نذیر جوہر کا رومانی ناول ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“

نذیر جوہر کا رومانی ناول ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“

محمد یاسین گنائی
پلواما، کشمیر، ہند
رابطہ: 7006108572

وادی کشمیر کے چند خوب صورت علاقوں میں ایک وادی لولاب کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ میرا تعلق جنوبی کشمیر ضلع پلواما، سے ہے اور لولاب شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کا ایک بڑا علاقہ ہے۔ اتفاق کہیں یا پھر قسمت مجھے وادی لولاب کے پتو شے گاﺅں جہاں جواہر نوودیا ودیالیہ قائم ہے، 2011 سے 2014 تک کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس مناسبت سے کپواڑہ کے درجنوں طالب علم جانے پہچانے ہیں اور اُن میں اکثر ذہین ہی ہوتے تھے۔ اگر اُن طالب علموں کا نام لینا شروع کروں تو درجنوں ڈاکٹر، انجینئر، سیاست دان اور دیگر ملازمت پیشہ طلاب یاد آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے اور اچھی ملازمت سے نوازے۔ بہرحال وادی لولاب جو زانگلی آرمی کیمپ سے شروع ہوکر ٹھیک سوگام تک پھیلی ہوئی ہے۔ سڑک کے دائیں طرف ایک نالہ پلسر کے نام سے بہتا ہے اور دونوں اطراف میں اونچے اونچے پہاڑ ہیں اور یہی چیز وادی لولاب کو خوب صورت بناتی ہے۔ اس وادی لولاب کا ذکر علامہ اقبال نے یوں کیا ہے:
پانی تیرے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مُرغانِ سحر تیری فضاﺅں میں ہیں بیتاب
اے وادی لولاب!
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب
علامہ اقبال کی اس طویل نظم میں لولاب کے حوالے سے دو چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلا لولاب کے تڑپتے چشموں کا، حالانکہ لولاب میں جتنا پانی کا کال نظر آتا ہے، اتنا کسی دوسرے علاقے میں نہیں ہے اور جون میں ندی نالے خخشک ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ایسا میری نظروں میں رہنے والے نالے پلسر کا ہی ہو۔ دوم چیز مولانا انور شاہ کاشمیری کی طرف اشارہ ہے، ان کی عظمت و ذہانت کی دلیل کتابوں میں سمیٹے نہیں سمٹ سکتی ہے۔میرا موضوع نہ لالوب کے چشمے ہیں اور نہ مولانا انور شاہ کاشمیری بلکہ میں سوگام سے تعلق رکھنے والے ناول نگار جناب نذیر جوہر کے ناول ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“ کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ جوہر صاحب سے صرف ایک بار بات ہوئی تھی اور ابھی تعارف ہی چل رہا تھا کہ وہ اللہ تعالی ٰ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندکرے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔
نذیر جوہر کی پیدائش 9/ مارچ 1957 کو کپواڑہ میں ہوئی ہے۔ ان کا تعلق وادی لولاب (ضلع کپواڑہ) کے سوگام علاقہ سے تھا۔ ان کا انتقال: 5/ مئی 2022 میں دہلی کے ہسپتال میں ہوا تھا۔ وہ محکمہ عوامی تقسیم کاری میں ملازم تھے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے تھے۔ ان کے دو ناول: (1) یہ نہ تھی ہماری قسمت (1995) (2) مہرباں کیسے کیسے (1998) منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف میں افسانوی مجموعہ ”اور بھی غم ہے، سرگزشت ”باتیں ہیں باتوں کا کیا“ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ نذیر جوہر اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائیں، دو ناولوں کے مصنف ہیں لیکن اب تک پانچ چھ تحقیقی مقالات جموں و کشمیر میں ناول کے حوالے سے لکھے گئے ہیں لیکن اُن میں کسی بھی ریسرچ اسکالر نے ان کا نام نہیں لیا ہے۔ سب کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا معیار لیکن ان کا پہلا ناول”یہ نہ تھی ہماری قسمت“ 1995 میں شائع ہوا ہے، اور یہ بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ بیس ابواب مختصر ہیں، زیادہ سے زیادہ چھے صفحات کا باب ملے گا لیکن تمام ابواب ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ ناول منظر نگاری، حقیقت نگاری اورمکالمہ نگاری کے لحاظ سے عمدہ اور قابل مطالعہ ہے۔ اس میں جگہ جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں اور فلمی انداز اپنایا گیا ہے۔ ایسا فلموں میں ہی ہوتا ہے کہ عین موقع پر ڈاکو کی انٹری ہوتی ہے اور کسی لڑکی کی عصمت بچانے والے کو ہی ہماری پولیس گناہ گار ثابت کردیتی ہے۔
یہ ایک کرداری ناول ہے اور اس کا ہیرو ”مدن“ محنتی، دیانت دار اور ہمت و حوصلے والا لڑکا ہے۔  اس کا دوست سورج، بہن سنگیتا، ماں جی (سجاتا دیوی) اور معشوقہ برکھا بھی اپنا کردار بہ خوبی نبھاتے ہیں۔ چند ضمنی کرداروں میں جگدیش چودھری، تھانے دار جے چند، ہوٹل مالک شیام بابو، ڈاکٹر سنہا، مونکا اگروال، پولیس کمشنر ارون ساٹھے، سلمیٰ (برکھا کی سہیلی) ڈاکو سلطان سنگھ، ونود (جس سے برکھا کی شادی ہونے والی تھی) اور چند نوکر چاکر شامل ہیں۔ نسائی کرداروں میں برکھا، سلمیٰ، سنگیتا اور ماں جی اپنا بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔ سلمیٰ ایک فوٹو گرافر کا کام انجام دیتی ہے، جب کہ سنگیتا ایک بہن کا کردار بہ خوبی نبھاتی ہے۔ ماں جی ایک بزنس وومن اور ایک ہمدرد ماں کا کردار بہ خوبی انجام دیتی ہے اور اسی طرح برکھا ایک بڑے گھر کی بیٹی ہونے کے ناتے امیرانہ شوخی و آداب اور مدن کے ساتھ عشقیہ لمحات امیرانہ طریقہ سے ہی نبھاتی ہے اور والدین کے سامنے مدن کے خون سے اپنی مانگ بھرتی اور مدن کو سب کے سامنے گلے لگانا امیر گھرانوں میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“ کی اصطلاح غالب کے اس شعر سے لی گئی ہے:
یہ نہ تھی  ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
عنوان پر بات کریں تو مدن کو وہ سب کچھ ملتا ہے، جس کا خواب اُس کی ماں نے دیکھا تھا جیسے شہرت، عزت، دولت اور محبت۔ سجاتا دیوی کا بیٹا بننے کے بعد سارے شہر میں اس کی شہرت ہوتی ہے اور نوکروں اور ماتحت ملازمین کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرنے سے عزت واحترام بھی مل جاتا ہے، سجاتا دیوی کی ساری دولت مدن کی ہوجاتی ہے اور برکھا جیسی امیر اور خوب صورت لڑکی کی محبت بھی مل ہی جاتی ہے، تو مصنف نے ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“ عنوان شاید سکون کے حوالے سے رکھا ہوگا جو مدن کو مکمل طور نہیں مل پاتا ہے۔ جوں ہی خوشی نظر آتی ہے تو اگلے پل کوئی نہ کوئی دکھ دروازے پر کھڑا رہتا ہے۔ ناول کا آغاز درد ناک اور دل خراش حادثے سے ہوتا ہے، جب مدن اپنی والدہ کی چِتا پر روتا ہے اور خیالوں میں والدہ کی باتیں اور وعدے یاد آتے ہیں۔ یہاں مصنف نے کمال کی منظر نگاری پیش کی ہے:
”چِتا نے آگ پکڑ لی تھی۔ آگ کی بل کھاتی ہوئی لپٹیں ہوا کی بلندیوں کو چھونے لگی تھیں۔ دُھویں کے مرغولے آسمان کی اُونچائیوں میں جمے بادلوں کے حصار میں جذب ہورہے تھے۔ اور آگ کے تیز شعلے موت کے سامنے انسان کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ چتا کی ایک جانب گاﺅں کے لوگ مایوس اور غم زدہ نگاہوں سے چتا کو جلتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ان لوگوں میں مدن بھی تھا جو بے بسی کے عالم میں اپنی ماں کی چتا کو جلتا ہوا دیکھ رہا تھا“۔ (یہ نہ تھی ہماری قسمت، ص:7)
ناول کا پلاٹ گٹھا ہوا نظر آتا ہے اور بیس ابواب گویا چھوٹی چھوٹی کڑیاں جن کو مصنف نے فن کارانہ انداز میں ایک دوسرے سے جوڑا ہے۔ ناول کا پلاٹ کچھ یوں ہے کہ گاﺅں کا ایک غریب بچہ”مدن“ یتیم ہونے کے باوجود والدہ کے حوصلہ کے سبب تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن غریبی اور والدہ کی بیماری کے سبب اعلا تعلیم حاصل کرنے شہر نہیں جا سکا۔ چودھری جگدیش کو گاﺅں کی لڑکی بیلا کے ساتھ زبردستی کرتے ہوئے دیکھ کر، مدن کا خون کھولتا ہے اور وہ جگدیش کو پیٹتا ہے لیکن پولیس جگدیش کے بجائے مدن کو ہی ملزم قرار دیتی ہے اور رات پھر زبردست تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔یہاں مصنف نے گاﺅں میں جاگیردانہ نظام کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا ہے۔ جاگیردار صرف زمین کے مالک نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ گاﺅں کی عصمتیں بھی ان کی غلام ہوا کرتی تھیں اور پولیس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف نے اس نظام کو سماج پر ایک سیاہ دبہ قرار دیا ہے۔
مدن اپنے جگری دوست سورج کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شہر چلا جاتا ہے لیکن شہر کی سڑکوں اور دفاتر کی خاک چھانتے چھانتے نوکری محال نظر آتی ہے۔ ہوٹل مالک شیام بابو کی انسان دوستی بھی قابل ذکر ہے، وہ مدن کو روز نوکری کی تلاش میں جاتے اور شام کو ناکام واپس آتے دیکھتا تھا، تو ایک باپ اور بزرگ کی حیثیت سے حوصلہ دیتا تھا۔ کیونکہ حوصلہ وہ چیز ہے جو انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور وقت پر حوصلہ دینا لازمی ہے۔ ان دونوں کے درمیان مصنف نے مکالمہ نگاری کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ تھکے ہارے مدن سے شیام بابو یوں مخاطب ہوتا ہے:
”ارے مدن بابو۔ ابھی ابھی آئے کیا؟
جی ہاں، شیام بابو زور کی پیاس لگی ہے۔
ابے او گنگوا۔ ابے او گنگوا۔ ذرا مدن بابو کے لیے ایک گلاس پانی تو لے آ۔
مدن بابو۔ کیسا رہا۔ نوکری جم گئی کیا؟
شیام بابو۔ نوکری ریگستان کا سراب ہوگئی ہے۔ یہ قسمت والوں کو ہی مل جاتی ہے“۔ (یہ نہ تھی ہماری قسمت، ص: 51)
عصرحاضر میں بھی نہ صرف کشمیر اور ہندستان بلکہ تمام ممالک میں بے روزگاری کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں بھی مدن جیسے محنتی اور ذہین لوگ موجود ہیں لیکن نوکری صرف امیروں کو ہی ملتی ہے۔ مدن ایک روز ٹیلی ویژن پر کسی مریضہ کو O Negative خون کی اشد ضرورت کے حوالے سے ایڈ دیکھتا ہے، تو اس کے اندر کا نیک دل انسان اس کو صدر اسپتال پہنچا دیتا ہے، وہاں سجاتا دیوی کی بیٹی سنگیتا کار کے حادثے میں شدید زخمی ہوئی تھی۔ وہ مدن کے خون دینے سے بچ جاتی ہے۔ سجاتا دیوی شہر کی مشہور بزنس وومن ہوتی ہے اور وہ سجاتا ٹیکسٹائیلز کی مالکن ہوتی ہے۔ مدن کو خون کے بدلے نہ صرف اس کمپنی کا جنرل منیجر بنایا جاتا ہے بلکہ وہ اس کو اپنا بیٹا بھی بناتی ہے۔ گویا مصنف یہی کہنا چاہتا ہے کہ انسان کو ہر پل مدد کرنے کو تیار رہنا چاہیے اور دوسروں کی مدد کرنے سے، کوئی دوسرا آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ یہ دنیا انسانیت کے رشتے پر قائم ہے اور اس انسانیت کو بنائے رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ مدن اب شہر کا نامی گرامی بزنس مین کہلاتا ہے اور ایک دن بلرام پور سے واپس لوٹتے وقت تیز بارش اور ہواﺅں کے سبب وہ پولیس کمشنر ارون ساٹھے کے گھر پہنچتا ہے جہاں ان کی ملاقات برکھا ساٹھے اور ان کی سہیلی سلمیٰ سے ہوتی ہے۔ مدن کو برکھا سے عشق ہوتا ہے۔ مصنف کو خاکہ نگاری کا فن بھی آتا ہے اور انھوں نے مدن کی زبانی برکھا کے حسن وجمال کا خاکہ یوں کھینچا ہے:
”گوری صورت، موٹی موٹی آنکھیں، برف کی طرح چمکتے ہوئے موتیوں جیسے دانت، گلابی ہونٹ، قوس قزح کی طرح پھیلے ہوئے گیسو، لمبی پلکیں اور بکھرے ہوئے اخروٹی رنگ کے لمبے گھنے بال۔ ایسا لگتا تھا جیسے چاند نکھر کر آیا ہو“۔ (یہ نہ تھی ہماری قسمت،ص:34)
منظر نگاری، مکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول میں خطوط نگاری بھی ملتی ہے اور ایسا مدن اور سورج کے درمیان خط و کتابت سے واضح ہوجاتا ہے۔ دونوں کے خطوط میں ادبیت نظر آتی ہے اور ایسا کمال مصنف کے زورقلم کا ہی نتیجہ ہے۔ مدن کے خط کے جواب میں سورج نے اپنا خط ہوں لکھا تھا:
”امید ہے کہ آپ کی طبیعت شہر کے مناظر میں بہاروں کی مانند نکھار لیے ہوگی، میں اور میرے گھر کے سبھی افراد بخیروعافیت ہیں۔
میں نے ایل ایل بی کے امتحانات پہلے درجے میں پاس کیے ہیں اور بہت جلد میں وکالت شروع کررہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امیروں کے ستائے ہوئے یہاں کے غریب لوگوں کی وکالت کرکے اُن کی مدد کرسکوں۔۔۔ اپنی ماں جی اور بہن کو میری نمستے کہہ دینا۔ (ص:38)
مدن میں ایک ہیرو کی تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں  اور کبھی کبھی اس میں داستانوی ہیرو کے غیبی کمال نظر آتے ہیں۔ برکھا کے جنم دن کے موقع پر بہترین آواز میں غزل گانا ہو یا پھر جلتی ہوئی کوٹھی سے ماں جی کو بچانا۔ ماں جی کو بچاتے بچاتے مدن کا چہرہ جل جاتا ہے اور وہ بدصورت ہوجاتا ہے۔ نہ صرف خود مدن کو اپنے آپ سے نفرت ہوتی ہے بلکہ برکھا، سنگیتا، ماں جی اور ڈاکٹر سنہا کو بھی افسوس ہوتا ہے۔ باب گیارہ اور باب تیرہ میں جذبات و احساسات کے لاجواب نمونے ملتے ہیں اور قاری ان ابواب کو پڑھتے وقت ضرور روئے گا۔ مدن کو جینے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہے تو ڈاکٹر سنہا اس کو ایک آس دیتا ہے کہ اُس کو ماں جی اور سنگیتا کے لیے جینا ہوگا۔ ڈاکٹر سنہا کی مدد سے ہی مدن کی پلاسٹک سرجری جرمنی میں ہوتی ہے اور وہ پہلے جیسا خوب صورت دکھنے لگتا ہے۔
مصنف نے ناول میں سچی محبت کے کرشمے بھی بیان کیے ہیں، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب مدن اپنی بدصورتی کے سبب برکھا کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے اور برکھا بھی ونود سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے۔لیکن عین شادی کے موقع پر ڈاکو سلطان سنگھ نمودار ہوتا ہے اور برکھا پر گولی چلاتا ہے لیکن فلمی دنیا کے ہیرو کی طرح مدن جان پر کھیل کر برکھا کو بچاتا ہے اور خود زخمی ہوتا ہے۔ مدن جب برکھا سے زخمی حالت میں کہتا ہے:
”ارے تمھارے لیے میری جان بھی چلی جائے تو مجھے اس کا کوئی غم نہ ہوتا“۔
مدن کی بہادری اور سچی محبت دیکھ کر برکھا سب کے سامنے مدن کے خون سے اپنی مانگ بھردیتی ہے اور یہ علان کرتی ہے:
”میری شادی ہوچکی مدن۔۔۔ہاں میری شادی ہوچکی۔ میں بھگوان کی قسم کھاتی ہوں اور سارے لوگوں کے سامنے تمھیں اپنا پتی سویکار کرتی ہوں“۔
یوں ناول میں کوئی نیا پن نہیں ہے اور ایسی کہانی درجنوں ہندی فلموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن مصنف کا کمال ہے کہ شہر اور گاﺅں کی زندگی کا بہترین موازنہ کیا ہے، مصنف کا کمال یہ بھی ہے کہ گاﺅں کے ظالم جاگیرداروں کے مظالم بھی بیان کیے ہیں اور شہر میں بسنے والی ہمدرد سجاتا دیوی کی انسان دوستی بھی بیان کی ہے۔ مدن کی ذہانت، قابلیت اور دیانت داری کے ساتھ ساتھ ان کی ہمدردی اور انسان دوستی کی مثالیں بھی پیش کی گئیں ہے، جیسے اپنے ماتحت ملازمت اور نوکروں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا اور مصیبت کے وقت ان کی مالی مدد کرنا۔ ناول میں خود کلامی کے بھی اچھے نمونے ملتے ہیں اور منظر نگاری بھی کمال کی ملتی ہے۔ شاداب گھاٹی کا منظر بہترین انداز میں پیش کیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے شاداب گھاٹی ہماری جھیل ڈل اور جھیل وُلر جیسی ہی شاداب ہیں۔ یہ ایک کرداری ناول ہے اور تمام کردار اور پوری کہانی مدن کے اردگرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے اور موضوع کے لحاظ سے معاشرتی ناول بھی ہے اور رومانی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
یہ ناول 98 صفحات پر مشتمل ہے اوراس کی قیمت 100 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کے ابواب کی تعداد 20، اس ناول کو سیمانت پرکاشن، دریا گنج، نئی دہلی نے 1995 میں شائع کیا ہے۔ جہاں تک سرورق کی بات ہے تو اس پر ایک عورت کی تصویر ہے۔ اگرچہ ناول میں تین چار نسوانی کردار نظر آتے ہیں لیکن ناول کے عنوان سے کسی بھی نسوانی کردار کی زندگی میل نہیں کھاتی ہے بلکہ عنوان کے لحاظ سے اس میں مدن کی کہانی بیان ہوئی ہے۔ تو ایسا کہا جاسکتا ہے کہ ناول کا سرورق اور عنوان آپس میں میل نہیں کھاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک عمدہ ناول ہے اور عشقیہ موضوع کے ساتھ ساتھ رشتوں کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے۔
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :کوشل خاتون: تلخ حقیقت یاخیالی پلاﺅ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے