سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ

سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ

نام رسالہ: سہ ماہی ادبی نشیمن ، لکھنؤ (شمارہ جون تا اگست 2022)
ایڈیٹر: ڈاکٹر سلیم احمد
صفحات: 68
قیمت: 25 روپے (300 روپے دو سال کے لیے)
ملنے کا پتہ: دانش محل، امین آباد لکھنؤ
موبائل: 9415693119
تعارف تبصرہ : شاہد حبیب
( مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، لکھنؤ کیمپس، موبائل: 8539054888)

سہ ماہی ادبی نشیمن، لکھنؤ کے جون، جولائی، اگست ماہ کا شمارہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ قارئین نے اس شمارے کا بھی خاطرخواہ استقبال کیا ہے۔ یہ خبر ادبی نشیمن پریوار کے لیے باعث مسرت و اطمینان ہے۔ اس شمارے میں سابقہ سبھی کالمز کے ساتھ ساتھ کئی جدید کالمز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ رسالہ پریس میں جانے کے لیے تیار تھا تبھی افسوسناک خبر ملی کہ اردو دنیا کے مایہ ناز محقق، دانشور اور زیرک نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اس نیر تاباں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ادبی نشیمن نے اپنے پسندیدہ کالم ”دستاویز “ کو پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نام معنون کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس کے لیے قرعۂ فال ندیم صدیقی صاحب کے مضمون کا نکلا۔ اس مضمون نے سوشل میڈیا میں قابل رشک حد تک مقبولیت حاصل کی تھی۔ ادبی نشیمن نے ندیم صدیقی صاحب کے شکریے کے ساتھ اس مضمون کو شامل اشاعت کیا ہے۔ اور پروفیسر نارنگ کے قدردانوں کے بیچ ادبی نشیمن کے اس فیصلے کی پذیرائی کی گئی۔
ڈاکٹر کلیم ضیا کی حمد باری تعالیٰ اور ڈاکٹر رمیشا قمر کی نعت پاک کے ساتھ رسالے کے مشمولات کا آغاز ہوتا ہے۔ مدیر ِرسالہ ڈاکٹر سلیم احمد کے اداریے میں تین اہم موضوعات کو چھونے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلا موضوع ہے انگریزی الفاظ کی جمع بناتے ہوئے اردو قواعد کا لحاظ کیا جانا چاہیے یا انگریزی قواعد کا۔ اس مختلف فیہ مسئلے کے سلسلے میں انھوں نے محققین کے لیے ادبی نشیمن کے صفحات کے وا ہونے کے عندیے کا اظہار کیا ہے۔ دوسرا موضوع ہے، اردو کی ترویج و اشاعت کی ذمہ داری کس کی ہے، عوام کی یا سرکار کی؟ اس حوالے سے انھوں نے جس موقف کو اختیار کیا ہے وہ عام رائے سے مختلف ہے۔ بےباک قارئین ان کے اس رائے کا تجزیہ کرنے میں آزاد ہیں اور ادبی نشیمن کے صفحات اس کے لیے حاضر ہیں۔ اداریہ میں تیسرا اہم موضوع ہے ایوانِ اقتدار میں اردو کی نمائندگی کے مسئلے کا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم احمد نے اترپردیش مجلس قانون ساز کے حالیہ نومنتخب اراکین کے ذریعے اردو میں حلف لینے والوں کی تحسین کی ہے اور اردو میں حلف نہ لینے والے اراکین کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے۔ ادبی نشیمن کے قارئین سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی سطح پر اردو کی نمائندگی کے لیے آواز اٹھائیں۔ کم از کم تمام دستاویزات میں اپنے دستخط اردو میں کرنے کی عادت ڈالیں اور درخواستیں بھی اردو میں ہی داخل کرنے کی کوشش کریں۔
ادبی نشیمن کے اس شمارے میں کل 13 مضامین شامل ہیں۔ سب سے پہلا مضمون ڈاکٹر اختر ریاض (آئی اے ایس) کا ”رباعی اور اس کے اوزان “ کے عنوان سے ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر اختر ریاض نے رباعی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جو مبتدی اور اساتذہ دونوں کے لیے ہی یکساں مفید ثابت ہو گا۔ دوسرا مضمون مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، حیدرآباد کے شعبۂ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر شمس الہدیٰ صاحب کا ”مطالعۂ ولی کا تنقیدی تجزیہ“ کے عنوان سے ہے۔ مطالعۂ ولی، پروفیسر شارب ردولوی کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔ اور اس کتاب کو ابھی بھی مطالعاتِ ولی میں ایک اہم حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔ پروفیسر شمس الہدیٰ نے اس کتاب کے مندرجات پر دادِ تحقیق دی ہے اور پروفسیر شارب ردولوی کے کمالات سے بحث کی ہے۔
تیسرا مضمون ٹانڈہ، امبیڈکر نگر سے تعلق رکھنے والےجناب انس مسرور انصاری کا ”ناصر کاظمی کے شعری افق“ کے عنوان سے ہے۔ ناصر کاظمی کے فکری ابعاد کو روشن کرنے کی انس مسرور انصاری نے عمدہ کوشش کی ہے۔ ادبی دنیا، لکھنؤ کی دو مایہ ناز ہستیوں ”مرزا ہادی رسوا“ اور”عبدالحلیم شرر“ کی رقابتوں سے خوب واقف ہے۔ اس موضوع کے مالہ و ما علیہ پر روشنی ڈالی ہے شیعہ پی جی کالج، لکھنؤ کے شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر ناظم حسین نے اپنے مضمون ”مرزا ہادی رسوا اور عبدالحلیم شرر لکھنوی کی ادبی رقابت“ میں۔ ہمارے بزرگوں کی آپسی رقابتیں بھی کیسے ادب کو فائدہ پہنچا گئیں، اس مضمون کو پڑھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ ظفر اقبال ظفر عصری شعری منظرنامےکا ایک اہم حوالہ ہے اور پروفیسر علیم اللہ حالی تنقیدی منظرنامے کا دل کش استعارہ۔ اور جب بات ایک نقاد کی جانب سے کسی عصری دستخط کو قبولیت عطا کرنے کی ہو تو پروفیسر علیم اللہ حالی کا نام ذہن میں یکایک گونجتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ پروفیسر علیم اللہ حالی نے ”کچھ دیر ظفر اقبال ظفر کے ساتھ“ کے عنوان سے اپنی ایک مختصر تحریر ادبی نشیمن کے حوالے کیا ہے۔ قارئین کو اس تحریر سے اس لیے بھی مستفید ہونا چاہیے کہ کیسے کوئی نقاد تعریف کے پل نہ باندھتے ہوئے بھی کسی فن کار کے اکتسابات کا تعارف کرا لے جاتا ہے، اس سے واقفیت ہو جاتی ہے۔
خان محبوب طرزی، لکھنؤ کے ایک گمنام ناول نگار گزرے ہیں۔ ان کو گمنامی سے نکالنے میں استادِ محترم ڈاکٹر عمیر منظر نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کی داد مشہور نقاد شمس الرحمن فارقی نے کتاب میں شائع اپنے مقدمے میں دل کھول کر دی ہے۔ لکھنؤ کی زبان و ادب کی اشاعت و ترویج کے حوالے سے ایک بڑا نام محترم منظور پروانہ کا ہے، وہ دانش محل، امین آباد لکھنؤ کے مالک ہیں، انھوں نے ڈاکٹر عمیر منظر کے اس نئے کارنامے کا خوب صورت تعارف اس شمارے میں پیش کیا ہے۔ مسعود تنہا پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک معروف محقق ہیں اور سہ ماہی فکرِ نو، سرگودھا کے مدیر ہیں، انھوں نے سعد اللہ اسود کا شعری مجموعہ ”خاموش مسافت“ کا تجزیہ کیا ہے، جو اس شمارے کی زینت ہے۔ اس شمارے میں ان کی ایک غزل اور ایک قطعہ بھی شامل ہے۔ ”چودھری محمد علی ردولوی کے خطوط میں خطوط غالب کی جھلک“ کے عنوان سے خواجہ معین الدین چشتی لسان یونی ورسٹی، لکھنؤ کی اسکالر نادرہ پروین کا مضمون اور اسی یونی ورسٹی کی ایک اور اسکالر عافیہ حمید کا مضمون ”منشا یاد کی افسانہ نگاری: شب خون کے حوالے سے“ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ محمد صالح انصاری کامضمون ”دبستان سیماب کا ایک انقلابی شاعر: الطاف مشہدی“، انصاری شاہین عبدالحکیم کا مضمون ”مستقبل کی آگاہیوں کا چراغ: سرسید احمد خاں“، ڈاکٹر احسان عالم کا مضمون ”نظر نظر منظر: ایک جائزہ“ اور لکھنؤ یونی ورسٹی کے شعبۂ فارسی کی اسکالر زرعونہ خان کا مضمون ”حافظ الملک حافظ رحمت خاں اور ان کے کارنامے“ کے عنوان سے شامل ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے رسالہ ادبی نشیمن کس خوب صورتی کے ساتھ ماہرین اور اسکالرز کی شمولیت میں توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ادبی دنیا میں ہماری شناخت کا ایک حوالہ اس توازن کی نگہداشت بھی ہے۔
پانچ سالہ سفر میں پہلی بار رسالے میں ہم نے انٹرویو کی اشاعت کا تجربہ کیا ہے۔ اس بار اس کالم میں جگہ دی گئی ہے گلبرگہ کے معروف صحافی اور ” گھومتا آئینہ“ کے مدیر محترم چاند اکبر کے ذریعے پروفیسر مقبول احمد مقبول سے کی گئی گفتگو کو۔ پروفیسر مقبول نے اپنی اس گفتگو میں بحث و تحقیق کے کئی تشنہ گوشوں پر کلام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فرحانہ نازنین کا افسانہ ”دیانتداری“ اور سدرہ علی احمد کا افسانہ ”بنجر“ بھی قارئین کی ضیافت طبع کے لیے حاضر ہے۔ اس بار کا شعری حصہ بھی خوب ہے۔ ڈاکٹر آفتاب علی عرشی، ڈاکٹر فریاد آزر، طارق سخا لکھنوی، ساجد عارفی خیرآبادی اور شاہین زیدی (لاہور) کی غزلیں اس شمارے کے وقار میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر حبیب راحت حباب کے دس دوہے” کبیر“ کی یادوں کو تازہ کر رہے ہیں. جس طرح ”کبیر“ حالات پرچوٹیں کسنے کے لیے جانے جاتے رہے ہیں، اسی طرح ڈاکٹر حبیب راحت حباب کے یہ دس دوہے بھی حالات پر صادق آرہے ہیں۔ دھنباد کو ادبی منظرنامے میں ایک بار پھر زندہ کر دینے والا سہ ماہی رسالہ” عالمی فلک“ کے چھٹے شمارے پر سلیم انصاری (جبل پور) کا تبصرہ معاصر ادبی صحافت کا اعترافیہ ہے۔ بیک ٹائٹل پیج پر ادبی نشیمن کے دفتر میں موصول چند اہم کتابوں کی تصویریں کتاب کے مصنفین کو خراجِ تحسین پیش کر رہی ہیں۔ سہولت کے ساتھ ان کتابوں پر تبصرے بھی اگلی اشاعتوں میں شامل ہوں گے ان شاءاللہ۔ ٹائٹل کور کا ڈیزائن ایک ننھی فن کارہ انجیلا نے کیا۔ ادارہ ادبی نشیمن اس ہونہار کے روشن مستقبل کے لیے دعا گو ہے۔ یہ شمارہ آپ کو کیسا لگا، ہمیں ضرور لکھ بھیجیں۔ آپ کی بے باک رائے کا ہمیں انتظار رہے گا۔ شکریہ
***
شاہد حبیب  کی گذشتہ نگارش:

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے