شاہد ماکلی: سائنسی جمالیات کا رجحان ساز ہم عصر شاعر

شاہد ماکلی: سائنسی جمالیات کا رجحان ساز ہم عصر شاعر

سید سجاد نقوی

معاصرین جدید اردو ادبا و شعرا نے آسمانِ علم و ادب پر جمالیات، شعریات، گرمیِ جذبات، نفسیاتی کیفیات اور ہیئتی ساخت کے تجربات کی روشنی میں جو قوسِ قزح تنی ہے وہ اپنے رنگ ہاے مختلفہ کی دل کش نمایش ہے۔ ان میں موضوعات روایت کے ساتھ ساتھ ایک منفرد معنویت اور عصری حسیَّت کی خصوصیات سے تغیر پذیری کے عمل سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ ان ہی معاصر جدید اردو شعرا میں ایک منفرد اور معتبر حوالہ جناب شاہد ماکلی ہیں۔
شاہد ماکلی تونسہ کے گاوں مکوَل کلاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی تاریخ پیدائش 31 اگست 1977 ہے۔ آپ نے پنجاب یونی ورسٹی لاہور، سے میٹلرجی اینڈ میٹریلز سائنس میں بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی۔ آپ کا پہلا شعری مجموعہ "موج" 2000 میں شایع ہوا۔ جب کہ دوسرا مجموعہ "تناظر" کے نام سے 2014 میں شایع ہوا۔ اس کے علاوہ آپ معروف ادبی جریدے” آثار" سے بہ طور مدیر منسلک ہیں اور آج کل لاہور میں مقیم ہیں۔
شاہد ماکلی نے اردو شاعری کی شگفتہ روایت اور معیار تغزل کو سائنسی انداز فکر کی ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔ آپ کی شاعری کائناتی فکر، وجودی اہمیت، استہفامیہ لہجہ، عہد رفتگاں کی بازگشت، ہجر و وصال کا کرب اور سائنسی اصطلاحات کا ایک ایسا طلسم کدہ ہے جو مذکورہ خصوصیات کا علم رکھنے والے قاری پر محویت کا سحر طاری کر دیتا ہے۔ آپ نے مضامین کو سائنسی اصطلاحات اور کونیاتی جمالیات کے حامل استعاروں، تشبہات، علائم اور تلازمہ کاری سے آراستہ کیا۔ یوں آپ کی شعریات جدید اردو شاعری میں ایک نیا اور منفرد باب رقم کرتی ہیں۔
شاہد ماکلی باقاعدہ سائنسی حسن و فکر رکھنے والے شاعر ہیں اور یہی حسن و فکر ان کی شاعری میں جگہ جگہ شعوری و لاشعوری طور پر اپنی خوشبوئیں بکھیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آپ شعری صورت میں سائنسی حقائق کو کشید کرتے ہیں۔ جو آپ کے غائر مطالعہ کی منتج ہے۔ آپ کی شاعری سائنسی روشنی سے چمکتے بیشتر علوم کے ذائقوں کا احاطہ کرتی ہے۔
بہ قول شاہد ماکلی :
مجھے تو لگتا ہے چکھ لی ہے روشنی میں نے
کوئی چمکتا ہوا ذائقہ زبان پہ ہے
مضمون ہذا میں منتخب اشعار سے سائنسی اصطلاحات و جمالیات اور ماحولیاتی سائنس کی بحث کو احاطہِ قلم میں لایا گیا ہے۔
ہمارے ارد گرد جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے یہ سب مادے (کمیت) کی حالتیں اور صورتیں ہیں۔ عام طور پر مادے کی تین اقسام بتائی جاتی ہیں: مائع، گیس اور ٹھوس، لیکن ان کے علاوہ جدید سائنس نے کئی اور حالتیں دریافت کرلی ہیں جیسے کہ پلازمہ وغیرہ۔
یہی مادہ ماحولیات اور درجہ حرارت کے تناظر میں اپنی حالتیں تبدیل کرتا رہتا ہے، جیسے پانی (مائع) کو جب گرم کریں یہ بخارات (گیس) کی صورت ہوا میں اڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی پانی کو جب ٹھنڈا کریں تو یہ برف (ٹھوس) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن یہی مادہ کبھی فنا نہیں ہوتا۔ جیسے ہم نے پانی کی تینوں حالتوں کا تذکرہ کیا، اس میں تجرباتی طور پر مادہ (پانی) فنا نہیں ہوا بل کہ اپنی شکل و صورت تبدیل کرتا رہا۔
اٹھارویں صدی میں ایک سائنس دان لیوائزے نے تصور پیش کیا تھا کہ "کسی بند نظام میں کیمیائی تعامل کے دوران میں مادہ نہ تو فنا ہوتا ہے نہ پیدا بل کہ اپنی مقدار مستقل رکھتا ہے۔"
اس تصور کو قانون بقائے مادہ ( Law of conservation of Mass) کا نام دیا گیا۔
اس تصور کے پیش نظر مادہ اپنی یکساں حالت میں نہ رہتے ہوئے اپنی حالتیں تبدیل کرتا رہتا ہے۔
شاہد ماکلی نے مادے کے تبدیل پذیر اس تصور کو شعر کے قالب میں یوں ڈھالا ہے۔
بدلتی رہتی ہے حالت کے ساتھ ہیئت بھی
خواص ہیں میرے یکساں نہ شکل حتمی ہے

وہ دھوپ جس نے پانی سے بادل کیا مجھے
پھر اس کے ہجر میں ہوں بخارات کی قسم
.
یوں مادے اور توانائی کا متحد تصور قانون بقائے کمیت اور توانائی بن گیا جسے Law of conservation of mass &energy کہتے ہیں۔
مزید براں آئن سٹائن جیسے عظیم سائنس دان نے اس مادے اور توانائی کے ربط سے متعلق ایک مساوات (Special Theory of Relativity) پیش کی جس کی رو سے مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں قابل تبدیل پذیر ہیں۔
E=mc2
یعنی مادہ اور توانائی فنا نہیں ہوتے بل کہ ایک دوسرے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس نظریے کی عکاسی کرتے شاہد ماکلی کے یہ اشعار تصور قانون بقائے مادہ و توانائی اور آئن سٹائن کی مساوات کے ترجمان ہیں:
میں اتنی تیزی سے گرمِ سفر ہوں کیوں شاہد
ملے گا کیا جو توانائی میں بدل گیا مٙیں

جو ایک مخفی توانائی مجھ میں تھی شاہد
اک اور شکل میں اس کو بدل دیا مٙیں نے

یہ اشعار جان داروں کے اندر ہونے والی کیمائی تعاملات اور توانائی کے حصول کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔
زمین سے دور خلا میں موجود افلاکی مخلوق مثلاً سیارے، ستارے اور کہکشاں وغیرہ زمین سے کھربوں کلو میٹر کی مسافت پر ہیں۔ اس قدر دور مسافت کی پیمائش ماہر فلکیات نوری سال (light year) کی مدد سے کرتے ہیں۔ یہ در اصل فاصلے کی اکائی ہے۔ ماہرین زمین سے مسافت کی دوری کو روشنی کی مدد سے پیمائیش کرتے ہیں۔ (c) روشنی کی اسپیڈ خلا میں قریباً تین سو کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ شاہد ماکلی نے نوری سال سے متصل شعر کو رومانویت کی چاشنی سے ڈبو کر نئی ترنگ میں پیش کیا ہے:
دوری ہزار نوری برس کی بھی ہیچ تھی
دل، دل سے ربط میں ہے اگر کائنات میں

تو پکڑتا ہاتھ میرا تو یہ دوری دو قدم تھی
نئی کائنات مجھ سے کئی نوری سال پر ہے

جدید حیاتیاتی طریقہ کار میں کلوننگ (نقول) کو اعلا افزائش نسل کے حصول کے لیے برتا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر جنسی طریقہ کار ہے۔ جس میں کسی بھی نوع کے فرد یا خلیے سے ڈی این اے نکال دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ مطلوبہ خصوصیات کی حامل نوع کے فرد یا خلیے کا ڈی این اے شامل کردیا جاتا ہے۔ تبدیل شدہ زائیگوٹ کو موزوں مادہ رحم میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں اس کی نشوونما ہوتی ہے اور آخر کار اس عمل میں ہمیں مطلوبہ خواص رکھنے والی وہی نقول (کلون) فراہم ہوتی ہیں جس نوع کی خصوصیات ہمیں مطلوب تھیں اور اس کا ڈی این اے ہم نے استعمال کیا تھا۔ جو شکل و صورت اور وراثتی طور پر بالکل ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ یہ طریقہ کار اعلا نسل کے حصول کے لیے جانوروں مثلاً گھوڑے، گائے بھینس، بھیڑ اور بندروں پر برتا جارہا ہے۔لیکن اخلاقیات کے ضمن میں انسان پر اس کے اطلاق کی پابندی ہے۔ سوال یہ ہے کیا دنیا میں کہیں انسانی کلون تیار ہو رہا ہوگا؟ یا مستقبل میں ایسا ظلم کیا جائے گا؟ اس کی پیشین گوئی یا اس کی نقول کی طرف دنیا میں کہیں بننے والے کلون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہد ماکلی کہتے ہیں کہ:
کلون شہروں میں چلتے پھرتے دکھائی دیں گے
کہ آدمی کی نقول تیار ہورہی ہیں

بنائی ایک ہوا سے نئی ہوا میں نے
کلون آہ کا تیار کر لیا میں نے

مصر ع اولی "بنائی ایک ہوا سے نئی ہوا میں نے" کلوننگ کے طریقہ کار کا بہترین عکاس ہے۔
بجلی کا کڑکا آسمانی قدرتی مظہر ہے۔ جس میں پہلے بجلی کی روشنی دکھائی دیتی ہے اور پھر یکلخت اس کی دہشت ناک آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ عمل (Thunder lighting effect) کہلاتا ہے۔ اس منظر کی مکمل امیجری ہمیں شاہد ماکلی کے اس شعر میں دکھائی دیتی ہے :
اس کا جلوہ کشاہ فضاوں میں پہلے دکھائی دیا پھر سنائی دیا
بجلیوں کے چمکنے کی رفتار ان کے کڑکنے کی رفتار سے تیز ہے
اس شعر میں ہمیں اس سائنسی سوال کا مکمل جواب بھی ملتا ہے کہ آیا بادلوں کی گرج چمک کے دوران  بجلی پہلے اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ اس کی اسپیڈ آواز کی اسپیڈ سے زیادہ ہوتی ہے۔ وگرنہ اس سحاب برق کے دوران  روشنی اور آواز ایک ساتھ ہی خارج ہوتے ہیں۔
ہماری زمین، گردو نواح، پیڑ پودے، جانور، طبعی عناصر یعنی ہوا مٹی پانی، آگ اور ان سے انسلاک شدہ تمام اشیا ہمارا ماحول کہلاتا ہے۔ ہماری زمین کو فضائی تہوں نے گھیر رکھا ہے، جسے ہم فضائی کرہ (Atmsophere) کہتے ہیں۔ اس فضائی کرہ میں نائٹروجن 78 فی صد، آکسیجن 21 فی صد اور باقی ایک فی صد دیگر گیسوں کے مجموعے اور آبی بخارات موجود ہیں۔ زمین پر قریباً چار قسم کے فضائی کرے یا فضائی تہیں ہیں۔(1)ٹروپوسفیئر (2) اسٹراٹو سفیئر (3)میزو سفیئر (4)تھرموسفیئر۔ یہ عمل تنفس کے دروان  ہوا کی فراہمی، تابکاری اور زہریلی شعاعوں سے تحفظ اور زندہ رہنے کے لیے جان داروں کو سازگار ماحول مہیا کرتے ہیں۔بلا شبہ انسان اور دیگر جان دار اس فضائی حصار میں عز و جل کے کرم سے سانس لے رہے ہیں. 
بہ قول شاہد ماکلی:
حصارِ بادِ کرم میں ہے پیکرِ خاکی
زمین لپٹی ہوئی ہے ہٙوا کے کمبل میں
کس قدر عمدہ اور ماحولیاتی سائنس کا ترجمان شعر ہے جو فضائی کرہ (Atmosphere) کا تصور دیتا ہے۔
ایک اور شعر میں شاعر اس ہوا کے کمبل یعنی Atmosphere کو انسانی آہ سے متشکل قرار دیتے ہیں:
جسے آپ کہہ رہے ہیں کہ غلاف ہے ہوا کا
وہ زمیں کے چار جانب مری آہ کی فضا ہے
شاہد ماکلی کے اشعار ہمیں ماحولیاتی سائنس اور اس پر ہونے والے اثرات کا پتہ بھی دیتے ہیں۔ وہ گلوبل وارمنگ جس سے مراد کیمائی تعامل سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں بہ تدریج اضافہ ہے، کے اندیشے سے آگاہ کرتے ہیں۔ اوزون کی تہہ جو سورج سے آنے والی خطرناک تابکاری شعاعوں کو روکتی ہے اور زندگی کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ماحولیاتی اور فضائی تبدیلی کے سبب اس کی تہہ باریک ہورہی ہے۔ جس کی وجوہ فضا میں کلوروفلورو کاربن، ائیر کنڈیشنر اور ریفریجریٹر سے خارج ہونے والی کیمائی کمپاونڈ ہیں۔ اسی طرح ٹریفک، شور اور دیگر آلودگی ماحول کو متاثر کرتی ہے جس سے عمل تنفس متاثر ہوتا ہے اور الرجی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ شاہد ماکلی کا مذکورہ شعر اسی غیرموزوں اور خطرناک فضا کا اظہاریہ ہے:
میں سانس لینے لگا ہوں یہ کن فضاوں میں شاہد
ہوا یہ کیسی ہے جو پھیھپڑوں میں بھرنے لگا میں
سائنس میں کوئی بھی ” تھیوری" اٹل اور  مسلم الثبوت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے پس منظر میں کئی اعمال ہیں جہاں سے اسے گزارا جاتا ہے۔ پہلے ایک آگہی، ایک خیال مشاہدے کی صورت مفروضے کی شکل اختیار کرتا ہے، اس مفروضے کو منطق، عقلیت، شواہد اور تجربات کی بھٹی میں تب تک تپایا جاتا ہے جب تک یہ ایک اٹل حقیقت ثابت نہ ہوجائے. آخرکار یہی مفروضہ ایک تھیوری کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تھیوری ایک سائنسی سچائی اور حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس سارے عمل کو سائنٹفک میتھڈ کہتے ہیں، جسے شاہد ماکلی نے اپنے اس شعر میں عمدگی سے پرویا ہے۔
اساسِ آگہی مفروضے پر رکھی شاہد
نتائج اخذ کیے تجربات سے میں نے
انیسویں اور بیسویں صدیوں کا عہد نئی نئی سائنسی ایجادات و دریافت اور خصوصی طور پر صنعتی انقلاب کا اہم حوالہ ہے۔ ان ادوار میں صنعتوں اور مشینری کی پیداوار میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا۔ لیکن اس صنعتی اور مشینری عہد میں جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش آیا وہ وجودی بحران کا تھا۔ انسان ان مشینوں کی حکومت کے قفس میں قید ہوگیا۔ انسان کی اپنی آواز صنعتوں اور فیکٹریوں کے بے ہنگم آوازے میں گم ہوگئی۔ انسان کی وجودی شناخت صنعتوں اور مشینوں کے دھوئیں میں کہیں کھو گئی۔ رواں صدی میں جدید مشینری اور ٹیکنالوجی کی پیداوار میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔انسان کی جگہ روبوٹ لے چکے ہیں اور مصنوعی ذہانت نے انسانی محسوسات اور جذبات کو منجمد کردیا ہے۔انسانی تہذیب اور تصور خدا ان مشینوں کی سرداری میں اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔
بہ قول شاہد ماکلی:
یہ مشینوں کی ہے دنیا یہاں کام کیا ہے دل کا
نہ یہاں خدا ہے کوئی نہ یہاں کوئی بشر ہے

نظامِ دہر مشینوں کے ہاتھ میں ہوگا
جدید دور کی تہذیبیں بے بشر ہوں گی

ایک تفکر و تردد آمیز شاعر جہاں سائنسی جمالیات سے حظ اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے وہیں وہ ان ماحولیاتی سائنس کے تناظر میں اس کے باعث ہونے والے اثرات پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
الغرض شاہد ماکلی صاحب کی شاعری میں ہمیں ہر سائنسی آہنگ اور اس سے متصل نظری مباحث، طبیعات و مابعد الطبیعات، کیمائی فہم، وقت کی کتھا، علم حیاتیات اور دیگر سائنسی شعاعوں  سمیت کائنات کی وسعتوں اور اس کے سراغ کا بیان بھی ملتا ہے۔
شاہد ماکلی:
کچھ اور کائناتیں بھی آنے لگیں نظر
یہ آخری کنارہ نہ ہو کائنات کا
شاہد ماکلی کے اشعار عام قاری کے ساتھ ساتھ ان خاص قارئین کے دل کی آماج گاہ ہیں جو سائنسی اور کائناتی تفکر کا شعور رکھتے ہیں۔ شاعر نے اس سماج اور معاشرے میں جہاں سائنسی اور کائناتی تعلیم کا فقدان ہے، وہاں شعری صورت میں سائنسی علوم کے رجحان کی جو شمع روشن کی ہے، قابل داد عمل ہے۔ بلاشبہ آپ کی شاعری جدید اردو ادب میں ایک اہم حوالہ اور قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔
_____
نوٹ:مضمون میں موجود تمام شعری حوالے شاہد صاحب کے شعری مجموعہ "تناظر" اور آپ کی فیسبک آئی ڈی پوسٹس سے ماخوز ہیں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :غزل میں سائنسی تخیل کا رنگ بھرنے والا شاعر: حسنین عاقب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے