مولانا وحیدالدین خاں: رہ نمائی کا خزانہ

مولانا وحیدالدین خاں: رہ نمائی کا خزانہ

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف منیجر، الہ آباد بینک)

تمہید

انا للہ واِنا الیہ راجعون!
21 اپریل 2021 (مطابق 8 رمضان المبارک 1442 ہجری) کو، اللہ تعالی کے تخلیقی منصوبہ کے تحت، مولانا وحید الدین خاں کو مستقل سکونت کے لیے، فرشتے آخرت کی اُسی دنیا میں لے گئے؛ جس کا ذکر بڑے پیمانے پر وہ اپنی تحریروں و تقریروں میں کرتے رہتے تھے۔ اپنی وفات سے قبل مولانا نے ایک بار اپنی تقریر میں اپنی وفات کے تعلق سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کو کل یہ خبر ملے کہ مولانا اِز نو مور ( مولانا نہیں رہے):
Maulana is no more.
تو آپ کا ری ایکشن کیا ہونا چاہئے؟ آپ فوراً یہ کہئے یا سوچئے کہ بٹ گاڈ از اسٹل الائِو (لیکن خدا تو زندہ ہے):
But God is still alive.
خدا تو زندہ ہے اور وہ کبھی مرنے والا نہیں۔ آپ لوگ ہرگز اس کے سوا اور کچھ مت کیجئے گا۔
اور جب مولانا کا انتقال ہوا تو اس کی اطلاع دیتے ہوئے ان کے چھوٹے صاحب زادے ڈاکٹر ثانی اثنین خاں نے مولانا کے دعوت الی اللہ کے مشن سے وابستہ افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
He has left us one big family to stay united and work for the cause of Dawah.
یعنی مولانا ہم سب کو ایک بڑے خاندان کی شکل میں چھوڑ کر رخصت ہوگئے ہیں، تاکہ ہم متحد ہوکر دعوتی مشن کے لیے کام کریں۔
ڈاکٹر ثانی اثنین خان کی تائید کرتے ہوئے مولانا کے شاگرد خاص اور سی پی ایس کے کو آرڈینیٹر (coordinator) ڈاکٹر رجت ملہوترا نے بھی اعلان کیا :
Our training is over and now we have to work together as one family.
یعنی ہماری تربیت پوری ہوئی اور اب ہمیں ایک خاندان کی طرح مل کر کام کرنا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا کے رفقا نے انھی باتوں کا ثبوت دیا، جس کی تلقین وہ خود کیا کرتے تھے، جب کہ اس کے برعکس عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخصیت انتقال کرجاتی ہے تو ان کے رفقا انھیں آفتاب و ماہتاب ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں. 
امتحان کے لیے بنائی گئی اِس دنیا میں مولانا کو تقریباً ایک صدی طویل زندگی حاصل رہی۔ ان کی تاریخِ پیدائش یکم جنوری1925ء ہے۔
اللہ تعالی کے پڑوس میں آباد ہونے کی وہ ہمیشہ خود بھی تمنا کیا کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی رغبت دلایا کرتے تھے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولانا کو اپنے پڑوس میں خصوصی نعمتوں کے ساتھ آباد ہونے کا شرف عنایت فرمائے۔ آمین! یہ بات اور ہے کہ اس دنیا میں ہم ان کے پڑوس سے محروم ہو گئے ہیں، حالاں کہ اس محرومی کی مصلحت میں بھی اللہ تعالی کی رحمتیں پوشیدہ ہیں۔
مولانا کا موقف تھا کہ یتیم بچے اگر اپنے آپ کو منفی رد عمل سے بچالیں تو وہ زندگی میں بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں۔
رہ نمائی فراہم کرنے کے لیے باپ کا ہر وقت دائیں بائیں حاضر نہ رہنا یتیم لوگوں کے لیے بڑی بڑی کامیابی حاصل کر نے کی ضمانت بن جاتا ہے۔ باپ کی موجودگی میں جن سوالوں کے جوابات بیک وقت حاضر ہوجاتے ہیں، باپ کی غیر موجودگی میں انھی سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ مطالعہ، غور و فکر اور محنت و مشقت درکار ہوتی ہے؛ اور یہی وہ عمل ہے جو کسی کے لیے ترقی کے راستے ہموار کرتا ہے۔
مولانا وحیدالدین خاں کی صحبت، اسپریچول کلاس اور مطالعہ الرسالہ و دیگر تصنیفات سے کس طرح میں نے استفادہ کیا، اس کی روداد کافی طویل ہے، تاہم میں یہاں ذیلی عنوانات کے تحت غیر متعصبانہ انداز میں مولانا کے تئیں اپنے احساسات و تجربات کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہوں گا، جس سے ان کی شخصیت کو سمجھنے میں یقینی طور پر مدد مل سکتی ہے۔
تعصبات سے آزاد شخصیت
میرے خیال میں اے کمپلیکس فری سَول (A Complex-free Soul) یعنی ‘ذہنی پیچیدگیوں اور تعصبات سے آزاد شخصیت` کا لقب مولانا وحید الدین خاں کی شخصیت کے ساتھ پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔
بلا شبہ، ایسا ہی ایک شخص اصاغر و اکابر کی تفریق کے بغیر سبھی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھ سکتا ہے۔ وہ نہ تو کسی سے مرعوب ہوتا ہے اور نہ ہی کسی پر رعب جماتا ہے۔ اس کے برعکس وہ حقائق کے اعتراف میں پیش پیش رہتا ہے۔ ’میں غلطی پر تھا‘ کہنے کا حوصلہ بھی ایسے ہی اوصاف کے مالک شخص سے ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا حقیقت واقعہ کے اعتراف کی تاکید کیا کرتے تھے تاکہ یہ کہاجا سکے کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
مولانا کا ہمیشہ سے یہ موقف تھا کہ ذہنی پیچیدگیوں کا شکار انسان کبھی کوئی بڑا علمی کام نہیں کرسکتا۔ علم کی گہرائیوں کا احاطہ کرنے کے لیے ہر قسم کے کمپلیکس سے پاکیزگی اشد ضروری ہے۔ کمپلیکس کے لفظ کو خلفشار، انتشار، جذباتیت، تعصب، انحراف اور ذہنی آلودگی جیسے الفاظ سے سمجھا جا سکتا ہے۔
مولانا کی ولادت ہندستان کی ریاست اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک دور افتادہ گاؤں ’بڈہریا‘ میں ہوئی، جب کہ ان کی وفات ہندستان کے قومی دارالحکومت نئی دہلی میں!
مولانا کی ذاتی اور علمی زندگی کو سنوارنے میں ان کے خاندان کے چند لوگوں کے نام بہت اہم ہیں؛ ان میں ان کی والدہ اور بڑے بھائی عبدالعزیز خاں کے علاوہ ان کے چچا صوفی عبدالمجید خاں اور ان کے چچا زاد بھائی ایڈوکیٹ اقبال احمد خاں سہیل (ایم اے ایل ایل بی) ہیں۔ مولانا کے والد فرید الدین خاں بچپن میں ہی اِس دنیاے فانی سے رخصت ہو گئے تھے ۔
مولانا کی والدہ زیب النساء نے اپنے محدود وسائل کے اندر ان کی بہترین پرورش کی۔ وہیں چچا صوفی عبدالمجید خاں نے اُنھیں ’دینی عالم‘ بنانے کی غرض سے مدرسہ میں داخل کرایا۔ وہیں ان کے بڑے بھائی عبدالعزیز خاں نے تقریباً پچاس سالوں تک ان کی مادی ذمہ داری اُٹھائی۔
جہاں مولانا کی والدہ نے ان کی بہترین تربیت کی وہیں انھیں ابتدائی ایام میں مولانا امین احسن اصلاحی جیسا مدبر و بلند مرتبہ استاد ملا۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی تدریس و تربیت نے اس میں مزید جلا بخشی، ان کی اخلاقی اور کردار کی پاکیزگی نے شعور کا درجہ حاصل کیا اور اس طرح وہ ہر طرح کے کمپلیکس کی آلودگی سے محفوظ رہے۔ دین کے علمی سفر میں ایک بڑی حقیقت اُنھیں یہ دریافت ہوئی کہ جنت کے معیاری محل و باغات میں صرف ’پاکیزہ انسان‘ ہی آباد کیے جائیں گے۔
غور و فکر کرنے والے جانتے ہیں کہ ’تزکیہ‘ ہی ایمان والوں کے ہر عمل کا ہدف ہوتا ہے۔ مومنین کی زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں پاکیزگی کو نظر انداز کیا جاسکے۔ مولانا نے اس سمت میں بہت کام کیا ہے۔ ’تزکیہ نفس‘ مولانا کی ہر تحریر کی روح ہے۔
جنت کا حریص ایک شخص اپنی زندگی میں کسی بھی طرح کے کمپلیکس اور آلودگی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ مولانا کی تحریر و تقریر میں ہمیشہ علم و عمل اور کردار کی پاکیزگی کو بنیادی مقام حاصل رہا ہے۔ اِس ضمن میں دوسرے لوگوں کو نصیحت کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس خود ان کی اپنی زندگی کا محور و مرکز بنا رہا۔ اس لیے ان کی شخصیت کو علامتی طور پر’اے کمپلیکس فری سَول‘ کہا جاسکتا ہے۔
لا ادری نصف العلم
مولانا وحیدالدین خاں کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی کی بے مثال علمی تشریحات کے تناظر میں ’لا ادری نصف العلم‘ کی معنویت ان کی شخصیت کا کبھی نہ جدا ہونے والا حصہ بن گئی۔’اپنے نہ جاننے کو جاننا، آدھا علم‘ کی دریافت ان کی زندگی کی سب سے بڑی دریافت ہے۔
دنیا میں اس حقیقت کا ادراک کہ اپنے نہ جاننے کو جاننا آدھا علم ہے؛ بہت کم لوگوں کو حاصل رہا ہے۔ اس حقیقت سے واقفیت نے مولانا وحید الدین خاں کو ایک ’روایتی مولوی‘ کے درجہ سے اُوپر اٹھا کر ایک ’سائنس داں‘ کے درجہ کا عالم بنا دیا۔
اس طرح مولانا کی زندگی میں اسلام ایک دریافت شدہ ’صداقت‘ بن گیا اور اسلام کی صداقت، ایک مذہبی رسم کے بجائے مولانا کی اپنی دریافت بن گئی، جیسا کہ انھوں نے بارہا اپنی تقریر و تحریر میں کہا ہے کہ اسلام کو انھوں نے دریافت کی شکل میں پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا کام اعتماد کے ساتھ کرنے میں کامیاب رہے۔
کسی بھی میدان میں خاطر خواہ ترقی حاصل کرنے کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ ’ہم کیا نہیں جانتے ہیں‘۔ اپنے نہ جاننے کے علم کے بغیر ہم یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ شروعات کہاں سے کرنی ہے۔
رب زدنی عِلما
جب ایک شخص’اپنے نہ جاننے کو اپنا جاننا‘ بناتا ہے تو ساری کائنات اس کے سامنے علم کا دستر خوان بن جاتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ اس ضمن میں اس کی سنجیدگی بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا شخص پورے اخلاص کے ساتھ عملی جدوجہد میں خود کو غرق کر لیتا ہے۔ اے اللہ، میرے علم کو بڑھا دے؛ جیسی دعاﺅں سے دل و دماغ منور ہو جاتے ہیں۔
’رب زدنی علما‘ کا ذکر و فکر مولانا کے صبح و شام بن گئے تھے۔ چوں کہ مولانا نے دعوت الی اللہ اور اصلاح معاشرہ جیسے بڑے مقاصد کو اپنی زندگی کاہدف بنایا تھا، اس لیے مدرسہ کی اسلامی تعلیم اور قرآن و سنت کے تحقیقی مطالعہ کے ساتھ ساتھ جدید علوم کا حصول بھی ان کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا۔
وہ بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ مذکورہ جامع مقاصد کی تکمیل کے راستہ میں بین الاقوامی زبان اور سائنسی طرزِ تحریر سے آراستہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ مولانا نے سنجیدگی کے ساتھ انگریزی زبان سیکھنے اور عصری علوم کے مطالعہ کے لیے گویا ’علمی جہاد‘ کیا ہے۔
رہ نمائی کا خزانہ
مولانا وحیدالدین خاں چوں کہ ہمارے لیے اسپریچوئل (spiritual) باپ کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے ان کی عدم موجودگی بھی ان کے یتیم اسٹوڈنٹس (students) کے لیے مزید علمی ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔ مولانا کے علمی کندھوں پر بیٹھ کر مولانا کی علمی و دعوتی وراثت کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ علم و عمل کی بلند چٹانوں پر پہنچنے کے لیے اُنھوں نے جو سیڑھیاں بنائیں، ان کا استعمال کرکے، ان کے نامکمل کام کو مزید ترقی دی جا سکتی ہے۔
نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے مولانا نے اپنی زندگی میں ہی علم و حکمت سے بھرپور لٹریچر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تیار کر دیا ہے۔ ان کے قلم سے لکھے گئے علمی بصیرت اور حکمت و دانش کے اتنے زیادہ الفاظ کا خزانہ شاید ہی کسی دوسرے اہلِ علم کے یہاں دستیاب ہو۔
مولانا نے متعدد ادارے بنائے، مگر غور سے دیکھا جائے تو وہ بذات خود بھی کسی ادارہ سے کم نہ تھے۔ اللہ تعالی نے اُنھیں مختلف چیزوں کی حیثیت کو سمجھنے کے لیے ’فرقان‘ کی جو صلاحیت عطا کی تھی؛ اس کا ثانی ملنا آسان نہیں۔ مگر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد مولانا کی اس نادر صلاحیت سے خاطر خواہ فائدہ نہ اُٹھا سکی۔
اگر صبر سے کام لیا جائے تو ریلوے اسٹیشن پر ایک گاڑی چھوٹنے کے بعد بھی دوسری گاڑی ملنے کا امکان باقی رہتا ہے؛ بالکل اُسی طرح آج بھی مولانا وحیدالدین خاں کے قیمتی علمی خزانہ سے فیض حاصل کرنے کا وقت باقی ہے، کیوں کہ ’علم و حکمت‘ تو ویسے بھی مومن کا ہی سرمایہ ہے جہاں سے بھی حاصل ہو۔ اگر یہ ممکن ہو جائے اور مولانا کی تحریر و تقریر سے استفادہ کیا جانے لگے تویہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مسلم معاشرہ میں بہت زیادہ مثبت تبدیلی آجائے گی۔
منفردشخصیت
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے درمیان ’مولانا وحید الدین خاں‘ جیسی اعلا علمی شخصیت کو پیدا کیا۔ الحمدللہ، الگ الگ مواقع پر مجھے مولانا کی علمی صحبت نصیب ہو ئی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے شاہ کار ماہانہ میگزین ’الرسالہ‘ اور ان کی دوسری علمی و فکری کتابوں کے مطالعہ کا بھی موقع ملا۔
مولانا کی شخصیت کی ایک بڑی انفرادیت یہ بھی تھی کہ وہ رات کو معمول کے مطابق مختصر سونے کے علاوہ کسی طرح کے آرام اور چھٹی کے قائل نہ تھے۔ اپنے دعوتی اور اصلاحی مشن کی اہمیت کے سامنے، بیوی بچوں کے باوجود پرسنل اور فیملی لائف جیسی کوئی چیز مولانا کی زندگی کو حاصل نہ تھی۔ علمی غور و فکر اور لکھنے پڑھنے کے کام میں پورا دن مصروف رہنا مولانا کا بہترین مشغلہ تھا۔ کام کے متعلق ان کی زندگی میں کسی ایکسکیوز (excuse) کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ کام کے معاملہ میں کوئی عذر پیش کرنا مولانا کے نزدیک مشن کے راستہ میں خلفشار، انحراف اور انتشار پیدا کر نے جیسا تھا۔
ڈسٹریکشن (distraction) انسان کو مقصدیت کی پٹری سے اُتار دیتا ہے۔ اسی لیے، مولانا ہمیشہ اپنے متبعین کو مذکورہ برائی سے بچنے کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار بیمار ہوجانے کی حالت میں بھی مولانا اپنے مشن سے کبھی غافل نہیں پائے گئے۔ یہ بھی مولانا کی شخصیت کی ایک بڑی انفرادیت تھی کہ کام سے تھکنا آپ کی اسکیم میں نہیں تھا۔
ان کی وفات کے بعد احساس ہوتا ہے کہ مستقبل کے نوجوانوں کے لیے آسان زبان اورآسان اسلوب میں اتنی بڑی مقدار میں علمی مواد تیار کر نے کے لیے ہی اللہ تعالی نے مولانا کو سو سالہ زندگی عطا کی اور کسی بڑی بیماری اور بڑھاپے کی متوقع معذوری سے آپ کی حفاظت فرمائی۔ پروردگار نے یہ نادر صلاحیت بھی آپ کو عنایت کی کہ ماحولیاتی ڈسٹریکشن سے متاثر ہوئے بغیر یکسوئی کے ساتھ اپنے کام پر آپ کا فوکس بنا رہے۔
خیال رہے کہ ہندستان کے معروف اسکالر و سوانح نگار شاہ عمران حسن نے مولانا کی دینی اور علمی خدمات کا ایک جامع احاطہ کرتے ہوئے اپنا ضخیم تحقیقی مطالعہ ’اوراقِ حیات: مولانا وحیدالدین خاں کی خودنوشت تحریروں پر مبنی سبق آموز اورتجامع سوانحی کتاب‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اوراق حیات مولانا موصوف کی خودنوشت تحریروں کی بنیاد پرمرتب کی گئی ہے، یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ پیش کش مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور مشن کے متعلق ان کی علمی و فکری جدوجہد کے ادراک میں بڑی معاون ثابت ہوگی۔
اس لیے اب تعلیم یافتہ مسلمان والدین کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مولانا کی علمی حیثیت سے متعارف کرائیں اوران کی کتابیں پڑھنے کی رغبت دلائیں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے بڑے معیاری علمی ادارے برائے تعلیم و تحقیق مولانا وحید الدین خاں نام کا ڈپارٹمنٹ شروع کر یں۔ اس سے پہلے کہ تاریخ سر سید احمد خاں کی طرح مولانا وحید الدین خاں کی عظمت کا اعتراف کرے، ہمیں مولانا کی رہ نمائی اور نصیحتوں کی معنویت اور افادیت کا فیض حاصل کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔
جینے میں سادگی اور سوچ میں بلندی
سمپل لونگ، ہائی تھنکنگ (simple living high thinking) ہمیشہ سے ہی بڑے لوگوں کا اصول رہا ہے۔ مولانا کو بھی یہ فارمولا بہت پسند تھا۔ مدرسہ کی طالب علمی کے زمانہ میں طلبہ کا سادہ کرتا پاجامہ ایک معمول کی بات ہو سکتی ہے، مگر کسی شخص کے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لینے کے بعد، شاید نہیں! ہمیشہ دفتر میں کرتا پاجامہ اور اجتماعات میں ایک سادی چادر کے اضافہ کے ساتھ مولانا کو دیکھا جانا آپ کی شخصیت کا خاصہ رہا ہے۔ اے سی اور کولر کے بغیر، نئی دہلی کی سخت گرمیوں کو صرف سیلنگ فین (ceiling fan) کے سہارے، ایک مختلف ماحول میں، اختیاری طور سے گزار دینا اپنے آپ میں ایک انوکھی بات ہے۔
مولانا کے اندر بلند سطح کی خود اعتمادی (self confidence) کی صلاحیت تھی؛ جب کہ اکثر اوقات، سیلف کانفیڈنس (self confidence) کی کم زوری انسان کو منافقت کی بڑی برائی میں مبتلا کردیتی ہے۔ وہیں ایک عام مشاہدہ ہے کہ اسٹیج پر سادگی کے طرف دار خود سادگی سے کوسوں دور نظر آتے ہیں؛ لیکن مولانا کی خاص بات یہ رہی کہ وہ قول و فعل کے تضاد سے پاک رہے۔
ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آسائش اور زیبائش میں آخر برائی کیا ہے؟
مولانا کی زندگی سے ہم نے جو جواب اخذ کیا، وہ یہ ہے کہ مشن کے معیار کا کوئی بھی کام کرنے والا ایک شخص، جائز ہونے کے باوجود آسائش اور زیبائش جیسے لوازمات کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اس کو بہ قدر ضرورت پر ہی اکتفا کرنا ہوگا۔ ایک معمولی ڈسٹریکشن بھی مشن کے لیے زہر ہلاہل ہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ مولانا تمام آسائش و زیبائش سے کوسوں دور رہے، جس طرح روزہ دار جائز چیزوں کو بھی دورانِ روزہ ترک کردیتا ہے ویسے ہی مولانا نے بھی جائز چیزوں کو ترک کردیا تھا کہ مشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے۔
دعوت الی اللہ
قوم کی کیفیتِ زوال بچپن سے ہی مولانا کے مشاہدہ میں رہی ہے۔ عروج اور فراز کی اسٹیج سے بے دخل ہونے کے بعد کسی قوم کی جو حالت ہوتی ہے اس سے مولانا بہ خوبی واقف رہے ہیں۔ مدرسہ کی طالب علمی کے زمانہ سے ہی مولانا قوم کو پستی کے اندھیروں سے باہر نکالنے کے لیے سنجیدہ غور و فکر کرنے لگے تھے۔ مولانا بہت جلد اس حقیقت سے واقف ہو چکے تھے کہ دعوتِ الی اللہ اور اصلاحی معاشرہ کے مشن کی نصرت کے لیے قرآن و سنت کے علم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا سنجیدہ مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم بھی مولانا کے ذہن میں محفوظ تھی کہ عالم اپنے زمانہ کو جاننے والا ہوتا ہے۔
مشن کی ضرورتوں کے پیش نظر مولانا نے مدرسہ کی تعلیم پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھ کر بہ طور خود باقاعدہ انگریزی زبان سیکھی اور جدید علوم کا پوری یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کیا۔
مولانا وحید الدین خاں کی سائنسی استدلال کی روشنی میں مذہب کی حقانیت کو واضح کرنے والی کتاب مذہب اور جدید چیلنج 1966ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا ایک ”مولوی“ کے لباس میں ”سائنس داں“ کی طرح دیکھے جانے لگے۔ عربی اور انگریزی ترجمہ سے اس کتاب کو بین الاقوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور یونی ورسٹی لیول پر کئی جگہ تعلیمی نصاب میں داخل کرلی گئی۔
اسلام دور جدید کا خالق نام کی کتاب میں مولانا نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ دراصل توحید کا فلسفہ ہی جملہ انسانی ترقیات کا سر چشمہ ہے۔ انگریزی زبان اور جدید علوم کے حصول کی وجہ سے مولانا کے لیے مغربی قوموں کو اسلام سے متعارف کرانا آسان ہوگیا۔
اصلاحِ معاشرہ
دعوت کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مولانا مسلمانوں کی اصلاح پر بھی زور دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی موجودہ روش پر تنقید و تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں تاریک وادیوں سے نکالنے کے لیے ہمیشہ فکرمند رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مولانا نے ان کم زوریوں اور برائیوں کا گہرا مطالعہ کیا جو ایک زوال یافتہ قوم کے اندر داخل ہو جاتی ہیں۔ عام طور سے زوال یافتہ قوموں کے رہ بر و رہ نما قوم کا غم بھلا کر خود غرضی اور اپنی قصیدہ خوانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اصول پسندی معاشرہ سے ختم ہونے لگتی ہے۔
معاشرہ خود نمائی، بے اصولی، بے صبری، جلد بازی، نفرت، حسد، جلن، بغض و کینہ، شکوہ، شکایت، اشتعال انگیزی، احتجاج، انتقام، کنفیوژن، مسائل کی بھرمار، غور و فکر اور اجتہاد کی کمی، تقلید اور ڈسٹریکشن، اخلاقی اور سماجی برائیاں، مقصدیت کا فقدان، جہالت، کردار کی آلودگی، جذباتیت، خوش خیالیاں، مصلحت پرستی، خواہش پرستی، خود غرضی، نمائش اور جھوٹی شان، وعدہ خلافی، خلفشار، گالی گلوچ، کاہلی، بزدلی، انتشار، دشمنی کے جذبات، جھوٹ، مکاری، فریب، خیانت، بے ایمانی، اچھے برے کی تمیز سے محرومی، علم حاصل کرنے سے بے رغبتی، نصیحت قبول کرنے کا فقدان، بے شعوری، اخلاص کی کمی اور سنجیدگی کا فقدان وغیرہ برائیوں کی گرفت میں آجاتا ہے۔
جب مذکورہ بالا عناوین پر ہم غور کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کے ہزاروں اخلاقی نقائص ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ؛ اور ان تمام مسائل کا حل قرآن مجید میں موجود ہے، مگر مسلمانوں کی اکثریت قرآن کا مطالعہ معنی اور تدبر کے ساتھ کرنا نہیں جانتی ہے۔ بدقسمتی سے اللہ کی ہدایت کی کتاب ’قرآن‘ محض ثواب و برکت کی کتاب بن کر رہ گئی ہے۔ مسلمان اگر سمجھ کر قرآن کا مطالعہ کرتے تو وہ یہ دریافت کر لیتے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
یہ بات کہ علم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں؛ مسلمانوں کو سمجھا نے میں، ایسا لگتا ہے کہ مولانا نے اپنی زندگی وقف کردی۔ قرآنی تعلیمات کو آسان زبان اور عصری اسلوب میں پیش کرتے ہوئے انھوں نے ماہ نامہ الرسالہ کے علاوہ متعدد کتابیں تصنیف کیں تاکہ حال اور مستقبل کے مسلم نوجوانوں کی؛ شاہ راہ سے نیچے اُتر چکی ان کی قومی گاڑی کو شاہ راہ پر واپس لانے میں، رہ نمائی کی جا سکے۔
پوری انسانیت اور مسلم قوم کے درد میں اتنے بڑے پیمانہ پر علمی و فکری مواد تخلیق کر دینا مولانا وحید الدین خاں کی شخصیت کا بے مثال ’کارنامہ‘ ہے۔
طویل علمی سفر
مولانا وحیدالدین خاں کی پوری زندگی ایک علمی زندگی رہی ہے۔ ان کے روز و شب علمی غور و فکر میں گزرتے تھے۔ تدبر اور تفکر کے ساتھ قرآن کے مطالعہ نے ان کے اندر علمی بصیرت پیدا کی جس کی روشنی میں انھوں نے مذہب اور اس کے باہر کے علوم میں بے شمار حکمتیں دریافت کیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قوم و ملت کی رہ نمائی میں منفرد کردار ادا کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ روایتی طرزِ تعلم کی وجہ سے بیشتر علماے کرام نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کی معنویت اور افادیت کو عصری اسلوب میں روشناس کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ جب کہ ان روایتی علماے کرام کے برعکس مولانا وحید الدین خاں نئے زمانہ کے سائنسی مزاج کو سمجھنے میں کامیاب رہے؛ اور انھوں نے اپنی تحریر و تقریر میں عصری اسلوب، بہ الفاظ دیگر سائنسی اسلوب اختیار کیا۔ اور ان کی فکر کا ترجمان ماہنامہ الرسالہ عصری اسلوب کی بہترین مثال ہے۔
مولانا وحیدالدین خاں نے ہزاروں عناوین کو اپنا موضوع قلم بنا کر دعوت و نصیحت کے وسیع میدان میں انسانیت کی لا ثانی خدمت انجام دی۔ یہاں کسی ترتیب کے بغیر کچھ موضوعات کے مفہوم کو لکھنے کی کوشش کی گئی ہے:
خدا کی دریافت، خدا کی معرفت، خدا رخی زندگی، آخرت رخی زندگی، عارضی دنیا اور ہمیشہ کی آخرت، قیامت، جنت، دوزخ، تقویٰ اور تزکیہ نفس، خدا کا منصوبہ تخلیق، دعوت و تبلیغ، اصلاحِ معاشرہ، مطالعہ قرآن، حدیث اور سیرت، قوانین فطرت، کرہ ارض کی انفرادیت، انسانی امتحان، حدود، ارادہ و اختیار، صبر و اعراض، اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونا، استقلال، سنجیدگی، مسابقت کا اصول، شکر و اعتراف، مثبت سوچ، اعلا تعلیم، حصولِ علم و ہنر، تفکر اور تدبر، رد عمل کی نفسیات، نتیجہ خیز عمل، مستقبل بینی، بچوں کی تعلیم و تربیت، اکرامِ انسان، اخلاقی پاکیزگی، علم و عمل کی پاکیزگی، اللہ کا خوف، بندوں کی خیر خواہی، دشمن نہیں، امکانی دوست، حب الوطنی، قومی اتحاد، دیانت داری، وفاداری، منصوبہ بندی اور ذمہ داری، جھوٹ برائیوں کا سر چشمہ، چھوٹا شر، بڑا شر، مغربی تہذیب، سائنسی طرز فکر، مصائب و مسائل، غور و فکر، فارم اور اسپرٹ، جہاد اور قتال، تنقید و تنقیص، شکایت و احتجاج کی لغویت، دارالکفر نہیں، دارالدعوہ اور دارالامتحان، سمپل لونگ، ہائی تھنکنگ، حکومتوں کا سیاسی استحکام، مذہب کا سائنسی استدلال، اسلام اور مسلمانوں میں فرق، ماضی اور حال کا علمی ادراک، نتیجہ خیز اقدام، انٹرنیٹ: خدا کی عظیم نعمت، عصری اسلوب، حکومت الٰہیہ غیر علمی فلسفہ، اخلاص و منافقت، غیر حکومتی ادارے، انفرادی اور اجتماعی زندگی، سوشلزم، مارکسزم، خواہشات اور ان کا حصول، کنڈیشننگ (conditioning)، ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning)، اور مائنڈ بیسڈ اسپریچوئلٹی (mind based spirituality) وغیرہ۔
مندرجہ بالا موضوعات کی صرف ایک جھلک سے کوئی بھی ذی شعور انسان بہ خوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مولانا کا علمی میدان کتنا وسیع تھا۔ ’تذکیرالقرآن‘ مولانا کی ایک جلد میں دستیاب ترجمہ قرآن کی ایک جامع تفسیر ہے، اس تفسیر میں فنی مباحث سے قطع نظر معرفت و ہدایت پر خاص توجہ دی گئی ہے کہ قاری جب قرآن کی کسی آیت کی تلاوت کرے تو براہِ راست وہ اس کے معنی و مفہوم سے بھی آگاہ ہوتا چلا جائے۔
’تعبیر کی غلطی‘ کے ذریعہ کی گئی مولانا کی علمی تحقیق نے دین کی تعلیمات میں ہو رہیں علمی غلط فہمیوں کو رد کردیا ہے تو وہیں ’مذہب اور جدید چیلنج‘ میں؛ مذہب کو سائنسی اسلوب میں سمجھا کر مذہب کی حقانیت کو واضح اور مستحکم کیا، جب کہ ’راز حیات‘ مسائل و مصائب کے باوجود زندگی کو بامعنی بنانے کی طرف رہ نمائی فراہم کرنے والی ایک شاہکار کتاب ہے۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مولانا کی ہر ایک کتاب کا مطالعہ قاری کو علمی بصیرت اور عملی رہ نمائی فراہم کرنے کا ضامن ہے۔
ماہنامہ الرسالہ
مولانا وحیدالدین خاں نے سینکڑوں کتابیں تصنیف کی ہیں؛ مگر ان کی زندگی میں ’الرسالہ‘ کا ایک منفرد مقام ہے۔ الرسالہ نام سے معروف مولانا کا ماہانہ رسالہ ایک علمی اور فکری شاہ کار ہے۔ یہ گذشتہ تقریباً 45 برسوں سے مسلم معاشرے کی اصلاح اور قوم کے نوجوانوں کی رہ نمائی کی سمت میں بے مثال خدمت انجام دیتا رہا ہے۔
نصیحت قبول کرنے والے لوگوں نے الرسالہ میں عصری اسلوب میں پیش کئے گئے حکمت و دانش کی گہرائیوں سے روشناس کرانے والے مضامین سے فیض حاصل کیا ہے۔ الرسالہ لوگوں کی زندگی کو سنوارنے اور ان کی ذہن سازی کرنے کا بہترین ذریعہ رہا ہے۔ دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ کی اصلاح بھی الرسالہ کا مقصد رہا ہے۔
الرسالہ کے سر ورق پر؛ پیش کیے جانے والے ’دوسطری‘ پیغام کسی علمی کتاب سے کم نہیں ہے۔ الرسالہ بہت سارے معاملات میں انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ الرسالہ میں اسلام کی ابدی اور آفاقی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ نئی نسل کو حقائق کے ادراک میں کوئی دشواری لاحق نہ ہو۔ اس کے بیشتر مضامین ایک ہی صفحہ میں اپنا مدعا بیان کردیتے ہیں۔
اس طرز تصنیف نے بھی اس پرچہ کو علمی حلقہ میں جاذبِ نظر بنا دیا ہے۔ ایک اور منفرد خوبی ہے جو شاید ہی کہیں پائی جاتی ہو؛ وہ یہ ہے کہ چند استثنیات (exceptions) کو چھوڑ کر الرسالہ کے جملہ مضامین مولانا کے اپنے قلم کی تخلیق ہوتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے ماہ نامہ الرسالہ کی پُرکشش تحریروں کے تعلق سے مولانا سے کہا تھا کہ یقینا انھوں نے ’قرآن و سنت کی بے پناہ مٹھاس‘ کو دریافت کر لیا ہے اور الرسالہ نے نوجوانوں کے لیے ’اسلامی تعلم‘ کو آسان بنا دیا ہے۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الرسالہ کے سحر سے قوم کے وہ رہ نما بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے جو پبلک لائف (public life) میں مولانا کے سخت مخالفین بنے ہوئے تھے۔ ان حضرات نے اپنی ذاتی زندگی کو پرُکیف بنانے کے لیے الرسالہ کی تعلیمات پر عمل کیا، حالاں کہ کھلے طور پر الرسالہ کے مضامین کی معنویت اور افادیت کا نہ تو خود اعتراف کیا اور نہ ہی قوم کے نوجوانوں کو اس حقیقت سے روشناس کرایا۔
مولانا وحیدالدین خاں نے اتنا زیادہ لکھ کر رکھ دیا ہے کہ ان کے وارثین دیر تک الرسالہ کو من و عن جاری رکھ سکتے ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ وہ الرسالہ کے لیے ہر ماہ دو پرچوں کے بہ قدر مضامین تیار کرتے ہیں۔ اس طرح ان مضامین کی بنیاد پر ماہ نامہ الرسالہ کو مزید 40-50 برسوں تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی علم و حکمت، دانش و دانائی اور نصیحت آموز مضامین کبھی اپنی افادیت نہیں کھوتے۔
مولانا وحیدالدین خاں نے اسلا م کو دو آسان اصطلاحوں میں سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے الفاظ میں:
اسلام: خدا کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی۔
خدا کا خوف: اس میں خدا کی شعوری دریافت اور اس کی معرفت، اس کا جاہ و جلال اور اس کے کلام ’قرآن مجید‘ کا علمی، فکری اور عملی ادراک شامل ہے۔
بندوں کی خیر خواہی: اس میں ’ختم رسالت‘ کے بعد ’کار رسالت‘ یعنی اللہ تعالی کے پیغام کی دعوت کو دنیا کے سارے انسانوں تک پہنچانا بندوں کی سچی خیر خواہی ہے۔ تعلیمی پستی سے اُٹھا کر، دعوتی ذہن بیدار کرتے ہوئے اور دعوتی حکمت و دانائی سے متعارف کراتے ہوئے مسلمانوں کو سچا اور سنجیدہ داعی بنانا بھی بندوں کی خیر خواہی کا ہی بنیادی حصہ ہے۔ اُنھوں نے الرسالہ اور اپنی دوسری تصنیفات کے ذریعہ ہزاروں عناوین کو اپنا موضوعِ قلم بناکر قوم اور معاشرہ کی بے مثال رہ نمائی کی ہے۔ یہ بیش قیمتی رہ نمائی کئی نسلوں کو فیض یاب کر سکتی ہے۔
ترجمہ قرآن
مولانا وحید الدین خاں خود کو پیدائشی داعی کہتے تھے۔ وہ قرآن کو دنیا کے سارے انسانوں تک پہنچا دینے کو دعوت کی بنیادی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ مولانا قرآن کو ماڈرن اور آسان انگریزی میں ترجمہ کرنے کے خواب کے ساتھ اپنے دن رات بسر کر رہے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کے خواب کو تعبیر عنایت کی اور سنہ 2009ء میں قرآن کا انگریزی ترجمہ ©’دی قرآن‘ (The Quran) شائع ہو گیا۔ پریس نے اس انگریزی ترجمہ کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ہینڈی اور پاکٹ سائز قرآن کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
مولانا وحیدالدین خاں کے اداروں؛ سی پی ایس انٹرنیشنل اورگڈ ورڈبکس نے دنیا بھر میں انگریزی ترجمہ قرآن کے ڈسٹریبیوشن کا اہم ترین کام سنبھالا۔ ماشاءاللہ، ان کی زندگی میں ہی قران کا تقریباً دو درجن زبانوں میں ترجمہ ایک واقعہ بن چکا تھا، اللہ تعالی ان بے مثال کوششوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین!
امتِ مسلمہ پر عظیم احسان
امتحان کے لیے آباد کی گئی اِس عارضی دنیا میں قوموں کے عروج و زوال اور نشیب و فراز انسانوں کی تربیت اور رہ نمائی کے سلسلہ میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔
موجودہ دنیا میں مسلمانوں کو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ وقت تک حکومت کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے، حالاں کہ فی الحال مسلمان قوم نہ صرف شرفِ اقتدار سے ہی محروم ہے بلکہ 200 برسوں سے بھی زیادہ عرصہ سے اپنی پستی و زوال کی شکار ہے۔ اگرچہ اکیسویں صدی عیسوی کی انسانی ترقی کا کچھ فائدہ قوانین فطرت کے تحت مسلمانوں کو بھی حاصل ہوا ہے، مگر قوم کی عمومی حالت بدستور ایک زوال یافتہ قوم کی ہی بنی ہوئی ہے۔
کسی بھی قوم کو عروج یافتہ بنے رہنے کے لیے دوسری ضروری سنجیدہ چیزوں کے علاوہ علم و اخلاق کی پاکیزگی کو اوّل درجہ کا مقام حاصل رہنا ناگزیر ہے۔ علم و اخلاق کی پستی کسی بھی قوم کو بلندی کے مقام سے بہت جلد محروم کردیتی ہے۔ ایک بار زوال یافتہ ہو جانے کے بعد کسی قوم کا دو بارہ ترقی یافتہ قوم بن جانا اگر نا ممکن نہیں تو نہایت دشوار ضرور ہے۔
کسی بھی قوم کو پستی کے گڑھے سے باہر نکالنے کے لیے سنجیدہ علمی سوجھ بوجھ، بے لاگ حکمت عملی اور بڑے پیمانے پر محنت و مشقت کی صفت درکار ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ، ان ساری خصوصیات کو بروئے کار لانے کے لیے ایک مفکر و مدبر عالم اور مخلص رہ نما کی اشد ضرورت سے کیا کوئی بھی ذی شعور انسان انکار کی جسارت کرسکتا ہے؟
مولانا وحید الدین خاں نے اپنے رب کے پڑوس میں، ان شاءاللہ، آباد ہونے کے لیے ہماری دنیاے ناپائدار کو الوداع کہنے سے پہلے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے مشن ’خدا کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی‘ میں صرف کردیا ہے۔ اُن کا ہمیشہ سے یہ خواب رہا ہے کہ اللہ تعالی کا قرآنی پیغام دنیا کے سارے انسانوں تک پہنچا دیا جائے اور ساتھ ہی زوال یافتہ مسلم قوم کو غفلت کی نیند سے جگانے کی کوشش کی جائے۔ اس ضمن میں مولانا کی بڑھی ہوئی سنجیدگی کا اندازہ ان کی علمی و فکری تخلیق کی وسعت سے لگایا جا سکتا ہے۔
اقتدار سے بے دخلی کے بعد تقریباً ایک صدی طویل عرصہ تک مسلمان ’پدرم سلطان بود‘ کی نفسیات میں مبتلا رہے، ساتھ ہی کچھ علماے کرام کی قرآنی مطالب میں علمی غلط فہمیوں کی وجہ سے ایک نیا سنگین مسئلہ پیدا ہوا۔ قوم کو بتایا گیا کہ زمین پر حکومت الٰہیہ قائم کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس غیر علمی اور بلا دلیل نظریہ نے مسلمانوں کو ایک الگ قسم کے مسائل سے دوچار کردیا۔ اس نظریہ کو دین کا ایک حکم تصور کرتے ہوئے، پڑھے لکھے مسلمانوں کی خاطر خواہ تعداد بھی دو مختلف قرآنی اصطلاحات ہونے کے باوجود جہاد اورقتال کے فرق کو ملحوظ نہ رکھ سکی۔ زمین پر حکومت الٰہیہ کا قیام یا بہ الفاظ دیگر ساری دنیا میں مسلمانوں کی حکومت کا قیام کے بے اصل فلسفہ نے مسلم دنیا میں اتنے برے اثرات مرتب کیے کہ اکیسویں صدی عیسوی آتے آتے دنیا امن و انسانیت کے دین اسلام کو نعوذ باللہ دہشت گردی کا مذہب تصور کرنے لگی۔
غلط نظریات سے پیدا شدہ اس سنگین صورت حال سے قوم کو باہر نکالنے کے لیے مولانا وحید الدین خاں کے علمی جہاد کو کوئی مخلص اور سنجیدہ انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔
مسلم قوم، خاص طور سے ہندستانی مسلمان ایک عرصہ تک اس اعتراف سے محروم رہے کہ اب وہ اقتدار میں نہیں ہیں۔ اس المیہ نے مسلمانوں کو علم کی دنیا میں صدیوں پیچھے کردیا اور اس حالت کو پہنچ گئے کہ:
بے علم کو حق ہی نہیں رہنے کا جہاں میں
بعد ازاں، تقسیم ملک اور بڑھتی جہالت کے نتائج کے طور پر پچھلے قریب 70 برسوں سے ہندستانی مسلمان الگ قسم کی سیاسی مشکلوں میں گرفتار ہیں۔ یہاں کی سیاسی جماعتوں نے نان ایشوز (non-issues) کو بھی مسلمانوں کے بنیادی ایشوز بنادیا ہے۔ انھی جماعتوں سے ظاہر ہونے والے مسلمانوں کے نام نہاد خیر خواہ مسلم اور غیر مسلم رہ نماؤں نے نفرت اور دشمنی کی نئی سیاست شروع کرکے پہلے سے ہی بگڑے حالات کو مزید اُلجھا دیا ہے۔ سخت آزمائش کے ایسے سنگین دور میں مولانا کا قومی دارالحکومت دہلی میں سکونت پذیر ہونا اللہ تعالی کی کسی بڑی نعمت سے کم نہ تھا۔
مولانا نے دین و دنیا کے علوم کی روشنی میں اپنے مضامین کے ذریعہ بہترین رہ نمائی فراہم کر زوال یافتہ مسلم قوم پر عظیم احسان کیا۔ صبر و استقلال کی تلقین کرکے شاہ راہ سے اُتر چکی گاڑی کو واپس شاہ راہ پر لانے کی کامیاب حکمت عملی سے قوم کو روشناس کرایا۔ قوم کو بزدلی سے نکالنے کے لیے اُنھوں نے علمی انکشاف کیا کہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ کر ندامت بن جاتا ہے۔ پچھلی سیٹ پر راضی ہو جانے والے کے لیے اگلی سیٹ مقدر ہوتی ہے۔ اور جواب میں بہترین بات کہنے والوں کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں جیسی قیمتی نصیحت کا بھی مسلم قوم نے کوئی خاص اثر نہیں لیا۔ قوم دراصل پہلے سے ہی نااہل رہ نماﺅں کا شکار ہو چکی تھی۔
مولانا اپنی علمی بصیرت کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ جہل کی دلدل میں پھنس چکی قوم کو باہر نکالنے کے لیے قوم اور قوم کے رہ نماؤں کی کوتاہیوں اور ان کی غلط حکمت عملی کی نشان دہی نہایت ضروری ہے۔ چوں کہ اِس مقصد کے لیے عام فہم زبان بے اثر رہتی ہے، مولانا نے اپنی تحریروں میں علمی تجزیہ و تنقید کا طریقہ اختیار کیا۔ زوال یافتہ منفی ذہنیت کے زیر اثر وقت کے بیشتر علما اور سیاسی رہ نماؤں نے مولانا کے علمی جائزہ و استدلال اور تنقید و نصیحت کے اسلوب کو ملت اور ملت کے رہ نماؤں کو فراہم کی جارہی مخلص فکری رہ نمائی کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اپنی شکست کے طور پر دیکھا۔ وہ مسلم اکابرین جو عوام و خواص پر اپنا دبدبہ رکھتے تھے، شاید اس اندیشہ سے کہ کہیں مولانا کی عصری اسلوب میں پیش کی گئی پُر حکمت باتیں پڑھے لکھے مسلمانوں کو متاثر نہ کردیں، بہت جلد مولانا کے متعلق تعصب کا شکار ہوگئے۔ اس طرح مولانا کو بالکل شروع سے ہی قوم کے بیشتر علما اور دانشوروں کا کوئی تعاون حاصل نہ ہو سکا۔ ون مین آرمی (one man army) کے طور پر ہی مولانا اپنا دعوتی اور اصلاحی مشن چلاتے رہے۔ اللہ تعالی نے مولانا کی مدد کی اور غیر معمولی نتائج سے ہم کنار کیا۔
چوں کہ ایک متعصب آدمی مخالفت میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، ان لوگوں نے بھی یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ مولانا وحید الدین خاں مسلم دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور اسی لیے وہ مسلم قوم کے نوجوانوں کو اپنے صبر جیسے فارمولوں سے بزدل بنا دینا چاہتے ہیں۔ مولانا سے مخالفت نے ان کی سمجھ بوجھ کو اتنا متاثر کیا کہ وہ قرآنی ہدایات کو بھی مولانا کا بزدل بنانے والا فارمولا بتانے لگے۔ یہ حضرات نہ تو مولانا کی کسی علمی رہ نمائی کے اعتراف کا حوصلہ دکھا سکے اور نہ ہی ان کے کسی مضمون پر علمی تنقید کی لیاقت۔ گستاخی پر سرکشی کا اضافہ، اپنی تقریر و تحریر میں مولانا کی شخصیت پر غیر علمی تنقیص کرنے لگے۔
مسلمانوں کے سوال صبر آخر کب تک کے جواب میں مولانا کا سوال نماز آخر کب تک بھی ان کے شعور کو بیدار نہ کرسکا کہ وہ اعتراف کرسکیں کہ نماز کی طرح صبر بھی عبادت ہے۔
یہ بھی زوال یافتہ ہونے کی ہی نشانی ہے کہ عمومی طور سے قوم کے رہ نما شکر و اعتراف اور غور و فکر کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور اپنے معاملات میں جھوٹ اور مکاری کا سہارا لینے لگتے ہیں۔ نتیجتاً، قوم مزید مشکلات میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ زندہ قومیں بے آمیز نصیحت کی شائق ہوتی ہیں؛ جب کہ مردہ قومیں مصلح اور ناصح کو سخت ناپسند کرتی ہیں۔ زندہ انسان نصیحت کو آنے والے وقت کو پڑھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تابناک بنا سکیں۔ ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ علمی اور تحقیقی اداروں کو فروغ دیتی ہیں اور اپنے اسکالرس کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتی ہیں۔
تاہم اس کے برعکس تنزلی کے اندھیروں میں جذباتی زندگی جینے والے لوگ نصیحت جیسی باتوں کو اپنی بے عزتی تصور کرنے لگتے ہیں۔ اسی خاص وجہ سے جھوٹی چاپلوسی کی میٹھی باتیں کرنے والے سطحی رہ نما ایسے لوگوں میں مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں اور قوم کو سیدھے راستے سے مزید دور کردینے کی وجہ بنتے ہیں۔
مولانا وحید الدین خاں گذشتہ 70 برسوںےسے برابر قرآن و سنت اور موجودہ زمانہ کے علوم کی روشنی میں مسلم قوم کی پریشانیوں کا عملی حل تجویز کرتے رہے ہیں، مگر افراد کی کثیر تعداد پر مشتمل اس بڑی قوم کے بہت ہی کم لوگ مولانا کی رہ نمائی کا فیض حاصل کرسکے۔
مولانا سے وابستگی کی بدولت ہی یہ راز دریافت ہوا کہ کسی کی علمی تحریر اور علمی صحبت کا فیض صرف انھی خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو علم و حکمت کی دولت حاصل کرنے کے متعلق سنجیدہ ہوں۔
مولانا کی تحریریں بصریت افروز ہیں، اس لیے اس کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جانا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ اب وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ علم حاصل کریں گے اور مولانا کی چھوڑی ہوئی علم و دانش اور حکمت و دانائی کی وراثت سے فیض یاب ہوتے ہوئے قوم کو بہترین رہنمائی فراہم کریں گے۔ علم کی راہ میں حائل ماضی کی بہت ساری دشواریوں کو وقت پہلے ہی راستہ سے ہٹا چکا ہے۔
اس طرح سنجیدہ کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی اور پھر وہ وقت آئے گا جب مسلم قوم زوال کے اندھیروں کو چیر کرعالمی سطح پر ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ نمودار ہو گی اور ہر چھوٹے بڑے گھر میں اللہ کا کلمہ داخل ہونے کی پیشین گوئی پوری ہوگی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
زید تم کو نہ مارے
بالی ووڈ کے معروف اداکار شاہ رُخ خان کی فلم چک دے انڈیا (2007ء) میں بلبیر کور نام کی ایک پنجابی خاتون کھلاڑی اپنی ماں کے ساتھ بذریعہ آٹو ہاکی ٹریننگ کیمپ میں آتی ہے۔ بلبیرکور کا آٹو رکشا والے سے کسی بات پر جھگڑا ہو جاتاہے۔ اس پر بلبیر کی ماں بلبیر کو ڈانٹتی ہے۔
بلبیر ناراض ہو کر اپنی ماں سے کہتی ہے، وہ آٹو والے سے کچھ نہیں کہتی، صرف اسی کو ڈانٹتی ہے۔
بلبیر کی یہ بات سن کر اس کی ماں کہتی ہے کہ میرا پتر تو ہے کہ وہ؟
ماں کی اس بات پر بلبیر فوراً خاموش ہوجاتی ہے۔
شاید ایک اسپورٹس پرسن (sports person) ہونے کی وجہ سے بلبیر بہت جلد سمجھ جاتی ہے کہ اس کی ماں کو اپنی بیٹی زیادہ عزیز ہے، اِس لیے وہ اس کو ایک با اخلاق شخصیت دیکھنا چاہتی ہے۔
جو بات چک دے انڈیا کی ایک کردار بلبیرکو اتنی آسانی سے سمجھ میں آگئی؛ وہی آسان بات مسلمانوں کو سمجھانے میں مولانا کو لوہے کے چنے چپانے پڑ گئے۔ ان کو تمام عمر زوال یافتہ مسلم قوم کی اس بحث سے سابقہ پیش آتا رہا کہ ان سے کچھ نہیں کہتے!
دل میں انسانیت اور ملک و ملت کا درد ہونے کی وجہ سے، مولانا نے آخر وقت تک ہمت نہیں ہاری اور اپنی اصلاحی و دعوتی شاہ راہ پر گامزن رہے۔
اب جب کہ مولانا وحید الدین خاں ہمارے درمیان سے رخصت ہو چکے ہیں، شاید قوم کو ان کی غیر موجودگی کا شاک (shock )، اس کی سوئی ہوئی سمجھ کو جگانے کا سبب بن جائے۔
مولانا زندگی بھر الگ الگ زاویہ سے سمجھاتے رہے کہ آزاد معاشرہ میں ایک دوسرے سے شکایت کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ شکایات پیدا ہونے کی وجوہات ہمیشہ موجود رہیں گی، البتہ ہم شکایتوں کو مینیجر (manage) ضرور کر سکتے ہیں۔ کسی بھی شکایت کو چیلینج (challenge) کے طور پر لینے سے شکایت ختم ہو جاتی ہے۔
ہاں، یہ سچ ہے کہ مسائل کو چیلنج کی طرح دیکھنے کے لیے قوم کے افراد میں علمی و فکری استعداد کی وسعت اور مضبوطی کا ہونا نہایت ضروری ہے، جب کہ علمی و فکری استعداد کو بڑھانا مسلسل اور سنجیدہ جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔
معاشرہ میں انتشار کی کیفیت بنے رہنے کی بڑی وجہ اشتعال کی کیفیت کا زندہ رہنا ہے۔ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونے سے مسائل حل ہو تے ہیں۔ اِس سمت میں مولانا کا اصول بنام ’زید تم کو نہ مارے‘۔ امن و چین کی زندگی کی ضمانت دینے والا ایک بہترین فارمولا ہے۔ ’زید‘ کو مشتعل کرنے سے خود کو محفوظ کرلینا، دراصل پورے معاشرے کو ہی جھگڑے فساد سے محفوظ کر لینا ہے۔
استفادہ
مولانا وحیدالدین خاں سے میرے تعلق کی عمر بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ خود الرسالہ کی۔ الرسالہ کے منظر عام پر آنے کے وقت میں 18 برس کا تھا، گویا کہ عہد شباب کی پرچھائیاں میرے قدموں کو چوم رہی تھیں اور میں الرسالہ سے متعارف ہورہا تھا۔
ان دنوں مراد آباد شہر کے علاقہ امروہہ گیٹ پر اردو کتابوں کی معروف دکان ’کتب خانہ فخریہ‘ کے مالک مولوی عبدالرب صاحب تھے۔ وہ میرے عزیز بزرگوار ہفت روزہ الجمعیة کے توسط سے مولانا کی بہترین قلم کاری سے اچھی طرح واقف تھے۔ اُنھوں نے ہی مجھے مولانا اور ان کے تخلیقی شاہ کار’الرسالہ‘ سے متعارف کرایا۔ اللہ تعالی آخرت میں ان کے درجات بھی بلند فرمائے۔ آمین۔
پہلا شمارہ پڑھ کر ہی میں نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی ہی کوئی کھوئی ہوئی قیمتی چیز مل گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوا کہ الرسالہ کی فکر میرے اپنے ہی دل کی آواز ہے۔
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے؛ اس سے پہلے کہ ماحولیاتی آلودگی میری فطرت کو متاثر کرتی، اللہ تعالی کی یہ خاص مہربانی ہوئی کہ لڑکپن کی عمر سے ہی الرسالہ کا علمی و تجزیاتی فیضان مجھے حاصل ہونے لگا۔ الرسالہ میں موجود شعور کو بیدار کرنے والے مضامین میری ذہنی بھوک و پیاس کی تسکین کا مستقل ذریعہ بن گئے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ تا دم تحریر جاری ہے۔ مطالعہ الرسالہ کے شروعاتی دور میں ہی مولانا سے ہوئی ایک ملاقات میں یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ حکمت کی گہری اور لطیف باتوں کو سمجھنے کے لیے انسان کا سلیم الفطرت ہونا اشد ضروری ہے۔
سبھی مرد و عورت اپنی پیدائش کے وقت سلیم الفطرت ہی ہوتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ گھر، ماحول، معاشرہ، دوست، رشتہ دار، دفتر اور کاروبار اُن کی فطرت کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً انسان کی سوچ کچھ مخصوص طور طریقوں اور افکار کی بابت متعصب ہوجاتی ہے۔
اس تعصب کی کیفیت کو اگر بڑھنے سے نہ روکا جائے تو انسان حق و باطل میں امتیاز کرنے والی اپنی انسانی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فطرت کو کنڈیشننگ سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈی کنڈیشننگ کا مسلسل عمل درکار ہوتا ہے۔
جب حکمت و دانائی سے روشناس کرانے والے الرسالہ کے لطیف علمی مضامین مجھے بہ آسانی سمجھ آنے لگے تبھی مجھے یہ تجربہ ہوا کہ مسلم قوم کے بہت سارے بہ ظاہر اچھے پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ بھی الرسالہ کے مضامین کی معنویت کے ادراک سے قاصر تھے۔
مثال کے طور پر صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرنا، امن کی خاطر کم پر راضی ہو جانا، بڑے مقصد کی خاطر چھوٹے مقصد کو چھوڑ دینا، برائی کا بدلہ اچھائی سے دینا اور تشدد و امن کے مابین امن کا انتخاب کرنا جیسی بے شمار حکمت کی باتیں ان کو ناقابلِ التفات اور ناقابلِ عمل معلوم ہوتی تھیں۔ سوائے ان لوگوں کے کہ جنھوں نے اپنی طرز فکر کو ڈی کنڈیشنڈ کرلیا ہے، معاشرہ کی علمی پس ماندگی کے تناظر میں زیادہ تر لوگ آج بھی اسی منفی ذہنیت کا شکار ہیں اور قوم بدستور زوال یافتہ بنی ہوئی ہے۔
اس لیے قوم، خصوصی طور پر نوجوانوں کی یہ ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ وہ قوم کو زوال یافتہ کیفیت سے باہر نکالیں۔ اس ضمن میں مولانا کا وسیع لٹریچر علم و حکمت اور عملی بصیرت سے بھرا پڑا ہے۔
میں نے اپنے ملک ہندستان کے ایک بڑے بینک میں مینیجر، سینئر مینیجر اور چیف مینیجر کی حیثیت میں کام کیا ہے۔ ملازمت سے پہلے ہی الرسالہ اور مولانا سے واقفیت میرے لیے ایک مبارک تجربہ رہا۔
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میں پوری ملازمت کے دوران معاشرتی پریشانیوں کے باوجود اللہ کا خوف، بندوں کی خیر خواہی، ذمہ داری، دیانت داری اور ایمان داری جیسے پاکیزہ احساسات سے سرشار رہا۔
آل انڈیا کمپیٹیشن (All India competition) پاس کرنے کے بعد جب بینک سے تقرری کا پیغام موصول ہوا، کچھ عزیزوں کی جانب سے اعتراضات بھی پیدا ہوگئے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ بینک کی نوکری جائز نہیں۔ اس ضمن میں مولانا بہت معاون ثابت ہوئے۔ مولانا کا فوکس (focus) اس بات پر تھا کہ میری اپنی زندگی اور سروس کا اصول اللہ کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی ہونا چاہئے۔ ملک کے دوسرے بہت سے اداروں کی طرح بینک بھی ایک ادارہ ہے۔
قوم کے زوال یافتہ ہونے کی وجوہات میں یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ نظر آتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بغیر کسی علمی استدلال کے، معاشرہ کی کم زور علمی استعداد کے زیر اثر، بہت ساری چیزوں پر جائز اور ناجائز ہونے کی مہر ثبت کر دی گئی ہے۔ معاشرہ کی عمومی قبولیت کے تناظر میں، بیشتر علما بھی نظر ثانی کا حوصلہ نہیں کر پاتے ہیں۔
جب مجھے محسوس ہوا کہ مولانا کی رہ نمائی اور الرسالہ کے مضامین میرے اپنے لیے روحانی اور علمی و عملی ضرورت بن گئے ہیں، الرسالہ کی ایجنسی لے کر میں نے دوسرے با شعور لوگوں میں، ان کی علمی اور عملی رہ نمائی کی نیت سے، الرسالہ تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔
انسانی فطرت کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ جو چیز آپ کو اچھی لگتی ہے اس کو آپ دوسروں کے ساتھ بھی اشتراک (share) کرنا چاہتے ہیں۔
میرا احساس ہے کہ جو لوگ قرآن کو تدبر کے ساتھ سمجھ کر پڑھتے ہیں، وہ داعی ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مولانا کی بصیرت سے فیض حاصل کرنے کا میرا سلسلہ ہر اس شہر میں جاری رہا جہاں میں ٹرانسفر ہو کر گیا۔ شروعاتی دور میں اگرخطوط رابطہ کا ذریعہ تھے تو بعد میں ٹیلیفون اور موبائل۔ اسمارٹ فون نے تو بیک وقت کئی کئی کام آسان کردیے۔ دعوتی سیاق میں، اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے مولانا انٹرنیٹ کو اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت تصور کرتے تھے۔
ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد شہر میں پوسٹنگ کے دوران میری درخواست پر مولانا نے 1996ء میں مرادآباد شہر کا سفر کیا۔ مولانا نے دو دن اور دو راتیں میری فیملی کے ساتھ قیام کیا۔ مولانا نے بچوں کو خوب ساری علم و دانش کی نصیحت آموز باتیں سکھائیں۔ شہر کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے ایک اجتماع کو بھی خطاب کیا اور پریس سے بھی بات کی۔ شہر کے دوسرے مقامات کے علاوہ انھوں نے مرادآباد کی عید گاہ کا بھی معائنہ کیا۔ 1980ء کے ایک بڑے فساد کی شروعات یہیں سے ہوئی تھی۔ مولانا نے اس سفرکا سفرنامہ بھی تحریر کیا جو کہ ماہنامہ الرسالہ جنوری 1998ء (صفحہ:18-45) میں شائع ہوا۔
دہلی این۔سی۔آر۔ میں واقع میرے گھر میں بھی مولانا تشریف لا چکے ہیں۔ اہل خانہ کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے میرے پڑوسی حضرات کو بھی خطاب کیا تھا۔ 1998ء سے 2001ء کے دوران میری پوسٹنگ نئی دہلی میں رہی۔ مولانا کی علمی صحبت حاصل کرنے کے تعلق سے یہ میری زندگی کا سنہری دور تھا۔ ان کی اجازت سے میں اکثر ہفتہ کی شام کو ان کے دفتر آ جاتا تھا۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے مزید ایک بڑا موقع عنایت کیا۔2008ء سے 2014ء تک دہلی میں کئی مقامات پر میری پوسٹنگ رہی۔ ’سنڈے کلاس‘ کے توسط سے اس دوران بھی مولانا سے روحانی فیض حاصل ہوتا رہا۔ اپریل 2018ء سے مستقل طور پر میں دہلی این سی آر (Delhi NCR) میں سکونت پذیر ہوں۔
خط و کتابت
مولانا وحیدالدین خاں ہمارے عہد کے ایسے عالمِ دین تھے، جنھوں نے عوام سے براہِ راست روابط رکھے، یہ بلا مبالغہ درست ہے کہ اس عہد میں کسی عالم دین نے اگر تصنع و بناوٹ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے براہِ راست عوام سے روابط رکھے تو ان میں سرفہرست نام مولانا کا ہی آئے گا، جنھوں نے اپنی ذات کو پس پشت رکھ کر ہمیشہ دین کی سربلندی چاہی، حتیٰ کہ چھوٹے بڑے ہر شخص کو یہ حق دیا کہ وہ کسی بھی وقت ان سے رابطہ کرے اور وہ دین کے سلسلے میں اس کا جواب دیں۔
جب بھی عوام و خواص نے کسی خاص مسئلے میں ان سے رجوع کیا، انھوں نے ان کے جوابات دیے اور اپنی باتیں ان تک پہنچانے میں ہمہ وقت تیار رہے۔ حتیٰ کہ انھوں نے خط و کتابت کے ذیل میں بھی فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ انھوں نے جو جوابات دیے ہیں وہ بہت اہم ہیں، ان جوابات میں موجود جو پُرحکمت دینی و دنیاوی باتیں ہیں، اگر ان کو یک جا کیا جائے تو یقینی طور پر ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، انسانی تاریخ میں خطوط کا معاملہ بھی بڑا دل چسپ رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زمانہ قدیم سے خطوط نویسی اور مراسلہ نگاری صرف پیغام رسانی کی ہی رسوم نہیں، بلکہ یہ ذہن سازی اور ذہنی ارتقا کا بھی بہترین ذریعہ رہی ہیں۔
مولانا کے ساتھ خطوط کا رشتہ کبھی بھی یک طرفہ نہیں رہا۔ خط لکھے جانے پر مولانا باقاعدگی کے ساتھ جواب ارسال کیا کرتے تھے۔ جواب کے طور پر لکھی گئی تحریریں مولانا کی ’نشانی‘ ہونے کے ساتھ ساتھ حال اور مستقبل کی نئی نسل کے لیے ایک بڑا علمی سرمایہ بھی ہیں۔
مولانا وحید الدین خاں کے ساتھ میرے سلسلہِ خط و کتابت میں کئی ایسے خطوط شامل ہیں جو علم و حکمت اور نصیحت و رہ نمائی کے پہلو سے بیش قیمتی ہیں۔ مندرجہ ذیل عبارت میں کچھ اہم خطوط نقل کیے جارہے ہیں:
ستمبر 1984ء میں ملکی سطح پر امتحانِ مسابقت پاس کرنے کے بعد الہ آباد بینک میں پروبیشنری افسر (Probationary Officer) بہ الفاظ دیگر منیجر کے عہدہ پر تقرری کے ساتھ ہی میرے حلقہ عزیز و اقارب میں ’بینک سروس: جائز یا ناجائز‘ کی بحث شروع ہو گئی۔ اِس نا گہانی پریشانی کے زیر اثر میں نے مولانا کو اِس مسئلہ کے حل کی بابت خط لکھا۔
قریب سات سال سے الرسالہ مطالعہ میں ہونے کی وجہ سے مجھے ادراک تھا کہ اسلام کی روشنی میں، اس قسم کے پیچیدہ مسائل کے علمی تجزیہ کی لیاقت مولانا سے بہتر شاید ہی کہیں موجود ہو۔
اللہ کا شکر ہے کہ میں صحیح ثابت ہوا۔ مولانا نے جامع حل فراہم کردیا اور میں نے اطمینان و سکون کے ساتھ بینک میں اپنی ملازمت جاری رکھی۔ مولانا کی جانب سے ایک تاریخ ساز جواب دیا گیا۔
مکرمی و محترمی سلام مسنون!
آپ کا خط مورخہ 28 فروری 1985ء ملا۔ مولانا وحید الدین خاں کا جواب درج ذیل ہے:
آپ کے دینی جذبات کا حال معلوم کرکے خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی ترقی عطا فرمائے۔ آپ اپنی موجودہ سروس کو نہ چھوڑیں۔ آپ صرف اس کا اہتمام رکھیں کہ ان برائیوں سے اپنے آپ کو پاک رکھیں گے جن کا تعلق ذاتی طور پر آپ کی ذات سے ہے۔ دین کا خلاصہ دو لفظ میں یہ ہے: اللہ کا ڈر اور بندوں کی خیر خواہی۔ ان دونوں باتوں پر قائم رہیں۔ ان شاءاللہ، آپ کو خدا کی رحمتیں حاصل ہوں گی۔
والسلام نیاز مند
6 مارچ 1985 منیجر الرسالہ
میں نے مرادآباد میں ایک ہی دن (4جولائی 1995ء) مولانا کے نام دو مختلف موضوعات پر دو خطوط تحریر کیے۔
قبلہ عالی مولانا وحید الدین خاں صاحب! السلام علیکم
امید ہے آپ بہ فضل باری تعالی بخیر و عافیت ہوں گے۔
ایک سوال آپ کی خدمت میں اِرسال کرتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ آ پ جلد ہی اس کا واضح جواب عنایت فرمائیں گے کیوں کہ میری رائے میں آپ کسی بھی بات کو زیادہ دلائل اور زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھا سکتے ہیں۔
میرے ایک استاد سید شجاعت حسین جعفری صاحب ہیں ، وہ اہلِ تشیع سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید شجاعت حسین جعفری صاحب نے سوال کیا کہ قرآن پاک میں نماز پڑھنے کا طریقہ بیان نہ کیا جانے کی وجہ سے نماز پڑھنے کے طریقہ میں اختلاف کا ہونا عجیب نہیں لگتا، مگر قرآن پاک میں وضو کا طریقہ بیان ہونے کے باوجود شیعہ اور سنیوں میں وضو کے طریقہ میں اختلاف کا ہونا عجیب بات ہے۔
قرآن پاک کے چھٹے سپارہ میں وضو کرنے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے اس میں جس طرح ہاتھ اور منھ دھونے کے لیے ایک ہی فعل یعنی ورب (verb) کا استعمال کیا گیا ہے اسی طرح سر کا مسح کرنے کے لیے جس ورب (verb) کا استعمال کیا گیا ہے وہی ورب (verb) پاؤں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔
پھر ایسا کیوں ہے کہ شیعہ عالم سر کے ساتھ ساتھ پاؤں کا بھی مسح کرنے کا ترجمہ کرتے ہیں جب کہ سنی علما سر کا مسح مگر پاؤں دھونے کا ترجمہ کرتے ہیں۔
4 جولائی 1995 والسلام، طالب الدعا
مرادآباد عبدالرحمٰن
دوسرا خط میں نے مولانا کو مراد آباد کے سفر کی درخواست کے لیے لکھا۔ اس کی عبارت بھی یہاں نقل کی جا رہی ہے:
قبلہ عالی مولانا وحید الدین خاں صاحب! السلام علیکم
امید ہے آپ بہ فضل باری تعالی بخیر و عافیت ہوں گے۔
خدمتِ عالی میں عرض یہ ہے کہ میری خواہش ہے کہ کم از کم ایک ہفتہ کا وقت آپ کے ساتھ گزاروں۔ میں قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ ’بڑی زندگیاں‘ کیسے جی جاتی ہیں۔
اس کے لیے دو طریقے میری سمجھ میں آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ میں بینک سے ایک ہفتہ کی چھٹی لے کر دہلی آجاؤں اور آپ کے ساتھ رہوں۔ دوسرا یہ کہ میں چھٹی لے کر مرادآباد میں ہی رہوں اور آپ ایک ہفتہ کا پروگرام بنا لیں۔ دوسرے طریقہ میں میری آپ کے ساتھ رہنے کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی اور شہر کے دوسرے لوگوں کو بھی فیض ہوگا۔
دہلی آکر مجھے آپ کے ساتھ رہنے کے لیے کیا کرنا ہوگا اور یہ کب ممکن ہو سکے گا کیوں کہ آپ اکثر اوقات باہر ہی رہتے ہیں۔
دوسری صورت اگر ممکن ہو تو بہت ہی اچھا ہوگا۔ اس میں میرے ساتھ ساتھ شہر مرادآباد کا بھی بڑا فائدہ ہوگا۔ آپ شاید مرادآباد بہت دنوں سے تشریف بھی نہیں لائے ہیں۔ آپ کے مرادآباد آنے کی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے بتانے کی زحمت گوارا کیجئے گا۔ جو بھی شکل ممکن ہو میری بات پر ضرور غور کیجئے گا، بڑی عنایت ہوگی۔
4 جولائی 1995 والسلام، طالب الدعا
مرادآباد عبدالرحمٰن
مندرجہ بالا خطوط کا جواب مولانا نے مشترک طور پر دیا۔ مولانا کے اس تاریخی خط کو نقل کیا جا رہا ہے:
برادر محترم جناب عبدالرحمٰن صاحب! سلام مسنون
آپ کا خط مورخہ 4 جولائی 1995ء ملا۔ سورہ المائدہ (آیت 6) میں متواتر قرآت کے مطابق، ارجلَکم پر زبر ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ارجلکم کا عطف اید یَکم پر ہے۔ اگر اس کا عطف برؤسِکم پر ہوتا تو وہ ارجلِکم (زیر کے ساتھ) ہوتا۔ اعراب کے اس فرق کی بنا پر ارجل(پاؤں) کو ان اعضا کے تحت ماننا ہوگا جس کے لیے آیت میں دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہوگا:
جب تم نماز کے لیے اُٹھو تو تم اپنے منھ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھوﺅ، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھوﺅ)۔
اِس لیے اِس معاملہ میں اہلِ سنت کا مسلک ہی درست ہے۔ شیعہ حضرات کا ترجمہ قواعد لغت کے مطابق نہیں۔ مرادآباد میں پروگرام رکھنے کے بارے میں آپ کی تجویز مناسب ہے، مگر میں زیادہ سے زیادہ تین دن کے لے سفر کرسکتا ہوں۔ اس کے لیے جمعہ، سنیچر، اتوار مناسب ہوگا۔ جمعہ کے دن شہر کی کسی مسجد میں مختصر تقریر کا پروگرام رکھا جاسکتا ہے۔
نئی دہلی دعا گو
12 جولائی 1995 وحید الدین
1995ء کے نصف آخر میں، میں نے مولانا وحیدالدین خاں کو مراد آباد آنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد مولانا سے خط و کتابت کے علاوہ ٹیلی فون پر بھی سفر کے تعلق سے گفتگو ہوتی رہی، مولانا ایک مصروف ترین شخص تھے، جہاں ہمہ وقت وہ مطالعہ و استغراق میں گم رہتے تھے تو وہیں وہ برابر سفر پر بھی رہتے تھے۔ مثلاً جب میں نے مولانا کو سفر کی دعوت دی تو اس سفر کو عملی جامہ پہنانے میں مولانا کو کئی ماہ لگ گئے کیوں کہ اسی دوران مولانا نے یروشلم (فلسطین)، ممبئی (مہاراشٹر)، برہان پور (مدھیہ پردیش)، مسروالا (ہماچل پردیش)، چترکوٹ (مدھیہ پردیش) وغیرہ کے اسفار کیے، جو پہلے سے طے تھے، اس کے بعد مولانا نے مرادآباد کے سفر کا رُخ کیا۔
بالآخر میری زندگی میں وہ مبارک گھڑی آہی گئی جب کہ مولانا وحید الدین خاں نے میری سنجیدہ درخواست کو عملی جامہ پہنایا اور شہرمرادآباد کا سفر کیا۔ حسب وعدہ اس سفر کی مدت تین دن ہی رہی۔ یہ سنہ 1996 عیسوی کے مارچ ماہ کی 9 (سنیچر)، 10 (اتوار) اور 11 (پیر) تاریخیں تھیں۔
مرادآباد شہر میں مولانا کا قیام میری رہائش گاہ پر رہا۔ الحمدللہ، مولانا کے ساتھ وقت گزارنے کی میری دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میرے ساتھ میرے اہل خانہ نے بھی مولانا کی صحبت کا خوب خوب علمی فیض حاصل کیا۔ یقینا، اللہ تعالی اپنے بندوں کے مخلص ارادوں کو تکمیل تک پہنچاتا ہے۔
اسی سفر کے دوران میری صاحب زادی نشاط رحمٰن نے مولانا سے جب یہ سوال کیا کہ بچوں کے لیے آپ کیوں نہیں لکھتے ہیں تو اس پر مولانانے کہا کہ ایک کام میں نے کیا، اب دوسرا کام آپ کریں گے ۔ اگر سب کام میں ہی کرڈالوں تو آپ کے کرنے کے لیے کیا رہ جائے گا۔ (ماہنامہ الرسالہ، نئی دہلی، جنوری1998،صفحہ:32-33)
اس سوال و جواب کے تعلق سے مولانا وحیدالدین خاں کی خود نوشت سوانحِ عمری ’اوراقِ حیات‘ کے مرتب شاہ عمران حسن نے ایک نوٹ لکھا ہے، جسے یہاں بلا تبصرہ نقل کیا جا رہا ہے:
1996ء میں مُراد آباد کے ہونے والے ایک سفر (ماہنامہ الرسالہ جنوری1998) کے دوران مولانا وحید الدین خاں نے الرسالہ کے قاری عبدالرحمٰن کی صاحب زادی نشاط رحمٰن کے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے بڑوں کے لیے کتابیں لکھی ہیں آپ میں سے کوئی بچوں کے لیے کتابیں تیار کرے۔
مولانا موصوف کے صاحب زادے ڈاکٹرثانی اثنین خاں نے اس بات کو بہت گہرائی سے لیا اور خود ہی بچوں کے لیے اعلا معیار کی اسلامی کتابیں تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ آج یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح اُن کے والد نے بڑی عمر کے اہلِ علم کے لیے کتابیں لکھیں، ٹھیک اُسی طرح ڈاکٹرثانی اثنین خاں نے بچوں کے لیے کثیر تعداد میں کتابیں لکھ کر اپنے والد کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔(اوراقِ حیات، شاہ عمران حسن، صفحہ:170)
مرادآباد شہر میں مولانا 9 مارچ کی شام سے لے کر 11 مارچ کی صبح تک مختلف قسم کی مصروفیات سے وابستہ رہے۔ 11 مارچ کی صبح میں مولانا دہلی کے لیے روانہ ہوگئے۔ اپنے گھر بخیریت پہنچنے کے بعد مولانا نے میرے نام ایک خط بھی ارسال کیا۔ اس خط کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
برادر محترم سلام مسنون!
میں خیریت کے ساتھ دہلی پہنچا۔ راستہ میں کوئی کسی قسم کی زحمت نہیں ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کے حسن انتظام کے لیے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
مرادآباد کا سفر خود میرے لیے ایک تجربہ تھا۔ اس سے میں نے بہت سی مفید باتیں سیکھیں۔ اس کا سفرنامہ مرتب کررہا ہوں۔ ان شاءاللہ، یہ ایک مفید سفر نامہ ہوگا۔
آپ کی بچیاں ماشاءاللہ بہت ذہین ہیں۔ اللہ تعالی اُنھیں ہر طرح کی ترقی عطا فرمائے۔
12 مارچ 1996 دعا گو
نئی دہلی وحید الدین
مرادآباد کا سفر نامہ ماہنامہ الرسالہ کے شمارہ جنوری 1998ء میں شائع ہوا۔ اس سفر نامہ کی شروعات جن الفاظ سے کی گئی ہے وہ قابل غور ہیں۔ اس کی چند سطریں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔ مولانا اپنے سفرنامہ میں لکھتے ہیں: جولائی1995ء میں ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد سے جناب عبدالرحمٰن صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ مرادآباد کا سفر کریں اور یہاں کچھ وقت ہم لوگوں کے ساتھ گزاریں۔ اس کے بعد بار بار ان کا خط اور ٹیلی فون آتا رہا۔ آخر کار مجھے راضی ہونا پڑا۔ چنانچہ 9 مارچ 1996ء کو دہلی سے مرادآباد کا سفر ہوا۔ یہ سفر بذریعہ کار طے ہوا۔ میرے ساتھ جناب عبدالرحمٰن صاحب اور جناب غلام مصطفٰی رحیمی صاحب تھے۔ یہ مرادآباد کے لیے میرا چوتھا سفر تھا۔ ( ماہنامہ الرسالہ جنوری1998،صفحہ :81)
مجھ کو یہاں مولانا کے تعلق سے ایک بات یاد آر ہی ہے۔ مولانا نے فروری 2000ء میں حیدرآباد کا سفر کیا تھا اور حسن اتفاق سے میں نے بھی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ فروری 2000ء میں حیدرآباد کا سفر کیا تھا۔ اس سفر کا سفرنامہ مولانا نے الرسالہ کے شمارہ مئی 2000ء میں شائع کیا۔ یہ خصوصی شمارہ تھا، جس کا عنوان تھا ’مشاہداتِ دکن‘۔ ان دنوں الرسالہ کے دفتر میں وقتی طور پر کوئی املا لکھنے والا حاضر نہ ہونے کی وجہ سے اس شمارہ کو ترتیب دینے کے معاملہ میں مولانا کے ساتھ تعاون کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ دوسرا شرف یہ حاصل ہوا کہ مذکورہ شمارہ میں مولانا نے میرے متعلق حسب ذیل عبارت لکھی ہے:
عبد الرحمٰن (پیدائش :1958) الٰہ آباد بینک میں مینیجر ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سیاحت کے لیے حیدر آباد (تلنگانہ) گئے۔ 12 فروری 2000ء کو وہ حیدر آباد پہنچے اور تین دن وہاں رہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ حیدر آباد کے بارہ میں اپنا کچھ تاثر بتائیے۔ اُنھوں نے کہا کہ مجھے اپنے تجربہ میں ایسا محسوس ہوا کہ حیدر آباد کے لوگوں میں نسبتاً انسانی اوصاف زیادہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ حیدر آباد ایئر پورٹ پر ہم اُترے تو رات ہوچکی تھی۔ میں نے ٹیکسی کی ڈکی (dickey) میں اپنا سامان رکھا اور پھر ہم لوگ ٹیکسی میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ ڈرائیور نے ایک پیٹرول پمپ پر گاڑی کھٹری کی تو میں نے کہا کہ مجھے ڈکی سے کچھ نکالنا ہے۔ اس وقت میری زبان سے یہ نکلا کہ میں نے غلطی سے اپنا پرس ڈکی میں رکھ دیا ہے۔ اِس پر ڈرائیور بولا کہ جناب! یہ حیدر آباد ہے ، یہ نئی دہلی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے بیٹھیے، آپ کا سامان محفوظ ہے۔
اس کے بعد جب میں حیدر آباد پہنچ کر وہاں گھوما اور وہاں کے مختلف طبقات کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ ڈرائیور نے درست کہا تھا۔ یہاں کے لوگوں میں واقعتاً انسانیت ہے۔ استثنا (exception) تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ اور یقیناً یہاں بھی ہو گا۔ مگر یہاں کے لوگوں کو میں نے عام طور پر دوسروں سے بہتر پایا۔ (ماہنامہ الرسالہ ،نئی دہلی، مئی 2000، صفحہ:38-39)
جہاں مولانا نے اپنے مضمون میں میرا ذکر خیر کیا وہیں انھوں نے میری بڑی بیٹی شگفتہ رحمٰن کا بھی ذکر اپنے سفرنامہ میں کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں: جناب عبدالرحمٰن صاحب کی بڑی صاحب زادی شگفتہ رحمٰن جامعة الصالحات (رام پور) میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ وہ الرسالہ کی مستقل قاری ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ آپ 25 سال سے الرسالہ نکال رہے ہیں اور ہر مہینے نئے نئے مضامین اس میں چھاپتے ہیں۔ آخر آپ اتنے زمانہ سے نئے نئے مضامین کیسے لکھتے ہیں؟
میں نے کہا کہ دنیا میں ہر کام خدا کی مدد سے ہوتا ہے۔ انسان کے پاس اپنی کوئی طاقت نہیں۔ الرسالہ کے تمام مضامین دعا کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آپ خدا سے دعا کیجئے، آپ بھی ایسا ہی پرچہ نکالنے لگیں گی۔ (ماہنامہ الرسالہ جنوری1998، صفحہ:33)
میں سنہ 1978ء سے باقاعدہ الرسالہ پڑھنے لگا تھا۔ الرسالہ کے حکمت و دانائی کے مضامین ہمیشہ سے میری فطرت سے ہم آہنگ محسوس کیے گئے۔ اس طرح اللہ کی رحمت سے، میں بہت جلد دوسرے لوگوں کو الرسالہ کے معیاری اخلاق تعمیر کرنے والے مضامین کی افادیت سمجھانے کے لائق ہو گیا۔
جب میں ’رازِحیات‘ اور ’اسلام: دین انسانیت‘ جیسی تخلیقات کے تناظر میں مولانا کی مختلف تحریروں کا تذکرہ اپنے دوست احباب، دفتر کے ساتھی اور باس وغیرہ سے کیا کرتا تو زیادہ تر لوگ دل چسپی سے سننے کے ساتھ ساتھ اپنا ذہنی ارتقاء ہوتا ہوا بھی محسوس کرتے۔ لوگ مولانا سے غائبانہ محبت کرنے لگے تھے۔ میں نے اپنے کئی بینک افسروں اور دیگر ساتھیوں کی ملاقات مولانا وحیدالدین خاں سے کروائی ہے۔
مختلف پلیٹ فارم پر، مولانا کے توسط سے حاصل ہوئے با معنی زندگی کی ضمانت دینے والے رہ نمائی کے اصولوں کا چرچا میرا بہترین مشغلہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انگریزی میڈیا کے پلیٹ فارم سے بھی مجھ کو مولانا کے نظریات کا دفاع کرنے کا موقع ملا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ 15سمبر1987ء کو مولانا کا ایک انگریزی مضمون
(Starve the problems, feed the opportunities.)
ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوا تھا۔
اس مضمون میں، مولانا نے ہندستانی مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کریں، کیوں کہ اس جانب ترقی کی راہیں کھلی ہوئی ہیں، تاہم اس مضمون کی اشاعت کے بعد مولانا کی مخالفت شروع ہوگئی، اس وقت کے متعدد مسلم رہ نما مولانا کی مخالفت کرنے لگے، ان مخالفین میں سرفہرست نام سابق رکن پارلیمان سید شہاب الدین (1935-2017)ء کا ہے، جنھوں نے مولانا کی زبردست مخالفت کی تھی، حالاں کہ ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔
15 ستمبر1987ء کے ٹائمس آف انڈیا میں شائع شدہ مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی مضمون کا ایک اقتباس علمی استفادہ کی غرض سے نقل کیا جارہا ہے:
In this world (of competition) it is only those who stop railing against defeat and accept it with a view to doing something positive about the situation who can ultimately succeed. We should never lose sight of the fact that a strategic retreat makes it possible to return to the fray. Such tactics were very well understood by the Muslims 1,400 years ago when they drew up the peace treaty of Hudaibiya which, although apparently over conciliatory towards the opponent, ultimately permitted the Islamic mission to go forward unhindered.
The Times Of India, September 15, 1987
یعنی یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے۔ یہاں جو لوگ شکست کے خلاف شکوہ شکایت چھوڑ دیں اور حالات کے بارہ میں کچھ مثبت کام کرنے کی خاطر اس کو مان لیں، وہی آخر کار کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمیں کبھی اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہیے کہ تدبیری طور پر پیچھے ہٹنا، دوبارہ میدان مقابلہ میں آنے کو ممکن بناتا ہے۔
اِس حکمت ِعملی کو 1400 سال پہلے مسلمانوں نے بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا جب کہ اُنھوں نے حدیبیہ کے صلح نامہ کو تیار کیا تھا۔ یہ صلح اگر چہ بظاہر دشمن سے بہت زیادہ جھک کرکی گئی تھی۔ مگر آخر کار اس نے اسلامی مشن کو یہ موقع دیا کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتا چلا جائے۔ (قیادت نامہ، مولانا وحید الدین خاں، صفحہ: 156-157)
جب کئی خطوط مولانا کی مخالفت میں شائع ہوئے تو میں نے بھی ایک خط مولانا کے دفاع میں انگریزی زبان میں لکھا جو دی ٹائمس آف انڈیا (لکھنؤ) میں 11 نومبر 1987ء کو ایڈیٹر کے نام مراسلہ بہ عنوان انڈین مسلمس  (Indian Muslims) شائع ہوا ہے۔
اسی زمانے میں ہندستان ٹائمس اور ٹائمس آف انڈیا میں میرے کئی خطوط شائع ہوئے۔ تاہم مولانا وحید الدین خاں کے متعلق یہ میرا پہلا خط ہے، جو انگریزی اخبار میں شائع ہوا۔
مرادآباد کے سفر کے دوران مولانا نے اخبار میں شائع شدہ خط کا مطالعہ کیا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی تھی۔ یہاں اس تاریخی خط کو ٹائمس آف انڈیا کے شکریہ کے ساتھ نقل کیا جارہا ہے:

Indian Muslims
Sir, This refers to the hue and cry in the columns of your esteemed daily against Maulana Wahiduddin Khan’s article ( September 15,1987).
What I grasped from the article is that the noted Muslim theologist’s interpretations are not intended to hurt the feelings of Indian Muslims.
So far as I understood, he intends to make us realise that the lamentations and complaints will never take us ahead of others in spite of the fact that the institution of democracy gives us a right to protest.
Instead, the energy and time wasted in lamenting and crying can well be utilised in strengthening our own ‘worth’ and a ‘say’ in this competitive world. To be treated at par, whatever the field, we will have to compete with the others at par. And to compete meaningfully, we will have to first appraise our own strategies and endeavours, and then put in our best efforts to overcome the prevalent shortcomings.
Whatever the degree of alleged discrimination and other malices, all this will go down like ninepins, if we prove us worthy of doing great things. Once we prove ourselves beneficial to others, we will be the commodity of the top priority through out the world.
Abdul Rahman (Sitapur),The Times Of India, November 11, 1987.

متفرقات

اوپر کی سطروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مولانا وحید الدین خاں کا نام ایک معروف عالم دین و مدبر اور دور حاضر کے عظیم مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ عصری اسلوب میں اسلامی تعلیمات کے ذریعہ عالم انسانیت، خصوصاً، فرزندان ملت کو بے جوڑ رہ نمائی بہم پہنچانے والے ایک منفرد انسان کے طور پر محتاج تعریف نہیں ہے! دینی اور دنیوی علوم کے تناظر اور وقت کی زبان میں مختلف زاویوں سے رہ نمائی فراہم کرنا ان کی تحریروں کا خاصہ رہا ہے۔ ان جیسا تحریری اسلوب کہیں اور نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ ان کے نظریات سے اختلاف کرنے والے افراد بھی ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتے رہے۔
اس میں شک نہیں کہ مولانا وحیدالدین خاں نے حالات و واقعات اور تاریخ کا مطالعہ غیر جانب دارانہ انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں منفرد اسلوب کے زمرے میں آتی ہیں۔ اسی سبب ان کی تحریریں دل چسپی سے آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔
مولانا نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر مدلل انداز میں لکھا ہے، قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخ کا مطالعہ بھی غیر جانب دارانہ انداز میں کیا ہے، جس کی نظیر ماضی قریب میں بہت کم ملتی ہے۔ مثلاً مولانا کا یہ اقتباس دیکھیے، ایسا لگتا ہے کہ چند الفاظ میں انھوں نے اسلام کا خلاصہ پیش کر دیا ہے:
’اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شحض یا کوئی جماعت جب بھی کسی صورتِ حال سے دوچار ہو تو وہ اس موقع کے لیے قرآن وسنت میں اپنے لیے ایک حکم پالے۔ مثلاً آدمی کو غصہ آئے تو وہاں اس کے لیے اسلام میں یہ رہ نمائی موجود ہوگی کہ جس کے خلاف تمہیں غصہ آیا ہے اس کو تم معاف کر دو۔ اس طرح کوئی ایسا موقع پیش آئے جہاں آدمی کو گواہی کے لیے بلایا جائے تو وہاں اسلام کے اس حکم میں اس کے لیے یہ رہ نمائی ہو گی کہ تم عدل کے مطابق گواہی دو۔ اسی طرح کسی انسان کے خلاف بد گمانی کی بات علم میں آئے تو وہاں اسلام کا یہ حکم اس کی رہ نمائی کر رہا ہو گا کہ تم کسی کے خلاف کوئی رائے اس وقت تک ہر گز قائم نہ کرو جب تک کہ اس کی مکمل تحقیق نہ کرلو۔ اِسی طرح اگر کسی کو مال یا اقتدار حاصل ہو تو ایسی حالت میں اس کے لیے اسلام یہ رہ نمائی دے رہا ہو گا کہ تم اپنے مال کو کس طرح خرچ کرو اور تم اپنے اقتدار کا استعمال کس طرح کرو، وغیرہ۔ خدا کا دین پورا کا پورا برائے امتحان ہے۔ اسلام کا ہر حکم ایک پرچہ امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی اس نوعیت کا تقاضا ہے کہ اسلام آدمی کے لیے ایک اختیارانہ پیروی کی حیثیت رکھتا ہو نہ کہ مجبورانہ تعمیلِ حکم کی حیثیت۔‘
مولانا وحیدالدین خاں نے دین کی شرح و وضاحت کے معاملے میں بیش قیمت خدمات انجام دی ہیں، اس میں بھی ان کے قلم کی انفرادیت نظر آتی ہے۔ اُن کی شخصیت نہ صرف اندرون ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مشہور و معروف رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں، مگر ان کی زندگی کا یہ بھی ایک استثنائی پہلو ہے کہ مسلم معاشرے میں ان کے متعلق کئی قسم کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، حالاں کہ ماہنامہ الرسالہ اور مولانا کی کتابیں ان غلط فہمیوں کی تردید کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہ کسی حد تک عقیدت و تقلید پرستی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے مختلف قسم کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ چوں کہ مولانا وحید الدین خاں شروع سے ہی تحقیقی ذہن اور سائنسی مزاج کے عالم دین تھے ، اس لیے روایتی و تقلیدی ذہن کو ان کی باتیں مختلف لگیں اور وہ مولانا کی بے جا تنقیدیں کرنے لگے۔ افسوس کا مقام ہے کہ جب علماے کرام کے طبقہ خواص نے ایسا کیا تو عوام نے بھی ان کی تقلید شروع کردی۔ جس کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ مولانا کی علمی و تخلیقی باتوں سے امت کا ایک بڑا طبقہ استفادہ کرنے سے محروم رہ گیا۔
علم و تحقیق کے تعلق سے یہاں پر مجھے عالم اسلام کے معروف محقق و عالم دین جاوید احمد غامدی کی ایک بات یاد آرہی ہے، جس کو میں ان ہی کے الفاظ میں یہاں نقل کرنا چاہوں گا۔ جاوید احمد غامدی نے لکھا ہے:
’ اس معاشرے میں ہر چیز گوارا کی جاتی ہے، لیکن علم و تحقیق کا وجود کسی حال میں گوارا نہیں کیا جاتا۔ لوگ بے معنیٰ باتوں پر داد دیتے، خرافات پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرتے، جہالت کے گلے میں ہار ڈالتے اور حماقت کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں، مگر کسی علمی دریافت اور تحقیقی کارنامے کے لیے، بالخصوص اگر وہ دین سے متعلق ہو تو ان کے پاس اینٹ پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہاں سب سے بڑا مرض عامیانہ تقلید کا مرض ہے۔ ہر وہ چیز جسے لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے، جو پہلے سے چلی آرہی ہے، جس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں، جو اُن کی شناخت بن گئی ہے، جو اُن کے لیے ایک روایت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ اگرچہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو اور اُس نے حقیقت کا چہرہ کتنا ہی مسخ کیوں نہ کردیا ہو، اور وہ اللہ کے کسی صریح حکم اور اس کے رسول کی کسی واضح سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، لوگ اس پر تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُنھیں اس بات سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں کیا دلیل پیش کی ہے۔ اُن کی ساری تگ و دو کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی اس روایت کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ چنانچہ وہ تنقید کرنے والے کے دلائل سے گریز کرکے، اس کے کلام میں تحریف کرکے، اس کے مدعا کو تبدیل کرکے، اس کی شخصیت کو مجروح کرکے، اس کا مذاق اُڑا کر، غرض یہ کہ ہر طریقے سے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ (حیاتِ غامدی، شاہ عمران حسن، صفحہ: 113-114)
شاید یہی سبب ہے کہ صبر و اعراض کی پالیسی، شاہ بانو کیس اور بابری مسجد وغیرہ کے متعلق مولانا کی متعدد تقریروں اور تحریروں میں پوشیدہ حکمت و دانائی کے عناصر کو سمجھنے میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد ناکام رہی۔
مولانا کی ایک خاص اور اہم بات یہ رہی کہ اُنھوں نے تقلیدی و روایتی انداز و اسلوب سے ہٹ کر اپنی بات کہنے کی کوشش کی اور اس میں وہ بڑی حدتک کامیاب بھی رہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یعنی سیرت رسول کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ مولانا نے ایک نئے انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دریافت کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے چیزوں کو اسی انداز میں دیکھا جیسا کہ وہ فی الواقع (as it is) ہیں، اس لیے ایک قاری جب مولانا کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے تو بے اختیار وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ اس پہلو سے تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا، مجھے اس پہلو پر بھی غورکرنا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ، مولانا نے جہاں قرآن کی منفرد و تذکیری تفسیر لکھی تو وہیں انھوں نے سیرتِ رسول کا بھی منفرد انداز میں مطالعہ کیا ہے۔ ان کی کتابوں، مثلاً پیغمبرِانقلاب، مطالعہ سیرت اور سیرتِ رسول میں اس کی نمایاں مثال دیکھنے کو ملتی ہے۔
اختتام
الحمدللہ، الرسالہ کی تعلیم اور مولانا کی براہِ راست تربیت سے مجھے اپنی ذہن سازی میں وہ اطمینان کی کیفیت محسوس ہوتی ہے جو الرسالہ اپنے ایک قاری میں دیکھنا چاہتا ہے۔
مولانا وحید الدین خاں کے ذریعہ مختلف زاویوں سے فراہم کی گئی رہ نمائی کا نچوڑ یہی ہے کہ ملک و معاشرہ کے تناظر میں، آج کا مسلمان عمومی طور پر قرآنی اطوار سے محروم ہوگیا ہے۔ اس لیے انھیں قرآن سے رشتہ استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی زندگی میں قرآنی حسن سلوک کو اپناتے ہی مسلمانوں کو، ان شاءاللہ، ان کا کھویا ہوا مقام واپس مل جائے گا۔ قرآن میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی قریبی دوست (سورہ حٰم السجدہ:34)۔
***
{ یہ مضمون – "مولانا وحید الدین خاں: اہلِ قلم کی تحریروں کے آئینے میں" نام کی کتاب (صفحہ 85 تا 114) میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ (کتاب مرتبہ – شاہ عمران حسن، اشاعت – 2022ء، ناشر – رہبر بک سروس، نئی دہلی}
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :مسلمانوں کے مسائل کا حل: یک طرفہ خیر خواہی اور حُسنِ سلوک

شیئر کیجیے