کتاب: سدا نہ بلبل باغاں بولے (ناول)

کتاب: سدا نہ بلبل باغاں بولے (ناول)

سید حسن قائم رضا روشن زیدی
گلبرگہ، کرناٹک، ہند

ڈاکٹر شاہد فریدی، ایک کہنہ مشق اور بزرگ قلم کار ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے لکھانے کا شوق رہا ہے۔ دھارواڑ یونی ورسٹی سے بی ایس سی ایگریکلچرل سے ڈگری حاصل کی اور ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوئے۔ اسسٹنٹ ایگریکلچرل ڈائریکٹر کی پوسٹ سے 2001 میں وظیفہ حسن خدمت سے سبک دوش ہوئے۔ ڈاکٹر شاہد فریدی طالب علمی کے زمانے سے ہی فکشن لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانے اور تخلیقات ملک و بیرونِ ملک میں مختلف ادبی رسائل اور اخبارات میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ 1963 میں ماہ نامہ بیسویں صدی میں شائع ہوا۔
ملازمت ہی کے دوران کیمپو یونی ورسٹی شیموگہ سے بذریعہ فاصلاتی طرزِ تعلیم سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ اردو سے ایم اے کرنے کے بعد گلبرگہ یونی ورسٹی سے پروفیسر عبدالحمید اکبر صاحب کے زیرِ نگرانی "اردو فلمی گیتوں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ" پر مقالہ تحریر کر کے 2019  میں پی ایچ ڈی کی اعلا ڈگری سے سرفراز ہوئے۔
ان کی تصنیفات میں افسانوں کا مجموعہ "کانٹوں کا سفر" 1988 میں شائع ہوا۔ دو ناولٹ "کہکشاں یادوں کی" اور "سچا موتی" 2008 میں اور ایک ناول "اپنا ہی گریباں بھول گئے‘‘ 2014 میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آئے. تخلیقی سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
کرناٹک اردو اکیڈمی اور مختلف علمی و ادبی اداروں نے آپ کو ایوراڈز سے نوازا ہے۔ محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ نے "شاہد فریدی شخصیت اور فن" کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر گلبرگہ یونی ورسٹی گلبرگہ سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر فریدی اردو کے کئی ادبی انجمنوں اور اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔ "سدا نہ بلبل باغاں بولے" ان کا دوسرا ناول ہے۔ ناول طویل کہانی لکھنا یا طویل قصہ لکھنا کہلاتا ہے۔
"گنجی کی داستان" مورخین عالمی ادب اس کو دنیا کی سب سے پہلی ناول مانتے ہیں. 11ویں صدی عیسوی میں یہ ناول جاپانی زبان میں لکھا گیا ہے. اس کی مصنف ایک شہزادی ہے. اس کا نام موراساکی شبیکبو ہے. یہ ناول 54 جلدوں میں ہے. تقریباً 4 ہزار صفحات پر مشتمل یہ ناول جس میں 51 جلدوں میں صرف گنجی نامی بہادر کا قصہ ہے۔ باقی جلدوں میں "کالورو" نامی شہزادے کا قصہ ہے۔ اس ناول کے کرداروں کی تعداد 400 ہے. اس کہانی کی ہیروئین خود مصنفہ ہی ہے۔ ناول میں بدھ مت مذہب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ 1882 میں پہلی بار اس کا انگریزی ترجمہ ہوا۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا سے نکلا ہے۔ لغوی معنی نادر، یا نئی بات کے ہیں لیکن ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ دراصل ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کردی جاتی ہے۔
اردو میں ناول مغربی اثر کے ساتھ وارد ہوا۔ اردو میں ناول نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ قصے، کہانیوں اور داستانوں کی کتابیں موجود تھیں۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے سب سے پہلے ایک ناول لکھا جس کا نام مراةالعروس ہے. یہ ناول 1868 میں شائع ہوا "مراة العروس" کو اردو کا پہلا ناول کہا جاسکتا ہے۔
سجاد ظہیر نے ترقی پسند ادب کی بنیاد ڈالی، ان کا ناول "لندن کی ایک رات"  ترقی پسند ادب کا پہلا ناول ہے. پریم چند نے اردو ناول کو جلا بخشی اور کل 13 ناولز لکھے۔ کرشن چندر نے اپنے ناول "شکست" میں اپنے زمانے کے مسائل کو پیش کیا۔ خواتین میں عصمت چغتائی کا ناول "ٹیڑھی لکیر" بہت مشہور ہوا. اردو کے جدید ناول نگاروں میں قرة العین حیدر کا نام اہم ہے۔انھوں نے "آگ کا دریا" لکھ کر اردو ادب میں ایک آگ لگادی۔ بانو قدسیہ کا ناول "راجہ گدھ" بانو قدسیہ کو شہرت کی بلندیوں پر پہچا گیا۔ ادب شناس اصحاب نے ابھی تک اس ناول کو نہیں پڑھا ہے۔
اردو ادب کا پہلا مکمل ناول "امراؤ جان ادا"  مرزا ہادی سودا نے لکھا ہے. ہندستان کے آزاد ہونے کے بعد سے یعنی 1947 سے 1967 تک ناول نگار عزیز احمد، کرشن چندر، عصمت چغتائی، رامانند ساگر، احسان فاروقی، اختراورنیوی، قرة العین حیدر، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی، جمیلہ ہاشمی، راجندر سنگھ بیدی، دت بھارتی، خدیجہ مستور، عبداللہ حسین، رضیہ فصیح احمد، قاضی عبدالستار اور مزید نام بھی ہوسکتے ہیں۔
وائس آف گلبرگہ ٹی وی کے ایک خصوصی پروگرام "ایک ملاقات" کے انٹرویو میں ڈاکٹر سلمان عبد الصمد جو خواجہ بندہ نواز یونی ورسٹی گلبرگہ میں شعبہ اردو میں اسٹنٹ پروفیسر ہیں نے ایک سوال کے جواب میں کہا : "اردو ناولز کی فہرست تیار کریں تو 2000 عیسوی سے 2021 تک تقریباً 200 ناولز لکھے گئے ہیں۔ 20 برسوں میں اتنے ناولز لکھے گئے ہیں تو اور باقی 80 سالوں میں بہت سے ناول لکھے جائیں گے. مشرف عالم ذوقی، رحمان عباس، غضنفر، پیغام آفاقی، خالد جاوید، عبد الصمد، سفینہ بیگم،حمیرہ عالیہ، وغیرہ ادیب ناول لکھ رہے ہیں، تو اس صدی کو ناول یا فکشن کی صدی کہا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر سلمان عبدالصمد نے صرف 6 دن میں ناول "لفظوں کا لہو" لکھ دیا. یہ اردو کا پہلا ناول ہے جو صرف 6 دن میں لکھا گیا۔
"سدا نہ بلبل باغاں بولے" ڈاکٹر شاہد فریدی کا دوسرا ناول ہے۔ آپ کا پہلا ناول "اپنا ہی گریبان بھول گئے" 2014  میں منظر عام پر آیا اور گلبرگہ یونی ورسٹی و کرناٹک اردو اکاڈمی نے مصنف کو اعزاز سے نوازا۔
ناول 297 صفحات پر لکھا ہوا ہے۔ صفحہ ایک سے دسویں صفحے تک، کاپی رائٹ پیج اور ایک صفحہ پر ایک شعر، ایک صفحہ پر انتساب، ایک صفحہ پر نوٹ اس ناول کے تمام کردار فرضی ہیں، ایک صفحہ پر ڈاکٹر شاہد فریدی کے بارے میں ڈاکٹر منظور احمد دکنی کا مضمون، 9 سے 10 ویں صفحہ پر عرض مصنف جو قارئین سے مخاطب ہیں. 11 ویں صفحہ پر ایک شعر ہے۔ ہندستان کا یہ ایک ایسا پہلا ناول ہے جس کا  ہر باب ایک شعر سے شروع ہوتا ہے. اس طرح ناول میں 20 ابواب ہیں۔ مصنف رقم طراز ہیں: "یہ اردو ناول کی تاریخ کا ایسا ناول ہے جس کے ہر باب سے قبل ایک شعر اور کہیں ایک سے زیادہ اشعار لکھے گئے ہیں، یہ اشعار باب کے سماجی و معاشرتی حالات، کرداروں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں." (مگر فاضل مصنف نے شعراءکے نام نہیں لکھے جن کے یہ اشعار ہیں)
ناول میں اہم پلاٹ ہوتا ہے اور ناول کا انجام. حیران کن طریقے سے فاضل مصنف نے اس ناول کا انجام پہلے سے ہی سوچ لیا تھا۔ اور ناول لکھنا شروع کردیا۔ ناول میں زیادہ کردار نہیں ہیں۔ ناول ایک لڑکی جس کا نام "نشاط" ہے پر گھوم رہا ہے. مصنف "نشاط" کو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے قلم سے دور نہیں کر رہے ہیں۔ ناول نشاط کے نام سے شروع ہوتا ہے اور نشاط کے نام کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ تقریباً 559 بار نشاط نام کی گردان ہوئی ہے۔
فاضل مصنف چوں کہ ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھے اس لیے ان کو زراعت کی بہت زبردست جان کاری تھی، ناول میں کھیت کھلیان، کاشت کاری، دھان کی بوائی کٹائی، جوار کی بوائی اور جوار کا ہولڑا کھانا فصل کی راس وغیرہ کا بہت عمدہ طریقہ سے ذکر کیا ہے۔ اس ناول کے حوالے سے سلمان عبدالصمد لکھتے ہیں:
ڈاکٹر شاہد فریدی جنوبی ہند کے اہم ناول نگار ہیں۔ انھوں نے دوتین ناولٹ/  ناول تحریر کیے۔ پیش نظر ناول ’’سدا نہ بلبل باغباں بولے‘‘ ان کا اہم ناول ہے۔ اس میں کھیت اور اس کے متعلقات کی بہترین منظر نگاری کی گئی ہے۔ پریم چند کے کھیتوں میں کسان بولتے تھے اور شاہد فریدی کے یہاں کھیت ہی نغمہ سنج ہے۔ کیوں کہ انھوں نے ہریالی، بالی، حویلی اور شہنشائی کے معاملات کو کھیت سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اس ناول میں پیش آمدہ مسائل کے ساتھ ساتھ تاریخی حوالوں سے بحث کی گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس میں کبھی کبھی داستانوی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ دکنی تاریخ، خاندانی اقدار اور ملازمین کے رویوں سے بیانیے کو پرکشش بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر شاہد جہاں بھی تاریخی حوالوں کو عصری حسیت سے مربوط کرتے ہیں وہاں وہ  ’’عینی شاہد ‘‘ اور ’’عینی قائل‘‘ نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ تاریخ سے استفادے کے وقت وہ قراۃ العین کے طریقہ کار سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں مگر اپنی نظر اور اپنی شرطوں پر تاریخ سے معاملات کرتے ہیں۔ اس لیے وہ عینی شاہد بھی ہیں اور عینی قائل بھی۔‘‘
کہانی، امیری، جاگیردارانہ نظام، غریبوں اور نوکروں کو حقیر سمجھنا کے گرد گھومتی ہے. نشاط کے والد تحصیل دار ہیں. ان کے ہاں ایک نوکر ہے جس کا نام قدوس ہے اور قدوس کے ایک بیٹا ہے۔ قدوس کی بیوی تین برس کے بیٹے کو چھوڑ کر دنیا سے گزر گئی ہے۔قدوس تنہا ہی اپنے بیٹے کو پالتا ہے۔ اس لڑکے کا نام "ایان" ہے۔ بس ناول کی کہانی اس ایان اور نشاط کے گرد ہی گھومتی ہے۔ پورا ناول بیانیہ پر مشتمل ہے۔کرداروں سے مکالمے بہت کم کہلاوائے گئے ہیں. ناول نگار کا بیانیہ بہت مستحکم، شان دار اور تجربہ کار انداز کا ہے۔ منظر نگاری پر پورا عبور حاصل ہے۔ ایک ایک چیز کو پورے اعتماد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ناول نگار نے بے شمار جگہ انگریزی کے لفظ استعمال کیے ہیں جو اردو ناول میں اچھے نہیں لگتے. ان کے متبادل اردو  لفظ لکھے جاسکتے تھے. اس طرح ناول میں 27 انگریزی لفظ لکھے گئے۔ 1950 کے زمانے کا ماحول لکھا گیا ہے۔ سائیکل رکشا کا زمانہ ہے۔ ایم بی بی ایس میں داخلہ کے لیے صرف سائنس سے انٹر کامیاب کرنا ہے۔معمولی کوشش سے داخلہ مل جاتا ہے. لینڈ لائن فون امیر گھرانوں میں ہی ہیں۔
ہیرو اتنا سادہ اور شریف ہے کہ منہ سے آواز بھی نہیں نکلتی، کم گفتگو کرتا ہے۔ اتنے سادے کپڑے پہنتا ہے کہ کوئی بھی ہیرو کو ڈاکٹر نہیں سمجھتا۔ اور تو اور ہیرو جو ڈاکٹر ہے سائیکل پر ہاسپٹل ڈیوٹی پر آتا ہے. 
لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہے۔ اور ایک غریب لڑکی کو اپنے خرچ سے ایم بی بی ایس میں داخلہ دلواتا ہے. ناول میں محاورے برجستہ ہیں. دو محاورے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں:
” لوگ زندگی تو فرعون کی گزارتے ہیں اور چاہتے ہیں عاقبت موسیٰ جیسی ہو"
” جب دودھ آسانی سے میسر ہو رہا ہے تو بھینس پالنے کی جھنجھٹ کیوں مول لی جائے"
ناول ایثار و قربانی پر مبنی ہے. ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی اس کا (ناشر) ہے۔ یہ ناول 2022 میں شائع ہوا. سر ورق چاند اکبر گلبرگہ نے تیار کیا ہے. قیمت 300 روپیہ. ڈاکٹر شاہد آفریدی صاحب کو بہت بہت مبارکباد کہ انھوں نے اہل اردو کو اتنا اچھا ناول پڑھنے کو دیا۔
تبصرہ نگار کا تعارف
۔۔۔۔۔۔۔
نام :- سید حسن قائم رضا
قلمی نام :- روشن زیدی
تعلیمی قابلیت :- SSLC Passed 1974
PUC SE.2nd 1978
Unani pharmacist Course
Govt job .1981to 2017
Rtd from gulbarga
اصناف سخن :- آزاد شاعری
افسانہ نگار، تبصرہ و تنقید نگار
والد :- سید حسن رضی حیدر (مرحوم )
والدہ :- سیدہ فاطمہ زہرہ ۔(مرحومہ )
چھوٹے بھائی :- سید بہادر رضا یونانی ڈاکٹر (مرحوم )
سید مکرم رضا۔ گورمنٹ ٹیچر ریٹائرڈ گنگاوتی
سید اسمعیل رضا۔ فارمیسسٹ خانگی. رائچور
بہنیں :- سیدہ نصرت فاطمہ قلمی نام سمیرا حیدر (ادیبہ) رائچور۔
سیدہ درخشاں حیدری خانہ دار خاتون رائچور
وطن :- سرائے رسول پور، ضلع مظفرنگر، تحصیل کھولی، یوپی۔
وطن ثانی رائچور (1934)، وطن ٹالث گلبرگہ 1988
پتہ :- مکان نمبر 251 بالمقابل صبا فنکشن ہال ،ہاگرگہ روڈ رحمان کالونی ۔گلبرگہ 585104 کرناٹک اسٹیٹ ۔***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :نذیر جوہر کا رومانی ناول ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے