رباعیاتِ شوقؔ نیموی : ایک تعارفی جائزہ

رباعیاتِ شوقؔ نیموی : ایک تعارفی جائزہ

طفیل احمد مصباحی

ہندستان کے علمی و ادبی مراکز میں ایک اہم اور معتبر نام "عظیم آباد" کا بھی ہے، جس کو ایک مستقل دبستان کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے معزز اور سرکردہ اراکین میں بیدلؔ، شادؔ، جوششؔ، راسخؔ، عشقؔ، حسرتؔ، سہیلؔ، ثاقبؔ، افضلؔ، بسملؔ، رمزؔ، واقفؔ، بیخودؔ، فلسفیؔ، حمیدؔ، بگٹٹ، شمسؔ، مظہرؔ، ضمیرؔ، سحرؔ، ہمدمؔ، نشاطؔ، جمیلؔ، شہباز وغیرہم کے نام شامل ہیں۔ شعر و سخن کے علاوہ تحقیق و تنقید اور افسانہ و ناول نگاری کے میدان میں بھی فرزندانِ بہار نے قابل رشک ادبی خدمات انجام دی ہیں۔ پروفیسر کلیم الدین احمد، قاضی عبد الودود، ڈاکٹر عبد المغنی اور اختر اورینوی، اردو تحقیق و تنقید کے "عناصرِ اربعہ" کہے جاتے ہیں۔ ماہرِ لسانیات، رئیس المحدثین حضرت علامہ ظہیر احسن شوقؔ نیموی (وفات: نومبر ۱۹۰۴ ء) اسی شہرِ عظیم آباد کے ایک نامور سپوت تھے۔ علم و فضل، عقل و دانائی، شعور و آگہی اور ذہانت و طباعی میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی ذات میں اسلامیات، لسانیات اور ادبیات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ آپ اپنے وقت کے زبردست عالمِ دین، علومِ حدیث کے ناقد محدث، ماہرِ لسانیات، قادر الکلام شاعر اور اردو زبان و ادب کے مایۂ ناز ادیب و محقق تھے۔ آپ کی بلند پایہ ادبی تصانیف "سرمۂ تحقیق"، "ازاحۃ الاغلاط" اور "رسالہ اصلاح و ایضاح" آپ کی تحقیقی و تنقیدی عظمت کو اجاگر کرتی ہیں۔ "دیوانِ شوقؔ"، "مثنوی سوز و گداز" اور "نغمۂ راز" آپ کی شعری یادگار ہیں۔ بعض الفاظ کی تحقیق و تنقیح کے معاملے میں جلالؔ لکھنوی کے ساتھ ادبی مناظرہ اور آپ کی فتح آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ زبیرؔ دہلوی (بہادر شاہ ظفر کے پوتے)، ضیاؔ عظیم آبادی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے رجالِ علم و ادب نے اپنے کلام کی اصلاح لی ہے اور آپ کی شاگردی اختیار کی ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کا بیان ملاحظہ کریں:
اس وقت جیسی طبیعت اور معاملات تھے، اس کے لحاظ سے ان حالات کا زیادہ اثر پڑا اور شوقؔ نیموی کی شاعرانہ واقفیت دل پر نقش ہو گئی۔ علیٰ الخصوص یہ کہ شعر گوئی کے ساتھ قواعد و اصول اور زبان کے مباحث پر ان کو ایسا اچھا عبور ہے کہ ایک پوربی دیہاتی ہو کر جلالؔ لکھنوی مرحوم جیسے صاحبِ دعویٰ کو شکستِ فاش دے دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ان سے خط و کتابت کی اور اصلاح لینا شروع کیا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بہت جی لگا کر اصلاح دیتے تھے اور بعض اوقات غزل کے ساتھ ایک ایک صفحے کے فوائد بھی، جن کا کچھ تعلق اشعارِ زیرِ اصلاح سے ہوتا تھا، لکھتے تھے۔
(آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی، ص: ۲۴۲، ناشر: حالی پبلشنگ ہاؤس، دہلی)
علامہ شوقؔ نیموی "نیمیؔ" کے رہنے والے تھے جو عظیم آباد (موجودہ پٹنہ) کے قرب و جوار کا ایک معروف مقام ہے۔ شوقؔ کی بدولت اس گمنام خطے کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ غازی پور اور لکھنؤ وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پوری زندگی درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور دعوت و تبلیغ میں گذاری۔ شعر و ادب اور لسانیات کے علاوہ مختلف دینی و فقہی موضوعات پر آپ کی تقریباً ایک درجن کتابیں موجود ہیں۔ علمِ حدیث میں آپ کا پایہ کافی بلند تھا۔ "آثار السنن" آپ کی گراں قدر تصنیف ہے، جس سے آپ کا محدثانہ کمال ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا انظر شاہ کشمیری اور انور شاہ کشمیری نے آپ کی حدیث دانی کا اعتراف کیا ہے اور آپ کے "حدیثی افادات" سے فائدہ اٹھایا ہے۔ انور شاہ کشمیری نے آپ کی شان میں ایک عربی قصیدہ بھی لکھا ہے، جو "آثار السنن" کے آخر میں مطبوع ہے۔ چار اشعار نمونتاً پیش کرتا ہوں:
وحید العصر، محسود الندیدٖ
سدید القول فی حسن الصفاءٖ
رفیع القدر، ذو القدر الرفیع
باعلال الروایۃ و انتقاءٖ
ظھیر الحق مولانا "الظھیر"
اضاء الارض فی نور اھتداءٖ
مصابیح الھدیٰ مشکوٰۃ ھدی
و مرقاۃ المعالی و السناءٖ
مذکورہ بالا تمہیدی کلمات سے ظاہر ہو گیا کہ علامہ شوقؔ نیموی کتنے بڑے عالم و محدث، ادیب و شاعر اور اردو زبان و ادب کے ناقد و محقق تھے۔ شاعری، ان کے فضل و کمال کا ایک روشن پہلو ہے۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی، تخیل کی بلند پروازی، معنوی تہہ داری اور زبان و بیان کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ شاعری کی تمام مروجہ اصناف پر قدرت حاصل تھی۔ لیکن غزلؔ، قصیدہ، مثنویؔ اور رباعیؔ میں استادانہ ملکہ حاصل تھا۔ اردو کے علاوہ فارسی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کی "قطعات و رباعیات نگاری" بھی خاصے کی چیز ہے۔ "دیوانِ شوقؔ" میں غزلیات و قصائد اور قطعات و رباعیات کے بیش قیمت نمونے موجود ہیں۔ علامہ موصوف کو اپنے شاعرانہ کمال پر ناز تھا، جس کا اظہار انھوں نے اپنی مثنوی و قصیدہ و رباعیات میں مختلف مقامات پر کیا ہے۔ نواب منگرول شیخ حسین کی مدح میں کہے گئے قصیدے کا یہ ابتدائی بند دیکھیں:
مجھ کو خلاّقِ معانی نے دیا ہے وہ کمال
نکلے جو بات مرے منہ سے وہ ہو سحرِ حلال

عرش پرواز ہے شہبازِ تفکر میرا
لا مکاں دم میں پہنچتا ہے مرا مرغِ خیال

مو شگافی جو دکھاتا ہے مرا شانۂ فکر
کھینچتا ہے کمرِ یار کے بھی بال کی کھال

زلفِ جاناں کے جو مضموں سے الجھ جاتا ہوں
ختم ہوتا ہی نہیں سلسلۂ حسنِ مقال

"رباعی" جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، چار مصرعوں پر مشتمل وہ صنفِ سخن ہے جس میں کسی بھی خیال کو ربط و تسلسل اور تدریجی ارتقا کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے ۲۴/ اوزان مخصوص ہیں۔ آج کل رباعی اور قطعہ کو آپس میں خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ دونوں میں مختلف اعتبار سے فرق ہے، جو فن کی کتابوں میں مرقوم ہے۔ شوقؔ نیموی کی رباعی گوئی سے پہلے جناب امیر حمزہ صاحب کے مضمون "رباعی کا فن اور اوزان کے تجربے" کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں، تاکہ صنفِ رباعی کی حقیقت و ماہیت کا کچھ علم حاصل ہو سکے۔ وہ لکھتے ہیں:
رباعی عربی لفظ "ربع" سے مشتق ہے۔ اس کے معنی چار چار کے ہیں۔ مگر شاعری کی اصطلاح میں رباعی اس صنف سخن کو کہتے ہیں جو بحرِ ہزج کے اخرب اور اخرم کے چوبیس اوزان میں سے کسی بھی وزن میں چار مصر عوں پر مشتمل ہو، جس میں مضمون، خیال، فکر اور جذبہ کو تدریجی ارتقا کے ساتھ پیش کیا گیا ہو۔ رباعی نگار کے لیے تسلسلِ بیان، الفاظ و تراکیب کا موزوں اور بر محل استعمال کا خیال رکھنا بہت ہی ضروری ہو تا ہے۔ گویا رباعی کا فن سمندر کو کوزے میں بند کر نے کا فن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رباعی گو کے لیے دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ مناسب، موزوں الفاظ اور دل کش اسلوب کا خیال رکھنا نہا یت ضر وری ہوتا ہے۔کیوں کہ مذکورہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اعلا درجے کی رباعی کو وجود میں لانے کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ قصیدے میں جس طرح تشبیب سے فضا ہموار کی جاتی ہے، اسی طرح رباعی کے پہلے اور دوسرے مصرعے میں کہی جانے والی بات کی جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ تیسرا مصرع اوپر کے دونوں مصرعوں کے ساتھ چوتھے مصرعے کے لیے ایک تیز ضرب تیار کر تا ہے جس سے چو تھا مصرع اتنا پُر اثر ہوجا تا ہے کہ وہ مصرع دل پر ناخن زنی کرتا ہے۔ اس چوتھے مصرعے میں اتنی بر جستگی، بے ساختگی اور شدت ہونی چاہیے کہ سننے والا مسحور ہوجائے۔ عام طور پر کامیاب رباعیوں میں پہلے تین مصرعوں میں تجسّس برقرار رہتا ہے اور چوتھا مصرع اپنی تمام تر ڈرامائیت کے ساتھ سامع کے دل میں اتر جاتا ہے۔ اسی وجہ سے رباعی کا سب سے جان دار مصرع "چوتھا مصرع" ہوتا ہے۔ رباعی کے متعلق جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی حرم ہے جس میں ایک ہی خیال جا گزیں ہوتا ہے۔ رباعی کے پہلے مصرعے میں خیال کو متعارف کیا جاتا ہے، دوسرے مصرعے میں اس خیال کی وضاحت ہو تی ہے۔ تیسرا مصرع رابطہ ہوتا ہے، جو پہلے دو مصرعوں کو چوتھے مصرعے سے ملاتا ہے اور چو تھا مصرع خیال کا نقطۂ عروج ہوتا ہے۔
علامہ شوقؔ نیموی کو غزل و قصیدہ اور مثنوی کی طرح "رباعی گوئی" میں بھی کمال حاصل تھا۔ ان کی رباعیات مذہب و اخلاق اور عشق کے موضوعات پر مشتمل ہیں، جن میں ادب کا جمال، فن کا کمال، زورِ بیان، لسانی حسن، فکر و خیال کی بلندی، سادگی و صفائی اور چاشنی و برجستگی پائی جاتی ہے۔ ان کی "رباعی گوئی" کے حوالے سے ڈاکٹر عتیق الرحمٰن قاسمی لکھتے ہیں:
ابتدائی زمانے میں گرچہ اردو شعرا کی پوری توجہ غزلؔ، مثنویؔ اور قصیدہؔ کی طرف مرکوز تھی۔ تاہم رباعی کہنے کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔ اس کا با قاعدہ آغاز میر تقی میرؔ کے عہد سے ہوتا ہے۔ امیرؔ، منیرؔ اور جلالؔ کے یہاں با ضابطہ طور پر رباعیاں ملتی ہیں، جو زیادہ تر عشقیہ مضامین پر مبنی ہیں۔ تسلیمؔ نے جو رباعیاں کہی ہیں، وہ اخلاقی اور صوفیانہ مضامین پر مشتمل ہیں۔ علامہ شوقؔ نیموی نے بھی رباعیاں کہی ہیں، جن سے ان کی قادر الکلامی کا پتا چلتا ہے۔ ان کی رباعیات عشقیہ، مذہبی اور اخلاقی مضامین پر مبنی ہیں ……….. دیوانِ شوقؔ  میں ان کی رباعیاں مذکور ہیں۔ ان میں زورِ بیان، سادگی، مضمون آفرینی اور دل کشی پورے طور پر پائی جاتی ہے۔
(علامہ شوق نیموی: حیات و خدمات، ص: ۶۰، ناشر: مجلسِ علمی، لال باغ، پٹنہ)
جیسا کہ ابھی بیان ہوا، علامہ شوقؔ نیموی کو رباعی گوئی میں کمال حاصل تھا۔ وہ کسی بھی مفہوم اور مرکزی خیال کو چار مصرعوں میں بڑی سلاست و نفاست کے ساتھ ادا کر دیتے تھے۔ شاعری میں "تاریخ گوئی" کا چلن عام ہے۔ شعرائے اردو نے بالعموم تاریخِ ولادت و وفات بہ شکلِ "رباعی" کہی ہے۔ مرزا غالبؔ نے ایک فارسی رباعی میں اپنی تاریخِ ولادت "شورشِ شوق" اور "لفظ" غریب" سے نکالی ہے۔ غرض کہ شعراے اردو نے کثرت سے مادہ ہائے تاریخ نظم کیے ہیں۔

غالبؔ چوں ز ناسازی فرجام نصیب
ہمہ بیمِ عدو دارد، ہم ذوقِ حبیب
تاریخِ ولادتِ من از عالمِ قدس
ہم ” شورشِ شق ” آمد" و ہم لفظ ” غریب"

شوقؔ نیموی نے ایک رباعی میں اپنے نام، تخلص، کنیت اور اپنے وطنِ مالوف ” نیمی" کو بڑی خوب صورتی اور فن کاری کے ساتھ بیان کیا ہے اور اپنی تاریخِ ولادت ۱۲۷۸ء "ظہیر الاسلام" سے نکالی ہے:

شوقؔ است تخلصم، ظہیر احسن نام
در قریۂ دل نواز نیمیؔ است مقام
شد از پئے کنیم "ابو الخیر" الہام
تاریخِ تولدم "ظہیر الاسلام" ( ۱۲۷۸ھ)

شوقؔ نیموی کی مختلف رباعیوں میں مذہب و اخلاق کی بیش قیمت اور حیات بخش تعلیمات پائی جاتی ہیں۔ ذیل کی چند رباعیاں دیکھیں۔ وہ قومِ مسلم کو جھنجھوڑتے ہوئے خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب سونے کا وقت نہیں۔ خوابِ گراں سے اٹھو، گردشِ ایام نے تمھارا کام تمام کر دیا ہے۔ اسلام اب برائے نام باقی رہ گیا ہے۔ مسلمان کے قول و عمل سے اسلام ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسری رباعی میں مذہبِ اسلام کے ذمہ دار طبقہ سے خطاب ہے۔ شاعر کشتیِ ملت کے کھیون ہاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ خدا را اسلام کے بیڑے کو غرق ہونے سے بچا لو۔ قومِ مسلم کے روحانی و اخلاقی امراض میں سے "منافقت" اور "غفلت و تساہل" بھی ہے۔ ان امراض نے آج قومِ مسلم کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ غفلت، سستی، تن آسانی، عشرت پسندی، ظاہر میں کچھ، باطن میں کچھ۔ دل میں یادِ بتاں اور زبان پر کلمۂ اسلام کا ذکر۔ ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے شوقؔ نیموی نے بڑی اچھی رباعی نظم کی ہے:

اس گردشِ چرخ نے کیا کام تمام
غفلت میں پڑی رہتی ہے قوم اپنی مدام
اے خوابِ گراں کے سونے والے اٹھو
اب نام کو رہ گیا ہے باقی اسلام

افسوس وہ اسلام کی حالت نہ رہی
وہ شکل، وہ رنگ، وہ صورت نہ رہی
غفلت کے مرض سے دل ہو گئے کمزور
اسلام کے کچھ کام کی ہمت نہ رہی

یہ بحر، یہ موج، یہ بھنور، یہ منجدھار
کشتی ٹوٹی ہوئی ہے سینہ ہے فگار
اے دین کے ناخدا! دُہائی تیری
اسلام کا بیڑا کہیں لگ جائے پار

ایمان کا پاس کچھ خدا کا بھی ہے دھیان
” کعبہ" کو بنا دیا بتوں کا استھان
کیا شوقؔ چلے وعظ کہنے کے لیے!
دل میں یادِ بتاں، بغل میں "قرآن"

غزل کی ملاحت و نغمگی اور اس کی شیرینی و چاشنی کا کیا کہنا! آخر کون سا وہ سخن ور ہے جو اس کی تیغِ نگاہ کا گھائل نہ ہوا ہو اور کون سا وہ مشاطۂ سخن ہے، جس نے اس کی ریشمی زلفوں کو سنوارا نہ ہو۔ ذیل کی رباعی میں غزل کی چاشنی ملاحظہ ہو:

پہلے نگہِ ہوش ربا نے لوٹا
اس بت کے پھر اندازِ وفا نے لوٹا
اے شوقؔ رہا سہا مرا صبر و قرار
کچھ ناز و ادا نے کچھ حیا نے لوٹا

گھائل جو ہوں تیغِ ابروِ دلبر کا
ہر لفظ میں رنگ ہے دمِ خنجر کا
ٹوٹے ہوئے دل سے جو صدا نکلے گی
اے شوقؔ کرے گی کام وہ نشتر کا

غمِ عاشقی میں کُڑھنے اور آہیں بھرنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ عشق کا مرحلہ بڑا دشوار اور جاں گداز ہوتا ہے۔ کبھی عالمِ وحشت میں اپنا سر پٹک پٹک کر پھوڑا جاتا ہے اور کبھی واعظ و ناصح کی سخت کلامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عشق وہ بھاری پتھر ہے، جو اٹھائے نہیں اٹھتا۔ بالآخر عاشقِ دل فگار اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیتا ہے اور بارِ غمِ عشق کو اٹھانے کی ہمت و جرأت نہیں کرتا۔ عشق و وارفتگی کی اس لطیف کیفیت کو جنابِ شوقؔ یوں بیان کرتے ہیں:

وحشت نے پٹک پٹک کے سر پھوڑ دیا
ناصح نے سخت کہہ کے دل توڑ دیا
آخر نہ اٹھا بتوں کا بارِ غمِ عشق
بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑ دیا

آہ و فغاں اور گریہ و نالہ عشق کے لوازمات میں سے ہیں۔ قلب میں اضطراب و التہاب، لبوں پر آہِ سرد، چہرے پر زرد نشان اور دل میں درد۔ یہ ہے عاشقِ صادق کا کُل سرمایۂ حیات اور عشقِ جاں سوز کی پہچان۔ چوٹ کھائے بغیر شاعر کیسا اور دردِ دل کے بغیر شاعری کیسی؟ اسی لیے جنابِ شوقؔ فرماتے ہیں:

عاشق وہی جس کے لبوں پر ہو دمِ سرد
ہے عشق اسی کو جس کا چہرہ ہو زرد
شاعر وہی جس نے چوٹ بھی کھائی ہو
ہے شعر اسی کا جس کے دل میں ہو درد

ذیل کی رباعی میں عشق کی بیتابی اور محبت کی جلوہ سامانی کے ساتھ "معنیٰ آفرینی" کی فضا ملاحظہ کریں:

پہلو میں تھا درد، دل میں تھا داغِ سیاہ
آنسو ہے اب آنکھوں میں، لبوں پر ہے آہ
کیوں مجرمِ عشق میں نہ ٹھہروں اے شوقؔ
پہلے دو تھے، ہوئے یہ اب چار گواہ
کسی زندہ دل شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

شاعری کیا ہے، دلی جذبات کا اظہار ہے
دل اگر بیکار ہے، تو شاعری بیکار ہے

دل سب کے پاس ہوتا ہے، لیکن لذت آشنا دل، حقیقت شناس دل، سوز و گداز سے لبریز دل اور اپنے محبوب و مطلبوب کے ذکر و فکر میں آہیں بھرنے والا دل سب کو کہاں میسر آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ "شاعری مچلتے جذبات کے پُر کیف اظہار کا نام ہے۔" جذبات کی آماج گاہ دل ہے۔ اب اگر دل میں سوز و گداز نہ ہو، تو شاعری کو محض الفاظ کا پشتارہ اور کلمات و فقرات کا کباڑ خانہ سمجھنا چاہیے۔ صاحبِ علم ہونا اور ہے اور صاحبِ دل ہونا شے دیگر۔ زبان داں ہونا اور ہے اور کُنہِ دل کا رمز آشنا ہونا کچھ اور۔ اسی زندہ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ شوقؔ نیموی نے یہ معنی خیز رباعی کہی ہے:

کرتے ہیں بہت لوگ چناں اور چنیں
ہر شخص سمجھتا ہے کہ شاعر ہیں ہمیں
ذی علم ہو کوئی یا زباں داں اے شوقؔ
جب دل ہی نہیں پاس تو کچھ بھی نہیں

الفاظ کی اثر آفرینی، کلمات و فقرات کی دل آویزی اور قوتِ گویائی کا اعجاز مسلم ہے، جس کی تائید حدیث پاک: "ان من البیان لسحرا" سے بھی ہوتی ہے۔ دل سے نکلی ہوئی بات اپنے اندر بڑی تاثیر رکھتی ہے۔ یہ وہ آنچ ہے جو پتھر دل انسان کو بھی پگھلا دیتی ہے۔ بعض اشعار حکمت سے پُر اور سوز و گداز سے لبریز ہوتے ہیں جو شمشیرِ بُرّاں کا کام کرتے ہیں اور پتھروں میں بھی شگاف ڈال دیتے ہیں۔ شوقؔ نیموی کہتے ہیں کہ میرے اشعار کو بے جان نہ سمجھو۔ یہ میرے دل کے پُر درد نالے اور قلبِ مضطر کے شرارے ہیں۔ ان کے اندر وہ تاثیر ہے کہ پتھر کے دل میں بھی راستہ بنا لیتے ہیں۔ میری قوتِ گویائی کے اعجاز سے بت بھی ”سبحان اللہ" کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اشعار مرے نہیں، یہ ہیں نالہ و آہ
پتھر کے دل میں کرتے ہیں یہ راہ
اے شوقؔ یہ اعجاز ہے گویائی کا
بول اٹھتے ہیں بت بھی سبحان اللہ

"شاعرانہ تعلّی" ایک خاص شعری اسلوب ہے، اس کو غرور و تکبر یا شاعر کی انانیت سے موسوم کرنا حماقت ہے۔ شوقؔ نیموی کی متعدد رباعیاں اس وصف سے متصف ہیں۔ اگر شاعر و فن کار واقعی عظیم المرتبت اور جلیل القدر ہو تو "شاعرانہ تعلی" اس کو زیب دیتی ہے۔ والیِ رام پور نواب کلب علی خان، داغؔ دہلوی، حسرتؔ عظیم آبادی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسی ہستیوں نے شوقؔ نیموی کی شاعرانہ عظمت و مہارت کو تسلیم کیا ہے۔ لہٰذا شوقؔ کے کلام میں "شاعرانہ تعلی" کا پایا جانا کوئی امرِ معیوب نہیں ہے۔

جب طبعِ رسا کسی کی ڈٹ جائے گی
منکر کی فکرِ سست ہٹ جائے گی
شمشیرِ سخن سے اہلِ جوہر کی
اے شوقؔ عدو کی ناک کٹ جائے گی

منکر ہے کہاں ذرا اب آ کر دیکھے
میدانِ کلام کا دلاور دیکھے
باری اب "شوقؔ نیموی" کی آئی
اس پوربی شاعر کا بھی جوہر دیکھے

پہلی رباعی کے آخری مصرعے میں محاورہ ” ناک کٹنا" بھی خوب ہے اور شاعر کی قادر الکلامی پر دال ہے۔ شوقؔ کے ساتھ "نیموی" کا اضافہ اور "پوربی شاعر" کا بھی جواب نہیں ہے۔
یہ دنیا نکتہ چینوں سے بھری پڑی ہے۔ شوقؔ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ لوگ ان کے بعض کلام و اشعار پر "شاعرانہ تعلیّ" کا لیبل چسپاں کریں گے، اس لیے تحدیثِ نعمت کے طور پر اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ الحمد للہ! مروجہ علوم و فنون پر مجھے دسترس حاصل ہے۔ میں نے اپنے بارے میں جو کچھ بھی بیان کیا ہے، وہ "شاعرانہ تعلّی" نہیں، بلکہ حقیقت کی ترجمانی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ علامہ نیموی صرف اسلامی علوم اور درسِ نظامی کے ہی دقّاق عالم نہیں تھے۔ بلکہ لسانیات و ادبیات کے بھی ایک مسلم الثبوت محقق و ناقد تھے۔ لسانیات، عروض، املا، علم بیان و معانی و بدیع اور شعر و ادب کے اصول و مبادی پر ان کو گہری بصیرت اور اجتہادی مقام حاصل تھا۔ چنانچہ شوقؔ نیموی کی شعری مہارت و ادبی حذاقت کے حوالے سے جناب محفوظ الحق واصلؔ عظیم آبادی لکھتے ہیں:
علامۂ زمن، محققِ کامل الفن جناب مولانا ابو الخیر محمد ظہیر احسن صاحب شوقؔ نیموی عظیم آبادی کی ذاتِ با برکات بھی ایک آئینۂ قدرتِ الہٰی ہے کہ جس علم کی طرف نظر اٹھائی دریا بہا دیا اور جس فن کی جانب توجہ کی ڈنکا بجا دیا۔ خصوصاً شعر و سخن میں وہ رتبۂ خدا داد پایا ہے کہ اساتذۂ لکھنؤ و دہلی تک آپ کو مانتے ہیں اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ……. المختصر حضرت شوقؔ نیموی کا کمال و مہارتِ فن مسلم الثبوت ہے۔
(دیباچہ مثنوی سوز و گداز، ص: 1، مطبوعہ: نظامی پریس، پٹنہ)
شوقؔ نیموی کو شاعری میں جناب شمشاد لکھنوی و تسلیمؔ لکھنوی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ ان دونوں بزرگ استاذ کو اپنے اس ہونہار اور لائق و فائق شاگرد پر ناز تھا۔ اسی نسبتِ تلمذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں:

کس فن میں نہیں دخلِ کامل مجھ کو
ہیں جتنے علوم سب ہیں حاصل مجھ کو
پھر بھی نہ کبھی تعلّیاں کیں اے شوقؔ !
صد شکر دیا خدا نے وہ دل مجھ کو

شمشادؔ نے دی ہے ارجمندی مجھ کو
گلزارِ سخن میں سر بلندی مجھ کو
تسلیمؔ کے فیض سے جھکا ہے سرِ عجز
بھاتی نہیں کچھ بھی خود پسندی مجھ کو

"مان نہ مان میں تیرا مہمان" اردو کی مشہور کہاوت ہے۔ اس کو شعر کی لڑی میں جس مہارت کے ساتھ پِرویا گیا ہے، وہ جنابِ شوقؔ جیسے کہنہ مشق اور دیدہ ور شاعر کا ہی کام ہو سکتا ہے۔

اس کعبۂ دل میں جو خدا کا ہے مکان
افسوس کہ رہتا ہے بتوں کا ارمان
اے شوقؔ جو کچھ کہیے تو بول اٹھتا ہے
” تو مان نہ مان میں ہوں تیرا مہمان"

شوقؔ کی بعض رباعیات میں بڑی بے تکلفی، برجستگی اور "سہلِ ممتنع" کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعر کی صورت میں کوئی نثری ٹکڑا قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے ارتجالاً موزوں ہو گیا ہو۔ مثلاً:

کس سوچ میں ہیں آپ یہ کیا حال ہے آج
کیا کشورِ دل کیا کسی نے تاراج
آثارِ ملال ہیں جبیں سے ظاہر
اے حضرتِ شوق کہیے کیسا ہے مزاج

صوبۂ بہار کی دار السلطنت ” پٹنہ" کی علمی و ادبی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شوقؔ نیموی اسی مادرِ مشفق کے پروردہ تھے۔ پٹنہ کی مدح میں ان کی یہ رباعی بھی بڑی دل چسپ ہے:

اب ملکِ سخن کی آبرو ہے پٹنہ
مشہورِ زمانہ چار سو ہے پٹنہ
شوقؔ اہلِ کمال کا یہاں مجمع
رشکِ دہلیؔ و لکھنؤ ہے پٹنہ

ان کے علاوہ شوقؔ کی اور بھی رباعیاں ہیں، جن سے ان کی شاعرانہ عظمت اور "فنِ رباعی گوئی" میں ان کی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ "رباعی گو شعرا" میں علامہ ظہیر احسن شوقؔ نیموی کا نام بھی فخریہ طور پر لیا جا سکتا ہے.
***
طفیل احمد مصباحی کی گذشتہ نگارش :حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے علمی و ادبی آثار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے