عید مبارک

عید مبارک

محمد شاہد محمود
( پاکستان، فیصل آباد )

مہینوں پہلے لکڑی کی چمچماتی گول میز بازار سے خرید لایا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اس پر اچھا سا لیمپ رکھ کر میز پر افسانہ نگاری کیا کروں گا۔ گرد سے اٹی گول میز میرے پلنگ کے دائیں جانب دھری ہے۔ ہر بار سونے سے پہلے ارادہ کرتا ہوں کہ بیدار ہوتے ہی یہ گول میز صاف کرنی ہے۔ نئی تو ہے! صاف کرنے پر پھر سے چمکتی دکھائی دینے لگے گی۔ اپنے کمرے سے باہر نکلے مجھے تقریباً ڈھائی ماہ بیت چکے تھے۔ آج ایک بار پھر بیدار ہوتے ہی میز چمکانے کا ارادہ کر کے بتی بجھا کر صبح پانچ بجے سو گیا۔ لیکن نیند کم آنے کے باعثِ ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی آنکھ کھل گئی۔
بیدار ہوتے ہی نیم وا آنکھوں سے موبائل فون تلاش کیا، کمرہ تیرہ و تاریک ہونے کے باعث، دائیں بائیں ٹٹولنے پر موبائل فون مل ہی گیا۔ بے تابی سے نوٹیفکیشنز پر نگاہیں دوڑائیں لیکن اس کی جانب سے ایک بھی مسڈ کال یا پیغام نظر نہ آنے پر دوبارہ آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی گزشتہ کئی ہفتوں سے ایسا کرنا میرا وطیرہ بن چکا تھا۔ تھوڑی دیر یوں ہی لیٹا رہا، پھر بے کیفی کے عالم میں اٹھ کر کمرے کی بتی جلا دی، گرد آلود گول میز پر اچٹی سی نظر ڈال کر کتابیں ترتیب سے رکھنے لگا جو سوتے وقت ورق گردانی کے دوران پلنگ پر دائیں بائیں بکھری پڑی تھیں۔ اب…! مجھ سے اب لکھا نہ جاتا تھا۔ مجھ پر جمود طاری تھا۔ عادتاً مختلف کتابوں کی ورق گردانی کر کے سو جاتا تھا۔ آج رات چاند رات ہونے کی قوی امید تھی۔ رمضان المبارک کے متوقع آخری روز ایک نئی سوچ نے جنم لیا، کیونکہ مجھے اس پر یقین تھا کہ وہ وعدے کی پکی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ کبھی نہ کبھی اس کی کال ضرور آئے گی۔
"آج عید ہے۔ آج اپنے حجرے سے باہر نکل آؤ، نہا کر عید کی نماز پڑھنے ضرور جانا، سویاں بن گئی ہیں۔"
امی کی آواز نے مجھے یاد دلایا کہ آج عید کا دن ہے۔ جمود طاری ہونے کے باعث، میں شاید مالیخولیا کا شکار بھی ہو چکا تھا۔ کتابیں وہیں چھوڑ کر موبائل فون کی جانب لپکا۔ میں کوئی بھی کال مس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ موبائل فون تولیہ میں چھپا کر الماری میں جو کپڑے بھی سامنے نظر آئے، الماری سے نکال کر کندھے پر رکھ کر تولیہ ہاتھ میں تھامے کمرے سے باہر نکل گیا۔
عید الفطر کی نماز ادا کرنے سے پہلے اعلان کیا گیا اپنے موبائل فون بند کر دیں یا سائلنٹ کردیں۔ میں نے جھٹ سے اپنی گھسی ہوئی پرانی جینز کی جیب سے موبائل فون نکالا اور تسلی کی کہ میرے موبائل فون کی رنگ ٹون فل والیم پر سیٹ ہے۔
کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کے باغِ ارم سے کسی نے مجھ سے رابطہ کرنے میں پہل کی تھی۔ نہایت کم وقت میں بات شادی تک جا پہنچی۔ میں نے اسے سبز باغ کبھی نہ دکھائے تھے۔ وہ کھاتے پیتے گھرانے کی شہزادی تھی جب کہ میں؟ ایک نامور ادیب ہوں، معاشرے میں عزت و وقار تو بہت ہے لیکن محض عزت ملنے سے نہ تو مجھے پیٹ بھر کھانا نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی کی بنیادی ضروریات کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔
میری کسمپرسی کا عالم اور میری حالتِ زار جانتے ہوئے بھی، وہ کسمپرسی کے عالم میں، میرے ساتھ فاقہ کشی پر بھی آمادہ تھی۔ نکاح کے بندھن میں بندھ کر شب و روز مجھ پر نثار ہونے کے لیے بے تاب تھی۔
میں نے اپنے گھر والوں کے آگے مدعا برداری سے کام لیتے ہوئے ماجرا بیان کر دیا اور اجازت طلب کی۔ خلافِ توقع میرے گھر والوں نے کوئی اعتراض نہ اٹھایا۔ جلدی جلدی اپنے کمرے میں داخل ہوا اور کال کر کے اسے خوش خبری سنائی کہ میرے گھر والے مان گئے ہیں، لیکن شادی ہم سادگی سے کریں گے، زیادہ اخراجات کے متحمل نہ ہوں پائیں گے۔ پہلے تو وہ خوشی سے نہال کھلکھلا کر ہنس دی، پھر یک دم خاموشی اختیار کر لی۔
"کیا ہوا، یک دم خاموش کیوں ہو گئی ہو؟"
میں نے مخمصے کے عالم میں سوال کیا۔
"پہلی بات تو یہ ہے کہ شادی دھوم دھام سے ہوگی۔ نکاح کے فارم میں پچیس تولے سونا دیگر بری کے ساتھ، تمھیں لکھنا ہوگا کیونکہ یہ ہماری خاندانی روایت ہے۔ دوسری بات یہ ہے میرے گھر والوں کو منانا مشکل کام ہے۔ آج ہی ایک بہت امیر خاندان سے رشتہ آیا ہے۔ میرے گھر والے بہت سخت گیر ہیں۔ لیکن شاید مان جائیں۔ اگر میں نہ مانی تو مجھے گولی مار کر گھر میں ہی دفن کر دیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو میں خود کشی کر لوں گی۔ کیونکہ میں تمہارے بغیر نہیں جی سکتی۔"
جواب سن کر مجھے دھچکا سا لگا اور میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔
"تم کوشش تو کرو مان جائیں گے اور سونا اور بری وغیرہ میں نہ لکھ سکوں گا۔ جب میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو کس بنیاد پر لکھوں گا ؟"
میں نے تھوک نگل کر اپنا خشک حلق تر کرتے ہوئے اسے جواب دیا۔
"ہاں میں منانے کی پوری کوشش کروں گی۔"
اس کا جواب تسلی بخش ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے فکرمند بھی کر گیا تھا۔
ایک دن دو روز پریشانی کے عالم میں گزر گئے لیکن ہم مسلسل رابطے میں رہے۔
دو روز بعد…
"میں یہ شادی نہیں کر سکتا۔"
میری قوت فیصلہ نے نہ چاہتے ہوئے میکانکی انداز میں اسے فیصلہ سنا دیا۔
کئی روز مسلسل مختلف خیالات جنم لیتے رہے. اگر اسے کچھ ہو گیا تو؟ میں تو زندہ درگور ہو جاؤں گا اور اگر سب کچھ خوش اسلوبی سے طے پا جاتا ہے تو؟ میں اس سے عیش و آرام کی زندگی چھین کر اپنے ساتھ غربت کی زندگی جینے پر مجبور کروں گا! کیا مجھے یہ زیب دیتا ہے؟ اور پھر سونا اور بری وغیرہ کہاں سے لاؤں گا؟ سوچوں نے میرے دل کی دھڑکن بے قابو کر دی، سر چکرانے لگا۔ میری حالت غیر ہو گئی۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں خود کو ایمرجنسی وارڈ میں پایا۔ میری زبان تلے گولی رکھنے کے لیے مجھے جھنجھوڑا جا رہا تھا۔ ازاں بعد خون کی رپورٹ اور ای سی جی میں کچھ بھی نہ ملا۔ تقریباً چھ گھنٹے بعد مجھے نارمل قرار دے کر ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ ڈاکٹر نے ایک نسخہ لکھ کر دیا، "بس سات دن یہ ایک ٹیبلٹ روز لینا، اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔" اور ایک روایتی جملہ بولا کہ خوش رہا کرو زیادہ سوچا نہ کرو۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ زیادہ سوچا نہ کرو۔ مجھے پھر اک نئی سوچ نے آن لیا، نہ سوچنا! بھلا یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے؟
اسی دوران میں نے اپنے دل میں خود سے ایک عہد کیا۔ میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اب مجھے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے لکھنا ہے، سچ اور قلمی جہاد گیا بھاڑ میں۔ مجھے اسے پانے کی خاطر معیار کو پس پشت ڈال کر گھٹیا نوعیت کا کچھ ایسا لکھنا ہے جو ذریعہ آمدنی بن جائے۔ اسے پانے کے لیے مجھے اپنی حالتِ زار بدلنا ہی ہوگی۔
گھر آ کر دو دن تک سدھ بدھ نہ رہی۔ جیسے ہی کچھ سنبھلا اسے بے اختیار کال کر دی۔
"تم مرد نہیں ہو۔ اگر میں گھر والوں کو منا لیتی تو؟ تم نے مجھے کہیں کا نہ رہنے دیا تھا۔ تم زبان کے کچے ہو۔ تم بے وفا ہو…"
وہ بولتی ہی چلی جا رہی تھی۔
"کیا ہم اچھے دوست بھی نہیں رہے؟ ہم اچھے دوست تو ہیں ناں؟"
میں نے حوصلہ کر کے سوال کیا۔
"ہاں ہم ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں اور ہم ہمیشہ اچھے بلکہ بہترین دوست رہیں گے۔ بس کوئی اور لڑکی ہمارے درمیان حائل نہ ہو، یہ مجھ سے برداشت نہ ہو گا۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں ہمیشہ دوستی نبھاؤں گی۔ اگر گھر والوں نے زور زبردستی سے میری شادی کر دی تب تمھیں بتا کر الوداع کہوں گی۔ لیکن تب بھی ہر تہوار پر اور بالخصوص تمھاری سال گرہ کے موقع پر تمھیں کال ضرور کیا کروں گی۔ کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے۔ میں تمھیں کبھی نہیں بھلا سکتی۔"
جواب سن کر میں جھوم اٹھا۔ طبیعت میں گرانی ایسے غائب ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔
"میں بھی وعدہ کرتا ہوں سدا دوستی نبھاؤں گا مجھ پر اعتبار رکھو۔"
میں نے خود سے کیا عہد یاد کر کے خود اعتمادی سے جواب دیا اور دل ہی دل سوچا کہ تہنیتی فون کالز کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
"تم پر اعتبار ہاہا؟ اعتبار! شاید بحال ہو جائے! لیکن اس میں شاید وقت بھی لگے، کتنا وقت لگے؟ یہ مجھے بھی نہیں پتا۔ یا شاید تم اعتبار کے لائق ہی نہیں ہو۔"
اس کا جواب سن کر میں خاموش ہو گیا۔
ہمارے شب و روز مسلسل فون کالز پر گزرنے لگے۔ وہ حقیقت میں وعدے کی پکی نکلی۔ میں جب بھی ویڈیو کال کا کہتا جواب ملتا "مجھے ڈر ہے کہیں مجھ سے تمھارا دل نہ بھر جائے۔" مجھے علم تھا کہ یہ محض ویڈیو کال نہ کرنے کی بہانہ تراشی ہے۔ لیکن پھر بھی میں اسے کہتا "نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم سے میرا دل کبھی بھر ہی نہیں سکتا۔" پھر مجھے طعنہ سننے کو ملتا "تم وہی ہو جو بات طے کر کے مکر گئے تھے۔ اگر میں اپنے گھر والوں کو منا لیتی تو؟ میرا کیا ہوتا ؟"
وہ ایسا مجھے تنگ کرنے کے لیے کہا کرتی تھی۔ پھر کھلکھلا کر ہنس دیتی اور کہتی”یہ طعنہ تو اب تمھیں عمر بھر سننا پڑے گا۔"
میں مکر گیا تھا ہاں یہ، یہی سچ ہے۔ لیکن کیوں مکر گیا تھا؟ اسے اندازہ ہی نہ تھا! وہ آسودہ حال تھی، اس نے غریب کا صرف نام سن رکھا تھا اور نکاح کے لیے اس نے جو شرائط عائد کی تھیں اس کے لیے تو یہ معمولی سی بات تھی۔ لیکن مورد الزام میں ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسی شرائط رکھنا؟ میرے لیے تعجب کی بات تھی۔ وہ میرے ساتھ غربت میں گزر بسر کرنے کے لیے ہر طرح سے آمادہ تھی۔ لیکن خاندانی روایات بھی اس کے لیے فرض کا درجہ رکھتی تھیں۔
ہماری دوستی مثالی تھی بلکہ اب بھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے لیے ایک قلب دو جان ہیں۔ اس دوران میں خود سے کیا عہد پورا کرنے کے خاطر دن رات تگ و دو میں لگا رہا۔ لیکن جب بھی اپنی مرضی کے بر خلاف لکھنے بیٹھتا ہاتھوں پر رعشہ طاری ہو جاتا اور جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا۔ آج میں نے چھٹا قلم توڑا تھا۔
ایک دن کہنے لگی "ہمارے بارے میں صرف ہم جانتے ہیں۔ اگر کسی کو بھی، اللہ نہ کرے کبھی کچھ ہو گیا تو؟ کوئی ایمرجنسی بھی تو سکتی ہے؟ تب ایسے میں ہمیں ایک دوسرے کی خبر کیسے ملے گی؟"
بات تو کڑوی تھی مگر حقیقت یہی تھی کہ ہمارے بارے میں صرف ہم ہی جانتے تھے۔ بہت سوچ سمجھ کر، میں نے اسے اور اس نے مجھے ایک فون نمبر دیا۔ کہنے لگی”اللہ نہ کرے کبھی ایسی نوبت آئے۔ لیکن اگر ہم میں سے کسی کا موبائل بھی بند پڑ جائے تب یہاں فون کر کے وجہ دریافت کر سکتے ہیں۔"
ہماری محبتوں بھری دوستی کے کئی ماہ بیت گئے۔ وہ ایک بہترین دوست ثابت ہوئی۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آتا تھا۔ میں زندگی میں جب بھی تھکنے لگتا وہ مجھے تسلی دینا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ میں جب بھی پریشان ہوتا وہ میری پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتی تھی اور میرے پریشان ہونے پر خود بھی پریشان ہو جاتی تھی۔ میرے حوصلے بلند کرنے کی خاطر طرح طرح کی میٹھی میٹھی باتیں کر کے، میری توجہ پریشانیوں سے ہٹانے کی کوشش کرتی تھی۔ میں بھی اس کے دکھ سکھ میں ہمیشہ اس کا ساتھ دہتا تھا، اس کی دل جوئی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا تھا۔ ہماری محبت اور دوستی، دھنک کے رنگوں سے مزین بتدریج گہری ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ایک ایسی دوستی کہ جس میں ہر روز بہ نسبت گزشتہ روز کے زیادہ شدت پیدا ہو جاتی تھی، ایک ایسی کیفیت جسے کبھی زوال نہ تھا۔
وہ اکثر کہا کرتی تھی "مجھے گھر سے اکیلی باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے ورنہ تمھیں کبھی تنگ دستی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اللہ نے مجھے بہت نوازا ہے۔" یہ سن کر میں ہنس دیتا اور کہتا "تمھیں اللہ نے بہت نواز رکھا ہے اور مجھے اللہ نے تم سے نواز رکھا ہے تو میں تم سے زیادہ نوازا گیا ہوں۔ تم میرے لیے ایسی پریشانی مول نہ لیا کرو۔ میرا گزر بسر اچھا ہو رہا ہے۔"
گزشتہ کئی روز سے اس کا موبائل فون بند مل رہا تھا۔ میں پریشان تھا۔ لیکن اس کے دیے ہوئے ایمرجنسی رابطہ نمبر پر کال کرنے کی ہمت نہ ہو پا رہی تھی۔ مجھے خوف تھا کہیں اس کی شادی تو نہیں کر دی گئی؟ لیکن اگر ایسا ہوتا، اس نے بتا کر الوداع کہنا تھا، نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھر تشویش لاحق ہو جاتی کہ اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ گولی مار کر گھر میں ہی دفن کر دینا! ڈر تھا وہ کسی مصیبت میں مبتلا تو نہیں ہو گئی؟ اسی طرح کی بے شمار سوچوں نے مجھ پر گھیرا تنگ کر رکھا تھا۔ یہی سوچیں مجھے کال کرنے کی ہمت نہ دیتی تھیں۔ ترکِ دنیا تو میں پہلے ہی کر چکا تھا۔ میرا رابطہ دنیا سے پہلے ہی منقطع تھا۔ اب یہ سوچیں ہی میری ہمنوا تھیں۔ انجانے میں میری نظر گرد آلود گول میز پر پڑی تو آج عید کے دن اسی نئی سوچ نے دوبارہ جنم لیا کیونکہ مجھے اس پر یقین تھا کہ وہ وعدے کی پکی ہے۔
غریبی اپنے ہی شہر میں اجنبی بنا دیا کرتی ہے۔ جو پہلے کبھی لپک لپک کر مجھ سے عید ملا کرتے تھے، مجھے نظر انداز کر کے ایک دوسرے کو گلے لگا کر عید مل رہے تھے۔ میری آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے دیکھ کر شاید سمجھ رہے ہوں کہ میں کسی موذی مرض میں مبتلا ہوں۔ شاید اسی لیے مجھے نظر انداز کر کے گلے نہ ملنے کی احتیاط برت رہے تھے۔
عید کی نماز پڑھنے کے بعد راستہ بدل کر گھر کی جانب خراماں خراماں چلا جا رہا کہ موبائل فون بجنے لگا۔ یہ ایک انجان نمبر تھا جسے دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ بے دلی سے کال سنی اور کہا "السلام علیکم"
"و علیکم السلام، عید مبارک بے وفا۔"
اس کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی…
"عید مبارک کیسی ہو اور یہ نمبر…؟"
میری آنکھوں میں آنسو تھے اور آواز لرز رہی تھی۔
"دفع ہو جاؤ، میں نے تم سے بات ہی نہیں کرنی۔ میں جو بات کرتی ہوں اس پر پوری اترتی ہوں اور تمھیں تو مکر جانے کی عادت ہے۔ ایمرجنسی نمبر تمھیں اچار ڈالنے کے لیے تو نہیں دیا تھا! اچھا سنو میں بالکل خیریت سے ہوں اور خوش ہوں۔ میرے بارے میں سوچ کر کبھی پریشان مت ہونا۔ یہ فون نمبر جس کسی کا بھی ہے اسے بھول جاؤ، اس نمبر پر کبھی کال مت کرنا جب بھی کال کروں گی، میں خود کال کروں گی۔ عید کے تیسرے روز پچیس تاریخ کو تمھاری سالگرہ بھی تو ہے ناں"
_______
محمد شاہد محمود کا گذشتہ افسانہ :حال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے