… 
اتنا سننا تھا کہ میرا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔میں نے کہا میرے بدن میں بہت تیز درد ہو رہا ہے. اللہ کے لیے ایسا نہ کرو اور جلد سے جلد دروازہ کھولو. 
اب محترمہ اور سخت لہجے میں بولنے لگیں کہ نا لائق پہلے تو تو یہ بتا کہ تو ہے کون۔۔. یہ آواز تو میرے شوہر کی نہیں ہے. 
آج کل محلے میں ڈاکہ پڑ رہا ہے اور ڈاکو محلے کی بھولی بھالی لڑکیوں کو ان کے شوہر اور بھائی کی آواز نکال کر دروازے پر دستک دیتے ہیں. جس سے عورتیں دروازہ کھول دیتی ہیں اور اس کا صلہ یہ ملتا ہے کہ گھر کے زیورات برتن کپڑے جوتے چپل سب صاف ہو جاتے ہیں۔۔. ہم عورتوں کا دل اللہ نے اتنا نازک بنایا ہے کہ ہر کسی کی مجروح آواز کو سن کر اس پر یقین کر لیتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پریشان آدمی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے، پڑوس کے محلے کے مولوی طاہر صاحب ایک اجتماع میں بہ طور مقرر بلائے گئے تھے اور وہ اُن کی زندگی کا پہلا اجتماع تھا، ابھی حال ہی میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے تھے، فیس بک اور یو ٹیوب پر اپنی تقریروں کو خوب ڈالتے تھے، جس سے پوری دنیا کے لوگ اُن کی تقریروں کو سننے لگے تھے، تقریباً دو سالوں سے بچارے شوشل میڈیا پر اپنی نصیحت بھری باتیں اور پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے۔اور اللہ نے جب اُن کی شہرت میں چار چاند لگانے کے لیے زندگی کا پہلا اجتماع اور بہ طور مقرر خصوصی  اُن کی جھولی میں ڈالا، تو مارے شیخی کے گھر کے سبھی افراد کو سوائے عورتوں کے، ساتھ میں لے کر ایک گاڑی بک کر کے اجتماع میں پہنچے۔ اُدھر مولوی صاحب اجتماع میں پہنچے، تقریباً بارہ بج چکے تھے۔۔اِدھر گھر کی سبھی عورتوں کو نیند آگئی اور سبھی لوگ دروازہ بند کر کے سو گئے۔۔
آدھی رات گئے اچانک پانچ چھ لوگوں کی ایک ٹیم مولوی صاحب کے دروازے تک پہنچی، اُن میں سے ایک آدمی نے آواز لگائی۔ محترمہ تشریف لائیں۔
اور دروازے کو کھولنے کی زحمت کریں۔
اچانک مولوی صاحب کی بیوی کی آنکھ کھلی تو وہ جھٹ سے دروازے تک پہنچیں.
مولوی صاحب کی بیوی بچاری نیند سے اٹھ کر آئیں اور گھر میں کافی اندھیرا تھا بجلی والوں نے کل ہی مولوی صاحب کے گھر کا کنیکشن بجلی بل نہ جمع ہونے کی وجہ سے کاٹ دیا تھا اور مولوی صاحب بیوی سے وعدہ کر گئے تھے کہ کل اجتماع کے نذرانے کی رقم سے ان شاء اللہ بجلی کا سارا بقایا جمع ہو جائے گا۔
اب دروازے کے باہر سے پانچ چھ لوگوں کی آواز سن کر بیوی نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔۔
ڈاکوؤں نے دروازہ کھلتے ہی بندوق کی نلی مولوی صاحب کی بیوی کی گردن پر رکھ دی اور بولے کہ اگر ذرا سی آواز کی تو تیری آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دوں گا۔
ڈاکوؤں نے گھر کا کونا کونا چھان مار کر جتنی بھی قیمتی اشیا ہاتھ لگی ایک تھیلے میں بھر کر کاندھے پر لاد لیا۔ مولوی صاحب کا معصوم کیمرہ اور اس کا اسٹینڈ الماری پر خاموشی سے یہ سب منظر دیکھ رہا تھا اچانک ایک چور کی نگاہ اس پر بھی پڑ گئی اتنا ہی نہیں مولوی صاحب کا پاجامہ کرتا ٹوپی سب کچھ اٹھا لے گئے۔۔غور سے سنو۔۔
اب مجھے اتنی تقریر بیوی کی سن کر بڑا غصّہ آیا میں سوچنے لگا کہ اب اسے کیسے يقین دلاؤں کہ میں اس کا شوہر ہی ہوں۔۔
پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں تو شاعر ہوں اپنے کچھ اشعار سنا کر ثابت کر دوں. 
میں نے کہا محترمہ۔۔۔میں آپ کا شاعر ہوں آپ کو اپنا ایک شعر سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ کو یقین ہو جائے گا۔
محترمہ بولیں اچّھا۔ ارشاد ہو! 
عرض کیا ہے
یہ دن بھی ہمیں وقت نے دکھلایا ہے اے دل
خود اپنی ہی پہچان کرانے میں لگے ہیں
اتنا سننا تھا کہ محترمہ نے دروازے کے اندر سے ہی واہ واہ واہ کرنا شروع کر دیا، میں نے سوچا شاید اسے یقین ہوگیا۔
مگر ٹھہری عورت ذات، جہاں انسان کی قوت متخیلہ دم توڑتی ہے وہاں سے عورتوں کی سوچ جنم لیتی ہے۔
پھر اس نے کہا محترم یہ شعر تو کافی مشہور ہے اور میرے شوہر کے پاس تین ہی چار غزلیں ہیں جو ہر ایک مشاعرے میں یہی سب پڑھتے ہیں ہزاروں لوگوں کو یاد ہوں گے یہ شعر۔۔ میں کیسے مان لوں. 
میرے دل میں آیا کہ میں دیوار سے سر مار لوں۔ ایک کے بعد ایک دلیل دینی پڑی، مگر اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا. آخر میں میں نے اپنا کرتا اُتار کر دروازے کے نیچے تھوڑی سی جگہ دیکھ کر اس میں ڈالنے لگا اور کہا لو میرا کرتا اس سوراخ سے کھینچ لو تب شاید تمھیں یقین ہوگا۔۔ محترمہ نے کہا ہاں یہ بات تو آپ نے صحیح کہی۔۔کسی طرح سے میں نے اپنا کرتا اس چھوٹے سے سوراخ میں کلیجے پر ہاتھ رکھ کر ڈال تو دیا. مگر سے دل کہہ رہا تھا کہ آج بچارے معصوم کرتے پر کیا گزرے گی۔
اندر سے کرتے کے کھینچنے کی آواز آئی اور شاید میرا کرتا تار تار ہوگیا۔
اس کے بعد بیوی نے مسکرا کر پاجامے کا مطالبہ کر لیا. آخر میں مجھے پاجامہ بھی اسی سوراخ سے ڈالنا پڑا اس کا بھی وہی حشر ہوا جو بچارے کرتے کا ہوا ہوگا۔۔۔
محترمہ اس بار چہک کر میٹھی آواز میں بولی. محترم مجھے پورا یقین ہو گیا ہے کہ آپ میرے شوہر اور لوگوں کے دلوں میں رہنے والے شاعر ہیں۔ برا نہ مانو تو ایک سوال کر لوں۔۔۔
میں نے کہا اب کیا بچا ہے اب تو دروازہ کھولو! محترمہ نے مُسکرا کر کہا بس اِک سوال، کچھ کنفیوزن ہے وہ بھی دور ہو جائے. 
میں نے کہا جلدی پوچھو۔
محترمہ بولیں! یہ بتائیے ہماری شادی کی پہلی رات یعنی سوہاگ رات کے دن جو طوفان آیا تھا اس میں آپ کے کتنے کپڑے پڑوس کی چھت سے برآمد ہوئے تھے.
۔۔اوہ اوہ
میں نے اپنا سر دھنتے ہوئے قسم کھائی کہ اب مشاعرے سے رات میں لوٹ کر کبھی گھر نہیں آؤں گا. رات بھر جیسے تیسے بسر کر لوں گا مگر گھر نہیں آؤں گا۔
اندر سے آواز آئی جلدی بولو۔۔۔
آخر میں مجھے وہ بات بتانی پڑی۔۔اتنا سننا تھا کہ وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور جب دروازہ کھلا تو مجھے بھی ہنسی آگئی۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا
***
صاحب تحریر کی گذشتہ تخلیق :زِندگی کو اِک کہانی چاہیے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے