نام رسالہ: سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ (شمارہ مارچ تا مئی 2023)

نام رسالہ: سہ ماہی ادبی نشیمن لکھنؤ (شمارہ مارچ تا مئی 2023)

ایڈیٹر :ڈاکٹر سلیم احمد (موبائل: 9415693119)
صفحات : 64
قیمت : 25 روپے فی شمارہ (دو سال کے لیے تین سو روپے)
مبصر : ابوالفیض اعظمی (موبائل: 9540879535)

سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ (مارچ تا مئی 2023) موصول ہوا۔ مضامین کے حسن انتخاب کو دیکھ کر یہ امنگ پیدا ہوئی کہ اسے ضرور پڑھا جائے۔ یوں تو ادبی نشیمن کا ہر شمارہ اپنے آپ میں ایک مثال ہوتا ہے اور یہ شمارہ بھی اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ایک جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ اس شمارے کا آغاز بھی حمد و نعت سے ہوا اور اختتام قارئین کے احساسات پر۔ ڈاکٹر سلیم صاحب کے پر مغز اداریے کے بعد مضامین کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ڈاکٹر شہزاد انجم برہانی صاحب کا مضمون "برہان پور کے پانچ شاعر: امکانات اور مسائل"، ڈاکٹر نارائن پاٹیدار صاحب کا مضمون ”جیلانی بانو: بحیثیت افسانہ نگار"، ڈاکٹر درخشاں تاجور صاحبہ کا مضمون ”گورکھ پور میں پہلی جنگ آزادی کے نقوش"، ڈاکٹر نزہت زہرا صاحبہ کا مضمون ”مزاحیہ شاعری کا باوقار شاعر – ساغر خیامی"، شبیر احمد ملک صاحب کا مضمون ”خاکہ نگاری شخصیت کے آئینے میں" وغیرہ کافی اہم ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد انجم برہانی صاحب نے اپنے مضمون "برہان پور کے پانچ شاعر: امکانات اور مسائل" میں برہان پور کی علمی و ادبی فضا اور وہاں کے لوگوں کی علم دوستی کا نقشہ کھینچنے کے بعد شاعروں کے احوال اور ان کےکلام کے کچھ نمایاں اشعار پیش کیے ہیںاور اخیر میں لکھا ہے کہ ”سرزمین برہان پور کے ان پانچ شاعروں پر تاثراتی اور تنقیدی انداز میں جو گفتگو کی گئی ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی خاک سے نموپذیری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہر زمانے کی طرح موجودہ عہد میں بھی برہان پور میں خاطر خواہ رہ نمائی کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو معاصر ادبی رجحانات اور ترجیحات کی بابت نئے کہنے والے کو متعارف کراسکے، وگرنہ ایسے ذہن ہر دور میں برہان پور کی مٹی سے پیدا ہوتے رہے ہیں جو صحیح رہ نمائی اور قدر و منزلت سے محروم ہوجانے کی صورت میں قصہ پارینہ بن گئے۔ جب تک آپ اپنے خول سے باہر آکر اور سستی شہرت اور مقبولیت سے احتراز کرنے کے ساتھ ہی پورے ادبی منظر نامے سے واقف نہیں ہوتے تب تک کسی بڑے فکری اور لائق تقلید کارنامے کی توقع بے سود رہے گی۔" (ص 8)
ڈاکٹر نارائن پاٹیدار صاحب اپنے مضمون ”جیلانی بانو: بحیثیت افسانہ نگار" میں جیلانی بانو کے احوال و کوائف، ان کے ناولوں کا اجمالی جائزہ لینے کے بعد، کچھ مشہور افسانوں کا تعارف اور چند اقتباسات پیش کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں: "غرض یہ کہ اردو کے افسانوی ادب میں جیلانی بانو کو منفرد و ممتاز مقام حاصل ہے۔ وہ ایک تجربہ کار افسانہ نگار ہیں. ان کا ادبی سفر سات دہائیوں کو محیط ہے۔ موضوع کے اعتبار سے ان کے یہاں بڑی وسعت ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں ہمارے معاشرے میں ہونے والے جبر اور طبقاتی کشمکش کے ساتھ سیاسی و سماجی حالات کو بڑی باریکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے افسانے نہ صرف ہمارے معاشرے کی بدلتی ہوئی تصاویر کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں بلکہ ان میں ہندستان کی سماجی و سیاسی زندگی سے وابستہ ایسے مسائل موجود ہیں جن کا حل سماجی فلاح و بہبود کے لیے از حد ضروری ہے۔" (ص 14)
ڈاکٹر درخشاں تاجور صاحبہ نے اپنے مضمون ”گورکھ پور میں پہلی جنگ آزادی کے نقوش" میں آزادی کے سلسلے میں ہونے والی کوششوں کو سراہا ہے۔ ساتھ ہی محمد حسن، سرفراز علی، آغا ابراہیم بیگ، عنایت علی، بندھو سنگھ اور سردار علی کی قربانیوں کا ذکرکیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتی ہیں:
”وطن کی آبرو کے تحفظ کے لیے اپنی جان و مال قربان کرنے والوں کی یادگاروں کے تحفظ کے لیے ہم نے کیا قدم اٹھائے ہیں اس پرگفتگو تو ہوتی ہے اور دعوے بھی کیے جاتے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ صفر ہی ہوتا ہے۔ کم از کم ہم اپنی نسلوں کو شہیدان وطن کے ناموں سے آگاہ تو کرسکتے ہیں اور ہمیں ایسا کرنا بھی چاہیے کیوں کہ یہ ہماری تاریخ کے وہ زریں اوراق ہیں جنھیں آب زر سے لکھا جانا چاہیے تھا لیکن افسوس ہےایسا نہیں ہوا اور ہم نے اپنے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یکسر بھلادیا۔" (ص 17)
ڈاکٹر نزہت زہرا صاحبہ نے اپنے مضمون ”مزاحیہ شاعری کا باوقار شاعر – ساغر خیامی" میں ساغر خیامی کی مزاحیہ شاعری کا تعارف پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ان کی مشہور نظم کرکٹ میچ کے بارے میں لکھتی ہیں ”کرکٹ میچ" میں شاعر کا انداز بیان رومانی ہے اور منظر کشی کا فن اپنے عروج پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دوشیزہ کے ہاتھ میں جب لال گیند آتا ہے تووہ گیند بلے باز کو گلاب کا پھول نظر آتاہے اور اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ گویا وہ حسینہ گیند بازی نہیں بلکہ اسے شراب پلارہی ہے۔ اس تصور کو انھوں نے بہت خوب صورت انداز میں مترنم الفاظ کے ساتھ شعر ی پیکر میں ڈھالا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
وہ لال گیند پھول ہو جیسے گلاب کا
جس طرح دست ناز میں ساغر شراب کا
سایہ ہوا میں ناچتا تھا آفتاب کا
بمپر میں سارا زور تھا حسن و شباب کا
ایسے بھی اپنے عشق کا میداں بناتے تھے
امپائر ہر اپیل پر انگلی اٹھاتے تھے
ڈاکٹر صاحبہ ان کی مزاحیہ نظموں اور غزلوں کا تعارف کرانے کے بعد لکھتی ہیں: ”ساغر خیامی کی ظریفانہ شاعری کی ان ہی خصوصیات کی بنا پر ناقدین ادب نے انھیں بڑے طنز و مزاح نگاروں میں شمار کیا ہے اور انھیں دلاور فگار کے بعد ظریفانہ شاعری کا ایک نمایاں اور ممتاز شاعر قرار دیا۔" (ص 21)
رسالے میں مضامین کے علاوہ غزلیں اور نظمیں بھی ہیں، جن میں ”عامر قدوائی، مرغوب اثر فاطمی، شعیب ندیم گورکھ پوری، ظفر صدیقی وغیرہ کی غزلیں قابل ذکر ہیں۔ نظموں میں یاسین حسین زیدی نکہت کی نظم "عورت" اور مشتاق صدف کی نظم ”ماں" قابل ذکر ہیں۔ رسالے میں کچھ خاص افسانے بھی شامل ہیں جن میں نصیر رمضان کا افسانہ ”شہر تمنا کی آرزو" اور شاہد حبیب کا افسانہ ”یور آنر" قابل ذکر ہیں۔ یورآنر میں شاہد حبیب صاحب نے سماج میں پھیلتی انارکی اور عدالت سے اٹھتے انصاف کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نئی کتابوں پر تبصرے بھی شامل ہیں جس سے رسالے کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ سلمان عبدالصمد کی کتاب "متن کے آس پاس" پر پروفیسر غضنفر کا تبصرہ اور تنویر اختر رومانی کے افسانوی مجموعے "کھول دو" پر مدیر رسالہ ڈاکٹر سلیم احمد کا تبصرہ خوب ہے۔
مجموعی طور سے رسالہ دل چسپ ہے اور علم و آگہی میں اضافے کا باعث ہے۔ ہر اردو داں صاحب علم کو اس رسالے سے مستفید ہونے کی سفارش کی جا سکتی ہے۔
رسالے کے مدیر نے اگلے شمارے کو رباعی نمبر کے طور پر نکالنے کا اعلان کیا ہے، یہ خوش آئند ہے۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے