حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے علمی و ادبی آثار

حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے علمی و ادبی آثار

محمد طفیل احمد مصباحی
رابطہ: tufailmisbahi@gmail.com

قطب الاقطاب، شیخ المشائخ، ابو الفتح، صدر الدین، ولی الاکبر الصادق سید محمد حسینی عرف حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ (متوفیٰ : 825 ھ) کی تہہ دار فکر و شخصیت بہت سارے فضائل و کمالات اور نوع بہ نوع اوصاف و خصوصیات کی جامع تھی۔ آپ شریعت و طریقت کے مجمع البحرین تھے۔ علم و حکمت، فضل و کمال، سلوک و عرفان، طریقت و معرفت، ولایت و روحانیت اور زہد و تقویٰ کی ساری خوبیاں ایک مرکز پر سمٹ آئی تھیں، جن کے سبب آپ کی شخصیت فائق الاقران بن گئی تھی۔ آپ کی ذات اپنے اندر بڑی کشش اور وسعت و جامعیت رکھتی ہے۔ آپ جامع العلوم و الفنون اور جامع الحیثیات و الکمالات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے وقت کے اکابر علما و مصنفین اور عظیم المرتبت مشائخِ طریقت نے آپ کے علم و ولایت اور بلند علمی و روحانی مقام کا کھلے دل سے اظہار و اعتراف کیا ہے۔ غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ جیسی عظیم المرتبت ہستی جو علم و حکمت کے جبلِ شامخ اور بحرِ ولایت و روحانیت کے غواص تھے، آپ کی علمی و روحانی عظمتوں کو یوں اجاگر فرماتے ہیں:
در سیر نخستیں کہ بجانبِ دیار دکن واقع شد، ملازمتِ حضرت میر سید محمد گیسو دراز کردیم بہ غایت عالی شان یافتم و تصنیفاتِ بسیار از آں حضرت سر برزدہ …………. چوں بشرفِ ملازمت حضرت میر سید محمد گیسو دراز مشرف شدم، آں مقدار حقائق و معارف کہ از خدمتِ وے بہ حصول پیوست اند ہیچ مشائخ دیگر نہ بود۔ سبحان اللہ چہ جذبۂ قوی داشتہ اند۔ یعنی دکن کی پہلی سیر کے دوران ہم میر سید محمد گیسو دراز کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھیں ہم نے عظیم المرتبت اور عظیم الشان بزرگ پایا۔ حضرت کے قلم سے بہت ساری کتابیں وجود میں آئی ہیں۔ جب میں حضرت میر سید محمد گیسو دراز کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے ایسے ایسے حقائق و معارف حاصل ہوئے کہ دوسرے مشائخ سے نہ ہوئے۔ سبحان اللہ ! وہ کیا قوی جذبہ رکھتے تھے۔
( بزمِ صوفیہ بحوالہ مراۃ الاسرار، ص : 508، ناشر: دار المصنفین، اعظم گڑھ)
ولادت، نام و نسب، تعلیم و تربیت:
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی ولادت 721 ہجری میں بہ مقام دہلی ہوئی۔ جس وقت حضرت نظام الدین اولیا کا وصال ہوا، آپ چار سال کے تھے۔ نسبی لحاظ سے آپ کا تعلق حسینی سادات سے ہے۔ بائیسویں پشت میں جا کر آپ کا سلسلۂ نسب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مل جاتا ہے۔ "سیرِ محمدی" ( جو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات اور احوال و آثار پر لکھی گئی سب سے مستند اور قدیم کتاب سمجھی جاتی ہے) میں آپ کا شجرۂ نسب یوں بیان کیا گیا ہے: سید السادات، منبع السعادات، صدر الملۃ و الدین، الولی الاکبر الصادق ابو الفتح سید محمد بن یوسف بن علی بن محمد بن یوسف بن حسن بن محمد بن علی بن حمزہ بن داؤد بن زید بن ابو الحسن الجندی بن حسین بن ابی عبد اللہ بن محمد بن عمر بن یحییٰ بن حسین بن زید المظلوم بن علی اصغر زین العابدین بن الحسین السبط الشہید بن فاطمۃ بنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
(سیرِ محمدی، ص: 7، مطبوعہ: یونانی دوا خانہ پریس، الہٰ آباد)
چار سال کی عمر میں اپنے والد شیخ یوسف بن علی کے ہمراہ دہلی سے دولت آباد چلے گئے اور وہیں اپنے والد اور دادا سے ابتدائی تعلیم و تربیت پائی۔ 16 / سال کی عمر میں اپنی والدہ اور بھائی حسین بن یوسف کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے۔ اس وقت دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا کے خلیفۂ اعظم حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی ولایت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ایک روز حضرت گیسو دراز، خواجہ چراغ دہلوی کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی خواہش ظاہر کی۔ چراغ دہلوی نے ان کی ذہانت و طباعی اور حسنِ گفتار و کردار کی تعریف کے ساتھ باطنی علوم سے قبل ظاہری علوم کی تکمیل کا مشورہ دیا، جسے آپ نے قبول کرتے ہوئے دینی علوم کی تحصیل میں لگ گئے۔ حضرت علامہ سید شرف الدین کیتھلی، حضرت علامہ تاج الدین المقدم اور فقیہِ دوراں حضرت علامہ قاضی عبد المقتدر الکندی علیہم الرحمہ سے خواجہ گیسو دراز نے مروجہ علومِ درسیہ و فنونِ ادبیہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی۔ آپ نے سب سے زیادہ علمی استفادہ قاضی عبد المقتدر الکندی سے کیا اور ان سے الشمسیہ، الصحائف، مفتاح العلوم، ہدایہ، اصولِ بزدوی اور تفسیرِ کشاف جیسی اہم کتابیں پڑھ کر علم و فضل میں یگانۂ روزگار ہو گئے۔ ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے باطنی علوم حاصل کر کے "شیخ المشائخ" اور "قطب الاقطاب" کے مقامِ رفیع پر فائز ہوئے۔ نیز اپنے فضل و کمال، علمی تبحر، ذہانت و فطانت اور زہد و تقویٰ کے سبب آپ بہت جلد حضرت چراغ دہلوی کے مقرب اور منظورِ نظر مرید و خلیفہ بن گئے۔ آپ کے پیر و مرشد حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی کی وفات 757ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد آپ ایک زمانے تک دہلی میں رہے اور اپنے علم و روحانیت سے بندگانِ خدا کو فائدہ پہنچاتے رہے اور 801ھ میں جب کہ امیر تیمور نے دہلی پر حملہ کیا، آپ دہلی سے ہجرت کر کے دکن کی طرف روانہ ہوئے۔ گوالیار، چندیری، بڑودہ اور کھمبات ہوتے ہوئے گجرات گئے اور پھر دولت آباد کے راستے گلبرگہ شریف پہنچے اور اس مقام کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے رشکِ جنت بنا دیا اور اپنی بے مثال دینی، علمی، روحانی، دعوتی اور تصنیفی خدمات سے پورے عہد کو متاثر کیا۔
( تذکرہ علمائے پاکستان و ہند ، ص : 293 / 295 ، مطبوعہ : تخلیقات ، مزنگ روڈ ، لاہور)
گلبرگہ آنے اور یہاں مستقل قیام کرنے کے بعد آپ کے وعظ و ارشاد، تعلیم و تبلیغ، تصنیفی خدمات اور علمی مشاغل کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:
شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے خلیفہ و مرید سید محمد بن سید یوسف الحسنی الدہلوی (وفات: 825ھ) تھے جو "گیسو دراز" کے لقب سے مشہور ہیں۔ یہ اپنے پیر و مرشد کی وفات کے بعد جب 801ھ / 1398ء میں گجرات کے رستے مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے دکن روانہ ہوئے تو شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے بہت سے مرید ان کے ہمراہ ہو لیے اور اس قافلہ کے ساتھ سنہ 815ھ میں حوالی حسن آباد، گلبرگہ میں فائز ہوئے۔ وہ زمانہ فیروز شاہ بہمنی کا تھا۔ بادشاہ کو جب فیروز آباد میں آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو تمام ارکان و امرائے دولت اور اپنی اولاد کو ان کے استقبال کے لیے بھیجا۔ بادشاہ کا بھائی احمد خاں خانخاناں جو بعد میں اس کا جانشیں ہوا، خواجہ بندہ نواز کا بہت بڑا معتقد ہو گیا۔ آپ نے اپنی بقیہ زندگی یہیں بسر کی اور سر زمینِ دکن کو اپنی تعلیم و تلقین سے فیض پہنچاتے رہے۔ حضرت، صاحبِ علم و فضل اور صاحبِ تصانیف بھی ہیں۔ آپ کا معمول تھا کہ نماز ظہر کے بعد طلبہ اور مریدوں کو حدیث اور تصوف و سلوک کا درس دیا کرتے تھے اور گاہے گاہے درس میں کلام و فقہ کی تعلیم بھی ہوتی تھی۔ جو لوگ عربی و فارسی سے واقف نہ تھے، ان کے سمجھانے کے لیے ہندی ( اردو ) زبان میں تقریر فرماتے تھے۔
( اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص: 22، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان)
” گیسو دراز" کی وجہِ تسمیہ:
قطب الاقطاب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا اصل نام "سید محمد ہے، لیکن "بندہ نواز گیسو دراز" سے مشہور ہیں۔ صاحبِ تذکرۂ علمائے ہند کے بیان کے مطابق آپ کو "گیسو دراز" اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک دن آپ نے کچھ لوگوں کے ساتھ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی پالکی اٹھائی ہوئی تھی، پالکی اٹھاتے وقت آپ کے گیسو (بال) جو قدرے لمبے تھے، پالکی میں پھنس گئے۔ آپ نے شیخ کی تعظیم و ادب اور غلبۂ عشق کی وجہ سے بال کو پالکی سے چھڑانے کی کوشش نہیں کی اور سارا سفر اسی حالت میں طے کیا۔ جب آپ کے پیر و مرشد کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس حسنِ ادب سے بہت خوش ہوئے اور یہ شعر پڑھا:
ہر کہ مریدِ سیدِ گیسو دراز شد
واللہ خلاف نیست آں عشق باز شد
اس کے بعد سے آپ کا لقب "گیسو دراز" پڑ گیا اور عوام و خواص آپ کو اسی نام سے یاد کرنے لگے۔
( تذکرۂ علمائے ہند فارسی ، ص: 82، مطبوعہ: منشی نول کشور، لکھنؤ)
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا علمی مقام و مرتبہ:
قطب الاقطاب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز قدس سرہ جامعِ معقول و منقول، ماہرِ شریعت و طریقت اور بلند علمی مقام رکھنے والے عالم و صوفی تھے۔ آپ کا شمار جلیل القدر اصحابِ طریقت اور مایۂ ناز رجالِ علم و معرفت میں ہوتا ہے۔ باطنی علوم کے ساتھ ظاہری علوم و فنون میں بھی آپ کا پایہ کافی بلند تھا۔ آپ کی علمی جلالت تاریخی مسلمات سے ہے۔ آپ کی گراں قدر تصانیف اور آپ کی نوکِ قلم سے وجود میں آنے والے مختلف علوم و فنون پر مشتمل تقریباً ایک سو کتب و رسائل اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپ صرف مسندِ ولایت و روحانیت کے ہی صدر نشیں نہ تھے، بلکہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم و فاضل، بلند پایہ محدث و مفسر، بے مثال فقیہ، بلند پایہ محقق و مفکر اور اعلا درجے کے مصنف بھی تھے۔ مروجہ دینی و ادبی علوم کے جملہ شعبوں پر آپ کی نظر تھی۔ کسی بھی علمی موضوع پر مجتہدانہ شان اور عالمانہ طمطراق کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ آپ کے مجموعۂ ملفوظات "جوامع الكلم" کا مطالعہ کرنے والے قارئین آپ کی علمی جلالت اور عالمانہ شان و شوکت کا اعتراف کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ جناب محمد علی خاں مجددی نقشبندی آپ کی علمی جلالت، علوم و فنون میں مہارت و حذاقت، اجتہادی فکر و بصیرت اور آپ کے عالمانہ جاہ و جلال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے وہ جلیل القدر عارف اور ولیِ کامل تھے کہ ان کی عظمت و جلالت کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔ آپ جامعِ کمالاتِ ظاہری و باطنی تھے۔ علومِ ظاہری میں نہایت اونچا درجہ رکھتے تھے۔ چشتیہ طریقہ کے بزرگوں میں حضرت خواجہ حسن بصری سے حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی تک کسی نے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ نہیں فرمائی، حالاں کہ ان میں سے ہر بزرگ اپنے وقت کے محقق اور درجۂ اجتہاد کے مالک تھے۔ لیکن حضرت خواجہ گیسو دراز نے بڑی اور چھوٹی تقریباً ایک سو پانچ (105) کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ اپنے عہد کے ایک عظیم ترین قطبِ کامل اور عارف و واصل ہوئے ہیں۔ آپ شریعت و طریقت کے جامع اور حقیقتِ حق و اسرارِ حقیقت کے محرمِ راز تھے۔ آپ یکتائے روزگار تھے اور ایک ایسا مقام رکھتے تھے جس کی نظیر اولیائے کرام میں بہت کم یاب ہے۔ آپ علوم و فنون میں ایک کامل و اکمل محققِ زمانہ تھے۔ تمام علومِ مشرقی، ادبِ عربی و فارسی، علومِ دینی، تفسیر و حدیث، فقہ و اصولِ فقہ، کلام و بلاغت و معانی و علومِ عقائد و علومِ حکمت میں آپ ایک امامِ وقت اور مجتہدِ عصر کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ کا فیضانِ علمی ہر وقت جاری رہتا تھا اور ہمیشہ درس و تدریس کے ذریعہ تحقیقاتِ علمیہ کا انکشاف ہوتا رہتا تھا۔ آپ علوم و فنون میں درجۂ کمال رکھنے کی وجہ سے اکثر مشائخِ چشت بلکہ اپنے زمانے کے تمام کاملین میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ آپ نے علومِ حقائق اور علومِ اسرارِ باطن میں وہ موشگافیاں کی ہیں کہ آج منتہی اور صفِ اول کے علما ان کو سمجھ ہی لیں تو وہ بہت کامیاب عالم کہلائیں گے۔ آپ کے سامنے تمام علوم صف بستہ کھڑے رہتے تھے اور جس علم و فن پر آپ اظہارِ خیال فرماتے تھے، یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا اسی علم کے خاص ماہر ہیں۔ علومِ حکمت اور علومِ فلسفہ میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔
( سوانح حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، ص: 22 / 23، مطبوعہ: کمرشیل بک ڈپو، حیدر آباد )
خواجہ بندہ نواز کی قلمی و تصنیفی خدمات:
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کو اولیائے چشت اہلِ بہشت میں یہ امتیاز و انفراد بھی حاصل ہے کہ آپ کثیر التصانیف عالم و صوفی گذرے ہیں۔ آپ نے مختلف موضوعات پر ایک سو سے زیادہ کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ سلطان المحققین، مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری، غوث العالم، محبوبِ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی اور قطب الاقطاب حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہم الرحمۃ و الرضوان کا زمانہ قریب قریب ایک ہے اور یہ تینوں بزرگ کثیر التصانیف ہوئے ہیں۔ خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کی پوری زندگی درس و تدریس، تعلیم و تلقین، دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف اور بندگانِ خدا کی ہدایت و اصلاح میں بسر ہوئی۔ آپ نے بیک وقت تقریر و تحریر دونوں مورچوں کو سنبھالا اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ آپ نے تصنیفی میدان میں جو گراں قدر نقوش چھوڑے ہیں، ان کی تجلیوں سے ایوانِ شریعت و طریقت میں آج بھی اجالا پھیلا ہوا ہے۔ "تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند" کے مقالہ نگار ڈاکٹر احسان الہٰی رانا مستند کتبِ تذکرہ و سوانح کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
برِ صغیر پاک و ہند میں اشاعتِ اسلام اور روحانی ہدایت کے ساتھ ساتھ عربی زبان اور اسلامی علم کی شان دار خدمات انجام دینے والے متشرع صوفیوں میں سید محمد بن یوسف بن علی دہلوی ثم گلبرگوی عرف سید بندہ نواز گیسو دراز کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ………….. تصوف اور تبلیغ کے ساتھ ایک سو پچیس (۱۲۵) کتابیں تصنیف کرنا، یقیناً ایک غیر معمولی کارنامہ ہے اور خصوصاً اس دور میں جب کہ صوفیائے کرام کے لیے عبادت و ریاضت، اوراد و وظائف اور غیر مسلموں میں تبلیغِ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے کام کے لیے وقت نکالنا، ایک مشکل کام تھا۔
( علمائے پاکستان و ہند، ص: 293، مطبوعہ: تخلیقات، مزنگ روڈ، لاہور)
"صاحبِ سیرِ محمدی" اور "مصنفِ بزمِ صوفیہ" کے بیان کے مطابق آپ کے تحریر کردہ کتب و رسائل کے نام یہ ہیں:
( 1 ) ملتقط :
یہ قرآن کریم کی صوفیانہ تفسیر ہے۔ اس میں صوفیانہ و عارفانہ رنگ میں قرآنی آیات کی توضیح و تشریح بیان کی گئی ہے۔
( 2 ) تفسیرِ کلام پاک:
یہ تفسیرِ کشاف کی طرز پر صرف پانچ پاروں کی تفسیر ہے۔
( 3 ) حواشی تفسیرِ کشاف:
یہ جار اللہ زمخشری کی بلند پایہ تصنیف "تفسیرِ کشاف" پر گراں قدر حواشی ہے، جو بیش قدر علمی و تفسیری مباحث پر مشتمل ہے۔
( 4 ) شرحِ مشارق الانوار:
حدیث کی مشہور کتاب "مشارق الانوار" کی عالمانہ و محققانہ توضیح و تشریح۔
( 5 ) ترجمۂ مشارق الانوار:
یہ مشارق الانوار کا فارسی ترجمہ ہے۔
( 6 ) معارف:
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمہ کی مشہور آفاق کتاب "عوارف المعارف" کی عربی شرح۔
( 7 ) ترجمۂ عوارف:
یہ عوارف المعارف کی فارسی شرح ہے، لیکن "ترجمۂ عوارف" سے مشہور ہے۔
( 8 ) شرحِ تعرّف:
حضرت شیخ ابو بکر محمد بن ابراہیم بخاری نے "تعرف" کے نام سے تصوف کی ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی ہے۔ یہ اسی کی شرح ہے۔
( 9 ) شرحِ آداب المریدین (عربی):
حضرت شیخ ضیاء الدین ابو النجیب عبد القادر سہروردی علیہ الرحمہ کی مشہور اور بلند تصنیف "آداب المریدین" کی فاضلانہ عربی شرح۔
نوٹ: سلطان المحققین، مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری علیہ الرحمہ نے بھی شیخ ضیاء الدین ابو النجیب سہروردی کی مذکورہ کتاب "آداب المریدین" کی گراں قدر شرح فارسی زبان میں "شرحِ آداب المریدین" کے نام سے لکھی ہے اور راقم الحروف کے مطالعے میں آ چکی ہے۔ الحمد للہ!
( 10 ) شرحِ آداب المریدین ( فارسی):
یہ حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کی تحریر کردہ "آداب المریدین" کی فارسی شرح ہے، جس کو مولانا سید حافظ عطا حسین مرحوم نے ایڈٹ کر کے حیدر آباد سے شائع کیا ہے۔
(11) شرحِ فصوص الحِکم:
یہ کتاب حضرت شیخ محیی الدین بن عربی علیہ الرحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف "فصوص الحِکم" کی شرح ہے اور اپنے موضوع پر ایک شہ کار تصنیف مانی جاتی ہے۔
( 12 ) شرحِ تمہیدات عین القضاۃ ہمدانی:
یہ کتاب حضرت ابو المعانی عبد اللہ المعروف بہ عین القضاۃ ہمدانی کی مشہور صوفیانہ تصنیف "تمہیدات" کی محققانہ توضیح و تشریح پر مشتمل ہے۔
(13) ترجمہ رسالۂ قشیریہ:
امام التصوف حضرت شیخ ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری کے "رسالۂ قشیریہ" کا فارسی ترجمہ۔
(14) حظائر القدس:
اس کتاب کو ” عشق نامہ" بھی کہتے ہیں۔ اس کا ایک قدیم نسخہ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے کتب خانے میں موجود ہے۔
( 15 ) رسالہ استقامۃ الشریعت بطریقۃ الحقیقت:
اس میں شریعت، طریقت اور حقیقت کے دقیق علمی مباحث بیان کیے ہیں۔ انڈیا آفس کے فارسی مخطوطات کی فہرست میں اس کتاب کا ذکر ہے۔
(16) ترجمہ رسالہ شیخ محیی الدین بن عربی
(17) رسالہ سِیر النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
(18) شرحِ فقہِ اکبر ( عربی و فارسی )
یہ علمِ توحید و کلام کے موضوع پر امام الائمہ، سراج الامۃ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی کتاب "فقہِ اکبر" کی شرح ہے۔
( 19 ) حواشی قُوْتُ القلوب:
حضرت امام طالب بن محمد بن ابی الحسن بن علی کی مشہور کتاب "قوت القلوب" پر مفید اور گراں قدر حواشی۔
( 20 ) اسماء الاسرار:
اس کتاب کو جناب مولانا سید عطا حسین مرحوم نے حیدر آباد سے شائع کیا ہے۔ یہ اپنے موضوع پر ایک لاجواب تصنیف ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ خود اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: "میری کتاب اسماء الاسرار میں باطل کو نہ آگے سے آنے کا موقع ہے اور نہ پیچھے سے۔ کوئی اس سے اختلاف نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ اس میں توحید کی تجرید اور تفرید کے افراد کے سوا کچھ نہیں۔"
مولانا سید عطا حسین صاحب مرحوم، جو اس کتاب کے مرتب و محقق ہیں، لکھتے ہیں:
اس کتاب کے متعلق بعض بزرگوں کا خیال بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے کہ فن تصوف و سلوک و معارف میں ہندوستان میں اس سے بہتر اور اعلیٰ تر کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی۔ یہ کتاب مبتدی، متوسط اور منتہی سب کے لیے مفید ہے۔ اس میں ذکر ہے، شغل ہے، مراقبہ ہے، مراتبِ سلوک کا بیان ہے۔ عشق ہے، توحید ہے، حقائق و معارف ہیں۔ غرض کہ سب کچھ ہے۔
(21) حدائق الانس:
اس میں حقیقت و معرفت کے کچھ رموز و اسرار بیان کیے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں آپ کے حسبِ ذیل کتب و رسائل ہیں، جن کے موضوعات ان کے نام سے ظاہر ہیں:
( 22 ) ضرب الامثال ( 23 ) شرحِ قصیدۂ مانی ( 24 ) شرحِ عقیدۂ حافظیہ ( 25 ) عقیدۂ چند ورق ( 26 ) رسالہ در بیانِ آدابِ سلوک ( 27 ) رسالہ در بیانِ اشاراتِ محبان ( 28 ) رسالہ در بیانِ ذکر ( 29 ) رسالہ در بیانِ "رأیت ربی فی احسنِ صورۃ" ( 30 ) رسالہ در بیانِ معرفت ( 31 ) رسالہ در بیانِ بود و ہست و باشد۔
"سیرِ محمدی" کے مؤلف نے ان خلافت ناموں کو بھی آپ کی تصانیف میں شمار کرایا ہے، جو حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ نے اپنے خلفا کو لکھ کر دیے تھے۔ ان تحریری خلافت ناموں کی تعداد چار ہے۔ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے فارسی مخطوطات کے مطابق حضرت گیسو دراز کے مزید کچھ رسائل کے نام یہ ہیں: رسالہ در تصوف، شرحِ بیت امیر خسرو دہلوی، رسالہ اذکارِ خانوادۂ چشتیہ، وجود العاشقین۔ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے فارسی مخطوطات میں آپ کی ایک تصنیف "خاتمہ" کا بھی ذکر ہے۔ یہ بہ ظاہر تو شرحِ آداب المریدین کا تکملہ یا ضمیمہ ہے، لیکن بجائے خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رسالے میں آپ نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق ایک سالک کے لیے عبادات و معاملات کا لائحۂ عمل پیش کیا ہے، جو آج بھی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے۔
( بزمِ صوفیہ، ص: 509 تا 512، مطبوعہ: دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ )
بابائے اردو مولوی عبد الحق نے اپنی کتاب "اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام" میں "معراج العاشقین" کا نمونۂ نثر پیش کرنے کے بعد آخر میں ص: ۲۳ / ۲۴ پر لکھا ہے کہ "علاوہ اس رسالے کے میرے پاس آپ کے اور متعدد رسالے اس زبان ( دکنی/ قدیم اردو ) میں ہیں۔ تلاوت الوجود، در الاسرار، شکار نامہ، تمثیل نامہ، ہشت مسائل وغیرہ۔ اگر چہ زبان ان کی قدیم ہے۔ لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انھیں کی تصنیف ہیں یا ان سے منسوب ہیں۔" ماہنامہ "شہباز" گلبرگہ میں شائع سید مبارز الدین رفعت کے تحقیقی مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے "معراج العاشقین" کے علاوہ مزید چھ کتابیں اردو زبان میں تحریر فرمائی ہیں، جو حسبِ ذیل ہیں:
(1) شکار نامہ ( 2 ) رسالہ سہ بارہ ( 3 ) ہدایت نامہ (4) تلاوت الوجود ( 5 ) ہشت مسائل ( 6 ) تمثیل نامہ ۔
(ماہنامہ شہباز، گلبرگہ شریف، جنوری و فروری 1962، ص: 10)
مولانا حافظ سید عطا حسین صاحب کی تحقیق و تصحیح کے ساتھ حضرت خواجہ بندہ نواز کے گیارہ فارسی کتب و رسائل کا جو مجموعہ "مجموعۂ یازدہ رسائل" کے نام سے انتظامی پریس، حیدر آباد، دکن سے شائع ہوا ہے، اس میں مندرجہ ذیل کتب و رسائل موجود ہیں:
( 1 ) تفسیر سورہ فاتحہ شریف (2) استقامت الشریعت بطریق الحقیقت (3) رسالہ در مسئلۂ رویتِ باری تعالیٰ و کراماتِ اولیا (4) حدائق الانس (5) رسالہ توحیدِ خواص (6) رسالہ منظوم در اذکار (7) رسالہ مراقبہ (8) رسالہ اذکارِ چشتیہ (9) شرح بیت حضرت امیر خسرو دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (10) برھان العاشقین معروف بہ قصہ چہار برادر و مشہور بہ "شکار نامہ" (11) وجود العاشقین۔ "برھان العاشقین" معروف بہ قصہ چہار برادر و مشہور بہ "شکار نامہ”۔ یہ محض ایک صفحہ کا مختصر مضمون ہے، جس میں خواجہ بندہ نواز نے حقیقتِ انسانی کا ابتدائے آفرینش سے انتہائے کارِ دنیاوی (موت) تک کا خاکہ بے حد لطیف اور اچھوتے پیرائے میں کھینچا ہے۔ صوفیا حضرات میں آپ کا یہ مختصر رسالہ اس قدر مقبول ہوا کہ متعدد اکابرِ طریقت نے اس کی مختصر اور مطول شرحیں لکھی ہیں۔ اس کے شارحین میں میر سید عبد الواحد بلگرامی، میر سید محمد کالپوی اور شاہ رفیع الدین محدث دہلوی جیسے اکابرین شامل ہیں، جس سے رسالے کی اہمیت و افادیت ظاہر ہوتی ہے۔
مکتوبات و ملفوظات:
مذکورہ کتب و رسائل کے علاوہ خواجہ بندہ نواز کے چھیاسٹھ مکتوبات (66) پر مشتمل ایک مجموعہ بھی ہے، جسے آپ کے خلیفہ شیخ ابو الفتح علاء الدین نے مرتب کیا ہے۔ جناب سید عطا حسین صاحب کے بہ قول: اس مجموعہ میں حضرت خواجہ بندہ نواز کے چھیاسٹھ (66) مکتوبات ہیں۔ ان میں ایک مکتوب (مکتوب نمبر: 39) سلطان فیروز بہمنی بادشاہ گلبرگہ کے نام اور ایک مکتوب (مکتوب نمبر: 66) حضرت مسعود بک چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے نام ہے۔ بقیہ سب مکاتیب مریدوں اور خلفا کو لکھے گئے ہیں۔
( مقدمہ مکتوبات خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، ص: 2، مطبوعہ: آفرین برقی پریس، حیدر آباد، سنِہ اشاعت: 1362 ہجری)
نمونے کے طور پر حضرت خواجہ بندہ نواز کا صرف ایک مکتوب یہاں نقل کیا جاتا ہے، جسے آپ نے سلطان فیروز بہمنی بادشاہ گلبرگہ کو ارسال فرمایا تھا۔
مکتوب سی و نہم (مکتوب نمبر: 39):
” بجانب سلطان فیروز شاہ گلبرگہ"
اللھم پادشاہ ما را و شاہزدگان ما را در حفظ و عصمت خود دار و ملکت و مکنت و دستگہ پادشاہ را بقدر ہمت و وسعت دلرا بخش آں بلند ہمت ما را ہر جا کہ خصمے دشمنے است پست باد ارجو بل اتیقن کہ تقدیرِ ازلی موافقِ دعائے ما ست۔ الحمد للہ علی ذالک و السلام۔
( مکتوبات خواجہ بندہ نواز گیسو دراز فارسی، ص: 86، مطبوعہ: آفرین برقی پریس، حیدر آباد، سنِہ اشاعت: 1362ھ)
تذکرہ و سوانح کی کتابوں میں آپ کے گراں قدر ملفوظات کے چار مجموعوں کا ذکر ملتا ہے، جن میں "جوامع الكلم" کو غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔ آپ کی عبقری شخصیت، تہہ دار فکر و فن، اور مختلف علوم و فنون میں آپ کی اجتہادی بصیرت کو سمجھنے کے لیے یہی ایک کتاب کافی ہے۔ کیوں کہ اس میں علوم و معارف کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ آپ کی نورانی و عرفانی محفل میں جس موضوع پر بھی گفتگو ہوئی ہے اور مریدین و مسترشدین نے جس قسم کے سوالات کیے ہیں، آپ نے ان کے مدلل اور تحقیقی جوابات دیے ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ و تفسیر اور فلسفہ و کلام کے سینکڑوں اہم اور ادق مسائل و مباحث نے اس کتاب کو اسم با مسمیٰ بنا دیا ہے۔ شائقینِ تصوف و سلوک کے لیے یہ مجموعۂ ملفوظات کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ آپ کے علمی آثار میں اس کتاب کو غیر معمولی مقام حاصل ہے۔
خواجہ بندہ نواز کی شاعرانہ حیثیت:
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی فکر و شخصیت بڑی تہہ دار تھی۔ آپ عالم، فاضل، محدث، مفسر، فقیہ و مفتی، صوفی، ولیِ کامل، صوفیِ مرتاض، محقق، ادیب، مصنف، نثر نگار اور شاعر سب کچھ تھے۔ آپ کے علمی و ادبی آثار کا ایک نمایاں پہلو اور قابلِ ذکر حصہ آپ کے فارسی و دکنی کلام بھی ہیں۔ اس لیے اس جہت (شاعرانہ حیثیت) سے گفتگو بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک سو سے زائد نثری کتب کے مصنف ہونے کے علاوہ آپ فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ آپ کو اردو کے پہلے مصنف اور پہلے نثر نگار ہونے کے علاوہ دکن کے پہلے شاعر ہونے کا بھی شرف و اعزاز حاصل ہے۔ مشہور محقق اور ماہرِ دکنیات نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تحقیقی کتاب "دکن میں اردو" میں حضرت خواجہ بندہ نواز کو دکن کا پہلا شاعر تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ موجودہ تحقیقات کے لحاظ سے خواجہ بندہ نواز سید محمد حسینی گیسو دراز علیہ الرحمہ متوفیٰ: 825ھ دکن کے پہلے شاعر قرار پاتے ہیں۔
( دکن میں اردو، ص: 42، مطبوعہ: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی)
پروفیسر خلیق انجم صاحب آپ کی شاعرانہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ بندہ نواز فارسی کے بڑے اچھے شاعر تھے۔ ان کا فارسی دیوان گلبرگہ سے شائع ہو چکا ہے۔ دکنی میں بھی شعر کہا کرتے تھے۔ ان کی ایک نظم "چکی نامہ" ادارہ ادبیات اردو میں موجود ہے، جس کی نقل میرے کرم فرما جناب محیی الدین صاحب قادری زور نے میری درخواست پر ارسال فرمائی ہے۔ اس نظم کے علاوہ بھی کچھ کلام ملتا ہے۔ میں نے تمام دکنی کلام کو یکجا کر دیا ہے۔ حضرت کا فارسی میں کوئی خاص تخلص نہیں تھا …….. القاب اور کنیت کے ساتھ ان کا پورا نام "صدر الدین ابو الفتح سید محمد حسینی گیسو دراز" تھا۔ ان میں جو مناسب سمجھا، مقطع میں استعمال کر لیا اور ایک غزل کے مقطع میں یہ سب الفاظ (اسما) جمع کر دیے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:
اے ابو الفتح محمد صدرِ دیں گیسو دراز
مختصر کن چند نالے قصۂ خود گرد آر
لیکن اس کے برعکس دکنی شاعری میں ان کا تخلص "شہباز" تھا۔ آپ کا دکنی کلام یا تو بیماریوں کے علاج کے مختلف طریقوں پر مشتمل ہے یا پھر صوفیانہ ہے۔
( مقدمہ معراج العاشقین، مرتبہ: خلیق انجم، ص: 84، ناشر: مکتبہ شاہراہ، اردو بازار، دہلی)
حضرت خواجہ بندہ نواز چوں کہ "ہر فن مولیٰ" واقع ہوئے تھے، اس لیے آپ کے اندر شعر و سخن کا ملکہ بھی موجود تھا، لیکن اس فن سے آپ کو زیادہ دل چسپی نہیں تھی۔ ہاں! جب کبھی شاعری کی طرف طبیعت کا میلان ہوتا اور جذبۂ عشقِ صادق سے مغلوب الحال ہو جاتے تو غزلیہ اشعار زبان پر مچلنے لگتے اور نہایت قادر الکلامی کے ساتھ اشعار موزوں فرماتے۔ آپ کا فارسی مجموعۂ غزلیات "انیس العشاق" کے نام سے موسوم ہے، جس میں کُل 327 / غزلیات، 26 / اشعار کی ایک مثنوی اور 9 / رباعیات ہیں۔ آپ کی فارسی و دکنی شاعری زبان و ادب کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ آپ کی شاعرانہ حیثیت، ادبی مہارت اور آپ کے فارسی و دکنی کلام کے ادبی و فنی محاسن پر پی. ایچ. ڈی. کی جا سکتی ہے۔ اللہ کرے کوئی نیک بندہ سامنے آئے اور اس مرحلۂ شوق کی تکمیل فرمائے۔
” اس مرحلۂ شوق کی تکمیل ہو یارب"
دیوان کا آغاز حمدِ الہیٰ سے ہوتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے عربی زبان میں ایک کلام ہے، جو حمد و نعت اور منقبتِ خلفائے راشدین پر مشتمل ہے۔ بعد ازاں آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کی منقبت ہے۔ اس کے بعد حروفِ تہجی کے اعتبار سے غزلیہ کلام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ راقم الحروف کا مقصد آپ کے کلام تجزیہ کرنا نہیں، بلکہ بہ حیثیتِ شاعر آپ کا تعارف کرانا اور نمونۂ کلام پیش کرنا ہے۔ چند نمونۂ کلام ملاحظہ کریں:
تعالیٰ اللہ عن قیل و قال
و عن حد و رسم والمثال
قریب ذاتہ من کل شیئ
و لٰکن لیس یوصف باتصال
بعید ذاتہ ایضاً و لٰکن
بلا وصف التفرق و انفصال
تنزہ عن مکان حال منہ
و لا یوجد مکان عنہ خال
صلوٰۃ و السلام علی رسول
حمید احمد حسن الخصال
کریم ، راحم ، برّ ، رؤف
شریف ، شافع اھل الضلال
علیٰ اصحابِہ تسلیم عبد
ذلیل خاضع ذی الابتذال
( انیس العشاق ، ص : 5 ، مطبوعہ : گلبرگہ )
اے خداوندے کہ از جودش جہانے را وجود
اے خداوندے کہ از بودش ہمہ عالم بہ بود
اے خداوندے کہ او ذراتِ عالم را محیط
عالم و آدم ہم از وے یافتہ یک یک شہود
اے خداوندے کہ عینِ ما بعین العین است عیاں
اے ابو الفتح ! او بیامد عین ما را در ربود
( انیس العشاق ، ص : 6 ، مطبوعہ : گلبرگہ شریف)
خواجہ بندہ نواز کو حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ ان کی ایک مقبول ترین غزل کا مطلع ہے:
منزلِ عشق از جہانِ دیگر است
مردِ معنیٰ را نشانِ دیگر است
اسی غزل کی طرز پر اسی بحر اور ردیف و قافیہ میں خواجہ بندہ نواز کی بھی ایک غزل "انیس العشاق" میں موجود ہے۔ ضیافتِ طبع کے لیے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں:
مردِ معنی از جہانِ دیگر است
گوہرِ لعلش ز کانِ دیگر است
کُشتگانِ غمزۂ عشاق را
ہر زماں از لطف جانِ دیگر است
علاوہ ازیں مندرجہ ذیل اشعار سلاست و روانی، نفاست و برجستگی اور وارفتگی و شیفتگی کا بے مثل نمونہ ہیں:
صباحے ، دلربائے ، مرحبائے
مبارک مطلعے میموں لقائے
لبِ میگوں او یارب چہ لعلے است
کہ ہر دم می چکد از وے صفائے
اگر تو پند گوئی نیک خواہی
مزیدِ درد ما را کن صفائے
بخواں الحمد و بر دل زن بفرما
مبادا دردِ ایں دل را دوائے
ہمیشہ بودہ ام معشوقِ خوباں
کنوں عاشق شدم دیدم بلائے
نمی خواہد خداوندا محمدؔ
کہ بیند عشقِ خود را انتہائے
آپ کی دکنی شاعری میں "چکی نامہ" خاصی مشہور نظم ہے، نمونے کے طور اس کے بھی چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دیکھو واجب تن کی چکی
پیو چا تر ہو کے سکی
سوکن ابلیس کھنچ کھنچ تھکی
کے یا بسم اللہ ہو ھو ھو اللہ
الف اللہ اس کا دستا
میانے محمد ہو کو بستا
پہنچی طلب یوں کو دستا
کے یا بسم اللہ ھو ھو اللہ
(دیباچہ معراج العاشقین ، مرتبہ: خلیق انجم، ص: 86)
"معراج العاشقین" اردو کی پہلی تصنیف:
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے اکثر کتب و رسائل فارسی زبان میں ہیں اور بعض عربی میں۔ لیکن "معراج العاشقین" آپ کا تحریر کردہ وہ واحد رسالہ ہے، جسے آپ نے اردو زبان میں تحریر فرمایا ہے اور یہ اردو زبان کی سب سے پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ خواجہ بندہ نواز کی طرف اس کے انتساب کو اگر چہ بعض محققین شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ آپ کی تصنیف ہے اور اردو زبان کی پہلی با ضابطہ تصنیف ہے اور چوں کہ یہ اردو زبان میں لکھی گئی پہلی تصنیف ہے، اس لیے اردو کے بڑے بڑے محققین و ناقدین نے اپنی عنانِ تحقیق و تنقید اس کی جانب مبذول کی ہے۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق، پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر خلیق انجم کی تصحیح و تصویب اور تحقیق و ترتیب کے ساتھ یہ متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:
حضرت گیسو دراز صاحبِ تصانیفِ کثیرہ تھے۔ آپ کی کتابیں زیادہ تر فارسی میں ہیں اور بعض عربی میں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ انھوں نے عام لوگوں کی تلقین (اصلاح و ہدایت) کے لیے بعض رسالے اپنی زبان (دکنی) میں بھی لکھے۔ ان کا ایک رسالہ "معراج العاشقین" میں مرتب کر کے شائع کر چکا ہوں۔ اس کا سنِ کتابت 906 ہجری ہے۔
(اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص: 23، مطبوعہ: انجمن ترقی اردو، کراچی، پاکستان)
اردو زبان کے قدیم کتب و رسائل ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ لیکن خواجہ بندہ نواز کی "معراج العاشقین" کو اس لیے اہمیت و فوقیت حاصل ہے کہ یہ اردو کے پہلے مصنف اور پہلے نثر نگار کی پہلی اردو تصنیف ہے۔ اس کی نثر اردو نثر کا اولین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کے بعد ہی سے اردو نثر نگاری اور اردو کتب نویسی کا با ضابطہ آغاز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سید مبارز الدین رفعت اپنے تحقیقی مضمون "شکار نامہ" میں لکھتے ہیں:
گلبرگہ کو تنہا یہی شرف حاصل نہیں کہ وہ ایک قدیم تاریخی مقام ہے اور دکن کی پہلی اسلامی ریاست کا صدر مقام رہا ہے، اس کی خاک میں مختلف مذاہب کے بڑے بڑے پیشوا آسودۂ خاک ہیں۔ بلکہ اس سر زمین کو یہ بھی افتخار حاصل ہے کہ اسی سر زمین پر اردو نے پہلی بار عام بول چال کی زبان سے بڑھ کر ادبی روپ اختیار کیا اور اسی کی گود میں اردو کا اولین نثر نگار (خواجہ بندہ نواز گیسو دراز) آسودۂ خاک ہے۔ حضرت مخدوم ابو الفتح صدر الدین سید محمد حسینی خواجہ گیسو دراز بندہ نواز کو ہم سب ایک ولیِ کامل اور ایک ہادیِ اعظم کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ بہت بڑے عالمِ دین اور عربی و فارسی زبانوں [میں] کئی بلند پایہ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ لیکن کم ہی لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ آپ نے اردو زبان میں بھی کئی رسالے تصنیف فرمائے ہیں اور آپ کے لکھے ہوئے یہی رسالے اردو نثر کے اولین نمونے سمجھے جاتے ہیں۔ اردو زبان کے لیے یہ بڑی فالِ نیک رہی کہ آج سے تقریباً چھ سو سال پہلے اس کی ادبی نثر کی ابتدا خواجۂ دکن جیسی مطہر اور مقدس ہستی کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔ یہ آپ ہی جیسے ولیِ کامل کے پاس انفاس کی برکت کا نتیجہ رہا کہ یہ زبان آگے چل کر خوب پھلی پھولی اور ہندوستان کی زبانوں میں اسے ایک اونچا اور با عزت مقام حاصل ہوا. 
(ماہنامہ شہباز، گلبرگہ شریف، جنوری و فروری 1962ء، ص: 9)
اردو کی پہلی کتاب اور اردو نثر کا ابتدائی نمونہ ہونے کی وجہ سے "معراج العاشقین" لسانی حیثیت سے اردو کی اہم ترین کتاب مانی گئی ہے۔ اسی اہمیت و قدامت کے سبب یہ کتاب عرصۂ دراز سے دہلی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کتاب کا موضوع تصوف ہے اور اس میں تصوف کا بنیادی نظریہ پانچ تن یعنی واجب الوجود، ممکن الوجود، عارف الوجود، ذکرِ جلی اور ذکرِ الہٰی پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ جناب مشتاق فاروق (ریسرچ اسکالر یو نی ورسٹی آف حیدر آباد، تلنگانہ) اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ہنوز "معراج العاشقین" اردو کی قدیم ترین نثری تصنیف مانی جاتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف دکن کے مشہور و معروف اور بلند پایہ صوفی بزرگ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ہیں۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کو عربی، فارسی اور دکنی زبان پر کافی دسترس حاصل تھی۔ انھوں نے کئی رسائل اور کئی کتابیں تخلیق کی ہیں۔ ان کے جملہ رسائل و کتب کی تعداد مختلف محققین نے مختلف بتائی ہے۔ لیکن ان تمام تصانیف کا موضوع تصوف، مذہب اور احکام شریعت ہے۔ لیکن ان کی تمام تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت ومقبولت "معراج العاشقین" کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ ایک رسالہ ہے اور تصوف اس کا بنیادی محور و مرکز ہے۔ یہ کتاب دلیّ یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی کے نصاب میں بہت عرصے سے شامل ہے، جس سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس رسالے میں قرآن و احادیث کے ذریعے مسلک تصوف کو بہتر طور پر سمجھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تصوف کے ایک مخصوص نظریہ پانچ تن یعنی واجب الوجود، ممکن الوجود، عارف الوجود، ذکر جلی اور ذکر حق کے ذریعے ایک انسان کس طرح واجب الوجود تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ "معراج العاشقین" اردو کی پہلی نثری کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ اسے سب سے پہلے مولوی عبد الحق نے مرتب کر کے مع مقدمہ 1343ھ مطابق 1927ء میں دو قلمی نسخوں کی مدد سے شائع کیا ہے۔
بہرکیف ! اس مختصر سے مقالے میں "معراج العاشقین" پر تفصیلی روشنی ڈالنا ممکن نہیں، مقصد صرف تعارف پیش کرنا ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر کتاب کے آغاز و اختتام کی عبارت پیش کی جاتی ہے، تاکہ کتاب میں موجود اردو کے اولین نثری نمونے کا اندازہ ہو سکے۔
نمونۂ نثر:
(الف) قال نبی علیہ السلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم): کہے انسان کے بوجنے کوں پانچہ تن۔ ہر ایک تن کوں پانچ دروازے ہیں۔ ہور پانچ دروازے ہیں۔ پیلا تن: واجب الوجود، مقام اس کا شیطانی۔ نفس اس کا امارہ یعنی واجب کے آنک سوں غیر نہ دیکھنا سو۔ حرص کے کان سوں غیر نہ سنا سو۔ حسد تک سوں بد بوئی نہ لینا سو۔ بغض کے زبان سوں بد بوئی نہ لینا سو۔ کینا کے شہوت کوں غیر جا کا خرچنا سو۔ پیر طبیب کامل ہونا نبض پچہان کو دوا دینا۔
طبیبِ عشق را دکّان کدام است
علاجِ جاں کند او را چہ نام است
پیر منع کئے سو پرہیز کرنا۔ مراقبہ کی گولی مشاہدے کے کانسے میں میکائیل کے مدد کے پانی سوں۔ جلی کا کاڑا کر کو پیلانا۔ سگُن کا کاڑا دپنا۔ نرگُن ہوا تو شفا پاوے گا۔ طبیب فرمائے، تیوں پرہیز کرے۔
(ب) قال نبی علیہ السلام: علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل۔ او معنا میری امت کے بوجنے سو لوں گا ان کے پیغمبراں اسے اچھیگے۔
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید
اس کا معنی نبی جیوں بوجے بغیر نا انپڑے وطن کوں۔ اے عزیز، مریدِ صادق! اچھے پیر کے ہوا کون امر خدا ہور رسول پیدا کیا ہے۔ اپنے بوج کوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔ یہی ہے نصیحت کرنے کوں۔
(معراج العاشقین، ص: 61 / 81، مطبوعہ: شاہراہ، اردو بازار، دہلی)
علما و مشائخ و مصنفین کے تاثرات و اعترافات:
صاحبِ مرأۃ الاسرار شیخ عبد الرحمٰن چشتی قدس سرہ (متوفیٰ: 1094ھ) لکھتے ہیں:
آں معدنِ عشق و ہمدمِ وصال، آں کلیدِ مخزنِ ذو الجلال، آں مستِ الست، نغماتِ بے ساز، محبوبِ حق حضرت سید محمد گیسو دراز قدس سرہ بن سید یوسف الحسینی دہلوی۔ آپ حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی کے بزرگ ترین خلفا میں سے تھے۔ سید ہونے کے علاوہ آپ علم اور ولایت میں بھی ممتاز تھے۔ آپ شانِ رفیع، مشربِ وسیع، احوالِ قوی، ہمتِ بلند اور کلماتِ عالی کے مالک ہیں۔ مشائخِ چشت کے درمیان آپ ایک خاص مشرب رکھتے ہیں۔ اسرارِ حقیقت میں آپ کا طریق مخصوص ہے۔
( مرأۃ الاسرار مترجم، ص: 975، مطبوعہ: لاہور)
مشہور محقق و مصنف مفتی غلام سرور لاہوری لکھتے ہیں:
از عظمائے اولیائے حق بیں و کبرائے مشائخِ متقدمین و خلیفۂ راستین شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلوی است۔ جامع در میانِ سیادت و نجابت و کرامت و ولایت، شانِ رفیع و مراتبِ منیع و کلامِ عالی داشت۔ او را در مشائخِ چشت اہل بہشت مشرب است خاص در بیانِ اسرارِ حقیقت و طریقے است مخصوص در بیانِ معرفت۔
( خزینۃ الاصفیاء، جلد اول، ص: 381، مطبوعہ: منشی نول کشور، کان پور)
خزینۃ الاصفیاء کی مذکورہ بالا عبارت "اخبار الاخیار" سے لی گئی ہے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے بعینہٖ یہی بات لکھی ہے اور خواجہ بندہ نواز کے فضل و کمال کا شایان شان تذکرہ کرتے ہوئے ان کی علمی جلالت اور روحانی فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز بلا مبالغہ بحرِ شریعت و طریقت کے غواص تھے۔ دینی علوم کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو آپ کی دسترس سے باہر ہو۔ قرآن و حدیث اور تفسیر و فقہ میں مہارتِ تامہ حاصل تھی اور جہاں تک علمِ سلوک و تصوف کی بات ہے تو اس میں آپ کو درجۂ اختصاص بلکہ اجتہادی مقام حاصل تھا۔ "جوامع الكلم" میں مختلف علوم و فنون سے متعلق آپ نے ایسے ایسے دقیق مباحث اور نکات و غوامض بیان کیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور آپ کی علمی مہارت کے آستانے پر جبینِ فکر و قلم سجدہ ریز ہوتی نظر آتی ہے۔ "نزھۃ الخواطر" کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور خواجہ بندہ نواز کی عظمت و رفعت اور بلند و بالا مقامِ علمیت کا اندازہ لگائیں:
آپ ایک بہت بڑے عالم، صوفی، عارف، قوی النفس، عظیم الہیئت اور جلیل الوقار تھے۔ شریعت و طریقت کے جامع تھے۔ بڑے متقی، پرہیزگار، عابد و زاہد اور حقائق و معارف کے سمندر میں غوطہ لگانے والے بزرگ تھے۔ فقہ، تصوف، تفسیر اور دیگر علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں آپ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
( نزھۃ الخواطر )
سید صباح الدین عبد الرحمٰن لکھتے ہیں:
آپ صوفیائے کرام میں قطب الاقطاب، قامعِ بیخِ کفر و بدعت، مقصودِ خلقتِ عالم، معدنِ عشق، ہمدمِ وصال، کلیدِ مخازنِ حضرت ذو الجلال، مستِ الست، نغماتِ بے ساز، محبوبِ حق وغیرہ جیسے بھاری بھرکم القاب و آداب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ حضرت سید گیسو دراز کے عظیم المرتبت ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ جیسے جلیل القدر بزرگ بھی ان کی خدمت میں روحانی استفادہ کے لیے تشریف لائے۔
( بزمِ صوفیہ، ص: 507 / 508، مطبوعہ: دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ)
وفاتِ حسرت آیات:
افسوس کہ نصف صدی سے زائد عرصے تک دعوت و تبلیغ، رشد و ہدایت اور تصنیف و تالیف کی گراں خدمات انجام دینے والے اس بزرگ کا ایک سو چار سال کی عمر میں 825 ھ میں وصال ہو گیا اور سلسلۂ چشتیہ کے آسمان کا یہ چمکتا دمکتا سورج پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنی شعائیں بکھیرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ "مخدومِ دین و دنیا" سے تاریخِ وفات بر آمد ہوتی ہے، جو حقیقت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔ آمین !!!
تعلیمات و ارشادات:
بزرگانِ دین کی تعلیمات و ارشادات اور اقوال و ملفوظات، مادی و روحانی اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ ان نفوسِ قدسیہ کی زبانِ فیض ترجمان سے ادا ہونے والے مبارک جملے، حیات بخش فقرات، نصیحت آمیز کلمات اور انقلاب آفریں الفاظ و حروف بڑے مؤثر اور دل پذیر ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذا حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے مختصر احوال و آثار کے ذکر کے بعد آپ کے کچھ اقوال و ارشادات نذرِ قارئین کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(1) ایک بندہ حقیقت و طریقت کو شریعت کی ضد نہ سمجھے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کا خلاصہ تصور کرے۔ جس طرح اخروٹ کا مغز اخروٹ کے چھلکے سے بظاہر مختلف معلوم ہوتا ہے، پھر بھی مغز کا جز چھلکے میں اس طرح ملا ہوتا ہے کہ اس سے بھی تیل نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح حقیقت و طریقت اور شریعت تینوں ایک ہی ہیں۔
( 2 ) رات کے وقت بستر پر انسان کو سوچنا چاہیے کہ اس نے دن میں کون کون سا کام کیا اور دن میں سوچنا چاہیے کہ رات کو کیا کیا۔ اپنے کاموں کا محاسبہ کرو۔ اگر دینی کام اور اچھے کام زیادہ کیے ہیں تو خدا کا شکر ادا کرو اور اس پر استقلال برتو اور اگر دین کے کاموں میں کچھ غفلت برتی ہے تو توبہ کرو اور جہاں تک ممکن ان کی تلافی کرو۔
( 3 ) اگر پیر، مرید کو نامشروع  کاموں کی دعوت دیتا ہو تو مرید ایسے پیر کو چھوڑ دے، لیکن اس طرح کہ پیر کو معلوم نہ ہو کہ اس نے بد اعتقادی کی وجہ سے علاحدگی اختیار کی ہے۔
( 4 ) جب تک ایک شخص تمام دنیاوی چیزوں سے فارغ نہ ہو جائے، راہِ سلوک میں قدم نہ رکھے۔
( 5 ) روزہ ارکانِ تصوف میں سے ہے۔ اس لیے صوفی کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہے۔ روزے سے نفس مغلوب رہتا ہے اور اس میں عجب اور غرور پیدا نہیں ہوتا۔
( 6 ) اگر ایک سالک کمالات کے اعلیٰ درجہ پر بھی فائز ہو جائے تو بھی وہ اپنے اوراد و وظائف کے معمولات کو ترک نہ کرے۔
(7) زوال کے وقت قیلولہ کریں، تاکہ شب بیداری میں آسانی ہو۔
(8) سالکوں کو ہمیشہ با وضو رہنا چاہیے۔ ہر فرض نماز کے لیے تازہ وضو کرنا بہتر ہے۔ وضو کے بعد تحیۃ الوضو ادا کریں۔
( 9 ) دل سے ہوس کو دور کریں اور اگر دور نہ ہو تو اس کے لیے مجاہدہ و ریاضت کرتے رہیں۔
( 10 ) کسی بھی حال میں اپنے نام کو شہرت نہ دیں۔ بازار صرف شدید ضرورت کے وقت جائیں۔
( 11 ) گرسنگی و تشنگی (بھوک پیاس) اور شب بیداری کو دوست رکھیں۔
(12) اپنے پاس لوگوں کی زیادہ آمد و رفت نہ ہونے دیں۔
( 13) نفس کی شکستگی کے لیے فاقہ ضروری ہے۔
( 14) امیروں کی صحبت سے دور و نفور رہیں۔
( 15) مصیبت کے وقت مضطر اور مضطرب نہ ہوں۔ کسی بھی حال میں نہ روئیں اور روئیں بھی تو اس لیے کہ کہیں منزلِ مقصود تک پہنچنے سے پہلے اس کو موت نہ آ جائے۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :گنجِ لا یفنیٰ: ملفوظاتی ادب کا شہکار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے